داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 69 - اردو ناول

Breaking

بدھ, جنوری 29, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 69

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔69- جب خدا زمین پر اتر آیا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دیا جلا کے دیکھا تو زہرہ غائب تھی۔ دوسری گہری نیند سوئی ہوئی تھی، سازندے نے اسے نہ جگایا۔ اسے معلوم تھا کہ زہرہ کہاں گئی ہے۔ وہ چوکی کے کمانڈر کے پاس ہی جاسکتی تھی۔ اس میں خطرہ یہ تھا کہ کمانڈر اس کے ساتھ آگیا تو اپنے سنتریوں کو غائب پا کر انہیں ڈھونڈے گا اور یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ دریا کے کنارے اس جگہ بھی پہنچ جائے جس جگہ کو اس رات باہر کی دنیا سے چھپا کر رکھنا تھا… سازندے نے اپنے دو ساتھیوں کو جگایااور انہیں بتایا کہ ان کی ایک لڑکی غائب ہے۔ وہ چوکی پر ہی گئی ہوگی۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ دریا سے دور گھات لگائی جائے اور اگر کمانڈر لڑکی کے ساتھ واپس آرہا ہو تو دونوں کو پکڑ کر اپنے کمانڈر کے حوالے کردیا جائے اور اگر ضرورت پڑے تو دونوں کو قتل کرکے لاشیں دریا میں پھینک دی جائیں۔
پہاڑیوں کے اندر کی دنیا جاگ رہی تھی۔ یہ وسیع وعریض علاقہ تھا جہاں کوئی نہیں جاتا تھا۔ ایک اس لیے کہ یہ جگہ دور دراز اور راستوں سے ہٹ کر تھی اور دوسرا اس لیے مشہور تھا کہ اندر فرعونوں کی بھی بدروحیں رہتی ہیں اور ان کی بھی جو فرعونوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ یہ بھی مشہور تھا کہ بدروحیں آپس میں لڑتی رہتی ہیں اور اگر کوئی انسان اس علاقے میں چلا جائے تو اس کے جسم کا گوشت غائب ہوجاتا ہے اور پیچھے ہڈیوں کا پنجر رہ جاتا ہے… یہ بتایا جاچکا ہے کہ اس پہاڑی خطے کے وسط میں فرعونوں کے بہت بڑے بڑے بت پہاڑیوں کو تراش کر بنائے گئے تھے۔ پہاڑیوں کو اندر سے کھوکھلا کرکے اندر محل جیسے کمرے اور غلام گردشیں بنائی گئی تھیں۔
اس رات ان زمین دوز محلات میں روشنی ہی روشنی تھی۔ ہزاروں حبشی باہر اس میدان میں جمع تھے، جسے ہر طرف سے پہاڑیوں نے گھیر رکھا تھا۔ حبشیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اونچی بات نہ کریں۔ انہیں ان کا خدا دکھایا جانے والا ہے۔ حبشیوں پر خوف اور عقیدت مندی کے جذبات سوار تھے۔ ڈر کے مارے وہ ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی میں بھی بات نہیں کرتے تھے۔ وہ ان پہاڑیوں اور چٹانوں سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ جس پہاڑی کی طرف وہ منہ کرکے بیٹھے ہیں اس کی نصف بلندی پر ایک بہت بڑا بت ہے۔ یہ ابوسمبل کا بت تھا جس کے متعلق ان حبشیوں کو بتایا گیا تھا کہ ان کے خدا کا بت ہے اور ایک رات یہ خدا ایک انسان کے روپ میں ان کے سامنے آئے گا۔
اچانک ایسی گرج دار آواز آئی جیسے گھٹائیں گرجی ہوں۔ حبشی پہلے ہی خاموش تھے، اس گرج نے ان کی سانسیں بھی روک دیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں ایک آواز سنائی دی… ''خدا جاگ رہا ہے، سامنے پہاڑی پر دیکھو… اوپر دیکھو''… یہ آواز بڑی بلند تھی جو پہاڑیوں اور چٹانوں کے درمیان گونج بن کر کچھ دیر سنائی دیتی رہی۔ فضا میں دو شرارے اڑتے نظر آئے جو سامنے والی پہاڑی کی طرف گئے اور پہاڑی سے جہاں ٹکرائے وہاں سے ایک شعلہ اٹھا۔ ابو سمبل کا بت اس شعلے کے پیچھے اور کچھ اوپر تھا۔ شعلے کی ناچتی تھرکتی ہوئی روشنی بت کے مہیب چہرے پر پڑی تو ایسے نظر آنے لگا جیسے بت آنکھیں جھپک رہا ہو۔ اس کا منہ کھلتا اور بند ہوتا نظر آتا تھا اور یوں بھی لگتا تھا جیسے اس کا چہرہ دائیں بائیں ہل رہا ہو۔
حبشیوں کا یہ سیاہ کالا ہجوم سجدے میں گر پڑا۔ ان کے مذہبی پیشوا سجدے سے اٹھے۔ سب نے بازو پھیلا دئیے۔ ان میں جو سب سے بڑا تھا اس نے بت سے بڑی ہی بلند آواز سے کہا… ''آگ اور پانی کے خدا ریگستانوں کو جلانے اور دریائوں کو پانی دینے والے خدا! ہم نے تجھے دیکھ لیا ہے۔ ہمیں بتا کہ ہم تیرے قدموں میں کتنے انسان قربان کریں، مرد لائیں یا عورت''۔
''ایک مرد ایک عورت''۔ پہاڑیوں میں سے آواز آئی… ''تم نے ابھی مجھے نہیں دیکھا، میں انسان کے روپ میں تمہارے سامنے آرہا ہوں، اگر تم نے میرے دشمنوں کا خون نہ بہایا تو تم سب کو ان پہاڑیوں کے پتھروں کی طرح پتھر بنا دوں گا پھر تم دھوپ میں ہمیشہ جلتے رہو گے۔ تم میں سے جو لڑائی سے بھاگے گا اسے صحرائی ریت چوس لے گی… انتظار کرو، میرا انتظار کرو''۔
 خاموشی اور گہری ہوگئی۔ شعلہ آہستہ آہستہ کم ہونے لگا۔ پہاڑیوں میں سے حبشیوں کے مذہبی ترانے کی آواز آنے لگی۔ یہ ان کا وہ گیت تھا جو مذہیب تہواروں پر عبادت کے دوران گایا کرتے تھے۔ بہت سے آدمی مل کر گا رہے تھے اور ساتھ دف بج رہے تھے۔ نیچے بیٹھے ہوئے ہزاروں حبشیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ان میں سے کوئی بھی نہیں گا رہا تھا۔ یہ غیب کی آواز معلوم ہوتی تھی۔
٭ ٭ ٭
زہرہ چوکی کے کمانڈر کے خیمے میں تھی۔ اس کی باتیں پہلے سے زیادہ جذباتی ہوگئی تھیں۔ اس نے کمانڈر سے کہا… ''اگر میں تمہیں نہ دیکھتی تو باقی عمر ناچتے اور دوسروں کا دل بہلاتے گزار دیتی۔ تمہیں دیکھ کر مجھے یاد آگیا ہے کہ میں بیٹی ہوں رقاصہ اور فاحشہ نہیں۔ یا تم اپنے آپ کو مار لو تاکہ مجھے یقین ہوجائے کہ میرا باپ مرگیا ہے یا مجھے قتل کردو اگر یہ نہیں کرسکتے تو مجھے پناہ میں لے لو۔ اپنے گھر بھیج دو۔ آج مجھے واپس نہ جانے دو''۔
''تم آج چلی جائو''۔ کمانڈر نے جواب دیا… ''میں تمہیں چوکی میں نہیں رکھ سکتا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں اپنے گھر بھیجنے کا انتظام کردوں گا… اور اگر تم یہاں سے چلی گئی تو مجھے قاہرہ میں اپنا ٹھکانہ بتا دو۔ وہاں آکر تمہیں لے جائوں گا''۔
تھوڑی دیر بعد کمانڈر نے دو گھوڑے تیار کیے اور زہرہ سے کہا کہ چلو چلیں۔ دونوں گھوڑوں پر سوار ہوئے اور چل پڑے۔ راستے میں زہرہ نے کمانڈر سے پوچھا… ''رات کو کشتیاں یہاں کیوں آیا کرتی ہیں؟''
''کشتیاں؟'' کمانڈر نے حیران سا ہوکر پوچھا… ''کدھر سے آتی ہیں؟''
''ادھر سے''۔ اس نے سوڈان کی طرف اشارہ کرکے کہا… ''مجھے اب رات کو نیند کم آتی ہے۔ آدھی رات کو اٹھ کر خیمے سے باہر بیٹھ جاتی ہوں۔ میں نے دو راتیں دیکھا ہے۔ ایک رات تین اور ایک رات دو بادبانی کشتیاں آئیں۔ ان کے سفید بادبان اندھیرے میں بھی نظر آتے تھے۔ آگے جاکر کشتیاں کنارے لگیں۔ مجھے اس طرح کی آوازیں سنائی دیتی رہیں جیسے ان سے بہت سے لوگ اتر رہے ہوں۔ مجھے کچھ دور درختوں کے پیچھے سائے سے جاتے اور پہاڑیوں میں غائب ہوتے نظر آئے''۔
''تم نے ہمارے دو سپاہیوں کو کبھی نہیں دیکھا؟'' کمانڈر نے پوچھا… ''دو گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں۔ انہیں دریا کے کنارے موجود رہنا چاہیے''۔
''نہیں''۔ زہرہ نے جواب دیا… ''میں نے کبھی کوئی سپاہی نہیں دیکھا۔ دن کے دوران سپاہی آتے ہیں۔ آگے ایک قافلہ اترا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں، ایک روز میں نے ایک سپاہی کو ایک لڑکی کے ساتھ بے تکلفی سے چٹانوں کے پیچھے جاتے دیکھا تھا''۔
زہرہ کو تو علم ہی نہیں تھا کہ سرحدوں پر کیا ہوتا ہے اورکیا ہوسکتا ہے اور سرحدی دستوں کے فرائض کیا ہیں۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ رات کو یا دن کو سوڈان کی طرف سے کشتیوں کو آنا چاہیے یا نہیں۔ اس نے تو ایسے ہی پوچھ لیا تھا لیکن کمانڈر کے لیے یہ اہم خبر تھی۔ زہرہ اگر صحیح کہہ رہی تھی تو وہ اسے راز کی بات بتا رہی تھی۔ وہ بے شک اس ڈیوٹی اور سرحدی ماحول سے اکتا گیا تھا مگر زہرہ کی باتوں نے اسے بیدار کردیا۔ اس نے زہرہ سے کہا… ''آئو آج دریا کے کنارے چلتے ہیں''… اس نے گھوڑے کا رخ موڑ دیا۔
وہ دریا تک پہنچے اور کنارے کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ کمانڈر کی نظریں دریا پر تیر رہی تھیں۔ کچھ وقت گزرا تو اسے دریا میں دور ایک لو نظر آئی جو دئیے کی معلوم ہوتی تھی۔ پھر ایک اور لو نظر آئی اور پھر دونوں روشنیاں بجھ گئیں۔ ادھر کنارے پر بھی ایک دیا جلا اور بجھ گیا۔ کمانڈر نے ان گشتی سنتریوں کو آواز دی جنہیں وہاں گشت پر ہونا چاہیے تھا۔ اسے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے اور بلند آواز سے پکارا۔ پھر بھی کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے اور زور سے پکارا۔ اسے اب دریا میں دو کشتیوں کے بادبان دکھائی دئیے، وہ پریشان ہوگیا۔ وہ زہرہ کی موجودگی کو بھول گیا اور گھوڑے کو کنارے کے ساتھ آگے چلا دیا۔ زہرہ بھی اسی کے پیچھے گئی۔ کمانڈر سنتریوں کو پکار رہا تھا۔
سنتریوں کو اس کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ الگ چٹانوں کی اوٹ میں ''بوڑھے خاوندوں کی نوجوان بیویوں'' کے جال میں پھنسے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے کمانڈر کی آواز پہچان لی اور وہاں سے اٹھے۔ وہ جب وہاں جاکر اکٹھے ہوئے جہاں وہ اپنے گھوڑے باندھ گئے تھے تو دیکھا کہ دونوں گھوڑے غائب ہیں۔ وہ وہیں رکے رہے۔ انہیں دور دو گھوڑے جاتے دکھائی دئیے۔
کمانڈر آگے جارہا تھا، زہرہ کا گھوڑا اس کے پہلو میں تھا۔ انہیں آواز سنائی دی… ''تم جنہیں پکار رہے ہو وہ بہت دور آگے ہیں''۔
''تم کون ہو؟''… کمانڈر نے پوچھا۔ ''آگے آئو''۔
''ہم مسافر ہیں''… اسے جواب ملا اور دو گھوڑے کمانڈر کی طرف بڑھنے لگے۔ پھر ایک اور آواز آئی… ''آگے چلیں ہم آپ کے ساتھ چلیں گے''۔
کمانڈر نے تلوار نکال لی۔ رات کے وقت مسافروں کا گھوڑوں پر سوار ہونا اور اس علاقے میں ہونا مشکوک تھا۔ وہ دونوں ان کے قریب آگئے۔ ایک نے کمانڈر سے کہا… ''ادھر دیکھ
: ایک نے کمانڈر سے کہا… ''ادھر دیکھو، و ہ آرہے ہیں''۔ جونہی کمانڈرنے ادھر دیکھا کسی آدمی نے ایک بازو کمانڈر کی گردن کے گرد لپیٹ کر بازو کا شکنجہ تنگ کردیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی تلوار والی کلائی پکڑ لی۔ دوسرے نے لڑکی کو دبوچ لیا۔ کمانڈر کو جس نے پکڑ رکھا تھا، اس نے اپنے گھوڑے کو ایڑی لگا دی۔ گھوڑا تیز چلا تو کمانڈر اپنے گھوڑے سے گرنے لگا۔ اندھیرے سے دو اور آدمی دوڑے آئے۔ انہوں نے کمانڈر کو بے بس کرلیا۔
یہ سازندے تھے جو دراصل تربیت یافتہ چھاپہ مار سپاہی تھے۔ ان میں سے دو تین زہرہ کے پیچھے گئے تھے اور انہیں راستے میں دیکھ کر اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے تعاقب میں آرہے تھے۔ سنتریوں کے گھوڑوں پر سوار ہوکر آنے والے ان کے ساتھی تھے۔ ان میں سے کسی نے کہا… ''انہیں زندہ لے چلو یہی حکم ملا تھا ک کوئی مشتبہ آدمی نظر آئے تو اسے زندہ لے آئو''۔
کمانڈر اور زہرہ کو جب پہاڑیوں کی طرف لے جایا جارہا تھا تو انہوں نے دیکھا کہ کشتیوں میں سے حبشی سامان اتار رہے تھے۔ یہ جنگی سامان اوررسد تھی۔
٭ ٭ ٭
پہاڑیوں میں دور اندر ہزاروں حبشیوں کا ہجوم ابھی تک خاموش بیٹھا تھا۔ شعلہ کبھی کا بجھ چکا تھا۔ مذہبی گیت کی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔ حبشیوں پر طلسم طاری تھا۔ ان کی جذباتی کیفیت کچھ اور ہوئی جارہی تھی۔ وہ اپنے آپ کو ان حبشیوں سے برتر سمجھنے لگے تھے جو سوڈان میں رہ گئے تھے… گیت گانے والے خاموش ہوگئے۔ اچانک سامنے پہاڑی پر چمک نظر آئی تھی جیسے بجلی چمکی ہو۔ چمک پھر پیدا ہوئی جو مستقل روشنی بن گئی۔ یہ روشنی ابوسمبل کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ کچھ پتا نہیں چلتا تھا کہ روشنی کہاں سے آرہی ہے۔ یوں لگتا تھا جیسے ابو سمبل کا چہرہ اپنی روشنی سے روشن ہوگیا ہو۔
روشنی بجھ گئی۔ ذرا سی دیر بعد روشنی پھر نظر آئی۔ سب نے دیکھا کہ ابوسمبل کے پہاڑ جیسے بت کی گود میں سے ایک آدمی اترا اور آگے چل پڑا۔ بت کے پیچھے سے چار آدمی نمودار ہوئے۔ سب ایک ایک سفید چادر میں ملبوس تھے۔ جنہوں نے کندھوں سے پائوں تک جسم کو ڈھانپ رکھے تھے جو آدمی بت کی گود سے آیا تھا وہ کوئی بادشاہ معلوم ہوتا تھا۔ اس کے سر پر تاج تھا اور تاج پر ایک مصنوعی سانپ کے پھن کا سایہ تھا۔ اس کا چغہ لال رنگ کا تھا۔ روشنی جو معلوم نہیں کہاں سے آرہی تھی۔ اس آدمی پر پڑ رہی تھی۔ اس کے چغے پر ستارے تھے جو روشنی میں چمکتے اور ٹمٹماتے تھے اس کے ہاتھ میں برچھی اور دوسرے میں ننگی تلوار تھی، تلوار بھی چمکتی تھی۔ سفید چادروں والے آدمی اس کے پیچھے آئے۔
وہ ڈھلان سے اتر رہے تھے اور روشنی ان کے ساتھ ساتھ آرہی تھی۔ اگلا آدمی جو بادشاہ لگتا تھا رک گیا۔ پیچھے والے چاروں آدمیوں نے اکٹھے بڑی بلند آواز سے کہا… ''خدا زمین پر اتر آیا ہے، سجدہ کرو۔ اٹھو اور غور سے دیکھو''… سارا ہجوم سجدے میں گر پڑا۔ سب نے سر اٹھائے اور ''خدا'' کو دیکھا۔ اس وقت ''خدا'' نے تلوار اوپر اٹھا لی تھی۔ وہ ڈھلان سے اترنے لگا۔ سناٹا ایسا طاری ہوگیا جیسے وہاں ایک بھی انسان نہ ہو۔ وہ اترتے اترتے ایسی جگہ آن کھڑا ہوا جو بلند تھی اور ہجوم کے قریب بھی تھی، یہ جگہ چوڑی تھی۔ روشنی صرف اس پر اور ان چار آدمیوں پر پڑ رہی تھی جو اس کے ساتھ تھے۔ اچانک اس روشنی میں چار لڑکیاں داخل ہوئیں۔ ان کے لباس اتنے سے ہی تھے کہ صرف ستر ڈھانپے ہوئے تھے۔ ان کے جسموں کے رنگ گورے تھے۔ ان کی پیٹھوں پر کندھوں سے ذرا نیچے پرندوں کی طرح پر پھیلے ہوئے تھے۔ ان کے بال کھلے تھے، وہ یوں حرکت کرتی تھیں جیسے اڑ رہی ہوں۔ وہ رقص کی ادائوں سے اس بادشاہ (حبشیوں کے ''خدا'') کے اردگرد گھوم کر وہیں کہیں غائب ہوگئیں شاید چٹان کے پیچھے اتر گئی تھیں۔
اس وقت چار آدمی کمانڈر اور زہرہ کو وہاں ایک غار میں لے گئے اور ایک کمرے میں داخل کردیا۔ ایک آدمی باہر چلا گیا۔ وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک اور آدمی تھا۔ اسے بتا دیا گیا کہ یہ چوکی کا کمانڈر ہے اور یہ رقاصہ ہے اور انہیں دریا کے کنارے سے اس وقت پکڑا گیا ہے جب کشتیاں سامان اور مزید حبشیوں کو اتار رہی تھیں۔
''تم انہیں بڑے اچھے وقت لائے ہو''۔ اس نے کہا… ''یہ بدبخت حبشی انسانی قربانی مانگ رہے تھے۔ ہم نے القند کے کہنے پر خدا کی آواز میں اعلان کردیا تھا کہ ایک مرد اور ایک عورت کی قربانی دی جائے گی ہمیں کہیں سے ایک مرد اور ایک عورت کو اغواء کرکے ان کے حوالے کرنا تھا۔ تم نے ہمارا مسئلہ حل کردیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ ہر کام پوری کامیابی سے ہورہا ہے۔ قربانی کے لیے اپنے آپ ہی دو انسان آگئے ہیں''۔
''حبشیوں نے خدا دیکھ لیا ہے؟'' ایک نے پوچھا۔
''اگر تم وہاں تھے تو دیکھتے کہ ہم نے کیسی استادی سے انہیں خدا دکھایا ہے''۔ اس نے جواب دیا… ''بت کی سامنے والی پہاڑی سے جلتے ہوئے فلیتے والے دو تیر چلائے گئے۔ تیر اندازوں نے اندھیرے میں ایسا نشانہ باندھا کہ صحیح جگہ پر تیر گرے۔ ہم نے تیل اور مادہ زیادہ جگہ پھیلا دیا تھا۔ پہلے ہی دو تیروں نے اسے آگ لگا دی۔ اینڈرسن تجربہ کار آدمی ہے۔ اس نے کہا تھا کہ شعلے میں بت ہنستا، مسکراتا اور جھپکتا نظر آئے گا۔ یہ شعلے کا کرشمہ تھا کہ خود ہمیں یقین ہونے لگا تھا کہ بت نہ صرف آنکھوں اور ہونٹوں کو حرکت دے رہا ہے بلکہ اس کا چہرہ دائیں بائیں حرکت کررہا ہے''۔
''اور حبشیوں کا ردعمل کیا تھا؟''
''سجدے میں گر پڑے تھے''۔ اس نے جواب دیا… ''ہمارے آدمیوں کی آوازیں بڑی گونج دار تھیں۔ پہاڑیوں میں ان کی گونج کچھ دیر تک سنائی دیتی رہی۔ میں اندھیرے میں دیکھ نہیں سکا۔ مجھے یقین ہے کہ حبشی خوف سے کانپ رہے ہوں گے۔ القند کا ناٹک تو بہت ہی کامیاب رہا۔ شعلہ بجھا تو ہم نے اسے پوشاک پہنا کر بت کی گود میں بٹھا دیا اور چار آدمی پہلے ہی وہاں چھپے بیٹھے تھے۔ بت پر سامنے کی پہاڑی سے روشنی پھینکنے کا سلسلہ بھی کامیاب رہا۔ ساتھ والی پہاڑی پر جو آگ جلائی گئی تھی وہ نیچے کسی کو نظر نہیں آئی تھی۔ اس کے قریب بڑا آئینہ رکھ کر بت پر عکس پھینکا تو یوں لگتا تھا جیسے یہ بت کے چہرے کا نور ہے۔ اس میں سے القند ''خدا'' بن کر اترا تو ہماری لڑکیوں نے سب کو یقین دلا دیا کہ یہ خدا ہے اور وہ پریاں ہیں۔ ہم کسی قدم پر ناکام نہیں ہوئے اب القند کو اندر بٹھا کر تمام حبشیوں کو ان کے سامنے سے گزارا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا کہ یہ ہے تمہارا ''خدا'' جو جنگ میں تمہارے ساتھ ہوگا''۔
''ان دونوں (کمانڈر اور زہرہ) کو آج ہی قربان کردیں گے''۔
''اس کا فیصلہ حبشی کریں گے۔ وہ شاید انہیں تین چار روز پالیں پوسیں گے اور اپنی کچھ رسمیں ادا کریں گے''۔
انہیں کسی کی آواز سنائی دی… ''مجھے معلوم نہیں تھا کہ لڑنے والے سالار کو یہ سوانگ بھی بھرنا پڑے گا''… تین چار آدمیوں کی ہنسی سنائی دی۔ کسی اور نے کہا… ''اس کے بغیر ان حبشیوں کو لڑانا آسان نہیں تھا۔ بہرحال آپ کو اس سوانگ کی بہت زیادہ قیمت مل رہی ہے''… ''پورا مصر''۔
یہ القند اور اس کے ساتھیوں کی آوازیں تھیں۔ وہ قریب آئے تو ان دونوں نے بتایا کہ ایک مرد اور ایک عورت اتفاق سے ہاتھ آگئی ہے۔ انہیں حبشیوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ القند نے یہ پوچھا کہ یہ دونوں کون ہیں، وہ سر سے تاج اتار کر اس کمرے میں چلا گیا جہاں کمانڈر اور زہرہ کو رکھا گیا تھا۔ القند کمانڈر کو نہ پہچان سکا۔ کمانڈر نے اسے پہچان لیا۔ کمانڈر کے کانوں میں وہ باتیں بھی پڑ گئی تھیں جو باہر ایک آدمی دوسرے کو سنا رہا تھا۔ اس نے اس کے منہ سے کئی بار القند کا نام سنا تھا اور اسے یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ اسے اور زہرہ کو قربان کیا جائے گا۔ القند اس کے سامنے آیا تو اسے اس پر حیرت نہ ہوئی کہ اس کا سالار یہاں کیسے آگیاہے۔
القند یہ کہہ کر باہر نکل گیا کہ ان دونوں کو حبشیوں کے مذہبی پیشوائوں کے حوالے کردو۔
٭ ٭ ٭
تین چار روز بعد قاہرہ میں العادل نے علی بن سفیان کو بلایا اور کہا… ''تین چار دنوں سے سالار القند نہیں مل رہا۔ میں اسے جب بھی بلاتا ہوں جو اب آتا ہے کہ وہ نہیں ہے۔ اس کے گھر سے بھی یہی جواب ملا ہے۔ وہ کہاں جاسکتا ہے؟''
''اگر سرحدی دستوں کے معائنے کے لیے سرحد کے دورے پر جاتا تو آپ سے اجازت لے کر جاتا''… علی بن سفیان نے جواب دیا… ''فوری طور پر میرے ذہن میں یہی آتا ہے کہ اسے تخریب کاروں نے اغوا یا قتل کردیاہوگا''۔
''یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تخریب کاروں سے ہی جا ملا ہو''… العادل نے کہا۔
''کبھی ایسا شک ہوا نہیں تھا''… علی بن سفیان نے کہا… ''میں اس کے گھر سے پتہ کراتا ہوں''۔
وہ خوداس کے گھر چلا گیا القند کے بارہ باڈی گارڈ موجود تھے۔ ان کے کمانڈر سے پوچھا کہ سالار القند کہاں ہیں؟ اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ کسی بھی باڈی گارڈ کو معلوم نہیں تھا۔ ملازمہ کو باہر بلا کر کہا گیا کہ القند کی بیویوں سے پوچھے کہ القند کہاں گیا ہے۔ ملازمہ اسے اندر لے گئی۔ الگ کمرے میں بٹھایا، وہ بوڑھی عورت تھی۔ اس نے علی بن سفیان سے کہا۔ ''اس گھر سے آپ کو پتا نہیں چلے گا کہ سالار القند کہاں چلے گئے ہیں۔ میں ایک عرصے سے یہاں جو کچھ دیکھ رہی ہوں، وہ بتا دیتی ہوں لیکن میری جان کی حفاظت آپ کے ذمہ ہوگی۔ اگر میں مرگئی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔  خاوند مدت ہوئی مرگیا تھا۔ ایک ہی بیٹا تھا وہ سوڈان کی لڑائی میں شہید ہوگیا ہے۔ میں نے یہاں نوکری کرلی ہے۔ یہ لوگ مجھے غریب اور سیدھی سادی عورت سمجھتے رہے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ شہید کی ماں اس ملک اور اس مذہب کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرسکتی جس کی خاطر اس نے اپنا بیٹاشہید کرایا ہو… اس گھر میں مشکوک سے لوگ آتے رہتے ہیں۔ میں نے ایک رات آدمی کو اندر آتے دیکھا۔ وہ عربی لباس میں تھا اور اس کی
 داڑھی تھی۔ مجھے اندر بلا کر کہا گیا کہ میں شراب لانے کا انتظام کروں۔ شراب ایک نئی بیگم پلایا کرتی ہے جو مصری یا عربی معلوم نہیں ہوتی۔ میں نے دیکھا کہ داڑھی والا مہمان داڑھی اتار رہا تھا۔ اس کی داڑھی اور مونچھیں مصنوعی تھیں۔ اس سے پہلے بھی یہاں ایسے لوگ آتے رہے ہیں جن پر مجھے شک ہے کہ یہ نیک نیت لوگ نہیں۔ میرے کانوں میں اس قسم کے الفاظ بھی پڑے ہیں… آدھا مصر سوڈان کا… مصر کی امارت… ایک ہی رات میں کام ہوجائے گا… سالار رات کو نکلے تھے۔ ان کے ساتھ دو اجنبی صورت آدمی تھے، میں نے یہ بھی دیکھا تھا کہ سالار نے محافظوں کے کمان دار سے کچھ باتیں کی تھیں''۔
بوڑھی ملازمہ نے کچھ اور باتیں بتا کر علی بن سفیان پر یہ ثابت کردیا کہ سالار القند نہ اغوا کیا گیا ہے نہ قتل اور نہ ہی وہ کسی سرکاری ڈیوٹی پر گیا ہے۔ مصر میں تخریب کاری اور غداری اتنی زیادہ ہوئی تھی اور ہورہی تھی کہ کسی شریف انسان پر بھی شک نہ کرنا بہت بڑی لغزش تھی۔ القند نے کبھی شک پیدا نہیں ہونے دیا تھا لیکن علی بن سفیان بال کی کھال اتارنے والا سراغ رساں تھا۔ اس کے لیے مشکل یہ تھی کہ کسی سالار کے رتبے کے آدمی کے گھر کی تلاشی کسی شہادت کے بغیر نہیں لے سکتا تھا۔ اس کے لیے مصر کے قائم مقام سپریم کمانڈر العادل کی اجازت کی ضرورت تھی۔ اس نے فوری طور پر یہ کارروائی کی کہ اپنے محافظ کو بھیج کر اپنے شعبے کے تین چار سراغ رساں بلا لیے اور انہیں القند کے مکان پر نظر رکھنے کے لیے ادھر ادھر چھپا دیا۔ انہیں ہدایت دی کہ کوئی مرد یا عورت مکان سے باہر آئے تو چوری چھپے اس کا تعاقب کیا جائے۔
باہر آکر اس نے باڈی گارڈ کے کمانڈر کو حکم دیا کہ اپنے اور تمام محافظوں کے ہتھیار اندر رکھ دو اور سب میرے 
ساتھ چلو۔ بارہ آدمیوں کی گارڈ کو نہتہ کرکے علی بن سفیان اپنے ساتھ لے گیا اور العادل کو تفصیل رپورٹ دی۔ العادل نے اسے القند کے گھر پر چھاپہ مارنے کی اجازت دے دی… وقت ضائع کیے بغیر سپاہیوں کی ایک ٹولی لائی گئی۔ ادھر القند کے گھر میں کوئی اور ہی صورت پیدا ہوگئی تھی۔ علی بن سفیان جب وہاں سے نکلا تھا تو القند کی ایک بیوی جو جوان تھی ملازمہ کو اپنے کمرے میں لے گئی اور اس سے پوچھا کہ علی بن سفیان نے اس سے کیا پوچھا اور اس نے کیا بتایا ہے۔ بڑھیا نے جواب دیا کہ وہ سالار کے متعلق پوچھ رہا تھا میں نے بتایا تھا کہ میں غریب سی ملازمہ ہوں مجھے کچھ خبر نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔
''تمہیں بہت کچھ معلوم ہے''… بیگم نے اسے کہا… ''اور تم نے بہت کچھ بتایا ہے''۔
بڑھیا اپنی بات پر قائم رہی۔ بیگم نے ایک ملازم کو بلایا اور اسے ساری بات بتا کر کہا… ''اس نامراد بڑھیا کی زبان کھولو۔ کہتی ہے میں نے کچھ نہیں بتایا''۔
ملازم نے بڑھیا کے بال مٹھی میں لے کر مروڑے اور ایسا جھٹکا دیا کہ وہ چکرا کر گری۔ ملازم نے اس کی شہ رگ پر پائوں رکھ کر دبا دیا۔ بڑھیا کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔ ملازم نے دانت پیس کر کہا… ''بتا اسے کیا بتایا ہے''… اس نے پائوں اٹھا لیا۔
بڑھیا میں اٹھنے کی ہمت کم رہ گئی تھی۔ وہ خاموش رہی۔ ملازم نے اس کی پسلیوں میں لات ماری۔ بڑھیا تڑپنے لگی۔ اس کے بعد ملازم نے اسے طرح طرح کی اذیتیں دے دے کر ادھ موا کردیا۔ تب اس نے کہا… ''جان سے مار ڈالو۔ اپنے شہید بیٹے کی روح کے ساتھ غداری نہیں کروں گی۔ تم غدار ہو۔ تم ایمان فروش کی بدکار بیوی ہو''۔
کوشش نہ کریں، وہ جانتا تھا کہ وہ کچھ نہیں بتائے گا تو اس کا کیا حشر کیا جائے گا۔ اس نے یہ کہہ کر وہ حکم کا پابند اور انعام واکرام کا طلب گار تھا، علی بن سفیان کو بتایا کہا لقند کا مسلسل رابطہ صلیبیوں اور سوڈانیوں کے ساتھ تھا اور وہ انہی کے ساتھ گیا ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ ایک گھریلو ملازم کو ایک سالار کے خفیہ پلان کا علم ہوتا۔ ملازم نے بتایا کہ القند نے جاتے ہوئے کہا تھا کہ بہت دنوں کے بعد آئے گا اور جب تک ممکن ہوسکا اس کی غیر حاضری کے متعلق لاعلمی کا اظہار کرتے رہیں۔ ملازم کو یہ معلوم نہیں تھا کہ القند گیا کہاں ہے۔
نئی بیگم کو علی بن سفیان نے اپنے دو آدمیوں کے ساتھ اپنے مخصوص تہہ خانے میں بھیج دیا اور خود کچھ اور تفتیش کرکے اور القند کے گھر پر پہرہ لگا کر اپنے دفتر میں چلا گیا جہاں القند کے باڈی گارڈ نہتے بیٹھے تھے۔ ان سب کو علی بن سفیان نے کہا… ''تم مصر اور شام کی متحدہ سلطنت کے فوجی ہو کچھ چھپائو گے تو اس کی سزا موت ہے اور اگر تم نے حکم کی پابندی کرتے ہوئے سالار القند کی سرگرمیوں پر پردہ ڈال رکھا ہے تو شاید میں تمہیں کوئی سزا نہ دوں گا''۔
گارڈ کا کمانڈر بول پڑا۔ اس نے جوبیان دیا، اس سے اس کی تصدیق ہوگئی کہ القند کے پاس صلیبی اور سوڈانی آتے تھے اور القند غداری کا مرتکب ہورہا تھا۔ انہیں بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ القند گیا کہاں ہے۔
آدھی رات کے قریب علی بن سفیان تہہ خانے میں گیا القند کی نئی : بیگم تنگ سی ایک کوٹھڑی میں بند تھی۔ اسے دہشت زدہ کرنے کے لیے اس کی کوٹھڑی میں ایک ایسے قیدی کو ڈال دیا گیا تھا جو مسلسل اذیتوں سے تڑپتا اور کراہتا تھا۔ وہ صلیبیوں کا جاسوس تھا۔ اپنے ساتھیوں کی نشاندہی نہیں کرتا تھا۔ نئی بیگم دوپہر سے اس کے ساتھ بند تھی اور اسے تڑپتا دیکھ رہی تھی۔ اب آدھی رات ہوگئی تھی۔ وہ تو شہزادی تھی، تہہ خانے اور کوٹھڑی کی صرف بدبو ہی اسے پاگل کرنے کو کافی تھی۔ اس آدمی کی حالت دیکھ دیکھ کر اس کا خون خشک ہوگیا تھا۔
علی بن سفیان جب اس کے سامنے گیا تو لڑکی چیخنے چلانے لگی اسے باہر نکال کر علی بن سفیان ایک اور کوٹھڑی کے سامنے لے گیا۔ سلاخوں کے پیچھے تنگ سی کوٹھڑی میں ایک سیاہ کالا حبشی بند تھا۔ہیبت ناک شکل اور جسم بھینسے جیسا۔ اس نے سرحدی دستے کے ایک کمانڈر کو قتل کیا تھا۔ علی بن سفیان نے لڑکی سے کہا کہ باقی رات اسے اس کے ساتھ بند کیا جائے گا۔ لڑکی چیخ کر علی بن سفیان کے پائوں پر گر پڑی۔
''پوچھو مجھ سے کیا پوچھتے ہو!''… اس نے علی بن سفیان کی ٹانگوں سے لپٹ کر کہا۔
''القند کہاں گیا ہے؟ کیوں گیا ہے؟ اس کے ارادے کیا ہیں؟''… علی بن سفیان نے پوچھا۔
''اوراسے تہہ خانے میں لے جاکر ختم کردو''… بیگم نے کہا… ''رات کو لاش غائب کردینا۔ ہمارے سر سے ابھی خطرہ ٹلا نہیں۔وہ ہمارے محافظ کو نہتہ کرکے اپنے ساتھ لے گیا ہے۔ اس بدبخت بڑھیا کو بہت کچھ معلوم ہے۔ اس راز سمیت زمین میں دبا دو''۔
بڑھیا فرش پر پڑی تھی۔ اس پر نیم غشی کی کیفیت طاری تھی۔ ملازم نے اسے ہلکی سی گٹھڑی کی طرح اٹھا کر کندھے پر ڈال دیا۔ کمرے سے نکل کر وہ برآمدے میں جارہا تھا کہ آواز آئی… ''رک جائو''… اس نے گھوم کر دیکھا۔ سپاہی دوڑے آرہے تھے۔ علی بن سفیان کے حکم پر وہ سب بکھر کر کمروں اور برآمدوں وغیرہ میں پھیل گئے۔ ملازم بھاگ نہ سکا۔ اس کے کندھے پر بڑھیا کو اتارا گیا۔ بڑھیا کے منہ سے خون نکل رہا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولیں، علی بن سفیان کو دیکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ اس نے کہا… ''اس سے پہلے مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس گھر میں کیا ہورہا ہے۔ تم آئے تو میرا شک پختہ ہوگیا کہ یہ تو گڑبڑ ہے''… اس کی آواز اکھڑ رہی تھی۔ اس نے بڑی مشکل سے بتایا کہ نئی بیگم اور اس کے اس ملازم نے اس سے یہ اگلوانے کے لیے کہ اس نے علی بن سفیان کو کیا بتایا ہے اسے بہت مارا ہے۔
علی بن سفیان نے ایک سپاہی سے کہا کہ بڑھیا کو فوراً طبیب کے پاس لے جائو… بڑھیا نے روک دیا اور کہا ''مجھے کہیں نہ بھیجو، میں اپنے شہید بیٹے کے پاس جارہی ہوں۔ مجھے نہ روکو''… اور وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔
القندکے گھر کا کونہ کونہ چھان مارا گیا تہہ خانے میں گئے تو یہ اسلحہ خانہ بنا ہوا تھا۔ گھر سے سونے کے ٹکڑوں اور نقدی کے انبار برآمد ہوئے۔ ایک مہر بھی برآمد ہوئی جس پر القند کا پورا نام اور اس کے ساتھ ''سلطان مصر'' کندہ تھا۔ القند کو اپنی فتح کا اتنا یقین تھا کہ اس نے اپنے نام کی مہر بھی بنوالی تھی۔ اس مہر نے شکوک کو یقین میں بدل دیا۔ القند کے گھر میں چھ بیویاں تھیں اور شراب کا ذخیرہ بھی تھا۔ القند کے متعلق مشہور تھا کہ شراب نہیں پیتا۔ اب اس کے گھر سے پتا چلا کہ رات کو پیا کرتا تھا۔ علی بن سفیان نے اس کی تمام بیویوں سے پوچھ گچھ کی تو اور کارآمد معلومات حاصل ہوئیں۔ اہم شہادت نئی بیگم کی تھی جس نے ملازم کے ہاتھوں بڑھیا کو مروا دیا تھا۔ باقی تمام بیویوں نے کہا کہ سارا راز نئی بیگم کے سینے میں ہے۔ اس کے متعلق یہ بھی بتایا گیا کہ اس کی زبان مصری نہیں، سوڈانی ہے اور جب باہرکے آدمی آتے ہیں تو صرف یہی لڑکی ان میں اٹھتی بیٹھتی اور ان کے ساتھ شراب پیتی ہے۔ ان بیویوں کے انداز سے پتا چلتا تھا کہ انہیں اورکچھ بھی معلوم نہیں۔
نئی بیگم کو الگ کرلیا گیا۔ علی بن سفیان نے کہا کہ ''وہ اب کچھ چھپانے کی کوشش نہ کرے، اس کے متعلق جو کچھ جانتی ہو بتا دو''۔: نازک سی لڑکی نے سب کچھ ہی بتا دیا۔ اسے بھی یہ معلوم نہ تھا کہ القند کہاں گیا ہے۔ اس نے بتایا کہ سوڈان 
سے حبشیوں کی فوج لائی جارہی ہے جو کسی رات قاہرہ پر حملہ کرکے سارے مصر پر قابض ہوجائے گی یہ لڑکی چونکہ شراب پلانے کا فرض ادا کرتی تھی، اس لیے القند کے گھر میں آئے ہوئے صلیبی اور سوڈانی مہمان اسے اپنا سمجھ کر اس کے سامنے بھی باتیں کرتے رہتے تھے۔ یہ لڑکی سوڈان کے کسی بڑے آدمی کی بیٹی تھی۔ اسے القند کے لیے تحفے کے طور پر بھیجا گیا تھا۔ القند نے اس کے ساتھ شادی کرلی تھی۔ لڑکی بہت ہوشیار اور تیز تھی وہ سوڈان کے مقصد کو اچھی طرح سمجھتی تھی۔ اس کے بتانے کے مطابق یہ سونا اور نقدی جو اس کے گھر سے برآمد ہوئی تھی، سوڈان سے آئی تھی۔ یہ جنگ کے اخراجات کے لیے اور مصری کی فوج سے غدار خریدنے کے لیے تھی۔ اس لڑکی کو اس مقام کا علم نہیں تھا جہاں حبشیوں کی بہت سی فوج آچکی تھی، اس نے بتایا کہ فوج کہیں دریا کے کنارے ہے اور اس کا حملہ شب خون کی قسم کا ہوگا۔
جس قدر معلومات حاصل کی جاسکتی تھیں کرلی گئیں۔ علی بن سفیان نے العادل کو تفصیلی رپورٹ دی اور تجویز پیش کی کہ دو دو چار چار سپاہی دیکھ بھال کے لیے ہر طرف پھیلا دئیے جائیں جو یہ دیکھیںکہ سوڈانی فوج کا اجتماع کہاں ہے اوریہ بھی معلوم کیا جائے کہ حبشیوں کی فوج اگرواقعی اندر آگئی ہے تو کدھر سے آئی ہے۔ اس نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ سلطان صلاح الدین ا یوبی کو اطلاع نہ دی جائے کیونکہ وہ سوائے پریشان ہونے کے کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ العادل سلطان صلاح الدینایوبی کو اطلاع دینا ضروری سمجھتا تھا۔ اسے خدشہ تھا کہ حالات زیادہ بگڑ سکتے ہیں۔ اس صورت میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی ضرورت پیدا ہوسکتی ہے۔ لہٰذا مکمل رپورٹ لکھ کر ایک سینئر کمانڈر کو چار محافظوں کے ساتھ دی گئی اور اسے یہ حکم دیا گیا کہ ہر چوکی پر گھوڑے تبدیل کریں اورکہیں رکیں نہیں۔
٭ ٭ ٭
میدان جنگ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا ہیڈکوارٹر کسی ایک جگہ نہیں رہتا تھا۔ وہ دن کو کہیں اور رات کو کہیں اور ہوتا اور خود گھومتا پھرتا رہتا تھا لیکن اس نے ایسا انتظام کررکھا تھا کہ اس تک پہنچتے وقت دقت نہیں ہوتی تھی۔ جگہ جگہ رہنما موجود تھے۔ جنہیں خبر پہنچا دی جاتی تھی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کہاں ہے۔ یہ ایک راز ہوتا تھا، اس لیے رہنما ذہین قسم کے افراد ہوتے تھے جس دن تین دنوں کی مسافت کے بعد پیغام لے جانے والاکمانڈر چار محافظوں کے ساتھ دمشق پہنچا اس وقت سلطان صلاحا لدین ایوبی الرستان کے سلسلہ کوہ میں تھا۔ سردی کا عروج تھا۔ کمانڈر اس کے محافظوں کی یہ حالت تھی کہ بھوک، نیند اور مسلسل سواری سے ان کے چہرے لاشوں کی طرح سوکھ گئے تھے۔ زبانیں باہر نکلی ہوئیں اورسر ڈول رہے تھے۔ پھر بھی وہ فوراً روانہ ہونے کے لیے تیار ہورہے تھے۔ انہیں زبردستی کھلایا پلایا گیااور وہ الرستان کے لیے روانہ ہوگئے۔
تریپولی کاصلیبی حکمران ریمانڈ الملک الصالح کی مدد کے لیے آیا اور بغیر لڑے واپس چلا گیا تھا کیونکہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے آگے گھات لگائی اور عقب سے اس کی رسد روک لی تھی۔ عقب میں بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج دیکھ کر ریمانڈ اپنی فوج کو کسی اور طرف سے نکال کر لے گیا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس کا تعاقب مناسب نہ سمجھا کیونکہ اس سے وقت اور طاقت ضائع ہوتی تھی۔ اس نے زیادہنفری کے چھاپہ مار دستے ریمانڈ کی رسد کو پکڑ لانے یا دوسری صورت میں تباہ کردینے کے لیے بھیج دیئے۔ موسم سرما کی بارشیں بھی شروع ہوگئی تھیں۔ صلیبیوں کی رسد کا قافلہ بہت ہی بڑا تھا۔ رات کے وقت رسد کے محافظ گھوڑا گاڑیوں کے نیچے اور خیموں میں پڑے تھے۔ انہیں رسد واپس لے جانی تھی۔ اگلی صبح انہیں کوچ کرنا تھا۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ دن کے وقت پہاڑیوں اور چٹانوں کی اوٹ سے چند آنکھیں انہیں دیکھتی رہی تھیں۔ انہیں غالباً توقع تھی کہ اتنی سردی میں اور بارش کے دوران ان پر کوئی حملہ نہیں کرنے آئے گا۔
رات کو اچانک ان کے کیمپ کے ایک طرف شور اٹھا۔ شعلے بھی اٹھے۔ خیمے جل رہے تھے۔ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ ماروں کا شب خون تھا۔ انہوں نے پہلے چھوٹی منجنیقوں سے آتش گیر مادے کی ہانڈیاں پھینکیں، پھر جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر چلائے تھے۔ شعلوں کی روشنی میں انہوں نے حملہ کردیا۔ برچھیوں اور تلواروں سے بہت سے صلیبیوں کو ختم کرکے چھاپہ مار پہاڑیوں میں غائب ہوگئے۔ کچھ دیر تک قریبی چٹانوں سے رسد کے کیمپ پر تیر برستے رہے۔ اس کے بعد چھاپہ ماروں کی دوسری پارٹی نے حملہ کیا۔ صبح تک ڈیڑھ دو میل علاقے میں پھیلے ہوئے کیمپ میں رسد رہ گئی تھی یا لاشیں یا ایسے زخمی جو چلنے کے قابل نہیں تھے۔ بہت سے گھوڑوں کو صلیبی بھگالے گئے تھے۔ بہت سے پیچھے بھی رہ گئے تھے۔ چھاپہ ماروں کے شب خونوں کے درمیانی وقفے میں صلیبی کچھ گھوڑا گاڑیاں نکال لے جانے میں کامیاب ہوگئ
نکال لے جانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ جو رسد اور گھوڑے رہ گئے وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج نے قبضے میں لے لیے۔
حلب کا محاصرہ اٹھا لیا گیا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اس اہم شہر کو ایک بار پھر محاصرے میں لینے کی سکیم بنا رہا تھا۔ دن کے وقت جب چھاپہ ماروں کا کمانڈر سلطان صلاح الدین ایوبی کے شب خونوں کی رپورٹ دے رہا تھا۔ دربان خیمے میں داخل ہوا۔ اس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاع دی کہ قاہرہ سے ایک کمان دار ایک پیغام لایا ہے۔ پیغام قاصد لایا لے جایا کرتے تھے۔ کمان دار کا نام سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی دوڑ کر باہر آیا اور اس کے منہ سے نکلا…''خیریت؟… تم کیوں آئے ہو؟''
''پیغام اہم ہے''… کمان دار نے کہا… ''خدائے ذوالجلال سے خیریت کی امید رکھنی چاہیے''۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے پیغام لیا اور کمان دار کو اندر لے گیا۔ اس نے پیغام پڑھا اور گہری سوچ میں کھوگیا۔
''ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ سوڈانیوں کی فوج مصر میں داخل ہوکر کہاں خیمہ زن ہوئی ہے؟''… سلطان صلاح الدین ایوبی نے پوچھا۔
''دیکھ بھال کے دستے بھیج دئیے گئے ہیں''… کمان دار نے جواب دیا۔
''مجھے توقع تھی کہ میری غیرحاضری میں کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہوگی''… سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا… ''میرے بھائی (العادل) سے کہنا کہ گھبرائے نہیں۔ قاہرہ کے دفاع کو مضبوط کرلے لیکن صرف دفاعی لڑائی نہ لڑے۔ زیادہ تر دستے اپنے پاس رکھے اور ان میں سے جوابی حملے کے لیے تجربہ کار دستے الگ کرلے لیکن انہیں شہر ہی میں رہنے دے۔
جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں