داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 150 مکمل - اردو ناول

Breaking

جمعرات, ستمبر 08, 2022

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 150 مکمل


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر/150 پھر شمع بجھ گئی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسی طرح تمہارے ڈاکٹر بھی یہاں آکر اناڑی ہوجاتے ہیں۔ میں اپنا طبیب بھیجوں گا''۔''صلاح الدین! ہم کب تک ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں گے؟''… رچرڈ نے کہا… ''آئو، صلح اور دوستی کرلیں''۔
''لیکن میں دوستی کی وہ قیمت نہیں دوں گا جو تم مانگ رہے ہو''… سلطان ایوبی نے کہا… ''تم خون خرابے سے ڈرتے ہو، بیت المقدس کی خاطر میری پوری قوم اپنا خون قربان کردے گی''۔
وہاں سے واپس آکر سلطان ایوبی نے اپنا طبیب رچرڈ کے علاج کے لیے بھیجا۔ اسے صحت یاب ہوتے ہوتے بہت دن گزر گئے۔ سلطان ایوبی جنگ کے لیے تیار ہوچکا تھا لیکن حملے کے بجائے رچرڈ کی طرف سے صلح کی نئی شرطیں آئیں۔ رچرڈ بیت المقدس سے دستبردار ہوگیا تھا۔ اس نے صرف یہ رعایت مانگی کہ عیسائی زائرین کو بیت المقدس میں داخل کی اجازت دے دی جائے اور ساحل کا کچھ علاقہ صلیبیوں کو دے دیا جائے۔ سلطان ایوبی نے یہ شرائط مان لیں۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ سلطان ایوبی کی فوج مسلسل لڑ رہی تھی اور شہادت اتنی زیادہ ہوچکی تھی کہ اب کم تعداد سے اتنی بڑی فوج سے لڑنا ممکن نہیں رہا تھا۔ قاضی بہائوالدین شداد نے یہ بھی لکھا ہے کہ دو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔ سپاہی دن رات لڑتے رہے تھے۔ وہ ذہنی طور پر شل ہوچکے تھے۔ بعض دستوں میں احتجاج بھی شروع ہوگیا تھا۔ سلطان ایوبی جسمانی طور پر تھکی ہوئی اور ذہنی طورپر پژ مردہ فوج کے بل بوتے پر بیت المقدس کو خطرے میں ڈالنے سے گریز کررہا تھا۔
رچرڈ مسلمانوں کی بے خوفی اور جذبے سے گھبرا رہا تھا۔ اس کی صحت بھی جواب دے گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کے اپنے ملک میں اس کے مخالفین سراٹھا رہے تھے۔ انگلستان کا تخت وتاج خطرے میں پڑ گیا تھا۔
اس معاہدے پر ٢ستمبر ١١٩٢ء (٢٢شعبان ٥٨٨ہجری) کے روز دستخط ہوئے۔ رچرڈ ٩اکتوبر ١١٩٢ء کے روز اپنی فوج کے ساتھ انگلستان کے لیے روانہ ہوا۔ اس معاہدے کی میعاد تین سال مقرر کی گئی۔ رچرڈ نے بوقت رخصت سلطان ایوبی کو پیغام بھیجا کہ میں معاہدے کی میعاد گزرنے کے بعد یروشلم فتح کرنے آئوں گا… اس کے بعد کوئی صلیبی بیت المقدس کو فتح نہ کرسکا۔ اس صدی میں جون ١٩٦٧ء میں عربوں کی بے اتفاقی نے اور ان کی انہی کمزوریوں نے جو کفار سلطان ایوبی کے دور میں مسلمان امراء میں پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے، بیت المقدس یہودیوں کے حوالے کردیا ہے۔
رچرڈ کی روانگی کے بعد سلطان ایوبی نے اعلان کیا کہ اس کی فوج کے جو افراد حج کے لیے جانا چاہتے ہیں، اپنے نام دے دیں، انہیں سرکاری انتظامات کے تحت حج کے لیے بھیجا جائے گا۔ فہرستیں تیار ہوگئیں اور ان سب کو حج کے لیے روانہ کردیا گیا۔ خود سلطان ایوبی کی دیرینہ خواہش تھی کہ حج کعبہ کو جائے مگر جہاد نے اسے مہلت نہ دی اور جب مہلت ملی تو اس کے پاس سفر خرچ کے لیے پیسے نہیں تھے۔ اسے سرکاری خزانے سے پیسے پیش کیے گئے جو اس نے یہ کہہ کر قبول نہ کیے کہ یہ خزانہ میرا ذاتی نہیں۔ اس نے اپنے آپ کو حج کی سعادت سے محروم کردیا، سرکاری خزانے سے ایک پیسہ نہ لیا۔ مصری وقائع نگار محمد فرید ابوحدید لکھتا ہے کہ وفات کے وقت سلطان ایوبی کی کل دولت ٤٧درہم چاندی کے اور ایک ٹکڑا سونے کا تھا۔ اس کا ذاتی مکان بھی نہیں تھا۔۔

سلطان صلاح الدین ایوبی ٤نومبر ١١٩٢ء کے روز بیت المقدس سے دمشق پہنچا۔ اس کے چار ماہ بعد سلطان خالق حقیقی سے جاملا۔ دمشق پہنچنے سے وفات تک کا آنکھوں دیکھا حال قاضی بہائوالدین شداد کے الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے۔
''…اس کے بچے دمشق میں تھے، اس نے سستانے کے لیے اسی شہر کو پسند کیا۔ اس کے بچے اسے دیکھ کر تو خوش ہوئے ہی تھے، دمشق اور گردونواح کے لوگ اپنے فاتح سلطان کو دیکھنے کے لیے ہجوم د ر ہجوم آگئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی قوم کی یہ بے تابانہ عقیدت مندی دیکھی تو اگلے ہی روز (٥نومبر بروز جمعرات) دربار عام منعقد کیا جس میں سلطان کو ملنے اور اگر کسی کو کئی شکایت ہو تو بیان کرنے کی ہر کسی کو اجازت تھی… مرد، عورتیں، بوڑھے، بچے، امیر ، غریب، حاکم اور عوام سلطان صلاح الدین ایوبی سے ملنے جمع ہوگئے۔ شاعروں نے اس تقریب میں سلطان ایوبی کی شان میں نظمیں سنائیں''…
''سلطان صلاح الدین ایوبی کو مسلسل جہاد اور سلطنت کی مصروفیات نے نہ دن کو کبھی چین لینے دیا، نہ راتوں کو اطمینان کی نیند سونے دیا تھا۔ وہ جسمانی طور پر بھی نڈھال ہوچکا تھا اور ذہنی طور پر بھی۔ تھکے ہوئے اعصاب کو تازہ دم کرنے کے لیے اس نے دمشق کے علاقے میں ہرنوں (غزال) کے شکار کو شغل بنا لیا۔ وہ اپنے بھائیوں اور بچوں کے ساتھ شکار کھیلا کرتا تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ کچھ روز آرام کرکے مصر چلا جائے گا مگر دمشق میں بھی سرکاری کاموں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا''…
''میں اس وقت بیت المقدس میں (وزیر) تھا۔ ایک روز دمشق سے مجھے سلطان صلاح الدین ایوبی کا خط ملا۔ اس نے مجھے دمشق میں بلایا تھا۔ میں فوراً روانہ ہونے لگا مگر مسلسل موسلادھار بارشوں نے راستوں کو دلدل بنا دیا تھا۔ اس قدر کیچڑ اور اتنی بارش میں میں انیس روز بعد بیت المقدس سے نکل سکا۔ میں ٢٣محرم الحرام بروز جمعہ وہاں سے روانہ ہوا اور ١٢صفر بروز منگل دمشق پہنچا۔ اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی کے ملاقات کے کمرے میںامراء اور دیگر حکام سلطان ایوبی کاانتظار کررہے تھے۔ سلطان ایوبی کو میری آمد کی اطلاع دی گئی۔ اس نے مجھے فوراً اپنے خاص کمرے میں بلا لیا۔ میں جب اس کے سامنے گیا تو وہ بازو پھیلا کر اٹھا اور مجھ سے بغل گیر ہوگیا۔ میں نے اس کے چہرے پر ایسا اطمینان اور سکون کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے''…
''اگلے روز اس نے مجھے بلایا۔ اس کے خاص کمرے میں پہنچا تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ ملاقات کے کمرے میں کون لوگ بیٹھے ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ (اس کا بیٹا) الملک الافضل، چند ایک امراء اور بہت سے دوسرے لوگ آپ کی ملاقات کے لیے بیٹھے ہیں۔ اس نے جمال الدین اقبال سے کہا کہ ان لوگوں سے میری طرف سے معذرت کرکے کہہ دو کہ آج میں کسی سے نہیں مل سکوں گا۔ اس نے میرے ساتھ کچھ ضروری باتیں کیں اور میں چلا آیا''…
''دوسرے دن اس نے مجھے علی الصبح بلا لیا۔ میں گیا تو وہ اپنے باغیچے میں بیٹھا، اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اس نے پوچھا کہ ملاقات کے کمرے میں کوئی ملاقاتی ہے؟ اسے بتایا گیا کہ فرنگیوں (فرینکس) کے ایلچی آئے بیٹھے ہیں۔سلطان ایوبی نے کہا کہ فرنگی ایلچیوں کو یہیں بھیج دو۔ اس کے بچے وہاں سے چلے گئے۔ اس کا سب سے چھوٹا بچہ امیر ابوبکر جس سے سلطان ایوبی کو بہت پیار تھا، وہیں رہا۔ جب فرنگی آئے تو بچے نے ان کے بغیر داڑھیوں کے چہرے اور ان کا لباس دیکھا تو بچہ ڈر کر رونے لگا۔ بچے نے بغیر داڑھی کے کبھی کوئی انسان نہیں دیکھا تھا۔ سلطان ایوبی نے فرنگیوں سے معذرت کی کہ ان کے حلیے کو دیکھ کر بچہ رو پڑا ہے مگر سلطان نے بچے کو اندر بھیجنے کے بجائے فرنگیوں سے کہا کہ وہ آج ان سے نہیں مل سکے گا۔ اس نے انہیں بغیر بات چیت کیے رخصت کردیا''…

''ان کے جانے کے بعد اس نے کہا… ''جو کچھ پکا ہے لے آئو''… اس کے آگے ہلکی پھلکی غذا رکھی گئی جس میں کھیر بھی تھی۔ اس نے بہت تھوڑا کھایا۔ میں نے محسوس کیا جیسے اس کی بھوک مرچکی ہو۔ میں نے اس کے ساتھ کھانا کھایا۔ اس نے بتایا کہ وہ ملاقاتیں کم کررہا ہے کیونکہ وہ بدہضمی اور کمزوری محسوس کرتا ہے۔ کھانے کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا… ''حاجی واپس آگئے ہیں؟''… میں نے اسے بتایا کہ راستے میں کیچڑ زیادہ ہے۔ شاید کل تک حاجی آجائیں۔ سلطان نے کہا… ''ہم ان کے استقبال کے لیے جائیں گے''… یہ کہہ کر اس نے ایک حاکم کو بلا کر حکم دیا کہ حاجی آرہے ہیں اور راستے میں کیچڑ اور پانی ہے۔ فوراً آدمیوں کو بھیجو اور جس راستے سے حاجی آرہے ہیں، اس راستے سے کیچڑ اور پانی صاف کردو۔ میں اس سے اجازت لے کرچلا آیا۔ میں دیکھ رہاتھا کہ اس کا جوش وخروش اور اس کی مستعدی ماند پڑ گئی تھی''…
 ''دوسرے دن وہ گھوڑے پر سوار ہوکر حاجیوں کے استقبال کے لیے نکلا۔ میں بھی گھوڑے پر سوار ہوکر اس کے پیچھے گیا۔ اس کا بیٹا الملک الافضل بھی آگیا۔ لوگوں میں جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر پھیل گئی کہ سلطان باہر آیا ہے۔ لوگ کام کاج چھوڑ کر اٹھ دوڑے۔ وہ اپنے فاتح سلطان کو قریب سے دیکھنا اور اس سے ہاتھ بھی ملانا چاہتے تھے۔ جب سلطان عقیدت مندوں کے اس بے صبر اور بے قابو ہجود میں گھر گیا تو اس کے بیٹے الملک الافضل نے گھبراہٹ کے عالم میں مجھے کہا کہ سلطان نے سواری والا لباس نہیں پہن رکھا۔ (یہ زرہ بکتر کی قسم کا لباس ہوا کرتا تھا، سلطان صلاح الدین ایوبی اس لباس کے بغیر کبھی باہر نہیں نکلا تھا) ہمیں پریشانی ہوئی۔ سلطان کے ساتھ باڈی گارڈ بھی نہیں تھے۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ (سلطان ایوبی پر اس سے پہلے قاتلانہ حملے ہوچکے تھے، اب بھی حملہ ہوسکتا تھا) میں ہجوم کو چیرتا ہوا سلطان تک پہنچا اور اسے کہا کہ آپ اپنے مخصوص لباس میں نہیں ہیں۔ وہ اس طرح چونکا جیسے نیند سے جگا دیا گیا ہو۔ اس نے کہا کہ میرا لباس یہیں لایا جائے مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا جو اسے لباس لادیتا۔ مجھے کچھ زیادہ ہی خطرہ محسوس ہونے لگا''…
''مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کوئی حادثہ ہونے والا ہو۔ میں نے اسے کہا کہ میں یہاں کے راستوں سے واقف نہیں۔ کیا کوئی ایسا راستہ ہے جہاں لوگ کم ہوں اور آپ واپس جاسکیں؟ اس نے کہا کہ ایک راستہ ہے۔ اس نے گھوڑا اس رخ کو موڑ لیا۔ لوگوں کا ہجوم بے پناہ تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے گھوڑا باغوں کے درمیانی راستے پر ڈال دیا۔ میں اور الملک الافضل اس کے ساتھ تھے۔ میرا دل بوجھل تھا۔ میں اس کی جان کو بھی خطرے میں محسوس کررہا تھا اور اس کی صحت کو بھی۔ ہم المبینہ کے چشمے سے ہوتے ہوئے قلعے میں داخل ہوئے''…
''جمعہ کی شام سلطان ایوبی نے غیرمعمولی کمزوری محسوس کی۔ آدھی رات سے ذرا پہلے اسے بخار ہوگیا۔ یہ صفرادی بخاری تھا جسم کے اندر زیادہ تھا، باہر کم لگتا تھا۔ صبح (٢١فروری ١١٩٣ئ) وہ نقاہت سے نڈھال ہوچکا تھا۔ جسم کو ہاتھ لگانے سے حرارت کم لگتی تھی۔ میں اسے دیکھنے گیا۔ اس کا بیٹا الملک الافضل اس کے پاس تھا۔ سلطان نے بتایا کہ اس نے رات بڑی تکلیف میں گزاری ہے۔ اس نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں۔ ہم نے گپ شپ میں ان کا ساتھ دیا۔ اس سے اس کی مزاجی شگفتگی بحال ہوگئی۔ دن کے دوسرے پہر تک وہ خاصا بہتر ہوگیا۔ ہم وہاں سے اٹھنے لگے تو اس نے کہا کہ الملک الافضل کے ساتھ کھانا کھا کر جائیں۔میرے ساتھ قاضی الفضل بھی تھا۔ وہ کسی اور کے ہاں کھانا کھانے کا عادی نہ تھا۔ وہ معذرت کرکے چلا گیا۔ میں کھانے کے کمرے میں چلا گیا۔ صلاح الدین ایوبی سے رخصت ہوتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے میں اپنا دل سلطان ایوبی کے پاس چھوڑ چلا ہوں۔ کھانے کے کمرے میں گیا۔ دسترخوان بچھ چکا تھا۔ بہت سے افراد بیٹھے تھے۔ الملک الافضل اپنے باپ کی جگہ بیٹھا تھا۔ بے شک الافضل صلاح الدین ایوبی کا بیٹا تھا لیکن سلطان کی جگہ بیٹے کو بیٹھا دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ کھانے پر جو لوگ بیٹھے تھے ان کی بھی جذباتی حالت میرے جیسی تھی۔ ان میں سے بعض کے تو آنسو نکل آئے''…
''اس روز کے بعد سلطان ایوبی کی صحت بگڑتی چلی گئی۔ میں اور قاضی الفضل روزانہ کئی کئی بار اس کمرے میں جاتے تھے، جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی بیمار پڑا تھا۔ اسے تکلیف میں ذرا سا بھی افاقہ ہوتا تو ہمارے ساتھ باتیں کرتا تھا، ورنہ اکثر یوں ہوتا کہ وہ آنکھیں بند کیے پڑا رہتا اور ہم اسے دیکھتے رہتے۔ اس کی جان کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ اس کا طبیب خاص غیرحاضر تھا۔ (قاضی بہائوالدین شداد نے یہ نہیں لکھا کہ طبیب خاص کہاں چلا گیا تھا) سلطان کا علاج چار طبیب مل کر کررہے تھے مگر مرض بڑھتا جارہا تھا''…
''بیماری کے چوتھے روز چاروں طبیبوں نے فیصلہ کیا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے جسم سے خون نکال دیا جائے۔ اسی وقت سلطان کی حالت زیادہ بگڑ گئی اور اس کے بعد اہم غدود بے کار ہوگئے۔ اس سے اس کے جسم میں اندر کی رطوبتیں خشک ہونے لگیں۔ سلطان ایوبی نقاہت کی آخری تک جا پہنچا۔ چھٹے دن ہم نے اسے سہارا دے کر بٹھایا۔ اسے ایک دوائی دی گئی جس کے بعد ہلکا گرم پانی پینا ضروری تھا۔ پانی لایا گیا۔ اسے ہلکا گرم ہونا چاہیے تھا۔ سلطان ایوبی کے منہ سے پیالہ لگایا گیا تو اس نے کہا کہ پانی بہت گرم ہے۔اس نے نہ پیا۔ پانی ذرا ٹھنڈا کرکے لایا گیا تو سلطان ایوبی نے کہا کہ یہ بالکل ٹھنڈا ہے۔ اس نے غصے یا خفگی کا اظہار نہ کیا۔ مایوسی کے لہجے میں اتنا ہی کہا… ''اوخدا! کوئی بھی نہیں جو مجھے ہلکا گرم پانی دے سکے…
''میری اور الفضل کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ (دنیائے صلیب پر دہشت طاری کردینے والا انسان بالکل بے بس ہوگیا تھا)… ہم دونوں دوسرے کمرے میں آگئے۔ قاضی الفضل نے کہا… ''قوم کتنے عظیم انسان سے محروم ہوجائے گی۔ بخدا اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو پانی کا یہ پیالہ اس کے سر پر دے مارتا جو اس کی پسند کا پانی نہیں لایا تھا''… ساتویں اورا ٹھویں روز صلاح الدین ایوبی کی حالت اتنی زیادہ بگڑ گئی کہ اس کا ذہن بھٹکنے لگا۔ نویں روز اس پر غشی طاری ہوگئی۔ وہ پانی بھی نہ پی سکا۔ شہر میں خبر پھیل گئی کہ سلطان ایوبی کی حالت تشویشناک ہوگئی ہے۔ تمام شہر پر موت کی اداسی طاری ہوگئی۔ ہر جگہ اور ہر زبان پر اس کی صحت یابی کی دعائیں تھیں۔ تاجر اور سوداگر ایسے ڈرے کہ انہوں نے بازاروں سے اپنا مال اٹھانا شروع کردیا۔ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا کہ ہر ایک فرد کس طرح اداس اور کتنا پریشان تھا''…
''میں اور قاضی الفضل رات کا پہلا پہر سلطان ایوبی کے پاس رہتے اور اسے دیکھتے رہتے تھے۔ وہ بول اور دیکھ نہیں سکتا تھا۔ باقی رات ہم باہرکھڑے رہتے۔ کوئی اندر سے آتا تو اس سے پوچھ لیتے کہ سلطان کی حالت کیسی ہے۔ ہم جب علی الصبح وہاں سے باہر نکلتے تو باہر لوگوں کا ہجوم کھڑا دیکھتے۔ اب لوگ ہم سے یہ پوچھنے سے بھی ڈرتے تھے کہ سلطان کی صحت کیسی ہے۔ وہ ہمارے چہروں سے جان لیتے تھے کہ سلطان کی حالت ٹھیک نہیں۔ ہجوم چپ چاپ ہمیں دیکھتا اور ہم ہجوم کو دیکھ کر سر جھکا لیتے تھے… دسویں روز طبیبوں نے اسے انتڑیاں صاف کرنے والی دوا دی جس سے اسے کچھ افاقہ ہوگیا۔ اس کے بعد جب سب کو پتہ چلا کہ سلطان ایوبی نے جو کا پانی پیا ہے تو سب نے خوشی منائی۔ اس رات ہم چند گھنٹے اس کے پاس جانے کا انتظار کرتے رہے لیکن محل میں چلے گئے جہاں جمال الدین اقبال بیٹھا تھا۔ اس سے صلاح الدین ایوبی کی حالت پوچھی۔ وہ اندر چلا گیا اور توران شاہ سے پوچھ کر ہمیں بتایا کہ سلطان کے دونوں پھیپھڑوں میں نمی اورہوا آنے جانے لگی ہے۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا۔ ہم نے جمال الدین سے کہا کہ خود جاکر دیکھے کہ باقی جسم پر پسینے کے آثار ہیں یا نہیں۔ اس نے اندر جاکر دیکھااور واپس آکر بتایا کہ پسینہ بہت آرہا ہے۔ یہ ایک خوشخبری تھی۔ ہم سکون اور اطمینان سے چلے آئے''…
''دوسرے دن جو منگل کا دن تھا، صفر کی ٢٦تاریخ اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی علالت کا گیارہواں روز تھا، ہم سلطان کو دیکھنے گئے۔ اندر نہ جاسکے۔ ہمیں بتایا گیا کہ پسینہ اس قدر زیادہ نکل رہا ہے کہ بستر میں سے ہوتا ہوا فرش پر ٹپک رہا ہے۔ یہ خبر اچھی نہیں تھی۔ جسم کی رطوبت تیزی سے ختم ہورہی تھی… طبیبوں نے حیرت سے بتایا کہ جسم اندر سے خشک ہوجانے کے باوجود سلطان کے جسم میں ابھی توانائی موجودہے''…
''صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الملک الافضل نے دیکھا کہ سلطان کی صحت یابی کی کوئی امید نہیں رہی تو اس نے امراء اور وزراء سے حلف وفاداری لینے کا فوری انتظام کیا۔ اس نے تمام قاضیوں کو رضوان محل میں بلایا اور انہیں کہا کہ نئے حلف کا مسودہ تیار کریں جس میں صلاح الدین ایوبی جب تک زندہ ہے، اس کی وفاداری کا حلف نامہ ہو اور ان کی وفات کے بعد الملک الافضل کی وفاداری کا۔ الافضل نے معذرت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا حلف نامہ کبھی تیار نہ کراتا لیکن سلطان ایوبی کی حالت تشویشناک مرحلے میں داخل ہوچکی ہے''…
''حلف نامہ تیار ہوگیا۔ دوسرے دن حلف اٹھانے کے لیے متعلقہ امراء اور وزراء کو بلایا گیا۔ سب سے پہلے دمشق کے گورنر سعدالدین مسعود نے حلف اٹھایا۔ اس کے بعد نصرالدین آیا جو سہیون کاگورنر تھا، اس نے اس شرط پر حلف اٹھایا کہ جس قلعے کا وہ گورنر ہے وہ سلطان ایوبی کی وفات کے بعد اس کی (نصرالدین کی) ذاتی ملکیت سمجھا جائے گا۔ تمام امرائ، وزرا اور گورنروں نے حلف اٹھالیا۔ دو تین نے اپنی شرائط منوا کر حلف اٹھایا۔ حلف نامے کے الفاظ یہ تھے… ''اس لمحے سے میں متحدہ مقصد کی خاطر الملک النصر (صلاح الدین ایوبی) کا وفادار رہوں گا جب تک کہ وہ زندہ ہے۔ اس کی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے ان تھک اور مسلسل کوشش کرتا رہوں گا۔ اس کی خاطر اپنی جان، اپنا مال، اپنی تلوار اور اپنی فوج اور اپنی رعایا کو وقف کیے رکھوں گا۔ میں اس کا ہر حکم مانوں گا اور اس کی ہر خواہش کی تکمیل کروں گا اور اس کے بعد الافضل کے بیٹوں کے لیے۔ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر اس کے احکام کی تعمیل کروں گا۔ اس کے لیے میں اپنی جان، اپنا مال، اپنی تلوار اور اپنی فوج کو وقف کیے رکھوں… میں اپنے حلف وفاداری میں خدا کو گواہ ٹھہراتا ہوں''…
''حلف نامے کی دوسری شق یہ تھی… ''اگر میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کروں تو میں حلفیہ تسلیم کرتا ہوں کہ صرف اس خلاف ورزی کی بنا پر میری بیویاں مطلقہ ہوجائیں (یعنی بیویاں میری نہیں رہیں گی) اور مجھے تمام ذاتی اور سرکاری خادموں سے محروم کردیا جائے
گا اور مجھے لازم ہوگا کہ میں ننگے پائوں یا پیادہ حج کعبہ کو جائوں''…
''٢٦صفر ٥٨٩ہجری (٣مارچ ١١٩٣ئ) منگل کی شام تھی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی بیماری کا گیارہواں روز۔ اس کی توانائی بالکل ختم ہوگئی اور امید دم توڑ گئی۔ رات کو ایسے وقت مجھے قاضی الفضل اور ابن ذکی کو بلایا گیا جس وقت سے پہلے کبھی نہیں بلایا گیا تھا۔ وہ قانون، علم اور سائنس کا عالم تھا۔ صلاح الدین ایوبی کا بہت احترام کرتا تھا۔ جب سلطان ایوبی نے یروشلم فتح کیا تو مسجد اقصیٰ میں پہلے جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے سلطان ایوبی نے اسی کو منتخب کیا تھا۔ بعد میں اسے دمشق کا قاضی مقرر کردیا گیا تھا''…
''ہم گئے تو الملک الافضل نے کہا کہ ہم تینوں ساری رات اس کے ساتھ رہیں۔ وہ سوگوار تھا اور گھبرایا ہوا بھی۔ قاضی الفضل نے اعتراض کیا اور کہا رات بھر لوگ باہر کھڑے سلطان کی صحت کی خبر سننے کا انتظار کرتے ہیں۔ اگر ہم ساری رات اندر رہے تو وہ کچھ اور سمجھ لیں گے اور شہر میں غلط خبر پھیل جائے گی۔ الافضل سمجھ گیا۔ اس نے کہا کہ ہم لوگ چلے جائیں۔ ہماری بجائے اس نے امام ابوجعفر کو اس مقصد کے لیے بلا لیا کہ اگر رات کو صلاح الدین ایوبی پر نزع کا عالم طاری ہوگیا تو امام اس کے سرہانے قرآن پڑھے گا۔ ہم وہاں سے آگئے''۔
''اس کے بعد امام ابوجعفر نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی آخری رات کی جو روئیداد سنائی، وہ میں تحریر کرتا ہوں۔ اس نے بتایا کہ اس نے سلطان کے سرہانے قرآن خوانی کی۔ اس دوران سلطان پرکبھی غشی طاری ہوجاتی، کبھی ہوش میں آجاتا اورکبھی اس کا ذہن بھٹک جاتا۔ آدھی رات کے بعد ٢٧صفر ٥٨٩ہجری (٤مارچ ١١٩٣ئ) کی تاریخ شروع ہوچکی تھی۔ امام ابو جعفر نے بتایا… ''میں بائیسویں پارے کی سورۂ الحج پڑھ رہا تھا۔ میں نے جب پڑھا… ''خدا ہی قادر مطلق ہے، برحق ہے اور وہ مردوں کو زندہ کردیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے''… تو میں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی نحیف سی سرگوشی سنی۔ وہ کہہ رہا تھا… ''یہ سچ ہے۔ یہ سچ ہے''… یہ اس کے آخری الفاظ تھے۔ اس کے فوراً بعد صبح کی اذان سنائی دی۔ میں نے قرآن پاک بند کردیا۔ اذان ختم ہوتے ہی سلطان صلاح ا لدین ایوبی نہایت سکون اور اطمینان سے اپنے خالق حقیقی سے جاملا''… امام ابوجعفر نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اذان شروع ہوئی تو وہ ایک آیت پڑھ رہا تھا… ''اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ہم اسی سے مدد مانگتے ہیں''… تو سلطان ایوبی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ اس کا چہرہ د مک اٹھا اور وہ اسی کیفیت میں اپنے خدا کے حضور گیا''…
''میں جب پہنچا اس وقت صلاح الدین ایوبی فوت ہوچکا تھا۔ خلفائے راشدین کے بعد اگر قوم پر کوئی کاری ضرب پڑی ہے تو وہ سلطان ایوبی کے انتقال کی تھی۔ قلعے، شہر، وہاں کے لوگوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں پر غم کی ایسی گھٹا چھا گئی جو صرف خدا جانتا ہے کہ کتنی گہری تھی۔ میں نے لوگوں کو اکثر کہتے سنا ہے کہ انہیں جو شخص سب سے زیادہ عزیز ہے، اس کے لیے وہ اپنی جان قربان کردیں گے لیکن میں نے کبھی کسی کو کسی کے لیے جان قربان کرتے نہیں دیکھا۔ البتہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ سلطان ایوبی کی زندگی کی آخری رات ہم سے کوئی پوچھتا کہ سلطان ایوبی کی جگہ کون مرنے کو تیار ہیں تو ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی جانیں قربان کرکے سلطان ایوبی کوزندہ رکھتے''…
: ''اس روز شہر میں جسے دیکھا بے ا ختیار آنسو بہاتے دیکھا۔ لوگ رونے کے سوا کچھ اور سوچتے ہی نہیں تھے۔ کسی شاعر کو مرثیہ سنانے کی اجازت نہ دی گئی۔ کسی امام، کسی قاضی اورکسی عالم نے لوگوں کو صبر کی تلقین نہ کی۔ وہ خود رو رہے تھے، ہچکیاں لے رہے تھے۔ صلاح الدین ایوبی کے بچے روتے چیختے، گلیوں میں نکل گئے۔ انہیں روتا دیکھ کر لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے تھے… ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا۔ اس وقت سلطان ایوبی کی میت کو آخری غسل دے کر کفن پہنایا جاچکا تھا۔ غسل عدالت کے ایک اہلکار الدلائی نے دیا تھا۔ غسل کے لیے مجھے کہا گیاتھا مگر میرا دل اتنا مضبوط نہ تھا۔ میں نے انکار کردیا۔ میت باہر لاکر رکھی گئی۔ جنازے پر جو کپڑا ڈالا گیا وہ قاضی الفضل نے دیا تھا۔ جب جنازہ لوگوں کے سامنے رکھا تو مردوں کے دھاڑوں اور عورتوں کی چیخوں سے آسمان کا جگر چاک ہونے لگا۔ دمشق کی عورتوں کے بین سنے نہیں جاتے تھے''…
''قاضی محی الدین ابن ذکی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ میں کچھ نہیں بتا سکتا کہ جنازے میں کتنے لوگ تھے۔ البتہ یہ بتا سکتا ہوں کہ سب نماز جنازہ میں کھڑے تھے مگر نماز پڑھنے کے بجائے سب ہچکیاں لے رہے تھے اور بعض بے قابو ہوکر دھاڑیں مار اٹھتے تھے۔ اردگرد عورتوں کا بے انداز ہجوم بین کررہا تھا۔ نمازجنازہ کے بعد میت باغیچے کے اس مکان میں رکھی گئی جہاں مرحوم نے علالت کے دن گزارے تھے۔ عصر سے کچھ دیر پہلے سلطان ایوبی کو قبر میں اتار دیا گیا۔ لوگ گھروں کو واپس گئے تو یوں لگتا تھا جیسے لاشوں کا ہجوم چلا جارہا ہو۔ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ قبر پر قرآن خوانی کرتا رہا''…
''منکہ بہائوالدین ابن شداد نے یہ یادداشتیں خلیفہ کی اجازت سے قلم بند کی ہیں اور اس تحریر کو الملک النصر ابو ظفر یوسف ابن نجم ایوب صلاح الدین ایوبی کی وفات پر ختم کیا ہے۔ خدا اس پر رحمت فرمائے۔ اس تحریر سے میرا مقصد خدا کی خوشنودی ہے اور میرا مقصود یہ بھی ہے کہ اسے یاد رکھو جو نیک تھا اور صرف نیکی پر دھیان رکھو''۔
ان یادداشتوں کے بعد یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ سلطان ایوبی کی ایک خواہش یہ تھی کہ فلسطین کو صلیبیوں سے پاک کریں۔ اس کی یہ خواہش پوری ہوگئی۔ اس کی دوسری خواہش یہ تھی کہ فتح فلسطین کے فریضہ کے بعد فریضۂ حج ادا کرے مگر اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ اس کی وجہ بیماری نہیں تھی بلکہ یہ کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔ اس کی ذاتی جیب خالی تھی۔ بلال نو کی درانتی سے فصل صلیبی کاٹنے والا مرد مجاہد، مصر، شام اور فلسطین کا سلطان جس کے قدموں میں سلطنت کے خزانے تھے، وہ اتنا غریب تھا کہ حج کو نہ جاسکا اور اسے جو کفن پہنایا گیا تھا۔ وہ قاضی بہائوالدین شداد، قاضی الفضل ابن ذکی نے درپردہ پیسے جمع کرکے خریدا تھا… آج فلسطین صلاح الدین ایوبی کا ماتم اسی طرح کررہا ہے جس طرح ٤مارچ ١١٩٣ء کے روز دمشق کی بیٹیوں نے بین کیے تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کے ساتھ ہی داستان ایمان فروشوں کی تاریخ کا باب ختم ہوا جاتا ہے۔ اس ناول کی پانچ جلدیں تھی جو کہ میں نے سوچا تھا کہ یہ پانچ جلدیں آٹھ دس ماہ میں ختم ہو جائیں گی لیکن آپ سب قارئین نے اسے اتنے ذوق شوق سے پڑھا کہ مجھے مجبور آ 2۔۔اقساط ایک ساتھ اپلوڈ کرنی پڑی ۔ اس ناول پر بہت سے نئے ریڈر سامنے آئیے۔ جن کو میں مس کرو گا عادت ہوگئی تھی آپ سب کے کمنٹ اور ان باکس میں جو آ کر اقساط کے بارے میں پوچھتے تھے۔ اللہ آپ سب کا جذبہ ایمانی قائم دائم رکھے اور ان شاء اللہ کوشش ہے کہ  ایسے ہی اسلامی اصلاحی تاریخ ناول کے ساتھ جلد ملاقات ہوگی۔ تب تک کے اللہ حافظ۔ اپنا اور اپنے آس پاس کے لوگوں کا خیال رکھئے گا۔ اور جن لوگوں کو میری وجہ سے انتظار کرنا پڑا ان سے معافی چاہتا ہو کیونکہ میں جانتا ہو انتظار بہت بُری چیز ہے۔
ختم شد

🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں