داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 67 - اردو ناول

Breaking

بدھ, جنوری 29, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 67


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔67- جب خدا زمین پر اتر آیا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مصر میں جہاں آج اسوان ڈیم ہے، آٹھ سو سال پہلے وہاں ایک خونریز معرکہ لڑا گیا تھا۔ مورخوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور کی اس لڑائی کا ذکر کیا ہی نہیں اگر کیا ہے تو اتنا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا ایک جرنیل باغی ہوگیا تھا۔ قاضی بہائوالدین شداد نے اپنی ڈائری میں اس جرنیل کا نام بھی لکھا ہے۔ نام القنض تھا جس کا تلفظ القند ہے۔ وہ مصری مسلمان تھا۔ اس کی ماں سوڈانی تھی۔ شاید یہ سوڈانی خون تھا جس نے اسے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف بغاوت پر اکسایا تھا۔ اس دور کے وقائع نگاروں اور کاتبوں کی غیر مطبوعہ تحریریں ملی ہیں، ان سے اس بغاوت کا پس منظر خاصی حد تک واضح ہوجاتا ہے۔
یہ ١١٧٤ء کے آخر اور ١١٧٥ء کے اوائل کا عرصہ تھا جب سلطان صلاح الدین ایوبی مصر سے غیرحاضر تھا۔ اس سے پہلے پوری تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ نورالدین زنگی مرحوم کی وفات کے فوراً بعد شام کے حالات اس صورت میں بگڑ گئے تھے کہ مفادپرست امراء نے زنگی مرحوم کے گیارہ سالہ بیٹے کو سلطنت کی گدی پر بٹھا دیا اور صلیبیوں سے گٹھ جوڑ کرکے خود مختاری کے راستے پر چل پڑے تھے۔ سلطنت اسلامیہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر صلیبیوں کے پیٹ میں جارہی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی دمشق پہنچا۔ تھوڑی سی معرکہ آرائی اور دمشق کے شہریوں کے تعاون سے اس نے دمشق پر قبضہ کرلیا۔ خلیفہ اور اس کے حواری امراء اور جرنیل حلب کو بھاگ گئے جہاں انہوں نے صلیبیوں سے جنگی مدد حاصل کی۔ صلیبیوں نے مدد کا جھانسہ دے کر مسلمان فوج کو مسلمان فوج سے ٹکرا دیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے حمص اور حماة کے قلعے سرکرلیے۔ حلب کے محاصرے میں اسے غیرمتوقع مزاحمت کا سامنا ہوا۔ اس کے ساتھ ہی تریپولی کے صلیبی حکمران ریمانڈ نے حملہ کردیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو حلب کا محاصرہ اٹھا کر پیچھے آنا پڑا تاکہ صلیبی فوج کو راستے میں روکا جاسکے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کے دستوں کی برق رفتاری نے اس کی چال کو کامیاب کیا اور ریمانڈ لڑائی سے منہ پھیر گیا مگر یہاں لڑائی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اصل جنگ تو یہیں سے شروع ہوئی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی الرستان سلسلہ کوہ میں اپنی فوج کو پھیلائے ہوئے تھا۔ اس کا مقابلہ تین دشمنوں کے ساتھ تھا۔ ایک الصالح اور اس کے حواری امراء کی فوج تھی، دوسرے صلیبی فوج اور تیسرا موسم۔ یہ جنوری فروری ١١٧٥ء کے دن تھے جب پہاڑیوں کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ یخ جھکڑ چلتے تھے اور وادیاں ٹھٹھر رہی تھیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی وہاں اس طرح الجھ گیا تھا جیسے زنجیروں میں جکڑا گیا ہو۔
مصر کے متعلق وہ مطمئن نہیں تھا۔ وہاں کی فوج کی کمان وہ اپنے بھائی العادل کے سپرد کرآیا تھا۔ اس فوج میں سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے کمک بھی منگوالی تھی۔ مصر پر سمندر کی طرف سے صلیبیوں کا اور جنوب سے سوڈانیوں کے حملے کا خطرہ تو تھا لیکن زیادہ خطرہ صلیبیوں اور سوڈانیوں کی زمین دوز تخریب کاری کا تھا جو مصر میں جاری تھی۔ دشمن کی جاسوسی اور تخریب کاری کو بہت حد تک دبایا جاچکا تھا مگر یہ کہنا غلط تھا کہ دشمن اس زمین دوز میدان سے بھاگ گیا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے انہی خطروں سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنی انٹیلی جنس کے ماہر سربراہ علی بن سفیان کو قاہرہ میں رہنے دیا تھا۔ اس نے العادل کو بھی اس ضمن میں بہت سی ہدایات دے دی تھیں مگر جو جگہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی غیرحاضری سے خالی ہوگئی تھی۔ اسے العادل اور علی بن سفیان مل کر بھی پر نہیں کرسکتے تھے۔
مصر کی سرحدوں اور ساحل کی دیکھ بھال کے لیے سرحدی دستوں کی چوکیاں اور ان کے پہرے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے العادل کے متعلق یہ حکم دے دیا تھا کہ سوڈانی سرحد پر ذرا سی بھی گڑ بڑ کریں تو شدید جنگی نوعیت کی جوابی کارروائی کرو اور سوڈان کے اندر جا کر لڑو… مگر ایک ضرورت ایسی تھی جس کی طرف کسی نے بھی توجہ نہ دی۔ یہ تھی سرحدی دستوں کی بدلی۔ ان دستوں میں بیشتر سپاہی اور بعض کمانڈر ایسے تھے جو دو سال سے زیادہ عرصہ سے سرحد کی ڈیوٹی پر تھے۔ یہ وہ سپاہی تھے جنہوں نے دشمن سے معرکے لڑے تھے لہٰذا ان کے دلوں میں دشمن کے خلاف نفرت بھری ہوئی تھی۔ سوڈانیوں کو تو وہ کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے۔ ان سے پہلے جو دستے سرحد پر تھے وہ اچھے ثابت نہیں ہوئے تھے۔ ان کی موجودگی میں مصر کی منڈی سے اناج اور دیگر ضروری اشیاء سمگل ہوکر سوڈان چلی جاتی تھیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے محاذ سے واپس آکر ان دستوں کو بدل دیا اور وہ دستے بھیجے تھے جو محاذ سے آئے تھے۔ ان دستوں نے سرحد پر پہنچ کر اودھم بپا کردیا تھا۔ گشتی پہرے والوں کو کوئی چیز ہلتی نظر آتی تھی تو اسے جادبوچتے تھے۔ وہ تیز رفتار تھے اور ان کی نظریں عقا
: اور ان کی نظریں عقابی تھیں۔ انہوں نے سرحد صحیح معنوں میں سربمہر اور مقفل کردی تھی۔
یہ دو اڑھائی سال پہلے کی بات تھی۔ ابتداء میں ان دستوں میں جوش اور جذبہ تھا اور کرنے کو ایک کام بھی تھا جو ایک مہم تھی۔ وہ جانفشانی سے اس میں مگن رہے۔ چند مہینوں میں ہی انہوں نے یہ مہم سرکرلی اور فارغ ہوگئے۔ یہ فراغت ان کے جذبے کو دیمک کی طرح کھانے لگی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی ہر پہلو، ہر گوشے اور ہر عنصر پر نظر رکھتا تھا لیکن سرحدی دستوں کی بدلی اتنی معمولی سی بات تھی جس پر وہ ذاتی توجہ نہ دے سکا۔ سرحدی دستوں کا شعبہ الگ تھا جس کا کمانڈر سالار (جرنیل) کے عہدے کا ایک فرد تھا ور یہ القند تھا۔ یہ اس کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ سال میں تین بار نہیں تو دوبار سرحدی دستوں کی بدلی کرتارہتا۔ اس نے یہ بے حد ضروری کارروائی نہ کی۔ اس کوتاہی کے اثرات سامنے آنے لگے۔
سپاہی ایک ہی قسم کے ماحول اور فضا میں اور ایک ہی قسم کی زمین پر رہتے اور پہرے دیتے اکتاہٹ محسوس کرنے لگے۔ سوڈان خاموش تھا۔ سمگلنگ بند ہوچکی تھی۔ فراغت اور کاہلی سپاہیوں کی نفسیات پر تخریبی اثرات ڈال رہی تھی۔ اس کے لیے کام بھی نہیں تھا اور ان کے لیے تفریح بھی کوئی نہیں تھی۔ موسم میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی تھی۔ ریت کا سمندر اور ریت کے ٹیلے ایک ہی جیسے تھے جیسے صدیوں سے چلے آرہے تھے۔ آسمان کا رنگ ایک ہی جیسا رہتا تھا۔ اس کیفیت اور سپاہیوں کی اکتاہٹ کا پہلا اثر یہ دیکھنے میں آیا کہ وہ گشتی پہرے پر جاتے تو راہ جاتے مسافروں سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ وہ کون ہیں اور کہاں جارہے ہیں اور ان کے پاس کیا ہے، وہ انہیں روک کر ان سے گپ شپ لگاتے اور ان سے ادھر ادھر کی باتیں پوچھتے۔ یہ دل بہلانے کا ایک ذریعہ تھا۔
جن چوکیوں کی ذمہ داری کے علاقے میں کوئی گائوں تھا، سپاہی وہاں چلے جاتے اور گپ بازی سے دل بہلا آتے۔ سرحد کے رکھوالوں کا یہ انداز ملک کے لیے خطرناک تھا مگر وہ سپاہی تھے اور اکتائے ہوئے بھی تھے۔ انسانی فطرت کا تقاضہ تھا کہ وہ کہیں نہ کہیں سے تسکین حاصل کرتے۔ وہاں آتے جاتے مسافر تھے، رات بھر کے لیے پڑائو کرنے والے قافلے تھے یا کہیں کوئی آباد گائوں تھا۔ وہ ہر کسی کے ساتھ گھل مل گئے۔ مصر کے سرحدی لوگوں پر ان کا جو ڈر تھا وہ دور ہوگیا۔ ان کے کمانڈر بھی سپاہیوں جیسے ہی انسان تھے۔ وہ بھی وقت گزارنے کے اور تفریح کے ذرائع ڈھونڈنے لگے تھے۔
٭ ٭ ٭
جب سلطان صلاح الدین ایوبی دمشق کے لیے روانہ ہونے لگا تو اتنی عجلت میں تھا کہ سرحدوں کے متعلق تمام تر ہدایات دینے کے باوجود اس کے ذہن میں یہ نہ آئی کہ پرانے دستوں کی بدلی کے احکام بھی دے دیتا۔ اسے غالباً اطمینان ہوگا کہ ان کا کمانڈر، القند تمام تر ضروریات پوری کرتا رہتا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے جانے کے بعد العادل نے فوجوں کی کمان لی تو اس نے القند سے پوچھا کہ سرحد پر جو دستے ہیں وہ کب سے اس ڈیوٹی پر ہیں۔ القند نے جواب دیا کہ وہ بہت عرصے سے وہیں ہیں۔
''کیا سرحد پرمزید دستے بھیجنے کی ضرورت ہے؟'' العادل نے پوچھا… ''اور کیا پرانے دستوں کو قاہرہ بلا کر نئے دستے بھیجنے کی ضرورت ہے؟''
''نہیں'' القند نے جواب دیا… ''یہی وہ دستے ہیں جنہوں نے ملک سے اناج، مویشی اورہتھیار وغیرہ کے چوری چھپے باہر جانے کو روکا تھا۔ وہ اب سرحد اور ارگرد کے علاقوں کے عادی ہوگئے ہیں۔ وہ اب دور سے مشتبہ انسان کی بو سونگھ کر اسے پکڑ لیتے ہیں۔ ان کی جگہ اگر نئے دستے بھیجے گئے تو پرانے دستوں جیسا تجربہ حاصل کرتے انہیں ایک سال سے زیادہ عرصہ چاہیے۔ ہمیں ایسا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے''۔
العادل اس جواب سے مطمئن ہوگیا تھا۔ اسے بتانے والا کوئی نہ تھا کہ یہی القند رات کو اپنے گھر میں بیٹھا کہہ رہا تھا۔ ''یہ سرحدی دستے بیکار ہوچکے ہیں، میری یہ کوشش کامیاب ہے کہ میں نے ان کی بدلی نہیں ہونے دی۔ انہوں نے سرحد کے لوگوں کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات پیدا کرلیے ہیں۔ ان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ ان کے پیٹ تو بھرے رہتے ہیں، کھانے پینے کی انہیں کوئی شکایت نہیں، میں ان کے لیے ضرورت سے زیادہ خوراک بھیجتا ہوں لیکن ان کی حالت بھوکے بھیڑیوں کی سی ہوگئی ہے۔ کوئی قافلہ گزرتا ہے تو وہ قافلے والوں کی عورتوں کو منہ کھول کر دیکھتے رہتے ہیں۔ اب ہم اپنا کام کرسکتے ہیں''۔
: وہ جس کے ساتھ باتیں کررہا تھا وہ کوئی سوڈانی تھا جو اس کے ہاں مہمان کے روپ میں آیا ہوا تھا۔ وہ سوڈان سے اس کے لیے تحفے لایا تھا اور ان تحفوں کے ساتھ ایک پیغام بھی تھا۔ اس نے القند کو بتایا تھا کہ سوڈانی تیار ہیں مگر نفری ابھی اتنی زیادہ نہیں ہوئی۔ یہ آدمی پیغام لے کر آیا تھا کہ اس نفری کو کسی طرح مصر میں داخل کرکے چھپا لیا جائے۔ اس کے لیے پہلی مشکل یہ تھی کہ انہیں سرحد پار کس طرح کرائی جائے۔ اسی کے جواب میں القند نے کہا تھا کہ مصر کے سرحدی دستے بیکار ہوچکے ہیں… القند ان چند ایک سالاروں میں سے تھا جن پر سلطان صلاح الدین ایوبی کو بھروسہ تھا۔ القند نے کبھی شک بھی نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ مصر کی امارت کا وفادار نہیں۔علی بن سفیان تک کو اس نے دھوکے میں رکھا ہوا تھا۔ اس کا یہ کارنامہ کہ اس نے دو اڑھائی سال پہلے سمگلنگ روک دی اور سرحدیں سربمہر کردی تھیں۔ اسے بہت فائدہ دے رہا تھا۔ کوئی بھی نہ جان سکا کہ وہ سرحدوں کا بھیدی بن چکا ہے۔
اب سلطان صلاح الدین ایوبی مصر سے چلا گیا تو القند نے العادل کو یقین دلا دیا کہ وہ سوڈان کی طرف سے بے فکر ہوجائے۔ سوڈان کا کوئی پرندہ بھی مصر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ایسا ہی یقین وہ علی بن سفیان کو بھی دلاتا رہا اور سوڈان میں حبشیوں کی ایک فوج مصر پر اس انداز سے حملہ کرنے کے لیے تیار ہوتی رہی کہ حبشی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میںمصر میں داخل ہوں گے، چوری چھپے قاہرہ کے قریب جائیں گے اور ایک رات حملہ کرکے رات ہی رات مصر کی امارات کو قبضے میں لے لیں گے۔
٭ ٭ ٭
دریائے نیل سوڈان سے گزرتا مصر میں داخل ہوتا ہے۔ آگے مصر کے علاقے میں ایک وسیع جھیل کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اس کے آگے ایسے علاقے میں داخل ہوتا ہے جو پہاڑی ہے۔ اس سے آگے آبشار کی طرح گرتا ہے۔ اس کے قریب اسوان ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں اسوان کے گردونواح کی جغرافیائی کیفیت کچھ اور تھی۔ دور دور تک چٹانیں اور پہاڑیاں تھیں۔ ان پر فرعونوں کی خصوصی نظر کرم رہی تھی۔ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر بت بتائے تھے۔ ان میں سب سے بڑے بت ابو سمبل کے تھے۔ ) بعض چٹانوں کی چوٹیاں تراش کر کسی معبدے گنبد کی شکل کی یا کسی فرعون کا چہرہ بنا دی گئی تھیں۔ پہاڑیوں کے دامن میں غاریں بنائی گئی تھیں جو اندر سے وسیع وعریض تھیں۔ کچھ ایسی تھیں جن کے اندر کمرے، سرنگوں جیسے راستے اور بھول بھلیاں سی بنا دی گئی تھیں۔
کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ فرعونوں نے یہ پراسرار سی دنیا کیوں آباد کی تھی۔ یہ بت تراشتے اور غاریں کھود کر اندر کمرے وغیرہ بناتے تین نسلیں ختم ہوگئی ہوں گی۔ فرعون اس دور کے ''خدا'' تھے۔ رعایا کا کام صرف یہ تھا کہ ان کے آگے سجدے کرے اور ان کا ہر حکم بجا لائے۔ یہ پہاڑ اسی مظلوم اور فاقہ کش رعایا سے کٹوائے گئے تھے۔ آج وہاں کوئی بت نہیں، کوئی غار نہیں، کوئی پہاڑ نہیں۔ وہاں اسوان ڈیم کی میل ہا میل وسیع جھیل ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر سے پہلے ابوسمبل کے اتنے بڑے بڑے بت جو بجائے خود پہاڑ تھے مشینری سے وہاں سے اٹھائے گئے اور فرعونوں کے دور کی یادگاروں کے طور پر کہیں محفوظ کرلیے گئے ہیں۔ ڈائنامیٹ سے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرکے زمین بوس کردیا گیا تھا۔ اگر فرعون انسان کے ہاتھوں پہاڑوں کو یوں اڑاتا اور زمین سے ملتا دیکھتے تو خدائی کے دعوے سے دستبردار ہوجاتے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں اس علاقے کے خدوخال کچھ اور تھے۔ ان پہاڑوں کی وادیوں اور غاروں میں ساری دنیا کی فوج کو چھپایا جاسکتا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ذاتی طور پر سرحد کے اس علاقے پر زیادہ توجہ دی تھی جہاں سے دریائے نیل مصر میں داخل ہوتا تھا۔ سوڈانی کشتیوں کے دریعے مصر میں داخل ہوسکتے تھے۔ اس دریائی راستے پر نظر رکھنے کے لیے ایک چوکی قائم کی گئی تھی جو دریا سے دور تھی۔ چوکی سے دریا نظر نہیں آتا تھا اور دریا سے چوکی نظر نہیں آتی تھی۔ یہ فاصلہ دانستہ رکھا گیا تھا تاکہ دریا سے چوری چھپے گزرنے والے اس خوش فہمی میں مبتلا رہیں کہ انہیں دیکھنے اور پکڑنے والا کوئی نہیں۔ دریا پر گشتی پہرے کے ذریعے نظر رکھی جاتی تھی۔ دو گھوڑ سوار ہر وقت گشت پر رہتے تھے اور ان کی ڈیوٹی بدلتی رہتی تھی۔
: مصر سے سلطان صلاح الدین ایوبی کی غیر حاضری کے دنوںکا واقعہ ہے کہ دن کے وقت دریا کی دیکھ بھال والی سرحدی چوکی کے دو گھوڑ سوار گشت پر نکلے اور معمول کے مطابق دور تک نکل گئے۔ ایک جگہ دریا کے کنارے سبزہ زار تھا۔ سایہ دار درخت تھے اور یہ جگہ بہت ہی خوبصورت تھی۔ گشت والے سنتری اس جگہ آکر آرام کیا کرتے تھے۔ ایک عرصہ سے انہوں نے کسی سوڈانی کو دریا سے آتے نہیں دیکھا تھا۔ ابتداء میں انہوں نے بہت سے آدمی پکڑے تھے جن میں بعض تخریب کار اور جاسوس تھے۔ اس کے بعد یہ دریائی راستہ ویران ہوگیا تھا۔ اب سنتری صرف ڈیوٹی پوری کرنے آتے اور چوکی کی نظروں سے اوجھل ہوکر بیٹھ جاتے تھے۔
ان دوسواروں کا بھی ہی یہ معمول تھا۔ اس معمول سے اب وہ تنگ آگئے تھے۔ دریا کے کنارے اتنی سرسبز جگہ بھی انہیں اچھی نہیں لگتی تھی۔ ہر روز دریا کو دیکھ دیکھ کر وہ اس کے حسن سے اکتا گئے تھے۔ یہاں انہیں باہر کی دنیا کی اگر کوئی چیز نظر آتی بھی تھی تو وہ صحرائی لومڑی تھی جو دریا سے پانی پیتی اور سنتریوں کو دیکھ کر بھاگ جاتی تھی یا ماہی گیروں کی ایک آدھ کشتی نظر آتی تھی۔ وہ ماہی گیروں سے پوچھتے کہ وہ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ پوچھنا بھی بھی چھوڑ دیا تھا اور اس کے بعد ماہی گیروں نے بھی وہاں جانا چھوڑ دیا تھا… اس رورز وہ سنتری گشت کے علاقے میں گئے تو وہ اکتائی ہوئی سی باتیں کررہے تھے۔ جن کا لب لباب یہ تھا کہ اس کے ساتھی قاہرہ، سکندریہ اور دوسرے شہروں میں عیش کررہے ہیں اور وہ اس جنگل بیابان میں پڑے ہیں۔ ان کے لب ولہجے میں احتجاج تھا اور بے اطمینانی بھی۔
وہ اس سرسبز جگہ سے کچھ دور تھے تو انہیں وہاں چار پانچ اونٹ بندھے ہوئے نظر آئے۔ آٹھ دس آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور چار آدمی دریا میں نہا رہے تھے۔ دونوں سوار آگے چلے گئے مگر رک گئے۔ وہ کوئی انسان نہیں ہوسکتے تھے۔ انہیں جس چیز نے حیرت سے زیادہ خوف میں مبتلا کردیا تھا وہ یہ تھی کہ دریا میں چار آدمی نہیں بلکہ چار جوان لڑکیاں نہا رہی تھیں۔ انہوں نے ستر باریک کپڑوں سے ڈھانپے ہوئے تھے، وہ دریا میں اس جگہ ڈبکیاں لگا رہی تھیں جہاں پانی ان کی کمر تک تھا۔ ان کے جسموں کے رنگ مصریوں کی نسبت زیادہ ستھرے اور جاذب تھے۔ وہ قہقہے لگارہی تھیں، گھوڑ سوار یہ سمجھ کر ڈر گئے کہ یہ جل پریاں ہیں یا آسمان سے اتاری ہوئی پریاں یا فرعونوں کی شہزادیوں کی بدروحیں وہ دونوں رکے رہے اور انہیں دیکھتے رہے۔ انہوں نے وہیں سے واپسی کا ارادہ کرلیا لیکن جو آدمی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے ان کی طرف دیکھا۔
دو آدمی اٹھ کر ان کی طرف آئے۔ لڑکیوں نے بھی انہیں دیکھ لیا تھا۔ وہ چاروں دریا سے نکل کر کنارے کی خشک اوٹ میں چلی گئیں۔ گھوڑ سواروں کا خوف ذرا کم ہوا۔ وہ آخر فوجی تھے۔ قریب جاکر انہوں نے ان دو آدمیوں سے پوچھا کہ وہ کون ہیں اور یہاں کیا کررہے ہیں۔ دونوں آدمیوں نے جھک کر سلام کیا۔ وہ صحرائی لباس میں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ قاہرہ کے تاجر ہیں، بہت سے سرحدی دیہات میں مال فروخت کرکے واپس جارہے ہیں۔
''قاہرہ جانے کا یہ راستہ تو نہیں''۔ ایک سوار نے کہا۔
''لڑکیوں کا شوق ہے کہ دریا کے کنارے کنارے جائیں گے''۔ ایک نے جواب دیا… ''ہم اپنے کام سے فارغ ہوگئے ہیں، واپسی کی کوئی جلدی نہیں۔ دو تین راتیں یہیں قیام کریں گے… اگر آپ کو شک ہو تو چل کر ہمارا سامان دیکھ لیں۔ ہمارے پاس بہت ساری رقم ہے۔ وہ بھی دیکھ لیں، تاکہ آپ کو یقین ہوجائے کہ ہم واقعی مصر کے تاجر ہیں''۔
دونوں گھوڑ سوار ان کے ساتھ چل پڑے اور قیام کی جگہ پہنچے تو سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب نے جھک کر سلام کیا پھر دونوں کے ساتھ مصافحہ کیا۔ ایک آدمی نے پوچھا کہ وہ ان کا سامان نہیں دیکھیں گے؟ گھوڑ سوار سنتری گھوڑوں سے اتر چکے تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ وہ سامان نہیں دیکھیں گے۔ ایک آدمی نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کی تعریفیں شروع کردیں۔ پھر انہوں نے ان دونوں کی جوانی، دلیری اور فرض کی تعریفیں کیں۔ا نہوں نے ایسی کوئی بات نہ کی جس سے ان دونوں کو کوئی شک ہوتا۔ اس دوران چاروں لڑکیاں کپڑے پہن کر اور بال جھاڑ کر آگئی تھیں لیکن وہ شرمائی شرمائی سی پرے ہٹ کر کھڑی رہیں۔ اس ویرانے میں ان سپاہیوں نے دو اڑھائی سال بعد باہر کے چند آدمیوں کی محفل دیکھی اور انہیں عورت ذات نظر آئی۔ ان لڑکیوں میں انہوں نے عورت کا ہر ایک روپ دیکھا… ماں، بہن، بیوی اور وہ عورت بھی جو ماں ہوتی ہے نہ بہن نہ بیوی… دونوں کی نظریں ان لڑکیوں نے گرفتار کرلیں۔ لڑکیاں انہیں دیکھ دیکھ کر شرماتی اور منہ چھپا کر مسکراتی تھیں۔ ان کے شرم وحجاب سے پتا چلتا تھا کہ یہ سب اچھے خاندان کے لوگ ہیں۔
: یہ دونوں سرحدی سپاہی ان آدمیوں کی باتوں اور خصوصاً لڑکیوںمیں ایسے محو ہوئے کہ اپنی ڈیوٹی بھول گئے۔ سرحدی علاقے میں اتنی مدت سے پڑے رہنے اور فارغ ہونے کے جو برے اثرات تھے، وہ بڑی خطرناک نفسیاتی تشنگی بن کر ان پر غالب آگئے۔ ایک آدمی دریا کے کنارے برچھی لیے کھڑا مچھلیاں پکڑ رہا تھا۔ وہ پانی پر دانے سے پھینکتا تھا۔ مچھلیاں اوپر آجاتی تھیں، وہ اوپر سے برچھی مارتا تو ایک مچھی برچھی کی انی میں پروئی ہوئی باہر آجاتی۔ وہ بہت سی مچھلیاں پکڑ چکا تھا۔ کسی نے لڑکیوں سے کہا کہ وہ مچھلیاں بھونیں۔ چاروں لڑکیاں دوڑی گئیں۔ انہوں نے آگ جلائی اور مچھلیوں کو کاٹ کر آگ پر رکھ دیا۔گھوڑ سوار سرحدی سپاہی اپنے کھانے سے بھی اکتائے ہوئے تھے۔ ان کا کھانا اچھا ہوتا تھا مگر ہر روز ایک ہی قسم کا کھانا کھا کھا کر وہ اس کھانے سے بھی اکتائے ہوئے تھے۔ دریائے نیل کے کنارے ان کے سامنے بھنی ہوئی مچھلی اور خشک پکا ہوا گوشت رکھا گیا تو دیکھ کر ہی ان پر نشہ طاری ہوگیا۔ سب مل کر کھانے لگے تو کھانا اور زیادہ لذیذ ہوگیا۔ کھانے کے دوران دونوں نے دیکھا کہ ایک لڑکی ان کے ایک گھوڑے کی گردن اور زین پر ہاتھ پھیرتی اور گھوڑے کو اشتیاق سے دیکھتی تھی۔ لڑکیاں مردوں کے ساتھ کھانے پر نہیں بیٹھی تھیں۔ گھوڑے والا سپاہی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو گھوڑے پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ لڑکی نے ادھر دیکھا تو مسکرا کر اس نے منہ پھیر لیا کیونکہ اس گھوڑے کا سوار اسے دیکھ رہا تھا۔ ان سپاہیوں نے اتنی خوبصورت لڑکیاں پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔
ایک بوڑھے نے سپاہیوں سے کہا… ''ان لڑکیوں نے کبھی گھوڑے کی سواری نہیں کی اور یہ جو لڑکی گھوڑے کے قریب کھڑی ہے گھوڑ سواری کی شوقین ہے لیکن اسے گھوڑے پر بیٹھنے کا کبھی موقع نہیں ملا''۔
''ہم ان چاروں کا شوق پورا کردیں گے''… ایک سپاہی نے کہا۔
کھانے کے بعد وہ سپاہی اٹھا اور اپنے گھوڑے کے پاس چلا گیا۔ لڑکی جھینپ کر پرے ہوگئی۔ سپاہی نے اسے کہا… ''آئو۔ میں تمہیں سواری کراتا ہوں۔ باری باری چاروں کو گھوڑے پر بٹھا دوں گا''۔
کسی نے لڑکی سے کہا… ''ان سے شرمائو نہیں۔ یہ تو تمہاری عزت اور ملک کے رکھوالے ہیں، یہ نہ ہوں تو صلیبی اور سوڈانی معلوم نہیں تمہارا کیا حشر کریں''۔
لڑکی جھجکتی شرماتی گھوڑے کے قریب گئی۔ سپاہی نے اس کا پائوں اٹھا کر رکاب میں ڈالا اور اسے اٹھا کر گھوڑے پر بٹھا دیا۔ سپاہی کو کسی نے آواز دی اور کچھ کہا۔ سپاہی اس طرف متوجہ ہوا۔ اچانک گھوڑا دوڑ پڑا۔ لڑکی کی چیخیں سنائی دیں۔ سپاہی نے گھوم کر دیکھا۔ گھوڑا سرپٹ دوڑا جارہا تھا۔ اس کے اوپر لڑکی ادھر ادھر گرتی اور سنبھلنے کی کوشش کرتی تھی۔ سب نے شور بپا کردیا کہ گھوڑا بے لگام ہوگیا ہے۔ لڑکی گر کر مرجائے گی۔ سپاہی کے قریب اس کے ساتھی کا گھوڑا کھڑا تھا۔ وہ اچھل کر اس گھوڑے پر سوار ہوا اور ایڑی لگا دی۔ لڑکی والا گھوڑا ایک چٹان سے گھوم کر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ سپاہی نے اپنے گھوڑے کی رفتار انتہا تک پہنچا دی۔ اسے معلوم تھا کہ لڑکی گری اور اس کا پائوں رکاب میں پھنسا رہ گیا تو اس کی ہڈیاں ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گی اور گھوڑا اسے گھسیٹ گھسیٹ کر ہڈیوں سے گوشت اتار دے گا۔
سپاہی نے گھوڑا چٹان سے موڑا۔ آگے کھلی وادی تھی۔ لڑکی کو گھوڑا اٹھائے دوڑا جارہا تھا۔ کچھ آگے جاکر گھوڑا مڑا اور پھر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ سپاہی کو لڑکی کی چیخیں اور گھوڑے کے ٹاپو سنائی دے رہے تھے۔ وہ آگے جا کر مڑا۔ اسے گھوڑا نظر نہ آیا۔ عجیب بات یہ تھی کہ اسے اب کوئی آواز نہیںسنائی دے رہی تھی۔ نہ گھوڑے کے ٹاپوں نہ لڑکی کی چیخیں۔ وہ سمجھا گھوڑا کسی کھڈ میں جاگرا ہے۔ اس نے گھوڑے کی رفتار کم کردی۔ کچھ اور آگے گیا تو ایک اوٹ سے اسے لڑکی کی آواز سنائی دی… ''ادھر… جلدی سے میرے پاس آجائو''۔
 سپاہی نے ادھر دیکھا تو اس پر خوف طاری ہوگیا۔ گھوڑا کھڑا تھا اور لڑکی اطمینان سے اس پر سوار تھی۔ اس کے چہرے پر ڈر یا گھبراہٹ نہیں بلکہ ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ سپاہی نے ایک بار تو ارادہ کرلیا کہ گھوڑے کو ایڑی لگائے اور بھاگ جائے۔ اسے یقین ہوگیا تھا کہ یہ لڑکی شرشراریا بدروح ہے اور اسے دھوکے سے اس ڈھکی چھپی جگہ لے آئی ہے اور اب اس کا خون پی جائے گی لیکن وہ جیسے جکڑ لیا گیا ہو۔ لڑکی کی مسکراہٹ اور اس کے سراپا میں کوئی ایسی قوت تھی جس نے سپاہی کے گھوڑے کا رخ لڑکی کی طرف کردیا۔
''تم سپاہی ہو، مرد ہو''۔ لڑکی نے اسے کہا… ''مجھ سے ڈررہے ہو؟''… وہ اس کے قریب گیا تو لڑکی نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا… ''گھوڑا بے لگام نہیں ہوا تھا۔ میں نے اسے خود ایڑی لگائی اور بھگایا تھا اور چیخیں مار کر یہ ظاہر کیا تھا کہ گھوڑا بے لگام ہوگیا ہے اور میں گر پڑوں گی۔ مجھے امید تھی کہ تم میرے پیچھے آئو گے۔ میں اناڑی نہیں شاہ سوار ہوں''۔
''تم نے یہ دھوکہ کیوں دیا ہے؟'' سپاہی نے پوچھا۔
''مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے''۔ لڑکی نے کہا… ''میں یہ باتیں سب کے سامنے نہیں کرسکتی تھی۔ تم نے ان آدمیوں میں ایک بوڑھا دیکھا ہے۔ وہ میرا خاوند ہے۔ اس کی عمر دیکھو اور میری جوانی دیکھو۔ میرے ساتھ جو لڑکیاں ہیں۔ ان میں سے ایک میری طرح ایک بوڑھے آدمی کی بیوی بنا دی گئی ہے۔ تم جانتے ہو کہ لڑکی کو جس کے ساتھ باندھ دو وہ بول نہیں سکتی۔ یہ بوڑھا مجھے خوش کرنے کے لیے اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے۔ یہ سب تاجر ہیں۔ ہمیں بھی اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں''۔
''دوسری دو لڑکیاں کون ہیں؟'' سپاہی نے پوچھا۔
''وہ دونوں شادی شدہ ہیں''… لڑکی نے جواب دیا… ''ان کے خاوند جوان ہیں وہ انہیں سیر سپاٹے کے لیے ساتھ لاتے ہیں، تم میری مدد کرو''۔
''اگر یہ لوگ تمہیں اغوا کرکے لائے ہوتے تو میں ان سب کو چوکی لے جاتا''… سپاہی نے کہا… ''تم اس کی بیوی ہو''۔
''میں نے اسے اپنا خاوند تسلیم نہیں کیا''… لڑکی نے کہا… ''تمہیں دیکھا ہے تو میرے دل میں اس بوڑھے کی نفرت اور زیادہ گہری ہوگئی ہے''… اس نے جذباتی لہجے میں کہا… ''تمہیں پہلی نظر میں دیکھ کر میرے دل سے آواز آئی کہ یہ ہے تمہارا خاوند، خدا نے تمہیں اس خوبرو جوان کے لیے پیدا کیا ہے''۔
''میں اتنا خوبصورت نہیں جتنا تم نے کہا ہے''… سپاہی نے کہا… ''تم مجھے کیوں دھوکہ دے رہی ہو؟ تمہارے دل میں کیا ہے؟''
''خدا جانتا ہے کہ میرے دل میں کیا ہے''… لڑکی نے مایوس سے لہجے میں کہا… ''وہی تمہارے دل میں رحم ڈالے گا۔ اگر تم میرے دل کی آواز کو دھوکہ سمجھتے ہوتو میں اپنے خاوند کے پاس نہیں جائوں گی۔ گھوڑے کو ایڑی لگائوں گی اور سیدھی دریا میں گھوڑے سمیت کود جائوں گی۔ خدا سے جاکر کہوں گی کہ تم میرے قاتل ہو''۔
وہ ایک تشنہ سپاہی تھا۔ سرحد کی ڈیوٹی سے اکتایا ہوا تھا۔ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی، علی بن سفیان یا العادل نہیں تھا۔ وہ سپاہی تھا، جوان تھا اور یہی اس کی شخصیت تھی۔ لڑکی کے حسن وشباب اور اس کے انداز اور اس کی باتوں نے اسے موم کردیا۔ البتہ اس احساس کا اس نے اظہار کردیا… ''میں کمتر سپاہی ہوں اور تم شہزادیوں سے کم نہیں۔ تم مخمل سے نکل کر میرے ساتھ اس ریت پر اور ان چٹانوں میں زندہ نہیں رہ سکو گی''۔
''اگر خواہش مخمل اور دولت کی ہوتی تو اس بوڑھے خاوند سے بہتر میرے لیے کوئی خاوند نہیں ہوسکتا تھا''۔ لڑکی نے کہا… ''اس نے اپنی دولت میرے قدموں میں ڈال رکھی ہے لیکن میں کسی سپاہی کی بیوی بننا چاہتی ہوں۔ میرا باپ بھی سپاہی ہے، دو بڑے بھائی بھی سپاہی ہیں۔ وہ دمشق اور شام کے محاذ پر سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں ہیں۔ مجھے اس بوڑھے کے حوالے میری ماں نے کیا ہے۔ ہم غریب لوگ ہیں۔ میری خوبصورتی میری بدنصیبی کا باعث بنی ہے۔ میں شاہ سوار ہوں، یہ میرے خاوند کو معلوم نہیں۔ ہمارے خاندان کی دولت یہی عسکری روایات ہیں۔ میں نے ہمیشہ یہ خواہش کی ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں شامل ہوجائوں اگر یہ ممکن نہ ہو تو کسی سپاہی کے ساتھ شادی کرلوں۔ تم ریت اور چٹانوں کی باتیں نہ کرو۔ میں اس ریت کی پیداوار ہوں اور جب میرا خون اسی ریت میں جذب ہوجائے گا تو میری روح مطمئن ہوکر خدا کے حضور جائے گی''۔
 ''میں تمہاری مدد کس طرح کرسکتا ہوں؟''
''آئو'' لڑکی نے کہا… ''آہستہ آہستہ واپس چلتے ہیں۔ وہ لوگ ہمارے پیچھے آرہے ہوں گے۔ راستے میں تمہیں بتائوں گی کہ میں نے کیا سوچا ہے''… و ہ چل پڑے۔ لڑکی نے کہا… ''میں تمہیں یہ نہیں کہوں گی کہ مجھے اپنے ساتھ لے چلو، یہ جرم ہوگا۔ میرا خاوند قاضی کے پاس چلا جائے گا اور ہم دونوں سزا پائیں گے۔ پہلے اس خاوند سے آزاد ہونا ہے۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے ایسے طریقے سے قتل کیا جائے کہ یہ قتل نہ لگے۔ قتل تم نہیں کرو گے، میں کروں گی۔ ہوسکتا ہے اسے شراب میں کچھ ملا کر پلا دوں اور رات کو دریا کے کنارے لے جا کر دھکا دے دوں اور کہوں کہ وہ نشے میں دریا میں اتر گیا تھا۔ اس کے لیے دوچار روز انتظار کرنا پڑے گا۔ میں اسے یہیں رکھوں گی''۔
''تمہارے پاس کوئی زہر ہے؟''… سپاہی نے پوچھا۔
لڑکی نے قہقہہ لگایا اور کہا… ''تم بدھو سپاہی ہو۔ میں قاہرہ کے دور اپور کے علاقے کی رہنے والی ہوں جس میں سے یہ دریا گزرتا ہے۔ ہماری خوراک مچھلی ہے۔ مچھلی کا پتہ زہر سے بھرا ہوتا ہے۔ تم نے دیکھا ہے کہ ہم یہاں بھی مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ میں مچھلی کا پتہ الگ کرکے چھپالوں گی اور اس میں سے چند قطرے بوڑھے کی شراب میں ملا دوں گی پھر اسے سیر کے بہانے دریا کے کنارے لے جائوں گی''۔
''پھر میں تمہیں کس طرح لے جائوں گا؟''
''وہ مرگیا تو میں آزاد ہوں گی''۔ لڑکی نے جواب دیا… ''میں سب سے کہہ دوں گی کہ تم میں سے کوئی بھی میرا وارث نہیں جو مجھے اپنی مرضی کی شادی سے روکے۔ میں تمہارے ساتھ چلی جائوں گی۔ تم مجھے اپنے گھر بھیج دینا… اور سنو تم مجھے ملتے رہنا۔ اب چلے جائو گے تو پھر کب آئو گے؟''
''میں صرف گشت پر آسکتا ہوں''… سپاہی نے جواب دیا… ''چوکی دور ہے۔ گشت کے بغیر ہم گھوڑا استعمال نہیں کرسکتے۔ میری گشت اسی ساتھی کے ساتھ کل رات کے دوسرے پہر ہوگی۔ میں یہیں آجائوں گا''۔
''ذرا دور رہنا''… لڑکی نے کہا… ''میں تمہیں راستے میں ملوں گی۔ کہیں چھپ کر بیٹھ جائیں گے''۔ لڑکی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ سپاہی نے اس کی طرف دیکھا تو لڑکی نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ سپاہی کے تمام شکوک رفع ہوگئے۔ اس نے لڑکی کا ہاتھ دل پر رکھ کر دبایا۔
٭ ٭ ٭
وہ جب اس جگہ پہنچے جہاں سے لڑکی کا گھوڑا چٹان کی اوٹ میں ہوگیا تھا، انہیں تمام آدمی نظر آئے۔ وہ اسی طرف دیکھ رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر وہ ان کی طرف دوڑ پڑے۔ دونوں گھوڑوں سے اترے۔ لڑکی کا بوڑھا خاوند سپاہی کے ساتھ لپٹ گیا۔ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔ دوسرے آدمیوں نے بھی والہانہ انداز سے اس کا شکریہ ادا کیا۔ لڑکی نے انہیں جھوٹ موٹ کی کہانی سنا دی اور کہا کہ اس سپاہی نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اسے بچایا ہے، ورنہ گھوڑا اسے کسی پتھریلے کھڈ میں گرا کر مار دیتا۔
دونوں سپاہی چوکی کو واپس روانہ ہوئے۔ راستے میں اس سپاہی نے اپنے ساتھی کو بتایا کہ اصل واقعہ کیا ہوا ہے۔ اس کے ساتھی کے دل میں رشک سا پیدا ہوا لیکن اس نے بتایا کہ اس کی غیرحاضری میں ایک لڑکی عجیب سی نظروں سے اسے دیکھتی تھی۔ یہ سپاہی اپنے ساتھی کے پیچھے جانا چاہتا تھا مگر پیدل پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ باقی آدمی پیچھے کھڑے رہے۔ وہ بہت آگے چلا گیا۔ دو لڑکیاں بھی آگے گئیں جن میں سے ایک اس کے ساتھ باتیں کرنے لگی۔ باتوں باتوں میں لڑکی نے اس سپاہی کے ساتھ محبت کا اظہار کیا اور اس سے پوچھا کہ وہ اسے پھر کب ملے گا۔ اس نے لڑکی کو بتایا کہ وہ کل رات کے دوسرے پہر گشت پر آئے گا۔ اس لڑکی نے اسے بتایا کہ اسے ایک بوڑھے کے ساتھ بیاہ دیا گیا ہے اور وہ اس کے ساتھ بھاگنا چاہتی ہے۔
دونوں کی کہانی ایک جیسی تھی۔ انہوں نے اس مسئلہ پر غور کرنا شروع کردیا کہ وہ لڑکیوں کو کس طرح اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ وہ دونوں اس پر بھی غور کرنے لگے کہ اگر لڑکیاں اپنے خاوندوں کو قتل نہ کرسکیں تو وہ انہیں قتل کریں اور کس طرح کریں گے… دونوں سپاہی بڑے ہی حسین تصورات میں خمار کی کیفیت میں اپنی چوکی پر پہنچے۔ انہوں نے اپنے کمانڈر کو رپورٹ دی کہ فلاں جگہ قاہرہ کے تاجروں کا قافلہ رکا ہوا ہے جس کے سامان کی تلاشی لی گئی ہے اور ہر طرح اطمینان کرلیا گیا ہے کہ وہ مشتبہ اور مشکوک لوگ نہیں۔ ان سپاہیوں نے لڑکیوں کا ذکر بھی کیا۔ چوکی کے کمانڈر نے رپورٹ کے پہلے حصے کو توجہ سے نہیں سنا تھا۔ جب لڑکیوں کا ذکر آیا تو اس نے دلچسپی لینی شروع کردی۔ لڑکیوں کی تعداد، عمر، شکل وصورت، قدبت، رنگ روپ غرض اس نے کوئی بات نہ رہنے دی۔ سپاہیوں نے اس کے اس رویے کو محسوس کیا اور خاموش رہے۔
چوکی میں ایک اور چوکی کا سپاہی بیٹھا تھا۔ وہ چوکی وہاں سے آٹھ دس میل دور تھی۔ اس کے کمانڈر نے اس سپاہی کو اس پیغام کے ساتھ بھیجا تھا کہ آج شام کے بعد میری چوکی میں آنا، ضروری کام ہے۔ کمانڈر نے یہ پیغام لانے والے سپاہی کو یہ کہہ کر روک لیا تھا کہ اکٹھے چلیں گے۔
سورج 
غروب ہوتے ہی کمانڈر سپاہی کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ دوسری چوکی پر پہنچا تو شام گہری ہوچکی تھی۔ یہ چوکی ہری بھری جگہ تھی۔ وہاں اس شام کچھ اور ہی رونق تھی۔ چوکی کے تمام سپاہی جو ڈیوٹی پر نہیں تھے، چوکی کے باہر گول دائرے میں بیٹھے تھے۔ مشعلیں جل رہی تھیں۔ چوکی کا کمانڈر وہاں نہیں تھا۔ اس کے خیمے میں گئے۔ وہاں دو لڑکیاں بیٹھی تھیں اور تین صحرائی آدمی بھی تھے۔ ان کے قریب ساز اور دف پڑے تھے۔ مہمان کمانڈر کے آتے ہی کھانا چنا گیا… سب کھا چکے تو چوکی کے کمانڈر کے کہنے پر سازندے اور لڑکیاں باہر چلی گئیں۔ دوسری چوکی کے کمانڈر نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور باہر کیا ہورہا ہے۔
''یہ لڑکیاں ناچنے والی ہیں''۔ کمانڈر نے جواب دیا… ''اور ان کے ساتھ سازندے ہیں، یہاں سے گزر رہے تھے۔ پانی پینے کے لیے رکے تو میں نے انہیں بٹھا لیا۔ لڑکیاں اچھی لگیں، میں نے انہیں کھانابھی کھلایا۔ یہ کہیں جارہے تھے، میرے کہنے پر رک گئے۔ آج رات انہیں یہیں رکھوں گا''۔
''مجھے یہ سلسلہ اچھا نہیں لگا''۔ دوسرے کمانڈر نے کہا… ''سرحد پر آکر یہ عیاشی سپاہیوں کو خراب کرے گی''۔
''اس کے بغیر سپاہی زیادہ خراب ہورہے ہیں''۔ میزبان کمانڈ
ر نے کہا… ''ایک ہمارے وہ ساتھی ہیں جو شہروں میں عیش کررہے ہیں، ایک ہم ہیں جو معلوم نہیں کب سے یہاں بو گیر کتوں کی طرح آوارہ پھر رہے ہیں۔ کیا تمہیں سپاہیوں نے کبھی پریشان نہیں کیا کہ ان کی جگہ دوسرے دستے لائے جائیں؟''
''میری چوکی میں تو دو سپاہی آپس میں لڑ بھی چکے ہیں''۔ مہمان کمانڈر نے کہا… ''اب تو سپاہیوں کو معمولی سی بات پر غصہ آجاتا ہے''۔
٭ ٭ ٭
سپاہی انہیں چیخ چیخ کر داد دے رہے تھے، تین چار سپاہیوں نے لڑکیوں کی طرف پیسے پھینکے جو لڑکیوں نے یہ کہہ کر واپس کردئیے کہ وہ وطن کے محافظوں سے پیسے نہیں لیں گی۔ ان کے سازندوں نے بھی سپاہیوں سے کہا کہ اگر وہ ناچ گانے سے خوش ہوتے ہیں تو انہیں جب بھی بلایا جائے گا وہ بلا اجرت آجایا کریں گے… ان تماشائیوں میں دو کمانڈر تھے۔ ان کے عہدے کوئی زیادہ اونچے تو نہیں تھے پھر بھی وہ ذمہ دار افراد تھے اور وہ دونوں اپنی ذمہ داریوں کو بھول چکے تھے۔ انہوں نے یہ معلوم کرنے کی بھی کوشش نہ کی کہ ناچنے گانے والی یہ پارٹی آئی کہاں سے ہے اور جا کہاں رہی ہے اور جو کچھ سازندوں نے اپنے متعلق بتایا ہے، وہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ کمانڈروں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ تماشائیوں میںمصر کے صحرائی لباس میں جو چند ایک آدمی بیٹھے ہیں وہ کون ہے اور کہاں سے آئے ہیں… اور ان کمانڈروں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ چوکی کے چار سپاہی گشتی پہرے سے جلدی واپس آگئے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے چار سپاہی پہرے کے لیے گئے ہی نہیں۔
جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں