داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 66 - اردو ناول

Breaking

بدھ, جنوری 29, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 66

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔66- صلیب کے سائے میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سلطان ایوبی کو بتایا گیا کہ رات کو اس فوج کے چند ایک سنتری بیدار ہوتے ہیں اور دن کے دوران گشتی پارٹیاں ہر طرف گھومتی پھرتی رہتی ہیں۔ اس اطلاع سے شک ہوا کہ حلب والوں کو اس کی آمد کی اطلاع مل گئی ہے اور وہ انہیں بے خبری میں نہیں لے سکے گا۔ اس نے دیکھ بھال کے لیے اس مقام سے دور کے علاقے میں اپنے آدمی بھیجے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ دریا کسی اور جگہ سے عبور کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔اس کے ساتھ ہی اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ نشیب میں دشمن کی فوج کو دھوکہ دے کہ حملہ اور پیش قدمی اسی طرح سے ہوگی۔ اس نے اسی رات چھاپہ مار روانہ کردئیے۔ اس کا اپنا ہیڈکوارٹر وہاں سے پانچ چھ میل دور تھا۔ دریا کے کنارے دشمن کی جو فوج تھی وہ بھی اس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ اتنی یخ راتوں کو حملہ نہیں ہوسکتا۔
نصف شب کے قریب سپاہی خیموں میں دبکے پڑے تھے۔ کمانڈر بے خبر سو رہے تھے۔ صرف سنتری جاگ رہے تھے۔ ایک سنتری سردی میں ٹھٹھرا کھڑا تھا۔ پیچھے سے کسی نے اس کی گردن دبوچ لی۔ کسی اور نے اسے اٹھایا۔ یہ سلطان ایوبی کے دو چھاپہ مار تھے۔ وہ سنتری کو اٹھا کر لے آئے اور اس سے پوچھا کہ گھوڑے کہاں بندھے ہوئے ہیں۔ اس کے سینے پر دو تلواروں کی نوکیں رکھی ہوئی تھیں۔ سنتری کو معلوم تھا کہ یہ سلطان کے سپاہی ہیں۔ اس نے ان سے التجا کی کہ میں تمہارا مسلمان بھائی ہوں۔یہ بادشاہوں کے جھگڑے ہیں، ہم ایک دوسرے کا خون کیوں بہائیں۔ اس نے بتایا کہ گھوڑے ایک جگہ نہیں بندھے ہوئے۔ چونکہ فوج تیاری کی حالت میں ہے اس لیے گھوڑے، سواروں کے خیمے کے ساتھ دو دو، تین تین کرکے بندھے ہوئے ہیں۔ چھاپہ مار اسے اس کے کیمپ کے قریب لے گئے اور پوچھا دستوں کے کمانڈر کہاں ہیں۔ اس نے اندازہ کرکے ان خیموں کی سمتیں بتا دیں۔
اسے ساتھ ہی پیچھے لے آئے اور اسے کہا کہ یہاں کھڑے رہو اور تماشہ دیکھو، وہاں چھوٹے سائز کی ایک منجنیق رکھی تھی۔ اس میں چھاپہ ماروں نے ایک ہانڈی سی رکھی۔ چار آدمیوں نے اسے پیچھے کھینچا اور چھوڑ دیا۔ ہانڈی غلیلے کی طرح اڑ گئی۔ دوسری ہانڈی کسی اور طرف پھینکی گئی پھر دو اور پھینکی گئیں۔ یہ سب دشمن کے کیمپ میں گریں۔ سنتریوں نے ''کون ہے، کون ہے'' کی صدائیں لگائیں۔ کہیں سے جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر آئے جو زمین پر لگے۔ ہانڈیاں وہیں گر کر ٹوٹی تھیں۔ ان کے اندر سے سیال مادہ نکل کر بکھر گیا تھا۔ تیروں کے فلیتوں نے اسے آگ لگا دی۔ دو خیموں کو بھی آگ لگ گئی۔ زمینھ شعلے اگل رہی تھی۔ کیمپ میں بھگدڑ مچ گئی۔ گھوڑے رسیاں تڑانے لگے۔ سپاہی اٹھ کر ادھر ادھر دوڑے تو چھاپہ ماروں نے تیر برسانے شروع کردئیے۔ یہ خیمہ گاہ ایک میل سے زیادہ لمبے چوڑے علاقے میں تھی۔ پیشتر اس کے کمانڈر جوابی کارروائی کرتے چھاپہ مار تباہی مچا کر غائب ہوچکے تھے۔
صحرا بھی نیم تاریک تھی، کیمپ کی حالت خاصی بری تھی۔ آگ نے بھی نقصان کیاتھا لیکن چھاپہ ماروں کے تیروں سے اور بدکے ہوئے گھوڑوں تلے آکر بہت سے سپاہی ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ سحر تک انہیں اٹھاتے اور سنبھالتے رہے۔ا چانک ایک طرف سے کسی نے چلا کرکہا… ''ہوشیارہوشیار''… ایک بار پھر قیامت آگئی مگر اب کے چھاپہ مار نہیں تھے۔ یہ سلطان ایوبی کے ایک دستے کا باقاعدہ حملہ تھا۔ دشمن اس جگہ ہر لمحہ تیاری کی حالت میں رہتا تھا لیکن رات کو چھاپہ مار اس کی حالت ایسی بدل آئے تھے کہ تیاری ختم ہوگئی تھی۔ دشمن کے سپاہیوں نے جم کر لڑنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کے پائوں جم نہ سکے۔ سلطان ایوبی ان کا دم خم پہلے ہی ختم کراچکا تھا۔ پھر بھی دونوں فریقوں کا خاصا نقصان ہوا۔ دشمن کے سپاہی پسپا ہونے لگے۔ کمانڈروں نے انہیں بہت للکارا مگر دوسری طرف کی للکار ان کے لڑنے کے جذبے کو تباہ کررہی تھی۔ سلطان ایوبی کے سپاہی ان پر چلا رہے تھے… ''تم کافروں کے دوست ہو، خدا ہمارے ساتھ ہے، اپنا حشر دیکھو، تم پر خدا کا قہر نازل ہورہا ہے''۔
 سلطان ایوبی نے اپنی فوج کے نہایت معمولی سے سپاہی کے ذہن میں بھی اتار دیا تھا کہ تم حق پر ہو اور کفار کے دوست مرتد ہیں۔ اس کے مقابلے میں خلیفہ کی فوج کے پاس ایسا کوئی مقصد اور کوئی نعرہ نہیں تھا۔
دشمن کے سپاہی بکھر گئے۔ بہت سے پسپا ہوکر دریا پار کرگئے اور کچھ ادھر ادھر وادیوں اور نشیبی جگہوں میں جا چھپے۔ سلطان ایوبی نے حملہ آور دستے کے کمانڈر کو حکم دے رکھا تھا کہ دشمن کی پسپائی کی صورت میں اپنا کوئی دستہ جیش یا کوئی سپاہی دریا پار نہ کرے۔ اس نے اس کیمپ پر حملہ کرکے دراصل دشمن کو دھوکہ دیا تھا۔ وہ تعاقب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ آگے کے تفصیلی جائزے اور مشاہدے کے بغیر کبھی پیش قدمی نہیں کرتا تھا۔ وہ دریا کہیں دور سے پار کرنا چاہتا تھا لیکن دشمن نے یہیں سے اسے راستہ دے دیا تو اس نے یہیں سے دریا پار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ خود آگے گیا۔ اس کے سپاہی ادھر ادھر چھپے ہوئے دشمن کو ڈھونڈ کر ختم کررہے تھے۔ہتھیار ڈالنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اس نے ایک بلند چٹان پر جا کر میدان جنگ کامنظر دیکھا تو خوشی کے بجائے اس کے چہرے پر اداسی چھاگئی۔
''یہ نظارہ دیکھ کر خدا بھی رو رہا ہوگا''۔ سلطان ایوبی نے اپنے پاس کھڑے نائبین سے کہا… ''دونوں طرف کس کا خون بہہ گیا ہے؟… مسلمان کا۔ یہ ہے اسلام کے زوال کی نشانی اگر مسلمان ہوش میں نہ آئے تو کفار انہیں اسی طرح لڑالڑا کر ختم کردیں گے۔ میرے رفیقو! مجھے کوئی یقین دلا دے کہ میں حق پر نہیں تو میں اپنی تلوار الصالح کے قدموں میں رکھ دوں گا''۔
''آپ حق پر ہیں، سلطان محترم!'' کسی نے کہا… ''ہم حق پر ہیں، دل سے اب وسوسے نکال دیں''۔
حلب شہر میں ہر آدمی آگ کا شعلہ بنا ہوا تھا۔ سلطان ایوبی کے دستے دریا پار کرگئے تھے۔ حلب سامنے نظر آرہا تھا۔ سلطان ایوبی نے شہر کودیکھا۔ اس کی وسعت، ساخت اور دفاعی انتظامات دیکھے اور جائزہ لیا کہ محاصرہ کیا جائے یا سیدھا حملہ کرکے شہر کے اندر لڑا جائے۔ اسے ابھی تک معلوم نہیں تھا کہ شہر کے اندر کی جذباتی کیفیت کیا ہے۔ اسے توقع تھی کہ شہری چونکہ مسلمان ہیں، اس لیے وہ دونوں مسلمان فوجوں کی جنگ کے خلاف ہوںگے۔ غالباً اسی توقع نے اس سے وہ کارروائی کرائی جس نے اسے پریشان کردیا۔ اس نے نفری سے نیم محاصرے کی ترتیب میں اپنے دستے آگے بڑھائے۔ لڑائی کی ابتداء تیروں کے تبادلے سے ہوئی لیکن کچھ ہی دیر بعد اس نے محسوس کیا جیسے اس کے دستے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ حلب کے دفاع میں لڑنے والوں کا یہ عالم تھاکہ ایک طرف سے کم وبیش دو سو گھوڑ سوار نکلے۔ انہوں نے سلطان ایوبی کے ایک دستے کے ایک پہلوپر حملہ کردیا۔یہ بڑا ہی تیز اور دلیرانہ حملہ تھا جو پیادہ دستے پر کیا گیا تھا۔
اس کے سواروں نے جوابی ہلہ بول کر اپنے پیادہ دستے کو بچانے کی نہایت اچھی کوشش کی لیکن گھوڑوں کے تصادم میں اپنے ہی پیادے کچلے گئے۔ پھر یوں ہونے لگا کہ شہر سے ایک حبش پیادہ یا سوار نکلتا۔ ان کے پیچھے سے شہر کی منڈیروں اور بلند جگہوں سے تیروں کی بوچھاڑیں آتیں اور حملہ کرنے والے حبش سلطان ایوبی کی صفوں میں گھس جاتے۔ حلب کا یہ معرکہ بڑاہی خون ریز تھا۔
اس کیفیت میں سلطان ایوبی کے دو تین جاسوس باہر نکل آئے اور سلطان ایوبی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس تک پہنچ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ شہریوں کو کس طرح اس کے خلاف بھڑکایا گیا ہے اور شہر کے دفاع میں لڑنے والے اتنے فوجی نہیںجتنے شہری ہیں۔ سلطان ایوبی کو یہ تو پہلے ہی معلوم تھا کہ حلب کے باشندوں پر اس کے خلاف جنگی جنون طاری کیا جارہا ہے لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ شہری اس پاگل پن سے لڑیں گے۔  وہ ان کی دلیری پر عش عش کر اٹھا لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنے لگا… ''یہ ہے مسلمان کی شان، ان کا عسکری جذبہ دیکھو، کفار مسلمان کے اسی جذبے کو ختم کررہے ہیں''۔
سلطان ایوبی نے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹا لیا۔ اسے کسی نائب نے مشورہ دیا کہ شہر پر منجنیقوں سے آگ پھینکی جائے۔ سلطان ایوئی نے یہ مشورہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا کہ شہریوں کے گھر تباہ ہوجائیں گے۔ ان کی عورتیں اور بچے مارے جائیں گے۔ اسی لیے میں نے تباہ کار چھاپہ ماروں کو نہیں بھیجا۔ اگر یہ شہر صلیبیوں کا ہوتا تو اب تک شعلوں کی لپیٹ میں اور میرے چھاپہ ماروں کی زد میں ہوتا جو مسلمان میدان جنگ میں آکر لڑتے اور مرتے ہیں انہیں میں روک نہیں سکتا اور جو گھروں میں بیٹھے ہیں انہیں مارنا نہیں چاہتا۔ اس نے چند اور دستے آگے بلا کر شہر کو مکمل محاصرے میں لے لیا اور حکم دیا کہ دفاع میں لڑا جائے۔ حملہ ہو تو روکا جائے، حملہ نہ کیا جائے اور محاصرے کو مضبوط رکھا جائے۔ نفری کی بھی کمی تھی اور شہر کو تباہی سے بچانے کا خیال بھی تھا۔
جنوری ١١٧٥ء کا پورا مہ
: جنوری ١١٧٥ء کا پورا مہینہ محاصرہ جاری رہا۔ حلب کی فوج اور شہریوں نے محاصرہ توڑنے کے لیے حملے کیے لیکن اب وہ کامیاب نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ سلطان ایوبی نے اپنے دستوں کی ترتیب اور سکیم بدل دی تھی۔ یکم فروری ١١٧٥ء کی صبح سلطان کو اطلاع ملی کہ تریپولی کا صلیبی حکمران ریمانڈ حماة کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسے ریمانڈکی فوج کی نفری (پیادہ اور سوار) کی اطلاع بھی دی گئی۔ سلطان ایوبی کو پہلے ہی توقع تھی کہ یہ صورت بھی پیدا ہوگی۔ اس کے لیے وہ تیار تھا۔ اس نے اس کے لیے دستے محفوظ رکھے ہوئے تھے اور ایسی جگہ رکھے ہوئے تھے جہاں سے وہ ریمانڈ کے استقبال کے لیے بروقت پہنچ سکتے تھے۔ اس نے یہ اطلاع ملتے ہی اپنے قاصد کو اس پیغام کے ساتھ ان دستوں کی طرف دوڑایا کہ جس قدر جلدی ہوسکے الرستان کے علاقے میں پہنچ کر بلندیوں پر تیر انداز بٹھا دو۔ سوار دستے پیچھے رکھو، میں آرہا ہوں اگر صلیبی فوج مجھ سے پہلے آجائے تو سامنے کی ٹکر نہ لینا۔ گھات لگانا اور شب خون مارنا۔
الرستان ایک پہاڑی سلسلے کا نام تھا۔ ریمانڈ کو اس میں سے گزر کر آنا تھا۔ ریمانڈ کی پیش قدمی کا راستہ اس کے پلان کے مطابق موزوں تھا۔ وہ حماة تک پہنچ کر سلطان کے عقب کے لیے اور رسد وغیرہ کے راستوں کے لیے خطرہ بن سکتا تھا۔ پھر صورت یہ ہوجاتی کہ سلطان ایوبی حلب کی فوج اور ریمانڈ کی فوج (جو یقینا برتر اورزیادہ تھی) کے درمیان پس جاتا۔ اس نے دوسرا اقدام یہ کیا کہ حلب کا محاصرہ اٹھا دیا اور اسی نے ان دستوں کو کسی اور سمت روانہ کردیا۔ خود الرستان کی طرف چلا گیا۔ وہاں کی چوٹیوں پر برف پڑی ہوئی تھی۔ ریمانڈ خوش تھا کہ اس موسم میں سلطان ایوبی کے صحرائی سپاہی اس کے یورپی اور اسی علاقے کے رہنے والی عیسائی سپاہیوں سے نہیں لڑ سکیں گے مگر وہ آگے آیا تو برف پوش پہاڑی سلسلہ کوہ سے اس پر تیر برسنے لگے۔ یہ اس کے لیے بلائے ناگہانی تھی۔
اس نے لڑے بغیر اپنی فوج پیچھے ہٹا لی۔ اسے ہر جگہ گھات کا خطرہ تھا۔ وہ سلطان ایوبی کے لڑنے کے انداز سے اچھی طرح واقف تھا۔ اس نے بہت پیچھے ہٹ کر پڑائو ڈال دیا۔ وہ اپنے راستے پر نظرثانی کرنا چاہتا تھا۔ موسم بگڑ گیا۔ بارشیں شروع ہوگئیں۔سات آٹھ دنوں میں گھوڑوں کا خشک چارہ ختم ہوگیا۔ اناج کی بھی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس نے رسد کا انتظام نہایت اچھا رکھا تھا۔ وہاں تک اسے باقاعدگی سے رسد پہنچ رہی تھی مگر کئی دن پیچھے سے نہ رسد آئی، نہ کوئی اطلاع۔ اس نے قاصد بھیجا جو واپس آگیا اور پیغام لایا کہ سلطان ایوبی کی فوج نے راستہ روک رکھاہے۔ ریمانڈ بہت حیران ہوا کہ سلطان ایوبی اتنی جلدی یہاں کیسے پہنچ گیا؟… اس نے اپنے دو افسروں کو پیچھے کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا۔
یہ دو افسر تین چار روز بعد واپس آئے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ سلطان ایوبی نے رسد کا راستہ روک لیا ہے اور یہ بھی کہ اس نے حلب کامحاصرہ اٹھا لیا ہے۔
''اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا فرض ادا ہوگیا ہے''۔ ریمانڈ نے کہا… ''فوج کو واپس تریپولی لے چلو''۔
٭ ٭ ٭
یہ اطلاع سلطان ایوبی کے لیے حیران کن تھی کہ ریمانڈ لڑے بغیر واپس کوچ کر گیا ہے۔ ریمانڈ نے واپسی کا جو راستہ اختیار کیا تھا، وہ دشوار گزار تھا لیکن وہ اس راستے سے نہیں جانا چاہتا تھا جس سے آیا تھا۔ وہ سلطان ایوبی سے لڑنے کا ارادہ ترک کرچکا تھا۔ یورپی مورخوں نے لکھا ہے کہ وہ لڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ سلطان ایوبی نے اسے لڑنے کی پوزیشن میں نہیں رہنے دیا تھا۔ وہ اسی سے گھبرا گیا تھا کہ مسلمان فوج اتنی سردی میں ایسی خوبی سے لڑ رہی ہے جیسے صحرا میں لڑتی ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ سلطان ایوبی اس کے عقب میں اور رسد کے راستے میں جا بیٹھا تھا۔ تیسری اور سب سے بڑی وجہ کچھ اور تھی جس کا انکشاف بعد میں ہوا۔ وہ دراصل الصالح اور اس کے امراء کو دھوکہ دے گیاتھا۔ اس نے بے بہا خزانے کی شکل میں اجرت لے لی تھی۔ اسے اب لڑنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کا یہ مقصد (جو صلیبیوں کا بنیادی مقصد تھا) پورا ہوچکاتھا کہ مسلمان آپس میں ٹکرا جائیں۔ صلیبی مسلمان قوم کی فوج کو دو حصوں میں کاٹ چکے تھے اور ان دونوں حصوں میں جنگ شروع ہوچکی تھی۔
اس کی نیت کا پتا اس وقت چلا جب تریپولی سے اس کا ایلچی الصالح کے نام یہ پیغام لے کر آیا۔ ''میں نے وعدہ کیا تھا کہ صلاح الدین ایوبی نے آپ کو محاصرے میں لیا تو میں محاصرہ توڑ دوں گا۔ مجھے جونہی اطلاع ملی کہ صلاح الدین ایوبی نے حملہ کردیا ہے، میں فوج لے کر آپ کی مدد کو آگیا۔ صلاح الدین ایوبی نے فوراً حلب کا محاصرہ اٹھا لیا۔ میں نے وعدہ پورا کردیاہے لہٰذا ہمارا وہ فوجی معاہدہ ختم ہوگیا جس کے تحت آپ نے مجھے سونا وغیرہ بھیجا تھا اور اس کے عوض میں نے آپ کو محاصرے سے بچایا۔ میرے فوجی نمائندے اور مشیروں کو فوراً واپس بھیج دیا جائے''۔
 حلب والے سرپکڑ کر بیٹھ گئے۔ صلیبی انہیں ڈنک ماررہے تھے۔ دو مورخوں نے لکھا ہے کہ ریمانڈ کو یہ خطرہ بھی نظر آنے لگا تھا کہ سلطان ایوبی اس کے دارالحکومت تریپولی پر حملہ کرے گا۔ چنانچہ اس نے اپنی راجدھانی کا دفاع مضبوط کرنا شروع کردیا۔
الصالح ابھی ناتجربہ کار تھا۔ اس کے ایک دو مشیروں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ سلطان ایوبی سے صلح کرلے مگر سیف الدین اور گمشتگین وغیرہ نے اسے مدد کا یقین دلا کر سمجھوتے اور صلح پر آمادہ نہ ہونے دیا۔ انہی میں سے کسی نے اسے بتایا کہ صلاح الدین ایوبی چند روز کامہمان ہے۔ نو فدائی آچکے ہیں، وہ مذہبی پیشوائوں اور صوفیوں کے بہروپ میں صلاح الدین ایوبی کے پاس یہ درخواست لے کر جارہے ہیں کہ وہ آپس میں نہ لڑیں اور صلح کرلیں۔ سلطان ایوبی ان کے احترام کے لیے انہیں اپنے پاس بٹھائے گا۔ اکیلے ان کی بات سنے گا اور فدائی اسے نہایت اطمینان سے قتل کرکے نکل جائیں گے۔
انہوں نے الصالح کو یہ خبر سنا کر جھانسہ نہیں دیا تھا جس وقت سلطان ایوبی الرستان کے سلسلۂ کوہ میں بیٹھا، اپنے اگلے حملے کا پلان بنا رہا تھا تو پیشہ ور فدائی قاتل یہ سوچ رہے تھے کہ اسے کہاں قتل کیا جائے .

جاری ھے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں