داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 70 - اردو ناول

Breaking

بدھ, جنوری 29, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 70

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔70- جب خدا زمین پر اتر آیا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
زیادہ تر دستے اپنے پاس رکھے اور ان میں سے جوابی حملے کے لیے تجربہ کار دستے الگ کرلے لیکن انہیں شہر ہی میں رہنے دے۔ فوج کی کوئی نقل وحرکت نہ کرے تاکہ دشمن کو یہ امید رہے کہ وہ تمہیں بے خبری میں لے لے گا۔ ظاہر یہ کرتے رہنا کہ قاہرہ کی فوج کو علم نہیں کہ قاہرہ پر حملہ ہونے والا ہے۔ شہر کو محاصرے میں نہ آنے دینا۔ اس سے پہلے ہی جوابی حملہ کردینا۔ کوشش یہ کرو کہ دشمن کے حملے سے پہلے ہی ڈھونڈ لو۔ اگر پتا چل جائے کہ وہ کہاں ہے تو زیادہ نفری سے حملہ نہ کرنا۔ شب خون مارنا۔ سرحدی دستوں کی نفری زیادہ کردو تاکہ دشمن بھاگ کر نہ جاسکے۔ میں حیران ہوں کہ اتنی فوج سرحد پار کس طرح کر آئی ہے۔ کسی نہ کسی سرحدی چوکی کی مدد یا کوتاہی کے بغیر یہ ممکن نہیں ہوسکتا۔ اللہ تمہیں کامیابی عطا فرمائے گا۔ دشمن رسد اور کمک کے بغیر نہیں لڑ سکے گے۔ سرحد کو مضبوطی سے بند کردینا۔ لڑائی کو طول دینا تاکہ دشمن بھوک سے مرے۔ میں تمہیں عملاً بتا چکا ہوں کہ دشمن کو بکھیر کر کس طرح لڑایا جاتا ہے۔ زیادہ نفری کے خلاف زیادہ نفری سے آمنے سامنے آکر لڑنا قطعاً ضروری نہیں''۔
''مجھے توقع نہیں تھی کہ القند بھی غدار نکلے گا پھر بھی میں حیران نہیں۔ ایمان کی نیلامی میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ 
بادشاہی کا صرف تصور ہی انسان کو ایمان سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیتاہے۔ اقتدار کا نشہ قرآن کو بند کرکے الگ رکھ دیتا ہے۔ مجھے افسوس القند پر نہیں، میں اسلام کے مستقبل کے متعلق پریشان ہوں۔ ہمارے بھائی صلیبیوں کے ہاتھوں فروخت ہوتے جارہے ہیں۔ا دھر میرے بھائی میرے خلاف لڑ رہے ہیں، میرا پیرومرشد نورالدین زنگی اس دنیا سے اٹھ گیا ہے۔ کل پرسوں ہم بھی اٹھ جائیں گے۔ا س کے بعد کیا ہوگا؟ یہی سوال مجھے پریشان رکھتا ہے۔ کوشش کرنا کہ جب تک زندہ رہو اسلام کا پرچم سرنگوں نہ ہونے پائے۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ مجھے باخبر رکھنا''۔
اس نے پیغام لانے والے کمان دار کو بہت سی ہدایات دے کر رخصت کردیا۔
٭ ٭ ٭
مصری فوج کے چند ایک دستوں کو دودو چار چار کی ٹولیوں میں تقسیم کرکے بھیج دیا گیا کہ وہ گھوم پھر کر دشمن کے اجتماع کو ڈھونڈیں۔ا س دوران اس سرحدی چوکی سے جس کا کمانڈر زہرہ کے ساتھ لاپتہ ہوگیا تھا، ایک سپاہی نے قاہرہ آکر رپورٹ دی کہ چوکی کا کمانڈر چند دنوں سے لاپتہ ہے۔ سپاہی نے یہ نہ بتایا کہ ان کی چوکی پر ناچ گانا ہوا تھا اور ایک رقاصہ کمانڈر کے خیمے میں گئی تھی۔ اس اطلاع سے شک ہوا کہ وہ دشمن کے ساتھ مل گیا ہے اور اسی کی مدد سے دشمن اندر آیا ہے۔ علی بن سفیان نے رائے دی کہ چونکہ وہ چوکی دریائی راستے کی نگرانی کے لیے ہے، اس لیے دشمن دریا کے راستے آیا ہوگا۔ فیصلہ ہوا کہ کسی ذہین کمانڈر کو اس چوکی پر محافظوں کے ایک دستے کے ساتھ بھیجا جائے۔
چوکی کا کمانڈر اور زہرہ حبشیوں کے قبضے میں تھے لیکن قید ہوتے ہوئے بھی وہ قیدی نہیں تھے۔ا نہیں جو لباس پہنایا گیا تھا وہ پرندوں کے رنگ برنگ پروں کا بنا ہوا تھا جس کمرے میں انہیں رکھاگیا تھا، اسے پروں اور پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ انہیں خاص قسم کی غذ ا کھلائی جارہی تھی۔ حبشیوں کے مذہبی پیشوا ان کے آگے سجدے کرتے اور کچھ بڑبڑا کر چلے جاتے تھے۔ کسی اور کو ان کے قریب آنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک بار انہیں درختوں کی مضبوط ٹہنیوں اور پتوں کی بنی ہوئی پالکیوں پر اٹھا کر دریا میں نہلانے کے لیے لے جایا گیا تھا۔ دونوں کو معلوم تھا کہ انہیں ذبح کیا جائے گا۔ رات کو وہ تنہا ہوتے تھے لیکن باہر آٹھ دس حبشی موجود رہتے تھے۔ کمانڈر نے کئی بار اٹھ کر دیکھا تھا کہ فرار کی کوئی صورت بن سکتی ہے یا نہیں۔ فرار ممکن نظر نہیں آتا تھا۔
ایک رات حبشیوں کے دو مذہبی پیشوا آئے۔ کمانڈر اور زہرہ سوئے ہوئے تھے۔ انہیں جگایا گیا، وہ سمجھے کہ ان کی موت آن پہنچی ہے۔ مذہبی پیشوائوں نے ان کے آگے سجدہ کیا اور دونوں کو باہر لے گئے۔ باہر پالکیاں رکھی تھیں۔ ایک پر کمانڈر اور دوسرے پر زہرہ کو بٹھایا گیا۔ دو دو حبشیوں نے ایک ایک پالکی اٹھالی۔ مذہبی پیشوا آگے آگے چل پڑے۔ وہ دونوں مل کر کچھ گنگنانے لگے۔ پالکیوں کے پیچھے دو اور حبشی تھے جن کے پاس برچھیاں تھیں۔ وہ محافظ تھے۔ کمانڈر اور زہرہ خاموش تھے۔ پہاڑیوں سے نکل کر وہ لوگ دریا کی طرف چل پڑے۔ کمانڈر نے دیکھا کہ چاند افق سے نکل رہا تھا۔ اس سے اس نے اندازہ کیا کہ رات آدھی گزر گئی ہے۔ اس وقت سے پہلے چاند نہیں ہوتا تھا۔
دریا کے کنارے لے جا کر پالکیاں اتاری گئیں۔ مذہبی پیشوا آگے بڑھ کر کمانڈر اور زہرہ کا لباس اتارنے لگے۔ چاند کی روشنی میں کمانڈر نے دیکھا کہ برچھیوں والے دونوں محافظ اور پالکیاں اٹھانے والے دونوں حبشی : ان کی طرف پیٹ کرکے پہلو بہ پہلو کھڑے ہوگئے تھے۔ ان کے لیے شاید یہی حکم تھا۔ کمانڈر نے چیتے کی طرح جست لگائی اور ایک حبشی سے برچھی چھین لی۔ وہ تجربہ کار سپاہی تھا۔ اس نے پیچھے ہٹ کر دوسرے حبشی کے پہلو میں برچھی اتار دی۔ اس حبشی کی برچھی گر پڑی۔ کمانڈر نے چلا کر کہا… ''زہر ہ بھاگ کر آئو، یہ برچھی اٹھالو''۔
زہرہ دوڑی۔ کمانڈر نے گری ہوئی برچھی کو ٹھڈا مارا تو وہ زہرہ تک پہنچ گئی۔ کمانڈر نے کہا… ''اب مرد بن جائو''… حبشیوں نے خالی ہاتھ مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ برچھیوں کا مقابلہ نہ کرسکے۔ مذہبی پیشوا بھاگ اٹھے۔ کمانڈر نے انہیں دور نہیں جانے دیا۔ زہرہ بھی ادھر کو ہی دوڑ پڑی۔ دونوں پیشوا ختم ہوگئے۔ باقی بھی مرنے سے پہلے زور زور سے کراہاور چلا رہے تھے۔ کمانڈر کی برچھی نے سب کو خاموش کردیا اور وہ چوکی کی طرف دوڑ پڑے۔ بہت آگے گئے تو انہیں دو گشتی سنتری گھوڑوں پر سوار آتے نظر آئے۔ کمانڈر نے انہیں پکار کر کہا کہ جلدی آگے آئو۔
سنتریوں نے اپنے کمانڈر کو پہچان لیا۔ کمانڈر نے انہیں کہا… ''گھوڑے ہمیں دو، ہم قاہرہ جارہے ہیں، تم دونوں واپس چوکی میں چلے جائو۔اگر کوئی ہماری تلاش میں آئے تو کہنا کہ تم نے ہمیں نہیں دیکھا''۔
سپاہی پیدل واپس چلے گئے، کمانڈر نے زہرہ کو گھوڑے پر سوار کیا اور خود دوسرے گھوڑے پر سوار ہوکر زہرہ سے کہا کہ اگر تم نے کبھی گھوڑ سواری نہیں کی توگھبرانا نہیں۔ گھوڑا تمہیں گرائے گا نہیں۔ ڈرنا مت۔ اس نے گھوڑے کو ایڑی لگائی۔ گھوڑے سرپٹ دوڑنے لگے اور اس کے ساتھ ہی زہرہ نے ڈر کے مارے چیخنا شروع کردیا۔ کمانڈر نے گھوڑا روک لیااور زہرہ کو اپنے گھوڑے پر اپنے پیچھے بٹھا لیا اور دوسرے گھوڑے کی باگیں اپنے گھوڑے کے پیچھے باندھ کر زہرہ سے کہا کہ وہ اس کی کمر کے گرد بازو ڈال لے۔
گھوڑا پھر دوڑ پڑا۔ کمانڈر خطے سے دورہٹ کر اور چکر کاٹ کر جارہا تھا۔ اسے سمت اور راستے کاعلم تھا۔ وہ ابھی دو میل بھی نہیں گیا ہوگا کہ ایک طرف سے اسے آوازسنائی دی… ''ٹھہر جائو کون ہو؟''… کمانڈر رکا نہیں۔ بیک وقت چار گھوڑے اس کے تعاقب میں دوڑ پڑے۔ کمانڈر نے اپنے گھوڑے کی رفتار اور تیز کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا گھوڑا تھک گیا تھا۔ اس نے کوشش کی کہ دوسرے گھوڑے کو اپنے پہلو میں کرکے اس پر سوار ہوجائے وہ گھوڑا بغیروزن کے بھاگ رہا تھا۔ اس لیے زیادہ ٹھکا ہوا نہیں تھا مگرزہرہ کے ساتھ بھاگتے گھوڑے سے دوسرے گھوڑے پر سوار ہونا ممکن نہیں تھا۔ چاند اوپر آگیا تھا جس سے دور تک نظر آسکتا تھا۔ چاروں گھوڑے بہت قریب آگئے تھے۔
دو تیر آئے جو کمانڈر کے قریب سے گزر گئے۔ ان کے ساتھ آواز آئی… ''اگر نہ رکے تو اب تیر کھونپڑی میں اتر جائیں گے''۔
کمانڈر کو معلوم تھا کہ وہ رکا تو بھی موت ہے۔ یہ لوگ حبشیوں کے حوالے کرکے آج ہی رات ذبح کردیں گے۔ بھاگتے رہنے میں بچ نکلنے کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس نے گھوڑا دائیں بائیں گھما گھما کر دوڑانا شروع کردیا تاکہ تیر نشانے پر نہ آئیں۔ یہ اس کی غلطی تھی۔ اس کے تعاقب میں آنے والے سیدھے آرہے تھے جس سے فاصلہ کم ہوگیا اور وہ گھیرے میں آگیا۔ اس کے جسم پر پروں کا لباس تھا جس سے وہ پرندہ لگتا تھا۔ یہی حالت زہرہ کی تھی کمانڈر نے ان چاروں کو دیکھا تو اسے شک ہوا۔ ان میں سے ایک نے پوچھا… ''تم کون ہو؟''… دوسرے نے کہا… ''پوچھتے کیا ہو، سوڈانی ہے یہ، دیکھو تو انہوں نے پہن کیا رکھا ہے''۔
کمانڈر ہنس پڑا اور بولا… ''میرے دوستو، میں تمہاری فوج کا ایک کمان دار ہوں''… اس نے زہرہ کا تعارف کرایا اور ساری واردات سنا دی۔
یہ چار سوار دیکھ بھال کے کسی دستے کے تھے۔ وہ یہی دیکھتے پھر رہے تھے کہ سوڈان کی فوج کہاں ہے اور کہیں ہے بھی یا نہیں۔ وہ کمانڈر اور زہرہ کو ساتھ لے کر قاہرہ کی سمت چل پڑے۔
٭ ٭ ٭
بڑی ہی لمبی مسافت طے کرکے وہ اگلی رات قاہرہ پہنچے۔ انہیں سب سے پہلے علی بن سفیان کے پاس لے جایا گیا اور رات کو ہی العادل کو جگا کر بتایا گیا کہ چار ہزار سے زیادہ حبشی فوج فلاں جگہ چھپی ہوئی ہے اور اس کی قیادت سالار القند کررہا ہے۔ العادل نے اسی وقت اپنی فوج کو کوچ کا حکم دے دیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے طریقہ جنگ کے مطابق اس نے ہر اول میں سوار دستے رکھے، جن کی نفری خاصی تھوڑی تھی۔ دو حصے پہلوئوں میں پیچھے رکھے۔ درمیان میں اپنا مین کوارٹر اپنے پیچھے زیادہ سے زیادہ دستے ریزرو میں رکھے۔ اسے معلوم تھا کہ وہ خطہ پہاڑی ہے۔ اس نے فوج کو قلعے کا محاصرہ کرنے کی تربیت میں رکھاا ور کمانڈروں کو وہ جگہ سمجھا کر محاصرے کی ہی ہدایات دیں۔ پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے اس نے چھاپہ مار دستے الگ کرلیے جنہیں اس نے اپنی کمان میں رکھا۔
ادھر صبح کے وقت کسی نے دیکھا کہ مذہبی پیشوائوں اور چار حبشیوں کی لاشیں دریا کے کنارے پڑی ہیں۔ القند اور اس کے صلیبی مشیروں کو اطلاع دی گئی۔ کسی حبشی کو پتا نہ چلنے دیا گیا۔ : ۔ القند کو یہ بھی بتایا گیا کہ جس مرد اور عورت کو قربانی کے لیے رکھا گیا تھا وہ لاپتہ ہیں۔ تب القند نے پوچھا کہ وہ آدمی کون تھا۔ اسے جب بتایا گیا کہ وہ اس قریبی چوکی کا کمانڈر تھا تو وہ چونکا۔ اسے یاد آگیا کہ اس کمانڈر نے اسے دیکھا تھا۔
''وہ سیدھا قاہرہ گیا ہوگا'' القند نے کہا… ''اسے چوکی میں جاکر دیکھنا اور پکڑنا بیکار ہے۔ اب ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ہم قاہرہ پر بے خبری میں ہلہ بولنا چاہتے تھے لیکن ہم نے وقت ضائع کیا۔ اب ہم بے خبری میں مارے جائیں گے۔ میں اپنی فوج کو جانتا ہوں۔ خبر ملتے ہی اڑ کر پہنچے گی… اور ایک کام فوراً کرو۔ حبشیوں کی لاشیں دریا میں بہا دو۔ اگر ان حبشیوں کو پتا چل گیا کہ ان کے مذہبی پیشوا اور ان کے محافظ مارے گئے اور جنہیں قربان کرنا تھا وہ بھاگ گئے ہیں تو یہ ہجوم قاہرہ کے بجائے خرطوم کی طرف چل پڑے گا''۔
فوراً ہی اعلان کردیا گیا کہ دریا کے کنارے قربانی دے دی گئی ہے۔ خدا نے حکم دیا ہے کہ میرے دشمنوں پر فوراً حملہ کردو… ان کے جو کمانڈر مقرر کیے گئے تھے انہوں نے حبشیوں کو تعداد کے مطابق الگ الگ کردیا۔ تیر انداز الگ ہوگئے، جنگی سکیم کے مطابق انہیں ترتیب میں کرلیا گیا۔ انہیں پہاڑیوں کے اندر سے نکال کر دریا کے کنارے اس جگہ کے قریب سے گزارا گیا جہاں حبشیوں کا خون بکھرا ہوا تھا اور پالکیاں پڑی تھیں۔ وہاں ایک آدمی کھڑا اعلان کررہا تھا… ''یہ خون اس مرد اور عورت کا ہے جنہیں قربان کیا گیا ہے''۔
یہ فوج دریا کے کنارے قاہرہ کی سمت روانہ ہوئی۔ حبشی جنگی ترانہ گاتے جارہے تھے۔ دن چلتے گزر گیا رات آئی تو پڑائو کیا گیا۔ اگلی صبح پھر کوچ ہوئی۔پہاڑی خطہ بہت پیچھے رہ گیا۔ یہ دن بھی گزر گیا اور ایک اور رات آئی۔ حبشیوں کو پڑائو کرنے کو کہا گیا۔ وہ کھا پی کر صحرا میں بکھر گئے اور بے سدھ سوگئے… آدھی رات کے وقت ان کے پچھلے حصے پر العادل کے ایک چھاپہ مار گروہ نے شب خون مارا۔ گھوڑے سرپٹ دوڑتے آئے اور غائب ہوگئے۔ حبشیوں میں ہڑبونگ مچ گئی۔ بہت دیر بعد ایسا ہی ایک اور ہلہ آیا جو بہت سے حبشیوں کو روندتا کچلتا نکل گیا۔ القند سب سے آگے تھا۔ اسے اطلاع ملی تو اس نے اگلے روز کی پیش قدمی روک دی۔
''یہ شب خون بتاتے ہیں کہ ہم مصرف فوج کی نظر میں آگئے ہیں''۔ اس صلیبی اور سوڈانی کمانڈروں سے کہا… ''یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا خصوصی طریقہ جنگ ہے۔ ہم اب آگے نہیں بڑھ سکتے۔ تم ہزار جتن کرو مصری فوج سے تم کھلے صحرا میں لڑ نہیں سکتے اور اب تم بھاگ بھی نہیں سکتے۔ اب پیچھے چلو اور پہاڑیوں میں لڑو۔ ہمارا تمام تر منصوبہ ناکام ہوچکا ہے۔ قاہرہ والے نہ صرف بیدار ہوگئے ہیں بلکہ انہوں نے فوج بھیج دی ہے''۔
''کیا ہم صحرا میں مصری فوج کو ڈھونڈ کر اس سے لڑ نہیں سکتے؟'' ایک صلیبی نے کہا۔
''اگر تم لوگ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کو سامنے لاکر لڑا سکتے تو آج مصر تمہارا ہوتا''۔ القند نے کہا… ''میں اسی فوج کا سالار ہوں۔ تم مجھ سے بہتر نہیں سمجھتے کہ اس فوج سے کیسے لڑنا ہے''۔
سحر کے وقت حبشیوں کی فوج واپس چل پڑی۔ ہر طرف حبشیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ القند ٹھیک کہتا تھا کہ اس کی فوج مصری فوج کی نظر میں آگئی ہے۔ مصری فوج کا دیکھ بھال کا انتظام القند کی ایک ایک حرکت دیکھ رہا تھا۔ وہ حبشیوں کی فوج کو پیچھے لے چلا تو العادل فوراً سمجھ گیا کہ القند پہاڑیوں میں لڑنا چاہتا ہے۔ اس نے اسی وقت سوار تیر انداز دستے دور کے راستے سے پہاڑی خطے کی طرف روانہ کردئیے۔ پیادہ دستے بھی بھیجے گئے اور اس نے زیادہ تر دستے اپنے پاس روکے رکھے۔ ان دستوں کے ساتھ وہ حبشی فوج سے بہت فاصلہ رکھ کر پیچھے پیچھے چل پڑا۔
راستے میں رات آئی۔ حبشیوں کا پڑائو ہوا۔ رات کو العادل کے چھاپہ مار دستے حرکت میں آئے۔ حبشیوں کے ایک جیش کو بیدار رکھا گیا تھا۔ یہ تیر انداز تھے۔ انہوں نے بہت تیر چلائے جن سے کچھ سوار چھاپہ مار شہید ہوئے لیکن وہ جو نقصان کرگئے وہ بہت زیادہ تھا۔ سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ حبشیوں کا لڑنے کا جذبہ مجروح ہوگیا تھا۔ وہ کچھ اور سوچ کر آئے تھے۔وہ آمنے سامنے لڑنے کے عادی تھے مگر یہاں دشمن انہیں نظر ہی نہیں آتا تھا، وہ تباہی بپا کرجاتا تھا۔ اس کے علاوہ آگے بڑھتے بڑھتے پیچھے ہٹ رہے تھے۔
اگلے دن حبشیوں نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں دیکھیں اور پیچھے کو چل پڑے… سورج غروب ہونے میں ابھی بہت دیر باقی تھی۔ جب وہ پہاڑی خطے میں داخل ہوئے لیکن اب انہیں پہلے کی طرح ایک جگہ جمع نہیں کرنا تھا بلکہ پہاڑیوں کے اوپر، نیچے اور وادیوں میں لڑنے کی ترتیب میں رکھنا تھا ان کی آدھی نفری پہاڑیوں میں پہنچ چکی تھی۔ جب ان پر بلندیوں سے تیر برسنے لگے۔ العادل کے برق رفتار دستے پہلے ہی وہاں پہنچ کر مورچہ بند ہوگئے تھے۔ حبشیوں کے کمانڈروں نے چیخ چلا کر انہیں اوٹ میں کہا اور تیر اندازی کا حکم دیا۔ باقی نصف فوج ابھی باہر تھی۔ 
۔ اسے پیچھے ہٹایا گیا۔ القند نے اس نفری کو پہاڑیوں پر چڑھا کر آگے جانے اور اوپر سے تیر چلانے کی چال چلی مگر حبشی ابھی پہاڑوں پر چڑنے ہی والے تھے کہ ادھر سے العادل کی فوج جو ان کے عقب میں جارہی تھی، پہنچ گئی۔
حبشیوں کی خاصب نفری بلندیوں پر جانے میں کامیاب ہوگئی۔ جہاں سے حبشیوں نے نہایت کارگر تیر اندازی کی۔ العادل کو نقصان اٹھانا پڑا مگر اس کی سکیم اچھی تھی۔ اس نے ادھر سے دستے پیچھے ہٹا لیے۔ اس کی پہلی ہدایات کے مطابق دوسری طرف سے تیر انداز اور دیگر دستے پہاڑی خطے کی بلندیوں پر جارہے تھے۔سوار دستوں میں ایک کو دریا کے کنارے بھیج دیا گیا۔
اسوان کے اس سلسلہ کوہ میں خونریز معرکہ لڑا گیا۔ وادیوں پر تیر برس رہے تھے۔ پھر سوار دستوں کو وادیوں میں ہلہ بولنے کا حکم ملا۔ رات کو حبشی تو دبک گئے لیکن العادل نے منجنیقوں کے دستوں کو حکم دیا کہ وہ جگہ جگہ آتش گیر مادے کی ہانڈیاں پھینک کر آگ کے گولے پھینکیں۔ تھوڑی دیر بعد پہاڑیوں کی ڈھلانوں پر آگ کے شعلے اٹھے اور ہر طرف روشنی ہوگئی۔ اس روشنی میں رات کو بھی معرکہ جاری رہا۔ صبح کے وقت حبشی خاموش ہوچکے تھے۔ ان میں سے کچھ زمین دوز محلات میں چلے گئے تھے۔ انہیں بڑی مشکل سے باہر نکالا گیا۔
دن کے وقت القند کی لاش مل گئی۔ وہ کسی کے تیر سے یا تلوار سے نہیں اپنی تلوار سے مرا تھا۔ اس کی اپنی تلوار اس کے دل کے مقام پر اتری ہوئی تھی۔ صاف پتا چلتا تھا کہ اس نے خودکشی کی ہے۔ چند ایک صلیبی اور سوڈانی کمانڈر زندہ پکڑے گئے اور حبشی جنگی قیدیوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی۔
العادل نے وہیں سے قاصد کو سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام کامیابی کا پیغام دے کر روانہ کردیا اور اسے حکم دیا کہ بہت جلدی سلطان صلاح الدین ایوبی تک پہنچو، وہ بہت پریشان ہوں گے۔
جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں