داستان ایمان فروشوں کی قسط 142 - اردو ناول

Breaking

ہفتہ, جنوری 22, 2022

داستان ایمان فروشوں کی قسط 142


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر142 ایوبی مسجد اقصیٰ کی دہلیز پر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لڑکیاں جو بحریہ کے کمان دار الفارس بیدرون کے جہاز میں تھیں اسی کی طرح شگفتہ مزاج اور بذلہ سنج تھیں۔ سمندر کی تنہائی میں یہ دونوں لڑکیاں الفارس کے دل کو نئی زندگی دے رہی تھیں لیکن یہ اس کے لیے معمہ سا بن گئی تھیں اور ان کے لیے الفارس عجیب آدمی بنا ہوا تھا۔ لڑکیوں نے اسے بتایا تھا کہ وہ خانہ بدوش ہیں۔ ان کا قبیلہ جنگ کی زد میں آگیا تھا اور وہ دونوں بڑی مشکل سے چھپتی چھپاتی ساحل تک پہنچی ہیں مگر الفارس دیکھ رہا تھا کہ دونوں کی عادتیں اور طور طریقے خانہ بدوشوں والے نہیں۔ خانہ بدوش حسین ہوسکتی تھیں مگر ان میں یہ شائستگی نہیں ہوسکتی تھی جو ان دونوں میں تھی۔ ان دونوں لڑکیوں میں کسی حد تک بے حیائی بھی تھی جو خانہ بدوش عورتوں میں عموماً نہیں ہوا کرتی تھی۔
لڑکیوں کے لیے الفارس عجیب آدمی تھا۔ لڑکیوں کو توقع تھی کہ وہ ان کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو ہر اس مرد نے ان کے ساتھ کیا ہے جس کے ذہن پر قبضہ کرنے کے لیے انہیں بھیجا گیا تھا۔ الفارس نے ان میں اس قسم کی دلچسپی کا اظہار نہ کیا جس سے یہ لڑکیاں ابتداء میں مایوس ہوئیں لیکن انہوں نے اس کی ایک اور کمزوری بھانپ لی۔ وہ یہ تھی کہ وہ فرض کے معاملے میں جہاں بڑا ہی سخت گیر اور سخت کوش تھا وہاں فراغت کے وقت کھلنڈرہ بچہ بن جایا کرتا تھا۔ ان لڑکیوں کے ساتھ وہ ہم راز سہیلیوں کی طرح کھیلتا اور ان کے حسن اور ان کی شوخیوں سے لطف اٹھاتا تھا۔ ان کے بکھرے بکھرے ریشمی بالوں سے کھیلتا اور ان میں مگن ہوکر دنیا کو بھول جاتا تھا۔
ایک روز ایک لڑکی نے جب دوسری لڑکی کمرے میں نہیں تھی، اس کے جذبات کو مشتعل کرنے کی یا یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اس آدمی کے اندر جذبات ہیں بھی یا نہیں تو الفارس نے یہ کھلے اشارے سمجھتے ہوئے کہا۔ ''میں نے جب تمہیں پہلے روز ساحل پر کہا کہ میں تمہیں اپنے جہاز میں پناہ دے سکتا ہوں تو تم نے کہا تھا کہ ہمارے ساتھ دھوکہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے کہا تھا کہ تمہیں مصر لے جائوں گا اور شادی کرلوں گا… میں اپنے اس وعدے پر قائم رہنا چاہتا ہوں۔ شادی سے پہلے میں کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گا جس سے تمہیں یہ شک ہو کہ میں وقتی طور پر دل بہلانے کے لیے تمہیں یہاں لایا ہوں۔ میں تمہاری مجبوری اور بے بسی سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا۔ مصر جانے تک تم سوچ لو۔ اگر میرے ساتھ رہنا پسند نہیں کروگی تو جہاں کہو گی، وہاں بھیج دوں گا''۔
لڑکی نے بے تابی سے بازو اس کے گلے میں ڈال دئیے اور گال اس کے گال کے ساتھ لگا کر کہا… ''ہم دونوں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گی۔ تم پہلے مرد ملے ہو جس کے دل میں انسانیت کی پاکیزگی ہے، شیطانیت اور حیوانیت نہیں''۔
لڑکی نے والہانہ محبت کااظہار ایسے الفاظ میں اور ایسے انداز سے کیا کہ الفارس کو پانی پر تیرنے والا بحری جہاز فضا کی وسعتوں میں اڑتا محسوس ہونے لگا۔ یہی اس کی کمزوری تھی جو انسانی فطرت کی سب سے زیادہ خطرناک کمزوری ہے۔ سمندر میں اتنا طویل عرصہ دن رات گشت کرتے رہنے سے اور وقتاً فوقتاً چھوٹی موٹی جھڑپیں لڑنے سے اس کے اعصاب پر جو تھکن اور ذہن پر جو کوفت تھی، وہ ختم ہوگئی۔ اعصاب پرسکون ہوگئے۔ اب تو اس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں چھ جہازوں کی کمانڈ تھی اور وہ فلسطین کے ساحل سے کچھ دور گشت کرتا رہتا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی بجلی کی طرح ارض فلسطین پر ٹوٹ پڑا تھا۔ اس نے ساحلی علاقوں پر قبضہ کرلیا اور اب عسقلان میں بیت المقدس پر حملے کی تیاری کررہا تھا۔ الفارس بیدرون کی ذمہ داری یہ تھی کہ سمندر کی طرف سے صلیبیوں کے لیے مدد اور رسد وغیرہ آئے تو اسے ساحل تک نہ پہنچنے دے۔ اس ذمہ داری نے اس کی نیندیں بھی حرام کررکھی تھیں۔ یہ دو لڑکیاں اس کے اعصاب کو سہلا لیا کرتی تھیں۔
الفارس نے ان لڑکیوں سے ایک روز کہا کہ ان میں خانہ بدوشوں والی عادتیں نہیں، ان کے بجائے ان میں شائستگی اور نفاست ہے۔ یہ ان میں کہاں سے آگئی ہے۔
''ہم بڑے بڑے عیسائی گھروں میں نوکری کرتی رہی ہیں''… ایک لڑکی نے جواب دیا… ''انہوں نے ہمیں میزبانی کے آداب اور اونچے درجے کے مہمانوں کے ساتھ سلوک اور برتائو کے طور طریقے سکھا دئیے تھے۔ اگر آپ معمولی آدمی ہوتے تو ہم آپ کے ساتھ خانہ بدوشوں جیسا سلوک کرتیں۔ ہماری باتیں اور حرکتیں خانہ بدوشوں جیسی ہوتی۔ آپ بحریہ کے اتنے برے کمانڈر ہیں اور آپ کے دل میں ہماری اتنی زیادہ محبت ہے کہ ہم آپ کے ساتھ اجڈوں جیسا سلوک نہیں کرسکتیں''۔
دوسرے پانچ جہازوں کے کپتانوں کو پتہ چل چکا تھا کہ ان کا کمانڈر الفارس اپنے جہاز میں دو لڑکیاں لایا ہے۔ سب یہ خبر سن کر ہنسے یا مسکرائے تھے لیکن سب نے محسوس کیا تھا کہ جہاز میں جنگ کے دوران اپنی بیوی کو تو رک
 بیوی کو تو رکھا جاسکتا ہے، اجنبی لڑکیوں کو رکھنا خطرے سے خالی نہیں۔ انہوں نے الفارس سے بات کی تھی اور اس نے سب کو مطمئن کردیا تھا۔ سب اس لیے جلدی مطمئن ہوگئے تھے کہ وہ الفارس کو عرصے سے جانتے تھے۔ وہ بدکار آدمی نہیں تھا۔ فرائض سے کوتاہی برداشت نہیں کرتا تھا۔
٭ ٭ ٭
بیت المقدس کے اندر کی کیفیت غیرمعمولی تھی۔ یہاں مسلمانوں پر جو ظلم وتشدد ہورہا تھا، اس کی مثال کم از کم فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں نہیں ملتی تھی۔ اس ظلم وتشدد کی تاریخ پرانی تھی۔ ١٠٩٩ء میں صلیبیوں نے بیت المقدس فتح کیا تھا۔ یہ مسلمانوں کی بے اتفاقی اور اقتدار کی خاطر غداری کرنے والوں کا کرشمہ تھا۔ تاریخ میں حملہ آوروں نے اس سے زیادہ بڑے اور اہم شہر فتح کیے ہیں لیکن صلیبیوں نے بیت المقدس فتح کیا تو اسے اس قدر اہمیت دی جیسے انہوں نے آدھی دنیا فتح کرلی ہو، سارے یورپ بلکہ تمام تر عیسائی دنیا اور کلیسا کی نظریں بیت المقدس پر لگی ہوئی تھیں۔
اس اہمیت کی وجہ یہ تھی کہ بیت المقدس کو عیسائی اپنا مقدس مقام سمجھتے تھے۔ ان کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی علاقے میں کہیں مصلوب کیا گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہیں سے معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ اس لحاظ سے مسجد اقصیٰ کا تقدس خانہ کعبہ سے کم نہ تھا۔ مسلمان بیت المقدس کو اپنا نظریاتی مرکز سمجھتے تھے۔ یہ ہمارے عقیدوں کا مرکز تھا۔ (اور اب بھی ہے) عیسائی مسلمانوں کے اس نظریاتی سرچشمے پر قبضہ کرکے ہمارے نظریات اور عقائد کو باطل قرار دینا چاہتے تھے۔ صلیبیوں کی انٹیلی جنس کے سربراہ ہرمن نے غلط نہیں کہا تھا کہ صلیبی جنگیں مسلمانوں اور عیسائیوں کے بادشاہوں کی نہیں، یہ کلیسا اور کعبہ کی جنگیں ہیں جو اس وقت تک لڑی جاتی رہیں گی جب تک دونوں میں اس ایک ختم نہیں ہوجاتا۔
جس طرح ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کو اور مسلمانوں کو شکست دینے کو اور مسلمانوں کو نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ دھوکے سے بھی قتل کرنے کو مذہبی فریضہ قرار دے رکھا ہے، اسی طرح عیسائیوں کے پادریوں نے بھی مسلمان کے قتل کو کارِ ثواب قرار دے رکھا تھا۔ عیسائیوں کو جنگ کے احکام بڑے پادری (پوپ) کی طرف سے ملتے تھے۔ آپ نے پڑھ لیا ہے کہ حطین کی جنگ میں عکرہ کا پادری اس صلیب کے ساتھ میدان جنگ میں موجود تھا جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا تھا۔ یہ ثبوت ہے اس حقیقت کا کہ کعبہ کے خلاف جنگ کلیسا نے شروع کی تھی اور یہ دو مذہبوں اور دو نظریات کی جنگ تھی۔
یہ بتایا جاچکا ہے کہ صلیبی جنگوں میں شامل ہونے والے بادشاہوں، جرنیلوں اور ادنیٰ سپاہیوں تک سے صلیب الصلبوت پر صلیب سے وفاداری اور جان ومال کی قربانی کا حلف لیا جاتا تھا۔ اس حلف سے وہ صلیبی کہلائے اور بیت المقدس کے لیے جو جنگیں لڑی گئیں، انہیں صلیبی جنگیں کہا گیا۔ عیسائی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جنگ اور سرزمین عرب پر قبضہ کرنے کو ایسا جنون بنا دیا گیا تھا کہ عورتیں اپنے زیورات اور مال ودولت کلیسا کے حوالے کردیتی تھیں۔ جنون کی انتہا یہ تھی کہ جوان لڑکیوں نے اپنی عصمتیں صلیب کی فتح اور مسلمانوں کی شکست کے لیے پیش کردیں۔ کلیسا نے کھلی اجازت دے دی کہ مسلمانوں کی کردار کشی اور نظریاتی تخریب کاری کے لیے عیسائی لڑکیوں کو استعمال کیا جائے۔ لڑکیوں کو یقین دلایا گیا کہ کلیسا کے مقاصد اور عزائم کی خاطر عصمت قربان کرنے والی لڑکی بہشت میں جائے گی۔
اسی عقیدے کے تحت خوبصورت لڑکیوں کو باقاعدہ تربیت دے کر مسلمانوں کے علاقوں میں بھیجا گیا۔ یہ مسلمان امراء کے حرموں میں داخل ہوئیں اور وہ تباہی بپا کی جو آپ اس سلسلے کی کہانیوں میں پوری تفصیل سے پڑھ چکے ہیں۔ اس مقابلے میں مسلمان آپس میں ٹکراتے رہے اور صلیبیوں کے پھیلائے ہوئے اس حسین جال میں ایسے آئے کہ مذہبی نظریات اور عقائد کو نظرانداز کرکے تخت وتاج کے شیدائی ہوگئے۔ انہوں نے ایمان نیلام کردئیے۔ پھر بھی کچھ لوگ ابھی زندہ تھے جن کی روحیں ایمان کے نور سے منور تھیں۔ وہ بیت المقدس کی پاسبانی کرتے اور لہو کے نذرانے دیتے رہے مگر یہ قانون فطرت ہے کہ ایک غدار ساری قوم کو بے وقار کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے اور جب غدار صاحب اقتدار ہو تو دشمن سے دس گنا زیادہ فوج بھی شکست کھا جاتی ہے۔
اسی کانتیجہ تھا کہ صلیبی ١٥جولائی ١٠٩٩ء (٢٣شعبان ٤٩٢ہجری) کے روز بیت المقدس پر قابض ہوگئے۔ اس فتح میں جن مسلمان امراء اور ریاستوں کے حکمرانوں نے صلیبیوں کو مدد دی اور جس طرح مدد دی، وہ ایک طویل اور شرمناک کہانی ہے۔ مثال کے طور پر اتنا ہی بتانا کافی ہوگا کہ جب صلیبی فوج بیت المقدس کی طرف بڑھ رہی تھی تو شہزاء کے امیر نے نہ صرف یہ کہ اس فوج کو نہ روکا بلکہ اسے رسد بھی دی اور رہبر (گائیڈ) بھی دئیے۔ حماة اور تریپولی کے مسلمان امراء نے بھی صلیبی فوج کو راستہ دے کر رسد بلکہ تحائف بھی دئیے اور اپنے قبلۂ اول کی طرف روانہ کیا۔ راستے میں کئی ایک مسلمان ریاستیں آتی تھیں۔ انہوں نے اپنی ریاست اور حکومت کے تحفظ کی خاطر صلیبیوں کے دلکش اور حسین تحفے قبول کیے اور ان کے عوض صلیبی فوج کی ضروریات پوری کیں۔
عرقہ کا امیر مردمومن تھا جس کی جنگی طاقت صلیبیوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی لیکن اس نے صلیبی فوج کے جرنیلوں کے مطالبے پر بھی انہیں کچھ نہ دیا بلکہ ان کے چیلنج کو قبول کرکے انہیں مقابلے کے لیے للکارا۔ صلیبی فوج نے عرقہ کو محاصرے میں لے لیا۔ ١٤فروری سے ١٣مئی ١٠٩٩ء تک عرقہ کے مسلمانوں نے ایسی بے جگری سے مقابلہ کیا کہ صلیبی فوج نے بہت سا جانی نقصان اٹھا کر محاصرہ اٹھا لیا اور راستہ بدل کر آگے چلی گئی۔ اگر یہ تمام مسلمان امراء اپنے اپنے علاقے میں بیت المقدس کی طرف بڑھتی ہوئی صلیبی فوج کے سامنے مزاحم ہوتے رہتے تو ان کا اپنا نقصان تو ضرور ہوتا لیکن صلیبی فوج کا خون قطرہ قطرہ بہہ کر ختم ہوجاتا۔ یہ فوج اپنے پلان سے دو اڑھائی سال تاخیر سے بیت المقدس پہنچتی اور اس کے جسم میں خون کا ایک قطرہ نہ ہوتا۔
٭ ٭ ٭
یہ کہنا غلط نہیں کہ صلیبیوں کو بیت المقدس تک مسلمان امراء نے تازہ دم اور رسد سے مالا مال کرکے پہنچایا۔ اس کی سزا ان مسلمانوں کو ملی جو بیت المقدس میں آباد تھے۔ وہاں مسلمان زائرین بھی گئے ہوئے تھے، وہ بھی کچلے گئے۔ ٧جون ١٠٩٩ء کے روز صلیبیوں نے اس عظیم اور مقدس شہر کا محاصرہ کیا، وہاں حکومت مصر کا گورنر افتخار الدولہ تھا، جس نے محاصرے میں بے مثال شجاعت اور عسکری ذہانت سے مقابلہ کیا۔ شہر کے جیش قلعے سے نکال کر صلیبیوں پر حملے کرائے گئے مگر صلیبیوں کے پاس سازوسامان کی افراط تھی اور فوج تو بے شمار تھی۔ ١٥جولائی ١٠٩٩ء صلیبی فوج شہر میں داخل ہوگئی۔
تمام تر یورپ اور ہر عیسائی ملک میں جشن منائے گئے مگر بھیانک اور ہولناک جشن وہ تھا جو فاتح صلیبیوں نے بیت المقدس کے اندر منایا۔ صلیبی سپاہی مسلمانوں کے گھروں میں گھس گئے۔ لوٹ مار کی، کسی گھر میں کسی فرد کو، خواہ وہ بوڑھا تھا یا دودھ پیتا بچہ، زندہ نہ چھوڑا۔ زندہ رہنے دیا تو صرف جوان لڑکیوں کو جوان کی درندگی کی اذیتوں سے مریں۔ گلیوں میں بھاگتے ہوئے مسلمان بچوں، عورتوں اور مردوں کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔ صلیبی ننھے ننھے بچوں کو برچھیوں کی انیوں میں اڑس کر اوپر اٹھاتے اور چیخ چیخ کر قہقہے لگاتے تھے۔ کھلے عام آبروریزی اور مقتولین کے سرکاٹ کر انہیں ٹھڈ مارنا صلیبیوں کا من پسند کھیل بن گیا تھا۔
مسلمانوں کو ایک ہی پناہ نظر آتی تھی جس کے متعلق انہیں یقین تھا کہ جان کی امان ملے گی اور کسی بھی مذہب کا پیروکار وہاں ان پر زیادتی کرنے کو گناہ سمجھے گا۔ یہ تھی مسجد اقصیٰ۔ مسلمان اپنے بال بچوں کو لے کرمسجد اقصیٰ میں چلے گئے جنہیں وہاں پائوں رکھنے کو بھی جگہ نہ ملی۔ وہ باب دائود اور دوسری مسجدوں میں چلے گئے۔ خود عیسائی مؤرخین لکھتے ہیں کہ ان پناہ گزین مسلمانوں کی تعداد ستر ہزار کے لگ بھگ تھی۔ صلیبی جو مسجد اقصیٰ کو اپنی عبادت گاہ کہتے تھے، اس کے احترام کا ذرہ بھر خیال نہ کیا۔ وہ پناہ گزینوں پر ٹوٹ پڑے۔ کسی ایک کو زندہ نہ چھوڑا۔ مسجد اقصیٰ، باب دائود اور تمام مسجدیں لاشوں سے اٹ گئیں اور خون باہر بہنے لگا۔ مؤرخین نے ان الفاظ میں یہ کیفیت بیان کی ہے… ''صلیبیوں کے گھوڑوں کے پائوں ٹخنوں تک مسلمان شہریوں کے خون میں ڈوب گئے تھے''۔
لڑکیوں کو مسجدوں اور مسلمانوں کے دیگر مقدس مقامات میں لے جا کر بے آبرو کیا جاتا تھا۔ سب سے زیادہ بدنصیب یہ لڑکیاں تھیں اور ان کے جنگی قیدی۔ جنگی قیدیوں کو مویشی بنا لیا گیا تھا۔ انہیں کھانے کو کم دیا جاتا اور مشقت زیادہ لی جاتی۔ جن کاموں میں پہلے گھوڑے اور اونٹ استعمال ہوتے تھے، ان میں اب جنگی قیدی استعمال ہونے لگے۔ ان کے ہاتھوں مسجدیں مسمار کرائی گئیں۔ جنہوں نے انکار کیا، انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا۔ کسی وحشی صلیبی نے ایک جنگی قیدی کو قتل کرکے اس کے جسم کا گوشت کاٹا اور پکا کر کھا گیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ گوشت لذیذ ہے۔ اس کے بعد صلیبیوں نے انسان خوری (بلکہ مسلمان خوری) شروع کردی۔ جب کبھی کوئی جشن یا تقریب مناتے ایک دو تندرست اور توانا مسلمان کو قتل کرکے ان کا گوشت کھاتے تھے۔
: اس کی تردید عیسائی مؤرخین نے کی ہے لیکن انسان خوری کے واقعات خود یورپین مؤرخوں نے ہی اپنی تحریروں میں بیان کیے ہیں۔
مسجدوں کو حرام کاری کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ صلیبیوں نے ان میں گھوڑے باندھے، مسجد اقصیٰ میں مختلف مسلمان سلاطین اور دیگر دولت مند زائرین نے سونے اور چاندی کے فانونس اور قندیلیں لگوائی تھیں۔ تحفے کے طور پر سونے اور چاندی کی کئی ایک اشیاء رکھی تھیں۔ صلیبیوں نے یہ تمام فانون، قندیلیں اور بیش قیمت اشیاء اٹھا لیں اور مسجد کے منڈیر پر صلیب نصب کردی۔
٭ ٭ ٭
سلطان صلاح الدین ایوبی کو بیت المقدس کی بے حرمتی اور وہاں کے مسلمانوں پر وحشیانہ مظالم کی یہ روئیداد اس کے باپ نجم الدین ایوبی نے بچپن سے سنانی شروع کردی تھی۔ نجم الدین ایوبی کو یہ روئیداد اس اس کے باپ (سلطان ایوبی کے دادا) شادی نے سنائی تھی۔ یہ روئیداد سلطان ایوبی کے خون میں شامل ہوگئی تھی۔ اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ بیت المقدس کو آزاد کرائے گا، اب جبکہ وہ اس مقدس شہر کو فتح کرنے نکلا تھا تو اس کے دو بیٹے، الملک الافضل اور الملک الظاہر جوان تھے اور اس کی فوج میں تھے۔ بیت المقدس کے متعلق جو باتیں اسے اپنے باپ نے سنائی تھیں، وہ اس نے اپنے بیٹوں کو یوں سنا دی تھیں جیسے ایک قیمتی ورثہ ان کے حوالے کیا ہو۔
''بے مقصد جینے سے قبل از وقت مرجانا بہتر ہے''۔ اس نے اپنے بیٹوں کی جنگی تربیت مکمل کرکے انہیں اپنی فوج میں شامل کرتے وقت کہا تھا… ''یہ الفاظ تمہارے دادا مرحوم کے ہیں جو انہوں نے مجھے اس وقت کہے تھے جب میں چچا شیر کوہ کے ساتھ صلیبیوں کے خلاف پہلی جنگ لڑنے کے لیے چلا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، مجھے نظر آرہا ہے کہ تم کسی جگہ کے حکمران بنو گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم سلطان بن جائو۔ یاد رکھو بیٹے! تم آج سے میرے بیٹے نہیں، قوم کے بیٹے ہو۔ قرآن کا حکم ہے کہ ماں باپ کی خدمت کرو۔ اب تمہارے ماں باپ قوم اور سلطنت ہے۔ اولاد کو ماں باپ پر حکم چلانے اور ان کا دل دکھانے سے اللہ نے منع کیا ہے۔ خیال رکھنا یوسف! قوم کا دل نہ دکھانا۔ دیکھنا کہ تم پر قوم کے کیا کیا حقوق ہیں۔ یہ ادا کرنا''…
''اور میرے عزیز بیٹو! تمہارے دادا نے کہا تھا کہ جو لوگ قوم کی آن پر اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ہیں، انہیںنہ بھولنا۔ جو قوم اپنے شہیدوں کو بھول جاتی ہے، اس قوم کو خدا بھول جاتا ہے۔ جس قوم سے خدا نظریں پھیر لیتا ہے، تم نہیں جانتے کہ یہ دنیا اس کے لیے جہنم بن جاتی ہے۔ اس کی عبادت گاہیں اصطبل اور اس کی بیٹیاں دشمن کی عیاشی کا سامان بن جاتی ہیں۔ اس قوم کی تقدیر اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے… جب تمہیں حکومت کی مسند پر بٹھایا جائے گا تو قوم کو رعایا نہ سمجھنا۔ بندوں پر حکومت کا حق صرف اللہ کا ہے، بندوں پر حکومت کرکے اللہ کی برابری کاگناہ کرو گے تو انجام مصر کے فرعونوں والا ہوگا۔ حکومت کا مطلب وہ ذمہ داری ہوتی ہے جو قوم کی طرف سے اللہ اس کے حکمران پر عائد کرتا ہے۔ حکمران کی اپنی کوئی ذات نہیں رہتی۔ وہ فرد کی حیثیت سے مرجاتا ہے۔ وہ قوم کا امین اور قوم کا حصہ بن جاتا ہے۔ قوم کو فاقے کرنے پڑیں تو حکمران کو اپنا پیٹ نہیں بھرنا چاہیے۔ وہ اپنے منہ میں نوالہ ڈالے تو اسے یقین کرلینا چاہیے کہ قوم کے ہر فرد کے منہ میں ایسا ہی نوالا جارہا ہے۔ وہ جب گھوڑے پر سوار ہوتو دیکھے کہ اس کی گردن مسجد کے مینار کی طرح اکڑ کر سیدھی تو نہیں ہوگئی؟''…
''اور میرے عزیز بیٹو! تمہارے دادا نے کہا تھا کہ گردن اس روز اونچی کرنا جس روز مسجد اقصیٰ کو کفار سے آزاد کرالو گے۔ اطمینان کی نیند اس رات سونا جس رات مسجد اقصیٰ میں فتح کے نفل پڑھ لو گے اور اس مسجد کی دہلیز جہاں سے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج کے لیے اللہ کے حضور گئے تھے، اپنے آنسوئوں سے دھوئوگے… اور میرے بیٹو! وہ بچے جو بیت المقدس کی گلیوں اور مسجدوں میں قتل ہوئے تھے اور قوم کی وہ دو بیٹیاں جو وہاں بے آبرو ہوئی تھیں، مجھے راتوں کو سونے نہیں دیتیں۔ جس مسجد میں میرے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدم گئے اور جس مسجد میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک جبیں نے سجدے کیے تھے، اس مسجد کی اینٹیں رات بھر میرے اوپر گرتی رہتی ہیں۔ میں بدک بدک جاتا ہوں۔ کبھی ورد سے کراہتی ہوئی ایسی صدائی سنائی دیتی ہیں جیسے مسجد اقصیٰ میں قتل ہونے والے بچے بزبان گریہ اذانیں دے رہے ہوں… وہ تمہیں پکار رہے ہیں میرے بیٹو! وہ مجھے پکار رہے ہیں''…
''اور تمہارے دادا نے بڑھاپے سے کانپتے ہوئے ہاتھ مجھے دکھا کر کہا تھا کہ میں نے اپنی جوانی تمہیں دے دی ہے جو کام میں نہیں کرسکا وہ تم کرو۔ بیت المقدس جائو اور یہی تمہارے جینے کا مقصد ہوگا۔ سلطنت کی مسند پر بیٹھ کر اپنے دشمن کو اس لیے نظر انداز کیے رکھو گے کہ اطمینان سے قوم پر حکومت کرسکو تو اس مسند کی عمر طویل نہیں ہوگی۔ شہیدوں کی روحیں جنات  بن کر تمہاری مسند کو الٹ دیں گی۔ جینے کا مقصد وہ رکھو جو خدا کو عزیز ہو اور جس میں قرآن کا حکم شامل ہو''…
''میرے عزیز بیٹو! آج میں اپنے باپ کا ورثہ تمہارے سپرد کرتاہوں۔ آج سے تم میرے نہیں سلطنت اسلامیہ کے بیٹے ہو۔ میں نے تمہاری ماں سے کہہ دیا کہ بھول جا تیری کوکھ نے کوئی بیٹے جنے تھے۔ اگر انہیں بھول نہ سکی تو ان کی زندگی کی دعا نہ کرنا، میں انہیں وہاں ذبح کرانے لے جارہا ہوں جہاں ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ پر قربان کرنے کے لیے اس کی گردن پر چھری رکھی تھی۔ اگر دعا کرنی ہے تو اللہ سے یہ التجا کرنا کہ تو نے جو دودھ ان بچوں کو پلایا ہے، یہ نور سے منور خون بن کر مسجد اقصیٰ کا فرش دھو ڈالے… اور اللہ کرے گا ایسا ہی ہوگا۔ عہد کرو میرے بیٹو! میں زندہ نہ رہا تو بیت المقدس کو تم آزاد کرائو گے''۔
اس نے دونوں بیٹوں کو ١٠٩٩ء کی خونچکاں داستاں سنائی اور جب اس نے بیٹوں کو جانے کی اجازت دی تو انہوں نے سلطان ایوبی کو اس طرح سلام نہ کیا جس طرح بیٹے اپنے باپ کو کیا کرتے ہیں۔ وہ اٹھے اور الافضل جو بڑا تھا، بولا… ''سلطان عالی مقام! صرف شہید ہونا کوئی کارنامہ نہیں، ہم شہادت سے پہلے بیت المقدس کی گلیوں میں دشمنوں کا اتنا خون بہائیں گے کہ آپ کے گھوڑے کے پائوں پھسلیں گے اور ہم دیکھیں گے کہ آپ مسجد اقصیٰ سے صلیب اپنے ہاتھوں اتار کر صلیبیوں کے غلیظ خون میں پھینک رہے ہیں''۔
''مگر یہ خون نہتے شہریوں کا نہیں ہوگا، الافضل''… سلطان ایوبی نے کہا۔
''یہ خون زرہ پوش صلیبیوں کا ہوگا''… الافضل نے کہا… ''یہ خون اس لوہے سے ٹپکے گا جس سے صلیبیوں نے اپنے جسم ڈھانپ رکھے ہیں۔ ایمان کی تلوار باطل کے فولاد کو کاٹنے کی طاقت رکھتی ہے''۔
''اللہ تمہاری زبان مبارک کرے''… سلطان ایوبی نے کہا۔
بیٹوں نے فوجی انداز سے باپ کو سلام کیا اور باہر نکل گئے۔
اب سلطان ایوبی بیت المقدس سے چالیس میل دور بحیرۂ روم کے کنارے عسقلان میں اس چیتے کی طرح بیٹھا جو اپنے شکار پر جھپٹنے کے لیے تیار ہو۔ جذباتی طور پر وہ فوراً بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کرنے کو تیار تھا لیکن وہ جنگ کے حقائق کو دیکھ رہا تھا۔ یہ چالیس میل کا فاصلہ تو جیسے آتش فشاں چٹانوں سے بھرا پڑا تھا۔ بیت المقدس کا دفاع ہی ایسا تھا۔ صرف شہر کے اردگرد ہی دیوار نہیں تھی بلکہ اس شہر کے اردگرد دور دور تک کے علاقے میں چھوٹی چھوٹی قلعہ بندیاں اور صلیبی فوج کی چوکیاں (آئوٹ پوسٹیں) تھیں۔ گشتی پہرے کا انتظام بھی تھا۔ گھوڑ سوار پارٹیاں ان راستوں پر گھومتی پھرتی رہتی تھیں جن سے بیت المقدس تک پہنچا جاسکتا تھا۔ اب یہ دفاعی انتظامات پہلے سے زیادہ سخت کردئیے گئے تھے۔ بیت المقدس کے اندر جو فوج تھی اس کے جرنیلوں کو سلطان ایوبی کی ہر ایک نقل وحرکت کا علم تھا مگر ان میں اب اتنی ہمت نہیں رہی تھی کہ سلطان ایوبی کو عسقلان میں روک لیتے یا اس پر جوابی حملہ کرتے۔ حطین تک سلطان ایوبی نے ان کی عسکری قوت کا بہت زیادہ خون نکال لیا تھا۔
بیت المقدس کا حکمران گائی آف لوزینان تھا جو حطین میں جنگی قیدی ہوگیا اور اب دمشق کے قید خانے میں تھا۔ وہ جو فوج اپنے ساتھ لے گیا تھا اس کا کچھ حصہ مارا گیا۔ کچھ جنگی قیدی ہوا اور باقی فوج ایسی بھاگی کہ اب اس کے افسر، سپاہی اور زرہ پوش نائٹ زخمی یا خوفزدگی کی حالت میں بیت المقدس میں آرہے تھے۔ نائٹوں کے مورال میں کچھ جان تھی کیونکہ انہیں اپنے رتبے اوراعزاز کا پاس تھا۔ دیگر فوج نے شہر میں جاکر دہشت پھیلا دی۔ جرنیلوں نے نائٹوں کو ازسرنو منظم کرلیا۔ اس طرح بیت المقدس کے اندر کی تعداد ساٹھ ہزار ہوگئی تھی۔ چونکہ یہ تمام آبادی کو معلوم ہوگیا تھا کہ سلطان ایوبی شہر پر شہر فتح کرتا آرہا ہے، اس لیے شہری بھی لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ شہر کے دفاع کو اور زیادہ مستحکم کرلیا گیا۔
 شہرکے ایک دو دروازوں کو دن کے دوران کھلا رکھنا پڑتا تھا کیونکہ میدان جنگ سے بھاگے ہوئے صلیبی اکیلے اکیلے اور دو دو، چارچار کی ٹولیوں میں آتے رہتے تھے۔ سلطان ایوبی کے جاسوس پہلے ہی شہر میں موجود تھے، اب بھاگے ہوئے صلیبیوں کے بھیس میں چند اور جاسوس اندر چلے گئے اور شہر کے دفاعی انتظامات اور دیوار کو اچھی طرح دیکھ کر نکل بھی آئے۔ مسلمان پر پابندیاں پہلے سے زیادہ سخت کردی گئیں۔
٭ ٭ ٭
بیت المقدس سے دس بارہ میل عسقلان کی طرف صلیبیوں کی ایک چوکی تھی جس میں ایک سو کے قریب صلیبی فوجی رہتے تھے، انہوں نے خیمے نصب کررکھے تھے۔ ستمبر ١١٨٧ء کی ایک رات ان کی چوکی کے قریب ایک دھماکہ سا ہوا، پھر دو تین اور ایسے ہی دھماکے ہوئے۔ ان کے فوراً بعد شعلے اٹھے اور تین چار خیمے جلنے لگے۔ سپاہی جاگ کر ادھر ادھر بھاگے۔ جونہی فوجیوںمیں ہلچل مچی، ان پر ہر طرف سے تیر آنے لگے۔ جلتے خیموں کی روشنی میں وہ نظر آرہے تھے۔یہ آتش گیر سیال کی ہانڈیاں تھیں جو سلطان ایوبی کے ایک چھاپہ مار جیش نے چھوٹی منجنیق سے پھینکی تھیں۔ یہ چوکی میں گر کر ٹوٹیں تو جہاں یہ گری تھیں وہاں جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر چلائے گئے۔ آتش گیر سیال جل اٹھا۔
صلیبی ادھر ادھر بھاگے تو انہیں پتہ چلا کہ وہ گھیر میں آئے ہوئے ہیں اورزندہ نکل نہیں سکیں گے۔ چھاپہ ماروں نے للکارنا شروع کردیا… ''زندہ رہنا چاہتے ہو تو ہتھیار ڈال کر ایک طرف کھڑے ہوجائو''… شعلوں کی دہشت اور تباہ کاری تو اپنی جگہ تھی، سلطان ایوبی کے چھاپہ ماروں کی للکار نے صلیبیوں کا رہا سہا دم خم بھی ختم کردیا۔ وہ ہتھیار ڈال کر چھاپہ ماروں کی حراست میں آگئے۔ ان کی تعداد پچیس تیس رہ گئی تھی۔ ان سے ہتھیار اور گھوڑے وغیرہ لے کر پیچھے بھیج دیا گیا۔
صبح طلوع ہوئی تو اس جلی ہوئی چوکی میں سلطان ایوبی کے ہر اول دستے کاایک جیش پہنچ چکا تھا۔ اس سے فوج کی پیش قدمی خاصے دور علاقے تک محفوظ ہوگئی۔ چھاپہ ماروں کی حالت جنگی کے درندوں کی سی ہوگئی تھی۔ دو دو جانباز جھاڑیوں، ٹیکریوں اور چٹانوں میں چھپ چھپ کر گھومتے پھرتے رہتے تھے۔ جہاں انہیں گشتی سواروں یا پیادہ سپاہیوں کی آواز آتی، وہ چھپ جاتے اور جب صلیبی قریب آتے یہ ان پر ٹوٹ پڑتے۔ دو آدمی اگر چھ آدمیوں پر ٹوٹ پڑیں تو دو کا کیا حشر ہوتا ہوگا۔ اس سے چھاپہ مار شہید بھی ہوتے تھے، زخمی بھی۔
یہ ان کی انفرادی جنگ تھی۔ انہیں کوئی کمانڈر نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ کہیں ادھر ادھر چھپے رہتے تو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا لیکن جسمانی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ انہیں جو روحانی اور ذہنی ٹریننگ دی گئی تھی اس نے انہیں آگ بگولا کررکھا تھا۔ حطین کی فتح کے بعد سلطان ایوبی نے جو بڑے شہر فتح کیے تھے، وہاں کے مسلمانوں کی حالت فوج کو دکھائی گئی تھی۔ انہیں مسجدوں کی بربادی اور بے حرمتی دکھائی گئی تھی اور انہیں بتایا گیا تھا کہ یہ جنگ کسی بادشاہ کی بادشاہی کے تحفظ کے لیے نہیں لڑی جارہی بلکہ یہ اسلام کے تحفظ اور اس عظیم مذہب کے دشمن کے خلاف لڑی جارہی ہے۔ اس ٹریننگ سے یہ جنگ ان کے ایمان کا جزو بن گئی تھی۔
عسقلان میں سلطان ایوبی رات کو سوتا بھی کم ہی تھا۔ چھاپہ ماروں کی طرف قاصد آتے رہتے تھے اور بیت المقدس سے کوئی جاسوس بھی آجاتا تھا۔ یہ رات کو بھی آتے تھے، سلطان ایوبی نے حکم دے رکھا تھا کہ کہیں سے کوئی پیغام کسی بھی وقت آئے تو اسے اسی وقت دیا جائے، خواہ وہ گہری نیند سورہا ہو۔ چھاپہ ماروں کی رپورٹیں یہی ہوتی تھیں کہ فلاں مقام پر صلیبیوں کی ایک چوکی پر حملہ کیا گیا۔ اتنے صلیبی مارے گئے اور اتنے چھاپہ مار شہید اور زخمی ہوئے ہیں اور فلاں راستہ صاف کرلیا گیا ہے۔ اس کے مطابق سلطان ایوبی نقشے پر پیش قدمی کے راستے کی لکیر میں ردوبدل کرتا رہتا تھا۔
٭ ٭ ٭
سلطان ایوبی نے سالاروں اور نائب سالاروں کی آخری کانفرنس منعقد کی۔ اس میں بحریہ کے کپتان الفارس بیدرون کو بھی بلایا گیا۔ الفارس کے پاس جب قاصد پہنچا، اس وقت اس کا جہاز عسقلان کے بیس میل دور کھلے سمندر میں تھا۔ کشتی اس تک پہنچتے آدھا دن لگ گیا اور الفارس اسی کشتی میں رات کو عسقلان پہنچا۔ قاصد نے اسے بتایا تھا کہ سلطان نے تمام سالاروں کو بلایا ہے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ بیت المقدس پر حملے کے متعلق اجلاس ہوگا۔ جہاز سے قاصد کے ساتھ روانہ ہوتے وقت اس نے دونوں لڑکیوں کو بتایا کہ وہ عسقلان جارہا ہے۔
''سلطان نے بلایا ہے؟''ایک لڑکی نے پوچھا۔
''کیوں بلایا ہے؟'' دوسری نے پوچھا۔
''میرے سرکاری فرائض کے متعلق تم پوچھنا کیوں ضروری سمجھتی ہو؟'' الفارس نے انہیں کہا… ''تمہیں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ میری ذات کے سوا کچھ اور نہ پوچھا کرو''۔
دونوں ہنس پڑیں۔ ایک بولی۔ ''اگر ہم اس قابل ہوتیں تو آپ کی غیرحاضری میں آپ کے جہاز کو سنبھالے رکھتیں اور دشمن کے جہاز آجاتے تو ان سے لڑائی کرتیں''۔
''تم جس قابل ہو، میں تم سے وہی کام لوں گا''۔ الفارس نے کہا… ''میری غیرحاضری میں زیادہ وقت نیچے ہی گزارنا۔ اوپر جاکر ملاحوں اور عسکریوں کے کام میں دخل نہ دینا''۔
''آپ کب واپس آئیں گے؟''
''رات شاید نہ آسکوں''۔ الفارس نے جواب دیا۔ ''کل شام تک آسکوں گا''۔
الفارس لڑکیوں میں پوری طرح گھل مل گیا تھا۔ وہ اس سے سلطان ایوبی کے آئندہ اقدامات کے متعلق اکثر پوچھتی تھیں۔ یہ بھی پوچھا کرتیں کہ بحیرۂ روم میں مصر اور شام کا بحری بیڑہ بندرگاہوں میں ہے یا سمندر میں اور کل کتنے جہاز ہیں، ان میں فوج کتنی ہے۔ الفارس نے انہیں ٹالنے کے بجائے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اس سے ایسے سوال نہ پوچھا کریں۔ اس کے باوجود اپنے حسن اور نازوادا کا طلسم طاری کرکے اس سے کوئی ایسی بات پوچھ ہی بیٹھتیں تھیں جو فوجی راز ہوتا تھا۔ الفارس جذباتی مدہوشی سے فوراً بیدار ہوجاتا اور انہیں پیار سے ڈانٹ دیا کرتا تھا۔
نشے کی حالت میں انسان دل میں چھپائی ہوئی بات اگل دیا کرتا ہے۔ نشہ خواہ شراب کا ہو یا کسی دوائی کا مگر الفارس شراب نہیں پیتا تھا، نہ جہاز میں کسی کو شراب یا کوئی اور نشہ آور چیز رکھنے کی اجازت تھی۔ الفارس بدکار بھی نہیں تھا مگر وہ اپنے آپ پر ان لڑکیوں کا نشہ طاری کرلیا کرتا تھا جس سے اس کی تھکن دور ہوجاتی اور وہ تازہ دم ہوجایا کرتا تھا۔ یہ لڑکیاں تربیت یافتہ تھیں۔ انہوں نے دیکھا کہ الفارس میں نہ شراب کی عادل ہے، نہ اس کے جذبات سفلی اور حیوانی ہیں تو انہوں نے اس پر پیار اور محبت کا نشہ طاری کرنا شروع کردیا تھا مگر الفارس اپنے فرائض اور ذمہ داری کا اتنا پکا تھا کہ جذبات پر مدہوشی طاری ہوتی تو بھی اپنے فرض سے کوتاہی نہیں کرتا تھا۔
٭ ٭ ٭
ایک رات الفارس گہری نیند سویا ہوا تھا۔ لڑکیاں اپنے کیبن میں تھیں، دونوں اوپر چلی گئیں اور عرشے کے جنگلے کے سہارے سمندر پر چاندنی کے بکھرے اور چمکتے ہوئے موتیوں سے لطف اٹھانے لگیں۔
''روزی!'' ایک لڑکی نے دوسری سے کہا… ''مجھے اپنے سامنے گہرا اندھیرا نظر آتا ہے۔ الفارس لگتا موم ہے لیکن کوئی ایسی ویسی بات پوچھو تو پتھر بن جاتا ہے۔ میرا خیال ہے ہم اپنا یہاں کام نہیں کرسکیں گی۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ اینڈریو آئے تو اسے کہیں کہ ممکن ہو توہمیں یہاں سے لے جائے؟''
اینڈریو وہ آدمی تھا جو چھوٹی سی کشتی جہازوں کے قریب لے جا کر کھانے پینے اور ضروریات کی اشیاء جہاز کے ملاحوں اور سپاہیوں کے ہاتھ بیچتا تھا۔ آپ نے پچھلی قسط میں پڑھا ہے کہ یہ آدمی ان لڑکیوں کو اتفاق سے ملا تھا۔ وہ غریب ماہی گیروں کے بہروپ میں اپنی گشتی پر الفارس کے جہاز کے قریب چیزیں بیچنے آیا تھا۔ اس نے لڑکیوں اور لڑکیوں نے اسے پہچان لیا تھا اور انہوں نے رسیوں کی سیڑھی نیچے کروا کر اسے چیزیں خریدنے کے بہانے اوپر بلا لیا تھا۔ اس نے لڑکیوں کو بتایا تھا کہ وہ الفارس کے ان چھ جہازوں کے ساتھ سائے کی طرح لگا ہوا ہے اور وہ موقع ملتے ہی ان جہازوں کو تباہ کرا دے گا۔ لڑکیوں نے اسے بتایا تھا کہ وہ کس طرح الفارس سے ملی تھیں اور انہوں نے خانہ بدوش بن کر اس جہاز میں پناہ لے لی ہے۔ لڑکیوں نے اسے یہ بھی بتایا کہ وہ پناہ کے بہانے جاسوسی اور تباہ کاری کریں گی۔
: اس آدمی کا نام اینڈریو تھا اور وہ تخریب کار جاسوس تھا۔ پہلی ملاقات کے بعد وہ دوبار اپنے بہروپ میں آیا اور لڑکیوں سے ملا تھا۔ لڑکیوں نے اسے بتایا تھا کہ الفارس ان کے جال میں نہیں آرہا اور وہ کوئی راز نہیں دیتا۔ اینڈریو یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ یہ جہاز کب تک اس ڈیوٹی پر رہیں گے اور یہ ٹائر کی طرف جائیں گے یا نہیں۔ اس نے لڑکیوں سے کہا تھا … ''معلوم ہوتا ہے تم اپنا فن بھول گئی ہو۔ اس جہاز میں اکیلا الفارس نہیں، اس کا نائب بھی ہے اور اس کے نیچے ایک افسر اور بھی ہے۔ ان میں سے کسی کو گانٹھ لو۔ ان میں رقابت پیدا کردو۔ الفارس کے نائب کو اس کا دشمن بنا دو۔ اپنا جادو چلائو۔ تم کیا نہیں جانتیں؟ سب جانتی ہو''۔
اس رات ایک لڑکی دوسری سے مایوس ہوکر کہہ رہی تھی کہ روزی، اینڈریو آئے تو اسے کہتے ہیں کہ ہمیں یہاں سے نکال لے جائے۔
''سنو فلوری!'' روزی نے اسے جواب دیا… ''اینڈریو ہمیں یہاں سے نہیں نکال سکے گا۔ یہ جنگی جہاز ہے۔ تم دیکھ رہی ہو کہ رات کو عرشے پر بلکہ وہ اوپر دیکھو، مستول پر مچان بنائے ایک بحری سپاہی کھڑا ہے۔ فرار کی کوشش میں ہمارے ساتھ اینڈریو کے پکڑے جانے کا بھی امکان ہے۔ ہمیں اتنی جلدی مایوس نہیں ہونا چاہیے''۔
''دوسرا حربہ استعمال کریں؟'' فلوری نے پوچھا۔
''کرنا پڑے گا''۔ روزی نے کہا… ''الفارس کا نائب کپتان تو پہلے ہی ہمیں بھوکی نظروں سے دیکھتا اور مسکراتا رہتا ہے۔ یہ لوگ بڑے لمبے عرصے سے سمندر میں ہیں۔ ان کے سروں پر موت منڈلاتی رہتی ہے۔ خدا نے مرد میں عورت کی جو کمزوری پیدا کی ہے، وہ اسی کیفیت میں ابھرتی ہے۔ اشارے کی دیر ہے۔ یہ بتا دو کہ یہ کام میں کروں یا تم کرو گی۔ تمہیں مجھ سے زیادہ تجربہ حاصل ہے''۔
''میں ہی کرلیتی ہوں''۔ فلوری نے کہا۔
''لیکن اس کام کے اصول یاد رکھنا''… روزی نے کہا… ''راز لے لینا لیکن اس کی قیمت صرف دکھا دینا، ادا نہ کرنا۔ اس شخص میں اتنی تشنگی بلکہ دیوانگی پیدا کرنا کہ یہ شخص تمہیں یا الفارس کو قتل کرنے کی باتیں کرنے لگے''۔
الفارس کا نائب رئوف کرد تھا۔ وہ ان لڑکیوں کو دیکھتا اور مسکراتا رہتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ الفارس کی بیویاں یا داشتہ نہیں اور یہ خانہ بدوش ہیں، جنہیں الفارس نے اپنے جہاز میں پناہ دی ہے۔ رئوف کرد کے دل میں لڑکیوں نے ہلچل بپا کردی تھی۔ اس رات جب یہ لڑکیاں عرشے پر جنگلے کا سہارا لیے باتیں کررہی تھیں، رئوف اپنی ڈیوٹی پر کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ الفارس سلطان ایوبی کے بلاوے پر جاچکا تھا۔ اب جہاز رئوف کرد کی تحویل میں تھا۔
فلوری عرشے کے جنگلے کے ساتھ کھڑی رہی۔ روزی ٹہلنے کے انداز سے وہاں سے چل پڑی اور رئوف کرد کے قریب سے گزرتے مسکرائی۔ رئوف کرد نے اسے اپنے پاس بلایا اور رسمی سی باتیں کیں۔ روزی چلنے لگی تو رئوف کردنے اسے رکنے کو کہا۔

جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں