داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر -147 - اردو ناول

Breaking

جمعرات, ستمبر 08, 2022

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر -147


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر147 آنسو جو مسجدِ اقصیٰ میں گرے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صلیبیوں کی شکست کی دعا کررہا ہے'' ''اس سے مجھے اور زیادہ شک ہوا۔ وہ اتنا بے خبر نہیں ہوسکتا تھا کہ اسے یہ بھی پتہ نہ چل سکتا کہ اس کے پیچھے کوئی آکر بیٹھ گیا ہے۔ ہم کوئی فیصلہ نہ کرسکے کہ کیا کیا جائے۔ اس شش وپنج میں رات گزر گئی۔ صبح کی اذان کے ساتھ ہی یہ آدمی مسجد سے نکلا۔ ہم نے باری باری ساری رات اس پر نظر رکھی تھی۔ میں نے مسجد کی روشنی میں د یکھا کہ یہ جب باہر آرہا تھا تو کمبل میں سے اس کے پائوں نظر آرہے تھے اور میں نے اس کے ہاتھ بھی دیکھے جو اس نے فوراً کمبل میں چھپا لیے تھے۔ میں اس کے تعاقب میں چل پڑا''۔
''ہاں میرے دوست!''… العاص نے کہا… ''تم نے ٹھیک دیکھا ہے۔ یہ مرد نہیں عورت ہے اور بڑی ہی خوبصورت اور جوان عورت ہے اور میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ یہ ایک گناہ گار عورت ہے جو دس سال ہمارے خلاف جاسوسی کرتی رہی ہے''۔
''یہ صلیبی ہے؟''
''صلیبی تھی''… العاص نے جواب دیا … ''اب مسلمان ہے۔ میں نے اسے ایک مسلمان گھر میں رکھا ہوا ہے۔ اسے تم مجذوب کہہ سکتے ہو۔ درویشوں کی طرح باتیں کرتی ہے''۔
''اور تم لوگ اس کی باتوں میں آگئے ہو''… احتشام نے کہا… ''تم میدان جنگ میں لڑنے والے فوجی ان عورتوں کی چالبازیوں کو نہیں سمجھ سکتے''۔
''تو میرے ساتھ آئو''… العاص نے کہا… ''تم اسے دیکھو، اس کی باتیں سنو، اپنا شک رفع کرو۔ ہمیں بھی کچھ بتائو۔ یہ تمہارا فن ہے تم بہتر سمجھ سکتے ہوں۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں اس کی باتوں کا قائل ہوگیا ہوں۔ میں نے اسے پناہ دلوائی ہے۔ میرے ساتھ آئو''۔
اور احتشام العاص کے ساتھ چلا گیا۔
٭ ٭ ٭
وہ ایک بزرگ کا مکان تھا جو مدت سے بیت المقدس میں رہتا تھا۔ احتشام اور العاص اس کے ڈیوڑھی میں جا بیٹھے۔ یہ بزرگ انسان جو عالم فاضل بھی تھا، نماز کے لیے مسجد میں چلا گیا تھا۔ احتشام نے العاص سے کہا کہ ''اس عورت کو دیکھنے سے پہلے میں تم سے پوچھوں گا کہ یہ عورت کہاں سے آئی ہے۔ اس کے متعلق تم جو کچھ جانتے ہو، مجھے بتا دو''۔
''یہ پچھلی گرمیوں کا واقعہ ہے''… العاص نے احتشام کو سنایا… ''میں مصر کی سرحد سے تھوڑی دور چھاپہ ماروں کے ایک دستے میں تھا، بیت المقدس فتح ہوچکا تھا۔ ہماری زندگی ٹیلوں، ٹیکریوں اور صحرا میں گزر رہی تھی۔ اس علاقے میں ہمارا وہ کام نہیں رہ گیا تھا جو ادھر کے چھاپہ مار ابھی تک کررہے ہیں۔ آخر ہمیں واپسی کا حکم مل گیا۔ مجھے ایک جیش کی کمان دے دی گئی۔ میرے ساتھ سولہ چھاپہ مار تھے۔ ہر ایک جیش اپنے اپنے طور پر واپس آرہا تھا۔ ایک جگہ ٹیلے ستونوں کی طرح کھڑے تھے اور بعض کی شکلیں بڑی ڈرائونی اور عجیب عجیب سی تھیں۔ میرے ایک چھاپہ مار نے مذاق سے کہا کہ یہ جنات اور چڑیلوں کے محل ہیں، یہاں خوبصورت اور بدکار عورتوں کی بدروحیں بھی ہوں گی۔ ہم یہ سن کر ہنس پڑے اور ان ٹیلوں میں داخل ہوگئے''…
''ہمیں ان ٹیلوں نے کیا ڈرانا تھا، ہم نے تو ان ٹیلوں سے زیادہ خوفناک جگہوں میں راتیں گزاریں ہیں۔ ہم اس جگہ بھی رات کو سوئے ہیں جہاں انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے اور کھونپڑیاں بکھری ہوئی تھیں لیکن ان ٹیلوں کے اندر گئے تو ہم ٹھٹھک کر رک گئے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار محسوس کیا کہ خوف کیا ہوتا ہے۔ میرا سارا جیش رک کر کلمہ شریف کا ورد کررہا تھا… سامنے ایک ٹیلے کے سائے میں ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی جو مادر زاد برہنہ تھی۔ اس کے سامنے ایک عورت پیٹھ کے بل لیٹی ہوئی تھی۔ وہ بھی برہنہ تھی۔ بیٹھی ہوئی عورت جوان لگتی تھی، اس کا چہرہ بادامی رنگ کا تھا، ہونٹ ریت کے ڈھیلے کی طرح خشک اور پھٹے پھٹے۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا، بال بکھرے ہوئے تھے، برہنہ جسم کی ہڈیاں نظر آرہی تھیں۔ اس حالت میں بھی پتہ چلتا تھا کہ وہ بہت خوبصورت ہے''…
''یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ دونوں انسان ہوتیں۔ یہ راستہ نہیں تھا کہ کوئی قافلہ یہاں سے گزرا ہوتا اور ڈاکوئوں نے انہیں لوٹ لیا ہوتا اور یہ بچ بچا کر یہاں چھپ گئی ہوتیں۔ میں اپنے سپاہیوں کو ڈرانا نہیں چاہتا تھا مگر میں خود ڈر گیا اور انہیں دیکھتے ہی مجھے یقین ہوگیا کہ یہ گناہ گار عورتوں کی بھٹکتی ہوئی روحیں ہیں۔ میں اس امید پر د ور ہی رکا رہا کہ یہ غائب ہوجائیں گی مگر جو عورت بیٹھی ہوئی تھی، بیٹھی رہی اور جو لیٹی ہوئی تھی، وہ لیٹی رہی۔ بیٹھی ہوئی عورت پھٹی پھٹی نظروں سے ہمیں دیکھتی رہی۔ میرے ایک ساتھی نے آہستہ سے کہا… ''پیچھے کو لوٹ چلو''… ایک اور نے کہا… ''ہاں… پیچھے چلو لیکن ان کی طرف پیٹھ نہ کرنا''… ہمارا ان سے فاصلہ پندرہ قدم ہوگا، ہم سب نہایت آہستہ آہستہ ایک ایک قدم پیچھے ہٹے۔ تب بیٹھی ہوئی عورت نے سرکا اشارہ کیا جیسے ہمیں بلا رہی ہو۔ میں نے ایک قدم اور پیچھے اٹھایا تو اس نے سر سے پھر اشارہ کی
: میں نے ایک قدم اور پیچھے اٹھایا تو اس نے سر سے پھر اشارہ کیا۔ مجھے صاف نظر آیا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔ میں بتا نہیں سکتا کہ میں نے واقعی کوئی آواز سنی تھی یا میرے دل میں خیال آیا تھا۔ مجھے اپنے آپ میں آواز سنائی دی… ''بھاگو مت العاص! دیکھ لو۔ یہ انسان ہی نہ ہوں''… اچانک میرا ہاتھ اپنی کمر پر پڑا اور اس ہاتھ سے تلوار نیام سے نکال لی۔ میرے قدم اپنے آپ آگے کو اٹھنے لگے۔ مجھے اپنے ساتھیوں کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ مجھے آگے جانے سے روک رہے تھے۔ میری زبان پر آیتہ الکرسی کا ورد تھا''…
''میں اس سے تین چار قدم دور رک گیا۔ وہ آہستہ آہستہ اٹھی۔ پھر اس نے میری طرف قدم اٹھایا۔ اس کا سر ڈولنے لگا۔ اس نے دوسرا قدم ا ٹھایا۔ اس کی آنکھیں بند ہوگئیں اور وہ اس طرح گری کہ اس کا سر میرے پائوں کے قریب آکر اور اس کے بال میرے پائوں پر بکھر گئے۔ میں برہنہ عورت کو ہاتھ لگانے سے گھبرا رہا تھا۔ وہ برہنہ نہ ہوتی توبھی میں گھبرایا ہوا تھا لیکن مجھے دیکھنا تھا کہ یہ انسان ہے یا کوئی شرشرار۔ میں بیٹھ گیا اور اس کی نبض دیکھی۔ نبض چل رہی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ جنات اور چڑویلوں کی نبض شاید نہیں ہوتی۔ میں نے اس سے ہٹ کر اس عورت کی نبض پر ہاتھ رکھا جو لیٹی ہوئی تھی۔ اتنی جھلسا دینے والی گرمی کے باوجود اس عورت کا جسم غیرمعمولی طور پر سرد تھا جیسے رات کو صحرا کی ریت سرد ہوجاتی ہے۔ اس کی نبضوں میں جان نہیں تھی۔ اس کا منہ کھلا ہوا اور آنکھیں ایک جگہ ٹھہری ہوئی تھیں۔ جسم سفید تھا، میں نے اس میں موت کی تمام نشانیاں دیکھیں''…
''اور وہ جو میرے سامنے گری تھی، اس کا جسم گرم تھا۔ یہ بدروحیں یا جنات نہیں ہوسکتی تھیں۔ اللہ نے مجھے عقل اور دلیری عطا فرمائی۔ میں نے اپنے جیش کو بلایا۔ ہمارے پاس پانی کے چھوٹے مشکیزے تھے۔ کھانے کا سامان بھی تھا جو تین ٹٹوئوں پر لدا ہوا تھا۔ میرا جیش پیادہ تھا۔ میں نے کہا کہ فوراً پانی اور دوچاردریں لائو۔ میرے ساتھی پانی اور چادریں لے آئے۔ سورج ابھی سر پر نہیں آیا تھا۔ وہاں عمودی ٹیلے کا سایہ تھا۔ میں نے بے ہوش عورت پر چادر ڈالی اور اسے سیدھا کرکے ٹیلے کے دامن میں کردیا۔ اس کے جسم کو اچھی طرح لپیٹ دیا۔ دوسری چادر نیچے بچھا کر اس پر لٹا دیا اور اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔ اس میں پانی ٹپکایا جو اس کے حلق میں اترتا چلا گیا''…
''مجھے ساتھی روکتے رہے کہ اپنے آپ کو مصیبت میں نہ ڈالوں لیکن مجھ پر اب نہ ڈر کا اثر تھا، نہ اپنے ساتھیوں کی باتوں کا اثر۔ کچھ دیر بعد اس کی آنکھیں آہستہ آہستہ کھلیں۔ اس کے ہونٹ بند ہوئے اور پھر کھل گئے۔ میں نے اس کے منہ میں اور پانی ٹپکایا، پھر ایک کھجور کی گٹھلی نکال کر کھجور اس کے منہ میں رکھی، وہ کھانے لگی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو میں نے اسے سہارا دے کر بٹھا دیا''۔
٭ ٭ ٭
العاص احتشام کو سنا رہا تھا… ''اسے میں نے کھانے کو دیا جو کچھ ہمارے پاس تھا۔ اس نے اور پانی پیا، پھر ہم نے اسے کھانے پینے سے روک دیا کیونکہ اس کا پیٹ بہت دنوں سے خالی معلوم ہوتا تھا۔ اس نے نحیف آواز میں کہا… ''میں تمہاری زبان سمجھتی اور بولتی ہوں… یہ مرگئی ہے''… پھر اس نے پوچھا کہ ہم کون ہیں۔ میں نے بتایا کہ ہم اسلامی فوج کے چھاپہ مار ہیں۔ بیت المقدس کو جارہے ہیں۔ اس نے کہا ''پھر مجھے تم سے رحم کی توقع نہیں رکھنی چاہیے''… میں نے اسے کہا کہ تم مسلمان معلوم نہیں ہوتی۔ اس نے کہا… ''میں جھوٹ نہیں بولوں گی لیکن سچ بولوں گی تو تم پچھتائو گے کہ تم نے مجھے مرنے کیوں نہ دیا''… میں نے اسے کہا… ''تم صرف یہ یقین دلا دو کہ تم انسان ہو''… اس کے ہونٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ آگئی۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل رہا تھا۔ اس کے جسم میں خون حرکت میں آرہا تھا''…
 ''اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ کھانے اور پانی سے اسے نیند آرہی تھی۔ وہ بچوں کی طرح لڑھک گئی اور گہری نیند سوگئی۔ ہم نے بہت قتل وغارت کی تھی۔ بہت شب خون مارے تھے۔ ہمارے کئی ساتھی ہمارے سامنے شہید ہوئے تھے، مرنا اور مارنا ہمارے لیے بچوں کا کھیل تھا لیکن ایک عورت پر، خواہ وہ ہماری دشمن ہی تھی، ہاتھ اٹھانا ہمارے لیے گناہ کبیرہ تھا۔ میں نے ا پنے جیش سے کہا کہ سورج سر پر آرہا ہے۔ جھکے ہوئے ٹیلے دیکھو اور ان کے سائے میں آرام کرلو۔ یہ جاگے گی تو اسے ساتھ لے جائیں گے''…
''میرے ایک دو ساتھیوں نے کہا کہ جاسوس معلوم ہوتی ہے لیکن باقی سب کہہ رہے تھے کہ اس جگہ جاسوس عورتوں کا کیا کام، یہ انسان نہیں۔ میرے رائے یہ تھی کہ چونکہ ہمارے چھاپہ مار جیش مصر اور فلسطین کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ سرگرم تھے، اس لیے ان لڑکیوں کو یہاں بھیجا گیا ہوگا کہ ہمیں گمراہ کریں لیکن مجھے یقین نہیں آتا تھا۔ ان کے ساتھ ایک دو مردوں کا ہونا ضروری تھا''…
''غروب آفتاب سے ذرا پہلے وہ جاگی اور اٹھ بیٹھی۔ میں اس کے قریب جابیٹھا۔ اس نے پانی پیا اور کھانے کو کچھ اور مانگا۔ میں نے اسے کھانا دیا۔ اب وہ اچھی طرح بول سکتی تھی۔ اس نے مری ہوئی عورت کی طرف اشارہ کرکے کہا… ''اسے دفن کردو''۔ میرے سپاہی دین دار تھے۔ ایک نے اپنی چادر دے دی۔ لاش کو چادر میں لپیٹ دیا گیا۔ سپاہیوں نے قبر کھودی اور اسے دفن کردیا''۔العاص نے احتشام کو بتایا… ''اس عورت نے یہ بتانے کے بجائے کہ وہ کون ہے وہ دونوں کہاں سے آرہی تھیں اور کہاں جارہی تھیں، اس نے پوچھا… ''تم نے اپنے خدا کو کبھی دیکھا ہے؟''… میں نے جو جواب زبان پر آیا دے دیا۔ اس نے کہا… ''میں نے تمہارا خدا دیکھ لیا ہے۔ ابھی ابھی اسے دیکھا ہے۔ تم کہو گے کہ تم نے خواب دیکھا ہے لیکن یہ خواب نہیں تھا۔ خدا نے مجھے کہا ہے کہ میں نے تجھے وہ آنکھیں دے دی ہیں جو آنے والے وقت کے اندھیرے میں دیکھ سکیں گی۔ خدا نے مجھے یہ بھی کہا ہے کہ تو نے گناہ کی پھر کبھی سوچی تو تیرے اپنے ہاتھ خنجر سے تیری آنکھیں نکال دیں گے۔ خدا نے مجھے یہ بھی کہا ہے کہ میں تجھے اس جگہ لے جارہا ہوں جہاں سے میں نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس بلایا تھا''…
''اس نے ایسی بہت سی باتیں کیں جن سے پتہ چلتا تھا کہ صحرا کے سفر اور صعوبتوں نے اس کے دماغ پر اتنا اثر کیا ہے کہ اس کا دماغ مائوف ہوگیا ہے۔ مثلاً اس نے یہ بھی کہا… ''تم نے میرا جسم کیوں ڈھانپ دیا ہے؟ اسے ننگا رہنے دیتے تو کیا ہوجاتا؟… میں اب جسم نہیں، صرف روح ہوں۔ روح پاک ہوجائے تو جسم کے گناہ دھل جاتے ہیں''… وہ زیادہ تر اسی قسم کی باتیں کرتی رہی۔ ان سے مجھے یقین تو ہوگیا کہ یہ انسان ہے، بدروح نہیں اور مجھے اس کے بتانے کے بغیر ہی پتہ چل گیا کہ یہ ان صلیبی لڑکیوں میں سے ہے جو ہمارے امیروں، وزیروں اور سالاروں کو غدار بنانے اور راز لے کر اپنے ملک کو بھیجنے کے لیے ہماری طرف بھیجی جاتی ہیں لیکن اس کی ان باتوں سے مجھے یہ شک ہونے لگا کہ اس کے دماغ پر کچھ بھی اثر نہیں ہوا اور یہ اس قسم کی باتیں کرکے مجھے بے وقوف بنا رہی ہے تاکہ میں اسے وہاں تک حفاظت سے پہنچا دو جہاں یہ جانا چاہتی ہے''…
''میں نے اسے کہا کہ مجھے صحیح صحیح بتا دو کہ تم دونوں کہاں جارہی تھیں۔ میں نے اسے دھمکیاں دیں، پھر یہ بھی ظاہر کیا کہ میں بے وقوف بن چکا ہوں اور وہ مجھے استعمال کرسکتی ہے مگر اس کے انداز اور اس کی مجذوبانہ باتوں میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ سورج غروب ہونے کے بعد میں نے اسے سامان والے ٹٹو پر بٹھا دیا اور ہم چل پڑے۔ سفر رات کو ہی کرنا ہوتا تھا۔ دن کو صحرا جلنے اور جلانے لگتا تھا۔ میں نے اپنے جیش سے کہہ دیا تھا کہ مجھ پر کوئی شک نہ کرنا، اگر اسے تنہا میں لے جائوں تو اس سے میرا مقصد صرف یہ ہوگا کہ میں اس سے بھید لینے کی کوشش کررہا ہوں''…
''میرا جیش آگے آگے چلتا رہا اور میں اس عورت کے ٹٹو کے ساتھ بہت پیچھے رہا۔ وہ اب سنبھلتی جارہی تھی لیکن اس کی باتیں درویشوں کی طرح ہی رہیں۔ آدھی رات کے بعد ہم نے پڑائو کیا۔ اسے میں نے سب سے الگ رکھا اور خود بھی اس کے ساتھ رہا۔ میں نے اس سے ایک بار پھر پوچھا کہ وہ کہاں جانا چاہتی ہے۔ اس نے جواب دیا… ''قید خانے میں بھی خدا ہوتا ہے''… پھر میں نے دوسرا طریقہ اختیار کیا وہ یہ تھا کہ میں نے سفلہ پن کا حیوانیت کا مظاہرہ کیا۔ مجھے توقع تھی کہ وہ میرے ساتھ سودا بازی کرے گی یا کہے گی کہ میں اسے کسی ایسے شہر میں پہنچا دو جو صلیبیوں کے قبضے میں ہو لیکن اس پر کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ اس نے میری طرف توجہ ہی نہ دی۔ اگلی رات اس نے بتایا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آئی ہے''…
 ''اس نے بتایا کہ وہ ڈیڑھ سال سے قاہرہ رہی ہے، وہاں کسی امیر کبیر تاجر کی بیٹی بنی رہی۔ ایک مسلمان حاکم کی داشتہ رہی اور دو حاکموں کو اس کا دشمن بنایا، پھر تینوں کو آپس میں ٹکرایا۔ قاہرہ کے سرکاری کاموں میں گڑبڑ کرائی۔ دو صلیبی جاسوسوں کو قید خانے سے رہا کرایا۔ ایک بڑے خطرناک جاسوس اور تخریب کار کو جسے سزائے موت دی جانے والی تھی، ان مسلمان حاکموں کی مدد سے فرار کرایا۔ اس نے اور بھی بہت سے کام کیے۔ آخر میں وہ جاسوسی اور سراغ رسانی کے استاد اور سربراہ علی بن سفیان کو قتل کرانے کا بندوبست کررہی تھی''…
''اسے جنگ حطین کے نتیجے کی اطلاع ملی۔ اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ صلیب الصلبوت سلطان ایوبی کے قبضے میں آگئی ہے اور اس صلیب کا محافظ اعظم میدان جنگ میں مارا گیا ہے۔ اسے یہ بھی پتہ چلا کہ کچھ صلیبی حکمران مارے گئے اور جنگی قیدی ہوگئے ہیں اور بیت المقدس کا حکمران گائی آف لوزینان بھی قید ہوگیا ہے۔ یہ خبریں اس کے دماغ پر ہتھوڑوں کی طرح پڑتی رہیں، پھر اسے دو اور خبریں ملیں۔ ایک یہ کہ اس کا پیر استاد ہرمن (جو لڑکیوں کو ٹریننگ دے کر مسلمان علاقوں میں بھیجا کرتا تھا) قید ہوگیا ہے اور بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا ہے۔ ان خبروں نے اس کا دماغ ہلا ڈالا۔ اسے تربیت دے کر اور تیار کرکے قاہرہ بھیجا گیا اور گناہوں کی تربیت کہیں لڑکپن کے آغاز میں شروع کی گئی تھی۔ اس کے اندر جذبات کی جگہ فریب اور دھوکہ بھر دیا گیا لیکن مذہب کے معاملہ میں یہ کوری نہیں تھی۔ اسے بتایا گیا تھا کہ اسے صلیب الصلبوت اور یسوع مسیح کی خوشنودی کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ اسے تربیت کے بعد ا خری اشیر باد عکرہ کے بڑے گرجے میں صلیب الصلبوت کے پادری نے دی تھی جسے محافظ اعظم کہتے ہیں''…
''اس نے اسے بتایا تھا کہ صلیب کی حکمرانی ناقابل تسخیر ہے اور اس کا مرکز یروشلم ہے جس کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا تھا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ اسلام کوئی مذہب نہیں اور مسلمانوں کو عیسائیت میں لانا یا انہیں قتل کرنا ثواب کا کام ہے اور یہ کہ جو لڑکیاں صلیب کے نام پر عصمتیں قربان کررہی ہیں، انہیں اگلے جہان بہشت کی حوریں بنایا جائے گا۔ ایسی ہی کچھ اور باتیں تھیں جو اس کے ذہن میں دل پر نقش کرکے عقیدہ بنا دی گئیں اور وہ گناہوں کو نیکی سمجھتی رہی۔ فریب کاری اور دھوکہ دہی کو کارِ ثواب سمجھتی رہ''…
''اسے جب پتہ چلا کہ صلیب الصلبوت بھی نہیں رہی۔ اس کا محافظ اعظم پادری بھی نہیں اور یسوع مسیح کی حکمرانی کا مرکز یروشلم بھی نہیں رہا تو اس کے عقیدے ٹوٹ پھوٹ گئے۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ قاہرہ میں جو اس کے مرد ساتھی یعنی صلیبی جاسوس تھے، وہ وہاں سے بھاگنے لگے تھے، پھر ایک روز وہ اپنے کسی ساتھی کی تلاش میں نکلی تو پتہ چلا کہ وہ غائب ہے۔ اسے ایک اور ساتھی ملا۔ اس نے اسے کہا کہ ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ مسلمان ہوکر کسی سے شادی کرلو یا یہاں سے بھاگ جائو''…
''اب تو اس پر دیوانگی طاری ہونے لگی۔ اس نے اپنی اس سہیلی کو ساتھ لیا۔ اپنے چاہنے والے ایک مسلمان حاکم سے دو گھوڑے شوقیہ سواری اور سیر سپاٹے کے لیے لیے اور دونوںشام کے وقت نکلیں۔ اندھیرا گہرا ہوا تو شہر سے نکل آئیں۔ انہوں نے کھانے اور پانی کا کچھ انتظام کررکھا تھا مگر انہیں صحرا کے سفر کی ذرا سی بھی سوجھ بوجھ نہیں تھی، نہ انہیں اپنی منزل کا کچھ پتہ تھا۔ انہیں ا مید تھی کہ راستے میں انہیں صلیبی فوج کا کوئی دستہ مل جائے گا۔ ان کی بدقسمتی اور بہت بڑی حماقت تھی کہ راستے کے متعلق کچھ بھی نہ جانتے ہوئے چل پڑیں''…
''رات تو گزر گئی۔ انہوں نے گھوڑے سرپٹ دوڑائے تھے۔ دوسرے دن جب سورج اوپر آکر صحرا کو جلانے لگا تو گھوڑے تھکن اور پیاس سے بے حال ہونے لگے۔ ان لڑکیوں کا اپنا حال بہت برا ہونے لگا۔ انہیں صحرا میں پانی اور سبزہ زار کے سراب نظر آنے لگے اور وہ ان کے پیچھے گھوڑے دوڑانے لگیں۔ اس روز تو گھوڑوں نے کچھ ساتھ دیا مگر دوسرے دن بھی انہیں کچھ کھانے کو اور پانی نہ ملا تو دونوں گھوڑے پہلے رکے، پھر گرے اور پھر کبھی نہ اٹھے''…
''اس کے بعد جوان دونوں کا سفر شروع ہوااسے احتشام دوست! تم اچھی طرح سمجھ سکتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ ظالم صحرا اس قسم کے مسافروں کو کس انجام تک پہنچایا کرتا ہے۔ اس لڑکی نے اپنی زبان سے مجھے بتایا کہ میں نے جو دھوکے لوگوں کو دئیے تھے، اس سے زیادہ ظالمانہ دھوکے مجھے صحرا نے دیئے۔ میں نے صحرا میں ندیاں بہتی دیکھیں، ان کے قریب گئی تو وہ دور ہٹتی گئیں۔ ہم دونوں ان کے پیچھے بھاگتی رہیں۔ میں نے نخلستان دیکھے، گلستان دیکھے اور میں نے صحرا میں بحری جہاز اور بادبانی کشتیاں تیرتی دیکھیں۔ ہم ہاتھ اوپر کرکے ہلاتی، چلاتی اور ان کے پیچھے دوڑتی رہیں، بعض جگہوں پر ہمیں پانی مل بھی گیا۔ ہم نے ایسی ہر جگہ کئی کئی دن گزارے''…
''لڑکی نے مجھے بتایا کہ  صحرا میں اس کا وہ وجود مرگیا جس نے قاہرہ کے حاکموں پر جادو کررکھا تھا۔ اسے ہمارے خدا کا خیال آگیا اور اس کے اندر یہ احساس کانٹے کی طرح چبھنے لگا کہ صلیب الصلبوت کے محافظ اعظم نے اسے دھوکہ دیا ہے اور اب وہ دوسروں کے گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے۔ اس پر یہ حقیقت کھلی کہ اپنی عصمت پیش کرکے کسی کو دھوکہ دینا ثواب کا کام نہیں ہوسکتا۔ اسے یہ خیال بھی آگیا کہ مسلمان اپنی لڑکیوں کو اس طرح استعمال نہیں کرتے۔ ایک روز صحرا میں اسے یہ احساس بھی ہوا جیسے وہ ،اس کی سہیلی مرچکی ہیں اور وہ دوزخ میں پھینک دی گئی ہیں یا وہ بدروحیں بن چکی ہیں اور دوزخ کی طرح جلتے ہوئے میدان میں بھٹک رہی ہیں''…
''ایک رات اس نے اپنی سہیلی سے کہا کہ وہ اپنے عقیدے سے دلبرداشتہ ہوگئی ہے اور اب وہ مسلمانوں کے خدا کو پکارے گی۔ دونوں کے ہونٹ اور زبانیں لکڑی کی طرح ہوگئی تھیں۔ حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے اور وہ بڑی مشکل سے بات کرتی تھیں۔ اس کی سہیلی نے بہت برا منایا کہ وہ اپنے عقیدے سے منحرف ہورہی ہے اور اپنے دشمن کے عقیدے کو اپنانا چاہتی ہے۔ اس نے اس کی نہ سنی۔ اس کی جب سہیلی سو گئی تو یہ اس سے کچھ دور چلی گئی۔ اس نے سجدے کیے اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر خدا کو پکارتی اور گناہوں کی بخشش مانگتی رہی۔ وہ ساری رات روتی رہی۔ سجدے کے سوا عبادت کا اسے کوئی اور طریقہ نہیں آتا تھا''…
''اسی رات اس کے دماغ میں اثر ہوگیا یا واقعی خدا نے اسے کوئی اشارہ دیا۔ یہ کہتی ہے کہ اسے اپنے سامنے دھوئیں کی طرح ایک باریش انسان کھڑا نظر آیا۔ اس نے کہا… ''اگر تو نے دل سے توبہ کی ہے تو اس ریگستان میں جہاں سے انسانوں کا گزر نہیں ہوا کرتا، وہ انسان آئیں گے جن کے خدا کو تو نے پکارا ہے۔ تو یہاں سے زندہ نکل جائے گی''… اسے یاد نہیں کہ اس سے کتنی مدت بعد میں اپنے جیش کے ساتھ وہاں سے گزرا۔ اسے زندہ دیکھا اور اس کی سہیلی مرچکی تھی''…
''تم جانتے ہو کہ یہ برہنہ کیوں تھیں۔ صحرا کا بھٹکا ہوا مسافر جب جلنے لگتا ہے تو پہلے اپنا سامان پھینکتا ہے، پھر اپنے جسم سے ایک ایک کپڑا اتارتا اورپھینکتا جاتا ہے۔ یہ کام وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں کرتا اور چلتا رہتا ہے، حتیٰ کہ وہ کہیں گر پڑتا ہے۔ اس لڑکی کو یاد نہیں کہ اس نے اور اس کی سہیلی نے کپڑے کب اور کہاں اتار پھینکے تھے''…
''ہم دس بارہ روز بعد بیت المقدس پہنچے۔ اس کی صحت بحال ہوگئی تھی۔ اس کی خوبصورتی نکھر آئی تھی لیکن یہ باتیں مجذوبوں کی طرح کرتی رہی۔ اگر یہ ایسی باتیں تمہارے ساتھ کرتی تو تم بھی اس سے متاثر ہوجاتے۔ اس نے بار بار کہا… ''بیت المقدس پر اب صلیبیوں کا قبضہ نہیں ہوسکتا۔ خدا انہیں راستے میں غرق کرے گا''… وہ اسی طرح کی پیشن گوئیاں کرتی رہی۔ رات کو اس کی عبادت شروع ہوتی تھی، طریقہ یہی تھا کہ سجدے کرتی، روتی اور دعا مانگتی تھی''…
''اب یہ جن کے گھر رہتی ہے، انہیں میں بہت عرصے سے جانتا ہوں۔ یہ عالم فاضل بزرگ ہیں۔ میں ان کا معتقد ہوں۔ میں نے اسے ان کے حوالے کردیا''۔
٭ ٭ ٭
العاص یہ باتیں سنا رہا تھا اور یہ بزرگ نماز پڑھ کر آگیا۔ اس نے احتشام سے کہا… ''یہ ضروری نہیں کہ خدا سے یہ فضیلت اسی کوعطا ہوتی ہے جس کے پاس علم وفضل ہوتاہے۔ معلوم نہیں کس وقت کیسی فریاد اس کے سینے سے نکلی جو خدا نے سن لی اور اس لڑکی کو یہ مقام عطا کردیا۔ یہ مجذوب ہے۔ میرا تجربہ کرہتا ہے کہ یہ پاگل نہیں اور یہ دھوکہ بھی نہیں دے رہی۔ اس نے اپنی خواہش پر اسلام قبول کرلیا ہے۔ میں نے اسے نماز پڑھانے اور سکھانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن اس کی عبادت کا اپنا ہی طریقہ ہے۔ خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مانتی ہے اور جب بولتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اسے غیب سے کوئی اشارہ ملا ہے''۔
''یہ مسجد اقصیٰ میں جاتی رہتی ہے؟'' احتشام نے پوچھا۔
''نہیں''۔ بزرگ نے کہا… ''رات کو پہلی بار مسجد میں گئی ہے۔ العاص صبح آیا تو میں نے اسے بتایا کہ وہ مسجد میں چلی گئی ہے۔ العاص اس کے پیچھے چلا گیا اور اسے شاید راستے میں مل گئی''۔
''یہیں سے شک پیدا ہوتا ہے کہ یہ اسی رات کیوں مسجد میں گئی جس رات سلطان مسجد میں موجود تھے؟''
''میں اس کا جواب نہیں دے سکتا''۔ بزرگ نے کہا۔
احتشام نے کہا کہ میرا فرض ہے کہ میں لڑکی کو حسن بن عبداللہ کے پاس لے جائوں۔ یہ اس کی مرضی ہے کہ اسے آپ کے حوالے کردے یا سلطان کے پاس لے جائے۔
لڑکی کو جب بتایا گیا کہ اسے احتشام کے ساتھ جانا پڑے گا تو وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑی۔ العاص بھی ساتھ گیا۔ حسن بن عبداللہ نے اس کی کہانی العاص اور احتشام سے سن کر لڑکی سے کچھ باتیں پوچھیں تو اس نے یہی جواب دیا… ''اب تو سمندر سے آئے ہوئے بیڑے تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ مجھ سے کیوں ڈرتے ہو… مجھے اپنے سلطان کے پاس لے چلو۔ اس نے رات کو جو دعا کی تھی، وہ خدا نے قبول کرلی ہے''۔
 بہت کوشش کے باوجود اس نے کچھ نہ بتایا تو اس کے متعلق سلطان ایوبی کو اطلاع دی گئی۔ سلطان کو اسی روز عکرہ جانا تھا۔ اس نے کہا کہ لڑکی کو لے آئو… لڑکی سلطان ایوبی کے سامنے گئی تو دوزانو ہوکر سلطان کا دایاں ہاتھ چوما، پھر اٹھی اور سلطان ایوبی کی آنکھوں میں قریب ہوکر دیکھا۔ اس نے اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے لہجے میں کہا… ''ان آنکھوں سے رات سجدے میں آنسو گرے تھے۔ مجھے تمہارے دشمن کے جہاز ان آنسوئوں میں ڈوبتے نظر آرہے ہیں۔ بیت المقدس کی دیواروں تک کوئی نہیں پہنچ سکے گا… خون کا سمندر بہہ جائے گا… وہ راستے میں مرجائیں گے… وہ تباہ ہورہے ہیں۔ آنسو جو خدا کے حضور سجدے میں بہتے ہیں، انہیں فرشتے موتی سمجھ کر اٹھا لیتے ہیں۔ خدا ان موتیوں کو ضائع نہیں کرتا۔ نیت صاف ہو تو راستے صاف ملتے ہیں''۔
بہت کوشش کی گئی کہ لڑکی کو اس کے اصلی روپ میں لایا جائے لیکن وہ ایسی باتیں کرتی رہی جیسے اسے آنے والا وقت نظر آرہا ہو۔ اسے آخر مجذوب سمجھ کر اسی بزرگ کے حوالے کردیا گیا اور اسے ہدایت دی گئی کہ وہ اس پر نظر رکھے۔
٭ ٭ ٭
سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسجد اقصیٰ میں خدا کے حضور جو آنسو بہائے تھے، وہ فرشتوں نے موتی سمجھ کر اٹھا لیے۔ سب سے پہلے اسے یہ اطلاع ملی کہ جرمنی کا شہنشاہ فریڈرک مرگیا ہے۔ اس سے چند دن بعد ایک صلیبی حکمران کائونٹ ہنری کے مرنے کی اطلاع ملی۔ یہ بھی صلیبی فوج کا ایک اتحادی تھا اور بیت المقدس کو مسلمانوں کے قبضے سے چھڑانے آیا تھا۔ قاضی بہائوالدین شداد نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ کائونٹ ہنری کی موت کو صلیبیوں نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ اس کا انکشاف اس طرح ہوا کہ سلطان ایوبی کے بحری چھاپہ ماروں نے صلیبیوں کی دو جنگی کشتیاں پکڑیں جو فلسطین کے ساحل سے کچھ دور سے گزر رہی تھیں۔ اس میں پچاس صلیبی بحری سپاہی تھے۔ انہیں قیدی بنا لیا گیا۔
اس سے اگلے ہی روز صلیبیوں کی ایک بڑی کشتی پکڑی گئی۔ اس میں ایک کوٹ تھا جس پر ہیرے جواہرات لگے ہوئے تھے۔ یہ کسی شاہ کا کوٹ ہوسکتا تھا۔ صلیبی قیدیوں نے بتایا کہ یہ کائونٹ ہنری کا کوٹ ہے اور وہ مرگیا ہے۔ اس کشتی میں ایک قیدی اور بھی تھا جو بحری کمانڈر معلوم ہوتا تھا۔ اس کے متعلق انکشاف ہوا کہ کائونٹ ہنری کا بھانجا ہے۔ ان سب کو جنگی قید میں ڈال دیا گیا۔
کائونٹ ہنری کی موت کے متعلق تین مختلف روائتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ دریا میں ڈوب گیا تھا۔ مسلمان مؤرخ کہتے ہیں کہ صرف ایک گز گہرے پانی میں گرا اور مرگیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ وہ دریا میں نہانے اترا تو بیمار پڑ گیا اور مرگیا۔
سلطان ایوبی جس کے متعلق سب سے زیادہ سنجیدہ بلکہ متفکر تھا، وہ انگلستان کا جنگجو بادشاہ رچرڈ تھا جو بلیک پرنس (سیاہ شہزادہ) کے نام سے مشہور تھا اور اسے ''شیر دل رچرڈ'' بھی کہا جاتا تھا۔ وہ جنگ کا ماہر تھا۔ ذاتی طور پر بہت دلیر اور اسے قدرت نے یہ وصف عطا کیا تھا کہ اس کا قد لمبا اور بازو بھی لمبے تھے۔ اس سے اسے یہ فائدہ حاصل تھا کہ اس کی تلوار دشمن تک پہنچ جاتی تھی مگر دشمن کی تلوار اس تک مشکل سے ہی پہنچتی تھی۔ صلیبی دنیا میں سب کی نظریں اسی پر لگی ہوئی تھیں۔ اس کی جنگی قوت بھی زیادہ تھی اور اس کی بحری جنگی قوت اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور تھی۔ سلطان ایوبی کو یہی خطرہ نظر آرہا تھا۔
آپ نے اس سلسلے کی کہانیوں میں سلطان ایوبی کے ایک امیر البحر حسام الدین لولو کا نام پڑھا ہوگا۔ رئیس البحرین عبدالمحسن تھا۔ سلطان ایوبی کو جب یہ اطلاع ملی کہ رچرڈ اپنے بحری بیڑے کے ساتھ آرہا ہے تو اس نے المحسن کو یہ حکم بھیجا کہ وہ رچرڈ کے بیڑے کے سامنے نہ آئے اور اپنے جہاز بکھیر کر رکھے۔ حسام الدین لولو کو اس نے چند ایک جہازوں اور جنگی کشتیوں کے ساتھ عسقلان بلا لیا تھا اور اسے کہا تھا کہ دشمن کے جہازوں پر نظر رکھے لیکن آمنے سامنے کی ٹکر نہ لے۔ اس کے بجائے بحری چھاپہ ماروں کو دشمن کے اکیلے دھکیلے جہازوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کرے۔
سلطان ایوبی نے دیکھ لیا تھا کہ سمندر میں بھی اسے چھاپہ مار جنگ لڑنی پڑے گی۔ یہ وہ دن تھے جو سلطان ایوبی کے لیے بڑے ہی اذیت ناک تھے۔ وہ رات کو سوتا بھی نہیں تھا، اس نے اپنی مجلس مشاورت میں کہا کہ ہمیں ایک ساحلی شہر قربان کرنا پڑے گا اور وہ عکرہ ہی ہوسکتا ہے۔ میں دشمن کو یہ تاثر دینا چاہتا ہوں کہ جو کچھ ہے عکرہ میں ہے اور اگر عکرہ لے لیا گیا تو مسلمانوں کی کمر ٹوٹ جائے گی پھر بیت المقدس کو مسلمانوں کے قبضے سے چھڑانا آسان ہوجائے گا۔ سلطان ایوبی نے مجلس مشاورت کو بتایا کہ وہ دشمن کو عکرہ میں لانے میں کامیاب ہوگیا تو دشمن عکرہ کی دیواروںکے ساتھ ہی سر پٹختا رہے گا۔ مجلس مشاورت نے اسے اجازت دے دی کہ جس طرح وہ مناسب اور سود مند سمجھتا ہے کرے۔
٭ ٭ ٭
 اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بیت المقدس اور ارض مقدس کو سلطان ایوبی کے وہ آنسو ہی بچا سکتے تھے جو اس نے مسجد اقصیٰ میں بہائے تھے اور وہ دعائیں بچا سکتی تھیں جو اس نے اس رات مسجد اقصیٰ میں سجدے میں گر کر مانگی تھیں… دعائیں اس لڑکی نے بھی مسجد اقصیٰ میں ہی مانگی تھیں جس نے سلطان ایوبی کی آنکھوں میں جھانک کر کہا تھا… ''تمہارے دشمن کے جہاز تمہارے آنسوئوں میں ڈوبتے نظر آرہے ہیں''۔
یہ تو کوئی مؤرخ نہیں بتا سکتا کہ رات سلطان ایوبی نے خدائے ذوالجلال سے کیا کیا باتیں کی تھیں، البتہ یہ حقیقت ہر مؤرخ نے بیان کی ہے کہ رچرڈ کا وہ بحری بیڑہ جس سے ایوبی جیسا مردِ خدا بھی خوفزدہ تھا، انگلستان سے روانہ ہو تو بحیرۂ روم میں داخل ہوتے ہی ایک خوفناک طوفان کی لپیٹ میں آگیا۔ تمام جہاز بکھر گئے۔ ایک اندازے کے مطابق اس بیڑے میں پانچ سو بیس چھوڑے جہاز تھے۔ ان میں چند ایک بڑے جنگی جہاز تھے۔ یہ سب فوج، گھوڑوں، رسد اور سازوسامان سے بھرے ہوئے تھے۔
طوفان میں بیڑہ ایسا بکھرا کہ رچرڈ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ طوفان کے بعد جب کئی دنوں کی تگ ودو سے بیڑہ یکجا کیا گیا تو پتہ چلا کہ پچیس جہاز غرق ہوگئے ہیں اور دو بہت بڑے باربردار جہاز بھی ڈوب گئے ہیں۔ ان میں بے ا نداز اسلحہ اور دیگر سامان تھا۔ رچرڈ کو جو سب سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا، وہ ایک خطیر رقم تھی جو وہ اپنے ساتھ لا رہا تھا۔ یہ بے بہا خزانہ تھا جو بحیرۂ روم کی تہہ میں چلا گیا۔
رچرڈ قبرص کے جزیرے میں لنگر انداز ہوا تو اسے پتہ چلا کہ اس کے بیڑے کے تین چار جہازوں کو طوفان نے قبرص کے ساحل پر پہنچا دیا ہے۔ ان میں سے ایک میں اس کی نوجوان بہن جوآنا بھی تھی اور اس کی منگیتر بیرنگاریا بھی۔ ان دونوں کے متعلق اس نے سمجھ لیا تھا کہ ڈوب مری ہیں لیکن وہ زندہ سلامت تھیں، البتہ قبرص کے بادشاہ آئزک نے رچرڈ کے لیے یہ مسئلہ کھڑا کررکھا تھا کہ اس نے اپنے ساحل کے ساتھ آنے والے ان تین جہازوں سے سامان نکلوا کر اپنے قبضے میں لے لیا اور تمام آدمیوں کو رچرڈ کی بہن اور منگیتر سمیت قید میں ڈال دیا تھا۔ رچرڈں کو آئزک کے خلاف جنگ لڑنی پڑی۔ آئزک کو شکست دے کر اسے ایک خیمے میں قید کیا مگر آئزک رات کو اس طرف سے خیمہ پھاڑ کر جدھر کوئی پہرہ دار نہیں تھا، فرار ہوگیا۔ رچرڈ پندرہ بیس روز اسے جزیرے میں ڈھونڈتا پھرا۔ آخر وہ اسے مل گیا۔ رچرڈ نے اس کاگھوڑا لے لیا۔ یہ غیر معمولی طور پر تیز رفتار گھوڑا تھا۔ رچرڈ ارض مقدس میں لڑنے آیا تو یہی گھوڑا اس کے پاس تھا۔
٭ ٭ ٭
رچرڈ جب ارض مقدس کے ساحل کے قریب آیا تو اس وقت اس کے اتحادی صلیبی عکرہ کو محاصرے میں لے چکے تھے۔ سب سے پہلے جس کی فوج نے محاصرہ کیا وہ گائی آف لوزینان تھا جسے ملکہ سبیلا نے اس عہدنامے پر رہا کرایا تھا کہ وہ سلطان کے خلاف نہیں لڑے گا۔ اس کے ساتھ فرانس کے بادشاہ فلپس آگسٹس کی فوج آن ملی اور محاصرہ مستحکم ہوگیا۔ شہر کے اندر مسلمان فوجوں کی تعداد دس ہزار تھی اور رسد کم وبیش ایک سال کے لیے کافی تھی۔ محاصرہ ١٣اگست ١١٨٩ء کے روز شروع ہوا۔
عکرہ کے شہر کے محل وقوع کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے ایک طرف L شکل کی دیوار تھی اور تین اطراف کو سمندر تھا۔ سمندر میں صلیبیوں کا بحری بیڑہ موجود تھا۔ جہاز بکھیر کر کھڑے کیے گئے تھے۔ دیوار سے دور صلیبی فوج نے ڈیرے ڈال دئیے تھے۔ اس طرح خشکی کے تمام راستے بند ہوگئے تھے۔ سلطان ایوبی شہر کے اندر نہیں، باہر تھا۔ اس نے اپنے جاسوسوں کے ذریعے اور اپنی نقل وحرکت کی جھلک دکھا کر دشمن کو عکرہ میں گھسیٹ لیا تھا۔ صلیبیوں نے جب اس شہر کامحاصرہ کیا، اس وقت انہیں یہی بتایا گیا تھا کہ سلطان ایوبی شہر میں ہے مگر جب انہوں نے تمام فوج محاصرے میں لگا دی تو اس کے ایک حصے پر عقب سے حملہ ہوا۔ تب انہیں پتہ چلا کہ سلطان ایوبی باہر ہے اور اس نے اس صلیبی فوج کو محاصرے میں لے لیا جس نے عکرہ کو محاصرے میں لے رکھا تھا۔
سلطان ایوبی کی یہ دشواری تھی کہ اس کے پاس فوج کی کمی تھی۔ تاہم اسے توقع تھی کہ وہ محاصرہ توڑ لے گا لیکن وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ محاصرہ زیادہ مدت تک رہے تاکہ صلیبیوں کی طاقت یہیں پر صرف ہوتی رہے۔ ٤ اکتوبر ١١٨٩ء کے روز صلیبیوں پر زبردست حملہ کیا۔ صلیبی مقابلے کے لیے تیار تھے۔ بڑی ہی خونریز جنگ ہوئی، جس میں نو ہزار صلیبی مارے گئے لیکن ان کے پاس چھ لاکھ کا لشکر تھا۔ نو ہزار کے مرجانے سے کوئی فرق نہ پڑا۔ انہوں نے شہر کو فتح کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی لیکن ان کی فوج دیوار کے قریب جانے سے ڈرتی تھی کیونکہ دیوار کے اوپر سے مسلمان ان پر تیروں کے علاوہ آتش گیر سیال کی ہانڈیاں پھینکتے تھے۔
: صلیبیوں نے دیوار کے قریب پہنچنے، شہر کے اندر پتھر اور آگ برسانے اور دیوار پھلانگنے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ بہت اونچے دبابے (برج) تیار کیے جو لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ ان کے نیچے لکڑی کے پہئے لگائے اور یہ برج اتنے بڑے تھے کہ ان میں کئی سو سپاہی سما جاتے تھے۔ انہیں مسلمانوں کے پھینکے ہوئے آتشیں سیال اور آگ سے بچانے کے لیے ان کے فریموں پر تانبا چڑھا دیا گیا تھا۔ یہ برج جب دیوار کے قریب لے جائے گئے تو دیوار سے مسلمانوں نے ان پر آتش گیر سیال کی ہانڈیاں پھینکنی شروع کردیں۔ سیال برجوں پر بھی پھیلا اور ان کے اندر جو سپاہی کھڑے تھے، ان پر بھی پڑا۔ جب چند ہانڈیاں پھینکنے کے بعد برج بھیگ گئے تو صرف ایک ایک جلتی ہوئی لکڑی آئی، ہر برج سے ایک لکڑی ٹکرائی اور برج مہیب شعلوں کی لپیٹ میں آگئے۔ ان میں سے ایک بھی سپاہی زندہ نہ رہا۔
دیوار کے باہر ایک خندق تھی جسے پار کرنا صلیبیوں کے لیے مشکل تھا۔ انہوں نے اس خندق کو مٹی سے بھرنا شروع کردیا لیکن شہر کے اندر کی فوج اس قدر دلیر تھی کہ اس کے جیش باہر آکر صلیبیوں پر حملہ کرتے اور واپس چلے جاتے۔ صلیبیوں نے خندق بھرنے کے لیے یہاں تک کیا کہ اس میں اپنے مرے ہوئے سپاہیوں کی لاشیں پھینک دیں، پھر ان کے جتنے سپاہی مرتے، ان سب کی لاشیں خندق میں پھینک دیتے۔ عقب سے ان پر سلطان ایوبی نے وسیع پیمانے کے شب خونوں کے انداز کے حملے کیے مگر صلیبیوں کا محاصرہ 
ٹوٹنے کے بجائے مستحکم ہوتا گیا۔
شہر والوں کے ساتھ سلطان ایوبی نے پیامبر کبوتروں کے ذریعے رابطہ قائم کررکھا تھا۔ دوسرا ذریعہ یہ تھا کہ ایک آدمی جس کا نام عیسیٰ العموام تھا، چمڑے میں پیغام باندھ کر کمر کے ساتھ باندھ لیتا اور سمندر میں اتر جاتا۔ وہ رات کو یہ کام کرتا تھا۔ وہ دشمن کے لنگر انداز جہازوں کے نیچے سے گزر آیا کرتا تھا۔ وہ پیغام لاتا اور لے جاتا تھا۔ ایک رات وہ اسی طرح آیا۔ اسے شہر میں لے جانے کے لیے سونے کے
 ایک ہزار سکوں سے بھری ہوئی تھیلی اور تحریری پیغامات دئیے گئے۔

جاری ھے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں