داستان ایمان فروشوں کی قسط 143 - اردو ناول

Breaking

ہفتہ, جنوری 22, 2022

داستان ایمان فروشوں کی قسط 143


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر143 ایوبی مسجد اقصیٰ کی دہلیز پر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
روزی چلنے لگی تو رئوف کردنے اسے رکنے کو کہا۔''میں آپ کے پاس رکی رہتی تو وہ (فلوری) ناراض ہوگی''۔ روزی نے کہا۔''ناراض کیوں ہوگی؟''
''اپنے اپنے دل کی بات ہے''۔ روزی نے کہا… ''ایک روز الفارس نیچے سو رہے تھے اور میں اوپر آپ کے پاس کھڑی تھی تو اس (فلوری) نے دیکھ لیا۔ بعد میں کہنے لگی… ''میری ملکیت پر قبضہ نہ کرو۔ رئوف میرا ہے۔ جب ہم مصر جائیں گے تو میںاس کے ساتھ چلی جائوں گی''… یہ الفارس کو پسند نہیں کرتی اور اس ڈر سے آپ کے قریب نہیں آتی کہ الفارس ناراض ہوگا''۔
رئوف کرد کے جذبات میں زلزلے بپا ہوگئے۔ مردانہ فطرت کی کمزوری نے اس سے ہتھیار ڈلوا لیے۔ اس نے فلوری اور روزی سے زیادہ خوبصورت لڑکیاں بھی دیکھی تھیں لیکن ان کے حسن اور ڈیل ڈول میں جو زہد شکن کشش تھی وہ اس نے کسی لڑکی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اب اسے یہ پتہ چلا کہ ان میں سے ایک اسے چاہتی ہے تو اس کا دماغ جذبات کے بنائے اس راستے پر چلنے لگا جس پر مرد جاتے نظر آتے ہیں، واپس آتے دکھائی نہیں دیتے۔ روزی اسے طلسم ہوشربا میں چھوڑ کر چلی گئی۔ اس نے اپنے کیبن میں اترنے والی سیڑھیوں پر پائوں رکھ کر پیچھے دیکھا۔ رئوف کرد آہستہ آہستہ فلوری کی طرف جارہا تھا۔
''آج رات سوئو گی نہیں جواشی؟'' رئوف کرد نے فلوری کا وہ نام لیا جو اس نے الفارس کو بتایا تھا۔ روزی نے اپنا نام از میز بتایا تھا۔ خانہ بدوشوں کے نام اسی قسم کے ہوا کرتے تھے۔
رئوف کرد کو اپنے قریب کھڑا دیکھ کر وہ ٹریننگ کے مطابق ایسے انداز سے شرمائی اور مسکرائی کہ اس انداز سے کنواری دلہن بھی نہ شرماتی ہوگی۔ رئوف کرد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو فلوری سکڑ گئی۔
''ازمیر نے مجھے تمہارے متعلق کچھ بتایا ہے''… رئوف کرد نے کہا… ''کیا یہ سچ ہے؟''
فلوری نے اس کی طرف دیکھا اور فوراً گردن گھما کر سمندر کی طرف دیکھنے لگی۔ رئوف کرد نے اپنا سوال دہرایا اور فلوری کے اس ہاتھ پر ہاتھ رکھا جو جنگلے پر رکھا تھا۔ فلوری نے آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ الٹا کرکے انگلیاں رئوف کرد کی انگلیوں میں الجھا دیں… تھوڑی ہی دیر بعد فلوری اس جگہ رئوف کرد کے ساتھ بیٹھی تھی، جہاںاس کی ڈیوٹی تھی۔ جہاز نے لنگر ڈال رکھے تھے۔ دو تین چار بتیاں سمندر پر تیر رہی تھیں۔ یہ الفارس کے جہاز تھے جو گشت کررہے تھے۔
آدھی رات کو رئوف کرد کی جگہ اس کے ایک ماتحت افسر کو ڈیوٹی پر آنا تھا۔ رئوف کرد نے فلوری سے کہا کہ وہ اس کے کیبن میں چلے اور وہ آتا ہے۔ فلوری چلی گئی۔
جہاز کے عرشے سے صبح کی اذان کی آواز آئی تو فلوری رئوف کرد کے کیبن سے نکلی۔ اس نے الفارس کے اس نائب کو یقین دلا دیا تھا کہ وہ اسے دل وجان سے چاہتی ہے اور الفارس کو وہ خاوند کی حیثیت سے کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اس نے رئوف کرد سے یہ بھی کہا… ''الفارس مجھے کہتا تھا کہ رئوف کے ساتھ بات نہ کرنا، بہت برا آدمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بہت برا آدمی ہے۔ اس نے ہمیں پناہ تو دی ہے لیکن ہماری مجبوری سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اگر ہم اتنی مجبور نہ ہوتی تو اتنی زیادہ قیمت کبھی نہ دیتیں''۔
رئوف کرد کے دل میں اپنی محبت کا دھوکہ اور الفارس کی دشمنی پیدا کرکے وہ اس کے کیبن سے نکل آئی اور جو باتیں اسے الفارس نے کبھی نہیں بتائی تھیں وہ رئوف کرد نے اسے بتا دیں۔
اس رات سلطان ایوبی سویا نہیں، رات اجلاس میں گزر گئی۔ وہ ایسا کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا جس سے بیت المقدس کا محاصرہ ناکام ہوجائے۔ اس نے سالاروں وغیرہ کو بیت المقدس تک پہنچنے کا راستہ نقشے پر دکھایا۔ اس نے نقشے پر ان جگہوں پر نشان لگا رکھے تھے جہاں کچھ دن پہلے صلیبیوں کی چوکیاں تھیں اور اب وہاں اپنے چھاپہ مار تھے یا ہر اول کی تھوڑی تھوڑی نفری تھی یا وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ راستہ صاف تھا۔ ایسی جگہوں پر بھی اس نے نشان لگا رکھے تھے جہاں صلیبیوں کی قلعہ بندیوں کی ساخت کی چوکیاں ابھی موجود تھیں اور ان میں نفری کچھ زیادہ تھی۔ سلطان ایوبی نے سب کو بتایا کہ اس نے ان پر قبضہ کرنے کی کوشش ہی نہیںکی کیونکہ وہ اپنی جنگی طاقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اس کا علاج اس نے یہ بتایا کہ یہ سب چوکیاں بلندیوں پر ہیں، اس لیے انہیں نظرانداز کرکے ذرا سا دور سے گزرنا ہے۔ ان میں جو فوج ہے، وہ ان میں بیٹھی رہے۔ یہ تھوڑی تھوڑی نفری باہر آکر ہمارا راستہ روکنے کی جرأت نہیں کرے گی۔
''لیکن دور سے ہمیں دیکھ کر ان میں سے قاصد بیت المقدس جا خبر دیں گے''۔ ایک سالار نے کہا… ''پھر ہم بیت المقدس والوں کو بے خبری میں نہیں لے سکیں گے''۔
''بے خبری میں جا لینے کی امید دل سے نکال دو''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''صلیبیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم بیت المقدس جارہے ہیں۔ ان کا انداز بتاتا ہے کہ وہ بیت المقدس کے راستے میں ہمارے مقابلے میں نہیں آئیں گے۔ ایک تو شہر میں پہلی فوج ہے جو کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئی۔ یہ شہر کے دفاع کے لیے محفوظ اور تیار رکھی گئی ہے، وہاں سے جاسوس اطلاع لائے ہیں کہ یہ فوج دن رات محاصرے میں لڑنے اور محاصرہ توڑنے کی مشق کرتی رہتی ہے۔ اس میں اضافہ یوں ہوا ہے کہ ہم نے جو مقامات فتح کیے وہاں کی بھاگی ہوئی فوج بھی بیت المقدس چلی گئی ہے۔ اس میں زرہ پوش نائٹ بھی ہیں۔ ہمارے جاسوسوں نے بتایا ہے کہ محاصرے کے دوران یہ نائٹ دروازوں سے باہر آکر حملے کریں گے اور ہر حملے کے بعد شہر میں چلے جائیں گے۔ انہوں نے یہ طریقہ ہم سے سیکھا ہے۔ جھپٹا مارو اور غائب ہوجائو۔ لہٰذا یہ نہ سمجھو کہ تم دشمن کو بے خبری میں جالو گے۔ دشمن تمہارے انتظار میں تیار کھڑا ہے، پھر بھی میں نے انتظام کررکھا ہے کہ صلیبیوں کی کسی چوکی سے کوئی قاصد بیت المقدس نہ پہنچ سکے۔ بیت المقدس اور ان کی چوکیوں کے درمیان ہمارے چھاپہ مار موجود ہیں۔ کسی کو زندہ نہیں جانے دیں گے''…
''فوج کی تعداد کے متعلق جاسوس مختلف اطلاعیں لائے ہیں۔ ان سے میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ بیت المقدس کے اندر صلیبیوں کی باقاعدہ فوج کی تعداد ساٹھ ہزار سے کچھ زیادہ ہوسکتی ہے، کم نہیں ہوگی۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا کہ وہاں مسلمان قید اور نظر بندی میں ہیں، اس لیے وہ اندر سے ہماری کوئی مدد نہیں کرسکیں گے۔ اس مقابلے میں عیسائی شہری اپنی فوج کے دوش بدوش محاصرے میں بے جگری سے لڑیں گے۔ عیسائیوں نے اپنے بچوں کو بھی تیراندازی کی تربیت دے رکھی ہے۔ شہر کی دیواروں کے اوپر سے ہم پر تیر صحیح معنوں میں موسلا دھار بارش کی طرح آئیں گے۔ یہ بھی ذہن میں رکھو کہ صلیبی تیر پھینکنے کے لیے ایک نئی کمان لائے ہیں جس کی شکل صلیب کی سی ہے۔ اس سے تیر دور بھی جاتا ہے اور نشانہ بھی صحیح ہوتا ہے''۔
سلطان ایوبی نے نقشے پر حاضرین کو تمام جگہیں اور راستے وغیرہ دکھائے پھر محاصرے کے متعلق ہدایات دیں اور سب سے پوچھا کہ یہ آخری اجلاس ہے، اس لیے کسی کے ذہن میں کوئی ذرا سا بھی شک ہو تو وہ رفع کرلے اور کوئی سوال خواہ وہ کتنا ہی بے معنی کیوں نہ ہو، پوچھ لے۔ قاضی بہائوالدین شداد جو اس تاریخی جنگی مہم میں سلطان ایوبی کے ساتھ تھا، اپنی ڈائری ''سلطان یوسف پر کیا افتاد پڑی'' میں لکھتا ہے… ''سلطان ایوبی نے (اس آخری اجلاس میں) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث سنائی… ''جس کے لیے کامیابی کا دروازہ کھل جاتا ہے، اسے فوراً داخل ہوجانا چاہیے، معلوم نہیں، یہ دروازہ کب بند ہوجائے۔ سلطان ایوبی بہت تیزی سے مقبوضہ علاقے اور قلعے فتح کرتا آرہا ہے، اس لیے وہ بیت المقدس پر یلغار کو التوا میں ڈالنے کے سخت خلاف تھا۔ اس نے کہا… ''خدا نے ہماری کامیابی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ بند ہونے سے پہلے اس میں داخل ہوجائو''۔
''میرے رفیقو!'' اس نے نقشہ الگ رکھتے ہوئے کہا… ''حطین کی جنگ سے پہلے میں نے تمہیں ایک دو باتیں کہی تھیں، انہیں دہرانا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد ہم باتیں نہیں کرسکیں گے۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ ہم ایک دوسرے کو زندہ ملیں گے بھی یا نہیں۔ اس سے پہلے ہم نے صرف لڑائیاں لڑی ہیں۔ خانہ جنگی میں ایک دوسرے کا خون بہایا اور دشمن کو وقت اور مواقع فراہم کیے ہیں کہ ہمارے علاقوں میں اپنے قلعے مضبوط اور بیت المقدس کا دفاع مستحکم کرلے، پھر ہم زمین دوز جنگ لڑتے رہے۔ صلیبی طلسماتی حسن والی اور نازو ادا اور چرب زبانی کی ماہر لڑکیاں ہمارے امیروں، وزیروں، فوجی اور شہری حاکموں کے پاس بھیجتے رہے۔ صلیبیوں نے تخریب کاری اور سازش کے ماہرین ہماری صفوں میں داخل کیے۔ ان لڑکیوں اور ان آدمیوں نے جو تباہی مچائی، اس سے تم میں سے کوئی بھی بے خبر نہیں۔ علی بن سفیان، غیاث بلبیس اور ان کے محکموں نے بڑی جانفشانی سے اس نظر نہ آنے والے محاذ پر دشمن کا مقابلہ کیا۔ میرے ہاتھوں تجربہ کار حکام اور سالار غداری کے جرم میں قتل ہوئے۔ بغاوتیں ہوئیں اور ہم نے دبائیں''…
''دشمن کا مقصد کیا تھا؟… نظریاتی تخریب کاری اور ہمارے مذہب اور ایمان کو کمزور کرنا اور ہماری اٹھتی ہوئی نسل کو ذہنی عیاشی کا عادی بنا دینا۔ دشمن نے ہمارے درمیان ایمان فروش پیدا کیے۔ دشمن کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے قبلۂ اول پر قابض رہے اور ہمارے ایمان فروش بھائیوں کی مدد سے مکہ معظمہ پر بھی قابض ہوجائے، تم بھولے نہیں ہوگے کہ پانچ سال گزرے جب میں شمالی علاقوں میں دشمن سے الجھا ہوا تھا، ریجنالڈ (شہزادہ ارناط) مدینہ منورہ سے تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا۔ یہ میرے بھائی الملک العادل اور امیر البحرحسام الدین لولو کا کمال تھا کہ انہوں نے بروقت حرکت کی اور اس صلیبی کو پسپا کیا۔ میں نے اسے اپنے ہاتھوں قتل کرکے انتقام لے لیا ہے''…
''دشمن کا مقصد ہمارے مذہب کے سرچشموں کو بند کرنا اور انہیں عیسائیت کا منبع بنانا ہے۔ ہمیں دشمن کے مقصد اور عزائم کو تباہ کرنا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس جنگ کے اس پہلو کو سامنے رکھو، یہ ہماری نظریاتی جنگ ہے۔ مذہب تلوار کے زور سے پھیلا تھا یا نہیں لیکن مذہب کے تحفظ کے لیے میں تلوار کو ضروری سمجھتا ہوں۔ قوم نے تلوار سپاہی کے ہاتھ میں دی ہے اور قوم کی تاریخ نے نظر ہم پر لگا دی ہے۔ خدائے ذوالجلال کی نظریں بھی قوم کے سپاہی پر لگی ہوئی ہیں۔ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مبارک ہمیں دیکھ رہی ہے۔ ذرا غور کرو، ہماری ذمہ داری کتنی مقدس اور ہمارا فرض کتنا عظیم ہے۔ اللہ کا سپاہی حکومت نہیں کرتا، اللہ کی حکومت کا تحفظ کیا کرتا ہے''۔
سلطان ایوبی نے جذباتی سی آہ لے کر کہا… ''آہ میرے رفیقو! سولہ ہجری کا ربیع الاول یاد کرو جب عمرو بن العاص اور ان کے ساتھی سالاروں نے بیت المقدس کو کفار سے آزاد کرایا تھا۔ حضرت عمر اس وقت خلیفہ تھے۔ وہ بیت المقدس گئے۔ حضرت بلال ان کے ساتھ تھے، ان سب نے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی تھی اور اس نماز کی اذان بڑی مدت بعد حضرت بلال نے دی تھی۔ حضرت بلال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے خاموش ہوئے تھے کہ لوگ ان کی پرسوز آواز کو ترس گئے تھے۔ انہوں نے اذان دینی چھوڑ دی تھی لیکن مسجد اقصیٰ میں آکر حضرت عمر نے انہیں کہا کہ بلال! مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے درودیوار نے بڑی لمبی مدت سے اذان نہیں سنی۔ آزادی کی پہلی اذان تم نہ دو گے؟''… حضور مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد پہلی بار حضرت بلال نے اذان دی اور جب انہوں نے کہا ''اشھدان محمد رسول اللہ'' تو مسجد اقصیٰ میں سب کی دھاڑیں نکل گئی تھیں''۔
''میرے عزیز دوستو! ہمارے دور میں ایک بار پھر مسجد اقصیٰ اذان کو ترس رہی ہے۔ نوے برسوں سے اس عظیم مسجد کے درودیوار کسی مؤذن کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ یاد رکھو، مسجد اقصیٰ کی اذانیں ساری دنیا میں سنائی دیتی ہیں۔ صلیبی ان اذانوں کا گلا گھونٹ رہے ہیں… اس مقدس مقصد کو سامنے رکھو۔ ہم کوئی عام سی جنگ لڑنے نہیں جارہے ہیں، ہم اپنے خون سے تاریخ کا وہ باب پھر لکھنے جارہے ہیں جو عمرو بن العاص اور ان کے ساتھیوں نے لکھاا ور ان کے بعد آنے والوں نے اس درخشاں باب پر سیاہی پھیر دی تھی، اگر چاہتے ہو کہ خدا کے حضور ماتھوں پر روشنی لے کر جائو اور اگر چاہتے ہو کہ آنے والی نسلیں تمہاری قبروں پر آکر پھول چڑھایا کریں تو تمہیں بیت المقدس میں یہ منبر رکھنا ہوگا جو بیس سال گزرے نورالدین زنگی مرحوم ومغفور نے وہاں رکھنے کے لیے بنوایا تھا''۔
 اس نے یہ منبر سب کو دکھایا اور کہا… ''یہ منبر زنگی مرحوم کی بیوہ اور اس کی بیٹی لائی ہیں۔ ہمیں اس بیٹی کی لاج رکھنی ہے جو قوم کی دو سو بیٹیاں کو ساتھ لائی ہے کہ ہم میں سے کوئی میدان جنگ میں پیاسا نہ مرجائے۔ کوئی زخموں سے اس لیے نہ مرجائے کہ مرہم پٹی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ تم جانتے ہو کہ میں میدان جنگ میں عورتوں کو لانے کے حق میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ ان لڑکیوں کو میں نے اس لیے رکھ لیا ہے کہ غیرت اور قومی وقار کی یہ علامت ہمارے سامنے رہے اور ہم سب یاد رکھیں کہ ہماری اسی قسم کی بٹیاں بیت المقدس میں کفار کی درندگی اور عیاشی کا شکار ہورہی ہیں۔ یاد رکھو میرے رفیقو! قوم کی بیٹی اور قوم کے شہید کو فراموش کردینے والی قوم کو خدا بھی فراموش کردیا کرتا ہے اور اس کی لوح تقدیر پر عمر بھر کی لعنت لکھ دی جاتی ہے… یہ فیصلہ تمہیں کرنا ہے کہ تم روز قیامت لعنتیوں میں اٹھائے جائو گے یا ان میں جن کے متعلق رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا سے کہیں گے کہ یہ ہیں وہ سرفروش جنہوں نے کفر کے طوفان کو روکا اور تیرے مذہب کا نام بلند کیا تھا''۔
سلطان ایوبی ایسی جذباتی باتیں کرنے کا عادی نہیں تھا لیکن (قاضی بہائوالدین شداد اور اس دورکے وقائع نگاروں کی غیرمطبوعہ تحریروں کے مطابق) بیت المقدس کے معاملے میں وہ اس قدر جذباتی تھا کہ جب بھی اس کا ذکر کرتا، اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے یا وہ غصے میں ایک ہاتھ کی ہتھیلی پر دوسرے ہاتھ کے گھونسے مارنے لگتا اور بے چینی سے اٹھ کر ٹہلنے لگتا تھا۔ اس آخری جنگی اجلاس میں اس نے سالاروں وغیرہ کے جذبات کی یہ حالت کردی کہ وہ جب باہر نکلے تو انہوں نے آپس میں کوئی بات نہ کی۔ ان کی چال ڈھال ہی بدل گئی تھی۔ وہ سیدھے اپنے اپنے دستوں میں گئے اور اپنے کمان داروں کی بھی جذباتی حالت وہی کردی جو ان کی اپنی اور سلطان ایوبی کی تھی۔ سب چلے گئے تو سلطان ایوبی نے بحریہ کے کمانڈر الفارس بیدرون کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ سمندر کی کیا خبر ہے۔ الفارس نے اسے تفصیل سے بتایا کہ اس کے جہاز گشت کرتے رہتے ہیں اور سکندریہ سے اسے پیغام ملتے رہتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صلیبیوں کے بحری بیڑے کے کوئی آثار نہیں۔ ٹائر کی بندرگاہ میں ان کے جنگی جہاز موجود ہیں۔ میرے جاسوس چھوٹی بادبانی کشتیوں میں ماہی گیروں کے بہروپ میں وہاں جاتے رہتے ہیں۔ ٹائر اور اس سے آگے صلیبیوں کے بیڑے میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ جو بیڑہ موجود ہے، یہ تیاری کی حالت میں ہے اور صلیبیوں نے جہازوں میں جل کر اڑنے والے بارود کی نلکیاں لگا دی ہیں جو دور سے آتی ہیں اور بادبانوں کو آگ لگا دیتی ہیں۔
''یہ نلکیاں اتنی ہی دور سے آسکتی ہیں جتنی دور تمہارے جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر جاسکتے ہیں''… سلطان ایوبی نے کہا… ''ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں''۔
''ہم میں سے کسی کے بھی دل میں ڈر نہیں''۔ الفارس نے کہا… ''بحری چھاپہ مار اس حد تک تیار ہیں کہ بحری جنگ کے دوران وہ چھوٹی کشتیوں میں دشمن کے جہازوں کے قریب جا کر ان میں سوراخ کرنے اور ان پر آگ پھینکنے کو تیار ہیں''۔
''بشرطیکہ جنگ رات کو ہو''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''دن کے وقت کسی چھاپہ مار کو سمندر میں نہ اتارنا۔ جوش میں آکر جانیں ضائع ہوں گی… محتاط رہنا الفارس! جس طرح تم ماہی گیروں کے بہروپ میں اپنے جاسوس ٹائر تک بھیجتے ہو، اسی طرح دشمن کے جاسوس تمہارے جہازوں کے قریب آتے ہوں گے۔ اپنے جہازوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنا تاکہ اچانک حملے کی صورت میں سب گھیرے میں نہ آجائیں۔ انہیں اس طرح پھیلا رکھو کہ دشمن کو گھیرے میں لے سکو۔ آپس میں رابطہ دن میں جھنڈیوں سے اور رات کو بتیوں سے رکھو''۔
جب الفارس سلطان ایوبی سے رخصت ہوا، سحر کا وقت ہوگیا تھا۔ وہ نماز کے لیے وہیں رک گیا۔
''الفارس!'' اسے اپنے قریب آواز سنائی دی۔ اس نے دیکھا، وہ انٹیلی جنس کا کمانڈر حسن بن عبداللہ تھا، اس نے الفارس سے ہاتھ ملا کر پوچھا… ''مبارک ہو بھائی! ایک ہی بار دو لڑکیوں سے شادی کرلی ہے؟ دونوں کو ساتھ رکھا ہوا ہے؟ اپنے ساتھ مروانے کا ارادہ ہے؟''
''اوہ حسن!'' الفارس نے اندھیرے میں اسے پہچانتے ہوئے کہا… ''وہ تو یار، پناہ گزین لڑکیاں ہیں، یہیں ساحل پر چھپی ہوئی تھیں۔ خانہ بدوش ہیں۔ کہتی تھیں کہ ان کا سارا قبیلہ جنگ کی زد میں آکر گھوڑوں تلے کچلا گیا ہے''۔
''اور یہ محض اتفاق ہے کہ یہ دو لڑکیاں زندہ رہیں اور ساحل تک پہنچ گئیں''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا… ''صلیبیوں نے باقی سب خانہ بدوشوں کو گھوڑوں تلے روند ڈالا اور اتنی زیادہ خوبصورت دو لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیا… سمندر میں رہ کر تم خشکی پر رہنے والے انسانوں کی فطرت کو شاید بھول گئے ہو''۔
: الفارس ہنس پڑا اور بولا… ''حسن بھائی! جاسوسی کرتے کرتے تم اب چیلوں اور کوئوں کو بھی صلیبیوں کے جاسوس سمجھنے لگے ہو۔ تم یہی کہنا چاہتے ہو نا کہ یہ لڑکیاں دشمن کی جاسوس ہوں گی''۔
''ہوسکتی ہیں''۔ حسن نے کہا… ''تم کچھ زیادہ ہی زندہ دل ہو، الفارس! ان لڑکیوں کو ٹائر کے قریب ساحل پر اتار آئو۔ اجنبی لڑکیوں کو جنگی جہاز میں رکھنا مناسب نہیں''۔
''یہ نیکی نہیں ہوگی کہ میں انہیں مصر لے جا کر ان کے ساتھ شادی کرلوں؟'' الفارس نے کہا… ''یا ایک کے ساتھ شادی کرلوں اور دوسری کی شادی کسی اور اچھے آدمی سے کرادوں؟ غریب لڑکیاں ہیں۔ انہیں ساحل پر اتار دوں تو تم جانتے ہو کہ صلیبی ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے''۔
''ہوسکتا ہے، وہ صلیبی ہی ہوں''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا… ''سنو الفارس! تم بچے نہیں ہو، معمولی سپاہی بھی نہیں ہو۔ بحریہ کے تجربہ کار کمانڈر ہو۔ سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کرو، مجھے بتایا گیا ہے کہ تم فرصت کا سارا وقت ان لڑکیوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے گزارتے ہو۔ ہزار قسمیں کھائو، میں نہیں مانوں گا کہ تم نے انہیں پاک صاف اور نیک لڑکیاں بنا کے رکھا ہوا ہے۔ وہ اگر تمہیں دھوکہ نہ دیں تو تم اپنے آپ کو دھوکہ دے سکتے ہو۔ حسین اور جوان عورت کاجادو فرائض سے گمراہ کردیتا ہے… بہت کچھ ہوسکتا ہے الفارس! ان لڑکیوں کو کہیں چھوڑ آئو''۔
''اگر میں نے تمہارا کہا نہ مانا تو؟''
''تو مجھے دیکھنا پڑے گا کہ یہ لڑکیاں کیسی ہیں''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا… ''اگر مشکوک ہیں تو میں انہیں تمہارے جہاز سے اتروا کر اپنے پاس بلا لوں گا مگر میں تم پر چھوڑتا ہوں۔ ہم پرانے د وست ہیں۔ تم خود ہی کوشش کرو کہ میں فرض کی ادائیگی میں دوستی کو قربان نہ کردوں''۔
''مجھ سے کسی بے ہودگی کی توقع نہ رکھو حسن!'' الفارس نے کہا… ''تم دوستی کی بات کرتے ہو۔ میں تو فرض کی ادائیگی میں اپنی جان بھی قربان کردوں گا۔ یہ لڑکیاں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ مجھے ان پر ذرا سا بھی شک ہوا تو انہیں ساحل پر اتاروں گا نہیں، زندہ سمندر میں پھینک دو گا''۔
''واپس کس وقت جارہے ہو؟'' حسن بن عبداللہ نے پوچھا۔
''نماز پڑھ کر کچھ دیر سوئوں گا۔ بہت تھک گیا ہوں''۔ الفارس نے کہا… ''پھر چلا جائوں گا۔ شام تک کشتی جہاز تک پہنچا دے گی''۔
٭ ٭ ٭
الفارس سے فارغ ہوکر حسن بن عبداللہ اس کمرے کی طرف چلا گیا جہاں اس کے محکمے کے آدمی رہتے تھے۔ ان میں سے ایک کو باہر بلا کر اسے کہا کہ الفارس بیدرون کا جہاز فلاں مقام پر لنگر انداز ہے۔ وہ کشتی میں جہاز تک جائے اور الفارس کے نائب رئوف کرد سے کہے کہ اسے حسن بن عبداللہ نے بھیجا ہے۔ رئوف کرد کے نام حسن نے پیغام دیا کہ اس آدمی کو کسی ڈیوٹی پر لگا لے۔ اسے دونوں لڑکیوں کے متعلق معلوم کرنا ہے کہ جہاز میں ان کی کوئی درپردہ سرگرمی تو نہیں؟ اگر ہے تو لڑکیوں کو جہاز سے ہٹا کر اپنے پاس بلا لیا جائے۔
حسن بن عبداللہ نے اپنے اس آدمی کو ہدایات دیں اور ایک بادبانی کشتی کا انتظام کرکے اسے رخصت کردیا۔ ہوا کا رخ بڑا اچھا تھا اور ہوا تیز تھی۔ کشتی جلدی جہاز تک پہنچ گئی۔ جہاز سے رسہ لٹکا کر اس آدمی کو اوپر کرلیا گیا۔ وہ رئوف کرد سے ملا۔ اسے پیغام دیا اور اپنا مقصد زبانی بھی بتایا اور یہ بھی بتایا کہ وہ تجربہ کار جاسوس ہے۔ رئوف کرد کا چہرہ بتا رہا تھا کہ اسے یہ آدمی اچھا نہیں لگا لیکن اس آدمی کے خلاف وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ سلطان ایوبی کے دل میں جتنی قدر ایک جاسوس کی ہے، اتنی سالار کی بھی نہیں اور ایک جاسوس کی رپورٹ پر ایک سالار کو سزائے موت دی جاسکتی ہے، چنانچہ اس نے حسن بن عبداللہ کے اس جاسوس کی خاطر تواضع کی۔
''آپ لڑکیوں کو پہلے دن سے دیکھ رہے ہیں''۔ جاسوس نے رئوف کرد سے پوچھا… ''ان کے متعلق آپ کو ذرا سا بھی شک ہے تو بتا دیں۔ ہم انہیں عسقلان تفتیش کے لیے لے جائیں گے''۔
''میں نے ابھی تک ان کی کوئی حرکت مشکوک نہیں دیکھی''۔ رئوف کرد نے جواب دیا… ''زیادہ تر الفارس کے کمرے میں رہتی ہیں''۔
رئوف کرد کو فوراً فلوری کا خیال آگیا تھا۔ اگر جاسوس ایک روز پہلے آتا تو رئوف کرد کا جواب یہ ہوتا کہ ان لڑکیوں کو یہاں سے لے جائو کیونکہ چھ جہازوں کا کمانڈر ان لڑکیوں کے ساتھ مگن رہتا ہے مگر فلوری نے گزشتہ رات اسے بتایا تھا کہ وہ اسے دل وجان سے چاہتی ہے۔ روزی ان کی ہم راز تھی۔ اب رئوف کرد کسی قیمت پر فلوری سے جدا نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس کے دل میں الفارس کی دشمنی پیدا ہوگئی تھی لیکن وہ الفارس کو لڑکیوں سے محروم نہیں کرسکتا تھا کیونکہ وہ خود فلوری سے محروم ہوجاتا۔
''مجھے اب آپ کے ساتھ رہنا ہے''۔ جاسوس نے کہا… ''الفارس کو معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ میں جاسوسی کے لیے یہاں آیا ہوں۔ آپ نے حکم پڑھ لیا ہے۔ میں خود دیکھوں گا کہ لڑکیاں کیسی ہیں اور کیا کرتی ہیں۔ مجھے اگر ان پر جاسوسی کا نہیں، صرف یہ شک بھی ہوا کہ الفارس ان میں فرائض کے اوقات میں محو رہے ہیں تو میں ان لڑکیوں کو یہاں نہیں رہنے دوں گا۔ اگر الفارس کو پتہ چل گیا کہ میں یہاں جاسوسی کررہا ہوں تو مجھے آپ کے خلاف یہ بیان دینا پڑے گا کہ میرے متعلق الفارس کو آپ نے بتایا ہے کیونکہ آپ کے سوا کسی کو علم نہیں کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں''۔
یہ جنگی جہاز تھا جس میں جہاز کا عملہ بھی تھا اور اس میں بحری لڑائی کی تربیت یافتہ بری فوج بھی تھی۔ جہاز کی صفائی وغیرہ، کھانا پکانے اور دیگر کاموں کے لیے فوجی ملازم بھی تھے۔ وہاں ایک آدمی کا اصل روپ چھپائے رکھنا مشکل نہ تھا۔ الفارس کمانڈر تھا۔ وہ ان چھوٹے چھوٹے ملازموں اور سپاہیوں میں سے کسی کو الگ کرکے نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ آدمی ا جنبی ہے جسے اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ رئوف کرد جگہ جگہ گھوم پھر سکتا تھا مگر رئوف کو یہ شخص بالکل پسند نہیں آیا تھا۔
جاسوس نے اسی روز دونوں لڑکیوں کو دیکھ لیا اور اس نے اسی روز رئوف کرد سے کہہ دیا… ''یہ لڑکیاں خانہ بدوش نہیں اور یہ مصیبت زدہ بھی نہیں۔ مجھے شک ہوگیا ہے''۔
''اتنے دنوں سے ہمارے ساتھ ہیں''۔ رئوف کرد نے کہا… ''مجھے ان پر کوئی شک نہیں ہوا''۔
''آپ کی آنکھ وہ نہیں دیکھ سکتی جو میری آنکھ دیکھ سکتی ہے''۔ جاسوس نے کہا… ''ٹھنڈے علاقوں کی خانہ بدوش عورتوں کے رنگ ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن ان کی آنکھوں کا رنگ ایسا نہیں ہوتا اور ان میں یہ نفاست اور نزاکت نہیں ہوتی… محترم! ہماری جنگ ایسی ہی لڑکیوں سے رہتی ہے۔ یہ لڑکیاں یہاں نہیں رہیں گی''۔
''کچھ دن دیکھ لو''۔ رئوف کرد نے کہا… ''کہیں ایسا نہ ہو کہ جو واقعی مصیبت زدہ ہوں اور تم انہیں کسی اور مصیبت میں ڈال دو''۔
''ہاں!'' جاسوس نے کہا۔ ''میں جلد بازی نہیں کروں گا، کچھ دن دیکھ کر یقین کروں گا''۔
٭ ٭ ٭
سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں سے ٹھیک کہا تھا کہ بیت المقدس میں جو صلیبی جرنیل ہیں، انہیں معلوم ہے کہ اسلامی فوج بیت المقدس پر آرہی ہے۔ ادھر جب سلطان ایوبی اپنے سالاروں کو آخری ہدایات دے رہا تھا، ادھر بیت المقدس میں صلیبی ہائی کمانڈ اپنے جرنیلوں کو محاصرے میں لڑنے کے لیے تیار کررہی تھی۔
''ہم صلاح الدین ایوبی کو راستے میں نہیں روکیں گے''… ان کا کمانڈر ان چیف کہہ رہا تھا… ''بے شک اس کی فوج تعداد میں کم ہے لیکن اسے اسلحہ اور رسد کی کوئی پریشانی نہیں۔ اس کے امدادی انتظامات مضبوط اور قابل اعتماد ہیں۔ اسے بیت المقدس کا محاصرہ کرنے دو۔ ہمارے پاس لمبے عرصے کے لیے خوراک اور دیگر سامان موجود ہے۔ اگر محاصرہ طویل اور خوراک کم رہ گئی تو ہم مسلمانوں کو بھوکا اور پیاسا رکھیں گے۔ اس سے خوراک بچے گی اور کھانے والے بھی کم ہوجائیں گے۔ مجھے سب سے زیادہ بھروسہ نائٹوں پر ہے۔ انہیں باہر نکل کر حملے کرنے اور واپس آنا ہے۔ میں آپ سب کو یقین دلاتا ہوں کہ محاصرہ ناکام رہے گا''۔
''آپ نے فوج کی حالت کو پیش نظر نہیں رکھا''۔ ایک جرنیل نے کہا… ''شہر میں فوج کی آدھی نفری ایسی ہے جو حطین سے عسقلات تک کی لڑائیوں سے بھاگی ہوئی ہے اور ان کا لڑنے کا جذبہ سرد پڑ گیا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان پر صلاح الدین ایوبی کی فوج کا خوف طاری ہوگیا ہے۔ تازہ دم دستے وہی ہیں جو شہر میں موجود رہے ہیں، میدان جنگ میں نہیں گئے''۔
''ہم نے اس مسئلے کا حل نکال لیا ہے''… کمانڈر ان چیف نے کہا… ''پادری فوج میں گھومنے پھرنے لگے ہیں۔ وہ سپاہیوں کو انجیل کے حوالے دے کر ذہن نشین کرا رہے ہیں کہ اسلامی فوج کو شکست دینا کیوں ضروری ہے اور یہ مذہبی فریضہ ہے… اگر جرنیل اور دیگر کمانڈر اسے مذہبی جنگ سمجھ کر لڑیں گے تو سپاہی بھی مذہبی جوش وخروش سے لڑیں گے۔ اگر ہم بیت المقدس کی جنگ ہار گئے تو بحیرۂ روم بھی ہمیں پناہ نہیں دے سکے گا۔ صلاح الدین ایوبی کیوں کامیاب ہوا ہے؟ صرف اس لیے کہ وہ اپنے مذہب کا پکا ہے جسے وہ ایمان کہتا ہے۔ ہم نے اسے خانہ جنگی سے تباہ کرنے کی کوشش کی مگر اس نے خانہ جنگی بھی جیت لی۔ ہم نے جن مسلمان حکمرانوں کو اس کے خلاف کیا تھا وہ اس کے مطیع ہوگئے۔ ہم نے اپنی بیٹیوں کی عصمتوں سے اس کی جنگی طاقت اور سلطنت کو کمزور کرنے کی کوشش کی مگر یہ قربانی بھی ضائع ہوئی۔ یہ شاید ہماری غلطی تھی کہ ہم نے عورت کو استعمال کیا اور اس امید پر بیٹھ گئے کہ صلاح الدین ایوبی گھر بیٹھے مرجائے گا''۔
''ہماری کوئی قربانی ضائع نہیں ہوئی''۔ بطریق اعظم جو وہاں موجود تھا، بولا… ''آپ کی یہ سوچ غلط ہے کہ دو مذہبوں کی جنگ صرف فوجیں لڑا کرتی ہیں۔ا پنے مذہب کے فروغ اور دشمن مذہب کی تباہی کے لیے بے شک تلوار ضروری ہے لیکن دشمن کے ذہن اور اس کی روح کو گمراہ کرنے کے لیے یہ طریقے ضروری تھے جن کے متعلق آپ کہہ رہے ہیں کہ قربانیاں ضائع ہوئیں۔ ہم اپنی ان بیٹیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنے غیرمعمولی حسن کی بدولت بڑے اونچے د رجے کے حاکموں کی بیویاں بننا اور شاہانہ زندگی گزارنی تھی مگر انہوں نے اپنا آپ اور اپنا مستقبل صلیب پر قربان کردیا اور وہ مسلمانوں کے حرموں اور درباروں میں ذلیل وخوار ہوئیں۔ مسلمانوں میں خانہ جنگی انہوں نے کرائی۔ مسلمان حکمرانوں کے ایمان ان لڑکیوں نے خریدے۔ ایک ہی حکمران کے اہم حاکموں میں رقابت پیدا کرکے انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا''…
''صلیب کے جرنیلو! یہ مت بھولو کہ دشمن کو مارنے کا بہترین طریقہ ہے کہ اس میں ذہنی عیاشی اور جنسی جذبات پرستی پیدا کردو۔ اسے راگ رنگ اور جھوٹی لذتوں کا عادی بنا دو۔ اس کے حکمرانوں کو تخت وتاج اور زروجواہرات کی ہوس میں مبتلا کردو۔ مسلمان دنیا بھر کا مانا ہوا اور دلیر سپاہی ہے۔ جنگی جذبہ اور مذہبی جنگ (جہاد) کا جتنا جنون مسلمانوں میں ہے، اتنا ہم میں نہیں۔ جتنے اعلیٰ جرنیل مسلمانوں نے پیدا کیے ہیں، اتنے ہم نہیں کرسکے۔ یہ ان کی روایت ہے۔ اگر ہم نے ان کے ذہن بدلنے کی کوشش نہ کی تو ان کا جذبہ، مذہبی جنون اور ان کی روایت زندہ رہے گی۔ اگر ان کی روایت زندہ رہی تو صلیب زندہ نہیں رہ سکے گی۔ اسلام یورپ تک گیا، ہندوستان اور اس سے اوپر چین تک گیا۔ چین کا امیرالبحر مسلمان رہا۔ وہاں کے بعض جرنیل اب بھی مسلمان ہیں، ہندوستان کے مشرق بڑے بڑے جزیروں میں چلے جائو تو وہاں بھی تمہیں عربوں کی یعنی اسلام کی حکمرانی نظر آئے گی''…
''آپ یہ طوفان صرف تلوار سے نہیں روک سکتے۔ ہمیں اسلام کے اس مرکز کو جسے مسلمان خانہ کعبہ کہتے ہیں، مردہ کرنا پڑے گا۔ بیت المقدس پر قبضہ برقرار رکھنا پڑے گا۔ مسلمان حکمران اور بادشاہ جہاں کہیں بھی ہیں، انہیں جنگی اور مالی مدد دے کر بے کار کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی ان کے حرموں میں اپنی تجربہ کار لڑکیاں اسی طرح داخل کرتے رہیں گے جس طرح عرب کی ریاستوں میں کرتے رہے ہیں۔ ہم نے یہ طریقہ یہودیوں سے سیکھا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی کردار کشی اور مذہبی بیخ کنی کا نہایت دانشمند منصوبہ بنا رکھا ہے اور وہ اس پر عمل کررہے ہیں۔ وہ ہماری مدد کررہے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ وقت تیزی سے آرہا ہے کہ بیت المقدس پر ہمارا مستقل قبضہ ہوجائے گا۔ اس کے اردگرد دور دور کے علاقے بھی ہمارے قبضے میں ہوں گے۔ مسلمان ریاستوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔ اگر دشمن نہ ہوئے تو ان میں اتحاد بھی نہیں ہوگا۔ یہودیوں کے دانشوروں نے صحیح کہا ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو بادشاہ سمجھیں گے لیکن ان کی بادشاہی اور آزادی کی باگ دوڑ ہمارے ہاتھ میں ہوگی۔ یہ کام آپ ہم پر چھوڑیں۔ یہ درپردہ اور زمین دوز کام دانشوروں کا اور مذہبی پیشوائوں کا ہے۔ آپ فوجی ہیں۔ میدان جنگ کی بات کریں۔ آپ کا بڑا ہی خطرناک دشمن بیت المقدس پر آرہا ہے۔ آپ اس کو شکست دینے کی سوچیں''۔
٭ ٭ ٭
: وہ اتوار کی صبح تھی اور ١١٨٧ء کے ماہ ستمبر کی بیس تاریخ تھی، جب سلطان ایوبی حیران کن تیز رفتاری سے بیت المقدس پہنچ گیا۔ ہجری کیلنڈر کے مطابق ١٥رجب ٥٨٣ہجری کاروز تھا۔ صلیبیوں کو سلطان ایوبی کا انتظار تھا لیکن انہیں یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اس قدر تیزی سے آئے گا۔ اس نے راستے میں صلیبیوں کی بلندیوں والی قلعہ بندیوں اور پوسٹوں کو نظر انداز (بائی پاس) کیا اور فوج کو گزار کر لے گیا تھا۔ رات کا وقت تھا، قلعہ بندیوں سے صلیبیوں نے بیت المقدس کو قبل از وقت اطلاع دینے کے لیے قاصد روانہ کیے ہوںگے لیکن کوئی بھی وہاں تک نہ پہنچ سکا جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب سلطان ایوبی کے ہر اول دستے شہر تک پہنچے تو اس وقت اوپر دیوار پر دو چار سنتری کھڑے تھے۔ شہر کے دروازے بند تھے، اندر سے گرجوں کے گھنٹوں کی آوازیں آرہی تھیں۔
نقارے اور بگل بج اٹھے۔ دیوار پر ہر طرف انسانوں کے سر ابھرنے لگے۔ ان سروں پر فولادی خودیں تھیں اور کمانیں صاف نظر آرہی تھیں۔ ان سروں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور پھر یوں نظر آنے لگا جیسے دیوار کے اوپر انسانی سروں کی ایک فصیل کھڑی کردی گئی ہو۔ شہر کے مغرب کی جانب کچھ علاقہ چٹانی تھا۔ سلطان ایوبی نے اپنے خصوصی دستوں کو وہاں خیمہ زن کردیا اور خود شہر کے اردگرد یہ دیکھنے کے لیے گھومنے پھرنے لگا کہ دیوار کس جگہ سے کمزور ہے اور نقب کہاں لگائی جاسکتی ہے یا کہیں سے سرنگ کھودی جاسکتی ہے یا نہیں۔ سلطان ایوبی کے نقب زن جیش جانبازی میں مشہور تھے۔
اسلامی فوج شہر کے ہر طرف موجود تھی لیکن بڑا اجتماع مغرب کی جانب تھا جس جانب شہر کی دیوار کے دو مستحکم برج تھے۔ ایک دائود برج اور دوسرا تن کر ڈبرج تھا۔ ان میں دورمار تیرانداز تھے اور وہاں منجنیقیں بھی نصب تھیں۔ سلطان ایوبی شہر کے اردگرد دیوار کا جائزہ لیتا پھر رہا تھا۔ اس دوران مغرب کی جانب والے دستوں کے سالار نے آگ اور پتھر پھینکنے والی منجنیقیں نصب کرنی شروع کردی۔ صلیبیوں نے بہادری کا یہ مظاہرہ کیا کہ اپنی دفاعی سکیم کے مطابق شہر کا ایک دروازہ کھول دیا۔ اس میں سے زرہ پوش نائٹ گھوڑوں پر سوار ہاتھوںمیں برچھیاں تانے سرپٹ گھوڑے دوڑاتے نکلے اور منجنیقیں نصب کرنے والے مجاہدین پر ہلہ بول دیا۔ ان کے پیچھے دروازہ بند کردیا گیا۔
گھوڑوں کے گھومنے پھرنے کے لیے جگہ کافی تھی۔ نائٹ آہن پوش تھے۔ اس لیے ان پر تیر کوئی اثر نہیں کرتے تھے۔ ان کا ہلہ (چارج) اس قدر تیز، شدید اور غیرمتوقع تھا کہ مجاہدین کو پراثر مزاحمت کی مہلت نہ ملی۔ ان میں سے کئی نائٹوں کی برچھیوں سے زخمی اور شہید ہوئے اور پیچھے آنے والے گھوڑوں تلے کچلے گئے۔ گھوڑے بگولے کی طرح آئے تھے، اپنی اڑاتی ہوئی گرد میں گھومیں اور جب دروازے کے قریب پہنچے تو دروازہ بند ہوگیا۔ وہ اپنے پیچھے خاک وخون میں تڑپتے کئی ایک مسلمان مہندس (منجنیقیں چلانے والے) چھوڑ گئے۔
سپاہی انہیں اٹھانے کو دوڑے تو دو تین نسوانی آوازیں سنائی دیں… ''پیچھے رہو، یہ ہمارا کام ہے''۔ اس کے ساتھ ہی بہت سی لڑکیاں دوڑتی آئیں۔ انہوں نے درختوں کی ٹہنیوں کے بنے ہوئے سٹریچر اٹھا رکھے تھے۔ بعض لڑکیوں کے کندھوں سے پانی کے چھوٹے مشکیزے لٹک رہے تھے۔ اوپر سے صلیبیوں کے تیر آرہے تھے جن سے دو تین لڑکیاں گر پڑیں۔ بہت سے مسلمان تیر انداز دوڑ کر لڑکیوں اور اوپر سے آنے والے تیروں کے درمیان آگئے اور انہوں نے برجوں پر تیز تیراندازی شروع کردی جو تیر انداز پیچھے تھے، انہوں نے بھی برجوں اور دیوار کے اوپر بڑی ہی تیز تیراندازی شروع کردی۔ اوپر سے تیروں کا مینہ تھم گیا اور دونوں طرف کے تیروں کے سائے میں لڑکیاں زخمیوں کو اٹھا لائیں اور پیچھے درختوں کے سائے میں لے گئیں۔
اسدالاسدی جو اس دور کا وقائع نگار تھا، اپنی ایک غیرمطبوعہ تحریر میں لکھتا ہے کہ سپاہی ہر جنگ میں زخمی ہوتے تھے۔ انہیں اٹھا کر جراحوں کے خیموں تک پہنچا دیا جاتا تھا مگر انہیں اٹھانے والے انہی کی طرح مرد اور سپاہی ہوتے تھے اور اس معاملے میں کوتاہی بھی نہیں کرتے تھے لیکن بیت المقدس کے محاصرے میں لڑکیوںنے زخمیوں کو اٹھایاا ور جراحوں کے جیش کے ساتھ ان کی مرہم پٹی میں ہاتھ بٹایا اور زخمیوں کے سر اپنی گودیوںمیں رکھ کر پانی پلایا تو کئی ایک زخمی جو ہوش میں تھے جوش میں اٹھ کھڑے ہوئے اور للکارنے لگے۔ ''یہ زخم ہمیں لڑنے سے نہیں روک سکتے''… اور ایسی آوازیں بھی سنائی دیں۔

جاری ھے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں