داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 74 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, اگست 14, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 74

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔74- جب سلطان ایوبی پریشان ہوگیا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سالار شمس الدین اورسالار شادبخت کو جب قاضی ابن الخاشب کے قتل اور تحفے کے طور پر آئی ہوئی دو لڑکیوں کو قلعے سے بھگا دینے کے جرم میں قید خانے میں ڈالا جارہا تھا۔ اس وقت ایسا ہی ایک ایلچی جو اس قلعے میں آیا تھا، موصل میں غازی سیف الدین کے پاس پہنچا۔ غازی سیف الدین خلافت کے تحت موصل اور اس کے گردونواح کے علاقے کا گورنر مقرر کیا گیا لیکن نورالدین زنگی کی وفات کے بعد اس نے اپنے آپ کو والئی موصل کہلانا شروع کردیا تھا۔ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خاندان کا ہی فرد تھا مگر کردار اور ذہنیت کے لحاظ سے سلطان ایوبی کے الٹ تھا۔ موصل اسلامی سلطنت کا حصہ تھا مگر سیف الدین وہاں کا آزاد حکمران بن گیا تھا اور سلطان ایوبی کے مخالفانہ محاذ میں شامل ہوگیا تھا۔ اس کا بھائی عزالدین تجربہ کار جرنیل تھا۔ فوج کی اعلیٰ کمانڈ اسی کے پاس تھی۔ سیف الدین چونکہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا تھا، اس لیے اس کی عادات بادشاہوں جیسی تھیں۔ اس نے حرم میں ملک ملک کی لڑکیاں اور ناچنے والیاں بھررکھی تھیں۔ اس کا دوسرا شوق پرندے رکھنے کا تھا، جس طرح اس نے حرم میں ایک سے ایک خوبصورت لڑکی رکھی ہوئی تھی ، اسی طرح اس نے رنگ برنگے پرندے بھی پنجروں میں بند کررکھے تھے۔ اس کی ذاتی دلچسپیاں حرم اور پرندوں کے ساتھ تھیں۔

اسے اپنے بھائی عزالدین کی عسکری اہلیت پر اعتماد تھا اور اسے توقع تھی کہ وہ سلطان ایوبی کو شکست دے کر اپنی ریاست الگ بنائے رکھے گا۔ اس مقصد کے لیے اس نے حران کے قعہ دار گمشتگین کی طرح اور نام نہاد سلطان الملک الصالح کی طرح اپنے پاس صلیبی مشیر رکھے ہوئے تھے جنہوں نے اسے امید دلا رکھی تھی کہ سلطان ایوبی کے خلاف جنگ کی صورت میں صلیبی اسے جنگی مدد دیں گے۔ اس طرح سلطان ایوبی کے لیے صورت یہ پیدا ہوگئی تھی کہ مسلمانوں کی تین فوجیں اس کے خلاف لڑنے کو تیار اور پابرکاب تھیں۔ ایک حلب میں، دوسری حران میں اور تیسری موصل میں۔ یہ تو بڑے بڑے مسلمان حکمران اور امراء تھے۔ چھوٹے چھوٹے شیخ اور چھوٹی چھوٹی مسلمان ریاستوں کے نواب جن کی تعداد کا علم نہیں، ان تین بڑے حکمرانوں کے حامی، ممد اور معاون تھے۔ انہوں نے ان تینوں کو فوجی اور مالی مدد دینے کا وعدہ کررکھا تھا اور مدد دے بھی رہے تھے۔ انہیں کہا گیا تھا کہ اگر سلطان ایوبی چھا گیا تو جس طرح اس نے شام اور مصرکا الحاق کرکے ایک سلطنت بنا لی ہے، اسی طرح وہ ہر ایک مسلمان ریاست کو اپنی سلطنت میں مدغم کرکے سب کو غلام بنا لے گا۔

وہ بظاہر متحد تھے لیکن اندر سے پھٹے ہوئے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک دوسرے سے کمزور رہیں۔ ان کی حالت چھوٹی بڑی مچھلیوں کی مانند تھی۔ ہر چھوٹی مچھلی بڑی مچھلی سے خائف تھی اور خواہشمند کہ وہ بھی بڑی مچھلی بن جائے۔ سلطان ایوبی اپنے انٹیلی جنس کے نظام کے ذریعے اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کے مخالفین میں نفاق ہے، تاہم وہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ وہ ہر لمحہ اس حقیقت کو سامنے رکھتا تھا کہ تین بڑی فوجیں اس کے خلاف محاذ آرا ہیں۔ فوج آخر فوج ہوتی ہے۔ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ نہیں ہوتی۔ اسے یہ احساس بھی تھا کہ تینوں افواج کے کمانڈر اور جوان مسلمان ہیں اور فن سپاہ گری اور شجاعت جو مسلمان کے حصے میں آئی ہے، وہ خدا نے کسی اور قوم کو عطا نہیں کی۔ صلیبی چار پانچ گنا طاقتور لشکر لے کر آئے تو مسلمان سپاہ نے قلیل تعداد میں انہیں شکست دی اور ان احوال وکوائف میں بھی شکست دی کہ صلیبیوں کا اسلحہ برتر تھا ور فوجیں زرہ پوش تھیں۔ گھوڑوں کو پیشانیاں اور پچھلے حصے بھی زرہ پوش تھے۔

سلطان ایوبی نے حلب کا محاصرہ کرکے دیکھ لیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمان فوج مسلمان فوج کے مقابلے میں آئی تھی۔ حلب کی مسلمان فوج اور وہاں کے شہریوں نے جس بے جگری سے حلب کا دفاع کیا تھا اس سے سلطان ایوبی کے پائو اکھڑنے لگے تھے۔ وہ اس معرکے کو ذہن سے اتار نہیں سکتا تھا۔ سلطان ایوبی پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں پر فوج کشی کررہا ہے۔ یہ الزام عائد کرنے والے اسی عباسی خلافت کے حامی تھے جسے اس نے مصر میں معزول کیا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ مسلمان حکمران اور امراء سلطان ایوبی کے اس عزم کے راستے میں آگئے تھے کہ وہ فلسطین کو آزاد کرائے گا۔ اسے یہ خیال چین نہیں لینے دیتا تھا کہ قبلۂ اول پر کفار کا قبضہ ہے اور وہ یہودیوں کے عزائم سے بھی بے خبر نہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہودی یہ دعویٰ لیے پھرتے ہیں کہ فلسطین ان کا وطن ہے اور قبلۂ اول مسلمانوں کی نہیں، یہودیوں کی عبادت گاہ ہے۔ یہودی فوج لے کر سامنے نہیں آرہے تھے، وہ صلیبیوں کو مالی امداد دے رہے تھے اور انہوں نے جو سب سے زیادہ خطرناک مدد صلیبیوں 

: کو دے رکھی تھی، وہ غیر معمولی طور پر خوبصورت، جوان اور نہایت ہوشیار اور چالاک لڑکیوں کی صورت میں تھی۔ ان لڑکیوں کو جاسوسی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کی کردار کشی کے لیے بھی۔ سلطان ایوبی کو یہ حقیقت اور زیادہ پریشان کرتی تھی کہ صلیبی فوجیں بھی موجود ہیں، جن کے اعلیٰ کمانڈر اور حکمران اس کے مسلمان مخالفین کو شہ دے رہے ہیں۔ ان حالات میں سلطان ایوبی چوکنا تھا۔ وہ اپنی فوج کو نہایت اچھے طریقے سے ڈیپلائے کیے ہوئے تھا اور اس نے انٹیلی جنس کے نظام کو دشمنوں کے علاقے میں بھیج رکھا تھا۔ اس کا جو جنگی پلان تھا، اس میں اس نے زیادہ تر بھروسہ چھاپہ مار (کمانڈو) ٹولیوں اور جاسوسوں پر کیا تھا۔

٭ ٭ ٭

موصل میں بھی حلب کا ایلچی پہنچا۔ الملک الصالح اور اس کے درباری امراء نے والئی موصل کے لیے پیغام کے ساتھ جو تحفے تھے، ان میں اسی طرح کی دو لڑکیاں تھیں جس طرح حران کے قلعہ دار گمشتگین کو بھیجی گئی تھیں۔ حران میں تو دو ہندوستانی جرنیلوں، شمس الدین اور شادبخت نے ان لڑکیوں کو فرار کرادیا۔ قاضی کو قتل کیا اور قید خانے میں بند ہوگئے تھے لیکن موصل میں جو لڑکیاں گئیں، انہیں وہاں کے والی سیف الدین نے بسرو چشم قبول کیا۔ اس کے حرم میں یہ نہایت دل نشیں اضافہ تھا۔ حلب کے ایلچی نے وہی پیغام دیا جو گمشتگین کو دیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ صلیبی حلب والوں کو مدد کے معاملے میں دھوکہ دے چکے ہیں، اس لیے ان پر زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیے اور ان کی دوستی سے ہمیں دستبردار بھی نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی مدد حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم آپس میں متحد ہوکر سلطان ایوبی پر حملہ کردیں۔ وہ الرستان کے سلسلۂ کوہ میں قرونِ حماة (حماخ کے سینگ) کے مقام پر خیمہ زن ہے۔ ہم حملہ کریں گے تو صلیبی اس پر عقب سے حملہ کردیں گے۔

اس پیغام میں ایک پلان بھی تھا جس میں کچھ اس قسم کی وضاحت کی گئی تھی کہ وہاں برف پگھل رہی ہے۔ جاسوسوں کی اطلاعات کے مطابق سلطان ایوبی کی مورچہ بندیاں برف کے بہتے پانی کی وجہ سے تہس نہس ہوگئی ہیں۔ ہم تین فوجوں سے اسے انہیں وادیوں میں محاصرے میں لے کر آسانی سے شکست دے سکتے ہیں۔ پیغام میں کہا گیا تھا کہ گمشتگین کو بھی پیغام بھیجا گیا ہے۔ امید ہے کہ وہ متحدہ محاذ میں اپنی فوج کو شامل کردے گا۔ آپ (سیف الدین) بھی مزید وقت ضائع کیے بغیر اپنی فوج کو مشترکہ کمان میں لے آئیں، تاکہ صلاح الدین ایوبی کو فیصلہ کن شکست دی جائے۔

سیف الدین نے پیغام ملتے ہی اپنے بھائی عزالدین کو، دو سینئر جرنیلوں کو اور موصل کے ایک نامی گرامی خطیب ابن الخدوم ککبوری کو بلایا۔ سب آگئے تو اس نے ایلچی کا یہ پیغام سب کو سنا کر کہا… ''آپ سب میرے اس فیصلے اور ارادے سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ میں صلاح الدین ایوبی کی اطاعت قبول نہیں کروں گا۔ میری رگوں میں بھی وہی خون ہے جو اس کی رگوں میں ہے۔ آپ لوگ مجھے یہ مشورہ دیں کہ میں فوری طور پر اپنی فوج مشترکہ کمان میں دے دوں یا نہیں۔ میرا ارادہ یہ ہے کہ ہماری فوج ظاہری طور پر مشترکہ کمان میں رہے لیکن آپ لوگ اسے الگ تھلگ لڑائیں تاکہ جو علاقہ ہماری فوج فتح کرے اس کا مالک میرے سوا اور کوئی نہ بن سکے''۔

ایک سالار نے کہا… ''آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اس سے بہتر اور کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ا پ کے ارادے اتنے بلند ہیں جو کسی اور کے نہیں ہوسکتے''۔

''صلاح الدین ایوبی صلیبیوں اور سوڈانیوں کو شکست دے سکتا ہے ہمیں نہیں''۔ دوسرے سالار نے کہا… ''آپ اپنی فوج متحدہ محاذ میں شامل کردیں لیکن کمان اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ ہم اپنی فوج کو اس طرح لڑائیں گے کہ ہماری کامیابیاں حلب اور حران کی فوج سے الگ تھلگ نظر آئیں گی''۔

 ''ہم آپ کے حکم پر جانیں قربان کردیں گے، شہنشاہ موصل!'' پہلے سالار نے کہا… ''ہم آپ کو سلطنت اسلامیہ کا شہنشاہ بنائیں گے جس کے خواب صلاح الدین ایوبی دیکھ رہا ہے''۔

''صلاح الدین ایوبی کا سرکاٹ کر آپ کے قدموں میں رکھوں گا''۔ دوسرے نے کہا… ''اس کی فوج الرستان کی وادیوں سے زندہ نہیں نکل سکے گی۔ آپ فوری طور پر کوچ کا حکم دیں۔ فوج تیار ہے''۔

دونوں سالار ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنی وفاداری اور ایثار کا اظہار کررہے تھے۔ عزالدین خاموش بیٹھا اپنی باری کا انتظار کررہا تھا اور خطیب الن المخدوم کبھی ان سالاروں کو اور کبھی سیف الدین کو دیکھتا اور سرجھکا لیتا تھا۔

''عزالدین تمہارا کیا خیال ہے؟'' سیف الدین نے اپنے بھائی سے پوچھا۔

''مجھے آپ کے اس فیصلے سے اتفاق ہے کہ ہمیں سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنا ہے''۔ عزالدین نے کہا… ''لیکن ہمارے سالاروں کو اس قسم کی جذباتی باتیں زیب نہیں دیتیں، جیسی ان دونوں نے کی ہیں۔ صرف یہ کہہ دینے سے کہ ایوبی صلیبیوں اور سوڈانیوں کو شکست دے سکتا ہے، ہمیں نہیں۔ ایوبی کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ میں یہ کہوں گا کہ جس نے کم تعداد میں صلیبیوں کی کئی گناہ زیادہ فوج کو شکست دی ہے، وہ آپ کو بھی شکست دے سکتا ہے۔ جس نے صحرائی فوج برفانی وادیوں میں لڑا کر چار قلعے فتح کرلیے اور ریمانڈ کی فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کیا ہے، وہ برف پگھل جانے کے بعد زیادہ اچھی طرح لڑے گا، ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ دشمن کو کمتر نہیں سمجھنا چاہیے۔ آپ یہ سوچیں کہ وہ حالات کیسے ہیں جن میں آپ کو لڑنا ہے۔ اس میدان کی بات کریں جہاں آپ لڑیں گے اور اس دشمن کی فوج کی بات کریں جو آپ کے مقابل ہیں''۔

عزالدین نے سلطان ایوبی کی فوج کی خوبیاں بیان کیں، پھر سلطان ایوبی کے لڑنے کے طریقے بیان کیے اور جس میدان میں لڑائی متوقع تھی اس کے کوائف پر روشنی ڈال کر کہا… ''برف پگھل رہی ہے اور بہار کی بارشیں اس سال تاخیر سے برس رہی ہیں۔ صلاح الدین ایوبی کی فوج خیموں میں ہے لیکن گھوڑوں کو خیموں میں نہیں رکھا جاسکتا۔ اس وقت اس کی فوج کے جانور درختوں کے نیچے یا کھوہوں اور غاروں میں رہتے ہیں۔ گھوڑے اور اونٹ اس حالت میں زیادہ دیر تندرست نہیں رہ سکتے۔ یہ توقع بھی رکھنی چاہیے کہ ایوبی کے سپاہی پہاڑی علاقے سے اکتا چکے ہوں گے۔ یہ بھی پیش نظر رکھ لیں کہ ہم نے اپنی فوج حلب اور حران کی فوج سے ملا دی تو ایوبی محاصرے میں لیا جاسکے گا لیکن یہ بھی نہ بھولیں کہ مسلمان سپاہی جب مسلمان سپاہی کے آمنے سامنے آئے گا تو اسلام کا ابدی رشتہ انہیں گتھم گتھا کرنے کے بجائے انہیں بغل گیر بھی کرسکتا ہے۔ تلواریں جو وہ ایک دوسرے کے خلاف نکالیں گے، جھک بھی سکتی ہیں اور خون بہائے بغیر نیاموں میں واپس جاسکتی ہیں''۔

''عزالدین!'' سیف الدین نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا… ''تم صرف فوجی ہو، تم صرف خون، تلوار اور نیام کی باتیں سوچ سکتے ہو۔ یہ چالیں مجھ سے سیکھو کہ مسلمان سپاہی کے خلاف کس طرح لڑایا جاسکتا ہے۔ پرسوں ماہ رمضان شروع ہورہا ہے۔ صلاح الدین ایوبی نماز روزے کا جس قدر خود پابند ہے، اتنی ہی پابندی اپنی فوج سے کراتا ہے۔ اس کی تمام فوج روزے سے ہوگی۔ ہم اپنی فوج سے کہہ دیں گے کہ جنگ میں روزے کی کوئی پابندی نہیں۔ محترم خطیب تمہارے پاس بیٹھے ہیں۔ میں ان کی جانب سے اعلان کرادوں گا کہ جنگ میں روزے معاف ہیں۔ ہم حملہ دوپہر کے بعد کریں گے۔ علی الصبح حملہ کیا تو ایوبی کے سپاہی تروتازہ ہوں گے۔ دوپہر کے بعد ہمارے سپاہیوں کے پیٹ میں کھانا ہوگا اور صلاح الدین ایوبی کے سپاہی بھوکے اور پیاسے ہوں گے۔ میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ فیصلہ غلط تو نہیں کہ ہمیں صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنا ہے''۔

''آپ کا یہ فیصلہ برحق ہے''۔ ایک سالار نے کہا۔

''آپ کے فیصلے کو ہم عملی شکل دے کر ثابت کریں گے کہ یہ فیصلہ ہر لحاظ سے صحیح ہے''۔ دوسرے سالار نے کہا۔

''آپ کے فیصلے کے خلاف میں نے کوئی بات نہیں کی''۔ عزالدین نے کہا… ''ایک مشورہ اور دوں گا۔ مجھے آپ محفوظہ میں رکھیں۔ اگر ضرورت پڑی تو میں بعد میں حملہ کروں گا۔ پہلے تصادم کی کمان آپ اپنے ہاتھ میں رکھیں''۔

''ایساہی ہوگا''… سیف الدین نے کہا… ''فوج کو دو حصوں میں تقسیم کرلو اور فوری تیاری کا حکم دے دو۔ محفوظہ میں جو حصہ رکھنا چاہتے ہو، اسے اپنے پاس رکھو''۔

٭ ٭ ٭

 وہاں خطیب ابن المخدوم بھی موجود تھا۔ سیف الدین نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا… ''قابل صد احترام خطیب! آپ نے کئی بار قرآن سے فال نکال کر مجھے خطروں سے آگاہ کیا ہے۔ آپ نے میری کامیابی اور سلامتی کے وظیفے کیے اور خدا کے حضور میرے لیے دعا بھی کی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ آپ سے بڑھ کر میں کسی کو برگزیدہ نہیں سمجھتا۔ اگر کسی انسان کے آگے سجدے کی اجازت ہوتی تو میں آپ کے آگے سجدہ کرتا۔ اب ایسی مہم پر جارہا ہوں جس کی کامیابی مخدوش ہے۔ میں ایک طاقت ور دشمن کے مقابلے میں جارہا ہوں۔ جنگ میں فتح ہوتی ہے یا شکست، مجھے قرآن سے فال نکال کر بتائیے کہ میری قسمت میں فتح لکھی ہے یا شکست''۔

''امیرمحترم!'' خطیب اٹھ کھڑا ہوا۔ کہنے لگا… ''یہ صحیح ہے کہ آپ نے کئی بار مجھ سے قرآن میں سے فال نکلوائی ہے۔ سلطان نورالدین زنگی مرحوم ومغفور کی زندگی میں آپ ڈاکوئوں کے بہت بڑے گروہ کے تعاقب میں گئے تھے تو میں نے قرآن میں سے فال نکال کر آپ کو کامیابی کا مژدہ سنایا اور آپ کامیاب لوٹے تھے۔ صلیبیوں کے خلاف آپ جب بھی گئے، میں نے فال نکالی اور آپ کو خطروں سے خبردار کیا اور کامیابی کی خبر دی۔ اللہ کا شکر کہ میری نکالی ہوئی ہر فال صحیح نکلی مگر ''… خطیب نے پہلے عزالدین کی طرف پھر دونوں سالاروں کو دیکھا اور کہا… ''مگر موصل کے امیر! اب بغیر فال نکالے میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ جس مہم پر آپ فوج لے جارہے ہیں، اس میں کامیاب لوٹیں گے یا ناکام''۔

''جلدی بتائیے، میرے محترم استاد!'' سیف الدین نے بیتاب ہوکر کہا۔

''آپ کو ایسی بری شکست ہوگی جس میں آپ وقت پر نہ بھاگے تو آپ ہلاک ہوجائیں گے''۔ خطیب نے کہا… ''اس مہم پر نہ خود جائیں نہ اپنے بھائی کو بھیجیں، نہ اپنی فوج کو بھیجیں''۔

سیف الدین کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ یہ بتانا مشکل تھا کہ وہ گھبرایا ہے یا ڈرا ہوا ہے۔ عزالدین اور سالاروں پر بھی خاموشی طاری ہوگئی۔ خطیب سیف الدین پر نظریں گاڑے ہوئے تھا۔

''آپ نے قرآن تو کھولا نہیں''۔ سیف الدین نے کہا… ''قرآن کے بغیر آپ نے فال کیسے نکالی؟ میں کیسے مان لوں کہ آپ نے مجھے جو بری خبر سنائی ہے، وہ صحیح ہے؟''

''سنو موصل کے امیر!'' خطیب ابن المخدوم نے کہا… ''میں آج آپ کو بتاتا ہوں کہ قرآن سے جو فالیں نکال کر میں آپ کو کامیابی کے مژدے سناتا رہا، ان کا قرآن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ قرآن کسی جادوگر کی لکھی ہوئی کتاب نہیں۔ قرآن صرف یہ فال بتاتا ہے کہ جو اس مقدس کتاب میں احکامات خاوندی تحریر ہیں، ان پر جو عمل نہیں کرے گا، وہ ناکام اور نامراد رہے گا۔ اس سے پہلے آپ صلیب کے پرستاروں کے خلاف لڑنے گئے تو آپ کے کہنے پر میں نے قرآن کی فال آپ کو بتائی کہ آپ کامیاب لوٹیں گے۔ اس کے بعد آپ جس مہم پر گئے میں نے آپ کو کامیابی کا مژدہ سنایا اور کہا کہ یہ قرآن کی فال ہے۔  ) ہر فال نیک تھی جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ کی ہر مہم اور ہر کام خدا کے حکم کے عین مطابق تھا مگر یہ مہم جس پر آپ جارہے ہیں، خدائی احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ آپ کفار کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔ ان سے مدد مانگ کر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس پر فدا ہونے والوں کے خلاف لڑنے جارہے ہیں''۔

''آپ کیسے کہکہ سکتے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس پر فدا ہونے آیا ہے؟'' سیف الدین نے بھڑک کر کہا… ''میں کہتا ہوں، وہ ایک وسیع سلطنت کی سلطانی کا خواب دیکھ کر آیا ہے۔ ہم اس کا یہ خواب پورا نہیں ہونے دیں گے۔ اسے موت یہاں لے آئی ہے۔ اسے موت کے حوالے کرکے ہم صلیب کے پرستاروں کو ختم کریں گے''۔

''آپ مجھے کھوکھلے لفظوں کا فریب دے سکتے ہیں، خدا کو نہیں''۔ خطیب نے کہا… ''خدا وہ سب کچھ جانتا ہے جو ہم سب نے اپنے اپنے دلوں میں چھپا رکھا ہے۔ فتح اس کی ہے جس نے اپنے نفس پر فتح پالی۔ میں آج آخری پیشنگوئی کررہا ہوں۔ شکست آپ کا مقدر ہوچکی ہے اگر آپ اسلام کے پرچم تلے چلے جائیں اور اللہ کی راہ میں قتال اور جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوں تو آپ کے مقدر کا لکھا ٹل سکتا ہے''۔

''محترم خطیب!'' عزالدین بول پڑا… ''آپ اپنے مذہب اور اپنی مسجد سے سروکار رکھیں۔ جنگی امور اور سلطنتوں کے معاملات کو اپنے آپ نہیں سمجھ سکتے۔ آپ ہمارا دل اور ہمارا جذبہ توڑنے کی کوشش نہ کریں۔ ہم ان عناصر سے مالا مال ہیں جن سے جنگ جیتی جاسکتی ہے''۔

''اگر آپ جنگ کو مذہب او ر مسجد سے الگ کرکے لڑیں گے تو نہ آپ کا دل ساتھ دے گا نہ جذبہ''۔ خطیب نے کہا… ''آپ نے صحیح فرمایا کہ میں جنگی امور سمجھنے سے قاصر ہوں لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ جنگ صرف ہتھیاروں اور گھوڑوں سے نہیں جیتی جاسکتی ہے اور جنگ اس عسکری قابلیت سے بھی نہیں جیتی جاسکتی : جس پر آپ کو ناز ہے اور جس کے بھروسے پر آپ قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ایک عنصر اوربھی ہے جو فتح کو شکست میں بدل دیا کرتا ہے''۔

سب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس نے کہا… ''جس قوم کا حکمران خوشامد پسند ہوجائے وہ اپنے ساتھ قوم اور ملک کو بھی لے ڈوبتا ہے۔ وہ حکومت کے امور خوشامدیوں اور غلامانہ ذہنیت رکھنے والوں کے حوالے کردے تو وہ ایک آزاد اور خود دار قوم کو بھوکی، ننگی اور غلام رعایا میں بدل دیتے ہیں اور جب یہ حکمران فوج کی کمان خوشامدی سالاروں کو دے دیتے ہیں تو ملک کو دشمن کھا جاتا ہے۔ خوشامدی سالار اپنے ماتحتوں سے خوشامد کرواتے ہیں پھر ان کا مقصد قوم اور ملک کے لیے لڑنا نہیں بلکہ حکمران کی خوشنودی حاصل کرنا بن جاتا ہے۔ میں نے آپ کے اس دربار میں دیکھا ہے کہ دونوں سالاروں نے آپ کی ہاں میں ہاں ملائی ہے اور ایسی جذباتی باتیں کیں ہیں جو جنگجو نہیں کیا کرتے۔ دونوں نے آپ کے فیصلے اور ارادے کی تعریف تو کردی ہے لیکن آپ کو خطروں سے خبردار نہیں کیا۔ انہوں نے آپ کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ صلیبی تم سب کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ مسجد اقصیٰ پر کفار کا قبضہ ہے۔ لہٰذا ان حالات میں بہتر یہ ہوگا کہ آپ، گمشتگین اور حلب کے امراء وغیرہ صلاح الدین ایوبی کے پاس جائیں اور اگر آپ ہی سچے ہیں تو اسے جھوٹا اور سلطنت کا لالچی ثابت کریں''۔

''مگر آپ کے سالاروں نے آپ کو ایسا کوئی مشورہ نہیں دیا۔ آپ کے سالاروں نے آپ کو یہ بھی نہیں بتایا کہ صلاح الدین ایوبی نے الرستان کے پہاڑی علاقے کو اڈہ بنا کر اپنے دستے دور دور تک اس طرح پھیلا دئیے ہیں کہ آپ اسے محاصرے میں لینے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ آپ اس کے چھاپہ ماروں سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن آپ کے سالاروں نے آپ کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر یہ پہلو آپ کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے کہ ایوبی کے جاسوس اور چھاپہ مار آپ کے سینے سے راز نکال کر لے جاسکتے ہیں اور آپ کے حرم کی لڑکیوں کو اٹھا کر لے جاسکتے ہیں۔ آپ کی فوج یہاں سے کوچ کرے گی تو صلاح الدین ایوبی کو آپ کی فوج کی رفتار، تعداد اور کوچ کی سمت کا علم ہوجائے گا''۔

''سلطان موصل!'' ایک سالار نے غصے میں آکر کہا… ''کیا ہم اپنی توہین برداشت کرتے رہیں؟ مسجد میں دن رات بیٹھ کر اللہ ہو، اللہ ہو کا ورد کرنے والا ہمارا استاد بننے کی جسارت کررہا ہے۔ یہ آپ کے فیصلے کی مخالفت کرکے ہمارے سامنے آپ کی توہین کررہا ہے''۔

''مجھے سن لینے دو''۔ سیف الدین نے کہا… ''میں محترم خطیب کو ابھی تک احترام کی نگاہوں سے دیکھ رہا ہوں''۔

''بولیے محترم خطیب!'' عزالدین نے طنزیہ کہا… ''اس کے بعد آپ کو یہ بتانا ہوگا کہ آپ کی وفاداریاں کس کے ساتھ ہیں۔ ہمارے ساتھ یا صلاح الدین ایوبی کے ساتھ''۔

''میری وفاداریاں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہیں''۔ خطیب نے عزالدین سے کہا… ''میں آپ کی تعریف اتنی سی کروں گا کہ آپ نے اپنے بھائی کو دوچار باتیں تو حقیقت کے رنگ میں بتائی ہیں۔ باقی آپ نے بھی دماغ اور آنکھیں بند کرکے بات کی ہے۔ عماد الدین بھی تو آپ کا بھائی ہے کبھی سوچا آپ نے کہ وہ صلاح الدین ایوبی کا دوست کیوں ہے اور آپ کی حمایت کے لیے کیوں نہیں آتا؟''

''آپ ہمارے خاندانی معاملات میں دخل نہ دیں''۔ عزالدین نے کہا… ''آپ دراصل ہم پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر ہے اور ہم سب کو اس کے آگے سجدے کرنے چاہئیں۔ آپ کو صرف یہ کہا گیا تھا کہ قرآن سے فال نکال کر بتائیں کہ ہماری یہ مہم کامیاب رہے گی یا ناکام''۔

''قرآن اپنا حکم صادر کرچکا ہے''۔خطیب نے آواز میں جوش پیدا کرتے ہوئے کہا… ''اب میں آپ کے سامنے حقیقت پوری طرح بے نقاب کرتا ہوں۔ صلاح الدین ایوبی خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر نہیں، وہ ایک طوفان ہے، ایک سیلاب ہے جو کفر کو گھاس کی سوکھی ہوئی پتیوں کی طرح بہالے جانے کے لیے دمشق سے اٹھا ہے۔ آپ سب درخت سے ٹوٹ کر گری ہوئی ٹہنیاں ہیں۔ آپ کے پتے مرجھا رہے ہیں جو جھڑ کر اس طوفان کے ساتھ غائب ہوجائیں گے۔ ایوبی نے آپ پر چڑھائی نہیں کی۔ آپ اس کے راستے میں آگئے ہیں۔ آپ کا حشر وہی ہوگا جو سیلاب کے راستے میں آنے والوں کا ہوتا ہے''۔

''خطیب!'' سیف الدین نے گرج کر کہا… ''میرے دل سے اپنا احترام نہ نکالو''۔

: ''تم!… سیف الدین!''… خطیب نے بارعب آواز میں کہا… ''تم زمین کے اس ذرا سے خطے کے بادشاہ ہو، ڈرو اس کی ذات سے جو دونوں جہان کا بادشاہ ہے۔ میرا احترام نہ کرو، میرے منہ پر تھوک دو مگر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے سے نہ ہٹو۔ تم پر بادشاہی کا نشہ طاری ہے۔ ان بے وقار سالاروں نے تمہاری حکومت کے عہدیداروں نے تمہیں خوش رکھنے کے لیے تمہیں بادشاہ بنا ڈالا ہے۔ تم نہیں سمجھتے کہ یہ محض خوشامد ہے اور تم بادشاہ نہیں ہو۔ تم نہیں جانتے کہ یہ بے وقار خوشامدی تمہارے دشمن ہیں، اپنی قوم کے اور اپنے ملک کے دشمن ہیں۔ تم پر زوال آئے گا تو یہ تمہیں پہچاننے سے بھی انکار کردیں گے اور اس کے پاپوش چاٹیں گے جو تمہاری گدی پر بیٹھے گا۔ مجھے غصے سے نہ دیکھ سیف الدین۔ اپنا گھر دوزخ میں نہ بنا۔ تاریخ سے عبرت حاصل کر۔ ان غلاموں کی ذہنیت والوں نے ایک سے ایک جابر بادشاہ کو گدا کیا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ہوتا رہے گا۔ افسوس اس پر ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت بھی اس تباہی کے راستے پر چل پڑی ہے۔ تیرے جیسے بادشاہ امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تاریخ کی نظروں سے اوجھل کرکے ہی دم لیں گے''۔

''لے جائو اسے یہاں سے''۔ سیف الدین غصے سے کانپتی آواز میں گرجا… ''اسے وہاں بند کردو جہاں سے اس کی آواز میرے کانوں تک نہ پہنچ سکے''۔

ایک سالار کے پکارنے پر دو باڈی گارڈ اندر آئے۔ انہیں حکم دیا گیا کہ خطیب کو قید خانے میں لے جائیں۔ اسے جب دونوں بازوئوں سے پکڑ کر لے جارہے تھے تو سیف الدین کو اس کی آوازیں سنائی دیتی رہیں… ''بادشاہی کا لالچ مذہب سے بیگانہ کرتا ہے، خوشامد پسند حکمران ملک اور قوم کو بیچ کھاتا ہے۔ کافر کی دوستی دشمنی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ فلسطین ہمارا ہے، فلسطین میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے۔ تمہیں کافر اس لیے آپس میں لڑا رہا ہے کہ فلسطین پر اس کا قبضہ رہے۔ آپس میں لڑتے رہو گے تو قبلۂ اول تم پر لعنت بھیجتا رہے گا''۔

خطیب المخدوم کو گھسیٹ کر لے جارہے تھے اور وہ بلند آواز سے بولتا جارہا تھا۔ بہت سے فوجی باہر نکل آئے اور آن کی آن میں یہ خبر تمام تر موصل میں پھیل گئی… ''خطیب المخدوم پاگل ہوگیا ہے… خطیب کو قید خانے میں بند کردیا گیا ہے''… یہ آوازیں شہر میں گھومتے پھرتے خطیب کے گھر کے دروازے میں داخل ہوگئیں۔ اس گھر میں خطیب کی نوجوان بیٹی تھی۔ اس گھر میں یہی دو افراد تھے۔ یہ لڑکی اور اس کا باپ خطیب۔ خطیب کی یہ واحد اولاد تھی۔ اس کی بیوی عرصہ گزرا مرگئی تھی۔ خطیب نے دوسری شادی نہیں کی تھی۔ وہ اس بیٹی کے سہارے جی رہا تھا اور بیٹی اس کی خاطر زندہ تھی۔

بہت سی عورتیں اس کے گھر میں چلی گئیں۔ یہ گھر سب کے لیے بڑا قابل احترام تھا کیونکہ یہ خطیب کا گھر تھا۔ عورتوں نے لڑکی سے پوچھا کہ اس کے باپ کو اچانک کیا ہوگیا ہے؟ کیا واقعی وہ پاگل ہوگیا ہے؟

''ایسا ہونا ہی تھا''۔ لڑکی نے کہا… ''ایسا ہونا ہی تھا''… اس کے انداز میں ٹھہرائو سا تھا۔ افسوس اور گھبراہٹ نہیں تھی۔ اس کے بعد اس کے پاس جو بھی عورت آئی لڑکی نے یہی کہا… ''ایسا ہونا ہی تھا''۔

''موصل میں خطیب کو قید خانے میں ڈال دیا گیا، حران میں دو سالاروں شمس الدین اور شادبخت کو گمشتگین نے قید خانے میں ڈال دیا تھا۔ گمشتگین کو پہلی بار پتہ چلا کہ اس کے یہ دونوں سالار دراصل صلاح الدین ایوبی کے آدمی ہیں اور جاسوس ہیں۔ ان دونوں کو قید خانے میں ڈال کر گمشتگین رات کے وقت قید خانے میں گیا۔ شمس الدین اور شادبخت کو ان کی کال کوٹھریوں سے نکلوا کر انہیں اس جگہ لے گیا جہاں قیدیوں سے راز اگلوانے کے لیے کئی ایک وحشیانہ طریقے اختیار کیے جاتے تھے، وہاں دو آدمی اس طرح لٹکے ہوئے تھے کہ چھت کے ساتھ بندھی ہوئی رسیوں سے ان کی کلائیاں بندھی ہوئی تھیں۔ ان کے پائوں زمین سے کوئی دوفٹ اوپر تھے اور ٹخنوں کے ساتھ کم وبیش دس دس سیر وزن کے لوہے کے ٹھوس گولے بندھے ہوئے تھے۔ موسم سرد ہونے کے باوجود ان کے جسموں سے پسینہ اس طرح پھوٹ رہا تھا جیسے ان پر پانی انڈیلا گیا ہو۔ ان کے بازو کندھوں سے الگ ہوئے جارہے تھے، وہاں خون کی بدبو تھی اور گلی سڑی لاشوں کا تعفن بھی''۔

''انہیں دیکھ لو''۔ گمشتگین نے دونوں بھائیوں سے کہا… ''اس قید خانے میں آنے تک تم میری فوجوں کے مالک تھے، شہزادے تھے۔ اب تم بے کار جذبات میں الجھ کر اس دوزخ میں آگئے ہو۔ تم غدار ہو۔ تم میری آستین میں سانپوں کی طرح پلتے رہے ہو۔ میں تمہیں اب بھی بخش دینے کے لیے تیار ہوں۔مجھے صرف یہ بتا دو کہ جن لڑکیوں کو تم نے یہاں سے بھگایا اور جو دو آدمی ان کے ساتھ گئے ہیں، وہ کہاں گئے ہیں اور یہاں سے کیا کیا راز لے کر گئے ہیں''… شمس الدین اور شاد بخت مسکرا دئیے اور خاموش رہے۔ گمشتگین نے کہا… ''وہ صلاح الدین ایوبی کے پاس گئے ہیں، کیا یہ جھوٹ ہے؟'' دونوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ گمشتگین نے کہا… ''ان دونوں کو دیکھ لو۔ یہ تو جوان ہیں، اس لیے ابھی برداشت کررہے ہیں۔ تم دونوں کو میں نے ان کی طرح لٹکا کر پائوں کے ساتھ وزن باندھ دیا تو تم تھوڑی سی دیر میں اپنا سینہ کھول کر میرے سامنے رکھ دو گے۔ اس کے بغیر ہی مجھے سب کچھ بتا دو''۔

''وہ کوئی راز نہیں لے گئے''… شمس الدین نے کہا… ''یہاں کوئی راز نہیں۔ تمہارے متعلق سلطان ایوبی اچھی طرح جانتا ہے کہ تم صلیبیوں کی مدد سے اس کے خلاف لڑنے کی تیاری میں ہو۔ ایوبی پوری تیاری کرکے تمہاری سرکوبی کے لیے آیا ہے۔ یہاں سے کوئی کیا راز لے جائے گا۔ راز صرف یہ فاش ہوا ہے کہ ہم دونوں بھائی تمہاری فوج کے سالار تھے۔ تم ہمیں معتمد سمجھتے رہے لیکن ہم دراصل سلطان ایوبی کے آدمی ہیں''۔

''میں دوسرا راز بھی تمہیں بتا دیتا ہوں''… شمس الدین کے بھائی شادبخت نے کہا… ''یہ اتفاق ایسا ہوگیا ہے کہ دو مسلمان لڑکیاں تمہارے پاس تحفے کے طور پر آگئیں۔ ہمیں پتہ چل گیا کہ وہ مظلوم ہیں اور مسلمان ہیں۔ تمہارا بنایا ہوا قاضی ابو الخاشب تم سے پہلے ان لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ ہم نے لڑکیوں کو اپنی بیٹیاں سمجھ کر بھگا دیا اور ابو الخاشب نے ہمارے لیے ایسے حالات پیدا کردئیے کہ ہم نے اسے قتل کردیا اور تمہیں پتہ چل گیا۔ تم نے ہمیں قید کردیا اگر ہم قید نہ ہوتے تو ہمارا ارادہ یہ تھا کہ جب تم سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف ہمیں بھیجو گے تو ہم پوری فوج کو سلطان ایوبی کے گھیرے میں لے جا کر ہتھیار ڈال دیں گے۔ ہماری یہ آرزو پوری نہ ہوسکی''۔

''ہم پھر بھی کامیاب ہیں''… شمس الدین نے کہا… ''تم ہمیں سزائے موت دے دو، ہمیں چھت سے لٹکا کر ہمارے پائوں کے ساتھ بیس بیس سیر وزن باندھ دو، ہمارے بازو کندھوں سے الگ کردو، ہمیں اذیت کا کچھ احساس نہیں ہوگا۔ اللہ کی راہ پر چلنے والوں کے لیے تیر پھول بن جاتے ہیں۔ جسم فنا ہوجاتے ہیں، روحیں نہیں مرا کرتیں۔ اللہ کی راہ میں قربان ہونے والوں کی روحیں اللہ کو عزیز ہوتی ہیں''۔

''مجھے وعظ نہ سنائو''… گمشتگین نے کہا… ''مجھے وہ راز بتائو غدارو، جو تم نے صلاح الدین ایوبی کو بھیجا ہے''۔

''تم ہمیں غدار کہتے ہو؟''… شمس الدین نے کہا… ''یہی راز ہے جسے تم چھپانا چاہتے ہو کہ غدار کون ہے۔ تم یہ راز آنے والی نسلوں سے اور تاریخ سے بھی نہیں چھپا سکو گے کہ تم غدار ہو۔ تاریخ پکار پکار کر کہے گی کہ صلاح الدین ایوبی فلسطین کو صلیبیوں سے آزاد کرانے کے لیے نکلا تھا مگر گمشتگین نام کا ایک مسلمان قلعہ دار اس کے راستے میں حائل ہوگیا تھا''۔

''تم اگر اتنے پکے مسلمان ہوتے تو ہندوستان ہندوئوں کے حوالے کرکے نورالدین زنگی کے پاس نہ بھاگے آتے''… گمشتگین نے طنزیہ کہا… ''تم غلام ملک سے آئے ہو''۔

''ہندوستان کو ہم نے ہندوئوں کے حوالے نہیں کیا تھا''… شادبخت نے جواب دیا… ''وہاں بھی تم جیسے مسلمان موجود تھے، جنہوں نے ہندوئوں سے دوستی کی اور تمہاری طرح اپنی ذاتی بادشاہی کے خواب دیکھے۔ بادشاہی کا نشہ انہیں لے بیٹھا اور ہندو سارے ملک پر ہاتھ صاف کرگیا اگر ملک کی قسمت سالاروں کے ہاتھ میں ہوتی تو آج ہندوستان عرب کی سرزمین کے ساتھ ملا ہوا تھا مگر وہاں کی فوج کو بادشاہوں نے اپنا غلام بنا لیا تھا''۔

''میں تمہیں دو دن اور سوچنے کا موقع دیتا ہوں

: گمشتگین نے کہا… ''اگر میرے سوالوں کے جواب مجھے دے دو گے تو ہو سکتا ہے تمہیں اس جہنم سے نکال کر تمہارے گھروں میں تمہیں نظر بند کردوں اگر مجھے مایوس کرو گے تو میں تمہیں سزائے موت نہیں دوں گا۔ انہی کال کوٹھڑیوں میں پڑے گلتے سڑتے رہو گے، سوچ لو''… اور وہ حکم دے کر انہیں کوٹھڑیوں میں بند کردیا جائے، چلا گیا۔ گمشتگین نے اپنے قلعے میں صلیبی مشیر رکھے ہوئے تھے۔ اس نے ان پر واضح کردیا کہ ان کا ایک ساتھی جو قتل ہوگیا ہے وہ کسی سازش کا شکار نہیں ہوا، بلکہ وہ حرم کی ایک لڑکی کے ہاتھوں قتل ہوا ہے۔ گمشتگین نے انہیں یہ بھی بتایا کہ اس نے اپنے دو سالاروں کو قاضی کے قتل اور غداری کے جرم میں قید خانے میں ڈال دیا ہے۔ اس نے ان سے مشورہ لیا کہ وہ فوری طور پر سلطان ایوبی کے خلاف فوج بھیجنا چاہتا ہے۔

''مجھے معلوم نہیں کہ ان دونوں سالاروں نے کیسے کیسے راز صلاح الدین ایوبی کو بھیج دئیے ہیں''۔ گمشتگین نے کہا… ''پیشتر اس کے کہ وہ ان رازوں سے فائدہ اٹھائے، ہمیں حملہ کردینا چاہیے۔ اس صورت میں مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہوگی''۔

صلیبی مشیروں نے مدد کا وعدہ کیا اور کہا کہ وہ اپنے ایک آدمی کو آج ہی رات صلیبیوں کے کیمپ کو روانہ کردیتے ہیں۔ اسی رات ایک صلیبی روانہ ہوگیا۔

موصل میں خطیب المخدوم قید خانے کی ایک کوٹھری میں بند تھا اور اس کی نوجوان بیٹی جس کا نام صاعقہ تھا، گھر میں اکیلی بیٹھی تھی۔ دن بھر عورتیں اس کے پاس جاتی رہی تھیں اور صاعقہ سب سے یہی کہتی رہتی تھی… ''ایسا ہی ہونا تھا''… عورتوں نے غور نہیں کیا تھا کہ اس سے اس کا مطلب ہے۔ دو جوان لڑکیوں نے اس کے ان الفاظ اور انداز کو نظر انداز نہ کیا۔ انہیں کچھ شک ہوا۔ رات جب صاعقہ گھر میں اکیلی تھی۔ یہ دونوں لڑکیاں اس کے گھر میں داخل ہوئیں۔ صاعقہ انہیں اچھی طرح نہیں جانتی تھی۔

''تم سارا دن یہ کیوں کہتی رہی ہو کہ ایسا ہونا ہی تھا؟''… ایک لڑکی نے پوچھا۔

''خدا کو ایسے ہی منظور تھا''… صاعقہ نے جواب دیا… ''اس کے سوا میں اور کیا کہہ سکتی ہوں''۔

کچھ دیر خاموشی طاری رہی۔ آخر دوسری لڑکی نے کہا… ''اگر اس سے تمہارا مطلب کچھ اور ہے تو صاف بتا دو۔ ہوسکتا ہے کہ ہم کچھ مدد کرسکیں''۔

''خدا کے سوا میری کوئی مدد نہیں کرسکتا''… صاعقہ نے کہا… ''میرے والد محترم نے کوئی اخلاقی جرم نہیں کیا۔ انہوں نے امیر موصل کو کوئی کھری بات کہہ دی ہوگی۔ وہ ہمیشہ حق بات کہا کرتے ہیں۔ اسی لیے میں کہتی ہوں کہ ایسا ہونا ہی تھا کیونکہ وہ خوشامد کرنے والے انسان نہیں''۔

''یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ انہوں نے کیا کہا اور کیا کیا ہے''… دوسری لڑکی نے کہا… ''ہم یہ کہنا چاہتی ہیں کہ انہوں نے صلاح الدین ایوبی کی حمایت میں کوئی بات کہہ دو ہوگی۔ یہ تو تم ہی بتا سکتی ہو کہ وہ موصل کے والی کے حامی تھے یا صلاح الدین ایوبی کے''۔

''تم جسے سچا سمجھتی ہو، وہ اسی کے حامی تھے''… صاعقہ نے مسکرا کر پوچھا… ''تم کس کی حامی ہو؟''

''صلاح الدین ایوبی کی''… دونوں لڑکیوں نے جواب دیا۔

''وہ بھی ایوبی کے حامی تھے''… صاعقہ نے جواب دیا… ''سیف الدین کو پتہ چل گیا ہوگا''۔

''وہ زبانی حمایت کرتے تھے یا عملاً بھی؟''… ایک لڑکی نے پوچھا۔

''کیا تم جاسوسی کرنے آئی ہو؟''… صاعقہ بھڑک کر بولی… ''کیا موصل کا نوجوان خون بھی کفار کا حامی ہوگیا ہے؟''

''ہاں!''… ایک لڑکی نے جواب دیا… ''ہم دونوں جاسوسی کرنے آئی ہیں اور تمہیں یہ یقین دلانے آئی ہیں کہ موصل کا نوجوان خون کفار کا حامی نہیں بلکہ کفار کے پائوں تلے سے عرب کی زمین نکالنے کے لیے بیتاب ہے اور اس عزم پر عمل کرکے دکھانے کو ابل رہا ہے۔ تم ہماری ذہانت کا اندازہ اس سے کرو کہ تمہارے ان الفاظ کو کہ ایسا ہونا ہی تھا، ہمارے سوا کوئی بھی نہیں سمجھ سکا۔ ہم سمجھ گئی تھیں کہ تمہارے والد محترم سلطان ایوبی کے حامی ہوں گے اور ان کی سرگرمیوں کا علم والئی موصل کو ہوگیا ہوگا''۔

جاری ھے ، 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں