داستان ایمان فروشوں کی قسط 71 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, اگست 14, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط 71

 صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔71- یہ چراغ لہو مانگتے ہیں

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

عالم اسلام کے اسی خطے میں جہاں آج شامی مسلمان لبنانی صلیبیوں کے ساتھ مل کر فلسطینی حریت پسندوں کو پوری جنگی قوت سے کچل رہے ہیں، وہیں آٹھ سو سال پہلے بہت سے مسلمان امراء اور حاکم اور مسلمان زنگی مرحوم کا نوعمر بیٹا صلیبیوں سے مدد لے کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف صف آرا ہوگئے تھے۔ مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا تھا۔ اس وقت فلسطین صلیبیوں کے قبضے میں تھا اور سلطان صلاح الدین ایوبی قبلۂ اول کے اس خطے کو کفار سے آزاد کرانے کا عزم لے کر نکلا تھا۔ صلیبی اس سے فلسطین کو نہیں بچا سکتے تھے مگر مسلمان ہی اس کے راستے میں حائل ہوگئے۔ آج بھی فلسطین پر کفار کا قبضہ ہے اور فلسطینی حریت پسند جو قبلۂ اول کو آزاد کرانے کے لیے اٹھے تھے، شامی مسلمانوں کی توپوں اور ٹینکوں سے بھسم کیے جارہے ہیں۔

مارچ ١١٧٥ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی اسی خطے کے الرستان سلسلۂ کوہ میں کسی جگہ اپنے کوارٹر میں بیٹھا اپنے مشیروں اور کمانڈروں کے ساتھ اگلے اقدام کے متعلق باتیں کررہا تھا، جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ اس نے حلب کا محاصرہ اس لیے اٹھا لیا تھا کہ ملک الصالح نے صلیبی بادشاہ ریمانڈ کے ساتھ جو جنگی معاہدہ کیا تھا، اس کے مطابق ریمانڈ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج پر عقب سے حملہ کرنے کے لیے آگیا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے بروقت محاصرہ اٹھا لیا اور ایسی چال چلی کہ ریمانڈ کی فوج کے عقب میں چلا گیا اور ریمانڈ نے لڑے بغیر بھاگ جانے میں عافیت سمجھی۔ حلب مسلمانوں کا شہر تھا جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے دشمن مسلمان امراء اور الملک الصالح کا جنگی مرکز بن گیا تھا۔ حلب کے مسلمانوں نے خلیفہ اور امراء کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر سلطان صلاح الدین ایوبی کا مقابلہ بے جگری سے کیا تھا۔

وہ حلب پر ایک بار پھر حملہ کرکے غداروں اور ایمان فروشوں کے اس مرکز کو ختم کرنے کی سکیم بنا رہا تھا کہ اسے مصر سے اطلاع ملی کہ مصر میں اس کے ایک جرنیل القند نے صلیبیوں کی مدد سے سوڈانی حبشیوں کی فوج اس مقصد کے لیے تیار کرلی ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی غیرحاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مصر پر حملہ کیا جائے اور مصر کی امارت سلطان صلاح الدین ایوبی سے چھین لی جائے لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی کے بھائی العادل نے حبشیوں کو اسوان کے مقام پر شکست دی اور القند نے خودکشی کرلی۔ اس کی اطلاع ابھی سلطان صلاح الدین ایوبی تک نہیں پہنچی تھی، اس لیے وہ الرستان میں پریشان بیٹھا تھا۔

عظمت اسلام کا یہ پاسبان ہر طرف سے خطروں میں گھرا ہوا تھا۔ کئی ایک مسلمان امراء کی فوجیں اس کے خلاف متحد تھیں اور صلیبیوں کا خطرہ الگ تھا۔ ان سب کے مقابلے میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس بہت تھوڑی فوج تھی۔ اس نے ایسا اقدام کردکھایا تھا جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ اس کے دشمنوں کو یہ توقع تھی کہ اس پہاڑی خطے میں سردیوں میں کوئی جنگ کی سوچ ہی نہیں سکتا۔ پہاڑیاں جو بلند تھیں وہاں برف پڑتی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبیایوبی نے اپنی فوج کو ٹریننگ دے کر اس وقت حملہ کیا جب سردی عروج پر تھی۔ اس دلیرانہ اور غیر متوقع اقدام سے اس نے قلیل فوج سے سب کو خوفزدہ کردیا اور ایسی پوزیشن حاصل کرلی کہ دشمن کی کسی بھی فوج کو اپنی پسند کی جگہ گھسیٹ کر لڑا سکتا تھا۔ اس کی فوج اتنی تھوڑی تھی کہ اسے کبھی کبھی ناکامی کا خطرہ بھی محسوس ہونے لگتا تھا لیکن سبھی اس سے ڈر رہے تھے۔ اسے یہ ڈر تھا کہ ریمانڈ سکیم اور راستہ بدل کر اس پر حملہ کرے گا لیکن ریمانڈ کی حالت یہ تھی کہ اس نے اپنے علاقے تریپولی کا دفاع اس ڈر سے مضبوط کرلیا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی حملہ کرے گا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے جس طرح اسے بھگایا تھا اس سے سلطان صلاح الدین ایوبی اسی صورت میں فائدہ اٹھا سکتا تھا کہ صلیبیوں کا تعاقب کرتا مگر فوج کی قلت نے اسے آگے نہ جانے دیا ور بڑی وجہ یہ تھی کہ مصر میں القند کی بغاوت نے اسے روک دیا تھا۔ اسے خطرہ نظر آرہا تھا کہ مصر کے حالات بگڑ جائیں گے۔ اس صورت میں اسے مصر چلے جانا تھا۔ وہ اس صورتحال سے ڈرتا تھا اگر اسے مصر جانا پڑتا تو مسلمان امراء عالم اسلام کو صلیبیوں کے ہاتھ بیچ ڈالتے۔ اس کا دارومدار اس پر تھا کہ مصر سے اسے کیا اطلاع ملتی ہے۔

اپنے مشیروں اورکمانڈروں سے وہ مصر کے متعلق ہی پریشانی کا اظہار کررہا تھا جب اسے اطلاع ملی کہ قاہرہ سے قاصد آیا ہے، سلطان صلاح الدین ایوبی نے بادشاہوں کی طرح یہ نہ کہا کہ اسے اندر بھیج دو۔ وہ اٹھا اور دوڑتا خیمے سے باہر نکل گیا۔ قاصد اتنے لمبے سفر کی تھکن سے چور گھوڑے سے اتر کر خیمے کی طرف آرہا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے گھبراہٹ کے لہجے میں پوچھا… ''

… ''کوئی اچھی خبر لائے ہو؟''

''بہت اچھی سلطان عالی مقام!''… اس نے جواب دیا… ''محترم العادل نے حبشیوں کے لشکر کو اسوان کی پہاڑیوں میں ایسی شکست دی ہے کہ اب سوڈان کی طرف سے لمبے عرصے تک کوئی خطرہ نہیں رہا''۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف دیکھا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ خیمے سے دوسرے لوگ بھی باہر آگئے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے انہیں یہ خوشخبری سنائی اورقاصد کو خیمے میں لے گیا۔ اس کے لیے کھانا وہیں لانے کو کہا اور اس سے اسوان کے معرکے کی تفصیل سن کر پوچھا۔ ''اپنی فوج کی شہادت کتنی ہے؟''

''تین سو ستائیس شہید''۔ قاصد نے جواب دیا… ''پانچ سو سے کچھ زیادہ زخمی دشمن کا تمام تر جنگی سامان ہمارے ہاتھ لگا ہے۔ ایک ہزار دو سو دس حبشی قیدی پکڑے ہیں۔ صلیبی اور سوڈانی سردار اور کمانڈر جو قید کیے گئے ہیں الگ ہیں''۔ قاصد نے پوچھا… ''محترم العادل نے پوچھا ہے کہ قیدیوں کے متعلق کیا حکم ہے''۔

''صلیبی اور سوڈانی سالاروں اور کمانڈروں کو قید خانے میں ڈال دو''۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا اور گہری سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ دیر بعد کہنے لگا… ''اور وہ جو ایک ہزار اور کچھ حبشی قیدی ہیں انہیں اسوان کی پہاڑیوں میں لے جائو۔ وہ جن غاروں میں چھپے تھے، وہ ان سے پتھروں سے بھروائو۔ وہاں فرعونوں کے جو زمین دوز محل ہیں انہیں بھی پتھروں سے بھرا دو۔ یہ کام ان حبشیوں سے کرائو۔ اگر پہاڑ کھودنے پڑیں تو ان حبشیوں سے کھدوائو۔ وہاں کوئی غار اور پہاڑیوں کے اندر کوئی محل نہ رہے۔ العادل سے کہنا کہ قیدیوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کرنا۔ روزانہ ان سے اتنا کام لینا جتنا ایک انسان کرسکتا ہے۔ کوئی قیدی بھوکا اور پیاسا نہ رہے اور کسی پر صرف اس لیے تشدد نہ ہو کہ وہ قیدی ہے۔ وہیں اسوان کے قریب کھلا قید خانہ بنا لو اور کھانے کا انتظام وہیں کرو۔ اس کام میں کئی سال لگیں گے۔ اگر تمہارے سامنے کوئی اور کام ہو تو وہ ان قیدیوں سے کرائو اور اگر سوڈانی اپنے قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کریں تو مجھے اطلاع دینا۔ میں خود ان کے ساتھ سودا کروں گا''۔

اس پیغام کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے قاصد سے کہا۔ ''العادل سے کہنا کہ مجھے کمک کی شدید ضرورت ہے، اپنی ضرورت کا بھی خیال رکھنا۔ بھرتی اور تیز کردو۔ جنگی مشقیں ہر وقت جاری رکھو۔ جاسوسی کا جال اور زیادہ پھیلا دو اگر القند جیسا قابل اعتماد سالار غداری کا مرتکب ہوسکتا ہے تو تم بھی غدار ہوسکتے ہو اور میں بھی۔ اب کسی پر بھروسہ نہ کرنا۔ علی بن سفیان سے کہنا کہ اور تیز اور چوکنا ہوجائے''۔

٭ ٭ ٭

''مصر سے کمک آنے تک میں کوئی جارحانہ کارروائی نہ کروں تو بہتر ہوگا''۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے قاصد کو واپس روانہ کرکے اپنے سالاروں وغیرہ سے کہا۔ ''ابھی ہم ان کامیابیوں کے دفاع میں رہیں گے جو ہم حاصل کرچکے ہیں۔ا پنی موجودہ صورتحال پر ایک نظر ڈالو۔ تمہارا سب سے بڑا دشمن تمہارا اپنا بھائی ہے۔ تمہارے طاقتور دشمن تین ہیں۔ حلب میں الملک بیٹھا ہے۔ دوسرا اس کا قلعہ دار گمشتگین ہے جو حران میں فوج تیار کیے ہوئے ہے اور تیسرا سیف الدین ہے جو موصل کا حاکم ہے۔ یہ تینوں فوجیں اکٹھی ہوگئیں تو ہمارے لیے ان کامقابلہ آسان نہیں ہوگا۔ ریمانڈ کو تم نے پسپا کردیا ہے لیکن وہ اس انتظارمیں ہے کہ مسلمان فوجیں آپس میں الجھ جائیں تووہ ہمارے عقب میں آجائے۔ میں محصور ہوکر بھی لڑ سکتا ہوں لیکن لڑنا چاہو ںگا نہیں''۔

''کیا ایک کوشش اور نہ کی جائے کہ ملک الصالح، سیف الدین اور گمشتگین کو اسلام اور قرآن کا واسطہ دے کر راہ راست پر لایا جائے؟'' ایک سالار نے کہا۔

''نہیں''۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا۔ ''جو لوگ اپنے دل اور دماغ حق کی آواز کے لیے سربمہر کرلیا کرتے ہیں، وہ خدا کے قہر اورعذاب کے بغیر اپنے دل اور دماغ نہیں کھولا کرتے۔ کیا میں کوشش کر نہیں چکا؟ اس کے جواب میں مجھے دھمکیاں ملیں۔ اگر اب میں صلح اورسمجھوتے کے لیے ایلچی بھیجوں گا تو وہ لوگ کہیں گے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی لڑنے سے گھبراتا اور ڈرتا ہے۔ اب میں ان پر خدا کا وہ عذاب اور قہر بن کر گرنا چاہتا ہوں جو ان کے دل اور دماغ کی مہریں توڑ دے گا۔ یہ قہر تم ہو اور تمہاری فوج''۔ اس نے آہ بھری اور کہا۔ ''تم نے حلب کا محاصرہ کیا تو حلب کے مسلمان جس دلیری سے لڑے وہ تم کبھی نہیں بھولو گے۔ وہ بے شک ہمارے خلاف لڑے لیکن میں ان کی تعریف کرتا ہوں۔ایسی بے جگری سے صرف مسلمان لڑ سکتا ہے۔ کاش یہ جذبہ اور یہ طاقت اسلام کے لیے استعمال ہوتی۔ تم جانتے ہو کہ میں بادشاہ نہیں بننا چاہتا۔ میرا مقصد یہ ہے کہ عالم اسلام متحد ہو اور یہ قوت جو بکھر گئی ہے مرکوز ہوکر صلیبی عزائم کے خلاف استعمال ہو اور فلسطین آزاد کراکے ہم سلطنت اسلامیہ کی توسیع کریں''۔

''ہم مایوس نہیں''۔ ایک سالار نے کہا۔ ''نئی بھرتی آرہی ہے، اس علاقے میں جوان خاصی تعداد میں بھرتی ہو

 بھی کمک آرہی ہے۔ ہم آپ کی ہر توقع پوری کریں گے''۔

''لیکن میں کب تک زندہ رہوں گا''۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا۔ ''تم کب تک زندہ رہو گے؟ ابلیسی قوتیں زور پکڑ رہی ہیں۔ ان کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ میرے وہ عزیز دوست جن پر مجھے بھروسہ اور اعتماد تھا، صلیبیوں کے ہاتھوں میں کھیلے اور میرے ہاتھوں قتل ہوئے۔القند تمہارے ساتھ کامعتمد سالار تھا۔ کیا تم سن کر حیران نہیں ہوئے کہ القند نے سوڈان سے حبشیوں کی فوج بلائی اور مصر پر قابض ہونے کی کوشش کی؟ اس نے مجھ پر یہ کرم کیا ہے کہ شکست کھا کر اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لی ہے۔ میں نے اسے سزائے موت نہیں دی۔ حکومت کا نشہ، دولت اور عورت اچھے اچھے انسانوں کو اندھا کردیتی ہیں۔ ایمان میں کیا رکھا ہے؟ ایمان سونے کی طرح چمکتا نہیں، عورت کی طرح عیاشی کا ذریعہ نہیں بنتا اور ایمان بادشاہ اور فرعون نہیں بننے دیتا۔ ایک بار روح کے دروازے بند کرلو تو ایمان بیکار شے بن جاتا ہے، پھر عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں''۔

''سپین سے تمہارا پرچم کیوں اترا؟ تاریخ کہتی ہے کہ یہ کفار کی سازش کا نتیجہ تھا مگر ان کی سازشیں کیوں کامیاب ہوئیں؟ کیونکہ خود مسلمانوں نے اپنے آپ کو کفار کا آلۂ کار بنایا اورا جرت وصول کی۔ سپین ان کا تھا جنہوں نے سمندر پار جاکر کشتیاں جلا ڈالی تھیں تاکہ واپسی کا خیال ہی دل سے نکل جائے۔ سپین کی قیمت وہی جانتے ہیں جنہوںنے یہ قیمت دی تھی۔ سپین شہیدوں کا تھا، یہ ہوتا آیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ یہی ہوتا چلا جائے گا کہ خون کے نذرانے دے کر ملک حاصل کرنے والے دنیا سے اٹھ جاتے ہیں تو وہ لوگ بادشاہ بن جاتے ہیں جن کے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہا تھا۔ انہیں چونکہ ملک مفت ہاتھ آجاتا ہے اس لیے اسے وہ عیاشی کا ذریعہ بناتے ہیں اور اپنے تخت وتاج کی سلامتی کے لیے دین وایمان والوں اور دل میں قوم کا درد رکھنے والوں کیزبانیں بند کرتے اور ان کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ انہیں افلاس اور فاقوں کی چکی میں پیس کر ان کے جذبوں کو ختم کردیتے ہیں''۔

''سپین میں یہی ہوا۔ کفار نے ہمارے بادشاہوں کو زور جواہرات اور یورپ کی حسین لڑکیوں سے اپنے ہاتھ میں لیا۔ انہیں انہی کی فوج کے خلاف کیا۔ مجاہدین کو مجرم بنایا اور سپین کی اسلامی مملکت کو دیمک کھا گئی۔ ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانوں نے لہو کے چراغ چلا کر آدھی دنیا کو حق کی آواز سے منور کیا۔ کہاں ہیں وہ چراغ؟ ایک ایک کرکے بجھتے جارہے ہیں، یہ چراغ لہو مانگتے ہیں مگر لہو دینے والے صلیبیوں کی شراب اور عورت کے طلسم میں گم ہوگئے ہیں۔ان لوگوں کو یہ سلطنت مفت ہاتھ آئی ہے۔ وہ ان شہیدوں کو بھول چکے ہیں جن کے خون کے عوض خدا نے قوم کو یہ سلطنت عطا کی تھی اور خدا نے یہ سلطنت بادشاہیاں قائم کرنے اور عیاشی کے لیے عطا نہیں کی تھی بلکہ اس لیے کہ اسے مرکز بنا کر اسلام کا نور ساری دنیا میں پھیلایا جائے اور بنی نوع انسان کو شر کی قوتوں سے نجات دلائی جائے مگر شر کا جادو چل گیا اور آج جب قبلۂ اول پر کفار کا قبضہ ہے ہم ایک دوسرے کاخون بہا رہے ہیں''۔

''کافر سے پہلے غدار کا قتل ضروری ہے''۔ ایک مشیر نے کہا۔ ''اگر ہم حق پر ہیں تو ہم ناکام نہیں ہوں گے''۔

''مجھے یہ نظر آرہا ہے کہ یہ خطہ خون میں ہی ڈوبا رہے گا''۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا۔ ''حکومت شاید مسلمانوں کی ہی رہے مگر ان کے دلوں پر صلیبیوں کی حکمرانی ہوگی''۔

٭ ٭ ٭

 جنگی نقطہ نگاہ سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی فوج کو ایسی پوزیشنوں میں تقسیم کررکھا تھا کہ کسی بھی ایسے قلعے پر جو وہ فتح کرچکا تھا دشمن براہ راست حملہ نہیں کرسکتا تھا۔ ان قلعہ میں اس نے مختصر سی نفری رکھی تھی۔ کیونکہ وہ قلعہ بند ہوکر لڑنے کا قائل نہیں تھا۔ پہاڑی علاقے میں اس نے تمام راستوں اور وادیوں کی بلندیوں پر تیر انداز بٹھا دئیے تھے جو راستے تنگ تھے ان کے اوپر پہاڑیوں پر اس نے بہت بڑے بڑے پتھر رکھ کر کچھ آدمی بٹھا دئیے تھے تاکہ دشمن گزرے تو اوپرسے پتھر لڑھکا دئیے جائیں۔ دمشق سے آنے والے راستے کو اس نے کمانڈو قسم کے گشتی دستوں سے محفوظ کررکھا تھا تاکہ رسد دشمن سے محفوظ رہے۔ ایک جگہ ایسی تھی جسے ''حماة کے سینگ'' کہا جاتا تھا۔ یہ ایک وسیچ وادی تھی جس میں ایک نیکری جو خاصی بلند تھی آگے جا کر سینگوں کی طرح دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ اسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے پھندے کی حیثیت دے رکھی تھی۔ اس نے اپنے سالاروں کو تکنیکی لحاظ سے سمجھا دیا تھا کہ دشمن باہر آکر لڑا تو اسے اس وادی میں گھسیٹ کر لڑایا جائے گا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے تمام علاقے میںایسی جگہوں پر پوزیشنیں قائم کرلی تھیں جن سے وہ دشمن کو کسی بھی جگہ لانے پر مجبور کرسکتا تھا۔ اس اہتمام کے علاوہ اس کے چھاپہ مار جوان چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں دور دوردور تک گھومتے پھرتے رہتے تھے۔ جاسوسی (انٹیلی جنس) کا نظام ایسا تھا کہ دشمن کے قلعوں کے اندر بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کے جاسوس موجود تھے جو خبریں بھیجتے رہتے تھے۔ا سے یہاں تک معلوم ہوگیا تھا کہ سلطانی کے نام نہاد دعویدار الملک الصالح نے اپنے گورنر (حران کے قلعہ دار) گمشتگین کو اور موصل کے حاکم سیف الدین کو مدد کے لیے بلایا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں کچھ شرائط کے بدلے مدد دیں گے، صرف بلاوے پر نہیں جائیں گے۔ جاسوسوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ مسلمان حکمران اور امراء بظاہر اتحادی ہیں لیکن ان کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہیں۔ ہر ایک اپنی جنگ لڑ کر زیادہ سے زیادہ علاقے پر قابض ہونے کی فکر میں ہے اور صلیبی انہیں مدد کم اور شہ زیادہ دے رہے ہیں اورا ن کی باہمی چپقلش کو ہوا بھی دے رہے ہیں۔

''شمس الدین اور شاہ بخت کی کوئی اطلاع نہیں آئی؟'' سلطان صلاح الدین ایوبی نے حسن بن عبداللہ سے پوچھا۔

''کوئی تازہ اطلاع نہیں''۔ حسن بن عبداللہ نے جواب دیا۔ ''وہ بڑی کامیابی سے اپنا کام کررہے ہیں۔ گمشتگین نے کوئی بھی قدم اٹھایا یہ دونوں سالار اپنا پورا کام کریں گے۔ ان کا پیغام بھی یہی تھا کہ حالات کے مطابق وہ کارروائی کریں گے''۔

حسن بن عبداللہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی انٹیلی جنس کا سربراہ تھا۔ وہ علی بن سفیان کا نائب تھا۔ علی بن سفیان مصر میں تھا کیونکہ دشمن کی جاسوسی اور تخریب کاری کا زیادہ خطرہ مصر میں تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی حسن بن عبداللہ کے ساتھ باہر ٹہل رہا تھا۔ اس نے شمس الدین اور شاہ بخت کا نام لیا تھا۔ یہ دونوں گمشتگین کے جرنیل تھے۔ گمشتگین کے متعلق بتایا جاچکا ہے کہ شیطان فطرت مسلمان تھا۔ عہدے اور رتبے کے لحاظ سے وہ گورنر تھا اور حران کے قلعے میں مقیم تھا۔ اس قلعے میں اورباہر اس نے خاصی فوج جمع کررکھی تھی۔ وہ خلافت کے تحت تھا اور خلیفہ کے احکام کا پابند لیکن اس نے ذاتی سیاست بازی اورچالبازیوں سے فوجی اور سیاسی لحاظ سے ایسی پوزیشن حاصل کرلی تھی جہاں وہ کسی کو پلے نہیں باندھتا تھا۔ اس نے صلیبیوں کے ساتھ درپردہ گٹھ جوڑ کررکھا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے قلعے میں نورالدین زنگی کے پکڑے ہوئے صلیبی قیدی تھے جن میں کمانڈر بھی تھے۔ زنگی فوت ہوگیا تو گمشتگین نے کسی کے حکم کے بغیر تمام قیدی رہا کردئیے۔ اس نے یہ اقدام صلیبیوں کی خوشنودی کے لیے کیا تھا کیونکہ وہ اب صلیبیوں کے خلاف نہیں بلکہ ان سے مدد حاصل کرکے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنے کی تیاریاں کررہا تھا۔

 اس کے دو سالار تھے جو ذہانت اور جنگی اہلیت کی بدولت اس کے معتمد تھے۔ یہ دونوں بھائی تھے۔ ایک کا نام شمس الدین علی اور دوسرے کا شاد بخت علی تھا۔ یہ دونوں ہندوستانی مسلمان تھے۔عراق کے اس وقت کے ایک مورخ کمال الدین نے عربی میں ''تاریخ حلب'' کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس نے ان کا اتناہی ذکر کیا ہے کہ یہ دونوں سگے بھائی تھے اور نورالدین زنگی کی زندگی میں ہندوستان سے اس کے پاس آئے تھے۔زنگی نے انہیں فوج میں اچھا رتبہ دے کر حران بھیج دیا تھا۔قاضی بہائوالدین ابن شداد نے بھی ان کا اپنی ڈائری میں ذکر کیا ہے۔ عرب میں چونکہ نام کے ساتھ باپ کا نام بھی لکھا اور بولا جاتا ہے اس لیے ان دونوں بھائیوں کے نام تحریروں میں اس طرح آتے ہیں۔ ''شمس الدین علی بن الضیا اورشاد بخت علی بن الضیا''۔ یہ اشارہ کہیں بھی نہیں ملتا کہ ضیا کون تھا۔ تاریخ میں ان دونوں کے نام آنے کا باعث ایک واقعہ ہے جسے اس دورکے وقائع نگاروں نے قلمبند کیا ہے۔

واقعہ اس طرح ہے کہ گمشتگین من مانی کا قائل تھا۔ حران میں عملاً اسی کی حکومت تھی۔ اس نے اپنے ایک خوشامدی اور بدطینت افسران بن الخاشب ابو الفضل کو قاضی کا رتبہ دے دیا تھا۔ اسلام کے قاضی انصاف اور دانش کی وجہ سے مشہور تھے لیکن ابو الفضل بے انصافی اور گمشتگین کی خوشنودی کی وجہ سے مشہور ہوا۔اس کی بے انصافی کے قصے شمس اور شاد بخت تک تک بھی پہنچتے رہتے تھے لیکن وہ خاموشی اختیار کیے رکھتے تھے۔ وہ فوج کے جرنیل تھے قاضی کے فیصلوں اور شہری امور کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ طبعاً بھی وہ خاموش رہنے والے انسان تھے۔ یہ مشہور تھا کہ گمشتگین پر ان کا بہت اثر ہے اور یہ ہے بھی حقیقت کہ انہوں نے گمشتگین پر اپنا اثر پیدا کررکھا تھا۔

ان دنوں جب سلطان صلاح الدین ایوبی نورالدین زنگی کی وفات کے بعد سات سو سواروں کے ساتھ آیا اور شام اور مصر کی وحدت کا اعلان کیا تھا، اس نے اپنے بہت سے جاسوس ان اسلامی علاقوں میں بھیج دئیے تھے جو خلافت کے تحت ہوتے ہوئے ذاتی ریاستوں کی صورت اختیار کرگئے تھے (ان جاسوسوں کے چند ایک کارنامے سنائے جاچکے ہیں) ان میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا بھیجاہوا انطانون نام کا ایک ترک جاسوس حران چلا گیا۔وہ خوبرو اور وجیہہ جوان تھا۔ ترکی کے علاوہ عربی زبان روانی سے بولتا تھا۔ اس نے گمشتگین تک رسائی حاصل کرلی اور یہ کہانی سنائی کہ اس کا خاندان یروشلم میں آباد ہے جو اس وقت صلیبیوں کے قبضے میں تھا۔ اس نے بتایا کہ صلیبی وہاں مسلمانوں پر بے رحمی سے ظلم وتشدد کرتے ہیں اور بلاوجہ جسے چاہتے ہیں بیگار پرلگادیتے ہیں۔ انہوں نے اس کی دو جوان بہنوں کو اغوا کرلیا اورا س کے بھائیوں اور باپ کو بیگار کے لیے پکڑ لیا ہے۔ وہ فرار ہوکر یہاں تک پہنچا ہے اور صلیبیوں سے انتقام لینے کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں شامل ہونا چاہتا ہے۔

اس نے اپنا حال حلیہ بگاڑ رکھا تھا اور پتا چلتا تھا کہ وہ یروشلم سے پیدل آیا ہے اور بھوک اور تھکن نے اسے ادھ موا کررکھا ہے۔ گمشتگین نے اسے فوجی نظروں سے دیکھا تو اس کا قد بت اسے پسند آیا۔ اس سے پوچھا کہ و ہ گھوڑ سواری اور تیر اندازی جانتا ہے یا نہیں۔ اس نے کہا کہ اسے ذرا آرام اور کھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد دکھائے گا کہ وہ کیا کرسکتا ہے۔ گمشتگین نے اسے کھلا پلا کر سلا دیا۔ وہ بہت دیر بعد اٹھا تو اسے گمشتگین کے دربار میں پیش کیا گیا۔ ایک گھوڑا منگوایا گیا۔ باہر لے جاکر ایک باڈی گارڈ کی کمان اور ایک تیر اسے دے کر کہا گیا کہ خود ہی کہیں نشانے پر تیر چلا کر دکھائو پھر گھوڑا دوڑائو۔

: قریب ایک درخت تھا جس پر پرندے بیٹھے تھے۔ ان میں سب سے چھوٹا پرندہ ایک چڑیا تھی۔ اس نے اس کا نشانہ لیا اور تیر چلایا۔ تیر چڑیا کے جسم میں اتر کر اسے اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ اس نے ایک اور تیر مانگا جو لے کر وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور کہا کہ وہ قریب آئے تو کوئی چیز اوپر پھینکی جائے۔ وہاں گمشتگین کے باڈی گارڈ کھڑے ھتے۔ ایک دوڑا گیا اور اپنے کھانے کی پلیٹ اٹھا لایا جو مٹی کی تھی۔ انطانون گھوڑے کو دور لے گیا۔ وہاں سے موڑ کر ایڑی لگائی تو گھوڑا سرپٹ دوڑا۔ انطانون نے کمان میں تیر ڈالا۔ ایک باڈی گارڈ نے پلیٹ ہوا میں اچھالی۔ انطانون دوڑتے گھوڑے سے تیر چلایا اور پلیٹ کے ٹکڑے ہوا میں بکھیر دئیے۔ اس نے گھوڑا موڑ کر سواری کے کچھ اور کرتب دکھائے۔ یہ تو کسی کو بھی نہ معلوم تھا کہ وہ تجربہ کار جاسوس اور چھاپہ مار (کمانڈو) ہے اور اسے ہر ایک ہتھیار کے استعمال اور گھوڑ سواری کا ماہر بنایا گیا ہے۔

اس کے قدبت، گھٹے ہوئے جسم، گورے چٹے رنگ اورکرتب دیکھ کر گمشتگین بہت متاثر ہوا اور اسے اپنے باڈی گارڈز میں رکھ لیا۔ دو باڈی گارڈز گمشتگین کے گھر بھی ڈیوٹی دیا کرتے تھے۔ کچھ دنوں بعد انطانون گھر کی ڈیوٹی پر گیا جہاں اسے آٹھ دن اور آٹھ راتیں رہنا تھا۔ مسلمان حکمرانوں کی طرح گمشتگین کا حرم بھی بارونق تھا۔ اس میں بارہ چودہ لڑکیاں تھیں۔ انطانون نے پہلے دن جاکر گھر کے تمام دروازوں اور کونوں کھدروں کو دیکھا۔ اس نے وہاں کے تمام ملازم مردوں اور عورتوں سے کہا کہ وہ چونکہ گھر کی حفاظت کے لیے آیا ہے اس لیے سارے گھر سے واقفیت حاصل کرناضروری سمجھتا ہے۔ اس نے کمرے تک دیکھ ڈالے۔ وہ بہت چالاک تھا۔ باتوں کا جادو چلانا جانتا تھا۔ حرم میں جانے کی اسے جرأت نہ ہوئی۔ ایک جوان لڑکی اسے برآمدے میں مل گئی۔ یہ بھی حرم کی ملکیت تھی۔ اس نے انطانون سے شہزادیوں والے رعب سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور یہاں کیا کررہاہے؟

''محافظ ہوں''۔ اس نے گردن تان کر جواب دیا۔ ''دیکھ رہا ہوں کہ اس محل جیسے مکان میں آنے اور جانے کے راستے کتنے ہیں اور کہاں کہاں ہیں اور یہ بھی دیکھ رہاں ہوں کہ آپ کے علاوہ یہاں کون رہتا ہے''۔

''محافظ تو پہلے بھی یہاں رہتے ہیں۔ کبھی کوئی اندر نہیں آیا''۔ لڑکی نے کہا۔ ''یہ طریقہ ہمیں پسند نہیں''۔

''یہ میرا فرض ہے''۔ اس نے جواب دیا۔ ''اگر حرم سے کوئی ایک بھی حسینہ غائب ہوگئی تو محترم قلعہ دار اس کی جگہ میری بہن کو اٹھا لائیں گے''۔

''تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم اپنی بہن کی حفاظت کے لیے آئے ہو''۔ لڑکی نے مسکرا کر کہا۔

''اگر میں اس کی حفاظت کرسکتا تو آج ایک لڑکی سے یہ نہ کہلواتا کہ تم کون ہو اوریہاں کیا کررہے ہو''۔ اس نے چہرے پر اداسی کا تاثر پیدا کرکے کہا۔ ''میں اپنی بہن کی حفاظت نہیں کرسکا تھا، اس لیے آپ کی حفاظت میں پوری پوری احتیاط کررہا ہوں''۔ اس نے آہ بھر کر کہا۔ ''وہ بھی آپ جیسی تھی۔ بالکل آپ جیسی… مجھے روکنے کی کوشش نہ کریں کہ میں کیا کررہاہوں''۔

اس نے اندھیرے میں جو تیر چلایا تھا وہ نشانے پر لگا۔ اس نے عورت کی جذباتیت پر تیر چلایا تھا۔ وہ بھی جوان لڑکی تھی۔ پوچھے بغیر نہ رہ سکی کہ وہ اپنی بہن کی حفاظت نہیں کرسکتا تھا تو کیا ہوا تھا؟ کیا اس کی بہن اغوا ہوگئی تھی؟

''اگر اغوا کرنے والے مسلمان ہوتے یا وہ خود کسی مسلمان کے ساتھ گھر سے بھاگ جاتی تو مجھے اتنا افسوس نہ ہوتا''۔ اس نے کہا۔ ''دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتا کہ کوئی اس سے شادی کرلے گا یا اسے کسی مسلمان امیر کے حرم میں دے دیا جائے گا۔ اسے صلیبیوں نے اغوا کیا ہے۔ ایک نہیں دو بہنوں کو۔ میں ان کی حفاظت نہیں کرسکا''۔

: لڑکی نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں سے اور کس طرح اغوا ہوئی ہیں۔ اس نے وہی یروشلم والی کہانی سنا دی اور اپنے فرار کی کہانی ایسی سنسنی خیز بنا کر سنائی کہ لڑکی کا چہرہ بتاتا تھا جیسے یہ تیر اس کے دل میں اتر گیا ہے۔ اس نے کہا… ''میں وہاں سے پیدل یہ ارادہ لے کر آیا ہوں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں شامل ہوکر صرف اپنی بہنوں کا ہی نہیں ان تمام بہنوں کا انتقام لوں گا جنہیں صلیبیوں نے اغوا کیا ہے۔ قلعہ دار نے مجھے اپنے محافظ دستے میں رکھ لیا ہے''۔ اس نے اور بھی بہت سی جذباتی باتیں کیں جو لڑکی کے دل میں اترتی گئیں۔

انطانون اچھی طرح جانتا تھا کہ حرم کی لڑکیوں کے جذبات نازک ہوتے ہیں لیکن اخلاقی لحاظ سے وہ کمزور ہوتی ہیں۔ وجہ صاف ہے۔ ایک آدمی کی ایک درجن یا اس سے بھی زیادہ بیویاں ہوں تو کوئی بھی دعویٰ نہیں کرسکتی کہ یہ آدمی اسی کو چاہتا ہے اور جب بیویاں بغیر نکاح کے حرم میں قید رکھی ہوئی ہوں تو انہیں محبت کا اشارہ بھی نہیں ملتا۔ جوان لڑکی کے کچھ جذبات بھی ہوتے ہیں۔ حرم کی جوان لڑکی یہ بھی جانتی ہے کہ چند سال بعد اس کی قدروقیمت ختم ہوجائے گی۔ انطانون کو معلوم تھا کہ حرم کی لڑکیوں نے اپنے خوابوں اور رومانوں کو دبا کررکھا ہوتا ہے اور وہ چوری چھپے اپنے خاوند یا آقا کے کسی جوان دوست یا کسی جوان اور خوبرو ملازم کے ساتھ عشق ومحبت کا نشہ پورا کرلیتی ہیں۔

انطانون کے سامنے چونکہ یہی لڑکی اتفاق سے آگئی تھی اس لیے اس نے اسی کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی۔ اپنے جاسوسی کے مقاصد کے لیے اسے حرم کی ایک لڑکی کے دوستانے کی ضرورت تھی۔ اسے ٹریننگ میں بتایا گیا تھا کہ گمشتگین جیسے عیاش گورنر اور امراء رقص اور شراب کی محفلیں جماتے ہیں جن میں حرم کی لڑکیاں بھی شریک ہوتی ہیں۔ شراب اور عورت کے نشے میں ان لوگوں کی زبانیں بے قابو ہوجاتی ہیں لہٰذار از انہی محفلوں اور ضیافتوں میں بے نقاب ہوتے ہیں۔ انطانون اور اس کے ساتھی جاسوس علی بن سفیان کے تربیت یافتہ تھے اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے انہیں بے دریغ مالی اور دیگر مراعات دے رکھی تھیں۔ کوئی جاسوس دشمن کے علاقے میں پکڑایا مارا جاتا تو سلطان صلاح الدین ایوبی اس کے خاندان کو اتنا زیادہ مستقل وظیفہ دیا کرتا تھا کہ مالی لحاظ سے اس خاندان کو کسی کی محتاجی محسوس نہیں ہوتی تھی۔

انطانون نے اس لڑکی پر ایسا اثر پیدا کردیا جو اس کے چہرے سے عیاں تھا۔ اسے امید نظر آنے لگی کہ یہ لڑکی اس کے جال میں آجائے گی۔ وہ وہاں سے ہٹنے لگا تو لڑکی نے اسے دبی زبان میں کہا۔

''پچھلی طرف ایک باغیچہ ہے، رات کے دوسرے پہر وہاں بھی آکر دیکھ لینا۔ مکان میں کوئی ادھر سے بھی داخل ہوسکتا ہے''۔ لڑکی کے ہونٹوں پر جو مسکراہٹ تھی اس نے دل کی بات کہہ دی۔باڈی گارڈز کے فرائض میں رات کو پہرہ دینا نہیں ہوتا تھا۔ وہ بڑے دروازے کے سامنے نہایت اچھے لباس میں چمکتی ہوئی برچھیاں تھامے نمائش کے لیے موجود رہتے تھے اور جب باڈی گارڈز اپنے آقا کے ساتھ ہوتے وہ اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہوتے تھے۔ ان کا اصل کام میدان جنگ میں سامنے آتا تھا جب و ہ اپنے آقا کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ انطانون رات کے دوسرے پہر باغیچے میں چلا گیا اورٹہلتا رہا۔ یہ مکان محل جیسا تھا۔ اندر سے گانے بجانے اورناچنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ انطانون نے ان مہمانوں کو بڑے غور سے دیکھا تھا جو آئے تھے۔ ان میں دو تین صلیبی بھی تھے۔ وہ باغیچے میں کچھ دیر ٹہلا تو پچھلے دروازے سے لڑکی نکلی اور اس کے پاس آگئی۔

''آپ کیوں آئی ہیں؟'' انطانون نے انجان بن کر پوچھا۔

''اور تم کیوں آئے ہو''؟ لڑکی نے پوچھا۔

''آپ کا حکم بجا لانے''… انطانون نے جواب دیا۔ ''آپ نے حکم دیا تھا کہ رات کے دوسرے پہر باغیچے میں آکر دیکھ لینا۔ کوئی ادھر سے بھی داخل ہوسکتا ہے''… اس نے پوچھا۔ ''آپ اتنی گرما گرم محفل چھوڑ کر باہر کیوں آگئی ہیں''۔

''وہاں دم گھٹتا ہے''… لڑکی نے جواب دیا… ''شراب کی بو سے متلی آنے لگتی ہے''۔

''آپ شراب کی عادی نہیں؟''

: ''نہیں''۔ لڑکی نے جواب دیا… ''میں یہاں کی کسی بھی چیز کی عادی نہیں ہوسکی… بیٹھ جائو''۔ اس نے پتھر کے ایک بنچ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

''میں مالکہ کی برابری کی جرأت نہیں کرسکتا''… انطانون نے کہا… ''کسی نے دیکھ لیا تو''۔

''دیکھنے والے شراب میں بدمست ہیں''… لڑکی نے کہا… ''بیٹھو اور اپنی بہنوں کی باتیں سنائو''۔

انطانون نے اپنے فن کے کمالات دکھانے شروع کردئیے اور لڑکی اس کے قریب ہوتی گئی۔ وہ بات کو بہنوں سے پھیر کر اپنے آپ پر لے آئی۔ اس میں جو جھجک تھی وہ انطانون نے ختم کردی۔ یہ انطانون تھا جس نے کہا کہ اسے اب چلے جانا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ قلعہ دار لڑکی کی تلاش کے لیے نوکروں کو دوڑا دے اور وہ پکڑی جائے۔ لڑکی نے کہا کہ اس کی غیرحاضری کو کوئی بھی محسوس نہیں کرے گا۔وہاں لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ انطانون نے اگلی رات پھر ملنے کا وعدہ کیا اور چلا گیا۔ لڑکی نے اسے اپنے متعلق جو کچھ بتایا تھا وہ یہ تھا کہ اسے شراب سے نفرت ہے۔ اسے جس طرح عیاشی کا ذریعہ بنایا گیا ہے اس سے بھی اسے نفرت ہے۔ وہ حلب کی رہنے والی تھی۔ اس کے باپ کے ایک دوست نے اسے گمشتگین کے لیے منتخب کیا اور برائے نام نکاح پڑھا کر باپ نے اسے رخصت کردیا تھا۔ا س کا مطلب یہ تھا کہ لڑکی پیار کی پیاسی تھی۔

دوسری رات ان کی وہیں ملاقات ہوئی۔ لڑکی انطانون کے انتظار میں بے حال ہوگئی تھی۔ وہ آیا تو لڑکی نے اسے پہلی بات یہ کہی۔ ''اگر تم مجھے ایک خوبصورت لڑکی سمجھ کر کسی اور نیت سے آئے ہو تو واپس چلے جائو۔ مجھے تم سے ایسی کوئی غرض نہیں''۔

''جس روز میں نے بدنیتی کا اظہار کیا اس روز میرے منہ پر تھوک کر اندر چلی جانا''۔ انطانون نے کہا… ''میں تمہیں اپنی بہنوں جیسی پاکیزہ لڑکی سمجھتا ہوں''۔

''لیکن مجھے ابھی بہن نہ کہنا''۔ لڑکی نے سنجیدگی کو مسکراہٹ میں بدل کر کہا۔ ''معلوم نہیں میں کسی وقت کیا فیصلہ کر بیٹھوں''۔

''یعنی تم میرے ساتھ کہیں بھاگ چلنے کا فیصلہ کرو گی؟''۔

''یہ تم پر منحصر ہے''۔ لڑکی نے کہا۔ ''ساری عمر چوری چھپے ملتے تو نہیں گزرے گی۔ تم یہاں آٹھ یا دس دنوں کے لیے آئے ہو۔ چلے جائو گے تو میں تمہاری صورت کو بھی ترستی رہوں گی''۔

اس رات وہ ایک دوسرے کے دل میں اتر گئے۔ اگلے دن لڑکی اتنی بے قابو ہوئی کہ اس نے انطانون کو دن کے وقت اپنے کمرے بلالیا۔ اس دن گمشتگین حران سے کہیں باہر چلا گیا تھا۔ یہ ملاقات دونوں کے لیے خطرناک تھی۔ لڑکی جذبات کے جادو میں بھول گئی تھی کہ ان محلات میں سازشیں بھی ہوتی ہیں اور حرم کی لڑکیاں ایک دوسرے کو خاوند کی نظروں میں گرانے کے مواقع ڈھونڈتی رہتی ہیں۔ انطانون کی شخصیت اور اس کی باتوں کے طلسم نے اسے اندھا کردیا تھا۔ یہ محبت کی تشنگی کا نتیجہ تھا۔ انطانون نے اسے شک نہ ہونے دیا کہ اسے اس کے جسم کے ساتھ کوئی دلچسپی ہے۔ وہ لڑکی کے لیے سراپا خلوص اور پیار بن گیا تھا۔ وہ جب اس کے کمرے سے نکلا تو لڑکی کی یہ کیفیت تھی جیسے اس کے ساتھ ہی نکل جائے گی۔ رات کے دوسرے پہر انہیں پھر ملنا تھا۔

وہ جب وہاں سے نکلاتو حرم کی ایک اور لڑکی اسے دیکھ رہی تھی۔ اس لڑکی نے اسے کمرے میں جاتے بھی دیکھا تھا۔

٭ ٭ ٭

گمشتگین رات کو بھی غیر حاضر تھا۔ لڑکی باغیچے میں چلی گئی۔ انطانون بھی آگیا۔اب ان کے درمیان نہ کوئی حجاب رہا تھا ور نہ کوئی پردہ۔ لڑکی نے اسے کہا۔ ''تم نے کہا تھا کہ تم اپنی بہنوں کا انتقام لینے کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں شامل ہونے آئے تھے پھر تم اس فوج میں کیوں بھرتی ہوگئے؟''

''کیا یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج نہیں؟'' انطانون نے ایسے پوچھا جیسے اسے کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ اس نے کہا۔ ''یہ اسلامی فوج ہے اور یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے سوا اور کس کی ہوسکتی ہے؟''

''یہ فوج اسلامی ہے لیکن اسے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کیا جارہا ہے''۔ لڑکی نے کہا۔

''یہ تو بہت بری بات ہے''۔ انطانون نے کہا۔ ''تمہارا کیا خیال ہے؟ کیا مجھے ایسی فوج میں رہنا چاہیے جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہورہی ہے؟ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ یروشلم میں ان تمام علاقوں میں جہاں صلیبیوں کا قبضہ ہے، مسلمان سلطان صلاح الدین ایوبی کو امام مہدی بھی کہتے ہیں۔ وہ صلیبیوں کے مظالم سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ مسجدں میں امام بھی کہتے ہیں کہ یہ قوم کو گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔ دمشق سے امام مہدی صلاح الدین ایوبی کے روپ میں نجات دلانے آرہے ہیں… مجھے بتائو میں کیاکروں؟''

''اگر تم میں ہمت ہے تو مجھے ساتھ لو۔ یہاں سے نکلو''۔ لڑکی نے کہا۔ ''میں تمہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج تک پہنچا دو گی۔ تمہیں اس فوج میں نہیں رہناچاہیے لیکن میں یہ نہیں چاہوں گی کہ تم مجھے یہاں چھوڑ کر بھاگ جائو''۔

''کیا تم اپنے خاوند سے اس لیے بھاگنا چاہتی ہو کہ اس نے تمہیں زرخرید لونڈی بنا رکھا ہے یا وہ بوڑھا ہے یا اس لیے کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف ہے؟''

''مجھے اس شخص سے نفرت ہے''۔ لڑکی نے جواب دیا۔ ''وجوہات تم نے خود ہی بتا دی ہیں۔ اس نے مجھے لونڈیوں کی طرح حرم میں قید کررکھا ہے۔ وہ بوڑھا بھی ہے اور نفرت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا دشمن اور صلیبیوں کا دوست ہے۔

جاری ھے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں