داستان ایمان فروشوں کی قسط - 146 - اردو ناول

Breaking

جمعرات, ستمبر 08, 2022

داستان ایمان فروشوں کی قسط - 146

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر146 آنسو جو مسجدِ اقصیٰ میں گرے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

صلیبی جنگ عروج کو پہنچ گئی تھی۔ بیت المقدس کی فتح نے سارے یورپ کو زلزلے کے بڑے ہی شدید جھٹکے کی طرح جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی زندگی کا مشن پورا کردیا تھا لیکن بیت المقدس صلیبیوں کے قبضے سے چھڑا لینا ہی کافی نہیں تھا۔ اس مقدس شہر کا دفاع مستحکم کرنا تھا جو صرف شہر کی دیواریں مضبوط کرلینے تک محدود نہیں تھا۔ بیت المقدس کو صلیبیوں سے بچائے رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ اردگرد دور دور کے علاقے پر قبضہ کیا جائے اور ساحل کو بھی اپنی تحویل میں رکھا جائے۔ بہت سے اہم مقامات پر سلطان ایوبی نے پہلے قبضہ کرلیا تھا جو باقی رہ گئے تھے ان پر سلطان ایوبی کی فوج حملے کرتی اور قابض ہوتی چلی جارہی تھی۔

مفتوحہ مقامات سے عیسائی آبادی بھاگتی چلی جارہی تھی جن مقامات پر عیسائیوں کا قبضہ تھا، وہاں انہوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کررکھا تھا۔ ان کے لیے مسلمانوں کا قتل عام روزمرہ کا معمول اور مذہبی فریضہ تھا۔ اس کے برعکس سلطان ایوبی جو جگہ فتح کرتا تھا وہاں کے عیسائی باشندوں کو اپنی فوج کے حفاظت میں نکال دیتا تھا، سوائے جنگی قیدیوں یعنی صلیبی فوجیوں کے۔ارض فلسطین کی اب یہ کیفیت تھی کہ سلطان ایوبی ہر ایک دستے کو خواہ وہ اس کے ہیڈکوارٹر سے کتنی ہی دور کیوں نہ تھا، رابطے اور اپنے احکام کا پابند رکھے ہوئے تھا۔ چھاپہ مار جیش عقابوں اور چیتوں کی طرح پہاڑیوں، جنگلوں اور صحرائوںمیں گ ھومتے پھرتے رہتے تھے، جہاں انہیں صلیبی فوج کا کوئی دستہ یا رسد کا قافلہ نظر آیا، وہ اس پر ٹوٹ پڑتے، شب خون مارتے اور انہیں ہلاک، زخمی اور تتر بتر کرکے ان کے گھوڑے، اسلحہ اور رسد اٹھا لاتے۔

ان چھاپہ ماروں نے جو شب خون مارے، وہ ہماری تاریخ کی ولولہ انگیز، ایمان افروز اور مافوق الفطرت شجاعت کی داستانیں ہیں۔ ہر ایک کا بیان شروع ہوجائے تو یہ یہ داستان بڑی لمبی مدت تک ختم نہ ہو۔ یہ ارض فلسطین کے پاسبان تھے جو اکیلے اکیلے، دو دو اور چار چار کی ٹولیوں میں کئی کئی سو نفری کے دستوں اور دشمن کے کیمپوں پر شب خون مارتے اور شب کی تاریکی میں گم یا اپنے خون میں ڈوب جاتے تھے۔ انہوں نے دشمن سے رسد چھین کر اپنی فوجوں کو دی اور خود دشمن کی تلاش میں بھوکے بھٹکتے رہے، لڑتے اور کٹتے رہے، اپنی لگائی ہوئی آگ میں زندہ جلتے رہے۔ انہیں کفن نصیب نہ ہوئے، کسی نے ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی اور وہ کسی قبر میں دفن نہ ہوئے۔

وہ قہر تھے جو دشمن پر ٹوٹتے رہے۔ انہی کے بھروسے سلطان ایوبی بیت المقدس کی فتح کے بعد پورے فلسطین میں شیر کی طرح دندناتا، دھاڑتا اور گرجتا رہا۔ سلطان ایوبی کی ان گوریلا اور کمانڈو (چھاپہ مار) پارٹیوں کے متعلق مشہورومعروف یورپی مؤرخ لین پول لکھتا ہے… ''یہ بے دین (مسلمان) ہماری نائٹوں (جنگجو سرداروں) کی طرح وزنی زرہ بکتر نہیں پہنتے تھے لیکن ہمارے زرہ پوش نائٹوں کو ناکوں چنے چبوا دیتے تھے۔ ان پر حملہ کیا جاتا تو بھاگتے نہیں تھے۔ ان کے گھوڑے ساری دنیا میں تیز رفتار مانے گئے تھے۔ وہ جب دیکھتے تھے کہ (صلیبی) ان کے تعاقب سے ہٹ گئے ہیں تو وہ پھر واپس آجاتے تھے۔ ان (مسلمان چھاپہ ماروں) کی حالت ان کبھی نہ تھکنے والی مکھیوں جیسی تھی جنہیں اڑائو تو ایک لمحے کے لیے اڑ کر پھر تمہارے اوپر بیٹھ جاتی ہیں، اگر انہیں ہر وقت دور رکھنے کی کوشش کرتے رہو تو وہ دور رہتے تھے۔ جونہی یہ کوشش ترک کردی جاتی، وہ شب خون مارجاتے… وہ پہاڑی علاقے کی طوفانی بارش کی طرح چھوٹی چھوٹی پارٹیوں میں آتے اور صلیبی فوج کی ترتیب توڑ کر غائب ہوجائے۔ ہمارے نائٹوں کو وہ قدم قدم پر پریشان کرتے اور ہماری فوج کی پیش قدمی کو سست کیے رکھتے''۔

٭ ٭ ٭

یہ خطہ جو آج اسرائیل کہلاتا ہے، سلطان ایوبی کے دور میں ارض مقدس تھا جسے صلیبیوں سے پاک کرنے کے لیے اللہ کے ایک ایک سپاہی نے وہاں اپنے خون کا نذرانہ دیا۔ سلطان ایوبی نے بعض بستیاں تباہ وبرباد کرادی تھیں۔ بعض اوقات یوں لگتا تھا جیسے اس کے دل میں رحم کا ایک ذرہ بھی نہیں رہا لیکن اس نے رحم دلی کے ایسے مظاہرے کیے کہ صلیبی مؤرخوں نے بھی اسے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس سے رحم کی بھیک مانگنے کے لیے صلیبیوں کی ایک ملکہ بھی آئی اور ایک غریب صلیبی عورت بھی۔

صلیبی ملکہ کا نام سبیلا تھا۔ وہ مشہور حکمران ریمانڈ کی بیوی تھی۔ جنگ حطین کے وقت وہ طبریہ کے قلعے کی ملکہ تھی۔ آپ پچھلی اقساط میں پڑھ چکے ہیں کہ ر یمانڈ جنگ حطین کے میدان سے بھاگ گیا تھا۔ اس کی بیوی نے طبریہ کا قلعہ سلطان ایوبی کے حوالے کردیا تھا اور سلطان ایوبی نے اسے قید نہیں کیا تھا۔ اسی جنگ میں سلطان ایوبی نے بیت المقدس کے حکمران گائی آف لوزینان کو جنگی قیدی بنا لیا تھا۔  بیت المقدس کی فتح کے بعد جب سلطان ایوبی عکرہ کے مقام پر خیمہ زن تھا، اسے اطلاع ملی کہ ملکہ سبیلا اسے ملنے آرہی ہے۔ سلطان ایوبی نے اسے آنے سے نہ روکا بلکہ آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا۔

''صلاح الدین!''… مبلکہ سبیلا جو شکست کھا چکنے کے بعد بھی ملکہ ہی کہلانا پسند کرتی تھی، کیونکہ اپنے خاوند کے قتل کے بعد وہ تریپولی کی حکمران تھی، بولی… ''کیا آپ کو معلوم ہے کہ کتنے ہزار یا کتنے لاکھ عیسائی گھروں سے بے گھر ہوگئے ہیں؟ ان پر ظلم آپ کے حکم سے ہوا ہے''۔

''اور جن بے گناہ مسلمانوں کا آپ نے قتل عام کرایا اور کرایا جارہا ہے، وہ کس کے حکم سے کرایا جارہا ہے؟''… سلطان ایوبی نے اس کا جواب سنے بغیر کہا… ''اگر میں خون کا بدلہ خون سے لوں تو ایک بھی عیسائی زندہ نہ رہے… آپ کیوں آئی ہیں؟… یہی شکایت مجھ تک پہنچانے؟''

''نہیں''۔ ملکہ سبیلا نے جواب دیا… ''میں ایک درخواست لے کر آئی ہوں… گائی آف لوزینان آپ کے پاس جنگی قیدی ہے، میں اسے رہا کرانے آئی ہوں''۔

''میں آپ سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ آپ اسے کیوں رہا کرانا چاہتی ہیں''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں یہ ضرور پوچھوں گا کہ کس شرط پر میں اسے رہا کروں؟''

''اگر آپ کا بیٹا یا بھائی قید ہوجائے تو کیا آپ اسے رہا کرانے کی کوشش نہیں کریں گے؟''… ملکہ سبیلا نے پوچھا۔

''میرے وہ کمان دار، عہدے دار اور سپاہی جو آپ کے جنگی قیدی ہیں، وہ سب میرے بیٹے اور میرے بھائی ہیں''… سلطان ایوبی نے کہا… ''اگر میں خود قید ہوگیا تو میں بھی آپ سے رہائی کی بھیک نہیں مانگوں گا۔ میرا کوئی بیٹا اور میرا کوئی بھائی میری رہائی کے لیے آپ کے پاس نہیں جائے گا''۔

''صلاح الدین!'' ملکہ سبیلا نے کہا… ''آپ خود بادشاہ ہیں۔ کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ ایک بادشاہ کا قید میں پڑے رہنا، اس کی کتنی توہین ہے۔ وہ یروشلم اور گردونواح کے دور دور کے علاقے کا حکمران تھا''۔

''یروشلم نہیں بیت المقدس''… سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا… ''گائی اس خطے کا غاصب تھا، کسی غاصب کو ہم بادشاہ نہیں کہا کرتے۔ اگر آپ یہ کہتیں کہ وہ اسلام کا خاتمہ کرکے یہاں صلیب کی حکمرانی قائم کرنے آیا تھا تو میں آپ کی بھی اور اس کی بھی قدر کرتا۔ میں ہر اس انسان کی قدر دل وجان سے کرتا ہوں جو اپنے مذہب اور عقیدے کا قدر دان ہوتا ہے۔ اس کا مذہب چاہے بے بنیاد اور جھوٹے عقیدوں کا ہی مجموعہ کیوں نہ ہو۔ میں نہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہوں، نہ کسی کی بادشاہی کو تسلیم کرتا ہوں۔ بادشاہی صرف اللہ کی ذات کی ہے اور ہم اس کی بادشاہی کے محافظ ہیں۔ ہم اللہ کے سپاہی ہیں''۔

''ہم بھی خدا کی حکمرانی کے لیے کوشاں ہیں''… ملکہ سبیلا نے کہا۔

''اگر آپ اس خدا کی قائل ہوتیں جس کا میں قائل ہوں تو آپ ایک بادشاہ کی رہائی کے بجائے یہ درخواست لے کرآتیں کہ اس بادشاہ کے سپاہیوں کو رہا کردو''۔ سلطان نے کہا… ''آپ کو اس سے انکار نہیں ہونا چاہیے کہ یہ خطہ ہمارا ہے، آپ کا نہیں۔ یہاں صلیبی امن پسند باشندوں کی طرح رہ سکتے ہیں، بادشاہ بن کر نہیں۔ اپنے صلیبی دوستوں کو بتا دیں کہ انسانوں کی قتل وغارت سے باز آجائو اور یہاں سے نکل جائو۔ آپ کا ہر حربہ ناکام ہوچکا ہے۔ آپ نے اپنی معصوم بیٹیوں کو گناہوں کی تربیت دی اور ان کی عصمتیں دائو پر لگائیں۔ آپ نے ہمارے مذہبی پیشوائوں کے بہروپ میں اپنے تخریب کار بھیج کر میری قوم کے عقیدوں کو مجروح کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے زروجواہرات، شراب اور دلکش لڑکیوں کے ذریعے میری قوم میں غداری کا بیج بویا اور خانہ جنگی کرائی۔ آپ نے حشیشین سے مجھ قتل کرانے کی کئی بار کوشش کی۔ آپ نے مسلمانوں میں خانہ جنگی کرائی اور ہماری جنگی طاقت کو تباہ کردیا… ہاں ملکہ صلیب میں اعتراف کرتا ہوں کہ آپ اس میں کامیاب ہوئیں کہ اسلامی سلطنت کو ٹکڑوں میں کاٹ دیا اور مسلمان نے مسلمان کا خون بہایا''…

''میں جانتا ہوں کہ آپ اس کے بعد میرے پاس نہیں آئیں گی''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ آپ میرے اس خیمے سے ہی ہمیشہ کے لیے نہیں چلی جائیں گی بلکہ آپ اس خطے سے جارہی ہیں، پھر آپ کبھی ادھر کا رخ نہیں کریں گی۔ آپ جب ادھر کا کبھی رخ کریں گی تو بحیرۂ روم کا پانی آپ کے جہازوں کے لیے ابلتا ہوا سمندر بن جائے گا۔ میں آپ کو کسی بحث میں الجھانا نہیں چاہتا، آپ کو ایک پیغام دے رہا ہوں اور آپ سے یہ د رخواست کرتا ہوں کہ یہ پیغام اپنی صلیب کے تمام پجاریوں تک پہنچا دینا''…

''کہاں ہے آپ کی صلیب الصلبوت جس پر آپ سب حلف اٹھا کر آئے تھے کہ سرزمین عرب کو تہہ تیغ کریں گے۔ مسجد اقصیٰ اور خانہ کعبہ کو مسمار کرکے اپنی عبادت گاہیں بنائیں گے؟… وہ صلیب میرے قبضے میں ہے اور آپ کے عزائم میرے رحم وکرم پر ہیں۔ آپ جسے یروشلم کہتے ہیں، وہ پھر بیت المقدس ہے اور ہمیشہ بیت المقدس رہے گا''۔

''آپ کی فوج بہتر اور زیادہ ہے''… ملکہ سبیلا نے کہا…  … ''ہماری فوج کی قیادت ناقص ہے''۔

''حقیقت سے چشم پوشی نہ کرو ملکہ!''… سلطان ا یوبی نے کہا… ''اپنے آپ کو دھوکہ نہ دو۔ خود فریبی شکست کی علامت ہوتی ہے۔ میری فوج کبھی بھی صلیب کی فوج سے زیادہ نہیں ہوئی۔ کبھی بہتر بھی نہیں ہوئی۔ میری فوج کو کبھی زرہ نصیب نہیں ہوئی۔ میرے سالاروں کو ایسی حسین لڑکیاں کبھی نہیں ملیں جو آپ کے سالاروں کے خیموں میں رہتی ہیں۔ میری فوج کا اسلحہ آپ سے بہتر نہیں۔ البتہ راز کی ایک بات آپ کو بتا دیتا ہوں۔ میری فوج کے پاس صرف ایک قوت ہے جس سے آپ کی فوج محروم ہے۔ اسے ہم ایمان اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے ہیں۔ اگر آپ کا عقیدہ سچا ہوتا تو آپ کی قوم خدا کو عزیز ہوتی مگر اس خدا کو جو وحدہ لاشریک ہے، آپ نے ایک بیٹے کا باپ بنا رکھا ہے۔ آپ خدا کو انسان کی سطح پر لے آئے ہیں اور اس کی حکومت کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنے آپ کو بادشاہ کہتے اور کہلاتے ہیں''۔

''کیا آپ مجھے اسلام قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہیں؟''۔ ملکہ سبیلا نے کہا۔

''ملکہ سبیلا!''… سلطان ایوبی نے اس کے لہجے میں طنز کی جھلک دیکھتے ہوئے کہا… ''میرے خدا نے قرآن کی معرفت مجھے بتایا ہے کہ ہم نے انہیں دماغ دیئے ہیں لیکن وہ سوچتے نہیں، ہم نے انہیں آنکھیں دی ہیں لیکن وہ دیکھتے نہیں، ہم نے انہیں کان دئیے ہیں لیکن وہ سنتے نہیں… اور خدائے ذوالجلال نے فرمایا ہے کہ ہم ان لوگوں کو جب سزا دینے پر آتے ہیں تو ان کے دلوں اور دماغوں پر مہر ثبت کردیتے ہیں… آپ اسلام قبول نہ کریں۔ میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ فتح اسے ملتی ہے جس کے دل میں ایمان ہوتا ہے۔ میری قوم کے قائدین کے دلوں سے جب آپ نے دولت، عورت اور شراب کے ذریعے ایمان نکال دیا تھا تو ہم آپس میں لڑتے اور ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے۔ خدا نے ہمیں سزا دی۔ ساری قوم گناہ گار نہیں ہوا کرتی، قائدین گناہ گار ہوتے ہیں مگر سزا پوری قوم کو ملتی ہے۔ قوم گناہ گار نہیں ہوتی، اسے گمراہ کیا جاتا ہے''…

''میری اصل قوت یہ ہے کہ میں نے شکست کھائی تو اس کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ میں نے اپنے سالاروں سے بھی یہی کہا کہ غلطی ہے تو ہم سب کی۔ بدقسمتی ہے تو ہم سب کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں شکست ہوئی ہے اور اب قومی وقار کا تقاضا یہ ہے کہ شکست کو فتح میں بدلو۔ اگر شکست کی ذمہ داری ایک دوسرے پر پھینکتے اور اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرتے رہو گے تو ایک اور شکست سے دوچار ہوگے اور سلطنت اسلامیہ جو آج دو دھڑوں میں بٹ گئی ہے، کل کئی ٹکڑوں میں بٹے گی اور کفار ایک ایک ٹکڑے کو نگل لیں گے… محترمہ! ہماری خانہ جنگی کا ذمہ دار الملک الصالح تھا یا سیف الدین غازی، آپ تھے یا گمشتگین مگر میں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ یہ بھی میری ذمہ داری ہے۔ میں نے ہر حربہ استعمال کیا اور اللہ کے سپاہیوں نے اپنے خون سے سلطنت کے ٹکڑے جوڑ دئیے۔ خون سے جوڑے ہوئے ٹکڑے پھر کبھی الگ نہیں ہوتے ملکہ سبیلا!… آج دیکھ لیں، وہ وقت یاد کریں جب آپ کی فوجیں مدینہ منورہ تک جا پہنچی تھیں مگر آپ میرے پاس اپنے ایک بادشاہ کی رہائی کی بھیک مانگ رہی ہیں۔ یہ کس عمل کا نتیجہ ہے؟… صرف اس عمل کا کہ اللہ کی ذات نے مجھ پر جو فرض عائد کیا تھا، وہ میں نے جان کی بازی لگا کر ادا کیا اور اللہ نے مجھے انعام سے نوازا''۔

ملکہ سبیلا سلطان ایوبی کی باتیں انہماک سے سن رہی تھی لیکن اس کے ہونٹوں پر جن میں جوانی، کشش اور حسن ابھی قائم تھا، طنزیہ سی مسکراہٹ تھی۔

''میں آپ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت نہیں دے رہا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''آپ کی مسکراہٹ بتا رہی ہے کہ میرے خیمے سے نکل کر آپ میری باتوں کو ذہن سے اس طرح پھینک دیں گی جس طرح آپ کی فوج نے حطین اور بیت المقدس میں ہتھیار پھینکے تھے، میں آپ کو یہ باتیں صرف اس لیے سنا رہا ہوں کہ یہ میرے خدا اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے کہ جن کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے، ان کی پٹی کھول دو اور انہیں دکھائو کہ حق کیا اور باطل کیا ہے… غور کرو ملکہ محترمہ! آپ کے خاوند نے حسن بن صباح کے فدائیوں سے مجھے قتل کرانے کے لیے چار قاتلانہ حملے کرائے۔ ایک بار میں گہری نیند سویا ہوا تھا، جب انہوں نے مجھ پر حملہ کیا لیکن ہوا کیا؟ وہ خود قتل ہوگئے۔ ایک بار میں ا کیلا ان کے گھیر ے میں آگیا تھا لیکن میں بچ گیا اور وہ مارے گئے… اور اب آپ اس حقیقت سے کس طرح انکار کرسکتی ہیں کہ آپ کا خاوند جو مجھے فدائیوں سے قتل کرانے کی کوشش کرتا رہا، انہی کے ہاتھوں خود قتل ہوا۔ اسے کوئی نہ بچا سکا''…

''غور سے سنو ملکہ! حطین کے میدان سے آپ کا خاوند لڑے بغیر بھاگ گیا۔ آپ نے لڑے بغیر طبریہ کا قلعہ میرے حوالے کردیا۔ آپ سب نے جس صلیب الصلبوت پر لڑنے اور لڑتے ہوئے مرنے کی قسم کھائی تھی۔ وہ اسی میدان جنگ میں آپ کے اسی پادری کے خون میں ڈوب گئی جسے آپ اس صلیب کامحافظ اعظم کہتے تھے۔ یہ صلیب اب میرے قبضے میں ہے  اور آپ میرے پاس التجا لے کر آئی ہیں کہ گائی کو رہا کردوں''۔

''آپ مجھے یہ باتیں کیوں یاد دلا رہے ہیں؟'' ملکہ سبیلا نے جھنجھلا کر کہا۔

''اس لیے کہ آپ خدا کے ان واضح اشاروں کو سمجھیں''۔ سلطان ایوبی نے جواب دیا۔ ''آپ کی آنکھوں پر شہنشاہیت کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ آپ کو شہنشاہیت پر بھروسہ ہے اور آپ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کریں گی کہ آپ کو اس پر بھی ناز ہے کہ آپ عورت ہیں اور حسین عورت ہیں۔ میں یہ کہہ کر آپ کو خوش کرسکتا ہوں کہ آپ واقعی حسین ہیں مگر یہ کہہ کر آپ کو مایوس کروں گا کہ میں کوئی فیصلہ آپ کے حسن سے متاثر ہوکر نہیں کروں گا۔ آپ کا یہ نیم عریاں جسم مجھے صراطِ مستقیم سے ہٹا نہیں سکتا''۔

ملکہ سبیلا ایک عام عورت کی طرح ہنس پڑی اور بولی… ''مجھے بتایا گیا تھا کہ آپ پتھر ہیں''۔

سلطان ا یوبی نے مسکرا کر کہا… ''آپ کے لیے میں یقینا پتھر ہوں مگر میں ایسا موم ہوں جو ایمان کی حرارت سے پگھل جاتا ہے اور اسے رحم کا جذبہ بھی پگھلا دیتا ہے۔ جسمانی لذت اور آسائش انسان کو نہ اپنے کام کا رہنے دیتی ہے، نہ قوم کے کام کا اور اسے خدا بھی دھتکار دیتا ہے''۔

''میں آپ کے دل میں رحم کا جذبہ ہی بیدار کرنے آئی ہوں''… ملکہ سبیلا نے کہا… ''گائی کو رہا کردیں، میں نے سنا ہے کہ سچے مسلمان کے گھر اس کا دشمن چلا جائے تو وہ اسے بھی بخش دیتا ہے''۔


اس کے بعد ملکہ سبیلا منت سماجت پر آگئی۔ سلطان ایوبی نے اسے کہا کہ وہ گائی کو اس شرط پر چھوڑ دے گا کہ وہ تحریری عہد کرے کہ میرے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے گا۔ ملکہ سبیلا نے کہا کہ تحریری عہد نامہ دیا جائے گا اور یہ بھی تحریر کردیا جائے گا کہ گائی اس عہد سے پھر جائے اور پھر کبھی گرفتار ہوجائے تو اسے قتل کردیا جائے۔ آخر یہی طے ہوا۔ ملکہ سبیلا چلی گئی۔ سلطان ایوبی نے اسی روز گائی آف لوزنیان کی رہائی کا حکم نامہ قاصد کو دے کر دمشق روانہ کردیا۔ تین چار دنوں بعد گائی کو سلطان ایوبی کے پاس لایا گیا۔ سلطان ایوبی نے اپنے ترجمان سے جس کی معرفت وہ صلیبیوں کے ساتھ بات چیت کیا کرتا اور ان کی سمجھا کرتا تھا، کہا کہ اسے اس عہد نامے کا ترجمہ اس کی زبان میں سنا دو اور اگر یہ چاہے کہ اس کا ترجمہ اس کی زبان میں بھی تحریر کیا جائے تو کردو اور اس پر اس کے دستخط کرالو۔

''اور اسے یہ بھی کہہ دو کہ میں اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کرنا چاہتا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اسے کہہ دو کہ میں جانتا ہوں کہ یہ عہدنامے کی خلاف ورزی کرے گا اور میرے خلاف لڑے گا۔ اسے کہہ دو کہ میں نے ملکہ سبیلا سے متاثر ہوکر اسے رہا نہیں کیا۔ میں اسے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں اس جیسے گناہ گار آدمی کو بھی بخش سکتا ہوں میں اللہ کی راہ میں لڑ رہا ہوں، کسی سے میں ذاتی انتقام نہیں لینا چاہتا… اور یہ جہاں جانا چاہتا ہے، وہاں تک اسے محافظوں کی حفاظت میں پہنچا دو''۔

گائی آف لوزینان جو بیت المقدس کا حکمران تھا اور جنگ حطین میں جنگی قیدی ہوا تھا، عہدنامے پر دستخط کرکے سلطان ایوبی کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ سلطان نے ہاتھ بڑھایا۔ گائی نے پرجوش طریقے سے ہاتھ ملایا اور کہا… ''ایوبی! تم عظیم ہو''… اور خیمے سے نکل گیا۔

گائی کی رہائی کو یورپی مؤرخوں نے کھل کر بیان کیا ہے اور اسے ملکہ سبیلا کا کارنامہ لکھا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے ملکہ سبیلا سے متاثر ہوکر اور گائی کو اپنے جیسا بادشاہ سمجھ کر رہا کیا تھا اور جیسے اسے عام اور غریب لوگوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ قاضی بہائوالدین شداد نے جو صلیبی جنگوں میں سلطان ایوبی کے ساتھ تھا اور اس کی وفات تک اس کے ساتھ رہا، اپنی یادداشتوں میں ایک غریب عیسائی عورت کا واقعہ تحریر کیا ہے۔

یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب گائی آف لوزینان کی رہائی کے بعد صلیبیوں نے ساحلی شہر عکرہ کا محاصرہ کررکھا تھا۔ (اس محاصرے کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا) صلیبی فوج کے کیمپ کے ساتھ ہی ان عیسائی شہریوں کا کیمپ تھا جو دوسری جگہوں اور بیت المقدس سے نکل کر یہاں جمع ہوگئے تھے۔ محاصرہ دو سال طویل ہوگیا تھا۔ سلطان ایوبی کے ایک تو چھاپہ مار تھے جو محاصرہ کرنے والی صلیبی فوج کے کسی نہ کسی حصے پر شب خون مارتے رہتے تھے، دوسرے کچھ غیرفوجی مسلمان تھے جو انہی علاقوں کے رہنے والے تھے۔ انہیں اجازت دی گئی تھی کہ صلیبی فوج کو پریشان کرتے رہیں، چونکہ عیسائی شہری اپنی فوج کے ساتھ تھے، اس لیے وہ فوج کی بہت مدد کرتے تھے۔

مسلمان غیرفوجی گروہ ان عیسائی شہریوں کو بھی پریشان کرتے رہتے تھے۔ رات کو ان کے کیمپ میں گھس جاتے اور ان کا سامان اٹھا لاتے تھے۔ کبھی کبھی وہ ایک دو عیسائیوں کو بھی اٹھا لاتے اور انہیں جنگی قید میں دے دیتے۔ عیسائی شہری اپنی فو

: تے اور انہیں جنگی قید میں دے دیتے۔ عیسائی شہری اپنی فوج سے شکایت کرتے رہتے تھے کہ ''مسلمان چور اور ڈاکو'' رات کو آکر ان کا سامان چوری کرلیتے ہیں۔ فوج نے پہرے کا انتظام کردیا۔ اس کے باوجود ''چوری چکاری'' اور اغوا کا سلسلہ جاری رہا۔

ایک رات ایک آدمی عیسائیوں کے کیمپ سے تین ماہ عمر ایک بچی اٹھا لایا۔ ماں کی یہ ایک ہی بچی تھی اور وہ بھی دودھ پیتی بچی۔ اس نے واویلا بپا کردیا۔ وہ صلیبی کمانڈروں کے پاس گئی۔ وہ پاگل ہوئی جارہی تھی۔ کسی کے ہاتھ نہیں آتی تھی۔ صلیبیوں کے اعلیٰ کمانڈر تک وہ جاپہنچی۔ اس نے اس عورت کو اجازت دے دی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا کیمپ قریب ہی ہے، اس کے پاس چلی جائو۔ سب کو یقین تھا کہ بچی کو مسلمان اٹھا لے گئے ہیں۔

مامتا کی ماری ہوئی ماں پوچھتی بھٹکتی سلطان ایوبی کے کیمپ میں آن پہنچی۔ قاضی بہائوالدین شداد لکھتا ہے کہ اس وقت وہ سلطان ایوبی کے پاس کھڑا تھا اور سلطان کہیں جانے کے لیے گھوڑے پر سوار ہوچکا تھا۔ کسی نے اسے بتایا کہ ایک غریب سی عیسائی عورت روتی آئی ہے اور سلطان سے ملنا چاہتی ہے۔ سلطان ایوبی نے کہا کہ اسے فوراً لے آئو، اس پر یقینا ہماری طرف سے زیادتی ہوئی ہوگی۔

عورت جب سلطان ایوبی کے سامنے آئی تو وہ گھوڑے کے قریب زمین پر پیٹ کے بل لیٹ گئی۔ وہ بار بار ماتھا مین پر رگڑتی اور روتی تھی۔ سلطان ایوبی نے اسے کہا کہ اٹھو اور بتائو کہ تم پر کس نے زیادتی کی ہے؟

''مجھے اپنے فوجی کمانڈروں نے کہا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے پاس چلی جائو۔ وہ بہت رحم دل ہے اور فریاد سنے گا''… عورت نے کہا… ''آپ کے آدمی میری دودھ پیتی بچی اٹھا لائے ہیں''۔

قاضی بہائوالدین شداد لکھتا ہے کہ عورت جس انداز سے روتی تھی اور جو فریادیں کرتی تھی، اس سے سلطان ایوبی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بچی کو اغوا ہوئے چھ سات دن گزر چکے تھے۔ سلطان ایوبی گھوڑے سے اتر آیا۔ اس نے حکم دیا کہ ابھی معلوم کرو کہ بچی کون لایا ہے۔ اس نے عورت کو کھانا کھلانے کو کہا اور جہاں کہیں وہ جارہا تھا، وہاں نہ گیا۔ وہ مسلمان شہری جو عیسائی کیمپ میں سامان وغیرہ اٹھانے جاتے تھے، فوج کے ساتھ رہتے تھے۔ ان میں جو آدمی بچی اٹھا لایا تھا، وہ وہاں موجود تھا۔ وہ سلطان ایوبی کے پاس آگیا۔ اس نے بتایا کہ بچی اسی نے اغوا کی تھی اور اسے وہ فروخت کرآیا ہے۔ سلطان ایوبی نے حکم دیا کہ اس آدمی کے ساتھ اس شخص کے پاس جائو جس نے اس سے بچی خریدی ہے اور اس نے جو قیمت دی تھی، وہ اسے دے کر بچی لے آئو۔

سلطان ایوبی بچی کی واپسی تک اپنے خیمے میں موجود رہا۔ بچی دور نہیں گئی تھی۔ جلدی مل گئی۔ اس کی قیمت واپس کردی گئی۔ سلطان ایوبی نے اپنے ہاتھوں بچی ماں کے ہاتھوں میں دی۔ ماں نے بچی کو فوراً اپنی چھاتیوں کے ساتھ لگا لیا اور ایسی بے تابی سے پیار کیا کہ (شداد کے الفاظ میں) ہم سب پر رقت طاری ہوگئی۔ سلطان ایوبی نے اسے ایک گھوڑی پر رخصت کیا۔

بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا اور ارض فلسطین میں صلیبیوں کو ہر مقام پر شکست ہوئی تو صلیبی دنیا میں پھونچال آگیا۔ اس وقت تین بادشاہیاں جنگی لحاظ سے بہت طاقتور مانی جاتی تھیں۔ ایک تھی فرانس، دوسری جرمنی اور تیسری انگلستان۔ ان کے پوپ (پاپائے روم اربانوس ثانی) نے خود ہر ایک کو پاس جاکر انہیں جنگ کے لیے تیار کیا۔ اس کی زبان پر ہر جگہ یہی الفاظ تھے:

''اگر تم صلاح ا لدین ایوبی کے خلاف نہ اٹھے تو سارے یورپ میں صلیب اٹھ جائے گی اور ہر جگہ تمہیں اسلامی جھنڈے لہراتے نظر آئیں گے۔ یہ جنگ صلاح الدین ایوبی کی ذاتی جنگ نہیں، یہ عیسائیت اور اسلام کی جنگ ہے۔ صلیب اعظم مسلمانوں کے قبضے میں ہے۔ یروشلم پر مسلمانوں کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ ہزار ہا عیسائی عورتیں مسلمانوں کے قبضے میں چلی گئی ہیں۔ وہ مسلمان فوج میں تقسیم کی جارہی ہیں، کیا تم گھر بیٹھے اسلام کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روک سکو گے؟ تم کس طرح برداشت کررہے ہو کہ وہ صلیب جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا تھا، مسلمانوں کے قبضے میں چلی جائے؟

''

 پوپ نے اس قسم کی جھوٹی سچی باتیں سنا کر بڑے بڑے صلیبی بادشاہوں کو مشتعل کردیا۔ جرمنی کا بادشاہ فریڈرک دو لاکھ فوج لے کر سب سے پہلے آگیا۔ یہ فوج اتنی زیادہ تھی کہ اس نے کسی صلیبی بادشاہ کو اپنا اتحادی نہ بنایا۔ اس نے اپنا پلان بنا رکھا تھا۔ اس کے مطابق اس نے دمشق پر حملہ کیا۔ اس کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ سلطان ایوبی کے طریقہ جنگ سے واقف نہیں تھا۔ وہ دو لاکھ نفری کے لشکر کے بھروسے پر سرزمین عرب پر قبضہ کرنے آیا تھا۔ دمشق پر اس کے حملے کو دوسری صلیبی جنگ کہتے ہیں، جو فریڈرک نے اپنی کثیر افواج کے زعم میں لڑنے کی کوشش کی اور جس میں دمشق کی وہ ایک اینٹ بھی نہ اکھاڑ سکا۔ مسلمان چھاپہ ماروں نے اس کی رسد پر ایسے دلیرانہ چھاپے مارے کہ اس کے سینکڑوں گھوڑے اور گھوڑا گاڑیاں اپنے ساتھ لے آئے۔ رسد جو ان کے ہاتھ لگی، وہ انہوںنے اپنی فوج کے حوالے کردی۔

فریڈرک بری طرح ناکام ہوا۔ اس کے پاس رسد کی کمی ہوگئی اور فوج کا جانی نقصان بھی بہت ہوا۔ اس نے پیچھے ہٹ کر دمشق پر ازسرنو حملے کی تیاریاں شروع کردیں لیکن مسلمان چھاپہ ماروں نے اس کی فوج کو چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ پانی کے ذخیروں پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ اس کی تاریخ ٢٠جنوری ١١٩١ء (٢٢ذی الحج ٥٧٦ہجری) لکھی گئی ہے۔ اس کے ماتم میں جرمنوں نے اپنے کیمپ میں جگہ جگہ لڑکیاں جمع کرکے اس طرح آگ لگائی جیسے ان کا کیمپ جل رہا ہو۔ ادھر مسلمان سپاہیوں نے وہ رات خوشی سے دف اور نقارے بجاتے اور ناچتے گاتے گزار دی۔

جرمن فوج کی کمان اس کے بیٹے نے سنبھال لی۔ اسے معلوم تھا کہ شاہ فرانس فلپس آگسٹس اور شہنشاہ انگلستان رچرڈ بھی آرہے ہیں۔ وہ بحری جہاز سے آرہے تھے، فریڈرک کے بیٹے نے فلسطین کے ساحی شہر عکرہ کی طرف کوچ کا حکم دے دیا۔ سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں کو ہدایات دے رکھی تھیں، ان کے مطابق اس کی فوج پر جوابی حملہ نہ کیا بلکہ اسے جانے دیا۔ ان سالاروں کو معلوم تھا کہ راستے میں اپنے چھاپہ مار جیش موجود ہیں۔ ان چھاپہ ماروں کا انداز یہ تھا کہ دشمن کی فوج کے آخری حصے پر شب خون مارتے اور غائب ہوجاتے۔ یہ زیادہ نفری کے جیش تھے۔ رات کو جرمن پڑائو کرتے تو چھاپہ مار آتش گیر سیال کی ہانڈیاں چھوڑی منجنیقوں سے جرمنوں کے کیمپ پر پھینکتے اور ان کے پیچھے جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر چلاتے جن سے کیمپ میں آگ لگ جاتی۔

جرمن فوج جب عکرہ پہنچی تو اس کی نفری صرف بیس ہزار رہ گئی تھی۔ یہ فوج جب ارض مقدس میں داخل ہوئی تھی تو اس کی نفری دو لاکھ تھی۔ اس میں سے کچھ دمشق پر حملے کے دوران تباہ ہوئی، کچھ بیماری، بھوک اور پیاس کی نذر ہوگئی، کچھ دمشق سے عکرہ تک کوچ کے دوران چھاپہ ماروں کا شکار ہوگئی اور ان سپاہیوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی جو فوج سے بھگوڑے ہوگئے تھے، جو بیس ہزار نفری رہ گئی تھی وہ بری طرح بدول ہوچکی تھی۔ اس کے دل سے صلیب کا احترام اور اپنا حلف صاف ہوچکا تھا۔

ادھر سے شاہ فرانس اور شہنشاہ انگلستان سمندر کے راستے چلے آرہے تھے۔ سلطان ایوبی کو جاسوسوں نے قبل از وقت بتا دیا تھا کہ انگلستان کی فوج جو اس وقت قبرص میں پہنچ چکی تھی، کیسی ہے اور اس کی نفری کتنی ہے۔ اس کی نفری ساٹھ ہزار تھی۔ فرانس کی فوج کی نفری بھی تقریباً اتنی ہی تھی۔ بیس ہزار جرمن فوج تھی۔ صلیبیوں کی کچھ فوج پہلے سے ارض مقدس میں موجود تھی۔

سلطان ایوبی کو جاسوسوں نے یہ اطلاع بھی دی کہ گائی آف لوزینان جو یہ عہدنامہ کرکے سلطان ایوبی کی جنگی قید سے رہا ہوا تھا کہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے گا، کائونٹ کونراڈ کے ساتھ مل کر الگ فوج جمع کرچکا ہے جس میں سات سو نائٹ (زرپوش سردار) ہیں، نو ہزار فرنگی فوج اور بارہ ولندیزی اور دیگر یورپی افسر اور سپاہی ہیں۔ اس طرح صرف اس فوج کی نفری تقریباً بائیس ہزار ہوگئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق صلیبی فوج کی مجموعی نفری چھ لاکھ تھی جو اسلحہ اور دیگر جنگی سازوسامان کے لحاظ سے اسلامی فوج سے برتر تھی۔

سلطان ایوبی کے ساتھ دس ہزار مملوک تھے، یہ اس کی منتخب فوج تھی جس پر اسے پورا پورا بھروسہ تھا۔ عکرہ نہایت اہم مقام تھا۔ یہ بندرگاہ بھی تھی جسے قدرت نے ایسا بنایا تھا کہ بحریہ کا بہت بڑا اور محفوظ اڈہ بن سکتی تھی۔ عکرہ شہر میں سلطان ایوبی کی فوج کی نفری دس ہزار تھی۔ سلطان ایوبی بیت المقدس سے کمک نہیں لے سکتا تھا کیونکہ یہی وہ شہر تھا جس کی خاطر صلیبیوں نے اتنا زیادہ لشکر اکٹھا کیا تھا۔ اس شہر کے د فاع کو کمزور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ دوسرے شہروں اور قلعوں سے بھی فوج کو نہیں نکالا جاسکتا تھا۔ انگلستان کا بحری بیڑہ بہت طاقتور اور خوفناک تھا۔ سلطان ایوبی کو اچھی طرح احساس تھا کہ اس کا مصری بحری بیڑہ انگلستان کے بیڑے کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

: سلطان ایوبی کے لیے یہ اتنا بڑا اور زیادہ خطرناک چیلنج تھا جو اسے قبول کرنا تھا مگر اس کا مقابلہ مخدوش نظر آرہا تھا۔ اسے ایک خطرہ اور بھی نظر آرہا تھا جو یہ تھا کہ اس کی فوج چار سال سے لڑ رہی تھی۔ اس کے چھاپہ مار اتنی لمبی مدت سے جنگلوں اور پہاڑوں میں لڑ اور مر رہے تھے اور وہ وہیں زندگی بسر کررہے تھے۔ جنگ کے جسمانی پہلو کو دیکھا جائے تو یہ فوج لڑنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ مذہب کی لگن کے جذبے کے زور پر وہ اس قلیل اور تھکی ہوئی فوج کو چھ لاکھ تازہ دم صلیبی فوج کے خلاف کس طرح لڑا سکتا تھا۔

قاضی بہائوالدین شداد جو اس کی مجلس مشاورت کا رکن اور اس کا مشیر خاص اور ہم راز بھی تھا، لکھتا ہے کہ سلطان ایوبی کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ راتوں کو سوتا بھی نہیں تھا۔ ہر وقت گہری سوچ میں غرق رہتا اور ذہن میں جنگ کے نقشے بناتا رہتا تھا۔ اس کی صحت گر رہی تھی اور ایک بار وہ بیمار پڑ گیا۔ چوتھے روز اٹھ بیٹھا لیکن اس کی صحت میں پہلی والی جان نہیں رہی تھی۔ اس کی عمر ٥٤برس ہوگئی تھی۔ وہ نوجوانی میں میدان جنگ میں اترا تھا اور ابھی تک جنگلوں، پہاڑوں اور صحرائوں میں لڑ رہا تھا۔ اس نے بیت المقدس کی فتح کی قسم کھائی تھی جو اس نے پوری کردی تھی۔ اس کے بعد اس نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ اپنے جیتے جی بیت المقدس سے اسلامی پرچم نہیں اترنے دے گا۔ یہ تھا وہ عہد جس نے اسے نیند اور آرام سے محروم کردیا تھا۔

٭ ٭ ٭

امریکی تاریخ دان اور محقق اینتھونی ویسٹ نے ہیر لڈلیم، لین پول، گبن اور ارنول جیسے مشہورومعروف مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے۔ ''سلطان ایوبی مسجد اقصیٰ میں جا بیٹھا اور سارا دن خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر دعا کرتا رہا کہ خدا اسے اس نازک موقعہ پر اسلامی فوج کی صحیح عسکری قیادت کی توفیق عطا فرمائے۔ ایک شخص کے بیان کے مطابق جس نے اسے مسجد میں پڑے دیکھا تھا، اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ شام ہوئی تو وہ مسجد سے نکلا۔ اس وقت اس کے چہرے پر اطمینان اور سکون تھا''۔

یہ صحیح ہے کہ سلطان ایوبی مسجد اقصیٰ میں جاکر سجدہ ریز ہوا اور اس نے رو رو کر خدائے ذوالجلال سے مدد اور رہبری مانگی تھی لیکن اس وقت کے عینی شاہدوں اور وقائع نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ دن کے وقت نہیں بلکہ رات کے وقت مسجد اقصیٰ گیا تھا۔ اس نے ساری رات نوافل، دعا اور ورد وظیفے میں گزاری اور صبح کی نماز پڑھ کر باہر آیا تھا۔

اس رات وہ مسجد میں اکیلا نہیں تھا۔ مسجد کے صحن میں ایک کونے میں کوئی آدمی اپنے اوپر کمبل ڈالے بیٹھا تھا۔ وہ کبھی ایک سجدے کرتا، کبھی دو اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہاتھ منہ پر پھیرتا اور پھر سجدے میں چلا جاتا تھا۔ اسے نماز پڑھنی نہیں آتی تھی یا وہ کوئی ایسا ورد یا وظیفہ کررہا تھا جس میں اسی طرح سجدے اور دعا کرنی تھی۔ یہ شخص اس وقت مسجد کے کونے میں آبیٹھا تھا جس وقت عشاء کی نماز پڑھ کر آخری نمازی مسجد سے نکل گیا تھا۔ اس کا چہرہ کمبل میں چھپا ہوا تھا۔

صبح جب مؤذن نے اذان دی تو وہ اٹھا اور اپنے آپ کو کمبل میں چھپا کر مسجد سے نکل گیا تھا۔ ایک آدمی جو مسجد کے دروازے میں داخل ہورہا تھا، اسے دیکھ کر رک گیا۔ کچھ دیر دیکھتا رہا پھر اس کے پیچھے چل پڑا۔ کمبل والے نے گھوم کر دیکھا اور قدم تیز کرلیے۔ اس کے تعاقب میں جانے والا بھی تیز تیز چلنے لگا۔ آگے ایک اور آدمی کھڑا تھا۔ کمبل والا اس کے پاس رکا اور کچھ کہہ کر آگے چلا گیا۔ دوسرا آدمی وہیں کھڑا رہا۔ تعاقب میں جانے والے نے اس سے پوچھا کہ یہ کون تھا۔

''اوہ! یہ تم ہو''۔ اس آدمی نے کہا۔ ''تم اس کا تعاقب کررہے ہو؟''

''میں نے اس کے پائوں دیکھے ہیں''… تعاقب کرنے والے نے کہا… ''یہ مرد نہیں، عورت ہے۔ تمہاری رشتہ دار ہے؟ تم اسے جانتے ہو؟''

''احتشام دوست!''… اس آدمی نے کہا… ''میں جانتا ہوں تم اپنا فرض ادا کررہے ہو۔ ہر کسی پر نظر رکھنا تمہارے فرائض میں شامل ہے اور میرا فرض ہے کہ میں تم سے کچھ بھی نہ چھپائوں، لیکن ایک عورت کا مسجد میں جانا گناہ تو نہیں''۔

''بالکل نہیں''… احتشام نے کہا… ''مجھے شک اس سے ہوا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو کمبل میں کیوں لپیٹ رکھا ہے؟… سنو العاص رات کو ہم تین آدمی مسجد کے اردگرد پہرے پر پھرتے رہے ہیں کیونکہ سلطان نے رات مسجد میں گزاری ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ ہم بہروپ میں ان کی حفاظت کے لیے پہرہ دیتے رہے ہیں۔ سلطان کسی کو بتائے بغیر مسجد میں آئے تھے۔ انہیں معلوم نہیں کہ ان کے باوردی محافظوں کے علاوہ بھی کوئی ان کی حفاظت پر مامور ہے۔ یہ حسن بن عبداللہ کا انتظام ہے۔ تم خود فوج کے کمان دار ہو اور مجھے اچھی طرح جانتے ہو، اس لیے تمہیں یہ سب کچھ بتا رہا ہوں''۔

''ضرور بتائو احتشام!''… العاص نے جواب دیا… ''بیت المقدس میں اور مسجد اقصیٰ کے اتنی قریب کھڑے ہوکر مسلمان جھوٹ نہیں بول سکتا۔ میں تمہیں بتا دوں گا کہ یہ کون ہے۔ تم یہ بتائو کہ تم نے اس پر کیوں شک کیا ہے؟''

''میں نے رات اسے صحن کے کونے میں دیکھا''… احتشام نے جواب دیا… ''سلطان کی حفاظت کے لیے ضروری تھا کہ اسے وہاں سے اٹھا دیا جاتا۔ عشاء کا وقت گزر گیا تھا۔ اس آدمی کو چلے جانا چاہیے تھا۔ اس وقت سلطان اندر منبر کے سامنے عبادت اور وظیفے میں مصروف تھا۔ یہ آدمی جو کمبل میں لپٹا ہوا تھا۔ سلطان پر قاتلانہ حملہ کرسکتا تھا لیکن کسی کو مسجد سے اٹھایا اور نکالا نہیں جاسکتا۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ یہ شخص عجیب طریقے سے عبادت کررہا تھا۔ سجدے سے اٹھتا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیتا۔ اس نے باقاعدہ نماز نہیں پڑھی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا۔ میرے دونوں ساتھیوں نے باری باری اندر آکر اس طرح اسے دیکھا کہ اسے پتہ نہ چلے کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے۔ میرے اس ساتھی نے باہر آکر بتایا کہ اس پر نظر رکھو لیکن اسے اٹھانا نہیں، کیونکہ میں نے اس کے بالکل پیچھے بیٹھ کر اس کی سسکیاں سنی ہیں اور اس کے بعض الفاظ ایسے سنے ہیں جیسے یہ اپنے گناہوں کی بخشش اور صلیبیوں کی شکست کی دعا کررہا ہے''…

جاری ھے ،



 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں