داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 68 - اردو ناول

Breaking

بدھ, جنوری 29, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 68

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔68- جب خدا زمین پر اتر آیا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسرے چار سپاہی پہرے کے لیے گئے ہی نہیں۔ چوکی سے کچھ دور رات کی طرح سیاہ چہروں والے کم وبیش پچاس آدمی ایک دوسرے کے پیچھے سوڈان کی طرف سے آرہے تھے۔ دو آدمی ان سے بہت آگے تھے۔ پیچھے والے تھوڑا سا چل کر رک جاتے تھے۔ آگے والے دو آدمی اندھیرے میں ادھر ادھر دیکھتے، رات کی آوازوں کو سننے کی کوشش کرتے اور گیڈروں کی طرح بولتے، پیچھے والے اس آواز پر آگے چل پڑتے۔ دور چوکی سے سازوں کے دھیمے دھیمے نغمے سرحد کی خاموش فضا میں بکھر رہے تھے… آگے چٹانی علاقہ آگیا۔ سیاہ چہروں والے کالے کالے سائے چٹانوں میں غائب ہوگئے۔ ان کے پاس برچھیاں تھیں، تلواریں اور خنجر بھی تھے اور ہر ایک نے چار چار پانچ پانچ کمانیں اور تیروں کا وزنی خزانہ اٹھا رکھا تھا۔
ان کے استقبال کے لیے وہاں تین چار آدمی موجود تھے۔ ان میں سے کسی نے آنے والی پارٹی کے سردار سے ہنس کر کہا… ''لڑکیوں نے کام کردیا ہے''۔
''ہاں!''… سردار نے کہا… ''ہم ان کے سازوں کے نغمے سنتے آئے ہیں۔ میں نے دس بارہ آدمی وہاں تماشائیوں کے بھیس میں بھیج دئیے تھے۔ ان میں سے ایک نے آکر اطلاع دی تھی کہ محفل گرم ہوگئی ہے اور راستہ صاف ہے۔ گشتی سنتری بھی ناچ گانے میں چلے گئے ہیں''۔
''نیل سے بھی اچھی اطلاع ملی ہے''… استقبال کرنے والوں میں سے ایک نے کہا… ''ان لوگوں نے لڑکیوں سے صحیح کام لیا ہے۔ دو سپاہیوں کو جوکل رات اس طرف پہرے پر ہوں گے، پھانس لیا گیا ہے۔ میں نے اطلاع بھیج دی ہے۔ کل رات کم از کم تین بڑی کشتیاں آجائیں گی''۔
وہ آگے چل پڑے۔ چٹانیں اونچی ہوتی گئیں۔ آگے پہاڑیاں آگئیں۔ سردار رک گیا اور اس نے ساری پارٹی کو بھی روک دیا۔ اس نے استقبال کرنے والوں سے سرگوشی میں کہا… ''یہ نہ بھولنا کہ یہ سب حبشی ہیں، ان کا مذہب عجیب وغریب ہے اور ان کی عادتیں اور رسومات تمہیں حیران کردیں گی۔ احتیاط کرنی ہے کہ یہ جیسی کیسی مضحکہ خیز حرکت کریں اسے احترام کی نگاہ سے دیکھنا۔ ہم انہیں مذہب کے نام پر لائے ہیں۔ انہیں جھانسہ دیا ہے کہ انہیں اس جگہ لے جارہے ہیں جہاں خدا رہتا ہے۔ وہ خدا جو ریت کو پیاسا رکھتا، سورج کو آگ دیتا اور آسمان سے بجلی اور پانی برساتا ہے۔ ایک مشکل پیش آئے گی۔ یہ لوگ جنگ سے پہلے انسانی قربانی دینے کے قائل ہیں''۔
یہ ان کا سردار بتائے گا کہ قربانی مرد کی دینی ہے یا عورت کی یا ایک مرد اور ایک عورت کی۔ اگر ہم نے ان کی یہ رسم پوری کردی تو پھر انہیں لڑائی میں دیکھنا، قاہرہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کی یہ فوج ان کے سامنے ایک دن سے زیادہ نہ ٹھہر سکے گی۔
سردار نے سب سے کہا… ''سجدے میں گر پڑو، تم خدا کے گھر میں آگئے ہو''… سب سجدے میں گر پڑے۔ سردار کے کہنے پر اٹھے اور سردار کے پیچھے چل پڑے۔
یہ سوڈانی حبشی تھے جنہیں مصر میں داخل کیا جارہا تھا۔ انہیں چھپانے کے لیے اس پہاڑی خطے کا انتخاب کیا گیا تھا۔ فرعونوں کے وقتوں کی غار جو دراصل زمین دوز عمارتیں تھیں، بہت بڑی فوج کو گھوڑوں اور اونٹوں سمیت چھپا سکتی تھیں۔ سوڈان میں خونخوار حبشیوں کو ان کے مذہب اور توہم پرستی کے ذریعے اکٹھا کرکے فوجوں کے خلاف لڑنے کی ٹریننگ دی جارہی تھی۔ لڑنے کے تو وہ ماہر تھے۔ ان کے قبیلوں کی جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ تیر اندازی اور نشانے پر برچھی پھینکنے کے وہ ماہر تھے۔ سوڈان کے حکمرانوں نے صلیبیوں سے معاہدہ کرکے بہت سے صلیبی فوجی افسروں کو بلا لیا تھا۔ وہ ان حبشیوں کو منظم اور باقاعدہ کمانڈ کے تحت لڑنے کی ٹریننگ دے رہے تھے، اس سے پہلے سوڈانی فوج دوبار شکست کھا چکی تھی۔ تیسری جنگ اس وقت ہوئی تھی جب سلطان صلاح الدین ایوبی کے بھائی تقی الدین نے سوڈان پر حملہ کیا تھا۔ سوڈانیوں نے یہ حملہ ناکام کرکے تقی الدین کی فوج کو بری طرح بکھیر دیا تھا۔ تقی الدین سلطان صلاح الدین ایوبی کی مدد سے اپنی بچی کھچی فوج واپس لے آیا تھا۔ اس میں سوڈانیوں کی ناکامی یہ تھی کہ انہوں نے تقی الدین کا تعاقب نہ کیا اور مصر پر حملہ نہ کیا۔ اگر سوڈانی تعاقب کرتے تو تقی الدین کی فوج اتنی تھکی ہاری تھی کہ مصر کو سوڈانیوں سے بچا نہ سکتی۔
: ان ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے صلیبیوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کا طریقہ جنگ آزمانے کی سکیم بنائی تھی۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کم سے کم نفری سے زیادہ سے زیادہ فوج پر شب خون قسم کا حملہ کرتا اور جم کر لڑنے کے بجائے اپنے دستوں کو گھما پھرا کرلڑاتا اور بڑی سے بڑی گٹھی ہوئی فوج کو بکھیر دیتا ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس قسم کے حملے کے لیے بڑی ہی سخت ٹریننگ اور خاص قسم کے سپاہیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام قسم کی فوج صرف ہجوم کی صورت میں لڑ سکتی ہے چنانچہ انہوں نے حبشی قبائل میں جنگی جنون پیدا کرکے تھوڑی سی فوج تیار کرلی تھی اور انہیں شب خون کی ٹریننگ دی تھی۔ وہ قاہرہ والوں کو بے خبری میں دبوچ لینا چاہتے تھے۔ اب سلطان صلاح الدین ایوبی مصر میں نہیں تھا۔ انہیں یقین تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی غیر حاضری میں وہ میدان مار لیں گے۔
انہیں اس حملے کی کمان کے لیے ایک ایسے جرنیل کی ضرورت تھی جو مصر کی فوج کا ہوتا کہ وقت اور قوت کم سے کم صرف ہو اور حملہ صحیح ٹھکانوں پر ہو۔ ان کی یہ ضرورت سلطان صلاح الدین ایوبی کے سالار القند نے پوری کردی تھی۔ سوڈان کے حبشیوں کی فوج کو چھپانے کے انتظامات القند نے ہی کیے تھے۔ اس نے مصری فوج کے چار پانچ جونیئر کمانڈر بھی اپنے ساتھ ملا لیے تھے۔ جاسوسوں کے ذریعے اس کا رابطہ سوڈان کے ساتھ تھا۔ اب یہ فوج مصر میں داخل ہورہی تھی۔
رات گئے تک چوکی پر ناچ گانا ہوتا رہا۔ دوسری چوکی کا کمانڈر وہاں سے اپنی چوکی کے لیے روانہ ہونے لگا تو اس نے اس چوکی کے کمانڈر سے کہا کہ وہ ان لوگوں سے کہے کہ کل رات اس کی چوکی پر آئیں۔ سازندے مان گئے۔ انہیں اورجانا ہی کہاں تھا۔ وہ تو سوڈانیوں بلکہ القند کے بھیجے ہوئے لوگ تھے۔ یہ تو انہوں نے جھوٹ بولا تھا کہ وہ کسی کے بلاوے پر اس کے گائوں جارہے تھے۔ ان کے ذمے یہی کام تھا کہ ان دو چوکیوں پر پانی پینے کے بہانے رکیں اور ایسی باتیں کریں کہ چوکیوں کے کمانڈر ان کے جال میں آجائیں۔ ناچنے والی لڑکیاں دل کش تھیں، کمانڈر ان کے جال میں آگیا۔ اس نے دریا والی چوکی کے کمانڈر کو بھی بلا لیا… اور پچاس حبشی سرحد پار کرکے پہاڑیوں کے پیٹ میں غائب ہوگئے۔
اگلی رات دونوں رقاصائیں دریا والی چوکی پر جا پہنچیں اور وہاں بھی رونق پیدا کی گئی جو اس چوکی پر کی گئی تھی۔ رات کے دوسرے پہر دریا کے ساتھ ساتھ گشت کرنے والے دو سپاہی واپس آگئے۔ ان کی جگہ دوسرے دو سپاہی روانہ ہونے لگے۔ انہیں ساتھیوں نے کہا کہ وہ یہ رونق چھوڑ کر نہ جائیں۔ کمانڈر اس وقت لڑکیوں اور ان کے رقص میں مست ہے لیکن وہ دونوں یہ کہہ کر چل پڑے کہ وہ اپنے فرض میں کوتاہی نہیں کرنا چاہتے۔ یہ وہی دوسپاہی تھے جنہیں دو لڑکیوں نے محبت کا اظہار کرکے کہا تھا کہ وہ اپنے بوڑھے خاوندوں سے نجات حاصل کرکے ان کے ساتھ جانا چاہتی ہیں۔ انہیں فرض کا اتنا خیال نہیں تھا جتنا ان لڑکیوں کے پاس پہنچنے کا اشتیاق تھا۔ لڑکیوں نے انہیں کہا تھا کہ وہ انہیں ملیں گی۔
اس سے پہلے وہ آہستہ آہستہ چلتے، رکتے اور چلتے تھے مگر اس رات چوکی سے ذرا دور ہوتے ہی انہوں نے گھوڑے دوڑا دئیے۔ ایک جگہ گھوڑے روک کر اترے اور آہستہ آہستہ چلتے الگ الگ ہوگئے۔ دونوں لڑکیوں مختلف جگہوں پر ان کا انتظار کررہی تھیں۔ وہ دونوں کو دریا سے دور چٹانوں میں لے گئیں۔ دونوں نے ان پر اپنے حسن وجوانی اور محبت کا طلسم طاری کردیا اورخاوندوں کے قتل کی سکیمیں بنتی رہیں۔ دونوں نے کہا کہ وہ اپنے خاوندوں کو شراب میں خواب آور سفوف پلا کر سلا آئی ہیں۔ دونوں سپاہی ایک چٹان کے اس طرف دوسرا کہیں اور، صرف فرض کو ہی نہیں گردوبیش کو اور دنیا کو بھی فراموش کیے بیٹھے تھے۔
اس جگہ سے تھوڑی دور آگے جہاں ان سپاہیوں نے تاجروں کے قافلے کو بیٹھے دیکھا تھا۔ دریا کے کنارے چار سائے ادھر ادھر حرکت کررہے تھے۔ دریا کی ہلکی ہلکی لہریں جلترنگ بجا رہی تھیں۔ یہ آدمی پانی کی سطح پر تاریکی میں دور دیکھنے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ بے چین ہوئے جارہے تھے۔ ایک نے کہا… ''انہیں اس وقت تک آجانا چاہیے تھا''… دوسرے نے کہا… ''انہیں اطلاع تو دے دی گئی تھی''۔ ایک نے آنکھیں سکیڑ کر کہا… ''وہ بادبان معلوم ہوتے ہیں''… اس نے ایک دیا جلا کر آہستہ آہستہ دائیں بائیں ہلانا شروع کردیا۔ دریا میں دور دو دیئے جلتے نظر آئے اور بجھ گئے۔
: تھوڑی دیر بعد ایک بادبانی کشتی کنارے کے ساتھ آلگی۔ کنارے پر کھڑے ایک آدمی نے کہا… ''کسی کی اونچی آواز نہ نکلے''… مکمل خاموشی سے سیاہ کالے حبشی کشتی سے کنارے پر کودنے لگے۔ اس کے پہلو میں ایک اور کشتی 
آرکی۔ اس میں سے بھی حبشی اترے۔ یہ بہت بڑی کشتیاں تھیں۔ ان میں سے کم وبیش دو سو حبشی اترے۔ پھر ان میں سے سامان اترنے لگا۔ یہ سب جنگی سامان تھا۔ جونہی کشتیاں خالی ہوئیں ملاحوں سے کہا گیا کہ بہت تیزی سے کشتیاں واپس لے جائیں۔ ملاحوں نے بادبانوں کے رسے کھینچے، رخ بدلے اور کشتیاں ساحل سے ہٹ کر اندھیرے میں غائب ہوگئیں… اور حبشیوں کی یہ کھیپ بھی چٹانوں میں سے ہوتی ہوئی پہاڑیوں میں گئی اور غائب ہوگئی۔
٭ ٭ ٭
یہ دونوں سپاہی واپس آئے تو چوکی پر ناچ گانے کی محفل ختم ہوگئی تھی۔ سپاہی اپنے اپنے خیموں کو جارہے تھے۔ ناچنے گانے والوں کے لیے کمانڈر نے الگ خیمہ کھڑا کردیا تھا۔ اسے ایک لڑکی کچھ زیادہ ہی اچھی لگی۔ وہ چہرے مہرے سے معصوم سی لگتی تھی۔ کمانڈر نے یہ سوچ کر کہ یہ پیشہ ور لوگ ہیں۔ سازندوں سے کہا کہ اس لڑکی کو وہ اس کے خیمے میں بھیج دیں۔ یہ لوگ دراصل جاسوس اور تخریب کار تھے۔ ان کا مشن ہی یہی تھا کہ ان دو چوکیوں کو اپنے جال میں الجھائے رکھیں اور ان کے کمانڈروں کو اپنے ساتھ رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اس کی خواہش فوراً پوری کردی گئی۔ رقاصہ اس کے ساتھ خیمے میں چلی گئی۔
کمانڈر ادھیڑ عمر تھا ور لڑکی نوجوان۔ خیمے میں جاکر لڑکی کی شوخی ختم ہوگئی۔ وہ تو ناچنے کودنے والی اور بڑی ہی پیاری مسکراہٹ سے تماشائیوں کا دل بہلانے والی رقاصہ تھی۔ باہر کی مشعلیں بجھ چکی تھیں۔ خیمے میں دیا جل رہا تھا۔ لڑکی ایک طرف بیٹھ کر کمانڈر کو گہری نظروں سے دیکھنے لگی۔
''میں نے کبھی شراب نہیں پی''… کمانڈر نے کہا۔
''میرے باپ نے بھی کبھی شراب نہیں پی تھی''… رقاصہ نے کہا… ''تم نے شراب کا نام کیوں لیا ہے؟ میں نے تو نہیں کہا تھا کہ شراب پیو۔ تم شاید یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہمارے پاس شراب بھی ہوگی اور میں لاکر تمہیں پلائوں گی''۔
''کہتے ہیں شراب کے بغیر عورت اور عورت کے بغیر شراب بے مزہ اور پھیکی ہوتی ہے''… کمانڈر نے مسکرا کر کہا… ''میں شراب کے ذائقے سے واقف نہیں اور میں غیرعورت کی چاشنی سے بھی آشنا نہیں''۔
''پھر تم اناڑی گناہ گار ہو''… رقاصہ نے سنجیدگی سے کہا… ''میں تم سے کوئی نقد اجرت نہیں لوں گی۔ میری ایک بات مان لو تو میں اسی کو ساری رات تمہارے ساتھ گزارنے کی اجرت سمجھوں گی… بات یہ ہے کہ گناہ میں وہ چاشنی نہیں جو گناہ نہ کرنے میں ہے۔ تم مرد ہو۔ اس تنہائی میں جب ایک جوان لڑکی تمہارے پاس ہے تمہیںمیری یہ بات عجیب لگے گی۔ تم میری بات مانو گے نہیں۔ ذرا غور کرو۔ تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم نے آج پہلی بار گناہ کا ارادہ کیا ہے۔ رات اتنی سرد ہے مگر تمہارے ماتھے پر مجھے پسینے کے قطرے سے نظر آرہے ہیں''۔
''تم ٹھیک کہہ رہی ہو''… ادھیڑ عمر کمانڈر نے کہا… ''ہمیں جب فوجی تربیت دی گئی تھی تو گناہوں سے بچنے کے طریقے بھی بتائے گئے تھے۔ جنگی اور جسمانی تربیت کے ساتھ روحانی اور اخلاقی تربیت بھی شامل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی ایک سو سپاہیوں سے ایک ہزار صلیبیوں کو خون میں نہلا دیتا ہے''۔
''لیکن ایک کمزور سی لڑکی نے تم سے ہتھیار ڈلوا لیے ہیں''… رقاصہ نے کہا… ''تم اتنی لمبی روحانی اور اخلاقی تربیت سے دستبردار ہوگئے ہو''۔
کمانڈر پریشان ہوگیا۔ اس نے بے اختیار سا ہوکر کہا… ''مجھے بالکل امید نہیں تھی کہ تم یہاں آکر اس قسم کی باتیں کروگی۔ میں نے سوچا تھا کہ تنہائی میں آکر تم شوخ ادائوں اور نازو انداز سے مجھے دیوانہ بنا دو گی۔ تمہارے ہونٹوں کی وہ مسکراہٹ کہاں ہے جس نے مجھے مجبور کردیا تھا کہ تمہارے آدمیوں سے تمہاری بھیک مانگوں؟ میں تمہارے عوض عربی نسل کے دو گھوڑے دینے کے لیے تیار ہوں''۔
''اپنی تلوار بھی دو گے؟''… لڑکی نے گردن کو خم دے کر پوچھا… ''اپنی برچھی، اپنی ڈھال اور اپنا خنجر بھی دے دو گے؟''
''ہاں!''… لیکن و ہ چپ ہوگیا۔ بے چینی کے عالم میں بولا… ''نہیں۔ سپاہی اپنے ہتھیار سے دستبردار نہیں ہوا کرتا''… وہ خیمے میں تیزتیز قدم اٹھا کر ذرا سی دیر ٹہلا اور اچانک غصے میں پوچھا… ''ایک رقاصہ کے منہ سے یہ باتیں مجھے اچھی نہیں لگ رہیں۔ کیا تم مجھ سے بچنا چاہتی ہو؟ کیا تم اس کوشش میں ہو کہ میں تمہارے جسم کو ہاتھ نہ لگائوں؟''
''ہاں!''… رقاصہ نے کہا… ''میں تم سے اپنا جسم بچانا چاہتی ہوں''۔
 ''کیا تم اپنے جسم کو پاک سمجھتی ہو؟''
''نہیں''… رقاصہ نے کہا… ''میں اپنے جسم کو ناپاک سمجھتی ہوں، میں تمہارے جسم کو ناپاک نہیں کرنا چاہتی''۔
کمانڈر کی عقل میں یہ بات نہ پڑی۔ وہ احمقوں کی طرح منہ کھولے ہوئے رقاصہ کو دیکھنے لگا۔ رقاصہ نے کہا… ''کوئی بیٹی اپنے باپ کے جسم کو ناپاک نہیں کرنا چاہتی''۔
''اوہ!''… کمانڈر نے آہ بھر کر کہا… ''میں بوڑھا ہوں، تم جوان ہو''… و ہ بیٹھ گیا اور اس نے سرجھکا لیا۔
رقاصہ نے آگے بڑھ کر اس کے گال ہاتھوں میں تھام کر اس کا سر اوپر اٹھایا اور کہا… ''اتنا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، میں کہیں بھاگ نہیں چلی۔ تمہیں کوئی دھوکہ نہیں دے رہی۔ اگر تم صرف مرد کے روپ میں رہنا پسند کرتے ہو تو میں رقاصہ اور فاحشہ بنی رہوں گی۔ پھر میں کہوں گی کہ ایک اور مرد سے واسطہ پڑا تھا جس پر خدا نے لعنت بھیجی تھی۔ میں تمہیں باپ کے روپ میں دیکھ رہی ہوں۔ میری ایک دو باتیں سن لو پھر جو جی میں آئے کرنا۔ میں پتھر بن جائوں گی۔ تم اس کے ساتھ کھیلتے رہنا… تمہاری بیٹی ہے؟''
''ایک ہے''… کمانڈر نے جواب دیا۔
''اس کی عمر کتنی ہے؟''
''بارہ سال''۔
''اگر تم مرجائو اور تمہاری بیوی غربت سے تنگ آکر تمہاری بیٹی کو ناچنے گانے والوں کے ہاتھ فروخت کردے تو تمہاری روح کا کیا حشر ہوگا؟… ان صحرائوں میں اور ان پہاڑوں میں بھٹکتی اور چیختی نہیں رہے گی؟''
کمانڈر پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھنے لگا۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے کئی اور قطرے پھوٹ آئے۔ رقاصہ نے اس کی آنکھوں کو گرفتار کرلیا۔
''ذرا تصور میں لائو''… رقاصہ نے کہا… 
''تم مرگئے ہو اور تمہاری بیٹی ایک گناہ گار مرد کے ساتھ خیمے میں بیٹھی ہے اور وہ مرد اسے کہہ رہا ہے کہ شراب لائو، شراب کے بغیر عورت بے مزہ اور پھیکی ہوتی ہے''۔
کمانڈر کے ہونٹ تھرکے، اس نے اچانک گرج کر کہا… ''نکل جائو یہاں سے، فاحشہ، بدکار!''۔
لڑکی نے آہ بھری اور کہا… ''اگر میرا باپ زندہ ہوتا تو وہ مجھے تمہارے خیمے میں دیکھ کر مجھے بھی اور تمہیں بھی قتل کردیتا''… اس کے آنسو نکل آئے۔ کمانڈر اٹھ کر خیمے میں ٹہلنے لگا تھا۔ رقاصہ نے اس کی ذہنی کیفیت اور غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا… ''میں تمہیں بوڑھا جان کر تم سے نفرت نہیں کررہی۔ میں نے تو ایسے ضعیف العمر آدمیوں کے خیموں میں بھی راتیں گزاری ہیں جنہیں عمر نے اندر سے کھوکھلا کردیا تھا۔ وہ دولت سے اپنی لاشوں میں جان ڈالنا چاہتے تھے… میں نے تمہیں اتنا بوڑھا نہیں سمجھا۔ بات اتنی سی ہے کہ تمہاری شکل وصورت میرے باپ سے اتنی زیادہ ملتی ہے کہ میں رقاصہ سے بیٹی بن گئی اور میں نے جو باتیں تمہیں کہی ہیں یہ میرے دماغ میں پہلے کبھی نہیں آئی تھیں۔ میں صرف ناچنا اور انگلیوں پر نچانا جانتی ہوں۔ تم ذرا سوچو تو سہی، مجھ جیسی فاحشہ رقاصہ کے دماغ میں اتنی باتیں اور ایسی باتیں کیوں آگئی ہیں جنہوں نے صرف تمہیں نہیں مجھے بھی حیران کردیا ہے؟''
کمانڈر نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کا غصہ بجھ گیا تھا۔ رقاصہ نے کہا… ''مجھے اپنے ماں باپ کا چہرہ اور جسم اچھی طرح یاد ہے۔ مجھے اس کے جسم کی بو بھی یاد ہے۔ تمہاری بیٹی کی عمر بارہ سال ہے میری عمر نو دس سال تھی۔ جب وہ مرگیا تھا۔ وہ میرے ساتھ بہت پیار کرتا تھا۔ وہ مصر کی فوج میں سپاہی تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے آنے سے پہلے ہی مر گیا تھا۔ میری ماں جوان تھی اور بہت غریب۔ اس نے مجھے ایک آدمی کے حوالے کردیا۔ اس نے میرے سامنے رقم لی تھی اور اس آدمی نے میری ماں سے کہا تھا کہ اس کی شادی ایک بڑے اچھے آدمی سے کرا دے گا۔ میں رو پڑی تو ماں نے مجھے کہا تھا کہ یہ تمہارا چچا ہے اور یہ تمہیں تمہارے باپ کے پاس لے جارہا ہے… میں بارہ سال سے اپنے باپ کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ انہی وعدوں پر مجھے ناچ سکھایا گیا کہ مجھے باپ کے پاس لے جائیں گے۔ وہ تو ذرا بڑی ہوئی تو میں نے حقیقت کو قبول کیا کہ میرا باپ تو مرچکا ہے۔ اس وقت تک رقص میری عادت بن چکا تھا۔ مجھے کسی نے مارا پیٹا نہیں، میں نے باپ کے نام پر رقص کی تربیت لی تھی۔ میرے استاد اور میرے آقا میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے تھے۔ بہت اچھے اچھے کھانے کھلاتے تھے۔ پھر میں جوان ہوگئی تو مجھے اپنی قیمت کا اندازہ ہوا۔ اس قیمت نے میرے جذبات مار دئیے اور میں خوبصورت پتھر بن گئی مگر تمہیں دیکھ کر مرے ہوئے جذبات جاگ اٹھے ہیں''۔
: اس کے آنسو نکل آئے۔ آہ لے کر کہنے لگی… ''یوں معلوم ہوتا ہے جیسے میرے باپ کی روح اسی خیمے کے اردگرد گھوم پھر رہی ہے۔ اس خیمے میں آنے سے پہلے میں نے ایسا کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ کبھی یوں لگتا ہے، جیسے میرا وجود میرے باپ کی روح ہے جو بھٹکتی پھر رہی ہے''۔
''تم اگر قیمتی رقاصہ تھی تو ان صحرائوں میں کیا لینے آئی ہو؟'' کمانڈر نے پوچھا۔
''میں اجرت پر آئی ہوں''۔ رقاصہ نے جواب دیا… ''میں ان لوگوں کو نہیں جانتی۔ دوسری رقاصہ کو بھی میں اس سے پہلے نہیں جانتی تھی۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ سرحد پر جانا ہے اور وہاں جو چوکی والے خواہش کریں، انہیں بلا اجرت ناچ گانے سے خوش کرنا ہے۔ مجھے اجرت کی اتنی خوشی نہیں تھی جتنی اس کی کہ مصر کی عزت کی حفاظت کرنے والے مجاہدوں کا دل بہلانے جارہی ہوں۔ میرا باپ بھی سپاہی تھا۔ میں دل کو دھوکہ دیتی ہوں کہ میرے رقص سے میرے مجاہد باپ کی روح بھی بہل جاتی ہوگی… میں ایک دھوکہ ہوں۔ اپنے لیے بھی اور دوسرے کے لیے بھی لیکن میں وطن کے مجاہدوں کو ناپاک نہیں کرسکتی۔ پچھلی چوکی والے کمانڈر نے مجھے اپنے خیمے میں بلایا تھا۔ میں نے انکار کردیا تھا۔ تمہارے پاس صرف اس لیے آگئی ہوں کہ تمہارے چہرے مہرے اور قد کاٹھ میں مجھے اپنا باپ نظر آیا تھا''۔
رقاصہ اس کے سامنے دو زانو بیٹھ گئی۔ کمانڈر کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر آنکھوں سے لگایا پھر چوما۔ کمانڈر نے دوسرا ہاتھاس کے سر پر رکھ دیا اور پوچھا… ''تمہارا نام کیا ہے؟''
''میرے آقا مجھے برق کہتے ہیں''۔ رقاصہ نے جواب دیا… ''باپ مجھے زہرہ کہا کرتا تھا''۔
''جائو زہرہ!'' کمانڈر نے ایسے پیار سے کہا جس میں شفقت تھی۔ ''اپنے خیمے میں چلی جائو''۔
٭ ٭ ٭
رات گزرتی جارہی تھی۔ سازندوں میں سے دو اپنے خیموں میں جاگ رہے تھے۔ دوسری رقاصہ اور باقی سازندے گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ جاگنے والوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہا… ''ہمارا طریقہ صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ ہم ان لڑکیوں کو یہ کہہ کر ساتھ لے آئے ہیں کہ ناچ گانے سے فوجیوں کا دل بہلانے جارہے ہیں، ضرورت یہ تھی کہ ان لڑکیوں کو بتا دیتے کہ ہمارا اصل مقصد کیا ہے''۔
''کسی رقاصہ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا''… دوسرے نے کہا… ''یہ لڑکی جو کمانڈر کے خیمے میں ہے، جذبات میں آکر الگ تھلگ انعام لے کر اسے بتا سکتی ہے کہ ہم سرحدی چوکیوں کے لیے دھوکہ اور فریب بن کر آئے ہیں۔ ہمیں اپنا راز کسی رقاصہ کونہیں دینا چاہیے۔ ان دونوں کو اپنی اجرت سے غرض ہے۔ ہم انہیں منہ مانگی اجرت دے چکے ہیں۔ہمارا کام ہوگیا ہے''۔
''اگر ہم نے اسے بتادیا ہوتا کہ ہمارا مقصد کیا ہے تو یہ لڑکی اس کمانڈر کو اچھی طرح اندھا کرلیتی اور یہ بھی ممکن تھا کہ وہ اسے اس حد تک پھانس لیتی کہ اسی کی مدد سے ہم حبشیوں کو اندر لے آتے''۔
''ہمارے استاد ہم سے زیادہ عقل رکھتے ہیں۔ یہ لڑکیاں ہمارے ہتھیار ہیں۔ ہتھیاروں کو کبھی کسی نے ہمراز نہیں بنایا''۔
کمانڈر کے خیمے میں یہ حالت تھی کہ کمانڈر اس اطمینان کے ساتھ سوگیا تھا کہ رقاصہ نے اسے گناہ سے صاف بچا لیا اور اس کے سینے میں باپ کو بیدار کردیا تھا۔ رقاصہ اسے بہت دیر دیکھتی رہی۔ کمانڈر کا چہرہ جب رقاصہ کے آنسوئوں میں چھپ گیا تو وہ خیمے سے نکل گئی۔ اپنے خیمے میں گئی اور سو گئی۔ رات کی ایک ہی ساعت رہتی تھی جو گزر گئی۔ ناچنے گانے والے جاگے تو سورج اوپر آگیا تھا۔ لڑکیوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ انہیں کہاں جانا ہے۔ سازندے انہیں اپنے ساتھ لے جانے لگے تو کمانڈر باہر کھڑا تھا۔ زہرہ دوڑ کر اس تک گئی اور کہا… ''میرے سر پر ہاتھ رکھو''۔ کمانڈر نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو زہرہ نے اسی کا دوسرا ہاتھ پکڑ کر آنکھوں سے لگایا اور وہ بھیگی آنکھوں سے اس سے رخصت ہوئی۔
وہ دریا کی طرف چلے گئے۔ کہیں سے دو شتر سوار آئے۔ وہ اونٹوں سے اترے۔ اونٹوں کو بٹھایا۔ دونوں لڑکیوں کو سوار کیا اور چل پڑے۔ یہ شتر سوار اسی گروہ کے افراد تھے جو قریب ہی کہیں ان کے انتظار میں چھپے ہوئے تھے۔ یہ گروہ اس جگہ پہنچا جہاں تاجروں کا قافلہ چار لڑکیوں کے ساتھ خیمہ زن تھا۔ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کو یوں ملے جیسے اجنبی ہوں۔ لڑکیاں ناچنے والی لڑکیوں کو مردوں سے الگ دریا کے کنارے لے گئیں۔ ان کا مقصد یہی تھا کہ انہیں مردوں سے الگ کردیا جائے۔ چاروں لڑکیوں نے زہرہ اور اس کی ساتھی رقاصہ کو اپنے متعلق بتایا کہ وہ ان آدمیوں کو بہو بیٹیاں ہیں اور سیر کے لیے ان کے ساتھ آئی ہیں۔
ادھر مردوں کی منڈلی میں اصل مشن پر گفتگو ہورہی تھی۔ سازندوں نے اپنی دو راتوں کی کارگزاری سنائی۔ دوسرے گروہ نے انہیں بتایا کہ ان کے دو راتوں کے ناچ گانے سے کم وبیش ایک سو حبشی اندر آگئے ہیں اور ان لڑکیوں نے دو سپاہیوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا ہے اس سے دو سو سے زائد حبشی آگئے ہیں… اپنی اپنی کارگزاری سنانے کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ناچ گانے سے حبشیوں کی زیادہ تعداد  اندر نہیں آسکتی۔ دریا کا راستہ زیادہ بہتر ہے۔ کشتیوں میں زیادہ آدمی اندر آسکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے طے کیا کہ لڑکیاں ان دو سپاہیوں کے علاوہ دو یا چار اور گشتی سنتریوں کے ساتھ یہی کھیل کھیلیں تاکہ ہر رات کشتیاں آسکیں۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ زہرہ اور اس کی ساتھی رقاصہ کو یہیں کہیں قریب رکھا جائے لیکن اس راز میں شامل نہ کیا جائے۔
سازندوں نے بعد میں زہرہ اور اس کی ساتھی سے کہا کہ ان کا کام ختم ہوچکا ہے۔ یہ جگہ بہت خوبصورت ہے اس لیے چند دن یہیں فارغ گزارے جائیں۔ انہوں نے لڑکیوں کو ایسے انداز سے اکسایا کہ وہ رک گئیں۔ دوسرے گروہ کی لڑکیوں نے انہیں اپنے ساتھ بے تکلف کرلیا لیکن ان کے قیام کی جگہ ذرا دور بنائی… اس رات زہرہ سو نہ سکی۔ اسے کمانڈر یاد آرہا تھا۔ اس کی شخصیت زہرہ کے دل میں اتر گئی تھی۔ ایک تو اس لیے کہ کمانڈر میں اسے اپنے باپ کی تصویر نظر آرہی تھی اور دوسرے اس لیے کہ یہ پہلا مرد تھا جس نے اسے کھلونا سمجھنے کے بجائے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا اور تیسرے اس لیے کہ کمانڈر نے اسے زہرہ کہا برق نہیں کہا تھا۔
اس کی ساتھی رقاصہ سو گئی تھی اور اس کے گروہ کے سازندے بھی سو گئے تھے۔ وہ اٹھی اور خیمے سے باہر نکل گئی۔ اس نے راستہ دیکھا ہوا تھا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی چوکی کی طرف چل پڑی۔ وہ اتنی تیز اورا تنا زیادہ چلنے کی عادی نہیں تھی لیکن اس کے جذبات اسے قوت دے رہے تھے۔ وہ چوکی تک پہنچ گئی۔ کمانڈر کے خیمے سے واقف تھی۔ وہ خیمے میں چلی گئی۔ کمانڈر گہری نیند سویا ہوا تھا… اس کی آنکھ کھل گئی۔ اندھیرے میں اس نے وہ ہاتھ پکڑ لیا جو کوئی اس کے منہ پر پھیر رہا تھا۔ ہاتھ چھوٹا سا تھا جو مردانہ نہیں ہوسکتا تھا۔ اس نے ہڑبڑا کر پوچھا… ''کون ہو؟''
''زہرہ''۔
وہ اٹھ بیٹھا۔ زہرہ نے کہا… ''تمہیں دیکھنے آئی ہوں… سو جائو۔ میں جارہی ہوں''۔
کمانڈر نے دیا جلایا اور پوچھا کہ وہ کہاں سے آئی ہے۔ زہرہ نے بتایا تو کمانڈر باہر نکلا۔ دو گھوڑے تیار کیے اور زہرہ کو باہر جا کر ایک گھوڑے پر اسے سوار کرایا، دوسرے پر خود سوار ہوا اورگھوڑے چل پڑے۔ راستے میں زہرہ جذباتی باتیں کرتی رہی اور کمانڈر شفقت اور پیار سے سنتا رہا۔ اپنے ٹھکانے سے کچھ دور ہی تھے کہ زہرہ نے اسے روک کر واپس چلے جانے کو کہا۔کمانڈر نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور واپس آگیا۔
زہرہ جب اپنے ٹھکانے پر پہنچی تو اس کے ساتھ کا ایک آدمی جاگ رہا تھا۔ اس نے زہرہ سے پوچھا کہ وہ کہاں گئی تھی۔ زہرہ نے بتایا کہ وہ ویسے ہی گھومنے پھرنے نکل گئی تھی۔ اس آدمی نے کریدنا شروع کردیا۔ اسے شک تھا، زہرہ نہیں بتانا چاہتی تھی کہ وہ کہاں گئی تھی۔
''تم ہماری اجازت کے بغیر کہیں نہیں جاسکتی''۔ اس آدمی نے حکم دیا۔
''میں تمہاری زرخرید نہیں ہوں''۔ زہرہ نے کہا… ''میں نے جو اجرت لی تھی اس کے عوض کام پورا کرچکی ہوں۔ میں کسی کے حکم کی پابند نہیں''۔
''تم اپنے مالکوں کے پاس شاید زندہ نہیں پہنچنا چاہتی''۔ اس آدمی نے کہا… ''اب ہم سے پوچھے بغیر کہیں جاکے دیکھو''۔دونوں سپاہی اپنی گشت کے دوران دریا کے کنارے جاتے رہے۔ دونوں لڑکیاں انہیں الگ الگ لے جاتیں اور اس دوران حبشیوں سے لدی ہوئی دوبادبانی کشتیاں تاریکی میں کنارے آلگتیں اور حبشیوں کو پہاڑیوں میں اگل کر تاریکی میں غائب ہوجاتیں۔ ان چار لڑکیوں نے دو اور سپاہیوں کو ''بوڑھے خاوندوں کی نوجوان بیویاں'' بن کر اور ان کے ساتھ بھاگ جانے کا جھانسہ دے کر اپنے جال میں پھانس لیا تھا۔پہاڑی خطے میں اتنے زیادہ حبشی جمع ہوچکے تھے جو رات کے وقت سرحدی چوکیوں پر حملہ کرکے وہاں کی نفری کو سوتے میں آسانی سے ختم کرسکتے تھے لیکن ان کے کمانڈروں نے عقل کی بات سوچی تھی۔ سرحدی چوکیوں پر حملے کی خبر قاہرہ پہنچ سکتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ قاہرہ سے فوج آجاتی اور صلیبیوں کی یہ سکیم تباہ ہوجاتی کہ قاہرہ پر اچانک اور بے خبری میں حملہ کریں گے۔
پہاڑیوں میں حبشیوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی تھی اور سوڈان میں صلیبی مشیروں نے وہ صلیبی کمانڈر جنہیں قاہرہ پر حملہ کرنا تھا مقرر کردئیے۔ انہیں چند دنوں بعد مصر کی سرحد میں داخل ہوکر ان پہاڑیوںمیں آنا اور حملے کی تیاری کرنی تھی۔ سالار القند ابھی تک قاہرہ میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ اس کی کسی حرکت سے کسی کو شک نہیں ہوتا تھا کہ وہ بہت بڑی غداری کامرتکب ہونے والا ہے۔ اسے رات کو گھر میں پوری رپورٹ مل جاتی تھی کہ کتنے حبشی گزشتہ رات آچکے ہیں اور ان کی تعداد کتنی ہوگئی ہے۔ حملے کی قیادت اسی کو کرنی تھی۔ اس نے پلان تیار کرلیاتھا۔
: حبشی ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے ہوگئے تو انہوں نے اپنے مذہب کامسئلہ کھڑا کردیا۔ پہلے وہ آپس میں کھسر پھسر کرتے رہے۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ انسان کی قربانی دی جائے۔ القند نے وہاں جو آدمی بھیج رکھے تھے انہوں نے انہیں ٹالنے کی کوشش کی لیکن حبشی اپنے ساتھ جو مذہبی پیشوا لائے تھے وہ ٹلتے نظر نہیں آتے تھے۔ حبشیوں نے انہیں پریشان کرنا شروع کردیا تھا کہ انسان کی قربانی دو، ورنہ وہ واپس چلے جائیں گے۔ مذہبی پیشوائوں سے کہا گیا کہ وہ انہی حبشیوں میں سے کسی کو پکڑ کر ذبح کردیں لیکن وہ کہتے تھے کہ یہ قربانی قبول نہیں ہوتی۔ قربانی کے لیے اسی خطے کا انسان ہونا چاہیے۔ جس پر حملہ کرنا ہے، لڑنے والے لوگ اپنی قربانی نہیں دیا کرتے۔
آخر انہیں کہا گیا کہ حملے سے ایک دن پہلے مصر کا ایک آدمی ان کے حوالے کردیا جائے گا۔ حبشیوں کے پروہت نے کہا… ''ہمیں وہ انسان ابھی چاہیے، ہم بہت دنوں تک اسے خاص غذا دے کر پالیں گے۔ اس پر اپنا خاص عمل کریں گے۔ اپنی عبادت بھی کریں گے… اور ابھی ہمیں یہ حساب بھی کرنا ہے کہ قربانی مرد کی دینی ہے یا عورت کی یا دونوں کی''۔
اسی رات القند کو اطلاع دی گئی کہ حبشی قربانی کے لیے انسان مانگتے ہیں۔ القند نے کہا… ''تو اس میں سوچنے کی کیا بات ہے۔ کوئی آدمی پکڑو اور ان کے حوالے کردو''۔
''لیکن وہ ابھی بتائیں گے کہ انہیں ایک آدمی چاہیے یا ایک عورت یا دونوں''۔
''ان کا جو بھی مطالبہ ہے پورا کرو''… القند نے کہا… ''چند دنوں بعد جب ہم قاہرہ پر حملہ کریں گے تو معلوم نہیں قاہرہ کے کتنے لوگ ہمارے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ دو کو اگر پہلے ہی مار دو گے تو کیا قیامت آجائے گی''۔
القند گہری سوچ میں گم ہوگیا۔ اتنے میں ایک صلیبی اندر آیا۔ اس نے مصری لباس پہن رکھا تھا۔ اندر آتے ہی اس نے مصنوعی داڑھی اتار کر رکھ دی۔ اس نے القند سے پوچھا کہ کیوں پریشان نظر آتا ہے۔
''حبشی اپنی رسم پوری کرنا چاہتے ہیں''۔ القند نے جواب دیا۔ ''وہ ابھی سے انسانی قربانی کا مطالبہ کررہے ہیں''۔
''تو آپ کیا سوچ رہے ہیں؟''
''میں سوچ رہا ہوں کہ حملے سے ایک دن پہلے ایک آدمی ان کے حوالے کردیں گے''۔ القند نے جواب دیا۔
''نہیں''۔ صلیبی نے کہا… ''وہ ابھی قربانی دینا چاہتے ہیں تو ابھی ان کی رسم پوری کرنے کا انتظام کریں۔ آپ سوڈان نہیں گئے۔ ہم ان کے مذہب کے ساتھ کھیل کر انہیں یہاں لارہے ہیں۔ا پ شاید انسانوں کو استعمال کرنا نہیں جانتے۔ آپ کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے صرف لڑنا سکھایا ہے۔ انسانوں کو تلوار کے بغیر مارنا ہم صلیبیوں سے سیکھیں۔ دوسروں کے مذہب کو استعمال کریں۔ ان پر انہی کے مذہب کا جنون غالب کرکے ان کی عقل کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ ان کی بے ہودہ اور بے معنی رسموں کی مخالفت کرنے کے بجائے ان کی پیروی کرو بلکہ اپنے ہاتھوں یہ رسمیں ادا کرائو۔ عام انسان کا ذہن مذہب اور توہم پرستی سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ہم نے جتنے مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملایا اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف استعمال کیا ہے، وہ مذہب اور توہم پرستی کے ہتھیاروں سے کیا ہے۔ مسلمان مذہب کے نام پر جلدی ہمارے جال میں آتا ہے۔ یہ حبشی تو جنگلی ہیں، انہیں ہم ایک سال سے زیادہ عرصے سے بے وقوف بنا رہے ہیں۔ سوڈان سے روانگی سے پہلے ہم نے دو سوڈانیوں کو پکڑ کر ان کے حوالے کیا اور بتایا تھا کہ یہ مصری ہیں۔ انہوں نے انہیں ذبح کیا تب وہ مصر کی طرف روانہ ہوئے تھے''۔
''ان سے پوچھو کہ انہیں قربانی کے لیے مرد چاہیے یا عورت''۔ القند نے پوچھا۔
''اور آپ کا وہاں چلنا بہت ضروری ہے''۔ صلیبی نے کہا… ''لیکن آپ کو میں کسی اور طریقے سے ان کے سامنے لے جائوں گا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان حبشیوں سے بڑھ کر آپ کو کوئی وحشی اور خونخوار جنگجو نہیں ملے گا۔ اس وقت ان کی تعداد چار ہزار کے قریب ہے۔ اگر ہم نے ان پر ان کے مذہب کا بھوت سوار کیے رکھا اور انہیں یہ یقین دلائے رکھا کہ یہ ہماری نہیں ان کی اپنی جنگ ہے تو ان میں سے صرف ایک ہزار اس تمام فوج کو جو قاہرہ میں ہے، کٹی لاشوں میں بدل دیں گے۔ ہم نے انہیں یہ بتایا ہے کہ ان کے خدا کے گھر لے جارہے ہیں اور یہ کہ ان کے خدا کی زمین پر ان کے دشمن نے قبضہ کررکھا ہے''۔
: ''میں چلوں گا''۔ القند نے کہا۔
القند مصر پر سوڈانیوں کی حکومت چاہتا تھا، کچھ عرصے پہلے وہ کسی غدار سے اس خواہش کا اظہار کر بیٹھا تو اس نے اس کی خواہش کو عزم بنا دیا اور اس کی ملاقات صلیبیوں سے کرادی تھی۔ صلیبیوں نے اس کے ساتھ یہ سودا طے کیا تھا کہ مصر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ اسے دے دیا جائے گا اور باقی نصف سوڈان کو جیسا کہ کہا جاچکا ہے کہ حبشیوں کی فوج کا اہتمام صلیبیوں نے کیا تھا مورخوں نے القند کی بغاوت کو تفصیل سے بیان نہیں کیا۔ اس دور کی عظیم شخصیت قاضی بہائوالدین شداد نے اپنی ڈائری بعنوان ''سوانح صلاح الدین سلطان… یوسف پر کیا افتاد پڑی؟'' میں تفصیل سے لکھا ہے کہ القند نے صلیبیوں اور سوڈانی لیڈروں کی مدد سے تہذیب وتمدن سے دور جانوروں اور درندوں کی سی زندگی بسر کرنے والے حبشیوں پر ان کے مذہب کا بھوت سوار کرکے ان پر جنگی جنون طاری کیا اور القند خود ان کا پیرومرشد بنا۔ حبشیو ںکو بتایا گیا کہ یہ ان کے خدا کا وہ ایلچی ہے جو صدیوں سے خدا کے پاس گیا ہوا تھا (سلطان یوسف سے مراد سلطان صلاح الدین ایوبی ہے۔ اس مجاہد اعظم کا پورا نام یوسف صلاح الدین تھا۔ قاضی بہائوالدین شداد اسے پیار اور شفقت سے یوسف کہا کرتا تھا)۔
وہ رات تاریک تھی۔ مصر کا آسمان آئینے کی طرح شفاف تھا۔ ستارے ہیروں اور سچے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ قاہرہ شہر گہری نیند سویا ہوا تھا۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ چند دنوں بعد ان پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے۔ مصر کے سرحدی دستے بھی سوئے ہوتے تھے۔ صرف گشتی سنتری جاگ رہے تھے لیکن وہ صرف جاگ رہے تھے۔ بیدار نہیں تھے۔ دریائے نیل کے ساتھ کی چوکی جو دریائی راستہ بند کرنے کے لیے بنائی گئی تھی اور اس سے چند میل دور دوسری چوکی جو پہاڑیوں کے علاقے کو سربمہر رکھنے کے لیے قائم کی گئی تھی، کے گشتی سنتری چار لڑکیوں کے حسین اور رومانی جال میں الجھے ہوئے تھے۔ لڑکیاں انہیں الگ الگ لے گئی تھیں۔ اس رات یہ گروہ بہت زیادہ چوکنا تھا۔
زہرہ اور اس کی ساتھی رقاصہ اس گروہ سے کچھ دور خیمے میں سوئی ہوئی تھیں۔سازندے بظاہر سوئے ہوئے تھے لیکن وہ بیدار تھے انہیں بتا دیا گیا تھا کہ آج رات بہت اہم ہے اور وہ بیدار رہیں۔ ان دنوں گروہوں کے لیے یہ حکم تھا کہ کوئی باہر کا آدمی دریا کے کنارے اور اس پہاڑی سلسلے کے قریب نہ آئے۔ کوئی آئے تو اسے پکڑ کر اندر لے آئو۔
کچھ دیر بعد ایک سازندہ اٹھا۔ پہلے وہ باہر گھوما پھر اس نے چھوٹے خیمے میں جھانکا جس میں دونوں لڑکیاں سوئی ہوئی تھیں۔ اندھیرے میں اسے کچھ نظر نہ آیا۔ اندر جا کر ٹٹولا۔ اسے کچھ شک ہوا۔ دیا جلا کے دیکھا تو زہرہ غائب تھی۔
جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں