داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 80 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, اگست 14, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 80


 صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔80- گناہوں کا کفارہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
منصورہ کے سامنے اب یہ مسئلہ آگیا کہ اسے باندھے کیسے اور وہاں سے کس طرح لے جائے اگر اسے قتل کرنا ہوتا تو اس کے لیے مشکل نہیں تھا۔ وہ اسے زندہ ایوبی کے پاس لے جانا چاہتی تھی چونکہ وہ خود جاسوسوں کے گروہ کے ساتھ رہ چکی تھی، اس لیے جانتی تھی کہ جاسوسوں کو زندہ پکڑا جاتا ہے۔ اسے یہ خیال آیا کہ ارد گرد کہیں اپنے سپاہی ہوں گے۔ اس نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔ ''کوئی ہے تو پہنچو۔ آئو، آئو، آئو''۔ پھر اس نے کہا۔ ''آہو، ہاآہو''۔ کی آوازیں بلند کیں۔
آذر جو بے حس ہوگیا تھا اچانک اتنی زور سے اچھلا کہ منصورہ جو اس کے پیٹ پر گھٹنے دبا کر بیٹھی ہوئی تھی، لڑھک کر ایک طرف جا پڑی۔ آذر تلوار کی طرف لپکا۔ منصورہ نے بجلی کی تیزی سے اٹھ کر آذر کو پیچھے سے اتنی زور سے دھکا دیا کہ وہ آگے کو گرا۔ منصورہ نے تلوار اٹھا لی۔ آذر دوڑ پڑا۔ اس کے لیے مقابلہ کرنے کے بجائے نکل بھاگنا زیادہ ضروری تھا۔منصورہ شور مچاتی اس کے پیچھے دوڑی۔ اس کے پائوں میں بلا کی تیزی آگئی تھی۔ دور کہیں گشتی سنتری گشت کررہے تھے۔ انہیںمنصورہ کا واویلا سنائی دیا تو دوڑے آئے۔ آگے ندی تھی۔ آذر کو رکنا پڑا، منصورہ پہنچ گئی اور دونوں سنتری بھی پہنچ گئے۔ آذر نے ندی میں چھلانگ لگا دی۔ منصورہ چلائی۔ ''جانے نہ دینا جاسوس ہے۔ زندہ پکڑو''۔
سنتری بھی ندی میں کود گئے اور آذر کو پکڑا گیا۔ اسے باہر لائے لیکن ایک لڑکی کو دیکھ کر وہ غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے۔ وہ سمجھے کہ یہ کوئی اور گڑبڑ ہے۔ ان کے پوچھنے پر منصورہ نے انہیں بتایا کہ وہ کون ہے اور محاذ پر کس طرح پہنچی اور یہ آدمی رضاکار بن کے آیا ہے لیکن مشتبہ ہے۔ اسے سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس لے چلو۔
''سنو میرے دوستو!'' آذر نے سنتریوں سے کہا۔ ''تمہیں یہاں کیا ملتا ہے؟ چند سکوں اور دو وقت کی روٹی کی خاطر مرنے آئے ہو۔ میرے ساتھ چلو، شہزادے بنا دوں گا۔ اس جیسی لڑکیوں کے ساتھ شادی کرائوں گا۔ دولت سے مالا مال کردوں گا''۔
''ہم تمہارے ساتھ چلے چلیں گے''… ایک سنتری نے کہا۔ ''پہلے تم ہمارے ساتھ چلو۔ تم بھی چلو لڑکی… وہاں جاکر دیکھیں گے کہ یہ جاسوس ہے یا تم بھی جاسوس ہو یا دونوں ادھر بدمعاشی کے لیے آئے تھے''۔
٭ ٭ ٭
سلطان ایوبی کے خیمے سے تھوڑی ہی دور حسن بن عبداللہ کا خیمہ تھا۔ سنتری آذر اور منصورہ کو اپنے کمانڈر کے پاس لے گئے۔ کمانڈر انہیں حسن بن عبداللہ کے پاس لے گیا۔ اسے جگایا اور آذر کو اس کے حوالے کردیا۔ منصورہ نے حسن بن عبداللہ کو تمام تر واردات سنائی۔ تعاقب کی تفصیل بھی سنائی۔ حسن بن عبداللہ نے منصورہ کو غور سے دیکھ کر پوچھا۔ ''تمہارا چہرہ میرے لیے اجنبی نہیں، تم شاید موصل سے فرار ہوکر آئی تھیں۔ تمہارے ساتھ موصل کے خطیب ابن المخدوم بھی تھے''۔
''میں ان کی بیٹی ہوں''۔ منصورہ نے کہا۔
''تم نے میری حیرت ختم کردی ہے''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا۔ ''ہماری لڑکیاں تم سے زیادہ دلیر ہوسکتی ہیں لیکن یہ ذہانت کم ہی پائی جاتی ہے جس کا مظاہرہ تم نے کیا ہے''۔
''مجھے محترم والد نے تربیت دی ہے''۔ منصورہ نے کہا۔ ''میرے کانوں میں صرف دو جملے پڑے اور میں سمجھ گئی کہ یہ معاملہ کیا ہے''۔
آذر کی جامہ تلاشی لی گئی۔ اس سے کاغذ برآمد ہوئے۔ ان پر نشان لگے ہوئے تھے جو سلطان ایوبی کی فوج کی پوزیشنیں ظاہر کرتے تھے۔ کاغذوں پر ٹیڑھی ٹیڑھی لکیریں تھیں۔ یہ قرون حماة کا خاکہ تھا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ سلطان ایوبی کا مکمل دفاعی پلان دشمن کے پاس جارہا تھا۔
''آذر بھائی!'' حسن بن عبداللہ نے آذر کو کاغذات دکھاتے ہوئے کہا۔ ''ان کے بعد کسی شک کی گنجائش رہ گئی ہے تو بتا دو پھر میں تمہیں آزاد کردوں گا۔ اگر بے گناہ ہو تو بولو۔ مجھے یقین دلائو… تم مسلمان ہو؟''
''خدائے ذوالجلال کی قسم!''۔
حسن بن عبداللہ نے اس کے منہ پر سیدھا گھونسا اس قدر زور سے مارا کہ آذر کئی قدم پیچھے پیٹھ کے بل گرا۔ حسن نے دھیمی مگر قہر آلود آواز میں کہا۔ ''جاسوسی کافروں کی کرتے ہو اور قسم ہمارے خدا کی کھاتے ہو۔ میں تم سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ تم جاسوس ہو یا نہیں۔ میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ یہاں تمہارے جتنے ساتھی ہیں، ان کے نام بتا دو اور بتائو کہ وہ کہاں کہاں ہیں''۔
 ''میں مسلمان ہوں''… آذر نے التجا کی۔ ''سب کچھ بتا دوں گا، مجھے بخش دو۔ میں اگلی صف میں لڑوں گا''۔
''پہلے میرے سوال کا جواب دو''… حسن بن عبداللہ نے کہا۔ ''اب تم مجھ پر اپنی کوئی شرط نہیں ٹھونس سکتے''۔
وہ ہٹ کا پکا معلوم ہوتا تھا۔ بولا۔ ''میں اکیلا ہوں''۔
''اس لڑکی نے تمہارے خیمے میں جس دوسرے آدمی کی باتیں سنی تھیں وہ کون تھا؟''
''میں نے اسے پہچانا نہیں تھا''… آذر نے جواب دیا۔ ''وہ اندھیرے میں آیا اور اندھیرے میں چلا گیا تھا''۔
حسن بن عبداللہ نے اپنے دو آدمیوں کو بلایا اور کہا… ''اسے لے جائو اور پوچھو کہ اس کے ساتھ کون ہیں اور کہاں ہیں''… اس نے منصورہ سے کہا۔ ''تم جاکر سو جائو۔ فجر کی نماز کے بعد تمہیں بلائیں گے''۔
٭ ٭ ٭
سلطان ایوبی جب فجر کی نماز پڑھ کر آیا تو حسن بن عبداللہ اس کے ساتھ تھا۔ اس نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ خطیب ابن المخدوم کی بیٹی نے رات ایک جاسوس پکڑا ہے۔ اس نے سارا واقعہ سنایا تو سلطان ایوبی نے کہا۔ ''اسلام کی بیٹیوں کا یہی کردار تھا۔ اگر ہم نے اپنے کلمہ گو دشمنوں کو خون سے لکھا ہوا سبق نہ پڑھایا تو وہ قوم کی بیٹیوں کا کردار ختم کردیں گے… وہ جاسوس کہاں ہے؟''
''ابھی آپ اسے نہ دیکھیں''… حسن بن عبداللہ نے کہا۔ ''میں اس کا سینہ خالی کرلوں تو اسے آپ کے پاس لے آئوں گا۔ خوبرو جوان ہے، اپنے آپ کو دمشق کا باشندہ کہتا ہے۔ یہاں رضاکار بن کے آیا تھا''۔
اس وقت آذر ایک درخت کے ٹہن کے ساتھ الٹا لٹکا ہوا تھا۔ اس کا سر زمین پر گز ڈیڑھ گز اوپر تھا نیچے انگارے دہک رہے تھے۔ ایک سپاہی تھوڑی تھوڑی دیر بعد آگ میں کچھ پھینکتا تھا جس کے دھوئیں سے آذر تڑپتا اور کھانستا تھا۔ حسن بن عبداللہ نے اسے نیچے اتروایا۔ اس کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔ سارا خون چہرے پر آگیا تھا۔ وہ کھڑا نہ رہ سکا۔ تھوڑی دیر غشی کی حالت میں زمین پر پڑا رہا۔ اس کے منہ میں پانی ٹپکایا گیا۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو حسن بن عبداللہ نے کہا۔ ''یہ بسم اللہ ہے، نہیں بولو گے تو تمہارا ایک ایک جوڑ الگ کیا جائے گا''۔
اس نے پانی مانگا۔ حسن بن عبداللہ نے کہا۔ ''دودھ پلائوں گا، میرے سوال کا جواب دو''۔ اور اس نے ایک سپاہی سے کہا۔ ''دودھ لے آئو، ایک گھوڑا اور ایک رسہ بھی لے آئو۔ رسہ اس کے پائوں کے ساتھ باندھ کر گھوڑے کے ساتھ باندھ دو''۔
آذر نے دو نام بتا دئیے۔ یہ دونوں رضاکار تھے۔ ان میں رات والا آدمی بھی تھا۔ اس نے دمشق کے اڈے کی بھی نشان دہی کردی۔ حسن بن عبداللہ نے اسی وقت دونوں رضاکاروں کو پکڑنے کا حکم دے دیا اور آذر کو سلطان ایوبی کے پاس لے گیا۔
''کہاں کے رہنے والے ہو؟'' سلطان ایوبی نے پوچھا۔
''دمشق کا''۔
''کس کے بیٹے ہو؟''
آذر نے ایک جاگیر دار کا نام بتایا۔
''میں شاید اسے جانتا ہوں''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ ''وہ دمشق میں ہے؟''
''جب الملک الصالح کی فوج دمشق سے بھاگی تھی تو وہ بھی حلب چلا گیا تھا''۔
''اور تمہیں جاسوسی کے لیے پیچھے چھوڑ گیا تھا''… سلطان ایوبی نے کہا۔
''میں خود ہی دمشق میں رہ گیا تھا''۔ آذر نے کہا۔ ''میرے باپ نے ایک آدمی کے ہاتھ حلب سے پیغام بھیجا تھا کہ میں جاسوسی کروں۔ مجھے پوری ہدایات ملی تھیں''۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر سلطان ایوبی سے التجا کی۔ ''میں مسلمان ہوں، مجھے باپ نے گمراہ کیا تھا۔ مجھے اپنے ساتھ رکھ لیں۔ میں اس گناہ کا کفارہ ادا کروں گا''۔
''اللہ تمہارے گناہ معاف کرے''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ ''میں اللہ کے قانون میں دخل نہیں دے سکتا۔ میں صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کون سا مسلمان مرد ہے جس کے ہاتھ سے ایک عورت نے تلوار گرائی اور اسے پکڑ لیا ہے… تم نے یہاں کیا کیا دیکھا ہے؟''
''میں نے یہاں بہت کچھ دیکھ لیا تھا''… آذر نے کہا۔ ''باقی معلومات میرے ان دو ساتھیوں نے دی تھیں جو یہاں پہلے سے موجود تھے۔ مجھے کہا گیا تھا کہ یہ دیکھوں کہ منجنیقیں اور تیر انداز کہاں ہیں۔ میں نے یہ دیکھ لیے تھے''۔
''تم سے پہلے تمہارا کوئی ساتھی یہ معلومات لے کر یہاں سے گیا ہے؟''… سلطان ایوبی نے پوچھا۔
''نہیں''… آذر نے جواب دیا۔ ''ہم تینوں کے سوا یہاں اور کوئی نہیں''۔
''تمہیں احساس ہے کہ تم کتنے خوبرو اور وجیہہ جوان ہو؟'' سلطان ایوبی نے پوچھا۔ ''اور کیا تم جانتے ہو کہ ایک لڑکی نے تمہیں کس طرح گرا لیا تھا؟''
''اگر وہ پیچھے سے میرے دونوں ٹخنے نہ پکڑ لیتی تو میں نہ گرتا''۔
: ''تم پھر بھی گر پڑتے''… سلطان ایوبی نے کہا۔ ''جن کا ایمان فروخت ہوچکا ہوتا ہے وہ بڑی آسانی سے گرا کرتے ہیں اور وہ تمہاری طرح منہ کے بل گرا کرتے ہیں۔ تم حق والوں اور ایمان والوں کے ساتھ ہوتے تو دس کافر مل کر بھی تمہیں نہ گراسکتے۔ اصل قوت بازو اور تلوار کی نہیں ایمان کی ہوتی ہے''۔
''مجھے ایک موقع دیں''۔ آذر نے کہا۔
''اس کا فیصلہ دمشق کا قاضی کرے گا''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ ''میں تمہارے ساتھ یہ باتیں اس لیے کررہا ہوں کہ تم مسلمان کے بیٹے ہو۔ تمہیں ہمارے ساتھ ہونا چاہیے تھا مگر تم ادھر چلے گئے۔ میں جانتا ہوں دمشق کی دو چار لڑکیاں تمہاری محبت کا دم بھرتی ہوں گی۔ چہرے اور جسم کے لحاظ سے تم اس قابل ہو کہ لڑکیاں تمہیں پسند کریں لیکن اب وہ لڑکیاں تمہارے منہ پر تھوکیں گی۔ خدا نے بھی تم سے نظریں پھیر لی ہیں… میں کچھ کہہ نہیں سکتا کہ دمشق کے محترم قاضی تمہیں کیا سزا دیں گے اگر وہ سزائے موت دیں تو جتنی دیر زندہ رہو اللہ سے گناہوں کی بخشش مانگتے رہنا۔ کم از کم مرنے سے پہلے مسلمان ہوجانا''۔
''میرے باپ کو کون سزا دے گا؟''… آذر نے غصے سے کہا۔ ''اس گناہ کی ترغیب مجھے باپ نے دی تھی۔ اسی نے میرے دل میں دولت کا لالچ ڈالا تھا۔ اسی نے میرے دل سے ایمان نکالا تھا''۔
''اللہ کا قانون اسے نہیں بخشے گا'' سلطان ایوبی نے کہا۔ ''دولت کا نشہ عارضی ہوتا ہے۔ ایمان کی قوت مرکر بھی ختم نہیں ہوتی''۔
''میری ایک عرض سن لیں''۔ آذر نے کہا۔ ''میرا باپ کوئی دولت مند انسان نہیں تھا۔ دولت کا پرستار تھا۔ میری دو بہنیں جوان ہوئیں تو اس نے دونوں کو دو امراء کے حوالے کردیا اور دربار میں جگہ حاصل کرلی۔ اس نے اپنی بیٹیوں کی بہت زیادہ قیمت وصول کی۔ پھر وہ مخبری اور غیبت کرنے لگا۔ مجھے بھی اسی نے اسی کام پر لگا لیا ور میرے دل میں دولت کا لالچ پیدا کردیا۔ نورالدین زنگی کی وفات کے بعد میرے باپ نے اور زیادہ اونچی حیثیت حاصل کرلی۔ وہ اب تجربہ کار سازشی اور جوڑتوڑ کا ماہر ہوگیا تھا۔ اس وقت تک وہ خاصی جاگیر حاصل کرچکا تھا۔ آپ کی فوج آئی تو الملک الصالح اور اس کے درباری امراء اور جاگیردار دمشق سے بھاگ گئے۔ ان میں میرا باپ بھی تھا۔ میں کسی ارادے کے بغیر ہی دمشق میں رہ گیا تھا۔ کچھ دنوں بعد حلب سے ایک آدمی آیا۔ وہ میرے باپ کا یہ پیغام لایا کہ میں جاسوسی کا کام شروع کردوں۔ وہ آدمی مجھے دمشق میں ہی اس اڈے پر لے گیا جس کی میں نے نشاندہی کی ہے۔ وہاں مجھے بہت سی رقم دی گئی اور دو تین دنوں میں بتا دیا گیا کہ مجھے کیا کرنا اور کس طرح کرنا ہے۔ میں اس گروہ میں شامل ہوگیا۔ خوب عیش وعشرت کی۔ ایک روز ہمارے سرغنہ نے ہمیں کہا کہ محاذ پر رضاکار جارہے ہیں، تین چار آدمی ان میں شامل ہوجائو۔ ہم تین آدمی شامل ہوگئے۔ دو پہلے ہی یہاں آگئے تھے پھر مجھے حکم ملا کہ میں بھی یہاں آئوں اور آپ کی فوج کی ساری کیفیت دیکھ کر تمام معلومات مشترکہ کمان تک پہنچائوں۔ میں آگیا۔ میرے ساتھی یہاں کا نقشہ تیار کرچکے تھے۔ انہوں نے یہ بھی معلوم کرلیا تھا کہ آپ اپنے دشمن کی فوج کو اس جگہ لا کر لڑانا چاہتے ہیں جو چٹانوں میں گھری ہوئی ہے۔ میں نے چٹانوں پر چھپے ہوئے آپ کے تیرانداز اور منجنیقیں بھی دیکھ لی تھیں''۔
اس کے آنسو بہنے لگے۔ اس نے کہا۔ ''میں پکڑا گیا ہوں تو محسوس کیا ہے کہ میں گناہ کررہا تھا۔ آپ کی باتوں نے میرے اندر ایمان کی حرارت بیدار کردی ہے اگر میرا باپ اپنی بیٹیوں کو بیچ کر دولت مند نہ بنتا تو میرا ایمان قائم رہتا۔ یہ گناہ میرے باپ کا ہے۔ سلطان! آپ کا اقبال بلند ہو۔ مجھے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کا موقعہ دو''۔
سلطان ایوبی نے حسن بن عبداللہ کو اشارہ کیا تو آذر کو خیمے سے باہر لے گئے۔
٭ ٭ ٭
: اسی روز آذر کو دمشق کو روانہ کردیا گیا۔ اس کے ساتھ دو محافظ تھے۔ تینوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ آذر کے ہاتھ رسی سے بندھے ہوئے تھے۔ سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے وہ آدھ راستہ طے کرچکے تھے۔ رات کے لیے رکنا تھا۔ راستے میں دونوں محافظ اس سے سنتے رہے تھے کہ اس کا جرم کیا ہے۔ آذر نے ان کے ساتھ جذباتی سی باتیں کرکے انہیں متاثر کرلیا تھا۔ شام کے وقت آذر نے انہیں کہا کہ تھوڑی سی دیر کے لیے وہ اس کے ہاتھ کھول دیں۔ محافظوں نے اس خیال سے اس کے ہاتھ کھول دئیے کہ یہ نہتا ہے، بھاگ کر کہاں جائے گا۔ انہوں نے دوسری احتیاط یہ کی کہ اسے گھوڑے سے اتار لیا۔ وہ پیدل تو بھاگ نہیں سکتا تھا۔ وہ بیٹھ گئے اور ان کے پاس کھانے کے لیے جو کچھ تھا کھانے لگے۔
آذر نے موقع دیکھ لیا ور اچانک اٹھ کر بہت ہی تیزی سے دوڑا۔ گھوڑے قریب ہی کھڑے تھے۔ آذر ایک ثانیے میں گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ محافظ پہنچ تو گئے لیکن آذر نے گھوڑے کو ایڑی لگا کر رخ ان کی طرف کردیا۔ وہ دونوں ادھر ادھر ہوگئے اور اپنے گھوڑوں تک بروقت نہ پہنچ سکے۔ جتنی دیر میں وہ گھوڑوں پر سوار ہوئے اتنی دیر میں آذر بہت سا فاصلہ حاصل کرچکا تھا۔ محافظوں نے گھوڑے بھگائے لیکن اب تعاقب بے سود تھا۔ شام گہری ہونے لگی تھی۔ زمین اونچی نیچی تھی۔ کہیں کہیں ٹیلے اور چٹانیں بھی تھیں۔ محافظ دور تک گئے مگر آذر غائب ہوچکاتھا۔
دوسرے دن دونوں محافظ سرجھکائے ہوئے، شکست خوردہ اور بری طرح تھکے ہوئے حسن بن عبداللہ کے پاس پہنچے۔ ایک نے کہا۔ ''ہمیں گرفتار کرلیں۔ قیدی بھاگ گیا ہے''۔ انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ قیدی کے کہنے پر انہوں نے اس کے ہاتھ کھول دئیے تھے۔ حسن بن عبداللہ نے انہیں حراست میں لے لیا لیکن گھبراہٹ سے اس کا پسینہ نکل آیا کیونکہ آذر معمولی قسم کا قیدی نہیں تھا۔ وہ سلطان ایوبی کا سارا پلان اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ فتح وشکست کا دارومدار اس پلان پر تھا۔ حسن بن عبداللہ سلطان ایوبی کو بتانے سے ڈر رہا تھا کہ پکڑا ہوا جاسوس ہاتھ سے نکل گیا ہے اور اپنے سارے منصوبے بیکار ہوگئے ہیں۔ چھپانا بھی ٹھیک نہیں تھا۔
سلطان ایوبی کو جب حسن بن عبداللہ نے بتایا کہ قیدی بھاگ گیا ہے تو سلطان کے چہرے کا رنگ بدل گیا کتنی ہی دیر اس کی زبان سے ایک لفظ نہ نکلا۔ سلطان اٹھ کر خیمے میں ٹہلنے لگا۔ اس دور کا ایک وقائع نگار اسد الاسدی لکھتا ہے۔ صلاح الدین ایوبی انتہائی خطرناک صورتحال میں بھی نہیں گھبراتا تھا لیکن اس جاسوس کے بھاگ جانے کی خبر سن کر اس کے چہرے سے خون غائب اور آنکھیں بے نور ہوگئیں… خیمے میں ٹہلتے ٹہلتے ہوا رک گیا اور آسمان کی طرف دیکھ کر بولا۔ ''خدائے ذوالجلال! کیا یہ اشارہ ہے کہ میں یہاں سے واپس چلا جائوں؟ کیا تیری ذات باری نے میرے گناہ بخشے نہیں؟ میں نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے تھے، کبھی پسپا نہیں ہوا تھا'' پھر اس کی آواز رندھیا گئی۔ اسے شاید غیب کا کوئی اشارہ مل جایا کرتا تھا جو اس موقعہ پر بھی ملا۔ اس نے حسن بن عبداللہ سے کہا ان دونوں سپاہیوں کو زیادہ سزا نہ دینا۔ سزا سے بچنے کے لیے وہ مفرور ہوسکتے تھے لیکن وہ تمہارے پاس آگئے۔ انہیں غلطی کی سزا ضرور دینا، نیک نیتی اور سچ بولنے کا صلہ بھی ضرور دینا… سالاروں کو بلائو اس کے چہرے پر رونق اور آنکھوں میں چمک عود کر آئی''۔
تین سالار آگئے۔ سلطان ایوبی نے ان سے کہا۔ ''وہ جاسوس بھاگ گیا ہے جس کے پاس دفاعی منصوبہ تھا۔ اس نے جو نقشے بنائے تھے وہ ہمارے پاس رہ گئے ہیں۔ اس نے اپنی آنکھوں سے بہت کچھ دیکھ لیا تھا اور اسے یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ ہم دشمن کو کہاں لاکر لڑانا چاہتے ہیں۔ بھاگنے والے کے دو ساتھی ابھی ہمارے پاس ہیں۔ حسن بن عبداللہ انہیں ابھی یہیں رکھنا چاہتا تھا۔ اب ہمارے لیے صورت یہ پیدا ہوگئی ہے کہ ہم نے دشمن کے لیے جو پھندا تیار کیا تھا، وہ بیکار ہوگیا ہے۔ وہ اب قرون کے اندر نہیں آئے گا۔ ہوسکتا ہے وہ ہمیں محاصرے میں لے لیں اور ہماری رسد کا راستہ روک لے۔ مجھے مشورہ دو کہ ہم اپنا منصوبہ بدل دیں یا اسی پر قائم رہیں''۔
: تینوں سالاروں نے اپنے اپنے مشورے دئیے جو ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ صرف اس بات پر تینوں متفق تھے کہ پلان بدل دیا جائے… سلطان ایوبی نے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ پلان بدلنے کے لیے وقت چاہیے۔ خطرہ یہ ہے کہ اس دوران دشمن نے حملہ کردیا تو ہمارے لیے مشکل پیدا ہوجائے گی۔ کھلی جنگ لڑنے کے لیے فوج کم تھی۔ لہٰذا یہ فیصلہ ہوا کہ پلان میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ اس کے بجائے چھاپہ ماروں کو حکم دیا گیا کہ وہ وسیع پیمانے پر شب خون ماریں اور وہ دشمن کی مشترکہ کمان کے مرکز اور تینوں فوجوں کے مراکز پر زیادہ شب خون ماریں۔ رسد کے راستے کو اور زیادہ محفوظ کرلیا جائے۔ اس نے چھاپہ ماروں کے سالار سے کہا کہ وہ اپنے اس دستے کو لے آئے جسے مٹکے توڑنے کا کام سونپا گیا ہے۔
سالار نئے احکام لے کر چلے گئے۔ سلطان ایوبی نے یہ احکام خوداعتمادی سے دئیے تھے لیکن وہ بہت پریشان تھا۔ اسے پورا یقین تھا کہ بھاگنے والے جاسوس نے اس کا سارا پلان تباہ کردیا ہے اور اب معلوم نہیں کیا ہوگا۔
کچھ دیر بعد بارہ چھاپہ ماروں کا ایک جیش اس کے سامنے لایا گیا۔ صلیبیوں نے حلب والوں کو آتش گیر مادے کے جو مٹکے بھیجے تھے وہ میدان جنگ میں لائے گئے تھے۔ سلطان ایوبی کے جاسوسوں نے یہ ذخیرہ دیکھ لیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ جب دشمن حملہ کرے تو یہ ذخیرہ تباہ کردیا جائے۔ اس کے لیے بارہ جانباز اور جنونی قسم کے چھاپہ مار منتخب کیے گئے اور انہیں سلطان ایوبی کے سامنے لایا گیا۔ اس نے دیکھا اور ایک چھاپہ مار کو دیکھ کر مسکرایا۔ بولا ''انطانون! تم اس جیش میں آگئے ہو؟''
''مجھے اس جیش میں آنا چاہیے تھا''۔ انطانون نے کہا۔ ''میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں اپنے گناہ کا کفارہ ادا کروں گا''۔
''میرے عزیز دوستو!'' سلطان ایوبی نے چھاپہ ماروں سے کہا۔ ''تم نے کہاں کہاں قربانیاں نہیں دیں لیکن اب مذہب اور ملت کی آبرو تم سے بہت بڑی قربانی مانگ رہی ہے۔ تم جنگ کا پانسہ پلٹ سکتے ہو۔ تمہیں ہدف بتا دیا گیا ہے۔ اگر تم نے اسے تباہ کردیا تو آنے والی نسلیں بھی تمہیں یاد رکھیں گی۔ تم دیکھ رہے ہو کہ اپنی فوج تھوڑی ہے اور دشمن کے تین لشکر ہیں۔ ان سے اپنی فوج کو تم بچا سکتے ہو''۔
''ہم مذہب اور ملت کو مایوس نہیں کریں گے''۔ چھاپہ ماروں کے کمانڈر نے کہا۔
انہیں چند اور ہدایات دے کر رخصت کردیا گیا۔ اگلی صبح ایک سوار سرپٹ گھوڑا دوڑاتا آیا۔ سلطان ایوبی ابھی اپنے خیمے میں تھا۔ سوار نے اطلاع دی کہ دشمن آرہا ہے۔ فاصلہ ایک میل رہ گیا تھا۔ رخ قرون کی طرف تھا۔ اتنے میں ایک اور سوار آگیا۔ اس نے اطلاع دی کہ دائیں طرف سے بھی دشمن کی فوج آرہی ہے۔ اس فوج کے رخ سے سلطان ایوبی نے اندازہ لگایا کہ دائیں پہلو پر آرہی ہے۔ اس پہلو کے متعلق سلطان ایوبی پریشان تھا۔ وہ اب اور زیادہ پریشان ہوگیا۔ اس کے اعصاب پر آذر جاسوس سوار تھا جو نہایت قیمتی راز لے کر چلا گیا تھا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ یہ جاسوس گزشتہ رات پہنچا ہوگا اور اس کی معلومات پر دشمن نے حملہ کردیا ہے۔ سلطان ایوبی نے تیاری کا حکم دے دیا۔ اس کے قاصد ادھر ادھر دوڑ پڑے۔ قرون کے درمیان خیمے لگے رہے۔ سپاہی خیموں میں رہے یا ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہے تاکہ دشمن یہ سمجھے کے وہ تیار نہیں۔ چٹانوں پر تیر انداز تیار ہوگئے۔
دشمن کی رفتار تیز تھی۔ اس کے ہر اول نے دیکھا کہ خیمے ابھی تک کھڑے ہیں تو ہر اول نے اس خیال سے کہ انہوںنے سلطان ایوبی کی فوج کو بے خبری میں آلیا ہے، پیچھے خبر دے دی کہ رفتار تیز کرو۔ سلطان ایوبی ایک بلند چٹان پر چلا گیا جہاں سے سارا منظر اور دائیں طرف کا میدان بھی نظر آرہا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ گمشتگین کی فوج سیدھی قرون کی طرف آرہی ہے۔ سلطان ایوبی کے سپاہیوںنے ہدایات کے مطابق اپنے گھوڑوں پر زینیں اس وقت ڈالیں جب دشمن بالکل قریب آگیا تھا۔ پیادوں نے آگے بڑھ کر چند ایک تیر چلائے۔ ادھر سے للکار سنائی دینے لگی… ''کچل دو۔ کسی کو زندہ نہ چھوڑو۔ صلاح الدین ایوبی کو زندہ پکڑو۔ سرکاٹ لو''۔
سلطان ایوبی کے سوار آگے بڑھے مگر پیچھے کو آگئے۔ پیادوں اور سواروں نے حملے کی اگلی صف کا مقابلہ کیا ور لڑتے لڑتے پیچھے ہٹتے آئے، حتیٰ کہ تمام حملہ آور دستے قرون کے اندر اسی پھندے میں آگئے جہاں انہیں سلطان ایوبی لانا چاہتا تھا۔ چٹانوں میں گرا ہوا یہ میدان ڈیڑھ میل کے لگ بھگ وسیع اور عریض تھا۔ جونہی دشمن اندر آیا دونوں طرف کی چٹانوں سے اس پر تیروں کا مینہ برسنے لگا۔ دشمن کے گھوڑے تیر کھا کر بدکتے، منہ زور ہوتے اور اپنے ہی پیادوں کو کچلتے پھرتے تھے۔ دشمن کے کمانڈر سمجھ نہ سکے کہ یہاں خیموں میں جو فوج تھی وہ کہاں غائب ہوگئی ہے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ آگے چٹانوں میں ایک کٹائو ہے جو ایک وادی میں چلا جاتا ہے اور سلطان ایوبی کی فوج اس میں لاپتہ ہوتی جارہی ہے۔ میدان میں خیمے کھڑے تھے جن کی رسیاں رکاوٹ پیدا کررہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد فلیتوں والے آتشیں تیر آنے لگے جو زخمیوں پر چلائے جارہے تھے۔ انہوں نے خیموں کو آگ لگا دی اور میدان جنگ سے شعلے اٹھنے لگے۔ دشمن کے کمانڈروں کے لیے بڑی مشکل پیدا ہوگئی۔ ان کی جمعیت بکھر گئی تھی۔ دستے گڈمڈ ہوگئے تھے۔ گھوڑوں کے ہنہنانے کا، زخمیوں کی چیخ وپکار کا اور کمانڈروں کے واویلے اور للکار کا اتنا زیادہ شور تھا کہ آوازوں کو الگ کرکے سمجھنا ناممکن تھا۔ کم وبیش دو گھنٹے دشمن کے سپاہی افراتفری کی کیفیت میں اور ان کے کمان دار انہیں سنبھالنے کی کوشش میں سلطان ایوبی کے تیر اندازوں سے زخمی اور ہلاک ہوتے رہے۔ وہ بھی آخر مسلمان سپاہی تھے۔ عسکری جذبہ انہیں پسپا نہیں ہونے دے رہا تھا۔ ان میں سے کئی ایک ان چٹانوں پر چڑھنے لگے جہاں سے تیر آرہے تھے۔ یہ ان کی دلیری کا مظاہرہ تھا لیکن اوپر سے آئے ہوئے تیر انہیں پتھروں کی طرح لڑھکا رہے تھے۔
بہت ہی مشکل سے دشمن کے دستوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا گیا۔ انہیں پیچھے ہی ہٹنا تھا مگر پیچھے ہٹے تو انہیں پتہ چلا کہ عقب میں سلطان ایوبی کی فوج کھڑی ہے۔ اعلان ہونے لگے۔ ''ہتھیار ڈال دو، تم ہمارے بھائی ہو، ہم تمہیں ہلاک نہیں کریں گے''۔ ان اعلانات کے ساتھ ساتھ گھوڑے بڑھتے اور پھلتے آرہے تھے۔ گمشتگین کے گرے ہوئے سپاہیوں میں اب لڑنے کا دم خم نہیں رہا تھا۔ ان میں سے آدھے مارے گئے یا زخمی ہوگئے تھے جو زندہ تھے ان پر دہشت طاری ہوگئی تھی۔ وہ کچھ اور توقع لے کر آئے تھے۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ یہ بڑی سہل فتح ہوگی مگر ان کے لیے میدان جنگ جہنم بن گیا۔ انہوں نے ہتھیار پھینکنے شروع کردئیے۔
٭ ٭ ٭
سلطان ایوبی کی یہ چال تو کامیاب رہی لیکن دوسری طرف دشمن نے اس کے لیے مشکل پیدا کردی۔ یہ دائیں پہلو کا وہی میدان تھا جس کے متعلق اسے شروع سے ہی فکر تھا۔ اس طرف سے صحرائی آندھی کی طرح دشمن کی فوج آرہی تھی۔ اس کے مقابلے میں سلطان ایوبی کے مختصر سے دو دستے تھے۔ حملہ آوروں کے جھنڈے نظر آنے لگے۔ یہ حلب کی فوج تھی۔ سلطان ایوبی نے حلب کا محاصرہ کرکے اس فوج کے جوہر دیکھے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ یہ فوج گمشتگین اور سیف الدین کی فوج سے مختلف ہے۔ فنی مہارت اور شجاعت کے لحاظ سے یہ فوج یقینا برتر تھی۔ سلطان نے اپنے آپ کو کبھی خوش فہمیوں میں مبتلا نہیں کیا تھا۔ وہ فوراً جان گیا کہ اس کے یہ دستے اس فوج کو نہیں روک سکیں گے۔ وہ اپنے ریزرو کو ابھی استعمال نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے دماغ کو حاضر رکھا۔ اپنے پاس کھڑے سالاروں کو اس نے کوئی ہدایات دے کر بھیج دیا۔
اس نے ریزرو ٹروپس کے علاوہ منتخب سواروں کا ایک دستہ اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ اس طرف والی چٹان پر جو تیر انداز تھے، ان کے کمانڈر کو حکم بھیجا کہ قرون سے ہٹ کر منہ پیچھے کرلیں اور اسی پوزیشن سے نئے حملہ آوروں کو نشانہ بنائیں۔ اس نے اپنے منتخب سواروں کے کمانڈر کو حکم دیا کہ دستہ میدان میں لائو، میں خود کمان کروں گا۔ نہایت تھوڑے وقت میں وہ چٹان سے اترا۔ اس کا دستہ تیار تھا۔ وہ بھی میدان میں آگیا۔ سلطان ایوبی میدان جنگ میں اپنا جھنڈا نہیں لہرایا کرتا تھا تاکہ دشمن کو پتہ نہ چل سکے کہ وہ کہاں ہے لیکن اس موقعہ پر اس نے بلند آواز سے کہا… ''میرا جھنڈا اونچا رکھو''… قاضی بہائوالدین شداد اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے۔ ''اس معرکے میں اپنا جھنڈا چڑھا کر صلاح الدین ایوبی اپنے دستوں کو بتانا چاہتا تھا کہ ان کی کمان اور قیادت سلطان خود کررہا ہے اور وہ حلب کے حملہ آوروں کو بھی بتانا چاہتا تھا کہ ان کا مقابلہ صلاح الدین کے ساتھ ہے''۔
 سلطان ایوبی نے اشارے اور الفاظ مقرر کررکھے تھے، اس نے نہایت تیزی سے سواروں کو اس ترتیب میں کر لیا کہ دو گھوڑے آگے، چار پیچھے، ان کے پیچھے چھ، ان کے پیچھے آٹھ اور باقی تمام آٹھ آٹھ کی ترتیب میں رہے لیکن اس نے ترتیب کہیں کھڑے ہوکر نہیں بنائی بلکہ تین چار صفوں میں دوڑتے گھوڑ سواروں کو اس ترتیب میں ہونے کا حکم دیا تھا۔سامنے سے دشمن صف در صف پھیلا ہوا آرہا تھا۔ قریب جاکر سلطان ایوبی کے سوار اس ترتیب میں ہوگئے۔ تصادم اس طرح ہوا کہ یہ گھوڑ سوار ایک کیل کی طرح دشمن کے لشکر میں داخل ہوگئے۔ سلطان ایوبی اس ترتیب کے درمیان میں تھا۔ دشمن کے گھوڑ سوار دائیں بائیں سے آگے نکل گئے۔ راستے میں جو آیا اسے برچھیوں سے مجروح کرتے گئے۔
دشمن کے سواروں کے پیچھے پیادہ دستے تھے۔ سلطان ایوبی نے دور آگے جاکر سواروں کو پیچھے موڑا اور فوراً صفوں کو ترتیب میں لاکر پوری رفتار سے پیادہ دستوں پر حملہ کیا۔ پیادوں نے مقابلہ تو بہت کیا لیکن گھوڑے اور سوار انہیں روندتے اور کاٹتے آگے نکل گئے۔ سلطان ایوبی کے پیادہ دستے سامنے تھے۔ انہوں نے دشمن کے سواروں کا مقابلہ کیا۔ عقب سے سلطان ایوبی نے ہلہ بول دیا۔ قریبی چٹانوں سے تیر اندازوں نے تیر برسانے شروع کردئیے لیکن حلب کی فوج کا حوصلہ نہ ٹوٹا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی کمان نہ بکھرنے دی۔ معرکہ بڑا ہی خون ریز تھا اور بڑا ہی شدید تھا۔ تمام مؤرخین لکھتے ہیں کہ اگر سلطان ایوبی اس معرکے کی کمان خود نہ لیتا تو اس کا سارا پلان اس پہلو سے تباہ ہوجاتا۔
قاضی بہائوالدین شداد نے مؤرخین سے کچھ اختلاف کیا ہے۔ اس کی یادداشتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملہ آور فوج حلب کی نہیں موصل کی تھی اور اس کی کمان سالار مظفرالدین بن زین الدین کررہا تھا اور یہ کمان اتنی دانشمندانہ تھی کہ مظفرالدین نے سلطان ایوبی کے اس پہلو کو اکھاڑ پھینکا تھا۔ قیادت کی دانشمندی کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ مظفرالدین سلطان ایوبی کے ساتھ سالار رہ چکا تھا اور اس نے یہ فن سلطان ایوبی سے ہی سیکھا تھا۔ نفری زیادہ ہونے کے علاوہ مظفرالدین کو یہ فائدہ بھی حاصل تھا کہ وہ سلطان ایوبی کی چالوں کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے قاصدوں کو اپنے ساتھ رکھا اور ان کے ذریعے چھوٹے سے چھوٹے جیش کے ساتھ بھی رابطہ قائم رکھا۔ اس نے ایسی چال چلی کہ دشمن کو اس چٹان کے قریب لے گیا جس پر تیر انداز تیار تھے۔ انہوں نے بہت کام کیا۔ سلطان ایوبی نے اپنی نفری میں اتنی کمی محسوس کی کہ اسے ابتدائی پلان بدلنا پڑا۔ اس نے ٹروپس کو بھی بلانے کا فیصلہ کرلیا لیکن عین اس وقت ایک قاصد نے اسے بتایا کہ ایک طرف سے اپنے چار پانچ سو سوار آرہے ہیں۔ سلطان ایوبی نے غصے سے پوچھا کہ وہ کون سا دستہ ہے اور کیوں آیا ہے؟ وہ میدان جنگ میں ڈسپلن کا زیادہ پابند ہوجاتا تھا، حالانکہ اسے اس میدان میں کمک کی شدید ضرورت تھی لیکن اس کی اجازت اور ہدایت کے بغیر کسی کی حرکت اسے پسند نہ آئی، اس نے قاصد کو دوڑایا کہ خبر لائے کہ یہ سوار کون ہیں۔
قاصد جو خبر لایا اس نے سلطان ایوبی کو سن کردیا۔ خبر یہ تھی کہ یہ چار سو لڑکیاں اور ایک سو رضاکار ہیں۔ ان کی قیادت حجاج ابووقاص کررہا ہے اور وہ سالار شمس الدین کی اجازت سے آئے ہیں۔ سلطان ایوبی انہیں روک سکتا تھا لیکن جس انداز سے یہ پانچ سو گھوڑ سوار آئے اس سے سلطان ایوبی سمجھ گیا کہ کمان واقعی شمس الدین کررہا ہے۔ یہ سوار دشمن کو چٹان کی طرف دھکیل رہے تھے۔ اس معرکے میں پیادے گھوڑے تلک کچلے جارہے تھے۔ دشمن کی پیش قدمی روک لی گئی تھی۔ وہ آگے نکلنے کی کوشش کررہا تھا مگر اسے وہیں الجھا لیا گیا۔
 مسلمان، مسلمان کے ہاتھوں کٹ رہا تھا، اللہ اکبر کے نعرے اللہ اکبر کے نعروں سے ٹکرا رہے تھے۔ زمین کانپ رہی تھی، آسمان خاموش تھا۔ صلیبی تماشہ دیکھ رہے تھے، تاریخ دم بخود تھی۔ لڑکیاں اپنے بھائیوں اور باپوں کے دوش بدوش بھائیوں اور باپوں کے خلاف لڑ رہی تھیں۔ لہولہان جنگ ہورہی تھی۔ قوم کی عظمت گھوڑوں کے سموں تلے روندی جارہی تھیا ور خدا دیکھ رہا تھا۔
دن بھر کے معرکے کا یہ انجام ہوا کہ دشمن کا حوصلہ ختم ہوگیا۔ اس کے سپاہیوں نے ہتھیار ڈالنے شروع کردئیے۔ وہ نیم محاصرے میں آگئے تھے۔ سالار نکل گئے، رات زخمیوں کے واویلے سے لرزتی رہی۔ دن بھر کی تھکی ہوئی لڑکیاں رات کو زخمیوں کو اٹھاتی رہیں۔ صبح ہوئی تو اس میدان کا منظر بھیانک اور ہولناک تھا۔ دور دور تک لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ گھوڑے مرے پڑے تھے۔ جنگی قیدیوں کو دور پرے لے گئے تھے۔ ان لاشوں میں لڑکیوں کی جو لاشیں تھیں وہ اٹھا لی گئی تھیں۔
''بادشاہی کا نشہ انسان کو اس سطح پر بھی لے آتا ہے جہاں ایک انسان اپنی قوم کو دو دھڑوں میں کاٹ کر انہیں آپس میں لڑا دیتا ہے''۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے میدان جنگ کا منظر دیکھ کر کہا۔ ''اپنے بھائی اپنی بہنوں کی عصمت دری کرتے ہیں اگر ہم نے بادشاہی کے رجحان کو ختم نہ کیا تو کفار اس قوم کو قوم کے سربراہوں کے ہاتھوں آپس میں لڑا لڑا کر ختم کردیں گے''۔
٭ ٭ ٭
قرون حماة اور اس کے پہلو کا معرکہ ختم ہوگیا تھا، جنگ ابھی جاری تھی۔ معرکے کی رات بارہ چھاپہ مار حلب کی فوج کے اس ذخیرے تک پہنچ چکے تھے جہاں آتش گیر مادے کے مٹکے رکھے تھے۔ رات کے وقت مٹکے کھول کر اس سے کپڑے بھگوئے جارہے تھے جن کے گولے بنا کر منجنیقوں سے پھینکنے تھے۔ ہانڈیاں بھی بھر کر سربمہر کی جارہی تھیں۔ ابھی ایک فوج ریزرو میں تھی۔ اسے اطلاع مل گئی تھی کہ دونوں فوجوں کے حملے ناکام ہوچکے ہیں۔ لہٰذا یہ فوج آخری حملے کے لیے تیار ہورہی تھی۔ حملے کی کامیابی کے لیے آگ پھینکنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ سلطان ایوبی کے بارہ چھاپہ ماروں نے اپنا ہدف دیکھ لیا۔ ان میں سے چار پانچ کے پاس کمانیں تھیں اور فلیتے والے تیر بھی تھے۔ وہ گھوڑوں سے اتر کر آگے چلے گئے۔ فلیتے جلا کر انہوں نے تیر چلا دئیے۔ یکلخت شعلے بلند ہوئے اور وہاں ہڑبونگ بپا ہوگئی۔
چھاپہ ماروں کو بتایا گیا تھا کہ مٹکے بے شمار ہیں، وہاں بھگدڑ مچی تو چھاپہ ماروں نے ہلہ بول دیا۔ شعلوں سے وہاں بہت روشنی ہوگئی تھی۔ چھاپہ ماروں کو محفوظ مٹکے بھی نظر آگئے۔ انہوں نے اپنی برچھوں کے ساتھ ہتھوڑیوں کی طرح لوہے کے ٹکڑے باندھ رکھے تھے۔ دوڑتے گھوڑوں سے انہوں نے مٹکے توڑنے شروع کردئیے۔ ان میں سے ایک نے آگ لگانے کا نتظام کردیا۔ دشمن نے انہیں گھیرے میں لینے کی کوشش کی۔ یہ ایک خونریز معرکہ تھا۔ بارہ جانباز سینکڑوں کے نرغے میں لڑ رہے تھے۔ شعلے ہر طرف پھیل گئے تھے۔ سارے کیمپ پر دہشت طاری ہوگئی۔ گھوڑے اور اونٹ رسیاں تڑا کر بھاگنے لگے۔
جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج تھی وہاں ایک چٹان پر کھڑے کسی آدمی نے چلا کر کہا۔ ''آسمان جل رہا ہے، خدا کا قہر نازل ہورہا ہے''۔
جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں