داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 75 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, اگست 14, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 75

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔75- جب سلطان ایوبی پریشان ہوگیا



ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

علم والئی موصل کو ہوگیا ہوگا''۔ کچھ دیر کے تبادلۂ خیالات اور بحث کے بعد صاعقہ کو یقین ہوگیا کہ یہ دونوں لڑکیاں اسے دھوکہ نہیں دے رہیں۔ اس نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہیں اور وہ کر کیا سکتی ہیں۔

''سب سے پہلے یہ معلوم کرنا ہے کہ محترم خطیب کو قید خانے پریشان تو نہیں کیا جارہا؟''… ایک لڑکی نے کہا… ''اگر پریشان کیا جارہا ہے تو انہیں قید خانے سے غائب کرنے کا انتظار کیا جائے گا''۔

''یہ کیسے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ قید خانے میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے۔ تم والئی موصل کے پاس جائو اور اپنے والد سے ملنے کی عرض کرو۔ اگر اس نے اجازت نہ دی تو ہم کچھ کریں گی''۔

''میں کل صبح جائوں گی''… صاعقہ نے کہا… ''اور یہ بھی پوچھوں گی کہ میرے باپ کا جرم کیا ہے؟''

لڑکیاں جانے کے لیے اٹھیں تو خیال آگیا کہ صاعقہ گھر میں اکیلی ہے۔ انہوں نے اسے کہا کہ وہ رات اس کے ساتھ گزاریں گی لیکن صاعقہ تنہائی میں کوئی ڈر یا خطرہ محسوس نہیں کررہی تھی۔ لڑکیوں نے اپنے گھر والوں کو جاکر بتایا کہ وہ صاعقہ کے پاس رہیں گی کیونکہ وہ اکیلی ہے۔ وہ اس کے پاس چلی گئیں… سردیوں کا موسم تھا۔ وہ کمرے میں سوئیں۔ آدھی رات کے وقت ایک لڑکی بیت الخلاء میں جانے کے لیے باہر نکلی تو صحن سے آگے جو برآمد تھا، وہاں اسے ایک سیاہ سایہ حرکت کرتا نظر آیا اور وہ کہیں غائب ہوگیا۔ لڑکی ڈری نہیں، وہ کمرے میں چلی گئی۔ اپنی سہیلی کو جگایا اور اسے بتایا، دونوں کے پاس خنجر تھے، خنجر ہاتھ میں لے کر وہ برآمدے میں گئیں، ادھر ادھر دیکھا۔ انہیں کچھ بھی نظر نہ آیا۔

وہ صحن میں آئیں۔ انہوں نے صاعقہ کو نہیں جگایا تھا لیکن صاعقہ کی آنکھ کھل گئی۔ دونوں سہیلیوں کو کمرے سے غیرحاضر دیکھ کر وہ باہر چلی گئی۔ سہیلیوں کو پکارا۔ وہ آئیں تو انہوں نے اسے بتایا کہ برآمدے میں ایک سایہ حرکت کررہا تھا، کسی انسان کا معلوم ہوتا تھا۔

''چلو چل کر سوجائو''… صاعقہ نے ان سے کہا… ''تم جب بھی باہر نکلو گی، تمہیں ایک سایہ ہلتا جلتا نظر آئے گا، آگے جاکر کسی سائے کو خنجر نہ مار دینا''۔

''یہ سائے کیسے ہیں؟''… ایک لڑکی نے پوچھا… ''انسان نہیں یہ؟''

مگر اب دونوں لڑکیاں ڈرنے لگی تھیں، وہ صرف انسانوں سے نہیں ڈرتی تھیں۔ یہ سائے صاعقہ کے کہنے کے مطابق انسانوں کے نہیں تو پھر یہ جن ہی ہوسکتے تھے۔ صاعقہ نے کہا… ''یہ میرے والد محترم کے عقیدت مندوں کے سائے ہیں۔ انہیں جن ہی سمجھ لو۔ میں ان کے قریب کبھی نہیں گئی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ میری حفاظت کے لیے یہاں گھومتے پھرتے رہتے ہیں''۔

''محترم خطیب برگزیدہ شخصیت ہیں''… ایک لڑکی نے کہا… ''ان کے عقیدت مند جن بھی ہوں گے''۔

''کچھ ایسی ہی بات ہے''… صاعقہ نے کہا… ''ان سے ڈرنا نہیں اور ان کے قریب بھی نہ جانا''۔

٭ ٭ ٭

اس رات خطیب کوٹھڑی میں بند تھا۔ اسے ابھی کچھ علم نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا۔ ایک سنتری اس کی کوٹھڑی کے سامنے سے گزرا۔ خطیب نے اسے روک کر کہا… ''مجھے قرآن کی ضرورت ہے، قید خانے میں قرآن تو ضرور ہوگا''۔

''یہاں؟… قرآن؟''… سنتری نے طنزیہ لہجے میں کہا… ''یہاں قرآن پاک پڑھنے والے نہیں آیا کرتے۔ یہ جہنم ہے۔ یہاں گناہ گار آتے ہیں۔ سوجائو''… سنتری آگے چلا گیا۔

خطیب حافظ قرآن نہیں تھا۔ اسے بہت سی صورتیں اور آیتیں یاد تھیں۔ اس نے سورۂ الرحمن کی تلاوت بلند آواز سے شروع کردی۔ ایک تو سورۂ الرحمن کا اپنا تاثر ہے جو پہاڑوں کا بھی جگر چاک کرڈاتا ہے۔ اس کے ساتھ خطیب ابن المخدوم کی سریلی آواز کا سحر انگیز سوز۔ قید خانے کے مقید ماحول پر جیسے وجد طاری ہوگیا ہو۔ اس نے یہ سورۂ مبارکہ ختم کی تو اسے محسوس ہوا کہ وہ اکیلا نہیں۔ دروازے کی طرف دیکھا۔ وردی میں جیل کا کوئی عہدے دار کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

''تم کون ہو؟''… عہدے دار نے خطیب سے پوچھا… ''میں چھ سال سے اس قید خانے میں نوکری کررہا ہوں۔ قرآن کی آواز پہلی بار سنی ہے اور ایسی آواز بھی پہلی بار سنی ہے جو میرے دل میں اتر گئی ہے۔ میں نے قرآن نہیں پڑھا حالانکہ یہ میری مادری زبان میں لکھا گیا ہے''۔

''میں موصل کا خطیب ہوں''… خطیب نے جواب دیا۔

''اور آپ کا جرم؟''… عہدے دار نے حیرت سے چونک کر پوچھا۔

 ''صرف یہ کہ میں قرآن کی زبان میں بات کیا کرتا ہوں''… خطیب نے جواب دیا… ''میرا جرم یہ ہے کہ میں نے اپنے بادشاہ کا حکم نہ مانا اور قرآن کے حکم کو مقدم جانا''۔

''پھر پڑھو''… عہدیدار نے التجا کے لہجے میں کہا… ''میرے اندر ایک زہر ہے جو قرآن کے الفاظ نے اور آپ کی آواز نے نکالنا شروع کردیا ہے۔ میں آپ کو حکم نہیں دے رہا، التجا ہے''۔

خطیب نے پہلے سے زیادہ وجد آفریں آواز میں سورۂ الرحمن پڑھی۔ عہدے دار کوٹھڑی کی موٹی موٹی سلاخوں کو پکڑے کھڑا رہا اور اس کے آنسو بہتے رہے۔ خطیب خاموش ہوا تو عہدے دار نے آنکھیں بند کرکے دھیمی آواز میں سورۂ الرحمن کی بعض آیات دہرانی شروع کردیں۔

''اگر آپ کی آواز میں یہ جادو ہے تو آپ کے معتقدوں میں جنات بھی ہوں گے''… عہدے دار نے کہا… ''میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ قرآن سے فال نکالی جاتی ہے۔ کوئی سوال پوچھو تو جنات قرآن کے لفظوں میں جواب دیتے ہیں''۔

''لیکن سوال یہ ہے کہ تمہارا سوال کیا ہے!''… خطیب نے کہا… ''قرآن صرف ایمان والوں کو مژدہ سنایا کرتا ہے''۔

''اور جس کا ایمان پختہ نہ ہو؟''

''اس کے سینے میں ایمان کی قندیل روشن کرتا ہے''… خطیب نے کہا… ''تمہارا سوال کیا ہے؟''

''میری ایک آرزو ہے''۔ عہدے دار نے کہا… ''میرے سینے میں آگ جل رہی ہے۔ معلوم نہیں، یہ ایمان کی قندیل کا شعلہ ہے یا یہ آگ انتقام کی ہے۔ میں اس فوج میں شامل ہونا چاہتا ہوں جو یروشلم کو فتح کرے گی۔ مجھے انتقام لینا ہے''۔

''اگر یروشلم کی فتح کو تم ایمان کہو تو وہاں جلدی پہنچو گے''… خطیب نے کہا… ''انتقام ذاتی فعل ہے، ایمان اللہ کا حکم ہے… تم انتقام کیوں کہہ رہے ہو؟ اور یروشلم کیوں کہہ رہے ہو؟ بیت المقدس کہو''۔

''میں نے کسی قیدی کے ساتھ ایسی باتیں بھی نہیں کی تھیں''… عہدے دار نے کہا… ''آپ خطیب ہیں۔ آپ کے سامنے میں اپنا دل کھول کر رکھنا چاہتا ہوں۔ میری روح کو تسکین کی ضرورت ہے۔ میں بیت المقدس کا رہنے والا ہوں، وہاں صلیبیوں کی حکمرانی ہے۔ مسلمانوں کو وہاں بھیڑ بکریاں اور جانور سمجھا جاتا ہے۔ ) صلیبی جس مسلمان کو چاہیں قتل کردیں، جسے چاہیں قید خانے میں ڈال دیں۔ بیگار کا رواج تو عام ہے جس گھر میں لڑکی جوان ہو، ان کا دم تو خشک رہتا ہے۔ وہاں کے مسلمان سلطان ایوبی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ سات سال گزرے، ایک روز ایک صلیبی نے مجھے پکڑ لیا اور ساتھ لے گیا۔ اس کا کوئی سامان اٹھا کر اس کے گھر تک لے جانا تھا۔ اس نے مجھے سامان اٹھانے کو کہا تو میں نے انکار کردیا۔ اس نے میرے منہ پر تھپڑ مار کر کہا کہ مسلمان ہوکر میرا حکم نہ ماننے کی جرأت کررہے ہو؟ میں نے اس کے منہ پر گھونسہ مارا۔ وہ اگرا تو میں نے اس کے سر کے بال مٹھی میں لے کر اسے اٹھایا اور دوسرا گھونسہ مار کر اسے پھر گرا دیا''۔

''اتنے میں مجھے پیچھے سے کسی نے جکڑ لیا، پھر صلیبیوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔ سپاہی بھی آگئے اور مجھے بیگار کیمپ میں لے گئے۔ میں نے وہاں تین دن گزارے اور تیسری رات میں نے ایک سنتری کو پیچھے سے دبوچا اور اسی کے خنجر سے اس کا پیٹ چاک کرکے بھاگ نکلا۔ میں گھر پہنچا تاکہ رات ہی رات سارے کنبے کو بیت المقدس سے بھگا لے جائوں، ورنہ سب کے پکڑے جانے کا خطرہ تھا مگر میرا گھر کھنڈر بن چکا تھا۔ اندر گیا تو گھر جلا ہوا تھا۔ میں نے ایک مسلمان پڑوسی کے دروازے پر دستک دی۔ وہ ڈرتا ڈرتا باہر آیا۔ میں نے پوچھا کہ میرے گھر والے کہاں بھاگ گئے ہیں؟ اس نے یہ خبر سنا کر میرے پائوں تلے سے زمین نکال دی کہ گھر کے مردوں کو صلیبی پکڑ کر لے گئے ہیں اور میری دونوں کنواری بہنوں کو صلیبی فوجی لے گئے تھے پھر انہوں نے گھر کو آگ لگا دی''۔

''میرے دل پر جو گزری اس کا تصور آپ کرسکتے ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے بہنیں واپس نہیں مل سکتیں اور میں یہاں رکا رہا تو پکڑا جائوں گا اور صلیبی مجھے قتل کردیں گے یا قید خانے میں بند کرکے ساری عمر اذیتیں دیتے رہیں گے۔ میں کسی مسلمان کے گھر چھپنے کی غلطی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ وہ پورا گھرانہ مارا جاتا۔ میں رات کو ہی بیت المقدس سے نکل آیا۔ خون کھول رہا تھا مگر میں بے بس تھا۔ میں نے اس طرف کا رخ کرلیا۔ صبح طلوع ہوئی تو میں نے ایک صلیبی کو دیکھا جو گھوڑے پر سوار میرے راستے پر سامنے سے آرہا تھا۔ وہ سپاہی نہیں تھا۔ میں نے اسے روک لیا ور اسے باتوں میں الجھا کر گھوڑے سے اتار لیا۔ اس کا ایک پائوں رکاب میں دوسرا زمین پر تھا کہ میں نے پیچھے سے اس کی گردن اپنے بازو کے گھیرے میں لے لی۔ اس کے کمر بند کے ساتھ چھوٹی تلوار تھی۔ وہ کھینچ لی اور اسے قتل کردیا۔ اس کے گھوڑے پر سوار ہوکر میں نے گھوڑے کو ایڑی لگا دی''۔

''یہ دوسرا صلیبی تھا جسے میں نے قتل کیا۔ اس سے پ

 اس سے پہلے میں ایک سنتری کو قتل کر آیا تھا لیکن میرے دل کو اطمینان نہ ہوا۔ میں تمام صلیبیوں کو قتل کرنے کے لیے پاگل ہوا جارہا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کتنے دن اور کتنی راتیں سفر کیا اور کہاں کہاں مارا مارا پھرتا رہا۔ مجھے بھوک محسوس نہ ہوئی، پیاس کا احساس تک نہ رہا۔ بہنیں یاد آتی تھیں اور میں گھوڑا روک کر صلیبی سے چھینی ہوئی تلوار ہاتھ میں لے کر بیت المقدس کی طرف دیکھنے لگتا تھا۔ میرا جسم کانپنے لگ جاتا تھا۔ میں نے کئی بار خدا کو پکارا اور خدا سے پوچھا کہ اس نے مجھے کون سے گناہ کی سزا دی ہے، اگر میں گناہ گار تھا تو سزا مجھے ملنی چاہیے تھی، میری بہنیں اور میرا کمسن چھوٹا بھائی بے گناہ تھے۔ مجھے خدا نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے سجدے میں گر کر خدا کو پکارا اور مایوس ہوا۔ میں نے خدا سے یہ التجا بھی کی کہ مجھے سکون مل جائے یا میرے اندر انتقام کی آگ بجھ جائے۔ میرا احساس مردہ ہوجائے''۔

''میں موصل کے ایک گائوں میں پہنچ گیا جہاں یہ خطرہ نہیں تھا کہ صلیبی مجھے پکڑ لیں گے لیکن میرے دل کو کسی بے رحم کے ہاتھوں نے ایسا جکڑ رکھا تھا کہ میں ہر لمحہ بے قرار اور بے چین رہتا تھا۔ میں مسجد میں چلا گیا۔ امام سے کہا کہ وہ مجھے دکھا دے کہ خدا کہاں ملے گا، میری روح کو سکون کہاں ملے گا۔ اس نے میری کوئی مدد نہ کی۔ میں وہاں سے ایک اور گائوں چلا گیا پھر وہاں سے بھی چلا گیا۔ اس کے بعد یہی یاد آتا ہے کہ میں مسجدوں میں خدا کو ڈھونڈتا پھرتا رہا۔ اماموں سے روحانی سکون مانگتا رہا مگر کسی نے میری دستگیری نہ کی۔ مجھے کسی نے خدا کا اتا پتہ نہ بتایا۔ کسی نے کوئی طریقہ نہ بتایا جس سے میں خدا سے ہم کلام ہوسکوں اور اس سے روحانی سکون مانگ سکوں۔ راتوں کو اکثر بہنوں کو خواب میں دیکھتا تھا۔ وہ روتی نظر آتی تھیں۔ مجھے اس کی سسکیاں اور ہچکیاں اس وقت بھی سنائی دیتی تھیں جب جاگ اٹھتا تھا۔ روز بروز میرے اندر یہ احساس پیدا ہوتا گیا کہ میری بہنیں مجھ پر لعنت بھیج رہی ہیں''۔

''کسی نے بتایا کہ صلیبیوں سے انتقام لینا ہے تو فوج میں بھرتی ہوجائو۔ سلطان نورالدین زنگی فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے لڑ رہا ہے۔ یہ تو مجھے معلوم تھا کہ مسلمانوں اور صلیبیوں کی لڑائیاں ہورہی ہیں۔ہمیں بیت المقدس میں معلوم ہوجاتا تھا کہ کون سی جنگ میں کسے شکست ہوئی ہے۔ بیت المقدس میں صلیبی جب وہاں کے مسلمان باشندوں پر ظلم وستم اچانک زیادہ کردیتے تھے تو ہم سمجھ جاتے تھے کہ کسی میدان میں انہیں شکست ہوئی ہے جس کا انتقام وہ یہاں کے نہتے اور بے بس مسلمانوں سے لے رہے ہیں پھر ہمیں وہاں صلاح الدین ایوبی کا نام سنائی دینے لگا۔ یہ نام اتنا مشہور ہوا کہ وہاں کے صلیبی باشندے اس نام سے ڈرتے تھے اور اس سے نفرت کرتے تھے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ صلاح الدین ایوبی طوفان کی طرح آرہا ہے مگر وہ نہ آیا۔ اس کے بجائے میں یہاں سینے میں ایک گہرا زخم لے کر آگیا۔ میں فوج میں بھرتی ہوگیا لیکن محاذ پر بھیجنے کے بجائے مجھے اس قید خانے میں بھیج دیا گیا، یہاں مجھے ترقی بھی مل گئی''۔

''یہاں میں نے انسانوں پر ظلم ہوتے دیکھا، اس سے میں کانپ کانپ اٹھتا تھا۔ یہاں انسانوں کی ہڈیاں توڑی جاتی ہیں۔ بیت المقدس میں صلیبی مسلمانوں کا یہی حشر کرتے تھے، یہاں مسلمانوں کو مسلمانوں پر وہی ظلم کرتے دیکھا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہاں بے گناہوں کو بھی لایا اور اذیت میں ڈالا جاتا ہے۔ ان کا گناہ وہی ہے جو آپ نے کیا ہے۔ میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کو یہاں لاکر کیوں بند کیا گیا ہے۔ یہ کام مجھے بھی کرنا پڑا۔ میں نے بھی انسانوں کو ایسی ایسی اذیتیں دیں جو آپ کو سنائوں تو آپ بے ہوش ہوجائیں۔ میرے ساتھی پوری طرح وحشی درندے بن گئے ہیں۔ ان میں انسانیت صرف اتنی سی رہ گئی ہے کہ وہ انسانوں کی طرح چلتے پھرتے اور باتیں کرتے ہیں۔ میں ان سے اس لحاظ سے مختلف ہوں کہ میں چوری چھپے قیدیوں کے ساتھ ہمدردی کی دو چار باتیں کرلیتا ہوں۔ ان سے پوچھتا ہوں کہ ان کا جزم کیا ہے مگر ہمدردی کے اس جذبے نے میری روح سے بوجھ اتارنے کے بجائے نہ جانے کیسا بوجھ ڈال دیا ہے۔ مجھے سکون نہیں ملتا۔ مجھے خدا نظر نہیں آتا، میری آنکھوں کے سامنے سے میری بہنیں ہٹتی نہیں۔ میں پھر یہی محسوس کرتا ہوں کہ جب تک صلیبیوں سے انتقام نہیں لوں گا، میں اسی طرح بے چین رہوں گا''۔

''آج آپ کی آواز میں قرآن کے یہ الفاظ سنے… ''گناہ گار اپنے چہروں ہی سے پہچان لیے جائیں گے، پھر وہ بالوں اور پائوں سے پکڑ لیے جائیں گے… تم اپنے پرور دگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے۔ یہی وہ جہنم ہے جسے گناہگار لوگ جھٹلاتے تھے۔ وہ دوزخ اور کھولتے ہوئے گرم پانی کے درمیان گھومتے پھریں گے''۔ تو معلوم نہیں میرے دل میں کیا ہلچل بپا ہوگئی۔ مجھے ایسے محسوس ہونے لگا ہے جیسے وہ راز انہی لفظوں میں ہے جو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں''… اس نے سلاخوں میں سے ہاتھ اندر کرکے خطیب الن الم

 … اس نے سلاخوں میں سے ہاتھ اندر کرکے خطیب الن المخدوم کا چغہ پکڑ لیا ور بیتاب ہوکر بولا… ''مجھے بتائو یہ راز کیا ہے۔ کیا میرے دماغ پر خون سوار ہے؟ اگر ایسا ہے تو میں انتقام کس طرح لوں گا؟ میں پاگل تو نہیں ہوجائوں گا؟ اگر خدا ہے تو اس سے پوچھ کر مجھے بتائو کہ میرے سوالوں کا جواب کیا ہے؟''

''تمہارے دماغ پر خون سوار ہے''… خطیب نے کہا۔ ''تم نے خدا کی آواز سن لی ہے۔ میری آواز میں خدا بول رہا تھا۔ تم انتقام لینے کو بیتاب ہو لیکن یہاں تم اسی طرح بے حال اور بے چین رہو گے۔ تم جس فوج کے ملازم ہو، وہ کبھی بیت المقدس نہیں جائے گی''۔

''کیوں؟''

''کیونکہ یہ فوج پہلے سلطان ایوبی کو شکست دے گی''۔ خطیب نے جواب دیا۔ ''پھر سلطان ایوبی کو قتل کیا جائے گا اور پھر صلیبیوں کے ساتھ دوستی کی جائے گی''۔

عہدے دار کی آنکھیں کھلتی گئیں۔ خطیب اسے بتاتا رہا کہ مسلمان حکمران کیا کررہے ہیں۔ عہدے دار نے کہا۔ ''میں کچھ عرصے سے اس قسم کی باتیں سن رہا تھا لیکن یقین نہیں آتا تھا۔ میں تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا کہ ہمارے حکمران قوم کی ان بیٹیوں کو بھول جائیں گے جو صلیبیوں کی بربریت کا نشانہ بنی ہیں اور جنہیں انہوں نے اغوا کرکے نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے''۔

''وہ بھول چکے ہیں''۔ خطیب نے کہا۔ ''وہ اس حد تک بھول چکے ہیں کہ اغوا کی ہوئی مسلمان لڑکیاں انہیں تحفوں کے طور پر پیش کی جاتی ہیں اور یہ انہیں اپنے حرموں کی زینت بناتے ہیں۔ اس لیے سلطان صلاح الدین ایوبی کے دشمن بن گئے ہیں کیونکہ وہ قرآن کے احکام کا پابند ہے اور قوم کی عصمت کا انتقام لینا چاہتا ہے۔ اسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اس کا کوئی گھر ہے یا نہیں۔ اس کی عمر صحرائوں اور پہاڑوں میں گزر رہی ہے۔ میرا بھی جرم یہی ہے کہ میں نے والئی موصل کو قرآن کے احکام یاددلا دئیے تھے اور اسے کہا تھا کہ ایک مرد مجاہد کے خلاف لڑو گے تو شکست کھائو گے۔ قرآن کے جن مقدس الفاظ نے ابھی ابھی تم پر جادو کیا ہے، میں نے یہی الفاظ موصل کے بادشاہ سیف الدین کو یاد دلائے تھے۔ میں نے اسے کہا تھا کہ تم جیسے گناہ گار چہروں سے پہچانے جائیں گے اور بالوں اور پائوں سے پکڑ لیے جائیں گے۔میں نے اسے قرآن کا یہ حکم بھی سنایا تھا کہ تم دماغ سے بادشاہی کا نشہ نہیں اتارو گے تو دوزخ اور کھولتے ہوئے گرم پانی میں گھومو پھرو گے مگر اس نے خدا کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور اپنے نفس کا حکم مانا۔ اس نے مجھے قید خانے میں بند کرادیا''۔

''یہ دنیاوی اور جسمانی اذیتیں مجھے کوئی تکلیف نہیں دے سکتیں''۔ خطیب نے کہا۔ ''تم نے میری آواز میں جو سوز اور تاثر محسوس کیا ہے، وہ میری روح کی آواز تھی۔ دنیا کے اس جہنم میں مطمئن ہوں۔ میری آواز اللہ کی آواز ہے۔ میری بیوی مدت ہوئی مرگئی تھی۔ میں نے اس بچی کی خاطر دوسری شادی نہیں کی۔ ہم ایک دوسرے کی خاطر زندہ ہیں، وہ گھر میں اکیلی ہے''۔

''میں اس کی حفاظت کروں گا''۔ عہدے دا ر نے کہا۔

''سب کی حفاظت کرنے والا خدا ہے''۔ خطیب نے کہا۔ ''میں تمہیں اپنے گھر کا پتہ بتا دیتا ہوں۔ میری بیٹی صاعقہ سے کہہ دینا کہ ثابت قدم رہے اور میرے متعلق کوئی فکر نہ کرے۔ اگر یہاں قرآن پڑھنے کی اجازت ہو تو میری بیٹی سے میرا قرآن لے آنا''۔

عہدے دار علی الصبح خطیب کے گھر چلا گیا اور اس کی بیٹی کو تسلی دی کہ اپنے باپ کے متعلق وہ پریشان نہ ہو۔ اس نے صاعقہ کو بتایا کہ وہ اس کے باپ سے بہت متاثر ہوا ہے، اس کی جو مدد وہ کرسکتا ہے کرے گا لیکن اوپر کے حکم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ قید خانے کا ادنیٰ ملازم ہے۔ اس نے لڑکی سے کہا کہ محترم خطیب کا قرآن دے دے۔ لڑکی نے قرآن دینے سے پہلے عہدے دار کے ساتھ بہت باتیں کرکے یقین کرلیا کہ وہ تہہ دل سے اور جذبے کے تحت اس کے باپ کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ وہ جذباتی لگتا تھا۔ اس نے جب یہ کہا کہ وہ اس کی خاطر اور اس کے باپ کی خاطر جان پر بھی کھیل جائے گا تو صاعقہ نے اسے کہا۔ ''آپ کو یہ تو معلوم ہوگیا ہے کہ میرے والد کو کس جرم میں قید کیا گیا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ سیف الدین انہیں اذیت خانے میں ڈال دے گا تاکہ ان کے دل سے صلاح الدین ایوبی کی حمایت نکل جائے۔ کیا یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ آپ انہیں قید خانے سے فرار ہونے میں مدد دیں؟ ہم دونوں موصل سے غائب ہوجائیں گے''۔

عہدے دار مسکرایا اور بولا۔ ''جو اللہ کو منظور ہوگا، میں نے تمہارے والد کی آواز میں اللہ کی آواز سنی ہے اور ان کی آنکھوں میں ایمان کا نور دیکھا ہے۔ اللہ کی آواز اور ایمان کے نور کو کوئی انسان قید خانے میں محبوس نہیں کرسکتا۔ ہوسکتا ہے کہ اس آواز اور اس نور کو آزاد کرانے کا نیک کام خدا نے میری قسمت میں لکھ دیا ہو اور اس کے عوض میرے سینے کی آگ سرد ہوجائے۔ میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ میں کیا کروں گا کیونکہ تم عورت ذات ہو اور نوجوان ہو۔ شاید راز کو راز نہ رکھ سکو''۔

''میں والد محترم کے لیے قرآن لے آتی ہوں''۔ وہ اندر چلی گئی اور بہت دیر بعد آئی۔ اس کے ہاتھ میں قرآن تھا جو عہدے دار کو دے کر اس نے کہا۔ ''میں والئی موصل کے پاس جارہی ہوں کہ وہ مجھے اپنے باپ سے ملنے کی اجازت دے دے''۔

''ہاں!'' عہدے دار نے کہا۔ ''ملاقات کا یہی طریقہ ہے''… اور وہ قرآن لے کر چلا گیا۔

٭ ٭ ٭

صاعقہ تیار ہوکر سیف الدین کے دربار میں چلی گئی۔ اسے باہر روک دیا گیا۔ سیف الدین، صلاح الدین ایوبی نہیں تھا کہ ہر کسی کو ملنے کی کھلی اجازت تھی۔ سیف الدین تو بادشاہ تھا اور اس کے طور طریقے شاہانہ تھے۔ اسے شراب بھی پینی ہوتی تھی، حرم کے لیے بھی وقت نکالنا ہوتا تھا۔ رقص کی محفلیں بھی منعقد کرنی ہوتی تھیں اور جو وقت بچتا تھا، وہ اپنی بادشاہی کو سلطان ایوبی سے بچانے کے منصوبے بناتے صرف ہوتا تھا۔ اسے اپنی رعایا کا کوئی علم نہ تھا۔ حکومت کے نشئی رعایا کو استعمال کیا کرتے ہیں، ان کے نیک وبد کی انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ رعایا کے پیٹ میں صرف اتنا سا اناج جانے دیتے ہیں جس سے رعایا صرف زندہ رہے اور ان کے آگے سجدہ ریز رہے۔

صاعقہ اسی رعایا کی ایک لڑکی تھی۔ دربان نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے تو اس نے بتایا کہ موصل کے خطیب ابن المخدوم ککبوری کی بیٹی ہے۔ دوسروں کی طرح دربان کو بھی یہ معلوم تھا کہ خطیب اچانک پاگل ہوگیا ہے اور اسے قید خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ خطیب کا احترام ہر کسی کے دل میں تھا اور اس کے پاگل ہوجانے کی وجہ سے سب کے دلوں میں ہمدردی بھی پیدا ہوگئی تھی۔ دربان نے کسی سے کہہ کر سیف الدین سے اجازت لے لی کہ صاعقہ کو اس کے پاس بھیجا جائے۔

صاعقہ جب سیف الدین کے سامنے گئی تو وہ اس لڑکی کی خوبصورتی دیکھ کر چونک اٹھا۔ وہ لڑکیوں کا شکاری تھا۔ اس نے صاعقہ کو دلچسپی سے اپنے پاس بٹھایا۔ وہ سمجھ گیا ہوگا کہ لڑکی اپنے باپ کی رہائی کی درخواست لے کر آئی ہے۔

''سنو لڑکی!'' اس نے صاعقہ کی بات سنے بغیر کہا۔ ''میں جانتا ہوں تم کیوں آئی ہو، لیکن میں نے بہت مجبور ہوکر تمہارے باپ کو قید میں ڈالا ہے اگر اسے ایک دو دنوں بعد ہی رہا کرنا ہوتا تو میں اسے گرفتار ہی نہ کرتا۔ میں اسے رہا نہیں کرسکوں گا''۔

''ان کا جرم کیا ہے؟'' صاعقہ نے پوچھا۔

''غداری''۔ سیف الدین نے جواب دیا۔

''کیا انہوں نے آپ کے خلاف صلیبیوں کے حق میں غداری کی ہے؟''

''ریاست کا دشمن صلیبی ہو یا مسلمان''۔ سیف الدین نے جواب دیا۔ ''اس کے ساتھ مل کر ریاست کو نقصان پہنچانا جرم ہے۔ کیا تمہارا باپ صلاح الدین ایوبی کا حامی نہیں تھا؟''

''مجھے کچھ علم نہیں''۔ صاعقہ نے جواب دیا۔ ''میرا خیال یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کا حامی ہونا جرم نہیں''۔

''یہی بات تمہارا باپ بھی نہیں سمجھ سکتا''۔ سیف الدین نے کہا۔ ''میں حیران ہوں کہ بہت سے لوگ صلاح الدین ایوبی کو فرشتہ سمجھتے ہیں، وہ عورت کے معاملے میں درندہ ہے، دمشق اور قاہرہ میں اس نے اپنا حرم تم جیسی سینکڑوں لڑکیوں سے بھر رکھا ہے۔ ہر لڑکی تین چار مہینوں بعد اپنے سالاروں کے حوالے کردیتاہے۔ اس کی فوج جہاں حملہ کرتی ہے، وہاں نہ مسلمان گھرانہ دیکھتی ہے، نہ غیرمسلم۔ ہر گھر کو لوٹتی اور ہر لڑکی کو اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ تم جیسی حسین لڑکی اس سے کبھی محفوظ نہیں رہ سکتی۔ یہ میرا فرض ہے کہ تمہاری عزت کی حفاظت کروں، خواہ مجھے تمیں اپنے گھر میں رکھنا پڑے''۔

''میری حفاظت خدا کرے گا''۔ صاعقہ نے کہا۔ ''میں صرف یہ التجا کرنے آئی ہوں کہ مجھے تھوڑی سی دیر کے لیے اپنے باپ سے ملنے کی اجازت دی جائے''۔

''جب تک قاضی اسے سزا نہیں دیتا، اجازت نہیں دی جاسکتی''۔

''سزا کیا ہوگی؟'' لڑکی نے پوچھا۔

''موت''۔

: صاعقہ کے آنسو بہنے لگے۔ اس نے لڑکی کو اور زیادہ خوفزدہ کرنے کے لیے کہا۔ ''لیکن یہ موت اتنی آسان نہیں ہوگی کہ تلوار سے سر تن سے جدا کردیا جائے گا۔ اسے آہستہ آہستہ اذیتیں دے دے کر مارا جائے گا۔ پہلے اس کی آنکھیں نکالی جائیں گی پھر اس کا ایک ایک دانت زنبور سے کھینچ کر نکالا جائے گا پھر اس کے ہاتھوں اور پائوں کی انگلیاں کاٹی جائیں گی اور پھر وہ زندہ ہی ہوگا تو اس کی کھال اتاری جائے گی''۔

لڑکی کا جسم بڑی زور سے کانپا۔ اس نے ہونٹ دانتوں میں دبا لیے اور اس کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ اس نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔ ''کیا آپ ان پر یہ رحم نہیں کرسکتے کہ ان کا سر تلوار سے کاٹ دیا جائے؟ اگر انہیں سزائے موت ہی دینی ہے تو ایک ثانیے میں انہیں کیوں نہیں ختم کردیتے؟''

''اگر تمہیں اپنی قیامت خیز جوانی پر رحم آجائے تو میں تمہارے باپ پر رحم کرسکتا ہوں''۔

صاعقہ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو سیف الدین نے کہا۔ ''باپ کے مرجانے کے بعد تم ایک عام سی اور غریب سی لڑکی بن کے رہ جائو گی۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ تم میرے عقد میں آجائو جس سے تمہارے باپ کو بھی فائدہ پہنچے گا اور تمہاری حیثیت موصل کی ملکہ کی ہوجائے گی؟''

''اگر میرے باپ نے مجھے خودداری کی تعلیم نے دی ہوتی تو ملکہ بننا تو بہت بڑی بات ہے، میں آپ کے ساتھ ایک رات گزارنے پر بھی فخر محسوس کرتی''۔ صاعقہ نے کہا۔ ''میرا باپ میری عصمت کی حفاظت میں اپنی کھال ہنستے کھیلتے اتروالے گا۔ یہ سودا میرے باپ کے ساتھ کریں۔ اس سے پوچھیں کہ تم جلاد کے پاس جانا چاہتے ہو یا اپنی بیٹی کو میرے پاس بھیجنا چاہتے ہو۔ میرا باپ یقیناً یہ کہے گا… ''مجھے جلاد کے حوالے کردو''… میں صرف یہ درخواست لے کر آئی تھی کہ تھوڑی سی دیر کے لیے مجھے اپنے باپ سے ملنے دیا جائے۔ اب میں اپنی درخواست میں یہ اضافہ کرتی ہوں کہ اس کے لیے میں کوئی سودا قبول نہیں کروں گی''۔

''کیا تمہارا یہ فیصلہ ہے کہ تم میرے پاس نہیں آئو گی؟'' سیف الدین نے پوچھا۔

''اٹل فیصلہ''۔ صاعقہ نے جواب دیا۔ ''آپ موصل کے مالک ہیں۔ مجھے زبردستی اپنے حرم میں داخل کرلیں''۔

''میں نے ایسا جرم کبھی نہیں کیا''۔ سیف الدین نے کہا۔

صاعقہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے دراصل ملاقات کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ وہ تو یہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ اس کے باپ کے ساتھ قید خانے میں کیا سلوک ہورہا ہے۔ وہ اسے قید خانے کے ایک عہدے دار سے معلوم ہوگیا تھا اور اسے یہ امید بھی تھی کہ یہ عہدے دار اس کے باپ کو فرار میں مدد دے گا۔ اس نے سیف الدین کو سلام کیا اور چل پڑی۔ سیف الدین نے اسے جاتے دیکھا تو بولا۔ ''ٹھہرو، یہ نہ کہنا کہ والئی موصل نے ایک لڑکی کی تمنا پوری نہیں کی تھی۔ تم آج رات اپنے باپ سے ملاقات کرنے کے لیے جاسکتی ہو۔ ایک آدمی تمہارے گھر آئے گا، وہ تمہیں اپنے ساتھ قید خانے میں لے جائے گا، تم جتنی دیر چاہو اپنے باپ سے باتیں کرسکتی ہو''۔

صاعقہ شکریہ ادا کرکے چلی گئی۔ سیف الدین کے پیچھے ایک باڈی گارڈ کھڑا تھا۔ صاعقہ چلی گئی تو سیف الدین نے اپنے باڈی گارڈ سے کہا۔ ''اتنا خوبصورت پرندہ پنجرے میں آنا چاہیے، میں نے اسے خوفزدہ کرنے کے لیے کہا تھا کہ اس کے باپ کو کس طرح اذیتیں دے کر مارا جائے گا مگر لڑکی دل گردے کی پکی معلوم ہوتی ہے۔ جانتے ہو میں نے اسے کیوں کہا ہے کہ ایک آدمی تمہارے گھر آئے گا، وہ تمہیں قید خانے میں باپ سے ملاقات کرانے لے جائے گا؟''

''کیا میں ابھی تک آپ کے اشارے سمجھنے کے قابل نہیں ہوا؟'' باڈی گارڈ نے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ ''وہ آدمی میں ہی ہوں گا جو اسے شام کے بعد گھر سے قید خانے لے جانے کے بہانے لے آئوں گا''۔

''اور تم جانتے ہو کہ اسے کہاں لے جانا ہے؟'' سیف الدین نے پوچھا۔ ''اسے یہ شک نہیں ہوناچاہیے کہ میں نے اسے اغوا کرایا ہے''۔

''سب جانتا ہوں''۔ باڈی گارڈ نے کہا… ''یہ کام پہلی بار تو نہیں کررہا۔ میں اسے جن بھول بھلیوں سے گزار کر اور اس کی جو حالت کرکے آپ کے پاس پہنچائوں گا، اس سے وہ یہ سمجھے گی کہ دنیا میں آپ واحد انسان ہیں جو اس کے محسن وغم خوار ہیں۔ آگے آپ جانتے ہیں کہ اس قسم کے پرندے کو پنجرے میں کس طرح بند کرتے ہیں''۔

سیف الدین نے اپنے باڈی گارڈ کے کان میں کچھ کہا۔ باڈی گارڈ کی آنکھوں میں شیطان مسکرانے لگا۔ قیدخانے کا جو عہدے دار صاعقہ کے پاس آیا اور اسے تسلی دے کر اور قرآن لے کر چلا گیا تھا، رات کی ڈیوٹی پر تھا۔ شام کے بعد وہ قید خانے میں داخل ہوا۔ دن کی ڈیوٹی والے کو رخصت کیا اور خطیب ابن المخدوم کی کوٹھڑی کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ ادھر ادھر دیکھ کر اس نے قرآن خطیب کو دے کر کہا… ''اپنی بیٹی کے متعلق آپ کوئی غم نہ کریں۔ وہ ہر لحاظ سے مطمئن ہے۔ محفوظ ہے اور خیریت سے ہے۔ اس نے مجھے ایک بات کہی ہے۔ دعا کریں کہ اللہ مجھے بچی کی تمنا پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے''۔

 ''وہ کیا بات ہے؟'' خطیب نے پوچھا۔

عہدے دار نے ادھر ادھر دیکھا اور منہ سلاخوں کے ساتھ لگا کر کہا… ''فرار… آپ میں اتنی ہمت ہے؟… میں مدد کروں گا''۔

''جس کام میں اللہ کی خوشنودی شامل ہو، اس کے لیے اللہ ہمت بھی دے دیتا ہے''۔ خطیب نے کہا۔ ''لیکن میں تمہاری مدد سے فرار نہیں ہوں گا۔ اس کے بجائے یہاں مرجانا پسند کروں گا''۔

''کیوں؟'' عہدے دار نے حیران ہوکر پوچھا… ''کیا آپ مجھے گناہ گار سمجھ کر میری مدد قبول نہیں کرنا چاہتے؟''

''نہیں''۔ خطیب نے جواب دیا۔ ''میں تمہاری مدد اس لیے قبول نہیں کرنا چاہتا کہ تم گناہ گار نہیں ہو۔ میں تو تمہاری مدد سے یہاں سے نکل جائوں گا۔ تم پیچھے رہ جائو گے اور پکڑے جائو گے۔ میرے جرم کی اور تمہاری نیکی کی سزا تمہیں ملے گی جو بہت ہی بھیانک ہوگی''۔

''میں بھی آپ کے ساتھ ہی جائوں گا'' عہدے دار نے کہا… ''آپ کی کل رات کی باتوں نے یہاں سے میرا دل اچاٹ کردیا ہے۔ میں صلاح الدین ایوبی کی فوج میں جارہا ہوں۔ میں چونکہ قیدی نہیں، اس لیے آسانی سے فرار ہوسکتا ہوں لیکن اب آپ کو ساتھ لے کے جائوں گا۔میرا اس دنیا میںکوئی نہیں۔ ویسے بھی میرے دل میں آگ ہے جو گزشتہ رات آپ کو دکھائی تھی، اسی آگ کو سرد کرنا ہے''۔

''ہاں''۔ خطیب نے کہا… ''میں اس صورت میں تمہاری مدد قبول کرسکتا ہوں''۔

''آپ کی بیٹی نے مجھے بتایا تھا کہ وہ والئی موصل کے پاس جارہی ہے''۔ عہدے دار نے کہا… ''وہ آپ سے ملاقات کی اجازت مانگے گی''۔

''نہیں''۔ خطیب نے گھبرا کر کہا… ''اسے سیف الدین جیسے شیطان فطرت انسان کے پاس نہیں جانا چاہیے، تم اسے کہو کہ وہاں نہ جائے''۔

''میں تو صبح جاسکوں گا''۔ عہدے دار نے کہا۔

عہدے دار کوٹھڑی سے ہٹ کر چلا گیا۔ خطیب نے قرآن کو چوما، پھر سینے سے لگا کر اپنے آپ سے کہا… ''اب میں اس کال کوٹھڑی میں تنہا نہیں ہوں''۔ اس نے غلاف اتارا اور دئیے کی روشنی میں بیٹھ کر قرآن کھولا۔ ورق الٹتے الٹتے قرآن میں سے ایک کاغذ نکلا۔ اس کی بیٹی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا… ''خدا ساتھ ہے، جنات موجود ہیں، پیغمبر برحق ہے۔ پیغمبر کا فرمان سنیں۔ ایمان تروتازہ ہے''۔ خطیب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے کاغذ کا یہ ٹکڑا دئیے کی لو پر رکھا اور جلاڈالا۔ وہ پیغام سمجھ گیا تھا۔ پیغمبر سے اس کی مراد قید خانے کا یہ عہدے دار تھا۔ وہ کہنا یہ چاہتی تھی کہ یہ آدمی سچا معلوم ہوتا ہے۔ اس کی بات (فرار) پر عمل کریں۔ ''جنات موجود ہیں'' سے مراد یہ تھی کہ صاعقہ کی حفاظت کے لیے آدمی موجود ہیں۔

جس وقت خطیب یہ پیغام جلا رہا تھا، اس وقت اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ صاعقہ نے دروازہ کھولا۔ اس کے ہاتھ میں قندیل تھی۔ باہر جو آدمی کھڑا تھا، اسے اس نے پہچان لیا۔ وہ سیف الدین کا باڈی گارڈ تھا جو صاعقہ کی ملاقات کے وقت وہاں موجود تھا۔ اس نے صاعقہ سے کہا کہ وہ اسے باپ کی ملاقات کے لیے قید خانے لے جانے آیا ہے اور وہ اسے گھر واپس بھی لائے گا۔

صاعقہ تیار تھی۔ چلنے لگے تو باڈی گارڈ نے صاعقہ سے کہا… ''باپ کے ساتھ صرف خیرخیریت اور گھر کی باتیں کرنے کی اجازت ہوگی۔ کوٹھڑی کی سلاخوں سے تمہیں تین قدم دور کھڑا کیا جائے گا۔ کوئی ایسی بات نہ کرنا جو والئی موصل غازی سیف الدین کے وقار کے خلاف ہو''۔

٭ ٭ ٭

: باڈی گارڈ آگے آگے جارہا تھا۔ صاعقہ اس سے دو تین قدم پیچھے تھی۔ دونوں خاموشی سے چلے جارہے تھے، رات تاریک تھی۔ وہ اندھیری گلیوں سے گزرتے جارہے تھے۔ وہ ایک گلی کا موڑ مڑے تو باڈی گارڈ رک گیا۔ اس نے پیچھے دیکھا۔ صاعقہ نے پوچھا… ''کیا بات ہے؟''

''تم نے اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی آہٹ نہیں سنی تھی؟'' باڈی گارڈ نے اس سے پوچھا۔

''نہیں''۔ صاعقہ نے کہا… ''میں ہی تمہارے پیچھے پیچھے آرہی ہوں''۔

''میں نے کوئی اور آواز سنی تھی''۔ باڈی گارڈ نے زیرلب کہا اور آگے چل پڑا۔

''اتنا ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟'' صاعقہ نے پوچھا… ''کوئی اگر پیچھے سے آتا ہے تو آتا رہے''۔

باڈی گارڈ نے کوئی جواب نہ دیا۔ یہ گلی ختم ہوگئی۔ اس سے آگے آبادی نہیں تھی۔ زمین اونچی نیچی تھی۔ کھڈ نالے بھی تھے۔ قید خانہ اسی طرف آبادی سے کچھ دور تھا۔ دونوں کھڈوں سے بچتے جارہے تھے، وہاں جھاڑیاں اور درخت تھے۔ باڈی گارڈ ایک بار پھر رک گیا اور پیچھے کو دیکھا۔ اسے پیچھے آہٹ سنائی دی تھی۔ اس نے تلوار نکال لی اور پیچھے کو گیا۔ دو تین جھاڑیوں کے اردگرد گھوم کر دیکھا، وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔

''اب تم نے پیچھے کسی کے پائوں کی آواز سنی ہوگی''۔ باڈی گارڈ نے صاعقہ سے کہا۔ ''یہ آواز بڑی صاف تھی''۔

صاعقہ نے یہ آہٹ سنی تھی لیکن اس نے جھوٹ بولا۔ کہنے لگی… ''تمہارے کان بجتے ہیں اگر یہ کسی کی آہٹ تھی ہی تو خرگوش یا کسی ایسے ہی جنگی جانور کی ہوگی۔ تم ان آہٹوں سے کیوں ڈرتے ہو؟''

''میں تمہیں جو بات کہنے سے جھجکتا تھا وہ اب کہہ دیتا ہوں''۔ باڈی گارڈ نے جواب دیا… ''تم بہت ہی خوبصورت اور جوان لڑکی ہو۔ تمہیں اپنی قیمت کا اندازہ نہیں۔ تمہیں کسی نے اغوا کرکے کسی امیر یا حاکم کے پاس بیچ ڈالا تو وہ مالا مال ہوجائے گا۔ تم میری ذمہ داری میں ہو۔ کسی نے تمہیں مجھ سے چھین لیا تو والئی موصل میرا سرتن سے جدا کردے گا۔ تم میرے ساتھ چلو، میرے پیچھے نہ رہو''۔

صاعقہ اس کے ساتھ ہوگئی۔ کچھ آگے جاکر پگڈنڈی شروع ہوتی تھی۔ وہ وہاں تک چلے گئے اور پگڈنڈی پر چلنے لگے۔ تھوڑا آگے اس پگڈنڈی سے ایک اور راستہ نکلتا تھا جو کسی اور طرف جاتا تھا۔ باڈی گارڈ صاعقہ کو اس راستے پر لے گیا۔ چند ہی قدم آگے گئے ہوں گے کہ انہیں کسی کے دوڑتے قدموں کی صاف آواز سنائی دی جو فوراً ہی خاموش ہوگئی۔ کوئی پیچھے سے دوڑتا آیا اور دائیں کو چلا گیا۔ باڈی گارڈ نے ایک سایہ ایک درخت کے پیچھے غائب ہوتا دیکھ لیا تھا۔ وہ تلوار سونت کر اس درخت کی طرف دوڑا۔ پیچھے اسے صاعقہ کی گھٹی ہوئی چیخ سنائی دی۔ کسی نے صاعقہ کے اوپر بوری کی طرح کا تھیلا ڈال دیا اور اس سے پہلے اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا تھا۔ باڈی گارڈ کو اندھیرے میں اتنا ہی نظر آیا کہ جہاں صاعقہ اکیلی تھی، وہاں دو سائے اچھل کود رہے ہیں۔

وہ اس کی طرف دوڑنے ہی لگا تھا کہ عقب سے کسی نے اسے بازوئوں میں جکڑ لیا۔ اس کے بھی منہ میں کپڑا ٹھونس دیا گیا اور اوپر بوری کی طرح کا تھیلا اس پر چڑھا دیا گیا۔ وہ تنومند جنگجو تھا لیکن اسے جکڑنے والے تعداد میں زیادہ تھے اور وہ بھی طاقتور اور اپنے فن کے استاد تھے۔ ادھر صاعقہ کو دوہرا کرکے تھیلے کا منہ بند کردیا گیا۔ ادھر باڈی گارڈ کو اسی طرح تھیلے میں بند کردیا گیا۔ انہیں پکڑنے والے انہیں اٹھا کر چل پڑے۔ آگے جاکر ایک ایک تھیلا پیٹھ پر اٹھا لیا۔

جاری ھے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں