داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 76 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, اگست 14, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 76

 


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔76- جب سلطان ایوبی پریشان ہوگیا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آگے جاکر ایک ایک تھیلا پیٹھ پر اٹھا لیا۔ اندھیرے میں پاس سے گزرنے والوں کو بھی شک نہیں ہوتا تھا کہ دو انسانوں کو اغوا کرکے لے جایا جارہا ہے۔ وہ ایک اندھیری گلی میں چلے گئے اور کچھ دو رجاکر ایک تنگ وتاریک مکان میں داخل ہوگئے۔
اندر جاکر وہ صاعقہ کو ایک کمرے میں اور باڈی گارڈ کو دوسرے کمرے میں لے گئے۔ الگ الگ کمروں میں تھیلوں کے منہ کھول دئیے گئے۔ صاعقہ تھیلے سے نکلی تو اس کے منہ میں سے کپڑا نکال دیا گیا۔ کمرے میں دیا جل رہا تھا۔ صاعقہ کو دو آدمی کھڑے نظر آئے۔ اس نے غصے سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا… ''تم نے یہ کیا طریقہ اختیار کیا ہے؟''
''محفوظ طریقہ یہی تھا''۔ کمرے میں کھڑے دو آدمیوں میں سے ایک نے جواب دیا… ''راستے میں کوئی بھی تمہیں ہمارے ساتھ چلتا دیکھ سکتا تھا۔ یہ ضروری تھا کہ تمہیں بھی چھپا کر لایا جائے''۔
''مجھے پہلے کیوں نہ بتایا کہ تم یہ طریقہ اختیار کرو گے''۔ صاعقہ نے پوچھا… ''میں تو یہ سمجھی تھی کہ یہ تم نہیں ہو، کوئی ڈاکو ہیں اور مجھے سچ مچ اغوا کیا جارہا ہے''۔
''ہمارے طریقے کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں''۔ دوسرے آدمی نے کہا۔
''کیا تمہیں یقین ہوگیا تھا کہ وہ مجھے کہیںاور لے جارہا تھا؟'' صاعقہ نے پوچھا۔
''یہ یقین تو ہمیں اسی وقت ہوگیا تھا جب تم اس کے ساتھ گھر سے نکلی تھیں''۔ ایک آدمی نے جواب دیا… ''اگر وہ تمہیں واقعی قید خانے میں لے جارہا تھا تو چھوٹا اور سیدھا راستہ دوسری طرف تھا۔ وہ کھڈنالوں کے ویرانے میں تمہیں لے گیا اور پگڈنڈی سے ہٹ کر ایک راستے پر چل پڑا۔ ہمیں پختہ یقین ہوگیا کہ وہ تمہیں کہیں اور لے جارہا ہے''۔
''اس نے کئی بار تمہارے قدموں کی آہٹ سنی تھی''۔ صاعقہ نے کہا… ''ایسی بے احتیاطی نہیں کرنی چاہیے''۔
''اندھیرے میں فاصلے کا اندازہ نہیں ہوتا تھا''۔ اسے بتایا گیا۔ ''ہم تم دونوں کے تعاقب میں دور نہیں تھے، دور تک نظر نہیں آتا تھا، اس لیے تمہارے قریب رہنا ضروری تھا''۔
صاعقہ کے چہرے پر اطمینان تھا۔ وہ باڈی گارڈ کے ہاتھوں لاپتہ اور ذلیل وخوار ہونے سے بال بال بچ گئی تھی۔ دوسرے کمرے میں باڈی گارڈ کو تھیلے میں سے نکال کر اس کے منہ سے کپڑا نکالا گیا۔ اس کے سامنے تین نقاب پوش کھڑے تھے۔ اس کی تلوار انہی نقاب پوشوں کے پاس تھی۔
''کون ہو تم؟'' اس نے بڑے رعب سے نقاب پوشوں سے کہا… ''میں والئی موصل کا خصوصی محافظ ہوں۔ تم سب کو سزائے موت دلائوں گا۔ مجھے جانے دو''۔
''والئی موصل کی حفاظت اب خدا ہی کرے تو کرے''… ایک نقاب پوش نے کہا… ''تم اپنی حفاظت کی فکر کرو۔ اس لڑکی کو تم کہاں لے جارہے تھے؟''
''قید خانے میں اس کے باپ سے ملاقات کرانے لے جارہا تھا''۔ باڈی گارڈ نے جواب دیا… ''یادرکھو جس لڑکی کو تم نے اغوا کیا ہے اسے تم ہضم نہیں کرسکو گے۔ یہ خطیب ابن المخدوم کی بیٹی ہے اور والئی موصل غازی سیف الدین نے اپنا خصوصی محافظ اس کے لیے بھیجا تھا۔ اس سے تم اندازہ کرسکتے ہو کہ یہ لڑکی لاپتہ ہوگئی تو والئی موصل شہر کے گھر گھر کی تلاشی لے گا۔ تم شہر سے نکل نہیں سکو گے۔ تھوڑی دیر بعد غازی سیف الدین کو پتہ چل جائے گا کہ اس کا محافظ اور خطیب کی بیٹی لاپتہ ہیں۔ شہر کی ناکہ بندی فوراً کردی جائے گی۔ لڑکی کہا ںہے؟''
''سنو دوست!'' ایک نقاب پوش نے کہا… ''لڑکی یہیں ہے۔ اسے اغوا نہیں کیا گیا۔ اسے اغوا ہونے سے بچایا گیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ والئی موصل سیف الدین کے لیے یہ لڑکی اہم ہے اور وہ اس کی تلاش میں اپنی پوری فوج لگا دے گا کیونکہ لڑکی خوبصورت اور نوجوان ہے اور اس کا باپ قید خانے میں بند ہے۔ وہ سیف الدین کو دھتکار آئی تھی پھر اس نے لڑکی کو ملاقات کے لیے اجازت دے دی اور کہا کہ اسے ایک آدمی اپنے ساتھ قید خانے میں لے جائے گا۔ ملاقات کا وقت رات کا رکھا گیا۔ تم بتا سکتے ہو کہ ملاقات دن کو کیوں نہ کرائی گئی؟ لڑکی نے ہمیں بتایا۔ ہم نے اس کی حفاظت کا انتظام کرلیا۔ تم اسے گھر سے ہی غلط راستے پر لے چلے تو ہم تمہارے تعاقب میں چل پڑے۔ تم نے دو تین بار رک کر پیچھے دیکھا تھا۔ وہ ہم ہی تھے۔ تم نے جنہیں جھاڑیوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی تھی، وہ بھی ہم ہی تھے۔ ہم تو دن کی روشنی میں بھی کسی کو نظر نہیں آتے''۔
''تم نے اس لڑکی پر ظلم کیا ہے''۔ باڈی گارڈ نے کہا… ''میں اسے اس کے باپ کے پاس لے جارہا تھا''۔
: ''تم اسے اغوا کرکے لے جارہے تھے''۔ ایک نقاب پوش نے تلوار کی نوک اس کی شہ رک پررکھ کر ذرا سی دبائی اور کہا… ''تم اسے سیف الدین کے لیے لے جارہے تھے۔ ہم جانتے ہیں تمہارا والئی موصل کتنا کچھ رحم دل ہے جس نے خطیب تک کو قید کرنے سے گریز نہ کیا اور اب اس کی بیٹی کو ملاقات کی اجازت دے رہا ہے۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ محترم خطیب کا جرم ہے مگر تم یہ نہیں جانتے کہ یہ عالم موصل میں تنہا نہیں۔ وہ قید خانے میں ہے اور اس کی بیٹی تنہا نہیں۔ میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ ہم سیف الدین کا تختہ الٹ دیں گے۔ اس کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ ہم اسے کسی بھی وقت قتل کرسکتے ہیں لیکن صلاح الدین ایوبی نے ہمیں سختی سے حکم دے رکھا ہے کہ کسی کو حسن بن صباح کے فدائیوں کی طرح قتل نہ کرنا۔ ہم میدان میں للکارتے اور قتل کرتے ہیں''۔
''تم صلاح الدین ایوبی کے آدمی ہو؟'' باڈی گارڈ نے پوچھا۔
''ہاں!'' نقاب پوش نے جواب دیا…''ہم جانباز دستے کے سپاہی ہیں''… اس نے تلوار کی نوک اس کی شہ رگ پر اورزیادہ دبائی تو باڈی گارڈ کی پیٹھ دیوار کے ساتھ جالگی۔ نقاب پوش نے کہا… ''تم سیف الدین کے خصوصی محافظ ہو اور ہر وقت اس کے ساتھ رہتے ہو۔ تم اس کے راز دان ہو۔ لڑکیاں اغوا کرکے اسے دیتے ہو۔ پوری تفصیل سے بتائو کہ سلطان ایوبی کے خلاف اس کے ارادے کیا ہیں، اگر بتانے سے انکار کرو گے یا کہو گے کہ تمہیں کچھ علم نہیں تو تمہارا حال وہی کیا جائے گا جو سیف الدین قید خانے میں اپنے مخالفین کا کرتاہے''۔
''اگر تم سپاہی ہو تو اچھی طرح جانتے ہوگے کہ حاکم اور بادشاہ کے سامنے ایک محافظ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی''۔ باڈی گارڈ نے جواب دیا… ''میں اس کے ارادوں کے متعلق کیا بتا سکتا ہوں''۔
ایک نقاب پوش نے اس کا سرننگا کرکے اس کے بال مٹھی میں لے کر مروڑے اور جھٹکا دے کر اسے ایک طرف جھکا دیا۔ دوسرے نے اسے ٹانگوں سے گھسیٹ کر گرا دیا۔ ایک نقاب پوش اس کے پیٹ پر کھڑا ہوگیا۔ وہ دو تین بار اس کے پیٹ پر اچھلا تو باڈی گارڈ کے دانت بجنے لگے۔ پھر اسے مختلف اذیتوں کا ذرا ذرا ذائقہ چکھایا گیا اور اسے کہا گیا کہ وہ وہاں سے زندہ نہیںنکل سکے گا۔
''مجھے اٹھنے دو''۔ اس نے کراہتے ہوئے کہا۔
اسے اٹھایا گیا۔ اس نے کہا… ''سیف الدین سلطان ایوبی کے خلاف لڑنا چاہتا ہے''۔
''یہ کوئی راز نہیں''۔ ایک نقاب پوش نے کہا۔ ''ہمیں بتائو وہ کب اور کس طرح لڑنا چاہتا ہے۔ کیا وہ حلب اور حرن کی فوجوں کے ساتھ اپنی فوج شامل کرے گا یا الگ لڑے گا''۔
''فوج دوسری فوجوں میں شامل کرے گا''۔ باڈی گارڈ نے جواب دیا… ''لیکن ایسی چال چلے گا کہ اس کی فوج کی فتح الگ تھلگ نظر آئے۔ حلب اور حرن والوں پر اسے بھروسہ نہیں''۔
''اپنے سالاروں کو اس نے کیا ہدایات دی ہیں؟'' ایک نقاب پوش نے پوچھا۔
''اس کا منصوبہ یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کو پہاڑی علاقے میں محصور کرلیا جائے''۔ باڈی گارڈ نے جواب دیا۔
''فوج کس راستے سے جائے گی؟''
''قرون حماة کی طرف سے''۔ باڈی گارڈ نے جواب دیا۔
''صلیبی کتنی مدد دے رہے ہیں؟''
''صلیبیوں نے مدد کا وعدہ کیا ہے''۔ باڈی گارڈ نے جواب دیا۔ ''لیکن سیف الدین انہیں بھی دھوکہ دے گا۔ صلیبی فوج کے چند ایک کمانڈر موصل کی فوج کو تربیت دے رہے ہیں''۔
یہ نقاب پوش اور دو آدمی جو دوسرے کمرے میں صاعقہ کے ساتھ تھے، سلطان ایوبی کے چھاپہ مار جاسوس تھے۔ ان کا رابطہ خطیب ابن المخدوم کے ساتھ تھا بلکہ خطیب ان کا نگران اور سربراہ تھا۔ یہ گروہ سلطان ایوبی کے لیے آنکھوں اور کانوں کا کام کرتا تھا۔ موصل سے جو بھی اطلاع وہ حاصل کرتے تھے۔ سلطان ایوبی کے جنگی ہیڈکوارٹر کو بھیج دیتے تھے۔ موصل میں وہ مختلف کام دھندا، ملازمت اور دکان داری کرتے تھے۔ خطیب قید ہوگیا تو یہ رات کو باری باری خطیب کے گھر کا پہرہ دیتے تھے۔ ان لڑکیوں نے جو صاعقہ کے گھر اسے تنہا سمجھ کر سونے آئی تھیں، انہی کے سائے حرکت کرتے دیکھے تھے۔ صاعقہ نے ان لڑکیوں کو یہ نہیں بتایا تھا کہ یہ سائے نہیںانسان ہیں۔ اس نے ایسا تاثر دیا تھا جیسے یہ جنات ہیں۔ ان آدمیوں کو معلوم تھا کہ صاعقہ سیف الدین کے پاس باپ سے ملاقات کی اجازت لینے گئی ہے۔ واپس آکر اس نے ان میں سے ایک آدمی کو بتا دیا تھا کہ رات کو ایک آدمی اسے قید خانے میں لے جانے کے لیے آئے گا۔ اس نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ سیف الدین نے اس کے ساتھ ناروا باتیں کیں اور اسے اپنے عقد میں لینے کی پیشکش کی تھی۔
 اس آدمی نے اپنے گروہ کو بتایا۔ یہ سب بہت ذہین تھے، انہیں شک ہوا کہ صاعقہ کو کسی اور طرف لے جا کر اسے غائب کردیا جائے گا۔ چنانچہ سورج غروب ہونے کے بعد پانچ آدمی صاعقہ کے گھر میں جاکر چھپ گئے تھے۔ صاعقہ باڈی گارڈ کے ساتھ گئی تو یہ آدمی ان کے تعاقب میں چل پڑے۔ آگے جاکر ان کا شک صحیح ثابت ہوا۔ انہوں نے کامیابی سے صاعقہ کو بچالیا اور باڈی گارڈ کو بھی پکڑ لائے جو سیف الدین کا راز دان تھا۔ انہوں نے فوجی اہمیت کے بہت سے راز اگلوا لیے۔ ان میں یہ راز اہم تھا کہ سیف الدین کے بھائی عزالدین نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے کو اپنی کمان میں رکھا ہے۔ یہ حصہ محفوظہ کے طور پر استعمال ہوگا، یعنی اسے بعد میں ضرورت کے مطابق استعمال کیا جائے گا۔ پہلے حملے کی قیادت سیف الدین کو کرنی تھی۔ دوسری اہم بات جو معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ حلب سے گمشتگین اور سیف الدین کے ہاں ایلچی یہ پیغام لے کر گئے ہیں کہ تینوں فوجوں کو مشترکہ کمان میں رکھا جائے اور صلیبیوں کی مدد پر زیادہ بھروسہ نہ کیا جائے۔ باقی معلومات بھی اہم تھیں۔
باڈی گارڈ نے یہ معلومات اگل کر کہا کہ اسے رہا کردیا جائے۔ نقاب پوشوں نے اسے رہائی کے وعدے پر ٹال دیا۔ صاعقہ کو اسی کمرے میں رہنے دیا گیا۔ اس کے گھر رکھنا مناسب نہیں تھا۔ باڈی گارڈ کو اس مکان کی ایک اندھیری کوٹھڑی میں بند کردیا گیا۔
٭ ٭ ٭
حرن اور حلب سے تقریباً پچاس میل دور صلیبی فوج کا جنگی ہیڈ کوارٹر تھا جہاں زیادہ سرگرمیاں جاسوسی کے متعلق تھیں، وہاں جو صلیبی حکمران اور کمانڈر تھے۔ وہ سلطان ایوبی کے خلاف کھلی جنگ لڑنے کے بجائے اس کے مسلمان مخالفین کو متحد کرکے اس کے خلاف لڑانے کی سکیمیں بنا رہے تھے اور ان پر عمل بھی کررہے تھے۔ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں ک بڑے بڑے امراء کو اپنے فوجی مشیر دے رکھے تھے جو انہیں جنگی مشورے دینے کے علاوہ فوجوں کو جنگی تربیت بھی دیتے تھے۔ اپنی اصل نیت پر پردہ ڈالے رکھنے کے لیے وہ مسلمان امراء کو عیش وعشرت کا سامان بھی مہیا کرتے رہتے تھے۔ ان کے جاسوس بھی ان امراء کے درباروں میں موجود رہتے اور اپنے ہیڈکوارٹر کو خبریں بھیجتے رہتے تھے۔
حرن سے گمشتگین کا ایک صلیبی مشیر اپنے اس جنگی ہیڈکوارٹر میں پہنچا۔ اس وقت صلیبی کے دو مشہور جنگجو حکمران ریمانڈ اوریجنالٹ وہاں موجود تھے۔ ریمانڈ وہ حکمران تھا جسے حال ہی میں سلطان ایوبی نے ایک بروقت اور برق رفتار چال چل کر بھگا دیا تھا ور یجنالٹ وہ مشہور صلیبی حکمران تھا جسے نورالدین زنگی نے ایک معرکے میں جنگی قیدی بنا لیا تھا۔ اسے اور دیگر صلیبی قیدیوں کو حرن میں گمشتگین کے حوالے کردیا گیا تھا۔ اس وقت گمشتگین خلافت بغداد کا ایک قلعہ دار تھا۔ز نگی فوت ہوگیا تو اس قلعہ دار نے خودمختاری کا اعلان کردیا اور صلیبیوں کے ساتھ دوستی گہری کرنے کے لیے ریجنالٹ جیسے قیمتی قیدی کو تمام صلیبی قیدیوں سمیت رہا کردیا… نورالدین زنگی نے کہا تھا کہ ریجنالٹ کے عوض وہ صلیبیوں سے اپنی شرطین منوائے گا۔ زنگی مرگیا تو امراء نے عیاشی اور حکومت کے نشے میں اس کے تمام تر منصوبے الٹ کردئیے اور صلیبی سلطنت اسلامیہ کی بنیادوں پر اترنا شروع ہوگئے۔
حرن سے صلیبی مشیر جو دراصل جاسوس تھا۔ ریمانڈ اور ریجنالٹ کے پاس پہنچا ور حرن کے تازہ واقعات کی تفصیلی رپورٹ دی۔ اس نے کہا۔ ''حلب سے الملک الصالح نے گمشتگین اور سیف الدین کو تحفوں کے ساتھ پیغام بھیجے ہیں کہ وہ اپنی فوجیں اس کی فوج کے ساتھ مشترکہ کمان میں دے دیں۔ وہاں یہ عجیب یہ واقعہ ہوا ہے کہ گمشتگین کے دو سالاروںنے حرن کے قاضی کو قتل کردیا ور دو لڑکیوں کو جو حلب سے الملک الصالح نے پیغام کے ساتھ تحفے کے طور پر بھیجی تھیں، بھگا دیا پھر انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ صلاح الدین ایوبی کے حامی ہیں اور وہ اسی کے لیے زمین ہموار کررہے تھے۔ یہ دونوں سالار لگے بھائی ہیں اور ہندوستان سے آئے ہیں۔ دونوں کو گمشتگین نے قید خانے میں ڈال دیا ہے۔ اس سے ایک ہی روز پہلے ہمارا ایک ساتھی مشیر گمشتگین کے گھر میں ایک دعوت کے دوران پراسرار طریقے سے قتل ہوگیا ہے۔ اگلے دل معلوم ہوا کہ گمشتگین کے حرم کی ایک لڑکی اور اس کا ایک باڈی گارڈ لاپتہ ہیں''۔
: صلیبیوں کی اس کانفرنس میں قہقہہ بلند ہوا اور کچھ دیر تک سب ہنستے رہے۔ ریمانڈ نے کہا۔ ''یہ مسلمان قوم اس قدر جنسیت پسند ہوگئی ہے کہ اس کے حکمران، امراء اور وزراء جنگ اور سیاست کے فیصلے بھی جنسی لذت پرستی سے مغلوب ہوکر کرتے ہیں۔ ذرا غور کرو کہ گمشتگین جیسے جابر اور جنگجو قلعہ دار کی فوج کی اعلیٰ کمان جن دو سالاروں کے پاس تھی وہ دونوں اس کے دشمن صلاح الدین ایوبی کے کیمپ کے سالار تھے۔ مجھے یقین ہے کہ ان دونوں نے تحفے میں آئی ہوئی لڑکیوں کی خاطر قاضی کو قتل کیاہوگا اور لڑکیوں کو صلاح الدین ایوبی کے پاس بھیج دیا ہوگا اور خود قید ہوگئے۔ گمشتگین کے حرم کی جو لڑکی لاپتہ ہوگئی ہے وہ اس محافظ نے بھگائی ہوگی اور ہمارا آدمی معلوم نہیں کس چکر میں قتل ہوگیا۔ مسلمان امرائ، قلعہ داروں اور حاکموں کی مقید دنیا بڑی ہی پراسرار دنیا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ قوم عیش وعشرت اور لذت پرستی سے تباہ ہوگی''۔
''میں دو باتیں کہوں گا''۔ ایک اور صلیبی نے کہا۔ یہ صلیبی اپنی افواج کی انٹیلی جنس کا سربراہ تھا۔ اس نے کہا۔ ''آپ نے کہا ہے کہ تحفے میں آئی ہوئی لڑکیاں حرن سے بھگا کر صلاح الدین ایوبی کے پاس بھیج دی گئی ہوں گی۔ ) میں یہ تسلیم نہیں کرتا۔ میں جاسوسی کا ماہر ہوں، دشمن کے فوجی راز حاصل کرنے کے علاوہ میرے شعبے کا کام یہ بھی ہوتا ہے کہ دشمن کے فوجی قائدین اور دیگر اعلیٰ حکام کے ذاتی کردار اور جنگی چالوں کے متعلق بھی معلومات حاصل کرے اور اپنی فوج کو آگاہ کرے۔ میں آپ کو پورے وثوق سے بتاتا ہوں کہ عورت اور شراب کے معاملے میں صلاح الدین ایوبی پتھر ہے۔ یہی ایک وجہ ہے کہ آپ اسے زہر دے کر نہیںمار سکتے، نہ اسے کسی حسین لڑکی کے جال میں پھانس کر فدائیوں سے قتل کراسکتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت کا اٹل اصول ہے کہ جو انسان ذہنی عیاشی کا عادی نہ ہو، اس کا عزم پختہ ہوتا ہے اور جو مہم ہاتھ میں لیتا ہے، اسے سر کرکے ہی دم لیتا ہے۔ آپ کے دشمن صلاح الدین ایوبی میں یہی خوبی ہے۔ یہ اسی کا اثر ہے کہ اس کا دماغ پورا کام کرتا ہے۔ وہ ایسی ایسی چالیں چلتا ہے جو آپ کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتی اور آپ کے پائوں اکھڑ جاتے ہیں، جہاں تک میں نے اس کے متعلق معلومات حاصل کی ہیں، ان سے معلوم ہوتاہے کہ وہ جسمانی ضروریات سے بے نیاز ہے۔ اس نے یہی خوبی اپنی فوج میں پیدا کررکھی ہے، ورنہ صحرا میں لڑنے والے سپاہی برف پوش وادیوں میں اور پہاڑوں پر اس یخ موسم میں کبھی نہ لڑ سکتے۔ جب تک آپ اپنے ہاں بھی یہی خوبی پیدا نہیں کریں گے، اپنے اس دشمن کو جسے آپ صلاح الدین ایوبی کہتے ہیں، کبھی شکست نہیں دے سکتے''۔
''اوردوسری بات یہ ہے کہ دوسرے مسلمان امرائ، وزراء اور حکمرانوں میں جو زن پرستی پیدا ہوگئی ہے، وہ میرے شعبے کا کمال ہے۔ یہودی دانشوروں نے ایک صدی سے زیادہ عرصے سے مسلمانوں کی کردار کشی کی مہم چلا رکھی ہے۔ یہ دراصل ان کی کامیابی ہے کہ ہم نے لڑکیوں اور زروجواہرات کے ذریعے مسلمان سربراہوں کا کردار ختم کیا ہے۔ ہم تو انہیں اخلاقی لحاظ سے تباہ کرنے کے لیے حسین اور تیز طرار لڑکیاں باقاعدہ تربیت کے ساتھ ان کے ہاں تحفے کے طور پے بھیجتے ہیں۔ ان بدبختوں نے آپس میں بھی لڑکیوں کو بطور تحفہ بھیجنا شروع کردیا ہے۔ ان کے ہاں قومی کردار ختم ہوچکا ہے۔ یہ ہماری کامیابی ہے کہ ہم نے ان کے درمیان تفرقہ اور بادشاہی کا لالچ پیدا کردیا ہے''۔
''اس قوم کو ہم اسی طرح ختم کریں گے''۔ ریجنالٹ نے کہا ۔ ''اور یہ قوم اپنے کردار کے ہاتھوں تباہ ہوگی۔ صلاح الدین ایوبی خوش ہورہاہوگا کہ اس نے ہمارے بھائی ریمانڈ کو پسپا کر دیا ہے ۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ ریمانڈ جنگ سے پسپا ہوا ہے ۔ یہ تو اس کی کی قوم کے سینے میںگھس گیا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم میدان میں ہی شکست دیں، ہم کسی دوسرے محاذ پر بھی لڑ سکتے ہیں ''۔
''اس مہم کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے''۔ اس مشیر نے کہا جو حرن سے آیاتھا۔ ''میں نے آپ کو گمشتگین کے اندرون خانہ کے واقعات سنائے ہیں۔ ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہاں صلاح الدین ایوبی کے جاسوس اور تخریب کار صرف موجود ہی نہیں بلکہ گمشتگین کے گھر کے اندر اس کی اعلیٰ کمان میں پوری طرح سرگرم ہیں۔ ہمیں ان کے خلاف کوئی کاروائی کرنی چاہیے''۔
: ''ہمیں کیا ضرورت ہے کہ گمشتگین اور سیف الدین اور الملک الصالح اور ان کے متحدہ محاذ کے دوسرے امراء وغیرہ کو صلاح الدین ایوبی کی جاسوسی اور تباہ کاری سے بچائیں''۔ ایک صلیبی کمانڈر نے کہا… ''ہم تو ان کی تباہی کے عمل کو تیز کریں گے۔ یہ تباہی ہمارے ہاتھوں ہو یا ان کے اپنے ہی کسی بھائی کے ہاتھوں، کیا آپ ان مسلمانوں کو صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑا رہے ہیں، سچے دل سے اپنا دوست سمجھ بیٹھے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ سچے صلیبی نہیں۔ آپ شاید ابھی تک یہ نہیں سمجھے کہ ہماری دشمنی نورالدین زنگی کے ساتھ نہیں تھی، نہ ہی صلاح الدین ایوبی کے ساتھ۔ اگر صلاح الدین ایوبی کبھی میرے سامنے آگیا تو میں اس کا احترام کروں گا۔ وہ جنگجو ہے، میدان جنگ کا بادشاہ ہے، تیغ زن ہے، ہماری دشمنی اس مذہب کے خلاف ہے، جسے اسلام کہتے ہیں۔ ہم ہر اس آدمی کے خلاف لڑیں گے جو اس مذہب کا دفاع کرے گاا ور جو اسے فروغ دے گا، ہمارے اور صلاح الدین ایوبی کے مرنے کے بعد یہ جنگ ختم نہیں ہوجائے گی۔ اسی لیے ہم مسلمانوں میں ایسی بری عادتیں پیدا کررہے ہیں جو ان کی آئندہ نسلوں میں بھی منتقل ہوں گی۔ ہم ایسے طریقے اختیار کررہے ہیں کہ مسلمان اپنی روایات کو بھول جائیں اور ہماری پیدا کردہ خوبیوں کے دلدادہ ہوجائیں''۔
''ہمیں ان کے اصل تہذیب وتمدن کو بگاڑنا ہے''۔ ریمانڈ نے کہا۔ ''ہم اس دور میں زندہ نہیں ہوں گے۔ ہم دیکھ نہیں سکیں گے۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ ہم نے کردار کی تباہ کاری کی مہم جاری رکھی تو وہ دور آئے گا کہ اسلام اگر زندہ رہا تو یہ اسلام کی بدروح ہوگی جو بھٹکتی پھرے گی۔ مسلمان نام کے مسلمان ہوں گے۔ ان کی کوئی آزاد اسلامی مملکت رہ بھی گئی تو وہ گناہوں اور بدی کا گھر ہوگی۔ یہودی اور عیسائی دانشوروں نے اس قوم میں بدی کی محبت پیدا کردی ہے''۔
''بہرحال اب ضرورت یہ ہے کہ وہ لوگ ہماری مدد کی توقع لیے بیٹھے ہیں''۔ صلیبی مشیر نے کہا۔ ''گمشتگین نے مجھے اسی لیے بھیجا ہے''۔
بہت دیر اس مسئلے پر تبادلۂ خیالات ہوتا رہا۔ آخر یہ فیصلہ ہوا کہ فوجوں کی صورت میں انہیں کوئی مدد نہ دی جائے۔ مدد کا جھانسہ دیا جائے۔ انہیں یہ یقین دلایا جائے کہ وہ صلاح الدین ایوبی پر حملہ کرکے اسے الرستان کے اندر ہی لڑاتے رہیں اور ہم اپنی فوجیں اس کے کسی نازک مقام پر لے جا کر اسے مجبور کردیں گے کہ وہ الرستان سے پسپا ہوجائے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ حلب، حرن اور موصل کی فوجوں کے لیے اس مشیر کے ہمراہ کمانوں اور تیروں کا اور آتش گیر مادے کا ذخیرہ بھیج دیا جائے۔ اس کے علاوہ پانچ سو گھوڑے بھی بھیج دئیے جائیں لیکن یہ خیال رکھا جائے کہ زیادہ تعداد ایسے گھوڑوں کی ہو جو ہماری فوج کے کام کے نہیں رہے۔ بظاہر تندرست ہوں۔
''اور آئندہ یوں کیا جائے کہ ان امراء وغیرہ کو تھوڑا تھوڑا اسلحہ دیا جاتا رہے''۔ ریجنالٹ نے کہا۔ ''اس کے ساتھ ساتھ انہیں عیاشی کی طرف مائل کیا جائے۔ انہیں یہ تاثر دیا جائے کہ انہیں جب کبھی اسلحہ اور گھوڑوں کی ضرورت ہوگی، وہ ہم پوری کردیں گے۔ اس طرح وہ خود اپنی ضرورت پوری کرنے سے غافل ہوجائیں گے اور ہماری محتاج رہیں گے۔ اس مددسے اور اپنے مشیروں کی وساطت سے ہم ان کے دلوں اور دماغوں پر غالب آجائیں گے''۔
'' انتہائی ضروری بات تو رہ گئی ہے ''۔ ایک کمانڈر نے کہا ۔ '' شیخ سنان کے بھیجے ہوئے نو فدائی چلے گئے ہیں ۔ اب کے اُمید ہے کہ وہ صلاح الدین ایوبی کو قتل کردیں گے۔ وہ جو حلف اُٹھا کر گئے ہیں اس میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ و ہ جان پر کھیل کر اُسے قتل کریں گے ورنہ وہ زندہ واپس نہیں آئیں گے''۔
اسی روز پانچ سو گھوڑے، ہزار ہا کمانیں اور لکھوکھہا تیر اور آتش گیر مادے کے سربمہر مٹکے حلب کو اس پیغام کے ساتھ روانہ کردئیے گئے کہ اس ٹھوس مدد کا سلسلہ جاری رہے گا اور صلاح الدین ایوبی پر فوراً حملہ کردیا جائے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے ہیڈکوارٹر میں بٹھا تھا۔ اس کے پاس سب سے پہلے انطانون اور فاطمہ پہنچے۔ فاطمہ گمشتگین کے حرم کی وہ لڑکی تھی جس نے ایک صلیبی مشیر کو قتل کیا اور انطانون نام کے محافظ کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ انطانون سلطان ایوبی کا بھیجا ہوا جاسوس تھا جو جذبات سے مغلوب ہوگیا تھا، اسی لیے وہ گرفتار ہوا تھا۔ یہ تو سالار شمس الدین اور سالار شاد بخت کی بدولت تھا کہ اسے دھوکے سے بھگا دیا گیا تھا۔ سلطان ایوبی کی انٹیلی جنس کا سربراہ حسن بن عبداللہ تھا جو انطانون اور فاطمہ کو سلان ایوبی کے پاس لے گیا تھا۔ انطانون نے اپنی واردات منوعن سنا دی جو سلطان ایوبی کو پسند نہ آئی لیکن اسے اس لیے معاف کردیا گیا کہ وہ کامیابی سے گمشتگین کے محافظ دستے میں شامل ہوگیا تھا۔ اس نے دوسرا کارنامہ یہ کیا تھا کہ اس نے فاطمہ کے ساتھ تعلقات پیدا کرکے حرم تک رسائی حاصل کرلی تھی۔ سلطان ایوبی نے انطانون کے متعلق حکم دیا کہ اسے فوج میں بھیج دی
: دیا جائے کیونکہ جاسوسی کے نازک کام کے لیے اس کے جذبات پختہ نہیںہیں۔ فاطمہ کو دمشق بھیج دینے کا حکم دیاگیا۔
''میں انطانون کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہوں''۔ فاطمہ نے کہا۔
''ایسا ہی ہوگا''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ ''لیکن شادی دمشق میں ہوگی۔ میدان جنگ شہادت کے لیے ہے، شادی کے لیے نہیں''۔
''سلطان محترم!'' انطانون نے کہا۔ ''میں نے آپ کو ناراض کیا ہے۔ میں اپنے لیے یہ سزا تجویز کرتا ہوں کہ میں جب تک سلطان کو خوش نہ کرلوں، میں شادی نہیںکروںگا''۔ اس نے فاطمہ سے کہا ''تم سلطان کے حکم کے مطابق دمشق چلی جائو۔ وہاں تمہارے رہنے کا اچھا انتظام ہے۔ تمہاری شادی میرے ساتھ ہی ہوگی''۔ اس نے سلطان ایوبی سے کہا۔ ''میری یہ عرض مانی جائے کہ میں آپ کے کسی چھاپہ مار دستے میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ میں نے شب خون مارنے کی تربیت حاصل کررکھی ہے''۔
اسے ایک چھاپہ مار دستے میں بھیج دیا گیا۔ وہاں سے رخصت ہوتے وقت اس نے فاطمہ کی طرف دیکھا بھی نہیں۔دوسرے دن جب فاطمہ کو دمشق بھیجا جانے لگا تو وہ لڑکیاں پہنچ گئیں جو الملک الصالح نے گمشتگین کو تحفے کے طور پر بھیجی تھیں۔ ان کے ساتھ سالار شمس الدین اور شاد بخت کے بھیجے ہوئے دو آدمی تھے۔ انہوں نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ حرن میں کیا ہورہا ہے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ دونوں سالاروں کو گرفتار کرلیاگیا ہے۔ لڑکیوں نے سلطان ایوبی کو اپنی کہانی سنائی۔
''کیا آپ کو معلوم ہے کہ فلسطین کے مسلمان آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں؟'' ایک لڑکی نے کہا۔ ''وہاں کی لڑکیاں آپ کے گیت گاتی ہیں۔ مسجدوں میں آپ کی دعائیں مانگی جاتی ہیں''۔ اس نے پوری تفصیل سے سنایا کہ مقبوضہ علاقوں میں صلیبیوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کررکھا ہے ارو ان کے لیے دنیا جہنم بنا ڈالی ہے۔
''وہاں ہماری بچیوں کی نہیں، ہماری عظمت کی عصمت دری ہورہی ہے''۔ دوسری لڑکی نے کہا۔ ''میں تو یہ کہوں گی کہ قوم کی عظمت کی عصمت دری ہمارے اپنے حکمران کررہے ہیں۔ ہمیں ان کے پاس تحفے کے طور پر بھیجا گیا ہے۔ ہم نے انہیں خدا کے واسے دئیے اور بتایا کہ ہم ان کی بیٹیاں ہیں مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ انہوں نے ہمیں ایک دوسرے کی طرف تحفے کے طور پر بھیجنا شروع کردیا''۔
''فلسطین کے راستے میں بھی وہی حائل ہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ ''میں گھر سے فلسطین پہنچنے کے لیے ہی نکلا تھا مگر میرے بھائی میرا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ تم اب محفوظ ہو۔ ایک لڑکی پہلے بھی یہاں آئی ہے، اسے دمشق بھیجا جارہا ہے، تم بھی اسی کے ساتھ دمشق جارہی ہو''۔
''ہم اپنی عصمت کا انتقام لینا چاہتی ہیں''۔ ایک لڑکی نے کہا۔ ''ہمیں یہیں رکھا جائے اور ہمیں کوئی فرض سونپا جائے۔ ہم اب کسی حرم میں یا کسی گھر میں قید نہیں ہونا چاہتیں''۔
''ابھی ہم زندہ ہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ ''تم دمشق چلی جائو۔ وہاں تمہیں کوئی قید نہیں کرے گا، وہاں لڑکیاں کئی اور طریقوں سے ہماری مدد کررہی ہیں، وہاں تمہیں کوئی فرض سونپ دیا جائے گا''۔
لڑکیوں کو رخصت کرکے سلطان ایوبی بے چینی سے ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ اس وقت حسن بن عبداللہ اس کے ساتھ تھا۔ سلطان ایوبی نے کہا ۔ ''مصر سے ابھی کمک نہیں پہنچی، اگر تینوں فوجیں ہم پر حملے کے لیے آگئیں تو ہمارے لیے مشکل پیدا ہوجائے گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کو معلوم نہیں کہ میرے پاس فوج کم ہے اور میں کمک کا انتظار کررہا ہوں اگر ان کی جگہ میں ہوتا تو میں فوراً حملہ کردیتا اور دشمن کی کمک اور رسد کا راستہ بھی روک لیتا''۔
''مصر سے کمک آہی رہی ہوگی''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا۔ ''محترم العادل ایسے تو نہیں کہ وقت ضائع کریں گے۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ دشمن نے ہماری کمک کا راستہ روکا ہوا نہیں''۔
 تمام مورخ لکھتے ہیں کہ اس موقع پر سلطان ایوبی بڑی نازک اور پرخطر صورتحال میں تھا۔ وہ مصر سے کمک کا انتظار کررہا تھا اگر اس وقت الملک الصالح، سیف الدین اور گمشتگین کی مشترکہ فوج اس پر حملہ کردیتی تو اسے آسانی سے شکست دی جاسکتی تھی کیونکہ اس کے پاس فوج تھوڑی تھی۔ پہاڑی علاقے میں وہ صحرا کی چالیں نہیں چل سکتا تھا لیکن اس کے دشمن نہ جانے کیا سوچتے رہے۔ صلیبی اس پر حملہ کرنے کے بجائے مسلمان امراء کو اس کے خلاف لڑانا چاہتے تھے۔ انہوں نے بھی نہ دیکھا کہ سلطان ایوبی مجبوری کی حالت میں بیٹھا اللہ سے دعائیں مانگ رہا ہے کہ اس حالت میں دشمن اس پر ہل نہ بول دے۔ وہ تو اس قابل بھی نہیں تھا کہ پانی کی اس ندی کی حفاظت کرسکتا جس سے اس کی فوج کے گھوڑے اور اونٹ پانی پیتے تھے۔ صلیبی یا اس کے مسلمان دشمن اگر عقل سے کام لیتے تو چھاپہ ماروں کے ذریعے اس کی کمک اور رسد کا راستہ روک سکتے تھے یا کمک کی رفتار سست کرسکتے تھے۔ سلطان ایوبی نے اس راستے کو گشتی چھاپہ ماروں کے ذریعے محفوظ رکھا ہوا تھا۔
قاضی بہائوالدین شداد جو اس وقت کا عینی شاہد اور مبصر ہے، اپنی یادداشتوں ''سلطان یوسف (صلاح الدین ایوبی) پر کیا افتاد پڑی'' میںلکھتا ہے۔ ''اگر خدا انہیں (دشمنوں) کو فتح دینا چاہتا تو وہ سلطان ایوبی پر اس وقت حملہ کردیتے مگر خدا جسے ذلیل کرنا چاہتا ہے، وہ ذلیل ہوکے رہتا ہے۔ (قرآن ٤٣/٨)۔ انہوں نے سلطان ایوبی کو اتنا وقت دے دیا کہ مصر سے کمک پہنچ گئی۔ سلطان نے اسے اپنی فوج میں مدغم کرکے اپنی مورچہ بندی کو نئی ترتیب دے لی اور حملے سے پہلے اس نے تمام تر گھوڑوں کو پانی پلایا اور پانی کا ذخیرہ بھی کرلیا''۔
سلطان ایوبی کی بے چینی کا یہ عالم تھا کہ رات کو سوتا بھی نہیں تھا۔ اس نے جہاں جہاں اپنی مختصر سی فوج مورچہ بند کررکھی تھی، وہاں جاتا، غور کرتا اور اپنی سکیم کے مطابق یقین کرلیتا تھا کہ اس کے یہ تھوڑے سے سپاہی دشمن کا حملہ روک لیں گے۔ قرونِ حماة میں جہاں ایک پہاڑی سینگوں کی طرح دو حصوں میں بٹ جاتی تھی، اس نے دشمن کے لیے پھندا تیار رکھا ہوا تھا مگر اس کا مسئلہ یہ تھا کہ اس جگہ اتنی تھوڑی نفری سے وہ صرف دفاعی جنگ لڑ سکتا تھا۔ جوابی حملہ جو جنگ کا پانسہ پلٹنے کے لیے ضروری ہوتا ہے ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ اس کے جاسوسوں نے اسے یہ بھی بتا دیا تھا کہ صلیبی کوشش کریں گے کہ مسلمان امراء کو سلطان ایوبی کے خلاف اس طرح لڑایا جائے کہ جنگ طول پکڑ جائے تاکہ سلطان ایوبی پہاڑی علاقے سے باہر نہ نکل سے اور محصور ہوکر دفاعی جنگ لڑتا لڑتا ختم ہوجائے۔
اس کے جاسوس اسے یہ نہیں بتا سکے تھے کہ نو فدائی اسے قتل کرنے کے لیے آرہے ہیں۔ اس کی نظر اپنی جان پر نہیں میدان جنگ پر تھی۔ اس نے دیکھ بھال کے لیے دور دور تک آدمی پھیلا رکھے تھے۔
اس سے دوسرے ہی دن حرن سے سلطان ایوبی کا ایک جاسوس آیا جس نے اطلاع دی کہ سالار شمس الدین اور سالار شاد بخت کو قید خانے میں ڈال دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے قاضی ابن الخاشب کو قتل کردیا ہے۔ جاسوس کو قتل کی وجہ کا علم نہیں تھا۔ سلطان ایوبی کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ ان دونوں بھائیوں کے ساتھ اس نے بہت سی امیدیں وابستہ کررکھی تھیں۔ اسے معلوم تھا کہ گمشتگین کی فوج کی کمان ان دونوں کے ہاتھ ہوگی اور ان کی فوج لڑے بغیر تتر بتر کردی جائے گی۔ جاسوس نے یہ اطلاع بھی دی کہ اب میدان جنگ میں فوج کی کمان گمشتگین خود کرے گا اور یہ بھی کہ وہ اپنی فوج مشترکہ کمان میں دے رہا ہے۔
''حسن بن عبداللہ!'' سلطان ایوبی نے کہا۔ ''یہ دونوں بھائی زیادہ دن قید میں نہ رہیں۔ اس آدمی (جاسوس) سے معلوم کرو کہ حرن میں اپنے کتنے آدمی ہیں اور کیا وہ ان دونوں سالاروں کو قید خانے سے فرار کراسکتے ہیں؟ مجھے ڈر ہے کہ ان دونوں کوگ مشتگین قتل کرادے گا۔ اسے پتہ چل گیا ہوگا کہ یہ دونوں سالار میرے جاسوس ہیں۔ میں انتظار نہیں کرسکتا کہ حرن کو جاکر محاصرے میں لوں اور قلعہ سر کرکے انہیں رہا کروائوں۔ پیشتر اس کے کہ گمشتگین کوئی اوچھا فیصلہ کربیٹھے، انہیں اس کے قید خانے سے آزاد کرائو۔ میں دو سالاروں کے لیے اپنے دو سو چھاپہ ماروں کو مروانے کے لیے تیار ہوں۔ حرن میں اپنے آدمیوں کی کمی ہو تو یہاں سے چھاپہ مار بھیجو''۔
''بندوبست ہوجائے گا''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا۔
٭ ٭ ٭
: حلب چونکہ سلطان ایوبی کے مخالفین کا مرکز بن گیا تھا، اس لیے صلیبیوں نے جو تیروکمان، آتش گیر مادے کے مٹکے اور گھوڑے مدد کے طور پر بھیجے تھے، وہ حلب لے جائے گئے۔ حلب والوں میں صلیبیوں نے یہ خوبی بھی دیکھی تھی کہ انہوں نے سلطان ایوبی کے محاصرے کا مقابلہ بڑے ہی بے جگری سے کیا تھا۔ اس کے علاوہ حلب سلطنت کی گدی بھی بن گیا تھا۔ صلیبی مشیروں نے موصل میں سیف الدین کو اور حرن میں گمشتگین کو پیغام بھیجے کہ ان کی مشترکہ فوج کے لیے مدد آگئی ہے اور وہ فوراً حلب میں آجائیں۔ مورخین کے مطابق ان کی ملاقات حلب شہر سے باہر ایک ہرے بھرے مقام پر ہوئی جہاں تینوں میں ایسا معاہدہ ہوا جو تحریر میں نہ لایا گیا۔ معاہدے کو آخری شکل صلیبی مشیروں نے دی۔
اس وقت موصل کے قید خانے میں خطیب ابن المخدوم حسب معمول دئیے کی روشنی میں بیٹھا قرآن پڑھ رہا تھا۔ اس کی بیٹی صاعقہ اسی مکان کے ایک کمرے میں تھی جہاں اسے تھیلے میں ڈال کر لے جایا گیا تھا، جس باڈی گارڈ کو اس کے ساتھ پکڑا گیا تھا، وہ دوسرے کمرے میں بند تھا۔ اس مکان میں ان کے صرف دو آدمی تھے جو صاعقہ اور باڈی گارڈ کو اٹھا لائے تھے۔ ان کے باقی ساتھی قید خانے کی دیوار باہر کی طرف لگے کھڑے تھے۔ دیوار کا بالائی حصہ قلعے کی دیوار کی طرح تھا جس میں مورچے سے بنے ہوئے تھے۔ دیوار پر سنتری گھوم گھوم پھر رہے تھے۔ ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی، وہ عہدے دار جس نے خطیب کو فرار کرانے کا وعدہ کیا تھا، دیوار پر چلا گیا۔ وہ سنتریوں کو دیکھتا پھر رہا تھا۔ اس نے اس دیوار والے سنتری کو جس کے نیچے آدمی کھڑے تھے، بلایا اور اسے اپنے ساتھ لے گیا۔
اس نے کوئی اشارہ کیا۔ نیچے چھپے ہوئے آدمیوں نے رسہ اوپر پھینکا۔ اسے کا سرا ایک مضبوط ڈنڈے کے درمیان بندھا ہوا تھا اور ڈنڈے پر کپڑے لپیٹ دئیے گئے تھے تاکہ اوپر دیوار پر گر کر زیادہ آواز نہ پیدا کرے۔ ڈنڈا اوپر جاکر اٹک گیا۔ ایک تو اندھیرا تھا، دوسرے عہدے دار سنتری کو دور لے گیا تھا۔ چار آدمی رسے کے ذریعے اوپر چڑھ گئے۔ یہی رسہ اوپر کھینچ کر اندر کی طرف نیچے گرا دیا گیا۔ چاروں نے خنجر نکال کر اپنے اپنے منہ میں پکڑ لیے اور رسے سے نیچے اتر گئے۔ انہیں عہدے دار نے اندر کا نقشہ سمجھا رکھا تھا۔ اندر کچھ روشنی تھی۔ کہیں کہیں مشعلیں جل رہی تھیں۔ کوٹھڑی کی ایک قطار کے آگے برآمدہ تھا جس میں ایک سنتری ٹہل رہا تھا۔ یہ چاروں چھپ گئے۔ سنتری ان کی طرف آیا تو ایک آدمی نے کہا۔ ''ادھر آنا بھائی''۔ وہ جونہی ادھر گیا، دو آدمیوں کی گرفت میں آگیا۔ دل پر خنجر کے دو وار کام کرگئے۔
چاروں آدمی چھپ چھپ کر آگے بڑھ رہے تھے۔ ایک خاصا آگے تھا۔ باقی تین بکھر کر چھپتے چھپاتے اس کے پیچھے جارہے تھے۔ قید خانے کے اس حصے میں پہنچ گئے جو گولائی میں تھا۔ خطیب کی کوٹھڑی اسی حصے میں تھی۔ آگے جانے والا آدمی اس کوٹھڑی تک پہنچ گیا۔ خطیب نے دروازے کی طرف دیکھا۔ اس نے قرآن بند کیا اور اٹھ کر دروازے کی طرف آیا۔ اس آدمی کے ہاتھ میں بڑی سی ایک چابی تھی۔ یہ عہدے دار نے ایک لوہار سے بنوائی تھی۔ اسے قید خانے کی چابیوں سے پوری طرح واقفیت تھی۔ اس آدمی نے تالے میں چابی لگائی تو تالا کھل گیا۔ د وسرے لمحے خطیب کوٹھڑی سے باہر تھا۔ وہ واپس چل پڑے۔
دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی اور یہ آواز… ''ٹھہر جا، کون ہے؟''… ادھر سے اسے کہا گیا… ''بھاگ کے آئو دوست''۔ یہ آواز اندھیرے سے ابھری تھی۔ وہ جوں ہی اس جگہ پہنچا ایک خنجر اس کے دل میں اتر گیا۔ وہ آگے کو جھکا تو اس کی پیٹھ کی طرف سے ایک اور خنجر اس کے دل تک جا پہنچا۔ خطیب کو رسے تک لے آئے۔ سب سے پہلے ایک آدمی اوپر چڑھا، پھر خطیب اوپر آیا۔ عہدے دار نے سنتری کو ابھی تک کہیں دور باتوں میں الجھا رکھا تھا۔ وہ سب اوپر آئے پھر رسہ کھینچ کر باہر کی طرف پھینکا اور سب نیچے اتر گئے۔
جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں