داستان ایمان فروشوں کی قسط 145 - اردو ناول

Breaking

ہفتہ, جنوری 22, 2022

داستان ایمان فروشوں کی قسط 145


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر145 ایوبی مسجد اقصیٰ کی دہلیز پر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ کوشش جذباتیت کو دبانے اور سسکیاں روکنے کی تھی۔ عیسائی شہری گھروں میں دبکے خوف سے کانپ رہے تھے۔ انہوں نے اپنی جوان لڑکیوں کو چھپا لیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اکثر لڑکیوں کو مردانہ لباس پہنا دئیے گئے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ مسلمان سپاہی خواتین کی بے حرمتی کا انتقام لینے کے لیے ان کی بیٹیوں کو بے آبرو کریں گے لیکن یورپی مؤرخ لین پول لکھتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے اپنے آپ کو ایسا عالی ظرف اور کشادہ دل کبھی ثابت نہیں کیا جتنا اس وقت کیا۔ جب اس کی فوج صلیبی فوج سے شہر کا قبضہ لے رہی تھی۔ اس کی فوج کے سپاہی اور افسر گلی کوچوں میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے گھوم پھر رہے تھے اور ان کی نظر اس پر تھی کہ کوئی مسلمان شہری کسی عیسائی شہری پر انتقاماً حملہ نہ کردے۔ سلطان ایوبی کے احکام ہی ایسے تھے۔ البتہ کسی عیسائی کو شہر سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
سلطان ایوبی سب سے پہلے مسجد اقصیٰ میں گیا۔ جذبات کی شدت سے وہ مسجد کی دہلیز پر گھٹنوں کے بل جیسے گر پڑا ہو۔ وہ دہلیز پر سجدہ ریز ہوگیا اور بہائوالدین شداد اور احمدبیلی مصری کے مطابق سلطان ایوبی کے آنسو اس طرح بہہ رہے تھے کہ اس عظیم مسجد کی دہلیز دھل رہی تھی مسجد کی حالت بہت بری تھی۔ کئی ایک مسلمان حکمرانوں نے وقتاً فوقتاً مسجد میں سونے اور چاندی کے فانون اور شمع دان رکھے تھے، انہوں نے عقیدت کے طور پر مسجد میں طرح طرح کے پیش قیمت تحائف بھی رکھے تھے۔ صلیبی تمام فانون، شمع دان اور قیمتی تحائف اٹھا لے گئے تھے۔ فرش سے جگہ جگہ خارا اور مرمر کی سلیں غائب تھیں۔ مسجد مرمت طلب تھی۔
مرمت کی طرف توجہ دینے سے پہلے سلطان ایوبی نے شکست خوردہ عیسائیوں کے متعلق فیصلہ کرنا ضروری سمجھا، اس نے اپنی مشاورتی مجلس سے مشورہ کیا اور حکم نامہ جاری کیا کہ ہر عیسائی مرد دس اشرفی (دینار) عورت پانچ اشرفی اور ہر بچہ ایک اشرفی زر فدیہ ادا کرکے شہر سے باہر نکل جائے۔ کوئی بھی عیسائی وہاں نہیں رہنا چاہتا تھا۔ برج دائود کے نیچے والا دروازہ کھول دیا گیا، جہاں مسلمان حاکم فدیہ وصول کرنے کے لیے بیٹھ گئے اور عیسائی آبادی کا انخلا شروع ہوگیا۔ سب سے پہلے عیسائیوں کا سربراہ بالیان شہر سے نکلا۔ اس کے پاس انگلستان کے بادشاہ ہنری کی بھیجی ہوئی بے اندازہ رقم تھی۔ اس میں سے اس نے تیس ہزار اشرف طلائی زر فدیہ ادا کی اور اس کے عوض دس ہزار عیسائیوں کو رہا کرالیا۔
باب دائود پر باہر جانے والے عیسائیوں کا تانتا بندھ گیا۔ وہ پورے پورے خاندان کا زرفدیہ ادا کرکے جارہے تھے۔ یہ رواج تھا کہ مفتوحہ شہر کو فوج بری طرح لوٹ لیتی تھی… بیت المقدس تو وہ شہر تھا جہاں صلیبیوں نے فتح کے بعد مسلمانوں کا قتل عام کیا اور ان کے گھر لوٹ لیے اور ان کی بیٹیوں اور مسجدوں کی بے حرمتی کی مگر مسلمانوں نے یہ شہر فتح کیا تو لوٹ مار کے بجائے یوں ہوا کہ سلطان ایوبی کے فوجیوں نے اور باہر سے فوراً پہنچ جانے والے مسلمان تاجروں نے عیسائیوں کے گھروں کا سامان خریدا تاکہ وہ زرفدیہ دینے کے قابل ہوجائیں۔ اس طرح وہ عیسائی خاندان بھی رہا ہوگئے جن کے پاس زر فدیہ پورا نہیں تھا۔
اس موقع پر ایک تضاد دیکھنے میں آیا جو کئی ایک مؤرخوں اور اس دور کے وقائع نگاروں نے بیان کیا ہے۔ بیت المقدس کے سب سے بڑے پادری بطریق اعظم ہرکولیز نے یہ حرکت کی کہ تمام گرجوں کی جمع شدہ رقم اپنے قبضے میں لے لی۔ گرجوں سے سونے کے پیالے اور دیگر پیش قیمت اشیاء چرالیں۔ کہتے ہیں کہ یہ دولت اتنی زیادہ تھی کہ اس سے سینکڑوں غریب عیسائیوں کے خاندانوں کو رہا کرایا جاسکتا تھا مگر ان کے اس سب سے بڑے پادری نے کسی ایک کا بھی زرفدیہ نہ دیا۔ وہ اپنا فدیہ ادا کرکے نکل گیا۔ کسی مسلمان فوجی نے دیکھ لیا کہ یہ شخص بہت سی دولت ساتھ لے جارہا ہے۔ اس فوجی کی رپورٹ پر کسی حاکم نے سلطان ایوبی سے کہا کہ اسے اتنی دولت اور اتنا سونا نہ لے جانے دیا جائے۔
''اگر اس نے زرفدیہ ادا کردیا ہے تو اسے نہ روکا جائے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''میں ان لوگوں سے کہہ چکا ہوں کہ کسی سے فالتو رقم نہیں لی جائے گی جو کوئی جتنا ذاتی سامان ساتھ لے جاسکتا ہے، لے جائے۔ میں اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں ہونے دوں گا''۔
بطریق اعظم اپنے گرجوں سے چرائی ہوئی دولت اور قیمتی سامان لے گیا۔
: سلطان ایوبی نے زر فدیہ ادا کرنے کی میعاد چالیس دن مقرر کی تھی۔ چالیس دن پورے ہوئے تو ابھی تک ہزاروں غریب اور نادار عیسائی شہر میں موجود تھے۔ نوے برس پہلے جب صلیبیوں نے بیت المقدس فتح کیا تو دور دور سے عیسائی یہاں آکر آباد ہوگئے تھے۔ انہیںتوقع نہیں تھی کہ کبھی یہاں سے نکلنا بھی پڑے گا۔ یہ حالت دیکھ کر سلطان ایوبی کا بھائی العادل اس کے پاس آیا۔
''محترم سلطان!'' العادل نے کہا… ''آپ جانتے ہیں کہ اس شہر کی فتح میں میرا اور میرے دستوں کا کتنا ہاتھ ہے۔ اس کے عوض مجھے ایک ہزار عیسائی بطور غلام دے دیں''۔
''اتنے غلام کیا کرو گے؟'' سلطان صلاح الدین ایوبی نے پوچھا۔
''یہ میری مرضی پر ہوگا، میں جو چاہوں کروں''۔
سلطان ایوبی نے العادل کو ایک ہزار عیسائی دینے کا حکم دے دیا۔ العادل نے ایک ہزار عیسائی منتخب کیے اور انہیں باب دائود لے جاکر سب کو رہاکردیا۔
''سلطان محترم!'' العادل نے واپس آکر سلطان ایوبی سے کہا… ''میں نے ان تمام عیسائی غلاموں کو شہر سے رخصت کردیا ہے۔ ان کے پاس زرفدیہ نہیں تھا''۔
''میں جانتا تھا، تم ایسا ہی کرو گے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''ورنہ میں تمہیں ایک بھی غلام نہ دیتا۔ انسان انسان کا غلام نہیں ہوسکتا۔ اللہ تمہاری یہ نیکی قبول کرے''۔
یہ واقعات افسانے نہیں، مؤرخوں نے بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ عیسائی عورتوں کا ایک ہجوم سلطان ایوبی کے پاس آیا۔ پتہ چلا کہ یہ ان صلیبی فوجیوں کی بیویاں، بیٹیاں یا بہنیں ہیں جو مارے گئے ہیں یا قید ہوگئے ہیںاور ان کے پاس زرفدیہ نہیں۔ سلطان ایوبی نے سب کو صرف رہا ہی نہ کیا بلکہ انہیں کچھ رقم دے کر رخصت کیا۔ اس کے بعد اس نے عام حکم جاری کردیا کہ تمام عیسائیوں کو جو شہر میں رہ گئے ہیں، زرفدیہ معاف کیا جاتا ہے، وہ جاسکتے ہیں۔ صلیبیوں کی صرف فوج قید میں رہی۔
اس سے پہلے سلطان ایوبی نے مسجد اقصیٰ کی صفائی اور مرمت کروائی تھی۔ اس دور کی تحریروں کے مطابق سلطان ایوبی خود سپاہیوں کے ساتھ اینٹیں اور گارا اٹھاتا رہا۔ ١٩اکتوبر ١١٨٧ء جمعہ کا مبارک دن تھا۔ سلطان ایوبی جمعہ کی نماز کے لیے مسجد اقصیٰ میں گیا تو وہ منبر جو نورالدین زنگی مرحوم نے بنوایا تھا اور مرحوم کی بیوہ اور بیٹی لائی تھی، اس کے ساتھ تھا۔ اس نے منبر اپنے ہاتھوں مسجد میں رکھا۔ جمعہ کا خطبہ دمشق سے آئے ہوئے ایک خطیب نے پڑھا۔
اس کے بعد سلطان ایوبی نے مسجد اقصیٰ کی آرائش کی طرف توجہ دی۔ مرمر کے پتھر منگوا کر فرش میں لگوائے اور مسجد کو جی بھر کر خوبصورت بنایا۔ وہ خوبصورت پتھر جو سلطان ایوبی نے اپنے ہاتھوں لگوائے تھے، آج بھی مسجد اقصیٰ میں موجود ہیں اور ان کی خوبصورت میں کوئی فرق نہیں آیا۔
٭ ٭ ٭
بیت المقدس کی فتح تاریخ اسلام کا بہت بڑا واقعہ اور عظیم کارنامہ تھی مگر سلطان ایوبی کا جہاد ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اسے سرزمین عرب اور فلسطین کو صلیبیوں سے پاک کرنا تھا۔ اس نے بیت المقدس کو جہاں ایک مضبوط چھائونی اور عسکری مستقر بنایا، وہاں اس مقدس مقام کو علم وفضل کا مرکز بنا دیا۔ ٥رمضان المبارک ٥٧٣ہجری (٨نومبر ١١٨٧ئ) کے روز اس نے بیت المقدس سے کوچ کیا۔ اس کا رخ شمال کی طرف تھا۔ اس نے اپنے بیٹے الملک الظاہر کو جو کسی اور جگہ تھا، پیغام بھیجا کہ اپنے دستے لے کراس کے پاس آئے۔ سلطان ٹائر پر حملہ کرنے جارہا تھا۔ یہ صلیبیوں کی مضبوط چھائونی تھی اور بندرگاہ تھی۔ سلطان ایوبی نے بحریہ کے کمانڈر الفارس بیدرون کو پیغام بھیجا کہ وہ ٹائر سے کچھ دور تک آجائے اور جب سلطان اس شہر کا محاصرہ کرے تو الفارس صلیبی بیڑے پر حملہ کردے۔ سلطان ایوبی نے الفارس کو حملے کے جو دن بتائے وہ دسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع کے تھے۔
 جاسوس اس وقت تک بحیرۂ روم کی تہہ میں مچھلیوں کی خوراک بن چکا تھا اور رئوف کرد اس کے اس انجام سے اچھی طرح واقف تھا۔ کچھ روز پہلے جاسوس نے رئوف کرد سے کہا تھا کہ ان لڑکیوں کو وہ یہاں نہیں رہنے دے گا۔ اس نے دیکھا تھا کہ جب جہاز ساحل کے قریب لنگر انداز ہوتا ہے تو چھوٹی چھوٹی کشتیاں اس کے قریب آجاتی اور ماہی گیر قسم کے لوگ مختلف چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ ان میں ایک آدمی کو اس نے تین چار جگہوں پر دیکھا تھا۔ لڑکیاں اسے رسے کی سڑھی لٹکا کر اوپر بلاتی ہیں اور اس سے کچھ خریدنے کے بجائے اس کے ساتھ باتیں کرتی رہتی ہیں۔ جہاز اگر دس پندرہ میل دور ساحل کے ساتھ کہیں لنگر انداز ہوا تو وہاں بھی یہ آدمی کشتی لے کر آگیا۔ جاسوس کو اس آدمی پر شک تھا۔
فلوری نے رئوف کرد کی عقل مار ڈالی تھی۔ وہ اس سے راز کی باتیں پوچھتی اور وہ اسے سب کچھ بتا دیتا تھا۔ الفارس بہت مصروف رہتا تھا۔ وہ دوسرے جہازوں میں بھی چلا جاتا تھا۔ ایک روز رئوف کرد نے فلوری کے طلسم سے مسحور ہوکر اسے بتا دیا کہ جہاز میں ایک خطرناک آدمی ہے، اس کے ساتھ کوئی بات نہ کرنا۔ رئوف کرد ان لڑکیوں کو ابھی تک خانہ بدوش سمجھ رہا تھا اور وہ ان کے اصلی ناموں، فلوری اور روزی سے واقف نہیں تھا۔ لڑکیاں دراصل تجربہ کار جاسوس تھیں۔ وہ سمجھ گئیں کہ جس آدمی کے متعلق رئوف کردن ے بات کی ہے وہ جاسوس ہے۔ رئوف کرد کو گوارا نہ تھا کہ فلوری جہاز سے چلی جائے۔ اس نے ان لڑکیوں کو یہ بھی بتا دیا کہ یہ جاسوس ہے۔
ایک رات الفارس کسی دوسرے جہاز میں گیا ہوا تھا۔ آدھی رات کے وقت رئوف کرد اور فلوری عرشے پر جنگلے کے ساتھ ایسی جگہ چھپے ہوئے تھے جہاں پیچھے اور دائیں بائیں سامان پڑا تھا۔ حسن بن عبداللہ کا جاسوس دانستہ یا اتفاقیہ ادھر آنکلا۔ رئوف کرد گھبرانے یا کوئی جھوٹ بولنے کے بجائے اٹھ کر اسے ذرا پرے لے گیا اور کہا کہ وہ اس لڑکی کو لالچ وغیرہ دے کر پوچھ رہا تھا کہ وہ دونوں کون ہیں۔ اس نے جاسوس سے کہا کہ میں چلا جاتا ہوں، تم اس کے پاس بیٹھ جائو اور اپنے تجربے اور علم کے مطابق اس سے باتیں کرکے بھید لو کہ یہ ہیںکون؟
جاسوس کو فلوری کے پاس بھیج کر اس نے روزی کو جا جگایا اور اسے کہا کہ شکار فلاں جگہ ہے، تم بھی چلی جائو۔ میں ادھر ادھر دیکھتا رہوں گا کہ کوئی دیکھ نہ لے۔
روزی اوپر آئی، رئوف ک رد نے اسے گز بھر لمبی رسی دی اور وہ اس جگہ چلی گئی جہاں جاسوس اور فلوری بیٹھے تھے۔ وہاں اندھیرا تھا۔ روزی ان کے پاس بیٹھ گئی۔ جاسوس گپ شپ کے انداز سے ان کی اصلیت کا بھید حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ روزی نے رسی اس کی گردن کے گرد لپیٹ دی۔ لڑکیاں تربیت یافتہ تھیں۔ فلوری نے فوراً رسی کا دوسرا سرا پکڑ لیا۔ پیشتر اس کے جاسوس اپنا بچائو کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مارتا، اس کی گردن کا پھندا لڑکیوں نے رسی اپنی اپنی طرف کھینچ کر تنگ کردیا۔ وہ ذرا دیر تڑپا پھر اس کا جسم ساکت ہوگیا۔
رئوف کرد ذرا پرے کھڑا تھا۔ وہاں اگر کوئی ملازم تھا تو اسے اس نے کوئی کام بتا کر وہاں سے ہٹا دیا تھا۔ لڑکیوں نے جاسوس کی لاش سمندر میں پھینک دی۔ روزی چلی گئی۔ فلوری وہیں بیٹھی رہی۔ رئوف کرد اس کے پاس چلا گیا اور دونوں ایک دوسرے میں گم ہوگئے۔
٭ ٭ ٭
الفارس کو معلوم ہی نہ تھا کہ اس کے جہاز میں کوئی جاسوس آیا یا رئوف کرد نے کسی نئے آدمی کو جہاز میں کسی کام پر لگایا تھا۔ اس کے قتل کے دو چار روز بعد الفارس کو خیال آیا کہ اس کے اپنے اور دوسرے پانچ جہازوں میں جاکر ملاحوں اور سپاہیوں کی کیفیت دیکھی تھی۔ وہ خشکی کی رونق سے دور فراغت اور بے یقینی کیفیت سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ اگر کبھی کبھی بحری معرکہ ہوجایا کرتا تو ان کی ذہنی حالت یہ نہ ہوتی۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ ایک رات وہ تمام جہازوں کو اکٹھا کرکے لنگر ڈال دے گا اور جشن منائے گا۔ ملاح اور سپاہی گائیں بجائیں گے اور سب کواچھا کھانا دیا جائے گا۔
اس نے رئوف کرد اور اپنے ماتحت افسروں سے بات کی۔ اس وقت دونوںلڑکیاں بھی موجود تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ناچیں گی۔ الفارس زندہ دل انسان تھا۔ وہ خود بھی جشن اور راگ رنگ کی ضرورت محسوس کررہا تھا۔ اس نے ابھی کوئی رات مقرر نہ کی، کیونکہ اسے خشکی سے سلطان ایوبی کے قاصد کا انتظار تھا۔ دسمبر کا آخری ہفتہ تھا۔
دو روز بعد قاصد آگیا۔ اس نے بتایا کہ سلطان ایوبی ٹائر سے تھوڑی ہی دور رہ گیا ہے اور الارس اپنے جہازوں کو ٹائر کے قریب لے جائے تاکہ محاصرے کے وقت وہ کم وقت میں ٹائر پہنچ سکے۔ قاصد نے خاص طور پر کہا تھا کہ اب دن اور رات چوکس رہیں کیونکہ صلیبی جہاز قریب ہی موجود ہیں… الفارس نے قاصد کو رخصت کیا اور اس شام اپنے بکھرے ہوئے جہازوں کو ایک جگہ اکٹھا ہونے کا اشارہ دے دیا۔ اس نے رئوف کردکو بتایا کہ چند روز بعد شاید انہیں بحری جنگ لڑنی پڑے، اس لیے دو رات بعد جشن منالیا جائے۔
رئوف کرد نے بتا دیا کہ فلاں رات جہاز اکٹھے ہوں
 اور رونق میلہ ہوگا۔
اینڈریو کی کشتی آتی رہتی تھی۔ حسن بن عبداللہ کے جاسوس نے اسے کئی جگہوں پر دیکھا تھا۔ اب جہاز ساحل کے قریب آکر رکا تو اینڈریو آگیا۔ لڑکیوں نے حسب معمول اسے اوپر بلا لیا اور اس سے کچھ خریدا اور اس کے کان میں یہ قیمتی اطلاع ڈال دی کہ فلاں رات جہاز اکٹھے کھڑے ہوں گے اور عرشوں پر جشن ہوگا۔ اینڈریو دیکھ رہا تھا کہ دور سے الفارس کے دوسرے جہاز آرہے تھے۔ وہ لڑکیوں کو یہ کہہ کر چلا گیا… ''اس رات اسی طرف میری کشتی آجائے گی۔ سیڑھی پھینک کر اتر آنا''۔
٭ ٭ ٭
وہ رات آگئی۔ چھ جہاز بادبان لپیٹے پہلو بہ پہلو کھڑے تھے۔ جہازوں کے کپتان اور دیگر افسر الفارس کے جہاز میں اکٹھے ہوگئے تھے۔ پرتکلف کھانا ہورہا تھا۔ ملاح اور سپاہی اپنے اپنے جہازوں میں ناچ، کوچ اور گا رہے تھے۔ الفارس کے جہاز میں دونوں لڑکیاں رقص کررہی تھیں۔ دف اور ساز موجود تھے۔ جہازوں پر بہت سی مشعلیں جلا دی گئی تھیں۔ رات کو دن بنا دیا گیا تھا۔
یہ رونق جب عروج پر پہنچی تو رات خاصی گزر چکی تھی۔ صلیبیوں کے دس بارہ جنگی جہاز بتیاں بجھائے ہوئے الفارس کے جہازوں کی طرف بڑھے آرہے تھے۔ وہ نئے چاند کی ترتیب میں تھے۔ وہ قریب آگئے تو بھی کسی کو پتہ نہ چلا۔ ادھر چھوٹی سی ایک کشتی الفارس کے جہاز کے قریب ہورہی تھی۔ اچانک الفارس کے جہازوں پر جلتے ہوئے گولے گرنے لگے اور تیروں کی ایسی بوچھاڑیں آئیں کہ کئی ملاح اور سپاہی تڑپنے لگے۔ الفارس اور اس کے کپتانوں نے اس اچانک حملے سے نکلنے کی کوشش کی مگر جہازوں کا ن کالنا ممکن نہ تھا۔ سپاہیوں نے تیروں سے جواب دیا۔ منجنیقوں سے آگ پھینکی۔ ایک صلیبی جہاز کو آگ لگی مگر صلیبی اپنا کام کرچکے تھے۔ ان کے جہاز واپس چلے گئے۔
معرکہ جس طرح اچانک شروع ہوا تھا، اسی طرح اچانک ختم ہوگیا۔ قاضی بہائوالدین شداد کی تحریر کے مطابق الفارس کے پانچ جہاز جل کر تباہ ہوگئے۔ دو کپتان اور بہت سے بحری سپاہی شہید ہوگئے۔ قاضی شداد نے اس کی تاریخ ٢٧شوال ٥٨٣ہجری (٣٠دسمبر ١١٨٧ئ) لکھی ہے۔
چونکہ جہاز جل رہے تھے، اس لیے روشنی بہت تھی۔ کسی نے دیکھا کہ ایک کشتی جارہی ہے جس میں دو مرد اور دو عورتیں تھیں۔ الفارس نیاپنے جہاز سے ایک کشتی اتروائی اور اس کشتی کو پکڑنے کی کوشش کی گئی۔ اس کشتی سے تیر آنے لگے۔ ادھر سے بھی تیر چلے اور کشتی کو گھیر لیا گیا۔ دونوں مرد اور ایک لڑکی تیروں کا نشانہ بن گئی۔ ایک بچ گئی۔ بعد میں اسی لڑکی کے بیان سے تباہی کی اصل حقیقت کھلی۔
اس وقت سلطان ایوبی ٹائر سے کچھ دور خیمہ زن تھا۔ یہاں سے اسے سیدھا ٹائر پر یلغار کرنی تھی۔ کوچ سے ایک ہی روز پہلے اسے اطلاع ملی کہ چھ میں سے پانچ جہاز تباہ ہوگئے ہیں۔ سلطان ایوبی بجھ کر رہ گیا۔ وہ ایسی بری خبر سننے کے لیے تیار نہیں تھا اور وہ اتنی جلدی دل چھوڑنے والا بھی نہیں تھا۔ اس نے پیش قدمی ملتوی کردی اور الفارس اور دوسرے کپتانوں کو بلایا۔ الفارس نے اسے صاف الفاظ میں بتا دیا کہ ملاح اور سپاہی فراغت اور سمندر سے اکتائے ہوئے تھے، اس لیے اس نے جشن کا اہتمام کیا تھا۔
سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں اور مشیروں کا اجلاس بلایا اور یہ صورتحال سب کے سامنے رکھی۔ سب نے یہ مشورہ دیا کہ سخت سردی پڑ رہی ہے اور بارشیں شروع ہوچکی ہیں۔ اس موسم میں جنگ جاری نہیں رکھی جاسکتی۔ اس کے علاوہ سپاہی مسلسل جنگ اور تیز رفتار کوچ اور پیش قدمی سے اتنے تھک چکے تھے کہ انہیں جذبات میں لاکر لڑاتے رہنا ظلم ہے اور اس کا نتیجہ شکست بھی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بحری بیڑے کی تباہی کی مثال دے کر کہا کہ اتنا طویل عرصہ سپاہیوں کو گھروں سے دور رکھنے کے اثرات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیت المقدس کی عظیم فتح ہمارے لیے کوئی اور حادثہ بن جائے۔

سلطان ایوبی ڈکٹیٹر نہیں تھا۔ اس نے یہ مشورہ منظور کرلیا اور حکم دیا کہ مفتوحہ علاقوں سے جو عارضی فوج بنائی گئی تھی، وہ توڑ دی جائے اور ان لوگوں کو کچھ رقم دے کر گھروں کو بھیج دیا جائے۔ اس نے اپنی باقاعدہ فوج کے بھی کچھ حصے کو تھوڑی تھوڑی چھٹی دے کر گھروں کو بھیج دیا اور ٣٠جنوری ١١٨٨ء کے روز عکرہ کو روانہ ہوگیا۔ مارچ ١١٨٨ء تک وہ عکرہ میں رہا۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں