میں شاہین باغ ہوں ! - اردو ناول

Breaking

بدھ, فروری 05, 2020

میں شاہین باغ ہوں !

""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""                         میں ہوں شاہین باغ     
""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""


شاہین باغ اب محض ایک پتہ نہیں بلکہ ایک تاریخ ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جس کا سلسلہ 1857 سے ملتا ہے۔ جی ہاں، 1857 میں جس طرح انگریزوں کے مظالم اور ناانصافی کے خلاف بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں ایک بغاوت پھوٹ پڑی تھی، ویسے ہی نریندر مودی کے خلاف شاہین باغ سے ایک بغاوت کا نقارہ بج اٹھا ہے اور جیسے سنہ 1857 کی بغاوت نے دہلی سے پھیل کر سارے ہندوستان کو اپنی چپیٹ میں لے لیا تھا، ویسے ہی شاہین باغ سے شروع ہونے والی بغاوت بھی ہندوستان کے شہر شہر پھیل چکی ہے۔ 1857 میں اآزادی کی جنگ تھی اور شاہین باغ بھی کسی جنگ اآزادی سے کم نہیں ہے۔ اس وقت انگریزوں کی غلام بنانے کی سازش کے خلاف بغاوت تھی اور اس وقت آر ایس ایس کی مسلمانوں کو غلام بنانے کی سازش کے خلاف جنگ ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت علم بغاوت مردوں کے ہاتھوں میں تھا اور اس وقت علمبردار عورتیں ہیں۔

جی ہاں، شاہین باغ سے شروع ہونے والی جنگ آزادی کی کمانڈو ہماری مائیں، بہنیں اور نوجوان بچے ہیں۔ یہ تحریک ایک انوکھی تحریک بن چکی ہے جس میں مائیں اور بہنیں آزادی کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہیں۔ اللہ رے ان عورتوں کا جوش و ولولہ۔ ایک ٹی وی رپورٹر نے جب ایک سن رسیدہ عورت سے کہا کہ آپ کو تو پانچ سو روپے کی اجرت پر یہاں لایا گیا، تو انھوں نے فوراً جواب دیا کہ کسی کی کیا مجال کہ ہم کو اجرت دے۔ ارے یہ ہم اس ملک سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں، ہم یہاں اس کے خلاف اکٹھا ہوئے ہیں اور اس وقت تک یہاں بیٹھے رہیں گے جب تک ہماری مانگ نہیں پوری ہوگی۔ حجاب باندھے ہوئے نوجوان لڑکیاں آئین اور اس کے پری ایمبل پر اس طرح تقاریریں کر رہی ہیں جیسے کوئی ماہر آئین بولے۔ یہ جوش و ولولہ اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کا جذبہ اس لیے ہے کہ ہندوستانی مسلمان کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ اگر اب وہ دب گیا تو بس پھر بی جے پی غلامی کا پھندہ گلے میں ڈال دے گی۔

شاہین باغ سے شروع ہونے والی جنگ آزادی تحریک نے ہندوستانی مسلمان کو ایک گہری غفلت سے جیسے جگا دیا ہو۔ اس قوم میں اس وقت جیسی سیاسی بیداری پیدا ہوئی ہے اس کا تصور پہلے کبھی کیا نہیں جا سکتا تھا۔ ہندوستانی تاریخ میں کبھی بھی کسی جدوجہد میں ایسی کثیر شرکت نہیں رہی جیسی اس تحریک میں ہے۔ ارے یہ وہ عورتیں ہیں جو کل تک گھروں کی چہار دیواری تک سمٹی ہوئی تھیں، آج وہی عورتیں میدان جنگ میں آزادی کے لیے پہلی صف میں لڑ رہی ہیں۔ یہ سیاسی شعور کی انتہا ہے۔ پھر کل تک مسلمانوں کی ہر تحریک محض مذہبی علاقوں تک محدود ہوتی تھی۔ لیکن اس تحریک میں کوئی مذہبی نعرہ نہیں۔ اس تحریک کی سب سے بڑی علامت ملک کا آئین ہے۔ اور اس تحریک کی مانگ ہے کہ ہندوستان اپنی سطح پر ایک سیکولر ملک ہے اور کوئی اس کو ہندو راشٹر نہیں بنا سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ آئین کے تحفظ اور سیکولرزم کی بقا کے لیے ہندوستان میں اب تک اتنی بڑی تحریک اس ملک میں پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ یعنی شاہین باغ سے اٹھنے والی تحریک سیاسی سطح پر ایک جدید ترین سیکولر تحریک ہے جس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس جدید سیکولر تحریک کی علمبردار وہ قوم ہے جس کو سب سے زیادہ قدامت پسند تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن آج وہی مسلم قوم، حد یہ ہے کہ اس کی عورتیں بھی اس ملک میں وہ انقلاب بپا کیے ہوئے ہیں جس کا تصور پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آخر یہ تبدیلی کیوں، آخر اس قوم کے پاس یہ سیاسی شعور کہاں سے آیا!

جب کسی قوم پر ظلم و ستم کے کوہ گراں آئے دن پھٹ پریں تو اس کے سامنے صرف دو ہی راستے بچتے ہیں۔ یا تو وہ ظلم برداشت کرتی رہے اور غلاموں کی طرح جیتی رہے، یا پھر وہ اپنی جان کی بازی لگا کر آخر آزادی حاصل کر لے۔ پچھلے تقریباً تیس برس میں ہندوستانی مسلمان پر مستقل مظالم کی وہ مار رہی جس کی مثال نہیں ملتی۔ سنہ 1992 میں محض بابری مسجد نہیں ڈھائی گئی بلکہ اس کی مذہبی آزادی اور شناخت پر سیندھ لگا دی گئی۔ اور پھر وشو ہندو پریشد نے مسجد گرا کر سارے ملک میں مسلم خون سے ہولی کھیلی اور پھر اپنی فتح کا جشن منایا۔ ابھی وہ زخم بھرا بھی نہیں تھا کہ دو ماہ بعد ممبئی میں مسلمانوں کے خلاف ایسا فساد ہوا کہ سنہ 1947 کے فساد شرمندہ ہو گئے۔ پھر چند برس بعد گجرات میں سنہ 2002 مین نریندر مودی کی قیادت میں ایسی مسلم نسل کشی ہوئی کہ دنیا لرز گئی اور پھر سنہ 2014 سے اسی نریندر مودی نے ہندو راشٹر کا نقارہ بجا کر باقاعدہ مسلم غلامی کا علم بلند کر دیا۔ کبھی موب لنچنگ کے نام پر مسلمان نوجوانوں کو مارا جاتا رہا  تو کبھی اذان پر اعتراض ہم سب چپ رہے ۔ کبھی طلاق ثلاثہ کے ذریعے مسلمانوں پر زیادتی کی جاتی رہی ہم چپ رہے ۔اور بابری مسجد کو ہم سے چھینا ہم چپ رہے۔کبھی کشمیر سے 370 ہٹایا  گیا ہم چپ رہے۔۔ حد تو تب ہوٸی جب باقاعدہ NRC اورCAA کے ذریعہ مسلمانوں کے تمام حقوق صلب کر پوری طرح غلام بنانے کی تیاری ہو گئی۔

ظاہر ہے کہ اب مسلمان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ وہ یا تو غلامی تسلیم کرتا یا پھر وہ جنگ آزادی کا طبل بجاتا۔ اور شاہین باغ سے وہی آزادی کی جنگ کا طبل بج اٹھا جس کی گونج اب سارے ہندوستان میں سنائی پڑ رہی ہے۔ اب یہ جنگ فتح کا پرچم لہرانے کے بعد تھمے گی خواہ اس میں کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔۔۔اور آج  یہ عہد لینا ہوگا کہ جذباتی اور قدامت پسند اور سودے باز مولویوں کو سیاست اور قیادت سے دور رکھنا ہوگا۔ کیونکہ ایسی قیادت نے مسلمان کو جیسا نقصان پہنچایا ایسا نقصان کسی اور سے نہیں ہوا۔ پھر جیسے شاہین باغ میں ہماری مائیں اور بہنیں مردوں کے شانہ بہ شانہ چلتی رہیں گی۔ یعنی آزادی نسواں مسلم تحریک کا اولین مقصد رہے گا۔۔۔

آج کچھ چڈی گینگ والے آکر جامعہ نگر اور شاہین باغ پر فاٸرینگ کر رہیں کہ ہم ان پٹاکھوں سے ڈر جاٸینگے تو ان سے کہہ دو کہ ارے۔۔ہم اس قوم کے بیٹے ہیں جس قوم کے بیٹوں نے دریاۓ دجلہ پر اپنا قدم رکھا تھا تو دریاۓ دجلہ کو بھی پسینہ آ گیا تھا ۔۔۔۔ ہم تمہارے ان  دھمکیوں سے  پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں
ابھی تو زہرا ؓ کی بیٹیوں نے سنبھال رکھا ہے مورچے کو
غضب تو اس روز ہوگا جس دن علیؓ کے بیٹے اتر پڑیں گے

بس شاہین باغ سے جو انقلاب اٹھا ہے، وہ اب تب ہی تھمے گا جب یہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو جائے۔ اور شاہین باغ کا جوش و ولولہ اس بات کا ضامن ہے کہ کامیابی مل کر رہے گی۔۔۔
""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""





""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں