داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 73 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, اگست 14, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 73

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔73- یہ چراغ لہو مانگتے ہیں

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

وہ خراماں خراماں وہاں سے غائب ہوگئی۔ کچھ دیر بعد دربان نے اندر آکر شمس الدین کو اطلاع دی کہ باہر فلاں کمانڈر کھڑا ہے۔ شمس الدین باہر گیا۔ ایک کمانڈر گھبرایا ہوا کھڑا تھا۔ اس نے رپورٹ دی۔ ''انطانون نام کے جس محافظ کو دیوار پھلانگتے پکڑا گیا تھا، وہ فرار ہوگیا ہے''۔

''کیا وہ دو سپاہی مرگئے تھے جن کے حوالے میں انہیں کرکے آیا تھا؟''… کمانڈر نے بتایا ''دونوں سپاہی وہاں بے ہوش پڑے ہیں۔ ان کے سروں پر ضربوں کے نشان ہیں''۔

''معلوم ہوتا ہے یہ اکیلے انطانون کا نہیں ایک سے زیادہ آدمیوں کا کام ہے''… کمانڈر نے بتایا۔ ''دونوں سپاہی وہاں بے ہوش پڑے ہیں۔ ان کے سروں پرضربوں کے نشان ہیں''۔

شمس الدین نے موقعہ واردات پر جاکر دیکھا۔ دونوں سپاہی ہوش میں آچکے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ یہاں کھڑے تھے۔ اندھیرے میں پیچھے سے ان کے سروں پر کسی نے ایک ایک ضرب لگائی اور وہ بے ہوش ہوگئے۔ شمس الدین نے بھاگ دوڑ شروع کردی۔ اس وقت ایک عورت جس نے سر سے پائوں تک برقعے کی طرز کا سیاہ ریشمی لبادہ لے رکھا تھا اور اس میں سے اس کی صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں، گمشتگین کی رہائش گاہ کے بڑے دروازے سے نکلی اور جانے کہاں چلی گئی۔ اس رات مہمانوں کا آنا جانا تو جاری تھا۔ دربان اور محافظوں نے یہ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ یہ کون ہے جو مستور ہوکر جارہی ہے۔

آدھی رات کے بعد جب مہمان رخصت ہوئے تو قلعے کا دروازہ کھول دیا گیا۔ گھوڑے اور بگھیاں گزرنے لگیں۔ انہی میں ایک گھوڑ سوار گزرا جس کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا، اس کے ساتھ دوسرے گھوڑے پر وہی مستور عورت تھی جو گمشتگین کے گھر سے اکیلی نکلی تھی۔ یہ انتظام شمس الدین اور شادبخت نے کیا تھا۔ اس نے ان دو سپاہیوں کو ایک جگہ بتا کر کہا کہ انطانون کو وہاں لے جا کر میرا نتظار کریں۔ اس نے اپنے باڈی گارڈ سے کہا تھا کہ وہ انطانون کو آزاد کرائیں اور اس کے گھر میں چھپا دیں۔ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ شمس الدین اور شادبخت کے باڈی گارڈ، دواردلی اور دو ملازم سلطان صلاح الدین ایوبی کے کمانڈو جاسوس تھے۔ انہوں نے بروقت حرکت کی اور انطانون کو چھڑا کر لے گئے۔ ادھر سے فاطمہ بھی کامیابی سے نکل گئی اور شمس الدین کے گھر پہنچ گئی۔ وہاں انتظامات مکمل تھے۔ جب مہمان نکلے تو انہیں گھوڑے دے کر وہاں سے نکال دیا گیا۔

یہ رات تو رقص اور شراب کی مدہوشی میں گزر گئی۔ اگلی صبح صلیبی کی لاش دیکھی گئی اور گمشتگین کو یہ اطلاع بھی ملی کہ اس کا ایک محافظ اور اس کے حرم کی ایک لڑکی لاپتہ ہے، اس نے یہ حکم دے دیا کہ جن دو سپاہیوں کی حراست سے انطانون بھاگا ہے ان دونوں کو عمر بھر کے لیے قید خانے میں ڈال دیا جائے۔

انطانون اور فاطمہ کا فرار سب کو بھول ہی گیا کیونکہ گمشتگین کے صلیبی دوستوں نے اپنے ایک کمانڈرکے قتل پر اودھم بپا کردیا تھا۔ا نہیں دراصل اپنے کمانڈر کے مارے جانے پر اتنا افسوس نہیں تھا جتنا انہوں نے غل غپاڑہ مچایا تھا۔ وہ دراصل گمشتگین کے ساتھ ناراضگی کا اظہار کرکے اس سے کچھ اور مراعات لینا چاہتے تھے اور یہ شہ دینا چاہتے تھے کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی پر حملہ کردے۔ صلیبی جانتے تھے کہ مسلمانوں کے حرموں میں ایسے ڈرامے کھیلے ہی جاتے رہتے ہیں جن میں لڑکیاں اغواء بھی ہوتی ہیں۔ از خود بھی غائب ہوتی ہیں اور وہاں پر اسرار قتل بھی ہوتے ہیں لیکن وہ گمشتگین کو مجبور کردینا چاہتے تھے کہ سر ان کے قدموں میں رکھ دے۔ جن سے مدد مانگی جاتی ہے وہ اپنی ہر شرط منواتے اور غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ صلیبیوں کی تونیت ہی کچھ اور تھی۔

یہ صورتحال چھپائی نہ جاسکی۔ حلب تک اس کی خبر پہنچ گئی۔ وہاں کے درباری امراء جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑ رہے تھے۔ گمشتگین کو بھی اپنا اتحادی بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے الملک الصالح کی طرف سے گمشتگین کی طرف ایک ایلچی بھیجا۔ اس کے ساتھ رواج کے مطابق بیش قیمت تحائف تھے۔ ان تحائف میں دو جوان لڑکیاں بھی تھیں۔ گمشتگین آرام کررہا تھا۔ ایلچی اور لڑکیوں کو شمس الدین کے پاس لے گئے کیونکہ گمشتگین کے بعد وہی سالار تھا جو سرکاری امور کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اپنے گھر میں لڑکیوں کو الگ بٹھا کر اس نے ایلچی سے پوچھا کہ وہ کیا پیغام لایا ہے۔ اس نے جو طویل پیغام دیا وہ مختصراً یوں تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے حلب کا محاصرہ کیا تو ریمانڈ صلیبی فوج لے کر آیا تھا جس سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے محاصرہ اٹھا دیا مگر ریمانڈ بغیر لڑے فوج واپس لے گیا۔ صلیبی آئندہ بھی ہمیں دھوکہ دیں گے۔ ہم اگر الگ الگ ہوکر سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑیں گے تو ہم سب شکست کھائیں گے۔ ہمیں متحد ہوجانا چاہیے تاکہ : صلاح الدین ایوبی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرسکیں۔

اس پیغام کے ساتھ متحد محاذ بنانے کا ایک منصوبہ تھا جو کچھ اس طرح تھا کہ الرستان کی پہاڑیوں کی برف پگھل رہی ہے۔ جاسوسوں نے بتایا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے سپاہی بلندیوں پر نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ وہاں پگھلتی برف کا پانی ان کے لیے رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ ہمارے لیے یہ موقع اچھا ہے۔ ہم سب اپنی فوجوں کو اکٹھا کرلیں تو سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کو گھیرے میں لے کر اسے شکست دے سکتے ہیں۔ اس منصوبے میں یہ بھی تھا کہ صلیبی حکمران ریجنالڈ کو اپنے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ (گمشتگین) اسے اپنا منصوبہ بتائیں اور اسے اپنا معاہدہ یاد دلائیں جس کے تحت اسے جنگی قید سے رہا کیا گیا تھا۔

شمس الدین نے یہ پیغام شادبخت کو سنایا۔ دونوں بھائیوں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا اور سوچنے لگے کہ یہ پیغام گمشتگین تک نہ پہنچنے پائے۔ وہ دونوں اس کوشش میں تھے کہ گمشتگین اکیلا سلطان صلاح الدین ایوبی سے لڑے کیونکہ اس طرح اس کی شکست کا امکان تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس فوج تھوڑی ہے۔ اس سے وہ اکیلے اکیلے غدار حکمران کو آسانی سے ختم کرسکتا تھا… یہ دونوں بھائی اپنی اصلیت کو چھپانے کے لیے پوری پوری احتیاط کرتے تھے مگر اس موقع پر ان پر جذبات کا غلبہ ہوگیا۔ جذبات کو مشتعل ان لڑکیوں نے کیا۔ وہ اس طرح کہ انہوں نے لڑکیوں سے ان کا مذہب پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مسلمان ہیں۔ عمر کے لحاظ سے وہ نوجوان تھیں۔ شمس الدین اور شادبخت نے افسوس سا محسوس کیا کہ ایک تو مسلمانوں نے اپنے آپ میں یہ کمزوری پیدا کرلی ہے کہ خوبصورت لڑکی کے عوض اپنا ایمان تک الگ پھینک دیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ جن مسلمان لڑکیوں کو شریف گھرانوں میں آباد ہونا ہوتا ہے انہیں لالچی والدین امراء کے حرموں میں دے دیتے ہیں۔

''تم کہاں کی رہنے والی ہو اور ان لوگوں کے ہاتھ کس طرح لگی ہو؟''… شادبخت نے پوچھا۔ ''تمہارے باپ زندہ ہیں؟ بھائی نہیں ہیں؟''

لڑکیوں نے انہیں جو جواب دیا اس سے دونوں بھائیوں کے جذبات بھڑ اٹھے۔ جن علاقوں پر صلیبی قابض تھے وہاں کے مسلمانوں کا جینا حرام ہورہا تھا۔ کسی مسلمان کی عزت محفوظ نہیں تھی۔ پہلے بھی سنایا جاچکا ہے کہ وہاں کے مسلمان باشندے قافلوں کی صورت میں نقل مکانی کرتے تھے۔ ان کے ساتھ تاجر بھی چل پڑتے تھے۔ اس طرح ہر قافلے کے ساتھ لڑکیاں بھی ہوتی تھیں اور مال ودولت بھی۔ صلیبیوں نے قافلوں کو لوٹنے کا انتظام بھی کررکھا تھا۔ یہ تو یورپی مؤرخوں نے بھی لکھا ہے کہ بعض صلیبی حکمران جو مشرق وسطیٰ میں کسی نہ کسی علاقے پر قابض تھے، ان قافلوں کو اپنی فوج کے ہاتھوں لٹواتے تھے۔ لوٹنے والے کمسن لڑکیوں، جانوروں اور مال ودولت کو اڑالے جاتے تھے۔ لڑکیوں کو وہ منڈی میں نیلام کرتے یامسلمان امراء کے ہاتھ فروخت کرتے تھے۔ ان میں کچھ لڑکیاں صلیبی اپنے لیے رکھ لیتے اور انہیں جاسوسی اور اخلاقی تخریب کاری کے لیے تیار کرتے تھے۔ انہیں مسلمانوں کے علاقوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔

ان دونوں لڑکیوں کو قافلے سے چھینا گیا تھا اس وقت دونوں تیرہ چودہ سال کی تھیں۔ وہ فلسطین کے کسی مقبوضہ علاقے سے اپنے کنبوں کے ساتھ کسی محفوظ علاقے کو جارہی تھیں۔ یہ بہت بڑا قافلہ تھا جس پر صلیبی ڈاکوئوں نے رات کے وقت حملہ کیا اور بہت سی لڑکیوں کو اٹھا لے گئے۔ یہ دونوں چونکہ غیرمعمولی طور پر خوبصورت تھیں، اس لیے انہیں الگ کرکے ان کی خصوصی پرورش اور تربیت شروع کردی گئی۔ ان پر غیرانسانی تشدد کیا گیا پھر ان کے ساتھ ایسا اچھا سلوک ہونے لگا جیسے وہ شہزادیاں ہوں۔ انہیں فی الواقع شہزادیاں بنایا گیا۔ شراب پلائی گئی اور نہایت خوبی سے ان کے ذہنوں کو صلیبیوں نے اپنے رنگ میں ڈھال لیا۔ چار پانچ سال بعد جب سلطان نورالدین زنگی فوت ہوگیا تو صلیبیوں کی طرف سے ان دونوں لڑکیوں کو تحفے کے طور پر دمشق بھیجا گیا۔ انہیں صلیبیوں کا ایک مسلمان ایلچی ساتھ لایا تھا۔ یہ صلیبیوں کی خیرسگالی کا تحفہ تھا۔ وہ الملک الصالح اور اس کے امراء کو سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف اور اپنے حق میں کرنا چاہتے تھے۔

 ان لڑکیوں نے بتایا۔ ''ہمارے ذہنوں سے مذہب اور کردار نکال دیا گیا تھا۔ ہم خوبصورت کھلونے بن گئی تھیں لیکن ہمیں جب دمشق بھیجا گیا تو ہمارے ذہنوں میں اپنا مذہب اور کردار بیدار ہوگیا۔ ہمارے خون میں جو اسلامی اثرات تھے، وہ امڈ کر ہماری روحوں پر چھاگئے۔ ہمیں اپنے ماں باپ اور بہن بھائی تو نہیں مل سکتے تھے۔ ہم ان مسلمان حاکموں اور بادشاہوں کو اپنے باپ اور بھائی سمجھ لیا لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی ہمیں بیٹی اور بہن نہیں سمجھا۔ صلیبیوں کے ہاتھوں بے آبرو ہوکر ہمیں اتنا دکھ نہیں ہوا تھا، جتنا مسلمان بھائیوں کے پاس آکر ہوا کیونکہ صلیبیوں سے ہمیں ایسے ہی سلوک کی توقع تھی۔ ہم نے ہر اس مسلمان حاکم کے پائوں پکڑے جن کے حوالے ہمیں کیا گیا۔ ہاتھ جوڑے، اسلام، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے دئیے کہ ہم ان کی بیٹیاں ہیں، مظلوم ہیں، ان کی عزت ہیں مگر ان کی آنکھوں میں شراب اور شیطان نے صلیب اور ستارے میں کوئی فرق نہیں رہنے دیا تھا''۔

''ہمارے اندر انتقام کا جذبہ بیدار ہوگیا۔ جب سلطان صلاح الدین ایوبی دمشق میں آیا تو ہم بہت خوش ہوئیں۔صلیبیوں کے علاقوں میں مسلمان سلطان صلاح الدین ایوبی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ اسے وہ امام مہدی بھی کہتے ہیں۔ وہ دمشق میں آیا تو ہم نے تہیہ کرلیا کہ اس کے پاس چلی جائیں گی اور اسے کہیں گی کہ ہمیں اپنی فوج میں رکھ لے اور کوئی سا کام ہمیں دے دیں مگر ہمیں وہاں سے زبردستی بھگا کر حلب لے آئے۔ اب انہوں نے ہمیں آپ کے پاس بھیج دیا ہے۔ ہم آپ سے بھی توقع نہیں رکھتیں کہ آپ ہمیں بیٹیاں سمجھیں گے۔ ہم اتنا ضرور کہیں گی کہ ہماری عصمت تو ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ہے، اسلام ہاتھ سے نہ جائے۔ ہم صلیبیوں کے ہاں رہیں تو وہاں بھی سلطان صلاح الدین ایوبی اور اسلام کے خلاف منصوبے بنتے دیکھے۔ مسلمانوں کے پاس رہیں تو وہاں بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف ہی باتیں سنیں۔ آپ ہمیں آزمائیں۔ ہم نے سنا ہے کہ صلیبی لڑکیاں یہاں جاسوسی کے لیے آتی ہیں۔ آپ ہمیں اسلام کے دفاع اور فروغ کے لیے اور صلیبیوں کی شکست کے لیے کچھ کرنے کا موقع دیں''۔

ان لڑکیوں کی یہ روائیداد ایسی تھی جس نے شمس الدین اور شادبخت کو شدید جذباتی جھٹکا دیا۔ انہوں نے لڑکیوں سے کہا کہ انہیں اب کسی عیش پرست حکمران کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔

٭ ٭ ٭

وہ باتیں کرہی رہے تھے کہ باڈی گارڈ نے اندر آکر انہیں اطلاع دی کہ قاضی صاحب آئے ہیں۔ دونوں بھائی ملاقات والے کمرے میں چلے گئے۔ وہاں حران کا قاضی ابن الخاشب ابوالفضل بیٹھا تھا۔ وہ ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ اس نے کہا… ''سنا ہے حلب سے ایلچی آیا ہے اور پیغام کے ساتھ تحفے بھی لایا ہے''۔

''ہاں!''… شادبخت نے کہا۔ ''قلعہ دار سوئے ہوئے ہیں، میں نے ایلچی کو اپنے پاس روک لیا ہے''۔

''میں وہ دو تحفے دیکھنے آیا ہوں''… ابن الخاشب نے آنکھ مار کر کہا۔ ''ان کی ایک جھلک دکھادو''۔

دونوں بھائی جانتے تھے کہ یہ قاضی کس قماش کا انسان ہے۔ وہ گمشتگین پر چھایا ہوا تھا۔ شمس الدین نے دونوں لڑکیوں کو اس کمرے میں بلایا۔ قاضی نے انہیں دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹنے لگیں۔ اس کے منہ سے حیرت زدہ سرگوشی نکلی۔ ''آفرین… ایسا حسن؟''

شمس الدین نے لڑکیوں کو دوسرے کمرے میں بھیج دیا۔ قاضی نے کہا ''انہیں میرے حوالے کردو۔ میں خود قلعہ دار کے سامنے لے جائوں گا''۔ اس کی آنکھوں سے شیطان جھانک راہ تھا۔

''آپ قاضی ہیں''… شمس الدین نے اسے کہا۔ ''قوم کی نظروں میں آپ کا مقام گمشتگین سے زیادہ بلند ہے۔ آپ کے ہاتھ میں عدل اور انصاف ہے''۔

: قاضی نے قہقہہ لگایا اور کہا۔ ''تم فوجی احمق ہوتے ہو، تم شہری امور کو نہیں سمجھ سکتے۔ وہ قاضی مرگئے ہیں جن کے ہاتھ میں اللہ کا قانون اور عدل وانصاف ہوا کرتا تھا۔ وہ اپنے حکمران سے نہیں خدا سے ڈرا کرتے تھے بلکہ حکمران بھی ان کے ڈر سے کسی کے ساتھ بے انصافی نہیں کرتے تھے۔ اب حکمران اسے قاضی بناتے ہیں جو ان کی بے انصافیوں کو جائز قرار دے اور جو قانون کو نہیں حکمرانوں کو خوش رکھیں۔ میں اپنے خدا کا نہیں اپنے حکمران کا قاضی ہوں''۔

''اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ کفار تمہارے دلوں پر قابض ہوگئے ہیں''۔ شادبخت نے کہا۔ ''ایمان فروش حکمران کا قاضی بھی ایمان فروش ہوتا ہے۔ تم جیسے قاضیوں اور منصفوں نے امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں تک پہنچا دیا ہے جہاں ہمارے امراء اور حکمران اپنی ہی بیٹیوں کی عصمتوں سے کھیل رہے ہیں۔ یہ آپ کی مسلمان بچیاں ہیں جنہیں آپ اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں''۔

قاضی پر شیطان کا اتنا غلبہ تھا کہ اس نے شمس الدین اور شادبخت کی باتوں کو مذاق میں اڑانے کی کوشش کی اور ہنس کر کہا۔ ''ہندی مسلمان مردہ دل ہوتے ہیں۔ تم ہندوستان سے یہاں کیوں چلے آئے تھے؟''

''غور سے سنو میرے دوست!''… شمس الدین نے کہا۔ ''میں تمہاری عزت صرف اس لیے کرتا رہا کہ تم قاضی ہو، ورنہ تمہاری اصلیت اتنی سی ہے کہ تم میرے ماتحت کمانڈر تھے۔ تم نے خوشامد اور چاپلوسی سے یہ مقام حاصل کرلیا ہے۔ میں تمہاری غیرت کو بیدار کرنے کے لیے تمہیں بتاتا ہوں کہ ہم ہندوستان سے کیوں آئے تھے، چھ سو سال گزرے، محمد بن قاسم نام کا ایک نوجوان جرنیل ایک لڑکی کی پکار اور فریاد پر اس سرزمین سے جاکر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تھا۔ تم جانتے ہو ہندوستان کتنی دور ہے۔تم اندازہ کرسکتے ہو کہ اس لڑکے نے فوج کسی طرح وہاں پہنچائی ہوگی۔ تم خود فوجی ہو۔ اچھی طرح سمجھ سکتے ہو کہ اس نے مرکز سے اتنی دور جاکر رسد اور کمک کے بغیر جنگ کس طرح لڑی ہوگی۔ جذبات سے نکل کر اس کے عملی پہلو پر غور کرو''۔

''اس نے ایسی مشکلات میں فتح حاصل کی جن میں شکست کے امکانات زیادہ تھے۔ اس نے صرف فتح ہی حاصل نہیں کی، ہندوستانیوں کے دلوں پر قبضہ کیا اور کسی ظلم وتشدد کے بغیر اس کفرستان میں اسلام پھیلایا۔ پھر وہ نہ رہا۔ جنہوں نے اتنی دور جاکر ایک لڑکی کی عصمت کا انتقام لیا اور اسلام کا نور پھیلایا تھا، دنیا سے اٹھ گئے اور وہ ملک ان بادشاہوں کے ہاتھ آیا جو مجاہدین کے قافلے میں تھے ہی نہیں۔ انہیں وہ ملک مفت مل گیا۔ انہوں نے وہاں وہی حرکتیں شروع کردیں جو آج یہاں ہورہی ہیں۔ ہندو اسی طرح مسلمانوں پر غالب آتے گئے جس طرح یہاں صلیبی غالب آرہے ہیں۔ سلطنت اسلامیہ سکڑنے لگی اور جب ہم جوان ہوئے تو اس سلطنت کی جڑیں بھی خشک ہوچکی تھیں جسے محمد بن قاسم اور اس کے غازیوں نے خون سے سینچا تھا۔ مسلمان حکمرانوں نے عرب سے رشتہ توڑ لیا۔ ہم دونوں بھائی جن کے خاندان کو عسکری روایات سے پہچانا جاتا تھا وہاں سے مایوس ہوکر یہاں آگئے۔ ہم ہندی مسلمانوں کے ایلچی بن کر آئے تھے۔ ٹوٹے ہوئے رشتے جوڑنے آئے تھے''۔

''سلطان نورالدین زنگی سے ملے تو اس نے بتایا کہ وہ ہندوستان کا رخ کس طرح کرسکتا ہے۔ عرب کی سرزمین غداروں سے بھری پڑی ہے۔ زنگی مرحوم دور کے کسی محاذ پر اس لیے نہیں جاتا تھا کہ اس کی غیرحاضری میں ادھر بغاوت ہوجائے گی جس سے صلیبی فائدہ اٹھائیں گے۔ ہمیں یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کے کردار پر غالب آگیا اور یہاں صلیبی غالب آگیا۔ زنگی نے ہمیں اپنی فوج میں رکھ لیا اور جب گمشتگین سیف الدین اور عزالدین وغیرہ نے صلیبیوں کے ساتھ درپردہ گٹھ جوڑ شروع کردیا تو سلطان زنگی مرحوم نے ہم دونوں کو گمشتگین کی فوج میں اس مقصد کے لیے بھیج دیا کہ ہم اس پر نظر رکھیں کہ اس کی خفیہ سرگرمیاں کیا ہیں''۔

''یعنی تم دونوں جاسوس ہو''۔ قاضی ابن الخاشب نے طنزیہ کہا۔

''میری بات سمجھنے کی کوشش کرو''… شمس الدین نے کہا… ''تم دیکھ رہے ہو کہ ہمارے مسلمان امراء اس مرد مجاہد کے خلاف لڑ رہے ہیں جو اسلام کو صلیب کے عزائم سے محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ آج کا ایلچی بہت خطرناک پیغام لایا ہے''… اس نے پیغام سنا کر کہا… ''گمشتگین پر تمہارا اثر ہے۔ تم اسے روک سکتے ہو تم اگر ہمارا ساتھ دو تو آئو گمشتگین کو اس پر قائل کریں کہ وہ غداروں کے ساتھ اتحاد کرنے کے بجائے، سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ مل جائے۔ ورنہ اسے ایسی شکست ہوگی جو اسے ساری عمر قید خانے میں بند رکھے گی''۔

 ''اس سے پہلے میں تم دونوں کو قیدخانے میں بند کرواتا ہوں''… ابن الخاشب نے کہا… ''دونوں لڑکیاں میرے حوالے کردو''۔

وہ اٹھ کر اس کمرے کی طرف جانے لگا جس میں لڑکیاں تھیں۔ شادبخت نے اسے بازو سے پکڑ کر پیچھے کیا۔ اس نے شادبخت کو دھکا دیا۔ شادبخت نے اسے منہ پر اتنی زور سے گھونسہ مارا کہ وہ پیچھے کو گرا۔ شمس الدین وہاں کھڑا تھا۔ اس نے اپنا ایک پائوں اس کی شہ رگ پر رکھ کر دبایا اور ایسا دبایا کہ تڑپ کر بے حس ہوگیا۔ دیکھا وہ مرچکا تھا۔ ان بھائیوں کا ارادہ قتل کا تھا یا نہیں، وہ مرگیا۔ انہوں نے سوچا کہ اب پکڑے تو جانا ہی ہے۔ انہوں نے اپنے دونوں اردلیوں کو تلواریں اور تیروکمان دے کر دوسرے گھوڑوں پر سوار ہونے کو کہا۔ وہ اور شادبخت ان کے ساتھ گئے اور قلعے کا دروازہ کھلوا کر ان چاروں کو بھاگ جانے کو کہا۔ انہیں انہوں نے یہ ہدایت دی تھی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج تک پہنچ جائیں انہوں نے ان اردلیوں کو تفصیل سے بتا دیا تھا کہ گمشتگین کا منصوبہ کیا ہے۔

چاروں گھوڑے باہر نکلتے ہی سرپٹ دوڑ پڑے۔ دونوں بھائیوں کو بھی نکل جانا چاہیے تھا۔ معلوم نہیں کیا سوچ کر وہ واپس آئے۔ گمشتگین جاگ کر آچکا تھا۔ اس نے ایلچی کو دیکھا تو اس نے پوچھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ اس نے بتا دیا مگر وہاں لڑکیاں نہیں تھیں جو وہ تحفے کے طور پر لایا تھا۔ شمس الدین اور شادبخت نے کہا کہ لڑکیاں جاچکی ہیں کیونکہ مسلمان تھیں۔ ہم نے انہیں وہاں بھیج دیا ہے جہاں ان کی عزت محفوظ رہے گی۔ انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ قاضی کی لاش اندر پڑی ہے۔

گمشتگین نے لاش دیکھی۔ ایلچی دوسرے کمرے میں ان دونوں بھائیوں کی وہ باتیں سن رہا تھا جو وہ قاضی ابن الخاشب سے کررہے تھے۔ گمشتگین جل اٹھا۔ اس نے سالار شمس الدین اور سالار شادبخت علی کو قید خانے میں ڈال دیا۔

حران کے قلعے سے دوچار گھوڑ سوار سرپٹ گھوڑے دوڑاتے نہایت قیمتی راز سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے لے جارہے تھے اور اس وقت الرستان کی پہاڑیوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی حسن بن عبداللہ سے پوچھ رہا تھا کہ ان دونوں بھائیوں کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آئی؟

جاری ھے ،

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں