داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 72 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, اگست 14, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 72

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔72- یہ چراغ لہو مانگتے ہیں

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کہ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا دشمن اور صلیبیوں کا دوست ہے۔ اس کے حرم میں آنے سے پہلے جوانی کی امنگوں کے ساتھ میرے دل میں ایک اور جذبہ بھی تھا جو مجھے مجبور کرتا تھا کہ میں شادی نہ کروں اور نورالدین زنگی کے پاس جاکر کہوں کہ مجھے کوئی سا جنگی فرض سونپ دیں۔ میں صلیب کے خلاف لڑنا چاہتی تھی۔ میں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کا نام سن رکھا تھا۔ میں نے تیر اندازی سیکھی اور نشانے پر برچھی پھینکنے کی بھی مشق کی مگر میرے جذبے کو اس بدبخت کے حرم میں قید کرکے اسے شراب سے مار دیا گیا۔ سچ پوچھو تو میں اس قلعے میں آئی تو خوش ہوئی تھی کہ ایک جنگجو کی بیوی بن کر آئی ہوں اور یہ جنگجو صلیبیوں کے خلاف لڑے گا لیکن سلطان نورالدین زنگی کی وفات کے فوراً بعد اس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف جنگی تیاریاں شروع کردیں''۔

''یہ ابھی تک سلطان صلاح الدین ایوبی کے مقابلے میں آیا ہے یا نہیں؟''۔ انطانون نے پوچھا۔

''مقابلے میں آنے کو تیار ہے''۔ لڑکی نے جواب دیا۔''لیکن یہ بہت گہرا آدمی ہے، خلیفہ الملک الصالح اور اس کے درباری امراء کا دوست ہے۔ وہ سب سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ گمشتگین نے انہیں وعدہ دے رکھا ہے کہ وہ انہیں اپنی فوج دے گا مگر یہ صلیبیوں کے ساتھ یارانہ گانٹھ کر آزادانہ طور پر سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسے امید ہے کہ وہ بہت سے علاقے پر قبض کرلے گا۔ اگر ایسا ہوا تو وہ حران اور مفتوحہ علاقوں کا بادشاہ بن جائے گا''۔

''تم نے اس کے ساتھ کبھی اس مسئلے پر بات کی ہے؟''

''کی تھی''۔ لڑکی نے جواب دیا۔ ''اس نے میرے دل میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف باتیں ڈالنے کی کوشش کی۔ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کو اپنا پیر اور پیغمبر مانتی ہوں۔گمشتگین کی کسی بات نے بھی مجھ پر اثر نہ کیا تو اس نے میرے ساتھ تعلق توڑ لیا۔ مجھے مارتا پیٹتا بھی رہا۔ اس کے بعد اس نے مجھے کہا کہ تم سلطان صلاح الدین ایوبی کے علاقے میں چلی جائو۔ تم بہت خوبصورت ہو اور نوجوان بھی ہو۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے تین چار سالاروں کو اپنے جال میں پھانس کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف کردو۔ اس نے یہ بھی کہا کہ تمہارے ساتھ دو بہت ہوشیار اور بہت خوبصورت صلیبی لڑکیاں ہوں گی۔ تم تینوں مل کر پہاڑوں کو بھی اپنا مرید بنا سکتی ہو۔ اس نے مجھے طریقے بتائے اور کہا کہ میں جاکر جاسوس بھی کروں اور اگر میں اس کے یہ سارے کام کردوں تو وہ میرے خاندان کو بے اندازہ زر وجواہرات دے گا اور مجھے آزاد کرکے میری پسند کے آدمی کے ساتھ میری شادی کردے گا۔میں نے کوئی بھی شرط نہ مانی''۔

''تم مان لیتی''… انطانون نے کہا۔ ''یہاں سے نکل کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس چلی جاتی''۔

''اس مردود نے اس کے صلیبی دوستوں نے ایسا انتظام کررکھا ہے کہ ان کے دشمنوں کے علاقے میں جاکر کوئی لڑکی یا جاسوس غداری کرے تو اسے اغوا کرکے لے آتے ہیں یا وہیں قتل کردیتے ہیں۔ ان کا تعلق حسن بن صباح کے قاتل فدائیوں کے ساتھ بھی ہے۔ میری روح مر گئی تھی، یہ جسم رہ گیا تھا۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ ایسا ہی کروں جیسے تم نے کہا ہے لیکن ہمت نہیں پڑتی تھی۔ تمہیں دیکھا اور تم میرے قریب آئے تو میری روح جاگ اٹھی۔ میں تمہارا احسان ساری عمر نہیں بھولوں گی کہ تم نے مجھے اپنے دل میں بٹھایا لیکن اتنا ہی کافی نہیں، آئو یہاں سے نکل چلی''۔

''تم یہیں، اسی قلعے میں صلیب کے خلاف اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے دشمنوں کے خلاف لڑ سکتی ہو''۔

''وہ کیسے؟''

''جس طرح تمہارا آقا گمشتگین تمہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کے علاقے میں جاسوسی کے بھیجنا چاہتا ہے، اسی طرح سلطان صلاح الدین ایوبی کو بھی جاسوسوں کی ضرورت ہے جو یہاں رہ کر اسے ان لوگوں کے ارادوں اور دوسرے رازوں سے آگاہ کرتے رہیں''۔

''تمہیں کیسے پتا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو جاسوسوں کی ضرورت ہے؟'' لڑکی نے پوچھا۔

''میں خود سلطان صلاح الدین ایوبی کا بھیجا ہوا جاسوس ہوں''۔ انطانون نے کہا۔ لڑکی اس طرح چونکی جیسے اسے کسی نے خنجر گھونپ دیا ہو۔ ''کیوں؟ تم حیران کیوں ہوگئی ہو؟ میں یروشلم سے نہیں، قاہرہ سے آیا ہوں۔ میری کوئی بہن اغوا نہیں ہوئی''۔

: ''تم نے جہاں اتنے جھوٹ بولے ہیں وہاں یہ بھی جھوٹ ہوگا کہ تم نے مجھے دلی محبت دی ہے''۔ لڑکی نے کہا۔ ''تمہارا پیار اور تمہارے وعدے بھی جھوٹے ہوں گے''۔

''میری محبت کا ثبوت یہ ہے کہ میں نے تمہیں اپنا راز دے دیا ہے''۔ انطانون نے کہا۔ ''یوں سمجھو کہ میں نے اپنی زندگی تمہارے قدموں میں رکھ دی ہے۔ تم گمشتگین کو میری اصلیت بتا کر مجھے مروا سکتی ہو۔ کوئی جاسوس اپنا آپ ظاہر نہیں کیا کرتا۔ مجھے تمہارے جذبے اور تمہاری محبت نے اتنا مجبور کیا کہ میں نے اپنا آپ تم پر ظاہرکردیا ہے۔ محبت کا دوسرا ثبوت اس وقت دوں گا جب یہاں سے اپنا کام کرکے واپس جائوں گا۔ میں اکیلا نہیں جائوں گا، تم میرے ساتھ ہوگی لیکن ایک بات صاف صاف سن لو اگر تمہاری محبت اور میرا فرض اکٹھے میرے سامنے آگئے اور خدا نے میرا امتحان لینا چاہا کہ میں کسے پسند کرتا ہوں تو میں فرض کا انتخاب کروں گا۔ تمہاری محبت کو قربان کردوں گا۔ دھوکہ نہیں دوں گا۔ تم نہیں جانتی کہ جاسوس سے اس کا فرض کیسی کیسی قربانیاں مانگتا ہے۔ سپاہی میدان جنگ میں لڑتا اور مرتا ہے، اس کے دوست اس کی لاش گھر لے جاتے ہیں اور بڑی عزت سے دفن کرتے ہیں۔ جاسوس مارا نہیں پکڑا جاتا ہے۔ دشمن اسے قید خانے میں لے جا کر ایسی ایسی اذیتیں دیتا ہے جو تم سن کر ہی بے ہوش ہوجائو۔ جاسوس مرتا بھی نہیں زندہ بھی نہیں رہتا۔ جاسوس کے لیے فولاد جیسے مضبوط ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں ایسا ہی ایمان لے کر آیا ہوں۔ تم سے محبت کی ہے تو فولاد کی طرح مضبوط رہوں گا مگر ایمان کا حکم نہیں ٹال سکوں گا''۔

لڑکی نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور چوم کر اپنے منہ پر پھیرا۔ اس نے کہا۔ ''تم مجھے بھی اتنا ہی مضبوط پائو گے۔ بتائو میں کیا کروں؟''

انطانون نے اسے بتانا شروع کردیا کہ وہ کیا کرے۔ اس کے لیے ضروری ہدایت یہ تھی کہ وہ گانے بجانے اور پینے پلانے کی ان محفلوں سے غیر حاضر نہ ہوا کرے جس میں صلیبی بھی شریک ہوتے ہیں۔ اگر اسے شراب کے دوگھونٹ پینے پڑیں تو پی لیا کرے اور ان لوگوں میں گھل مل کر ان کی باتیں سنے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو برا بھلا کہے اور ان سالاروں کے سینوں سے یہ راز نکلوائے کہ ان کے جنگی ارادے کیا ہیں۔ صلیبیوں کی باتیں غور سے سنے۔ انطانون نے اس سے ان دو سالاروں کے متعلق پوچھا جن کے متعلق بتایا گیا تھا کہ ہندوستان کے رہنے والے ہیں۔

''شمس الدین علی اور شادبخت کو میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ گمشتگین ان کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتا۔ وہ اکثر یہاں آتے ہیں۔ راگ رنگ میں بھی شریک ہوتے ہیں لیکن شراب نہیں پیتے''۔

''تم ان کے قریب ہوجائو''۔ انطانون نے کہا۔ ''باتوں باتوں میں ان سے پوچھنا۔ ''کیا ارستان میں برف پگھل رہی ہے؟ ''… وہ تم سے پوچھیں گے۔ کیا تم ارستان جارہی ہو؟ تم مسکرا کرکر کہنا… ارادہ تو یہی ہے۔ اس کے بعد وہ تمہارے ساتھ کچھ باتیں کریں گے اور شاید یہ بھی پوچھیں کہ ادھر سے کون آیا ہے۔ تم بتا دینا کہ وہ تمہیں مل جائے گا''۔

''میں کچھ سمجھی نہیں''۔ لڑکی نے کہا۔

''سب سمجھ جائو گی''۔ انطانون نے کہا۔ ''فاطمہ! میں تمہیں کبھی ان جھمیلوں میں نہ ڈالتا لیکن فرض کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی عزیز ترین شے کو بھی اپنے فرض پر قربان کردیں۔ تم مجھے قربان کردو، میں تمہیں قربان کردوں۔ گھبرانہ جانا فاطمہ! آنے والا وقت معلوم نہیں ہمارے لیے کیسے کیسے مصائب اور کیسی کیسی آزمائشیں لا رہا ہے۔ اگر ہم دونوں قید خانے کے جہنم میں چلے گئے یا مارے بھی گئے تو ہمارا خون ضائع نہیں ہوگا۔ خدائے ذوالجلال ہمیں فراموش نہیں کرے گا۔ اسلام کی عظمت کی پاسبانی خون دئیے بغیر نہیں ہوسکتی''۔

''تم مجھے ثابت قدم پائو گے''۔ فاطمہ نے کہا… ''تم نے میرے اس جذبے کو بھی زندہ کردیا ہے جو میں سمجھتی تھی کہ مرگیا ہے''۔

٭ ٭ ٭

انطانون چلا گیا۔ فاطمہ اسے دیکھتی رہی۔ وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا تو فاطمہ نے محسوس کیا کہ وہ اکیلی نہیں۔ اس کے پاس کوئی کھڑا تھا۔ اس نے بدک کر دیکھا۔ حرم کی ہی ایک لڑکی کھڑی تھی۔ وہ بھی فاطمہ کی ہی طرح جوان اور خوبصورت تھی۔ اس نے کہا… ''فاطمہ! اس محبت کا انجام سوچ لو۔ تم آزاد نہیں ہو۔ میرے جذبات بھی تم جیسے ہیں۔ میں بھی پنجرہ توڑ کر اڑ جانا چاہتی ہوں لیکن یہ ممکن نہیں۔ ہماری قسمت میں جو لکھا تھا وہ ہمیں مل گیا ہے۔ دل کو کچل ڈالو۔ اگر دل کی تسکین کا سامان کرنا ہی ہے تو اور بہت ہیں۔ اپنے محافظ کو اتنا بڑا درجہ نہ دو''۔

''کون محافظ؟'' فاطمہ نے حیران سا ہوکر پوچھا۔ ''تم کیا کہہ رہی ہو؟''

''میں نے ابھی وہ نہیں کہا جو میں نے سنا ہے''۔ دوسری لڑکی نے کہا… ''مجھ سے اب کچھ چھپانے کی کوشش نہ کرو۔ تم نے اس کے ساتھ جو سودا کیا ہے وہ تمہیں بہت مہنگا پڑے گا''۔ یہ کہہ کر وہ چلی گئی اور فاطمہ وہیں کھڑی اندھیرے خلائوں میں گھورتی رہی۔

اسے یاد آگیا کہ انطانون اسے کہہ گیا تھا کہ اپنا کام آج ہی سے شروع کردو

۔اسے یہ بھی یاد آگیا کہ اس نے انطانون سے کہا تھا کہ تم مجھے ثابت قدم پائو گے۔ اس نے دل ہی دل میں اس لڑکی پر لعنت بھیجی اور اپنے آپ سے کہا کہ حرم میں ایسی باتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ کوئی لڑکی کسی لڑکی کو ہمدردی سے کچھ سمجھاتی ہے اور بعض آقا کی نظر میں ایک دوسری کو گرانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسے اب ایک سہارا اور قومی جذبے کی تسکین کا ذریعہ مل گیا تھا مگر وہ ناتجربہ کار تھی اسے معلوم نہیں تھا کہ حرم میں کچھ بھی کسی سے چھپایا نہیں جاسکتا اور یہ بھی کہ اس ماحول میں اخلاق اور کردار ناپید ہے اور یہاں کسی بھی وقت کوئی بھی انہونی ہوسکتی ہے۔ گناہوں کی اس پراسرار دنیا میں وہ بہت خطرہ مول لے رہی تھی۔

دو تین روز بعد اس کی ملاقات شمس الدین اور شاد بخت سے ہوگئی۔ اس رات بھی گمشتگین نے بزم عیش وطرب منعقد کی تھی۔ اپنے سالاروں، صلیبی مشیروں اور اعلیٰ افسروں کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے وہ انہیں خوب عیش کراتا تھا۔ ان دو تین دنوں کی ملاقاتوں میں انطانون نے فاطمہ کو ٹریننگ دے دی تھی۔  فاطمہ اس ضیافت میں خوب دلچسپی لے رہی تھی۔ گمشتگین حیران ہوتا ہوگا اور خوش بھی کہ اس لڑکی میں تبدیلی آگئی ہے۔ وہ ہر کسی کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کررہی تھی۔ وہ شمس الدین کے پاس جا رکی اور ادھر ادھر کی باتیں کرتے کرتے اس نے کہا… ''کیا الرستان میں برف پگھل رہی ہے؟''

سالار شمس الدین چونک اٹھا۔ گمشتگین جیسے چالاک اور سخت مزاج قلعہ دار کے حرم کی کسی لڑکی کی زبان سے ایسے الفاظ نکلنے کی اسے توقع نہیں تھی کیونکہ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے جاسوسوں کے خفیہ الفاظ تھے جو بول کر جاسوس ایک دوسرے کو پہچانتے تھے۔ ان الفاظ سے جاسوسوں کے سوا اور کوئی واقف نہیں ہوسکتا تھا۔ شمس الدین کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس قلعے میں کوئی جاسوس قید نہیں تھا جس نے یہ الفاظ بتا دئیے ہوں۔ اس نے کوڈ کا اگلا مکالمہ بولا… ''کیا تم الرستان جارہی ہو؟''

فاطمہ نے مسکرا کر کہا۔''ارادہ تو یہی ہے''۔

شمس الدین باتیں کرتے کرتے فاطمہ کو الگ لے گیا۔ دوسرے لوگ شراب اور رقص میں محو تھے۔ شمس الدین نے اس سے پوچھا۔ ''تم جانتی ہو میں سالار ہوں''۔

''میں کچھ اور بھی جانتی ہوں''۔ فاطمہ کی مسکراہٹ میں طنز نہیں اپنائیت اور ایک مطلب تھا۔

''کون آیا ہے؟'' شمس الدین نے راز داری سے پوچھا۔

''وہ آپ کو مل جائے گا''۔ فاطمہ نے جواب دیا۔

''تم جانتی ہو کہ مجھے دھوکہ دے کر تمہارا انجام کیا ہوگا؟''

''دھوکہ نہیں''۔ فاطمہ نے جواب دیا۔ ''آپ ٹہلتے ٹہلتے بڑے دروازے تک چلے جائیں۔ وہاں دو محافظ کھڑے ہیں۔ پوچھا کہ یروشلم سے کون آیا ہے''۔

شمس الدین دروازے پر چلا گیا۔ وہاں دو محافظ کھڑے تھے جنہیں وہ جانتا تھا۔ اس نے پوچھا۔ ''تم میں سے یروشلم سے کون آیا ہے؟'' انطانون نے آگے بڑھ کر بتایا کہ وہ یروشلم سے آیا ہے۔ شمس الدین نے پوچھا۔ ''تم اگر الرستان کی طرف سے آئے ہو تو وہاں برف پگھل رہی ہوگی''۔

''کیا آپ الرستان جارہے ہیں؟'' انطانون نے پوچھا۔

''ارادہ تو یہی ہے''۔ شمس الدین نے مسکرا کر کہا۔

جب اسے یقین ہوگیا کہ انطانون واقعی جاسوس ہے تو اس نے پوچھا۔ ''وہ لڑکی دھوکہ تو نہیں دے رہی؟''

''نہیں''۔ انطانون نے جواب دیا۔ ''ملاقات کا موقع دیں۔ ساری بات بتائوں گا''۔

ملاقات کا موقع پیدا کرلیا گیا۔ شمس الدین آخر سالار تھا۔ وہ موقع پیدا کرسکتا تھا۔ اس نے انطانون سے پوچھا کہ اس نے فاطمہ کو کس طرح اپنے جال میں پھانسا ہے اور اسے وہ کس طرح اتنا قابل اعتماد سمجھتا ہے کہ اسے خفیہ (کوڈ) الفاظ تک بتا دئیے ہیں۔ انطانون نے اسے شروع سے آخر تک سنا دیا کہ یہ لڑکی کس طرح اسے ملی اور ان کے درمیان کیا کیا باتیں ہوئی تھیں۔

''میں ایک خطرہ محسوس کررہا ہوں''۔ شمس الدین نے کہا۔ ''تم جوان ہو، خوبرو اور تنومند ہو، لڑکی جوان ہے اور اس کی خوبصورتی غیر معمولی ہے۔ جذبات فرض پر غالب آنے کے امکانات مجھے صاف نظر آرہے ہیں۔ تمہارا دن کے دوران اس کے کمرے میں جانا جذبات کے تحت تھا۔ تم نے احتیاط نہیں کی۔ لڑکی میں محبت اور خلوص کی تشنگی ہے۔ تم نے اسے محبت بھی دی خلوص بھی دیا۔ ایسی لڑکیوں کے جذبات نازک اور خطرناک ہوتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ تم اپنے فرض کو رومانی جذبات کے غلبے سے تباہ کردو گے۔ جوانی اور تشنگی مل کر بارود بن جاتی ہیں… کیا تم مجھے یقین دلا سکتے ہو کہ تمہارے دل میں اس لڑکی کی محبت پیدا نہیں ہوگی؟ میں تمہارے ایمان کا متحان لینا چاہتا ہوں''۔

''میں نے اسے اپنے کام کے لیے گرویدہ بنایا ہے''۔ انطانون نے کہا… ''لیکن میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ یہ لڑکی میرے دل میں اتر گئی ہے۔ میں آپ کو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی : قسم کھا کر یقین دلاتا ہوں کہ یہ محبت میرے فرض پر غالب نہیں آئے گی''۔

پھر ان کے درمیان اپنے کام کی کچھ باتیں ہوئیں اور شمس الدین نے اسے کچھ ہدایات دے کر رخصت کردیا۔ اسی روز شمس الدین نے اپنے بھائی شاد بخت کو بتایا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہاں ایک اور آدمی بھیج دیا ہے جس کا نام انطانون ہے اور و ہ محافظ دستے میں شامل ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ ان دونوں بھائیوں کے دو ذاتی محافظ، ان کے اردلی اور دو ملازم بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کے لڑاکا جاسوس تھے۔ شمس الدین اور اس کے بھائی نے انہیں بھی بتایا کہ ان کا ایک اور ساتھی آگیا ہے جس نے یہاں آکر اپنے آپ کو ایک خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ اس کا کارنامہ ہے کہ اس نے قلعہ دار کی ذاتی رہائش گاہ میں سے ایک مچھلی پکڑ لی ہے مگر اس میں خطرہ بھی ہے۔ شمس الدین نے اپنے آدمیوں کو یہ خطرہ تفصیل سے بتایا اور کہا… ''ابھی تک حران میں ہمارا کوئی جاسوس نہیں پکڑا گیا۔ مجھے ڈر ہے کہ انطانون پکڑا جائے گا۔ ہم اس پر نظر رکھیں گے تاہم تم سب کو تیار رہنا ہوگا۔ اگر وہ پکڑا گیا تو ہماری بے عزتی ہوگی۔ یہ ڈر بھی ہے کہ اذیتوں سے گھبرا کر وہ ہم سب کی نشاندہی کردے لیکن مجھے سلطان صلاح الدین ایوبی کا خیال آتا ہے وہ کہیں گے کہ دو سالار اور چھ لڑاکا جاسوس ایک آدمی کی حفاظت نہ کرسکے''۔

''آپ اور ہم موجود تھے تو ایک اور آدمی کے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟'' ایک نے پوچھا۔

''یہی ضرورت تھی جو اس نے پوری کرلی ہے''۔ شمس الدین نے جواب دیا… ''گمشتگین کے حرم تک رسائی ضروری تھی۔ تم ان بحثوں میں نہ پڑو۔ میں جانتا ہوں یہ حسن بن عبداللہ کا فیصلہ ہے جو صحیح ہے۔ میں تمہیں اس کے خطروں سے آگاہ کررہا ہوں۔ تیار رہنا ہوسکتا ہے اس لڑکی کو اغوا کرکے غائب کرنا پڑے۔ اس کے لیے بھی تیار رہو''۔

''ہم تیار ہیں''۔ سب نے کہا… ''لیکن ہمیں بروقت اطلاع ملنی چاہیے''۔

''یہ ممکن نہیں کہ اطلاع بروقت ملے''۔ شمس الدین نے کہا… ''ہوسکتا ہے مجھے بھی اس وقت پتہ چلے جب انطانون شکنجے میں جکڑا ہوا ہو اور اس کی ہڈیاں توڑی جارہی ہوں''۔

''کیا تم دونوں بھائی پسند کرو گے کہ ہم کسی سے مدد لیے بغیر اپنی جنگ آزادی سے لڑیں؟'' گمشتگین سالار شمس الدین اور سادبخت سے پوچھ رہا تھا۔ ''آپ دونوں جانتے ہیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف ہم کئی ایک لوگ ہیں۔ ہم سب نے بظاہر متحدہ محاذ بنا رکھا ہے لیکن ہم دل سے ایک دوسرے کے ساتھ نہیں۔ الملک الصالح بچہ ہے۔ وہ جن امراء کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو شکست دے کر الصالح کو باہر پھینک دیں گے اور خودمختار حاکم بن جائیں گے۔ موصل کا حاکم سیف الدین بھی ہمارا دوست ہے اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا دشمن لیکن وہ بھی اپنی ریاست الگ بنانا چاہتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں نے حران کے گردونواح سے کافی فوج تیار کرلی ہے۔ میں نے صلیبی حکمران ریجنالڈ کو اور اس کے تمام جنگی قیدیوں کو اس معاہدے کے تحت آزاد کردیا تھا کہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے مقابلے میں آئوں تو صلیبی اگر میری مدد براہ راست نہ کریں تو عقب سے یا پہلو سے سلطان صلاح الدین ایوبی پر حملہ کردیں یا اسے حملے کا دھوکہ دے کر اس کی توجہ مجھ سے ہٹا دیں۔ اگر ہم کامیاب ہوگئے تو ایک وسیع وعریض علاقہ آپ کی عمل داری میں ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ ہم سلطان صلاح الدین ایوبی کو شکست دے سکیں گے۔ وہ صلیبیوں کو پسپا کرسکتا ہے۔ صلیبی اس کی جنگی چالوں سے واقف نہیں۔ ہم واقف ہیں کہ ہم بھی مسلمان ہیں اگر اس کی فوج بے جگری سے لڑسکتی ہے تو ہم اس سے زیادہ بہادری کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی پہلی بار حلب میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوا تھا۔ حلب والوں نے اس کے چھکے چھڑا دئیے۔ اس سے میری حوصلہ افزائی ہوئی ہے''۔

شمس الدین اور شادبخت نے اسے بالکل نہ کہا کہ مسلمان کو مسلمان کے خلاف نہیں لڑنا چاہیے اور صلیبی جو ہم سب کے دشمن ہیں ہمیں مدد کا دھوکہ دیں گے، مدد نہیں دیں گے۔ ان دونوں بھائیوں نے اسے یہ بھی یاد نہ دلایا کہ الملک الصالح نے صلیبی حکمران ریمانڈ کو سونے کی شکل میں معاوضہ دیا اور یہ معاہدہ کیا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف جنگ کی صورت میں ریمانڈ اس پر عقب سے حملہ کرے گا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے حلب کا محاصرہ کیا تو ریمانڈ فوج لے کر آگیا مگر سلطان صلاح الدین ایوبی کے صرف چھاپہ مار دستوں نے اسے روک دیا اور ریمانڈ لڑے بغیر واپس چلا گیا تھا۔ شمس الدین اور شادبخت نے گمشتگین کے ساتھ کسی بھی نکتے پر بحث نہ کی۔ اس کی تائید کی اور اسے مشورہ دیا کہ اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی الرستان کی پہاڑیوں میں بیٹھا ہے۔ اس سلسلۂ کوہ ''حماة کے سینگ'' نام کی جو وادی ہے اسے میدان جنگ بنایا جائے تو سلطان صلاح الدین ایوبی کو شکست دی جاسکتی ہے۔ 

 انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ اپنی جنگ آزادی سے بڑی جائے اور صلیبیوں سے مدد لی جائے۔

''مجھے کچھ ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے جاسوس ہمارے درمیان موجود ہیں اور وہ ہر ایک خبر اسے پہنچا رہے ہیں''۔ گمشتگین نے کہا… ''آپ دونوں محتاط اور چوکنے رہیں اور چھان بین کریں''۔

''کہنے کی ضرورت نہیں''۔ سالار شہ بخت نے کہا… ''ہم جانتے ہیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا نظام جاسوسی بہت مضبوط تیز ہے ہم نے یہاں اپنے جاسوس چھوڑ رکھے ہیں جو ہمیں مشتبہ اور مشکوک افراد سے آگاہ کرتے رہتے ہیں''۔

''میں اس معاملہ میں بہت سخت ہوں''۔ گمشتگین نے کہا… ''اگر مجھے اپنے بیٹے کے متعلق بھی شک ہوا کہ جاسوس ہے تو میں اسے بھی شکنجے میں ڈال دوں گا۔ ذرہ بھر رحم نہیں کروں گا''۔

گمشتگین کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ جن دو سالاروں سے اتنے نازک مشورے لے رہا ہے وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے جاسوس ہیں۔ یہ دونوں بھائی تو بہت ہی خطرناک جاسوس تھے۔ کیونکہ وہ دونوں اس کی فوج کے جرنیل تھے اور فوجوں کی کمان انہی کے پاس تھی۔ گمشتگین سے فارغ ہوکر وہ جب اکیلے بیٹھے تو انہوں نے آپس میں یہ سکیم بنائی کہ وہ جب فوج لے کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف جائیں گے تو اسے اپنی پیش قدمی کے متعلق پہلے اطلاع دے دیں گے۔ وہ ان کی فوج کو گھیرے میں لے لے گا اور ہتھیار ڈال دئیے جائیں گے۔ دونوں بھائی دیر تک سکیم بناتے اورہر پہلو پر غورکرتے رہے۔ انہیں ابھی یہ معلوم نہیں تھا کہ گمشتگین کب حملہ کرنا چاہتا ہے۔ انہیں اسے اس پر آمادہ کرناتھا کہ وہ جلدی حملہ کرے۔

٭ ٭ ٭

انطانون اب گمشتگین کی رہائش گاہ کی ڈیوٹی سے ہٹ گیا تھا کیونکہ اس کی ڈیوٹی کے آٹھ دن پورے ہوچکے تھے۔ فاطمہ نے اسے کام کی کچھ باتیں بتائی تھیں۔ اب اس کا فاطمہ سے ملنا مشکل ہوگیا تھا۔ وہ ہر لمحے اسے ملنے کے لیے بیتاب رہتا تھا جس کی ایک وجہ تو اپنے فرض کی ادائیگی تھی اور دوسری وجہ جذباتی اوررومانی تھی۔ فاطمہ نے ایک خادمہ کو ہاتھ میں لے لیا تھا۔ ایک شام اس خادمہ کے ذریعے فاطمہ نے انطانون کو اطلاع بھجوائی کہ رات اسی وقت وہ باغیچے میں آجائے۔ بڑے دروازے سے اندر جانا ناممکن تھا۔ باغیچے کے پیچھے اونچی دیوار تھی۔ فاطمہ نے کہلا بھیجا تھا کہ دیوار کے باہر رسہ لٹک رہا ہوگا۔ اس رات وہاں بہت بڑی ضیافت تھی۔ گمشتگین نے ایسے تمام بڑے بڑے لوگوں کو مدعو کیا تھا جو جنگ میں اس کے مددگار ہوسکتے تھے۔ ان میں صلیبی کمانڈر بھی تھے اور چند ایک مسلمان فوجی افسر بھی جو موصل سے چوری چھپے آئے تھے۔ گمشتگین نے ایسے غیرفوجی آدمیوں کو بھی مدعو کیا تھا جن کے پاس بے انداز دولت تھی۔ اب سب مہمانوں سے وہ جنگ کے لیے مدد لینا چاہتا تھا۔ ان میں شمس الدین اور شاہ بخت بھی تھے اور ان میں گمشتگین کا قاضی ابن الخاشب ابو الفضل بھی تھا۔

یہ اجتماع فاطمہ کے لیے بہت اچھا تھا۔ اسے اس کی اہمیت کا علم ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے مزاج کے خلاف اپنا بنائو سنگار ایسے طریقے سے کیا تھا جس میں مردوں کے لیے بے پناہ کشش تھی۔ اس کی جوانی اور خوبصورتی کی کشش الگ تھی۔ وہ پھدکتی پھر رہی تھی۔ ہر مہمان کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتی تھی۔ اسے جہاں بھی کوئی صلیبی اور اپنی فوج کا کوئی اعلیٰ افسر باتیں کرتا نظر آتا وہاں اس طرح پیٹھ کرکے کھڑی ہوجاتی کہ انہیں شک نہ ہوتا۔ وہ اس کی طرف کان لگا دیتی۔ وہ شمس الدین اور شاہ بخت کے پاس بھی گئی۔ دونوں نے اسے کہا کہ وہ بہت محتاط رہے اور اس کے کان میں کوئی راز کی بات پڑے تو انہیں بتا دے۔ انطانون سے زیاہ ملاقاتیں نہ کرے لیکن اس نے یہ راز ان سے چھپائے رکھا کہ اس نے آج رات انطانون کو بلا رکھا ہے اور تھوڑی ہی دیر بعد وہ اس سے باغیچے میں ملنے جائے گی پھر واپس آکر اپنا کام کرے گی۔ اس نے شام کا اندھیرا گہرا ہوتے ہی خادمہ سے رسہ دیوار کے اوپر بندھوا کر پچھلی طرف لٹکوا دیا تھا۔ دیوار کی اندر کی طرف ایک درخت تھا۔ انطانون کو باہر سے رسے کے ذریعے اوپر آنا اور اسی رسے کو اندر کی طرف لٹکا کر درخت کی اوٹ میں اترنا تھا۔

اس ضیافت میں باہر سے نہایت اعلیٰ درجے کی ناچنے والیاں بلائی گئی تھیں۔ ان کے علاوہ لڑکیوں جیسے خوبصورت نوعمر لڑکے بھی بلائے گئے تھے۔ جو نیم عریاں ہوکر خاص قسم کا رقص کرتے تھے۔ حرم کی ساری لڑکیاں گمشتگین کی اس ہدایت یا حکم کے ساتھ موجود تھیں کہ مہمانوں کو پوری طرح اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کریں۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ اس اجتماع کا مقصد کیا ہے۔ شراب کے مٹکوں کے منہ کھول دئیے گئے تھے۔ فاطمہ بھی اس میں آزاد تھی کہ مہمانوں میں سے کسے ملتی ہے اور اس کے ساتھ کیسی باتیں اور حرکتیں کرتی ہے۔

 محفل کی رونق اور سازوں کے ہنگامے میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور فاطمہ بے چین ہوتی جارہی تھی کیونکہ انطانون کے آنے کا وقت ہوگیا تھا۔ اس وقت وہ ایک صلیبی کمانڈر کے ساتھ باتیں کررہی تھی۔ یہ صلیبی روانی سے عربی زبان بولتا تھا۔ فاطمہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف باتیں کررہی تھی تاکہ یہ صلیبی اپنے دل کی باتیں اگل دے۔ ایسا ہی ہوا۔ وہ فاطمہ کو بتانے لگا کہ وہ کس طرح سلطان صلاح الدین ایوبی کو ختم کریں گے۔ ان باتوں کے دوران اس نے فاطمہ کے ساتھ بے تکلفی پیدا کرلی۔ فاطمہ نے مزاحمت نہ کی۔ اسے کچھ قیمتی راز حاصل ہورہے تھے۔ صلیبی اسے باتوں میں لگائے محفل سے پرے لے گیا۔ چلتے چلتے وہ اندر والے باغیچے میں چلے گئے۔ وہاں روشنی نہیں تھی۔ وہاں جاکر فاطمہ نے محسوس کیا کہ انطانون آگیاہوگا اوراس کے انتظار میں پریشان ہورہا ہوگا۔ اس نے صلیبی سے کہا کہ آئو واپس چلیں لیکن صلیبی ابھی واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ فاطمہ کوئی جھوٹ موٹ وجہ بتائے بغیر بھاگ بھی نہیں سکتی تھی مگر بھاگنے کے سوا چارہ بھی کوئی نہ تھا۔ بھاگنے کی بظاہر وجہ بھی کوئی نہیں تھی۔

صلیبی نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ گھاس پر بٹھا لیا اور اس کے حسن کی تعریفیں شروع کردیں۔ فاطمہ نے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔ صلیبی نشے میں بھی تھا۔ اس نے دست درازی کی تو فاطمہ نے ہنس کر کہا… ''یہ سوچ لو کہ میں کس کی بیوی ہوں''۔

''اسی کی اجازت سے یہ جرأت کررہا ہوں''۔ اس نے کہا اور فاطمہ کو اپنے قریب گھسیٹ لیا۔ کہنے لگا… ''تم جسے اپنا خاوند کہہ رہی ہو وہ تمہارا خاوند نہیں ہے''۔ صلیبی نے کہا… ''اس حقیقت سے تم بھی واقف ہو، اگر وہ تمہارا خاوند ہی ہے تو اس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے اور بادشاہ بننے کے لیے اپنی تمام بیویاں آج رات کے لیے ہم پر حلال کردی ہیں''۔

''وہ بے غیرت ہے''۔ فاطمہ نے غصے کو ہنسی میں دبا کر کہا حالانکہ وہ جانتی تھی کہ یہ صلیبی جو کچھ کہہ رہا ہے ٹھیک کہہ رہا ہے۔

''جو آدمی اپنا ایمان بیچ ڈالتا ہے وہ اپنی بیوی، اپنی بہن اور اپنی بیٹی کی عزت سے بھی دستبردار ہوجاتا ہے۔ تم بے وقوف لڑکی ہو۔ عیش وعشرت سے کیوں بیزار ہو؟ کہتی ہو میں شراب بھی نہیں پیتی''۔

فاطمہ کو دو باتیں پریشان کررہی تھیں۔ پہلی یہ کہ انطانون آگیا ہوگا اور دوسری یہ کہ گمشتگین اگر غیرت مند ہوتا تو وہ دوڑتی اس کے پاس جاتی اور اسے بتاتی کہ یہ آدمی مجھ سے دست درازی کرتا ہے مگر وہاں صورت یہ پیدا کردی گئی تھی کہ کسی مہمان کو خصوصاً کسی صلیبی کمانڈر کو ناراض کرنا گمشتگین کے حکم کی خلاف ورزی تھی۔ وہ اپنی بیویوں کی عصمت کے عوض سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف جنگی مدد لے رہا تھا۔ فاطمہ جال میں الجھ کے رہ گئی۔ وہ اس صلیبی کے منہ پر تھوک نہیں سکتی تھی اور اسے دھتکار بھی نہیں سکتی تھی۔ ان مجبوریوں کے باوجود اپنی عزت سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتی تھی۔ اس کے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کیا کرے۔

اس نے اسے ذرا سلجھے ہوئے طریقے سے ٹالنے کی کوشش کی جو محض بے کار ثابت ہوئی۔ اسے بڑی شدت سے خیال آیا کہ انطانون آگیا ہوگا۔ وہ پیچ وتاب کھانے لگی۔ اس ذہنی کیفیت میں صلیبی نے ایک بے ہودہ حرکت کی۔ فاطمہ بھڑک اٹھی۔ وہ گھاس پر بیٹھے تھے۔ اس نے صلیبی کو بڑے زور سے دھکا دیا۔ وہ پیٹھ کے بل گرا۔ عورت میں غیرت بیدار ہوجائے تو وہ چٹان کو بھی دھکا دے کر گرا سکتی ہے۔ یہ صلیبی تو نشے میں تھا۔ اس نے اسے فاطمہ کا مذاق سمجھا اور قہقہہ لگایا۔ قریب ہی مٹی کا ایک بڑا گملا رکھا تھا۔ فاطمہ کو غصے نے پاگل کردیا۔ اس نے گملا اٹھایا، یہ بہت وزنی تھا۔ گملا اوپر کو اٹھا کر اس نے صلیبی کے منہ پر دے مارا۔ وہ پیٹھ کے بل لیٹا قہقہے لگا رہا تھا۔گملاا س کی پیشانی پر گرا اور اس کے قہقہے خاموش ہوگئے۔ فاطمہ نے گملا پھر اٹھایا۔ صلیبی بے ہوش ہوکر پہلو کے بل ہوگیا تھا۔ فاطمہ نے گملا اپنے سر سے اوپر لے جاکر اس کے سر پر پھینکا اور وہاں سے غلام گردش میں چلی گئی۔ کسی کمرے میں داخل ہوئی اور اندھیرے میں پچھلے باغیچے میں چلی گئی۔

 محفل پر شراب کا نشہ طاری ہوچکا تھا۔ رقص عروج پر تھا۔ شرابیوں کی ہائو ہونے اس قلعہ نما محل کو سر پر اٹھا رکھا تھا۔ کسی کو ہوش نہ تھا کہ کون زندہ ہے اور قتل ہوگیا ہے۔ اس ہنگامے سے لاتعلق ہوکر فاطمہ پچھلے باغیچے میں گئی۔ انطانون کی محبت کے جوش اور نشے میں اسے ابھی یہ احساس نہیں تھا کہ وہ ایک انسان کو قتل کرآئی ہے اور مقتول صلیبی ہے۔ وہ انطانون کو فخر سے سنانا چاہتی تھی کہ اس نے اپنی عزت کی حفاظت میں ایک صلیبی کو قتل کردیا ہے مگر انطانون وہاں نہیں تھا۔ فاطمہ کا دل اس خیال سے ڈوبنے لگا کہ وہ آکر چلا گیا ہے۔ اس نے درخت کے پیچھے جاکر دیکھا کہ رسہ باہر ہے یا رسہ اندر تھا۔ اس کا مطلبہ یہ تھا کہ انطانون آیا ہے۔ اسی لیے رسہ اندر ہے مگر وہ کہاں ہے؟ واپس گیا ہوتا تو رسہ باہر کو ہوتا۔

وہ وہاں کھڑی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ اسے اندھیرے میں ایک سایہ سا حرکت کرتا نظر آیا۔ اس نے غور سے دیکھا۔ اس کی خادمہ معلوم ہوتی تھی۔ فاطمہ نے اسے آہستہ سے آواز دی۔ وہ خادمہ ہی تھی۔ فاطمہ کی طرف دوڑی گئی۔ اس نے فاطمہ سے کہا… ''اسے یہاں نہ ڈھونڈو۔ وہ آیا تھا۔ میں اس کے انتظار میں چھپ کر کھڑی تھی۔ میں نے اسے دیوار پر دیکھا۔ اس نے رسہ اندر پھینکا اور اترنے لگا۔ ادھر سے دو آدمی آتے نظر آئے۔ اس وقت وہ رسے سے اتر رہا تھا۔ دونوں آدمی قریب آگئے۔ میں اسے خبردار نہ کرسکی۔ وہ دونوں درخت کے تنے سے لگ گئے۔ وہ جونہی اترا ان دونوں نے اسے ایسا جکڑا کہ وہ ان سے آزاد نہ ہوسکا۔ میں آپ کو ڈھونڈتی ریہ لیکن میں مہمانوں میں نہیں جاسکتی تھی''۔

فاطمہ کو چکر آگیا اور جب اسے یہ خیال آیا کہ و ہایک صلیبی کو قتل کرآئی ہے تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ یہ الف لیلیٰ کی پراسرار اور طلسماتی دنیا تھی جسے فاطمہ جیسی لڑکی نہیں سمجھ سکتی تھی۔ اسے حرم کی ایک لڑکی نے خبردار بھی کیا تھا کہ وہ ایک محافظ سپاہی کے ساتھ محبت کا کھیل کھیل کر غلطی کررہی ہے۔ اسے اب یہ مسئلہ پریشان کرنے لگا کہ انطانون کو کس نے گرفتار کرایا ہے۔ ان دونوں آدمیوں کو پہلے سے معلوم ہوگا کہ وہ آرہا ہے۔ اب فاطمہ کو یہ خدشہ نظر آنے لگا کہ اسے بھی گرفتار کیا جائے گا۔ اسے اپنی خادمہ پر بھی شک تھا۔ وہ بھی تو مخبری کرسکتی تھی۔

وہ کچھ بھی نہ سمجھ سکی۔ خادمہ کو ساتھ لے کر اس نے اوپر سے رسہ کھلوایا اور اسے کہا کہ اسے کہیں چھپا دے۔ وہ خود انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں سالار شمس الدین اور شاہ بخت کی طرف دوڑ گئی۔ رقص اور شراب کی محفل گرم تھی۔ فاطمہ کو شادبخت نظر آگیا۔ اسے محفل کے اندر سے معلوم ہوا کہ صلیبی کے قتل کا کسی کو پتا نہیں چلا، وہ خراماں خراماں شادبخت تک گئی اور اسے اشارے سے بلایا۔ الگ جاکر اسے بتایا کہ وہ ایک صلیبی کو قتل کر آئی ہے۔ اس نے قتل کی وجہ بھی بتائی۔

شادبخت نے یہ خطرہ محسوس کرتے ہوئے کہ فاطمہ کو کسی نے اس صلیبی کے ساتھ ادھر جاتے دیکھا ہوگا جہاں اس کی لاش پڑی ہے اور اس کے پکڑے جانے کا امکان بڑا واضح ہے۔ اس نے کہا… ''تمہیںاب یہاں نہیں رہنا چاہیے تم اگر گرفتار ہوگئی تو میں ہی بہتر جانتا ہوں کہ گمشتگین تم جیسی خوبصورت لڑکی کا قید خانے میں کیا حال کرائے گا۔ اگر اس کا باپ مارا جاتا تو و ہ پروا نہ کرتا۔ وہ ایک صلیبی کمان دار کے قتل کا بڑا بھیانک انتقام لے گا''۔

''میں کہاں جائو؟'' فاطمہ نے پوچھا۔

''تھوڑی دیر یہیں گھومو پھرو''… شاد بخت نے کہا… ''میرا بھائی شمس الدین آجائے تو اس سے بات کروں گا''۔

''وہ کہاں چلے گئے ہیں؟'' فاطمہ نے خوف سے کانپتی آواز میں پوچھا۔

''کچھ دیر گزری انہیں اطلاع ملی تھی کہ پچھواڑے کی دیوار سے رسے سے پھلانگ کر ایک آدمی اندر آگیا تھا۔ معلوم نہیں وہ کون ہے اور کس ارادے سے اندر آیا تھا۔ شمس الدین اسے دیکھنے اور اسے قید خانے میں ڈالنے یا جو بھی کارروائی مناسب سمجھے گا کرنے کے لیے گیا ہے، اگر تھوڑی دیر تک نہ آیا تو میں خود چلا جائوں گا۔ دل مضبوط رکھنا۔ ہم تمہیں چھپا لیں گے''۔

فاطمہ کے ذہن میں خیال آیا کہ پکڑا جانے والا انطانون ہی ہوگا۔ اسے اطمینان سا ہوا کہ انطانون کو سالار شمس الدین کے حوالے کیا گیا ہے اور وہ اسے بچانے کی کوشش کرے گا۔

وہ انطانون ہی تھا۔ اسے دو سپاہیوں نے پکڑا تھا۔ چونکہ یہ شمس الدین کے شعبے کی ذمہ داری تھی کہ اس قسم کے مجرموں سے پوچھ گچھ کرکے کارروائی کرے اس لیے اسی کو اطلاع دی گئی کہ ایک آدمی دیوار پھلانگ کر اندر آتے پکڑا گیا ہے۔ شمس الدین محفل سے اٹھ کر باہر گیا تو سپاہیوں نے انطانون کو پکڑ رکھاتھا۔ شمس الدین نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ اس مجرم کو نہیں جانتا اس سے پوچھا… ''تم تو شاید محافظ دستے کے جوان ہو۔ دیوار کیوں پھلانگی ہے؟ سچ سچ بتا دو ورنہ سزائے موت سے کم سزا نہیں دوں گا''۔

 انطانون خاموش رہا۔ شمس الدین کو اس خیال سے غصہ آرہا تھا کہ اسے اس نے کہا بھی تھا کہ محتاط رہے اور فرض پر جذبات کو غالب نہ آنے دے۔ اس نے اس ہدایت پر عمل نہ کیا۔ ایک طرف تو اس نے فن کا یہ کمال دکھایا تھا کہ ایک ہی کوشش میں محافظ دستے میں بھی شریک ہوگیا اور فوراً بعد اس نے حرم تک رسائی حاصل کرلی مگر دوسری طرف اس نے ایسی حماقت کی کہ ایک ہی ہلے میں پکڑا گیا۔ جاسوس کی حیثیت سے یہ اس کا جرم تھا لیکن اس کی سزا اسے یہاں نہیں دی جاسکتی تھی۔ یہاں سے اسے بچانا اور نکالنا تھا۔ اس کے ساتھ ہی فاطمہ کو بھی وہاں سے نکالنا ضروری تھا کیونکہ اس انکشاف کا بھی خطرہ تھا کہ انطانون کو فاطمہ نے بلایا تھا اور رسہ لٹکانے کا انتظام اسی نے کیا تھا۔

شمس الدین نے دونوں سپاہیوں کو ایک جگہ بتا کر کہا کہ اسے وہاں لے جائیں اوروہ اسے قید خانے میں لے جانے کا انتظام کرنے جارہا ہے۔ سپاہی اسے لے گئے تو شمس الدین کسی اور طرف چلاگیا۔ اس نے اپنے باڈی گارڈ کو بلایا۔ جو وہیں کہیں موجود تھا۔ باڈی گارڈ چلا گیا۔ اس کے بعد شمس الدین اندر چلا گیا اور اپنے بھائی شادبخت کو اپنے پاس بلایا۔ رقص ہورہا تھا۔ مہمان عش عش کررہے تھے۔ شراب بہہ رہی تھی۔ مشعلوں کے شعلوں اور فانون کی رنگ برنگی روشنیوں نے ناچنے والیوں کے رنگا رنگ لباسوں سے مل کر ایسی رونق پیدا کررکھی تھی جس میں الف لیلیٰ کا طلسم تھا۔ سب مدہوش اور مخمور ہوئے جارہے تھے۔ صلیبی کی لاش ابھی وہیں پڑی تھی۔ اس طلسماتی ماحول اور فضا میں شمس الدین اور شادبخت کے درمیان انطانون اور فاطمہ کے متعلق باتیں ہوئی۔ شادبخت نے شمس الدین کو بتایا کہ فاطمہ ایک صلیبی کو قتل کرچکی ہے۔

انہوں نے فاطمہ کو اپنے پاس بلایا اور اسے اپنے کمرے میں جاکر لباس اور حلیہ بدل کر وہاں سے نکلنے کی ترکیب اچھی طرح سمجھا دی۔ وہ خراماں خراماں وہاں سے غائب ہوگئی۔

جاری ھے

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں