داستان ایمان فروشوں کی قسط 144 - اردو ناول

Breaking

ہفتہ, جنوری 22, 2022

داستان ایمان فروشوں کی قسط 144


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر144 ایوبی مسجد اقصیٰ کی دہلیز پر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور ایسی آوازیں بھی سنائی دیں۔''ہم بیت المقدس کے اندر جاکر زخموں پر پٹی باندھیں گے''… اور جب زخمیوں نے دیکھا کہ تین چار لڑکیوں کو بھی تیر لگے ہیں تو زخمیوں کو سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ لڑکیوں نے سب کے جوش اور جذبے میں آگ بھر دی تھی۔ اسی مقام پر منجنیقیں نصب کرنے کے لیے مہندسوں کا ایک اور جیش آگے بڑھا۔ تیراندازی تیز کردی گئی۔ منجنیقیں نصب ہوگئیں۔ ان سے وزنی پتھر اور آگ کے گولے پھینکے جانے لگے جو دیوار پر بھی گرتے تھے اور اندر بھی۔ دروازہ ایک بار پھر کھلا اور نائٹوں کے گھوڑے منجنیقوں کی طرف ہوا کی رفتار سے آئے تو ان کے پہلو سے مسلمان سوار ان پر ٹوٹ پڑے۔ عقب سے مزید مسلمان سوار ان کی واپسی کا راستہ روکنے کو آگئے۔ مسلمانوں نے نائٹوں کے گھوڑوں کو برچھیوںاور تلواروں سے زخمی کرنا شروع کردیا۔ نائٹوں کی زرہ بکتر انہیں محفوظ رکھے ہوئے تھی۔
گھوڑوں کے ساتھ نائٹ بھی گرنے لگے۔ زمین پر انہیں گھائل کرنا اتنا مشکل نہ تھا مگر وہ تجربہ کار لڑاکا سوار تھے۔ سب کو نہ گرایا جاسکا۔ اس کے بجائے وہ کئی ایک مسلمان سواروں کو گرا گئے۔ وہ واپس ہوئے تو مسلمان سواروں نے انہیں روکنے کی کوشش کی مگر جو نائٹ گھوڑوں کی پیٹھوں پر رہے وہ اندر چلے گئے اور دروازہ بند ہوگیا… اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا۔ برج دائود کے سامنے اس طرح کے جو معرکے لڑے گئے وہ رفتار، شدت، خونریزی اور دونوں طرف کی شجاعت کے لحاظ سے بے مثال مانے جاتے ہیں۔ دونوں فوجوں کے عزم اور جذبے کی پختگی کا اندازہ ان معرکوں سے ہوتا تھا۔ مؤرخ بیان کرتے ہیں کہ بیت المقدس نے دونوں فوجوں پر جنون کی کیفیت طاری کردی تھی۔ وہ صلیبی سوار جو زخمی ہوئے اور باہر ہی گر پڑے وہ اس لحاظ سے بدقسمت تھے کہ انہیں اٹھانے والا کوئی نہ تھا۔ ستمبر کی گرمی اور دوپہر کا سورج انہیں زرہ بکتر میں جلا جلا کر مار رہا تھا۔ ان کے مقابلے میں مسلمان زخمیوں کو لڑکیاں فوراً اٹھا لے جاتیں، انہیں پانی پلاتیں، ان کے منہ سر دھوتیں، ان کے کپڑے تبدیل کرتیں اور ان میں کچھ لڑکیاں مشکیزے اٹھائے چٹانوں میں کہیں سے پانی لالا کر ادھ موئی ہوئی ج ارہی تھیں۔
دیوار کی دیگر اطراف سے بھی پتھر اور آتش گیر سیال کی ہانڈیاں پھینکی جارہی تھیں۔ باہر کہیںکہیں زمین بلند تھی۔ وہاں سے پتھر اور ہانڈیاں (آتش گیر گولے) دیوار کے اوپر سے دور اندر چلے جاتے تھے۔ ان کے پیچھے فلیتے والے تیر بھی چلتے جاتے تھے۔ انہوںن ے شہر میں کئی جگہوں پر آگ لگا دی۔ دھواں باہر سے نظر آرہا تھا۔
٭ ٭ ٭
صلیبی فوج جو پہلے سے شہر میں اندر موجود تھی، اس کا مورال مضبوط تھا۔ دوسرے علاقوں سے جو فوجی بھاگ کر آئے تھے، ان میں ایسے بھی تھے جو اپنی شکست کا انتقام لینے کے لیے حوصلہ مند اور جوشیلے تھے اور ان میں ایسے بھی تھے جن پر دہشت طاری تھی۔ یہ سب جم کر مقابلہ کررہے تھے۔ ان کے جوش وخروش سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ سلطان ایوبی کو پسپا کردیں گے۔ ایک اور دروازے سے بھی سوار باہر جاکر محاصرے پر حملہ کرنے لگے تھے مگر شہریوں کی کیفیت فوجیوں سے مختلف تھی۔ شہریوں میں عکرہ اور عسقلان وغیرہ سے آئے ہوئے پناہ گزین عیسائی بھی تھے، وہ تو سراپا دہشت بنے ہوئے تھے۔ انہوں نے سارے شہر میں دہشت پھیلا رکھی تھی۔ ان کے سامنے سلطان ایوبی کی فوج نے کئی بستیاں سلطان کے حکم سے نذرآتش کی تھیں۔
بیت المقدس کے تمام گرجوں کے گھنٹے مسلسل بج رہے تھے۔ دن اور رات ایک ہوگئے تھے۔ عیسائی گرجوں میں ہجوم کیے ہوئے تھے اور پادریوں کے ساتھ آواز ملا کر بلند آواز سے دعائیہ گیت گا رہے تھے۔ شہر کے باہر سلطان ایوبی کی فوج کے نعرے شہر کے اندر یوں سنائی دیتے تھے جیسے گھٹائیں گرجتی آرہی ہوں۔ شہر میں جلتے شعلے عیسائیوں کا دم خم ختم کررہے تھے۔ سلطان ایوبی کے جو جاسوس شہر میں عیسائیوں کے بھیس میں موجود تھے، وہ اس طرح نفسیاتی حملے کررہے تھے کہ دہشت ناک افواہیں پھیلا رہے تھے۔ ایک افواہ یہ پھیلائی گئی کہ سلطان ایوبی بیت المقدس پر قبضہ نہیں کرے گا بلکہ شہر کو تباہ وبرباد کرکے تمام عیسائیوں کو قتل کردے گا اور ان کی جوان لڑکیوں کو اور تمام مسلمان آبادی کو اپنے ساتھ لے جائے گا۔ دہشت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ سب کو معلوم تھا کہ صلیب الصلبوت سلطان ایوبی کے قبضے میں ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یسوع مسیح عیسائیوں سے ناراض ہیں۔
اس دور کے مفکروں کی جو تحریریں ملتی ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ عیسائیوں کو اپنے وہ گناہ خوفزدہ کررہے تھے جن کا تختہ مشق انہوںنے وہاں کے مسلمانوں کو بنایا تھا (اس کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے) انہوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا، بچوں کو برچھیوں پر اٹھا کر قہقہے لگائے اور مسلمان خواتین کی بے حرمتی کی تھی۔ 
: ۔ مسجدوں اور قرآن کی بے حرمتی کی تھی اور نوے برسوں سے مسلمان ا ن کے وحشیانہ سلوک اور بربریت کا مسلسل شکار ہورہے تھے۔ عیسائیوں نے اپنے عقیدے کے مطابق گرجوں میں جاکر اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا شروع کردیا۔
موجودہ صدی کا ایک امریکی تاریخ دان انتھونی ویسٹ بہت سے مؤرخوں کے حوالوں سے لکھتا ہے کہ بیت المقدس کے عیسائی محاصرے میں اس قدر دہشت زدہ ہوگئے تھے کہ بہت سے عیسائی گلیوں میں نکل آئے۔ ان میں سے بعض سینہ کوبی کرنے لگے اور بعض اپنے آپ کو کوڑے مارنے لگے۔ یہ خدا سے گناہ بخشوانے کا ایک طریقہ تھا۔ جو عیسائی لڑکیاں جوان تھیں، ان کی مائوں نے ان کے سروں کے بال بالکل صاف کردئیے اور انہیں پانی میں غوطے دینے لگیں۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس طرح یہ لڑکیاں بے آبرو ہونے سے بچ جائیں گی۔ پادریوں نے بہت کوشش کی کہ لوگوں کو اس خوف اور دہشت سے نجات دلائیں مگر ان کے وعظ بے اثر ہوگئے تھے۔
مسلمان آبادی کی کیفیت کچھ اور تھی۔ تین ہزار سے زیادہ مسلمان مرد، عورتیں اور بچے قید میں تھے۔ گھروں میں جو مسلمان تھے وہ نظربندی کی زندگی گزار رہے تھے۔ عیسائیوں سے ڈرتے کسی مسجد میں نہیں جاتے تھے۔ تمام مسلمانوں کو پتہ چل گیا کہ سلطان ایوبی نے بیت المقدس کا محاصرہ کرلیا ہے۔ انہوں نے عیسائیوں کی خوفزدگی اور بزدلی کے مظاہرے دیکھے تو کئی ایک جوشیلے مسلمان جوانوں نے چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینی شروع کردیں۔ قید میں جو مسلمان تھے، انہوں نے بلند آواز سے آیاتِ قرآنی اور درود شریف کا ورد شروع کردیا۔ عورتیں گھروں میں تھیں یا قید میں، انہوں نے اللہ کے حضور آہ و زاری اور حمدوثنا شروع کردی۔
عیسائی انہیں دیکھتے تھے مگر چپ رہے کیونکہ وہ پہلے ہی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں پر جو وحشیانہ اور غیرانسانی ظلم وتشدد کیا ہے، انہیں اس کی سزا مل رہی ہے۔ وہ آنے والی سزا کے تصور سے کانپ رہے تھے، اس لیے اب وہ مسلمانوں کو اذان اور ورد وظیفے سے روکنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں نے عیسائیوں کا یہ رویہ دیکھا تو جواں سال مسلمان گلی گلی چلانے لگے… ''امام مہدی آگیا ہے… ہمارا نجات دہندہ آگیا ہے… شہر کی دیواروں کے اوپر سے آرہا ہے… دروازے توڑ کر آرہا ہے''۔
شہر کے اندر حق اور باطل کی،گرجوں کے گھنٹوں اور اذانوں کی معرکہ آرائی تھی۔ باہر گھوڑوں، تلواروں، برچھیوں اور تیروں کے معرے لڑے جارہے تھے۔ جوں جوں گرجوں میں دعائیہ گیت بلند ہوتے جارہے تھے، تلاوت قرآن پاک بھی بلند سے بلند ہوتی جارہی تھی۔ ننھے ننھے بچے بھی خدا کے حضور سجدہ ریز تھے… مگر باہر سلطان ایوبی کو ابھی تک کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی جہاں سے دیوار میں شگاف ڈلوا سکتا یا سرنگ کھدوا سکتا۔ دیوار کے اوپر سے تیر موسلا دھار بارش کی مانند آرہے تھے۔ مسلمان مہندسوں اور پتھر لانے والے سپاہیوں کے ہاتھوں سے خون بہہ رہا تھا۔ زرہ پوش نائٹ ابھی تک باہر نکل نکل کر حملے کررہے تھے اور انتہائی خونریز معرکے لڑے جارہے تھے۔
٭ ٭ ٭
 چالیس میل دور بحیرۂ روم میں الفارس بیدرون کے چھ جہاز پھیلے ہوئے گشت کررہے تھے، تاکہ ٹائر میں صلیبیوں کا جو بحری بیڑہ ہے، وہ فوج اور سامان لے کر ادھر نہ آسکے۔ دونوں لڑکیاں اس جہاز میں تھیں مگر اسے اب لڑکیوں کی طرف توجہ دینے کی مہلت نہیں ملتی تھی۔ سلطان ایوبی اور رئیس البحرین المحسن نے اسے بڑی نازک ذمہ داری سونپی تھی۔ کبھی کبھی وہ خود مستول کے اوپر بنی ہوئی مچان پر چڑھ جاتا اور سمندر کی وسعت کو گہری نظروں سے دیکھتا رہتا تھا۔ دوسرے جہازوں میں بھی جاتا رہتا، تاکہ ہر جہاز کا عملہ اپنے فرائض سے غافل نہ ہوجائے۔
اس کے جہاز میں اس کا نائب رئوف کرد فلوری سے ملتا رہتا تھا جو بہت حد تک چوری چھپے کی ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ حسن بن عبداللہ کا بھیجا ہوا جاسوس دونوں کو دیکھتا اور ان پر گہری نظر رکھتا تھا۔
مصر کا بحری بیڑہ بحیرۂ روم میں دور دور تک گشت کرتا تھا، کیونکہ خطرہ تھا کہ یورپ، خصوصاً انگلستان سے بیت المقدس کو بچانے کے لیے مدد آئے گی۔ سلطان ایوبی کی طوفانی پیش قدمی اور صلیبیوں کے ہر قلعے اور شہر پر یلغار دیکھی تو انہوں نے جرمنی کے شہنشاہ فریڈرک اور انگلستان کے شہنشاہ چرڈ کو ان الفاظ کے پیغام بھیج دیئے تھے کہ عرب سے صلیب اکھڑ رہی ہے اور بیت المقدس کو بچانا مشکل نظر آرہا ہے۔ ان پیغامات کا لب لباب یہ تھا کہ آئو اور ہمیں بچائو۔ سلطان ایوبی کی توقع یہی تھی کہ بیت المقدس کی جنگ بحیرۂ روم میں بھی لڑی جائے گی جو بڑی خوفناک جنگ ہوگی مگر جرمنی اور انگلستان سے کسی حرکت کی کوئی اطلاع نہیں آرہی تھی۔ شکست خوردہ صلیبیوں کا بحری بیڑہ ٹائر کی بندرگاہ میں دبکا ہوا تھا۔ تاہم سلطان ایوبی کا رئیس البحر دشمن کی بحریہ کی اس خاموشی کو کسی خطرے کا پیش خیمہ سمجھ رہا تھا، اس لیے پوری طرح چوکنا تھا۔
٭ ٭ ٭
محاصرے کی چوتھی رات تھی۔ کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ صلیبی نائٹوں اور دیگر سواروں نے باہر آآکر بڑے ہی دلیرانہ حملے کیے اور جانوں کی قربانی دی تھی۔ سلطان ایوبی نے جب چار دنوں کے اپنے زخمیوں اور شہیدوں کا حساب کیا تو اس کے ماتھے کے شکن گہرے ہوگئے۔ اس کے پاس اسلحہ اور سامان کی کمی نہیں تھی۔ مفتوحہ جگہوں سے اس نے لمبی جنگ کے لیے اسلحہ وغیرہ اکٹھا کرلیا تھا مگر کمی نفری کی تھی۔ نفری تیزی سے کم ہورہی تھی اور بیت المقدس کی دیوار اس کے لیے بدستور چیلنج بنی ہوئی تھی۔
پانچوں دن سلطان ایوبی نے مغرب کی جانب یعنی دائود برج کے سامنے سے کیمپ اکھاڑ دیا اور وہاں کی لڑائی بند کرادی۔ اس نے شمال کی طرف ایک جگہ دیوار کو کمزور دیکھا تھا۔ مغرب سے جب منجنیقیں ہٹائی جارہی تھی اور دور پیچھے جو خیمے لگے ہوئے تھے، وہ اکھاڑے جارہے تھے تو یوںمعلوم ہوتا تھا جیسے سلطان ایوبی محاصرہ اٹھا کر جارہے ہیں۔ دیوار کے اوپر جو شہری عیسائی تھے انہوں نے شہر میں خبر پھیلا دی کہ محاصرہ اٹھ گیا ہے اور مسلمانوں کی فوج پسپا ہورہی ہے۔ سلطان ایوبی دیوار سے دور فوج کو منتقل کررہا تھا اور شام ہوگئی۔
شہر میں جہاں آہ وزاری ، دہشت زدگی اور دعائوں کا واویلا تھا، وہاں خوشی کے نعرے گرجنے لگے۔ رات ہی رات عیسائی گرجوں میں جمع ہوکر خدا کا شکر ادا کرنے لگے۔ عیسائی جو شام تک اپنے گناہوں کی بخشش مانگ رہے تھے، مسلمان شہریوں پر ظلم وتشدد کا ازسرنو آغاز کرنے کا پروگرام بنانے لگے۔ اس کی ابتدا انہوں نے طعنوں اور گالیوں سے کی۔ مسلمان بجھ کر رہ گئے۔
دوسرے دن (٢٥ستمبر ١١٨٧ئ) بروز جمعہ دیوار پر کھڑے صلیبیوں نے دیکھا کہ شمال کی جانب جبل زیتون پر سلطان ایوبی کا جھنڈا لہرا رہا ہے اور اس سے آگے دیوار سے ذرا ہی دور مسلمانوں نے منجنیقیں نصب کردی ہیں اور کم وبیش دس ہزار فوج (سوار اور پیادہ) حملے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ سلطان ایوبی ہر جنگی مہم کا آغاز جمعہ کے روز اس وقت کیا کرتا تھا جس وقت مسجدوں میں خطبے دئیے جارہے ہوتے تھے۔ اس کاعقیدہ تھا کہ دعائوں کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ بیت المقدس پر بھی اس نے پوزیشن اور پلان بدل کر جمعہ کے رزو فیصلہ کن حملہ کیا۔
شہر پر پہلے سے زیادہ پتھر اور ہانڈیاں گرنے لگیں۔ شہر میں فوراً خبر پھیل گئی کہ مسلمانوں کی اور زیادہ فوج آگئی ہے اور اب شہر ایک دو دن کا مہمان ہے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ شہر میں دہشت زدگی کی لہر آئی۔ لوگ گھروں سے نکل کر گلیوں اور بازاروں میں واویلا کرنے لگے۔ مسلمانوں کی اذانیں ایک بار پھر سنائی دینے لگیں۔ عیسائیوں کی حالت زار سے خود پادری متاثر ہوئے۔ وہ صلیبیں ہاتھوںمیں اٹھائے گلی گلی، کوچہ کوچہ پھرنے لگے۔ وہ بھی روتے تھے اور د عائیں مانگتے تھے۔
: صلیبی سواروں نے ایک بار پھر نکل کر منجنیقوں پر ہلہ بولا مگر سلطان ایوبی نے اب یہ معرکہ اپنی نگرانی میں لے لیا تھا۔ اس کے سوار تین اطراف سے صلیبی سواروں کی طرف سرپٹ رفتار سے بڑھے اور انہیں پیس کر رکھ دیا۔ صلیبی مہندسوں تک پہنچ ہی نہ سکے اس کے بعد صلیبیوں نے دو اور ہلے بولے لیکن مسلمان شاہسواروں نے انہیں دروازے سے زیادہ آگے نہ آنے دیا۔ سلطان ایوبی نے پہلی بار اپنے ایک نقب زن جیش (سرنگیں کھودنے اور دیواریں توڑنے والوں) کو آگے بڑھایا۔ اس کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ ہر ایک کے ہاتھ میں لمبی ڈھال تھی جس کے پیچھے وہ سر سے پائوں تک چھپا ہوا تھا۔ ان ڈھالوں کے علاوہ ا نہیں اوپر سے آنے والے تیروں سے بچانے کے لیے سلطان ایوبی کے ہزاروں تیر اندازوں نے نہایت تیزی سے دیوار کے اسے حصے پر تیر برسانے شروع کردئیے جس حصے کے نیچے نقب لگائی یا سرنگ کھودنی تھی۔ کہتے ہیں کہ تیر اس قدر زیادہ برسائے جارہے تھے کہ دیوار ان کے پیچھے چھپ گئی تھی اور دیوار کے اوپر کسی صلیبی کا سر نظر نہیں آتا تھا۔
وہاں ایک دروازہ تھا جس کے اوپر عمارت بنی ہوئی تھی۔ اس دروازے کے پیچھے بھی ایسا ہی ایک مضبوط دروازہ تھا۔ دونوں کے کے درمیان ڈیوڑھی تھی جس کے اوپر عمارت تھی۔ سلطان ایوبی اس کے نیچے سرنگ کھدوانا چاہتا تھا۔ اس دروازے سے کچھ دور دیوار ذرا کمزور نظر آتی تھی، وہاں بڑی منجنیقیں جو نورالدین زنگی مرحوم نے اپنی زندگی میں بنوائی تھیں، کئی کئی من وزنی پتھر مار رہی تھیں۔ دیوار خاصی چوڑی تھی لیکن مسلسل ایک ہی جگہ سنگ باری سے اس میں شگاف پڑنے لگا تھا۔ پتھروں کے دھماکے شہر والوں کا خون خشک کررہے تھے۔
دن کے وقت نقب زن جیش ڈھالوں کی اوٹ میں تیروں کے سائے میں دروازے تک پہنچ گئے۔ اب اوپر سے ان پر کوئی تیر نہیں چلا سکتا تھا۔ رات کے وقت سینکڑوں جانبازوں نے مل کر دروازے یعنی ڈیوڑھی کے نیچے تیس گز سے زیادہ لمبی سرنگ کھود لی، جو ڈیوڑھی جتنی چوڑی تھی۔ اوپر کی عمارت کو مضبوط شہتیروں سے سہارا دیا گیا۔ اس مہم میں دو دن صرف ہوئے۔ شہتیر آگے پہنچانے میں کئی مجاہد شہید ہوگئے۔ پھر اس سرنگ میں گھاس اور لکڑیاں بھر کر ان پر آتش گیر سیال اور مادہ پھینکا گیا اور اسے آگ لگا دی گئی۔ تمام نقب زن جانباز وہاں سے بھاگ آئے۔
آگ نے شہتیروں کو بھی جلا دیا اور اوپر سے عمارت دھنسنے لگی پھر مہیب گڑ گڑاہٹ سے گر پڑی۔ ادھر دیوار سے جس جگہ وزنی پتھر مارے جارہے تھے، وہاں بھی شگاف ہوگیا۔ اب ملبے کے اوپر سے گزر کر شہر میں داخل ہونا تھا مگر یہ بڑا ہی خطرناک اقدام تھا، یہاں سے ملبہ ہٹانے کی مہم شروع ہوئی۔
٭ ٭ ٭
شہر میں گرجوں کے گھنٹے اور زیادہ تیزی سے بجنے لگے۔ اذانوں کی مقدس اور فاتحانہ آوازیں اور زیادہ بلند ہونے لگیں۔ صلیبی جرنیلوں اور حکمران ٹولے کے بھی حوصلے پست ہوگئے۔ انہوں نے کانفرنس بلائی جس میں جرنیلوں نے یہ تجویز پیش کی کہ تمام تر فوج اور جتنے بھی عیسائی شہری رضاکارانہ طور پر ہمارے ساتھ آسکتے ہیں، ایک ہی بار باہر نکل کر سلطان ایوبی کی فوج پر ہلہ بول دیں۔ یہ تجویز طریق اعظم ہرکولیز نے اس لیے منظور نہ کی کہ شکست کی صورت میں شہر میں عورتیں اور بچے رہ جائیں گے جو مسلمانوں کے انتقام کا نشانہ بنیں گے۔ آخر کار یہ تجویز منظور ہوئی کہ سلطان ایوبی کے ساتھ صلح کی بات چیت کی جائے۔ اس کی نمائندگی ایک عیسائی سردار بالیان کو دی گئی۔
: باہر سے سلطان ایوبی کی فوج نے دیکھا کہ دروازے کی گری ہوئی عمارت کے ملبے پر سفید جھنڈا لہرا رہا ہے۔ تیر اندازوں کو روک دیا گیا۔ جھنڈے کے ساتھ تین چار آدمی نمودار ہوئے۔ ایک نے بلند آواز سے کہا… ''ہم سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ صلح کی بات چیت کرنا چاہتے ہیں''… سلطان ایوبی سن رہا تھا۔ اس نے کہا کہ انہیں آگے لے آئو۔
سلطان ایوبی نے ان کا استقبال کیا اور انہیں اپنے خیمے میں لے گیا۔ بات صلیبی سردار بالیان نے شروع کی اور کہا کہ مسلمان فوج محاصرہ اٹھا کر واپس چلی جائے اور سلطان ایوبی اپنی شرائط بتائے۔ صلیبی دراصل بیت المقدس سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے تھے۔ سلطان ایوبی بیت المقدس لیے بغیر ٹلنے والا نہیں تھا مگر اس کا ابھی ایک بھی سپاہی شہر میں داخل نہیں ہوسکا تھا۔ وہ ابھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا تھا کہ اس نے شہر لے لیا ہے۔ ابھی صلیبی یہ کہہ سکتے تھے کہ شہر پر ان کا قبضہ ہے۔
ادھر صلح کی بات چیت ہورہی تھی، ادھر محاصرے کی جنگ جاری تھی۔ سلطان ایوبی معاہدوں اور مذاکرات کا قائل نہیں تھا۔ بات چیت کے ساتھ اس نے جنگ جاری رکھی تھی، دیوار کا شگاف کھل گیا تھا۔ ادھر مجاہدین نے جوش میں آکر گری ہوئی عمارت کے ملبے پر ہلہ بول دیا۔ دیوار کے شگاف میں سے بھی جانباز اندر جانے لگے اور نقب زن جیش فوج کی سہولت کے لیے شگاف کوکھلا کرنے لگے مگر صلیبی اس شہر سے دستبردار نہ ہونے کا پختہ عزم کیے ہوئے تھے۔ انہوں نے دونوں جگہوں سے حملہ آوروں کو باہر دھکیل دیا۔ باہر سے دستے سیلاب اور طوفان کی طرح بڑھے۔ آگے جانے والے صلیبیوں کے تیروں اور برچھیوں سے گرے۔ پیچھے والے انہیں روندتے ہوئے آگے گئے۔ بڑا ہی خونریز معرکہ لڑا گیا۔ اس دوران کسی جانباز نے شہر کے بڑے دروازے کے برج سے لال کراس والا جھنڈا اتار پھینکا اور وہاں اسلامی جھنڈا چڑھا دیا۔ عیسائی شہریوں نے ایسی بھگدڑ مچائی کہ صلیبی فوج کے لیے رکاوٹ اور مسئلہ بن گئے۔
سلطان ایوبی کے جانباز دیوانے ہوئے جارہے تھے۔ ان میں سے کچھ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوگئے اور اوپر سے صلیب اتار کر دور پھینک دی، وہاں بھی اسلامی پرچم لہرانے لگا لیکن شہر میں دونوں فوجیں ایک دوسرے کا بری طرح کشت وخون کررہی تھیں۔ یہ ضرور نظر آرہا تھا کہ صلیبیوں کی جارحیت اور مزاحمت کی شدت تیزی سے کم ہورہی تھی۔ 
سلطان ایوبی صلیبیوں کے وفد کے ساتھ صلح کی بات چیت کررہا تھا۔ اسے باہر کی اور شہر کی ابھی کچھ خبر نہیں تھی۔ اس نے بالیان سے کہا… ''میں نے بیت المقدس کو اپنی طاقت سے آزاد کرانے کی قسم کھائی تھی۔ اگر آپ لوگ یہ شہر مجھے اس طرح دے دیں جیسے میں نے فتح کیا ہے تو میں صلح کی بات سن لوں گا''۔
''صلاح الدین!'' بالیان نے ذرا دبدبے سے کہا… ''اس شہر کا نام ابھی یروشلم ہے، بیت المقدس نہیں۔ اگر صلح نہیں کرنا چاہتے تو ہم آپ کو مجبور نہیں کریں گے لیکن یہ سن لو کہ اس شہر میں آپ کے چار ہزار فوجی ہمارے جنگی قیدی ہیں اور جو مسلمان شہری ہماری قید میں ہیں، ان کی تعداد تین ہزار ہے۔ ہم ان تمام قیدیوں کو اور شہر کے ہر ایک مسلمان باشندے کو خواہ وہ عورت ہے یا بچہ، جوان ہے یا بوڑھا، قتل کردیں گے''۔
سلطان ایوبی کی آنکھیں غصے سے لال ہوگئیں اور اس کے ہونٹ کانپے۔ وہ کچھ کہنے لگا تھا کہ خیمے کا پردہ اٹھا۔ اس کا ایک کمان دار اندر آیا تھا۔ سلطان ایوبی نے اسے اشارہ سے اپنے پاس بلایا۔ کمان دار نے اس کے کان میں سرگوشی کی… ''شہر لے لیا گیا ہے۔ بڑے دروازے اور مسجد اقصیٰ پر جھنڈے چڑھا دئیے گئے ہیں''۔
 سلطان ایوبی کو بالیان کی دھمکی کا جواب مل گیا۔ اس کی لال انگارہ آنکھوں میں غیرمعمولی چمک پیدا ہوئی۔ اس نے بڑے زور سے اپنی ران پر ہاتھ مار کر صلیبی سردار بالیان سے کہا… ''فاتح مفتوح کے ساتھ صلح کی بات نہیں کیا کرتے، کوئی ایک بھی مسلمان تمہارا قیدی نہیں''… وقائع نگاروں نے لکھا ہے کہ سلطان ایوبی بڑے تحمل سے بات کیا کرتا تھا مگر بالیان کی دھمکی کے ساتھ ہی فتح کی خبر سن کر اس کی آواز میں قہر اور گرج پیدا ہوگئی۔ اس نے کہا… ''تم سب قیدی ہو، تمہاری ساری فوج میری قیدی ہے، شہر میں رہنے والا ہر ایک عیسائی میرا قیدی ہے۔ اس شہر سے اب وہ عیسائی نکل کر جاسکے گا جو میرا مقرر کیا ہوا زرفدیہ ادا کرے گا۔ جائو اندر جا کر دیکھو، یہ یروشلم ہے یا بیت المقدس''۔
بالیان ا ور اس کے ساتھ آئے ہوئے صلیبی گھبرا گئے۔ خیمے سے نکل کر دیکھا۔ سلطان ایوبی کی فوج کا بیشتر حصہ شہر میں داخل ہوچکا تھا ور بڑے دروازے پر اسلامی پرچم لہرا رہا تھا۔
یہ اتفاق تھا یا سلطان ایوبی نے پلان ہی ایسا بنایا تھا یا خدائے ذوالجلال کا منشا یہی تھا کہ سلطان ایوبی بروز جمعہ ٢اکتوبر ١١٨٧ء بمطابق ٢٧رجب ٥٧٣ہجری شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا۔ غور فرمائیے یہ رجب کی ستائیسویں رات تھی اور یہ وہ رات ہے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی مقام سے معراج کو تشریف لے گئے تھے۔ تمام مسلم اور غیر مسلم مؤرخین نے بیت المقدس کی فتح کی یہی تاریخ لکھی ہے۔
٭ ٭ ٭
سلطان ایوبی جب شہر میں داخل ہوا تو مسلمان گھروں سے نکل آئے۔ عورتوں نے سروں سے ا وڑھنیاں اتار کر اس کے راستے میں پھینک دی۔ سلطان ایوبی کے باڈی گارڈوں نے گھوڑوں سے اتر کر اوڑھنیاں راستے سے اٹھا لیں کیونکہ سلطان اپنی پرستش اور خوشامد سے سخت نفرت کرتا تھا۔ ظلم وتشدد کے مارے ہوئے مسلمان چیخ چیخ کر نعرے لگا رہے تھے اور بعض سجدے میں گر پڑے۔ آنسو تو سب کے جاری تھے۔ یہ بڑا ہی جذباتی اور دردناک منظر تھا۔ عینی شاہدوں کے مطابق سلطان ایوبی اس قدر جذباتی ہوگیا تھا کہ نعروں کے جواب میں ہاتھ بلند کرکے ہلاتا تھا لیکن اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں تھی بلکہ وہ ہونٹوں کو بھینچتا اور دانتوں میں دبانے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ کوشش جذباتیت کو دبانے اور سسکیاں روکنے کی تھی۔

جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں