داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 149 - اردو ناول

Breaking

جمعرات, ستمبر 08, 2022

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 149


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر149 پھر شمع بجھ گئی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے خیمے میں بیمار پڑا تھا۔ اس سے تھوڑی ہی دور عکرہ کے باہر اس کے جانباز دستے اس صلیبی لشکر پر حملے کررہے تھے جس نے عکرہ کو محاصرے میں لے رکھا تھا۔ فلسطین کی تاریخ میں سب سے زیادہ خونریز معرکے لڑے جارہے تھے مگر محاصرہ ٹوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ شہر کے ا ندر سلطان ایوبی کی محصور فوج کی نفری دس ہزار تھی اور محاصرہ کرنے والے صلیبیوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ تھی۔ سلطان ایوبی صلیبیوں کے عقب میں یعنی شہر سے باہر تھا۔ اس کے پاس دس ہزار مملوک تھے جن پر اسے بہت بھروسہ تھا۔ مملوک عقب سے صلیبیوں پر بڑے ہی جانبازانہ حملے کرتے تھے مگر کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوتی تھی۔ دشمن کی تعداد زیادہ ہونے کے علاوہ محاصرہ نہ ٹوٹ سکنے کی وجہ یہ تھی کہ صلیبیوں نے عکرہ کے اردگرد مورچے کھود لیے تھے جو سلطان ایوبی کی فوج کے لیے خطرناک تھے۔ سوار جب حملہ کرتے تو گھوڑے مورچوں میں گر پڑتے تھے۔
عکرہ کے باہر مہیلوں وسعت میدان جنگ بنی ہوئی تھی۔ لاشوں کا کوئی شمار نہیں تھا۔ عکرہ کی دیوار کے باہر دیوار جتنی لمبی اور اتنی چوڑی خندق تھی جسے عبورکرنا مشکل تھا۔ صلیبیوں نے اس خندق کے ایک حصے میں اپنے مرے ہوئے فوجیوں کی لاشیں اور مرے ہوئے گھوڑے پھینکنے شروع کردئیے تھے، تاکہ یہاں سے خندق بھرجائے اور خندق سے گزر کر دیوار تک پہنچا جائے۔ جنگ کا شوروغل اتنا زیادہ تھا کہ فضا میں سوائے گدھوں کے کوئی اور پرندہ نظر نہیں آتا تھا۔ گدھ کہیں اترتے، لاشوں کو کھاتے اور اڑ جاتے تھے۔
ان گدھوں کے درمیان تقریباً ہر روز ایک کبوتر عکرہ سے اڑتا اور سلطان ایوبی کے کیمپ میں جااترتا تھا اور بہت دیر بعد کیمپ سے اڑ کر عکرہ کو واپس چلا جاتا تھا۔ محاصرے اور خونریز معرکوں کے دوران ایک روز یہ کبوتر عکرہ سے اڑا۔ انگلینڈ کا بادشاہ رچرڈ اپنے خیمے سے باہر کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی بہن جوآنا بھی تھی۔
''اس کبوتر پر نظر رکھو''۔ رچرڈ نے حکم دیا۔ ''جونہی نظر آئے، اس پر باز چھوڑ دو۔ یہ کبوتر ہماری شکست کا باعث بن سکتا ہے''۔
اس کے پاس اس کی بہن جوآنا اور اس کی منگیتر بیرنگاریا کھڑی تھیں۔ رچرڈ کی عمر خاصی ہوگئی تھی اور اب اس نوجوان لڑکی کو اپنے ساتھ اس ارادے سے لایا تھا کہ بیت المقدس فتح کرکے اس کی شادی کرے گا۔ اس کی بہن جوآنا تھوڑا ہی عرصہ پہلے تک سسلی کے بادشاہ کی بیوی تھی۔ بادشاہ مرگیا تو جوآنا جوانی میں بیوہ ہوگئی۔ وہ اس قدر خوبصورت تھی کہ کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ اس لڑکی کی شادی ہوئی تھی۔ رچرڈ انگلستان سے آئے ہوئے اسے سسلی سے اپنے ساتھ لے آیا تھا۔
رچرڈ کو جوآنا کی ہنسی سنائی دی۔ رچرڈ نے اس کی طرف دیکھا تو جوآنا نے اس سے پوچھا۔ ''میرے بھائی! کیا اس کبوتر کے مرجانے سے صلاح الدین ایوبی بھی مرجائے گا''۔
''یہ کبوتر پیامبر ہے جوآنا!''… رچرڈ نے کہا… ''اس کی ایک ٹانگ کے ساتھ عکرہ والوں کا پیغام بندھا ہوتا ہے جو صلاح الدین ایوبی کے پاس جاتا ہے۔ صلاح الدین ایوبی پیغام کا جواب اسی کبوتر کے ساتھ بھیجتا ہے۔ صلاح الدین ایوبی ہم پر باہر سے جو حملے کرتا ہے، وہ عکرہ والوں کے پیغاموں کے مطابق ہوتے ہیں۔ عکرہ والوں کا جوش اور جذبہ اور ہتھیار نہ ڈالنے کا عزم اس کبوتر کی وجہ سے قائم ہے، ورنہ کوئی محصور فوج اتنے شدید حملے زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتی۔ تم دیکھ رہی ہو کہ ہماری منجنیقوں کے پھینکے ہوئے پتھروں نے کئی جگہوں سے دیوار کا اوپر کا حصہ گرادیا ہے اور ہماری پھینکی ہوئی آگ نے شہر میں تباہی بپا کررکھی ہے مگر وہ ہتھیار نہیں ڈال رہے''۔
''آپ کا اصل مقصد اور منزل یروشلم ہے جو ابھی بہت دور ہے''۔ جوآنا نے کہا… ''اگر عکرہ کی فتح میں کئی سال گزر گئے تو کیا آپ اپنی زندگی میں یروشلم تک پہنچ سکیں گے؟ ہمارے جاسوس اور مسلمان جنگی قیدی بتاتے ہیں کہ شہر کے اندر صرف دس ہزار تعداد کی فوج ہے۔ ہماری تعداد ابتدا میں چھ لاکھ تھی۔ اب پانچ لاکھ رہ گئی ہوگی۔ محاصرہ پچھلے سال (١١٨٩ئ) ١٣اگست کے روز شروع ہوا تھا۔ اب ١١٩١ء کا اگست آگیا ہے۔ دو سال… میرے بھائی! دو سال… ابھی آپ دس ہزار نفری کے محصورین سے ہتھیار نہیں ڈلوا سکے۔ میں جانتی ہوں کہ آپ کو محاصرے میں شامل ہوئے ابھی چند مہینے گزرے ہیں لیکن چند مہینوں میں آپ نے عکرہ کی تھوڑی سی دیوار توڑنے اور منجنیقوں سے شہر کے کچھ حصے کو آگ لگانے کے سوا کیا کامیابی حاصل کی ہے؟ مجھے تو یہ نظر آرہا ہے کہ اس شہر کے کھنڈر ہی آپ کو ملیں گے''۔
: رچرڈ نے اپنی منگیتر کو وہاں سے چلے جانے کو کہا۔ وہ چلی گئی تو رچرڈ اپنی بہن سے مخاطب ہوا۔ ''صلیب الصلبوت اور یروشلم کے وقار اور تقدس کا مطالبہ یہ ہے کہ تم بھول جائو کہ تم میری بہن ہو۔ تم اس صلیب کی بیٹی ہو جو مسلمانوں کے قبضے میں ہے اور یروشلم جہاں ہمارے پیغمبر کی عبادت گاہ ہے، اس پر بھی مسلمان قابض ہیں۔ تم جانتی ہو کہ ہمیں اسلام کو ختم کرنا ہے اور تم یہ بھی دیکھ رہی ہو کہ مسلمان خودکشی کی طرح لڑ رہے ہیں۔ یہ لوگ موت کی پرواہ نہیں کرتے۔ یہ فتح حاصل کرنے کے لیے لڑتے ہیں۔ میں پہلی بار یہاں آیا اور انہیں لڑتے دیکھا ہے۔ ان کے جذبے کے جنون کی جو کہانیاں سنی تھیں وہ اپنی آنکھوں دیکھ رہا ہوں۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مسلمان کو عورت مار سکتی ہے۔ ان کے درمیان جو خانہ جنگی ہوئی تھی، وہ ہمارے بادشاہوں نے ان پر ایک سازش کے تحت بادشاہی، زروجواہرات، شراب اور عورت کا نشہ طاری کرکے کرائی تھی مگر صلاح الدین ایوبی ایسا پتھر نکلا ککہ اس کے عزم کو متزلزل نہ کرسکے۔ اس نے اپنے ان بھائیوں کو جو ہمارے ہاتھ میں آگئے تھے، تلوار کے زور سے اپنا مطیع کرلیا یا ان کے دلوں میں اسلامی جذبہ بیدار کرلیا''۔
''میں نے بھی یہ سنا ہے''۔ جوآنا نے کہا… ''میں نے ان لڑکیوں کے ا یثار کی کہانیاں بھی سنی ہیں جنہیں مسلمان امراء اور حاکموں کے پاس جاسوسی اور دیگر تخریب کاری کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ میرے خیال میں یہ طریقہ کامیاب نہیں رہا''۔
''میں اسے ناکام بھی نہیں کہتا''… رچرڈ نے کہا… ''اگر مسلمانوں کے قومی جذبے کو تباہ کرنے کے لیے یہ لڑکیاں استعمال نہ کی جاتیں تو یہ لوگ بہت عرصہ پہلے نہ صرف یروشلم کو فتح کرچکے ہوتے بلکہ آدھے یورپ پر بھی قابض ہوچکے ہوتے۔ ہم نے عورت کے حسن اور جسم کے جادو سے اور ان میں سے بہت سے امیروں، وزیروں اور سالاروں کو سلطان بنانے کے لالچ سے ان کا اتحاد توڑ دیا تھا۔ ان کی جنگی قوت انہیں آپس میں لڑا کر تباہ کردی تھی مگر یہ پھر متحد ہوگئے ہیں''۔
''آپ یہ باتیں مجھے کیوں سنا رہے ہیں؟'' جوآنا نے کہا… ''آپ کے بولنے کے انداز میں مایوسی کیوں ہے؟ میں آپ کی کیا مدد کرسکتی ہوں؟''
''میں نے تمہیں کہا تھا کہ تم بھول جائو کہ تم میری بہن ہو۔ تم صلیب کی بیٹی ہو۔ صلیب کی فتح کے لیے تم بہت کچھ کرسکتی ہو… تم دیکھ رہی ہو کہ ہم مسلمانوں کے خلاف لڑ بھی رہے ہیں اور ہماری آپس میں ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی طرف اپنے ایلچی بھیجتے رہتے ہیں۔ میری ملاقات صلاح الدین ایوبی کے بھائی العادل سے بھی ہوچکی ہے۔ میں ان سے اپنی شرائط منوانے کی کوشش کررہا ہوں جو وہ نہیں مان رہے ہیں۔ میں انہیں کہہ رہا ہوں کہ یروشلم اور صلیب الصلبوت ہمارے حوالے کردو اور تم ان علاقوں سے نکل جائو جن پر صلیبیوں کا قبضہ تھا۔ صلاح الدین ایوبی نے ایک بھی شرط ماننے سے انکار کردیا ہے''۔
''آپ صلاح الدین ایوبی سے کیوں نہیں ملتے؟''
''وہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتا''… رچرڈ نے جواب دیا… ''وہ بیمار بھی ہے، معلوم ہوتا ہے اس کا بھائی العادل اس جیسا پرعزم اور پکا مسلمان ہے۔ وہ صلاح الدین ایوبی کی جگہ لے رہا ہے۔ میں نے اس میں یہ کمزوری دیکھی ہے کہ جوان ہے اور زندہ دل بھی لگتا ہے۔ میں اس شخص کے دل پر قبضہ کرنے کی سوچ رہا ہوں۔ میں اسے دوست بنا سکوں گا لیکن جو کام تمہارا ہے، وہ میں کیسے کرسکتا ہوں؟… کیا تم نے اسے پسند نہیں کیا تھا؟''
''آپ مجھ سے وہ کام لینے کی سوچ رہے ہیں جو ہماری تربیت یافتہ لڑکیاں بہت مدت سے کررہی ہیں؟''
''ہاں!'' رچرڈ نے کہا… ''اس کے دل پر قبضہ کرو۔ محبت کا والہانہ اظہار کرو اور اسے کہو کہ تم اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو۔ میں د رمیان میں آجائوں گا اور صلاح الدین ایوبی سے کہوں گا کہ وہ اگر ساحلی علاقے اپنے بھائی اور میری بہن کو دے دے تو میں اپنی بہن کی شادی العادل کے ساتھ کرنے کو تیار ہوں۔ تم العادل کو تیار کرنا کہ وہ اپنا مذہب ترک کرکے عیسائیت کو قبول کرلے۔ اسے یہ لالچ دو کہ وہ ساحلی علاقے کی اتنی وسیع سلطنت کا سلطان بن جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ تم اسے صلاح الدین ایوبی کے خلاف کرسکو گی''۔
: جوآنا کچھ دیر خاموش رہی۔ رچرڈ اسے دیکھتا رہا۔ آخر جوآنا نے آہ لی اور بولی۔ ''میں کوشش کروں گی''۔
''مسلمانوں کو اسی دھوکے سے مارا جاسکے گا''۔ رچرڈ نے کہا… ''میں میدان جنگ میں انہیں شکست دینے کی پوری کوشش کروں گا لیکن بہت لمبی مدت درکار ہوگی۔ میں شاید اس وقت تک زندہ نہ رہوں۔ مجھے واپس انگلستان بھی جانا ہے، وہاں کے حالات مخدوش ہیں۔ مخالفین میری غیرحاضری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں''۔
٭ ٭ ٭
جو کبوتر رچرڈ کے اوپر سے گزر کر آگیا تھا، وہ صلاح الدین ایوبی کے خیمے کے سامنے بنی ہوئی ایک کھپریل پر آن بیٹھا۔ دربان نے دوڑ کر اس کی ٹانگ سے بندھا ہوا پیغام کھولا اور خیمے میں لے گیا۔ سلطان ایوبی کمزوری محسوس کررہا تھا۔ا سے آرام کی سخت ضروری تھی لیکن وہ اٹھ بیٹھا اور پیغام پڑھنے لگا۔ شہر کے اندر کی فوج کے ساتھ سلطان ایوبی کا رابطہ پیامبر کبوتروں کے ذریعے قائم تھا۔ یہ پیغام عکرہ کے د ونوں حاکموں المشطوب اور بہائوالدین قراقوش کا تھا۔ قاضی بہائوالدین شداد جو سلطان ایوبی کی مجلس مشاورت کااہم رکن اور اس کا ہم راز دوست بھی تھا، اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے کہ یہ دونوں غیرمعمولی طور پر دلیر اور ذہین سالار تھے، محاصرے میں ان کی حالت بہت بری ہوگئی تھی۔ شہر تباہ ہورہا تھا لیکن یہ دونوں ہتھیار ڈالنے کی لیے تیار نہیں تھے۔ باہر والے ہر وقت یہ خبر سننے کے لیے تیار رہتے تھے کہ عکرہ کی فوج نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔
اس پیغام میں بھی المشطوب اور قراقوش نے سلطان ایوبی کو وہی کچھ لکھا تھا جو وہ ہر پیغام میں لکھتے ہیں۔ اب کے انہوں نے زیادہ زور دے کر لکھا تھا کہ ہم سے یہ توقع نہ رکھنا کہ ہم جیتے جی ہتھیار ڈال دیں گے لیکن آپ کی مدد یہ ہمارے لیے بے حد ضروری ہوگئی ہے کہ صلیبیوں پر باہر سے حملے زیادہ کردیں۔ سپاہیوں سے کہیں کہ وہ اسی جذبے سے لڑیں جس جذبے سے شہر والے مقابلہ کررہے ہیں۔ آدھا شہر جل چکا ہے۔ فوج بھی آدھی رہ گئی ہے لیکن شہریوں کے جذبے کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیا ہے۔ عورتیں بھی ہمارا ساتھ دے رہی ہیں۔ لوگ کھانا خود کم کھاتے اور فوج کو زیادہ کھلاتے ہیں۔
انہوں نے دیوار کی یہ کیفیت لکھی کہ صلیبیوں کی منجنیقوں کی مسلسل سنگ باری سے دیوار کئی جگہوں سے ٹوٹ گئی ہے۔ بالائی حصہ ختم ہوچکا ہے۔ برج گر پڑے ہیں۔ دشمن نے باہر خندق کو کئی جگہوں سے اپنے سپاہیوں کی لاشوں اور مرے ہوئے گھوڑوں اور مٹی سے بھرلی ہے۔ جہاں سے وہ دیوار کے قریب آکر دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ جب ڈھولوں کی آوازیں سنیں، عقب سے صلیبیوں پر بہت ہی سخت حملہ کریں۔ ہم ڈھول اس وقت بجایا کریں گے جب صلیبی دیوار پر حملہ کیا کریں گے۔آپ ایسے جانباز تیار کریں جو سمندر کی طرف سے ہم تک اسلحہ پہنچائیں۔
سلطان ایوبی کمزوری اور بخار کے باوجود اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے پیغام کا جواب لکھوایا جس میں اس نے عکرہ والوں کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ بھی لکھا کہ جانباز پہلے ہی شہر تک اسلحہ پہنچانے کے لیے جاچکے ہیں۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ اسلام پر بڑا ہی سخت وقت آن پڑا ہے۔یہ میری ہی کوشش تھی کہ صلیبی بیت المقدس کی طرف بڑھنے کے بجائے عکرہ کا محاصرہ کریں تاکہ میں انہیں یہیں الجھا کر ان کی جنگی طاقت کمزور کردوں۔ تم لوگ عکرہ کے دفاع کے لیے نہیں، مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے لڑ رہے ہو۔
یہ پیغام کبوتر کے ذریعے بھجوا کر سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں کہ میرے پاس ہر ایک کمان دار اور ہر ایک سپاہی کے پاس جانے کا وقت نہیں رہا۔ میرے جسم میں جو طاقت رہ گئی ہے، اسے میں جہاد میں صرف کرنا چاہتا ہوں۔ اپنے کمان دار اور سپاہیوں سے کہو کہ اپنے اللہ، اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے مذہب کے لیے لڑو۔ اب یہ نہ سوچو کہ تم اپنے سلطان کے حکم سے لڑ رہے ہو، یہ بھی نہ سوچو کہ تمہیں اب زندہ رہنا ہے۔ اس کا اجر تمہیں اللہ دے گا۔
: قاضی بہائوالدین شداد لکھتا ہے کہ سلطان ایوبی ایسا جذباتی کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس کی جذباتی حالت بالکل اس ماں سے ملتی جلتی تھی جس کا بچہ کھو گیا ہو۔ وہ سوتا نہیں تھا۔ آرام نہیں کرتا تھا۔ میں نے اسے کئی بار کہا کہ سلطان! اپنی صحت کا خیال رکھو۔ تم اپنے اعصاب کو تباہ کررہے ہو۔ اللہ کو یاد کرو۔ فتح وشکست اسی کے ہاتھ میں ہے… سلطان کے آنسو نکل آئے۔ اس نے جذباتیت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا… ''بہائوالدین شداد! میں صلیبیوں کو بیت المقدس نہیں دوں گا۔ میں اس مقدس جگہ کی بے حرمتی نہیں ہونے دوں گا جہاں سے میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے حضور گئے تھے۔ اس جگہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تھا… وہ گرج کر بولا… نہیں… بہائوالدین! نہیں۔ میں مرکے بھی صلیبیوں کو بیت المقدس نہیں دوں گا''۔
قاضی شداد آگے چل کر لکھتا ہے کہ ایک رات وہ اس قدر بے چین تھا کہ میں بہت دیر اس کے ساتھ رہا۔ اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ میں نے اسے قرآن کی دو تین آیتیںبتائیں اور کہا کہ یہ پڑھتے رہو۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اور اس کے ہونٹ ہلنے لگے۔ وہ آیتیں پڑھ رہا تھا۔ پڑھتے پڑھتے سوگیا۔ سوتے میں بڑبڑایا… ''یعقوب کی کوئی خبر نہیں آئی؟… وہ شہر میں داخل ہوجائے گا''… پھر وہ سوگیا لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ وہ نیند میں بھی بے چین تھا۔
سلطان ایوبی کے خیمے سے عکرہ کی دیوار نظر آتی تھی۔ اس کے باہر صلیبی لشکریوں دکھائی دیتا تھا جیسے چیونٹیاں کسی چیز پر اکٹھی ہوگئی ہوں۔ رات کو عکرہ کی دیواروں پر مشعلیں چلتی پھرتی رہتی تھیں اور رات کے اندھیرے میں آگ کے گولے دیوار کے اوپر سے اندر جاتے نظر آتے تھے۔ دیوار سے بھی ایسے گولے باہر آتے تھے۔ سلطان ایوبی کے چھاپہ مار راتوں کو دشمن پر شب خون مارتے رہتے تھے۔
٭ ٭ ٭
نیند میں سلطان ایوبی جس یعقوب کا نام لے رہا تھا۔ وہ اس کی بحریہ کا ایک بڑا ہی دلیر کپتان تھا۔ عکرہ شہر کے اندر رسدا ور اسلحہ پہنچانا نا ممکن ہوگیا تھا۔ پچھلی قسط میں بیان کیا جاچکا ہے کہ شہر کے ایک طرف سمندر تھا اور ادھر صلیبیوں کے بحری جہاز بکھرے ہوئے تھے۔ شہر والوں کو سامان پہنچانا بڑا ہی ضروری تھا۔ سلطان ایوبی نے اپنے اس بحری بیڑے سے اس مہم کے لیے رضاکار مانگے تھے۔ یعقوب نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ اس وقت کے وقائع نگاروں، قاضی بہائوالدین شداد اور دو اور مؤرخوں نے یعقوب کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ وہ حلب کا رہنے والا تھا۔ اس نے بحریہ اور فوج کے سپاہی منتخب کیے۔ ان کی تعداد چھ سو پچاس تھی۔ انہیں یعقوب اپنے جہاز میں لے گیا اور بیروت چلا گیا وہاں سے اس نے جہاز کو (جو بڑا جنگی جہاز تھا) رسد اور اسلحہ سے بھر لیا۔ یہ اتنا زیادہ سامان تھا جو عکرہ والوں کو بڑے لمبے عرصے تک لڑنے کے قابل بنا سکتا تھا۔
یعقوب نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ جانیں قربان کردینی ہیں، یہ سامان عکرہ تک پہنچانا ہے۔ جہاز جب عکرہ سے کچھ ہی دور رہ گیا تھا کہ صلیبیوں کے چالیس جہازوں نے اسے گھیر لیا۔ یعقوب کے جانبازوں نے بے جگری سے مقابلہ کیا۔ جہاز چلتا رہا اور یعقوب اسے عکرہ کے ساحل کی طرف لے جاتا رہا۔ جانبازوں نے دشمن کے جہازوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ ایک فرانسیسی مؤرخ ڈی ونسوف نے لکھا ہے کہ وہ جنات اور بدروحوں کی طرح لڑے لیکن دشمن کے گھیرے سے نہ نکل سکے۔ آدھے سے زیادہ مسلمن سپاہی تیروں کا نشانہ بن گئے۔
یعقوب نے جب دیکھا کہ جہاز بادبان برباد ہوجانے سے کھلے سمندرکی طرف بہہ گیا ہے اور اب دشمن جہاز پر قبضہ کرلے گا تو اس نے اپنے جانبازوں سے چلا کر کہا… ''خدا کی قسم! ہم وقار سے مریں گے، دشمن کو نہ یہ جہاز ملے گا نہ اس میں سے کوئی چیز اس کے ہاتھ آئے گی… جہاز میں سوراخ کردو۔ سمندر کو جہاز کے اندر آنے دو''… عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ جو جانباز زاندہ رہ گئے تھے، انہوں نے عرشے کے نیچے جاکر جہاز کو توڑنا شروع کردیا۔ تختے ٹوٹے تو سمندر جہاز میں داخل ہونے لگے۔ کسی بھی جانباز نے جہاز سے کود کود کر جان بچانے کی کوشش نہ کی۔ سب جہاز کے ساتھ سمندر کی تہہ میں چلے گئے۔
 اس واقعہ کی تاریخ ٨جون ١١٩١ء لکھی گئی ہے۔
سلطان ایوبی کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ خیمے سے نکلا۔ اس کا گھوڑا ہر وقت تیار رہتا تھا۔ اس نے بلند آواز سے حکم دیا… ''دف بجائو''۔ دف بج اٹھے… یہ حملے کا سگنل تھا۔ ذرا سی دیر میں اس کے دستے حملے کی تیاری کے لیے جمع ہوگئے… سلطان ایوبی نے اتنا ہی کہا… ''آج دشمن کو چیر کر دیوار تک پہنچنا ہے''… اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس کے تمام دستے سوار اور پیادے اس کے پیچھے گئے۔ یہ بظاہر اندھا دھند حملہ تھا لیکن سلطان ایوبی نے پہلے ہی فوج کو ترتیب بتا رکھی تھی۔ صلیبیوں نے مسلمانوں کو یوں قہر وغضب سے آتے دیکھا تو ان کے پیادہ دستے کمانوں میں تیر ڈال کر دیوار کی مانند کھڑے ہوگئے۔ صلیبی فوج کے مورچے بھی تھے۔ انہوں نے تیر برسانے شروع کردئیے۔
حملے کی قیادت سلطان ایوبی خود کررہا تھا۔ اس لیے اس کے مملوک بجلیوں کی طرح صلیبیوں پر ٹوٹے مگر صلیبیوں کی تعداد بہت ہی زیادہ تھی۔ مسلمان یوں لڑے جیسے وہ زندہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ گھوڑ سوار گھوڑے گھما گھما کر لاتے اور حملے کرتے تھے۔ یہ معرکہ اس وقت ختم ہوا جب شام تاریک ہوگئی۔ صلیبیوں کا نقصان بہت ہی زیادہ ہوا تھا مگر وہ کامیابی حاصل نہ کی جاسکی جس کے لیے سلطان ایوبی نے حملہ کرایا تھا۔
ایسا حملہ پہلا اور آخری نہیں تھا۔ عکر ہ دوسال محاصرے میں رہا۔ اس دوران سلطان ا یوبی نے عقب سے ایسے کئی حملے کرائے۔ ہر حملے میں جانبازوں نے بہادری کی ایسی مثالیں پیش کیں جو اس سے پہلے وہ خود بھی پیش نہیں کرسکے تھے۔ اس دوران سلطان ایوبی کو مصر سے بھی کمک ملی اور کئی ایک مسلمان عمارتوں نے اسے اپنی فوجیں اور سامان بھیجا۔ اگر ہر حملے کا ذکر تفصیل سے کیا جائے تو سینکڑوں صفحے درکار ہوںگے۔ یہ جہاد کا جذبہ نہیں، بلکہ جنون تھا۔ ان حملوں سے عکرہ کا محاصرہ تو نہ توڑا جاسکا لیکن صلیبیوں پر یہ خوف طاری ہوگیا کہ مسلمان ا نہیں یہاں سے زندہ نہیں نکلنے دیں گے۔ صلیبیوں کا چونکہ لشکر زیادہ تھا، اس لیے ان کا جانی نقصان بھی زیادہ ہوتا تھا۔ اتنی زیادہ لاشوں اور زخمیوں کو د یکھ دیکھ کر صلیبیوں کا حوصلہ مجروح ہورہا تھا۔ مسلمانوں کے قہر کا اثر خود رچرڈ کے دل پر پڑ رہا تھا۔
اس دوران رچرڈ سلطان ایوبی کے پاس صلح کے لیے اپنے ایلچی بھیجتا رہتا تھا۔ اس کا ایلچی العادل کے پاس آیا کرتا اور العادل صلح کا پیغام سلطان ایوبی تک پہنچایا کرتا تھا۔ اس کے مطالبات یہ تھے کہ بیت المقدس جسے وہ یروشلم کہتے تھے، انہیں دے دیا جائے۔ صلیب الصلبوت انہیں واپس دے دی جائے اور صلیبی جن علاقوں پر حطین کی جنگ سے پہلے قابض ہوچکے تھے، وہ علاقے صلیبیوں کو واپس دے دئیے جائیں… سلطان ایوبی یروشلم کا نام سن کر بھڑک اٹھتا تھا۔ تاہم اس نے العادل کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ رچرڈ کے ساتھ صلح کی بات چیت جاری رکھے۔ تقریباً تمام مؤرخ لکھتے ہیں کہ رچرڈ اور العادل دوست بن گئے تھے اور العادل جب رچرڈ کے پاس جاتا یا رچرڈ اسے ملنے آتا تو رچرڈ کی بہن جوآنا بھی ساتھ ہوتی تھی۔ اس دوستی کے باوجود العادل رچرڈ کی شرائط تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا۔
ان ملاقاتوں کے ساتھ عکرہ کی جنگ جاری تھی۔ خونریزی بڑھتی جارہی تھی اور عکرہ والوں کی حالت بہت ہی بری ہوتی جارہی تھی۔ محاصرہ کرنے والوں میں د وسرے صلیبی بادشاہ بھی تھے جن میں قابل ذکر فرانس کا بادشاہ تھا۔ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ ان سب کا لیڈر بن گیا تھا۔
٭ ٭ ٭
''میں نے یہ کامیابی حاصل کرلی ہے کہ اس نے میری محبت قبول کرلی ہے''… جوآنا نے اپنے بھائی رچرڈ سے کہا… ''لیکن میں نے اس میں وہ کمزوری نہیں دیکھی جو آپ بتاتے تھے کہ ہر مسلمان امیر اور حاکم میں پائی جاتی ہے۔ وہ میرے ساتھ شادی کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے لیکن اپنا مذہب چھوڑنے کے بجائے مجھے اسلام قبول کرنے کو کہتا ہے''۔
''معلوم ہوتا ہے تم نے اپنا جادو اس طرح نہیں چلایا جس طرح اس فن کی ماہر لڑکیاں چلاتی رہتی ہیں''… رچرڈ نے کہا… ''یہ میں نے بھی دیکھ لیا ہے کہ العادل کردار کا پکا ہے۔ میں اسے کہہ چکا ہوں کہ اگر وہ تمہارے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے تو عیسائیت قبول کرلے اور اپنے بھائی سے کہے کہ ساحلی علاقہ اسے دے دے جس پر اس کی اور تمہاری حکمرانی وہگی۔ اس نے جواب دیا کہ اپنا مذہب ترک کرنا ہوتا تو اتنے خون خرابے کی کیا ضرورت تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم میری بہن کو پسند کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ اپنی بہن سے پوچھو، میں اسے اتنا ہی چاہتا ہوں جتنا وہ مجھے چاہتی ہے۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے ان کے میل ملاقات اور محبت پر کوئی اعتراض نہیں… شکار جال میں آگیا ہے۔ اب یہ تمہارا کمال ہوگا کہ اسے شیشے میں اتار لو''۔
''مجھے یاد آیا''… جوآنا نے کہا… ''میری دونوں خادمائیں کہیں نظر نہیں ا رہیں۔ رات یہیں تھیں۔ صبح سے غائب ہیں''۔
''میرا خیال ہے وہ اب غائب ہی رہیں گی''۔ رچرڈ نے کہا۔ ''وہ مسلمان تھیں''۔
 ''وہ سسلی کی مسلمان تھیں''… جوآنا نے کہا… ''اور وہ اس وقت سے میرے ساتھ تھیں، جب میری شادی ہوئی اور میں سسلی گئی تھی''۔
''مسلمان کہیں کا بھی رہنے والا کیوں نہ ہو، سب کا جذبہ ایک سا ہوتا ہے''… رچرڈ نے کہا… ''اسی لیے ہم اس قوم کو خطرناک سمجھتے ہیں اور ہم اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ان کا اتحاد ٹوٹ جائے۔ ان دونوں نے یہاں آکر دیکھا کہ ہم ان کی قوم کے خلاف لڑ رہے ہیں تو وہ ان کے پاس چلی گئیں''۔
رچرڈ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ اس وقت یہ دونوں عورتیں سلطان ایوبی کے پاس پہنچ چکی تھیں۔ ان کی چھان بین کرکے انہیں سلطان کے پاس لے جایا گیا۔ انہوں نے سلطان سے ملنے کی خواہش کی تھی اور کہا تھا کہ وہ کچھ باتیں صرف سلطان کو بتانا چاہتی ہیں۔انہوں نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ وہ سسلی میں جنی پلی ہیں اور لڑکپن میں شاہی محل میں ملازم ہوگئی تھیں، جب جوآنا بادشاہ کی بیوی بن کر آگئی تو ان دونوں کو جسمانی چستی اور اچھی شکل وصورت کی وجہ سے جوآنا کی خاص خادمائیں بنا دیا گیا… سسلی میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، اس لیے وہاں اسلام زندہ تھا۔ ان دونوں کو بھی اپنا مذہب یاد رہا۔ جوآنا بیوہ ہوگئی تو شہنشاہ رچرڈ آگیا۔ وہ جوآنا کو اپنے ساتھ لایا تو ان دونوں کو بھی ساتھ آنا پڑا۔ یہاں انہوں نے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑتے دیکھا تو کفار کی نوکری سے ان کا دل اچاٹ ہوگیا۔
یہ دونوں عورتیں صرف جسمانی طورپر ہی چست اور چالاک نہیں تھیں، ذہنی طور پر بھی ہوشیار تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جوآنا رچرڈ کی منگیتر کو بتا رہی تھی کہ اس نے صلاح الدین ایوبی کے بھائی العادل کو پھانس لیا ہے۔ وہ کہتی تھی کہ العادل کے دل میں اس کی اور اس کے دل میں العادل کی محبت پیدا ہوگئی ہے اور اگر العادل نے اپنا مذہب ترک کردیا تو ان کی شادی ہوجائے گی پھر صلاح الدین ایوبی کو مارنا اور یروشلم پر قبضہ کرنا آسان ہوجائے گا۔ ان عورتوں نے اس شک کا بھی اظہار کیا کہ العادل اور جوآنا کہیں ملتے ملاتے بھی ہیں۔ یہ خبر سلطان ایوبی تک پہنچانے کے لیے دونوں عورتیں وہاں سے بھاگ آئیں۔ قاضی بہائوالدین شداد نے اپنی یادداشتوں میں ان عورتوں کے نام نہیں لکھے، یہ لکھا ہے کہ سلطان ایوبی نے ان دونوں کو نہایت عزت واحترام اور انعام واکرام کے ساتھ دمشق بھیج دیا۔
٭ ٭ ٭
سلطان ایوبی نے ان عورتوں کی اطلاع پر تو یقین کرلیا لیکن اسے یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا سگا بھائی اسے دھوکہ دے رہا ہے۔ اسے اپنے ہر سالار پر اعتماد تھا لیکن العادل اور اپنے دو بیٹوں (الافضل اور الظاہر) کی موجودگی میں وہ بہت سی پریشانیوں سے آزاد تھا۔ صلیبیوں پر عقب سے جو حملے کیے جاتے تھے، ان کی قیادت یہ تینوں کرتے یا وہ خود کرتا تھا۔ اس کے علاوہ العادل ہی صلیبی حکمرانوں، خصوصاً رچرڈ سے ملتا اور بات چیت کرتا تھا۔ تاہم اس نے العادل کے ساتھ بات کرلینا مناسب سمجھا مگر عکرہ کی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی تھی۔ مسلمانوں کی کمک آرہی تھی۔ العادل کہیں نظر نہیں آتا تھا۔ اس کے متعلق سلطان ایوبی کو یہی اطلاعیں ملتی تھیں کہ آج اس نے فلاں جگہ حملہ کیا ہے اور آج فلاں جگہ۔ سلطان ا یوبی کو اپنے بیٹے بھی نہیں ملتے تھے۔ اب تو اس کی اپنی یہ حالت تھی کہ صحت کی خرابی کے باوجود جنگ میں شریک رہتا تھا۔
عکرہ کی دیوار ایک جگہ سے مسلسل سنگ باری سے گر پڑی تھی۔ صلیبی وہاں سے اندر جانے کی کوشش کرتے تو مسلمان جانوں کی بازی لگا کر انہیں روکتے تھے۔ دور سے نظر آنے لگا تھا کہ یہ شگاف دونوں فریقوں کی لاشوں سے بھرتا جارہا ہے۔ آخر اندر سے کبوتر یہ پیغام لایا… ''اگر کل تک ہمیں مدد نہ پہنچی یا آپ نے باہر سے محاصرہ توڑنے کی کوشش نہ کی تو ہمیں ہتھیار ڈالنے پڑیں گے، کیونکہ شہریوں کے بچے بھوک سے بلبلا رہے ہیں۔ شہر جل رہا ہے اور فوج تھوڑی رہ گئی ہے اور جو رہ گئی ہے وہ مسلسل دو سال بغیر آرام کیے لڑ لڑ کر لاشیں بن گئی ہیں''۔
سلطان ایوبی کے آنسو نکل آئے۔ اس نے اسی وقت اپنے تمام تر دستے یکجا کرکے بڑا ہی شدید حملہ کیا۔ ایسی خونریزی ہوئی کہ تاریخ کے ورق پھڑپھڑانے لگے۔ مؤرخ لکھتے ہیںکہ انسانی ذہن ایسی خونریزی کو تصور میں نہیں لاسکتا۔ رات کو بھی مسلمانوں نے صلیبیوں کو چین نہ لینے دیا۔ آدھی رات کے بعد سلطان ایوبی اس طرح اپنے خیمے میں آیا اور پلنگ پر گرا جیسے اس کا جسم زخموں سے چور ہوگیا ہو۔ اس نے ہانپتی کانپتی آواز میں حکم دیا کہ صبح پھر ایسا ہی حملہ ہوگا مگر صبح کی روشنی نے اسے جو منظر دکھایا، اس سے اس پر نیم غشی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ عکرہ کی دیواروں پر صلیبیوں کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ صلیبیوں کا لشکر شگاف سے ا ندر جارہا تھا… یہ جمعہ کا دن تھا۔ تاریخ ١٧جمادی الثانی ٥٨٧ہجری (١٢جولائی ١١٩٢ئ) تھی۔
المشطوب اور قراقوش نے صلیبیوں سے شرائط طے کرلی تھیں۔ اس کے باوجود سلطان ایوبی کو یہ منظر بھی دیکھنا پڑا کہ فرنگی تقریباً تین ہزار : مسلمان قیدیوں کو رسوں سے باندھے عکرہ سے باہر لائے۔ ان میں فوجی تھے اور شہری بھی۔ انہیں ایک جگہ کھڑا دیا گیا اور چاروں طرف سے صلیبیوں کی فوج کے سوار اور پیادہ دستوں نے ان بندھے ہوئے نہتے قیدیوں پر حملہ کردیا۔ سلطان ایوبی کی فوج کو بالکل توقع نہیں تھی کہ صلیبی اس قدر درندگی اور ذلت کا مظاہرہ بھی کرسکتے ہیں۔ جب صلیبی فوج قیدیوں پر ٹوٹ پڑی۔ مسلمان فوج کسی کے حکم کے بغیر اٹھ دوڑی اور صلیبیوں پر پورے قہر سے حملہ کیا مگر تمام قیدی شہید کیے جاچکے تھے۔ دونوں فوجوںمیں بڑا سخت تصادم ہوا۔
٭ ٭ ٭
اس دوران رچرڈ بھی سلطان ایوبی کی طرح بیماری کے شدید حملے ہوئے۔ دنیائے صلیب کو اس پر بڑا ہی بھروسہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ شیردل تھا مگر عکرہ کے محاصرے میں جہاں وہ کامیاب ہوا تھا، وہاں اس کا حوصلہ بھی ٹوٹ گیا تھا، اسے توقع نہیں تھی کہ مسلمان اتنی بے جگری سے لڑتے ہیں۔ اس کی منزل اب بیت المقدس تھی۔ اس نے ساحل کے ساتھ ساتھ کوچ کیا۔ آگے عسقلان اور حیفہ جیسے بڑے شہر اور قلعے تھے۔ سلطان ایوبی نے اس کا ارادہ بھانپ لیا۔ وہ ان شہروں اور قلعوں پر قبضہ کرکے یہاں اپنے اڈے بنانا اور بیت المقدس پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔
سلطان ایوبی نے بیت المقدس کی خاطر بہت بڑی قربانی دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے حکم دیا۔ ''عسقلان کو تباہ کردو، قلعے اور شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا دو''… سالاروں اور مشیروں پر سکتہ طاری ہوگیا۔ اتنا بڑا شہر؟ اتنا مضبوط قلعہ؟… سلطان ایوبی نے گرج کر کہا… ''شہر پھر آباد ہوجائیں گے۔ انسان پیدا ہوتے رہیں گے مگر بیت المقدس کو صلیبیوں سے بچائے رکھنے کے لیے صلاح الدین ایوبی شاید پھر پیدا نہ وہ… اپنے تمام شہر اور بچے مسجد اقصیٰ پر قربان کردو''۔
سلطان ایوبی بے شک جذباتی ہوگیا تھا لیکن اس نے فن حرب وضرب اور حقائق سے چشم پوشی نہ کی۔ اپنے چھاپہ مار دستوں کو صلیبی لشکر کے پیچھے ڈال دیا۔ یہ دستے بکھر کر رچرڈ کے لشکر پرجو کوچ کررہا تھا، عقبی حصے میں شب خون مارتے ارو غائب ہوجاتے۔ اس طرح اس لشکر کا کوچ بہت ہی سست رہا۔ دشمن کی رسد محفوظ نہ رہی۔ رچرڈ عسقلان جارہا تھا، وہاں پہنچا تو قلعہ اور شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔ وہاں جو مسلمان فوج تھی، اسے بیت المقدس کے دفاع کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔ رچرڈ کے راستے میں جتنے قلعے آئے وہ سب مسمار ہوچکے تھے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ رچرڈ کا دماغ خراب ہونے لگا تھا کہ مسلمان ایسی قربانی بھی دے سکتے ہیں۔ وہ جان گیا کہ بیت المقدس پر قبضہ آسان نہیں۔
اس پر یہ افتاد بھی پڑی کہ فرانس کا بادشاہ اس کا ساتھ چھوڑ گیا۔ انہوں نے عکرہ لے تو لیا تھا لیکن مسلمانوں نے اس کامیابی میں ان کی کمر توڑ دی تھی۔ سلطان ایوبی عکرہ کے ہاتھ سے نکل جانے کا بہت افسوس تھا لیکن اس کی یہ چال کامیاب تھی کہ اس نے صلیبیوں کا جنگی طاقت کا گھمنڈ توڑ دیا تھا۔ اس نے اب پھر اپنا مخصوص طریقہ جنگ شروع کردیا تھا۔ یہ شب خونوں اور چھاپوں کا سلسلہ تھا۔ یورپی مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمان چھاپہ مار رات کی تاریکی میں طوفان کی طرح آتے اور صلیبی فوج کے عقبی حصے پر شب خون مار کر بے تحاشہ نقصان کرتے اور غائب ہوجاتے تھے۔ اس طرح صلیبیوں کے لیے ایک ماہ کا سفر تین ماہ کا ہوجاتا تھا۔ سلطان ایوبی نے صلیبیوں کے کوچ کی رفتار سست کرکے بیت المقدس کا دفاع مضبوط کرلیا۔
٭ ٭ ٭
''جوآنا کچھ کرو… صلیب کی خاطر کچھ کرو''… رچرڈ نے اپنی بہن سے کہا… ''العادل کو ہاتھ میں لو۔ ہم لڑ کر بیت المقدس نہیں لے سکتے''۔
''وہ مجھے چاہتا ہے''… جوآنا نے جواب دیا… ''کوچ کے دوران بھی میری اس سے ملاقات ہوچکی ہے، میں یہ بھی کہہ سکتی ہوں کہ وہ مجھے والہانہ طور پر چاہنے لگا ہے لیکن کہتا ہے کہ مسلمان ہوجائو۔ وہ میری کوئی شرط ماننے پر آمادہ نہیں ہوتا''۔
ادھر سلطان ایوبی نے العادل، اپنے بیٹوں کو سالاروں کو بلا رکھا تھا۔ اس کی زبان پر اب دو ہی لفظ رہتے تھے… ''اسلام اور بیت المقدس''… اس نے ان سب کو بیت المقدس کے دفاع کی ہدایات دیں۔ کانفرنس کے بعد العادل اسے تنہائی میں ملا اور کہا… ''رچرڈ مجھے اپنی بہن پیش کررہا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اپنا مذہب ترک کردوں''۔
''تمہیں اسلام سے زیادہ محبت ہے یا رچرڈ کی بہن سے؟''
''دونوں سے''۔
''تو اسے ا پنے مذہب میں لائو اور شادی کرلو''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں اجازت دیتا ہوں''۔
''میں آپ سے شادی کی اجازت لینے نہیں آیا''… العادل نے کہا… ''میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ رچرڈ جیسا دلیر اور جنگجو بادشاہ بھی ا ن ذلیل ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے اس کی بہن اچھی لگتی ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے مذہب سے غداری نہیں کروںگا''۔
''اور وہ بھی اپنے مذہب سے غداری نہیں کرے گی''۔
''جائے جہنم میں''… العادل نے کہا… ''ان حربوں سے رچرڈ بیت المقدس نہیں لے سکتا''۔
سلطان ایوبی کے چہرے پر رونق آگئی۔ : ۔ یورپی مؤرخوں نے رچرڈ کی اس حرکت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ رچرڈ نے اس شرط پر اپنی بہن العادل کو پیش کی تھی کہ وہ عیسائی ہوجائے لیکن رچرڈ کی بہن نے العادل کو دھتکار دیا تھا۔
یہ پردہ اسی وقت چاک ہوگیا تھا، جب رچرڈ بیت المقدس کے قریب جاکر خیمہ زن ہوا۔ یہاں عکرہ کی جنگ سے زیادہ خونریز معرکوں کی توقع تھی لیکن رچرڈ نے اپنی وہی شرائط پیش کرنی شروع کردیں جو وہ پہلے کرچکا تھا۔ ایک بار سلطان ایوبی نے اس کے ایلچی کے بے عزتی کردی اور اسے فوراً واپس چلے جانے کو کہہ دیا۔ اس دوران سلطان ایوبی کو پتہ چلا کہ رچرڈ اتنا زیادہ بیمار ہوگیا ہے کہ اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں رہی۔ سلطان ایوبی رات کو اپنے خیمے سے نکلا ارو رچرڈ کے خیموں کا رخ کرلیا۔ اس نے صرف العادل کو بتایا کہ وہ کہاں جارہا ہے۔ العادل نے ہنس کرکہا کہ فلاں جگہ رچرڈکی بہن میرے انتظار میں کھڑی ہوگی۔ اسے بھی ساتھ لے جانا۔
جوآنا وہاں کھڑی تھی۔ اس نے گھوڑے کے قدموں کی آہٹ سنی تو دوڑ کر آئی اور بولی… ''تم آگئے العادل؟''… سلطان ایوبی گھوڑے سے اترا اور جوآنا کو گھوڑے پر بٹھا کر خاموشی سے رچرڈ کی خیمہ گاہ کی طرف چل پڑا۔ جوآنا کچھ کہہ رہی تھی۔ سلطان ایوبی نے عربی زبان میں کہا… ''تمہاری زبان میرا بھائی سمجھ سکتا ہے میں نہیں سمجھتا''… یہ جوآنا نہ سمجھ سکی۔
سلطان ایوبی رچرڈ کے خیمے میں داخل ہوا۔ رچرڈ واقعی سخت بیمار تھا۔ اس نے سلطان ایوبی کے ساتھ بات کرنے کے لیے اپنا ترجمان بلا لیا۔ سلطان ایوبی نے پہلی بات یہ کہی… ''اپنی بہن کو سنبھالو۔ میرا بھائی اپنا مذہب ترک نہیں کرے گا… اور مجھے بتائو کہ تمہیں تکلیف کیا ہے۔ میں تمہیں دیکھنے آیا ہوں۔ یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں مرتا دیکھ کر میں حملہ کردوں گا۔ صحت یاب ہوجائے گے تو دیکھا جائے گا''۔
رچرڈ حیرت سے اٹھ بیٹھا اور بے ساختہ بولا… ''تم عظیم ہو صلاح الدین ایوبی… تم سچے جنگجو ہو''… اس نے اپنی تکلیف بتائی۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''ہمارے علاقے میں بیمار ہونے والے کو ہمارے ہی طبیب ٹھیک کرسکتے ہیں جس طرح انگلستان کی فوج یہاں آکر بے کار ہوجاتی ہے، اسی طرح تمہارے ڈاکٹر بھی یہاں آکر اناڑی ہوجاتے ہیں۔ میں اپنا طبیب بھیجوں گا''۔
جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں