داستان ایمان فروشوں کی 141 - اردو ناول

Breaking

ہفتہ, جنوری 22, 2022

داستان ایمان فروشوں کی 141


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر141 فصل صلیبی جس نے کاٹی تھی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
زندگی کی آخری رات حشیشین کا سردار شیخ سنان اس کے پاس گیا تھا۔ اس سے پہلے ایک ا ور مشہور صلیبی حکمران بالڈون مرگیا تھا۔ یہ فرنگیوں (فرینکس) کا جنگجو بادشاہ تھا۔ آپ نے اس کا ذکر ان کہانیوں میں کئی بار پڑھا ہوگا۔ بیت المقدس اس کی عملدارل میں تھا۔ بالڈون جنگی امورکا ماہر تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سلطان ایوبی بیت المقدس کو فتح کرنا چاہتا ہے۔ بالڈون نے بیت المقدس کو بچانے کا یہ اہتمام کیے رکھا کہ اپنی فوجیں مسلمان علاقوںمیں گھماتا پھراتا اور لڑتا رہا اور یہ اس کی قابلیت کا ثبوت ہے کہ اس نے عزالدین، سیف الدین اور گمشتگین کو متحد کرکے سلطان ایوبی کے خلاف محاذ آرا کردیا تھا اور اس محاذ کو وہ جنگی سازوسامان، شراب، زروجواہرات ارو حسین لڑکیوں سے مستحکم کرتا رہتا تھا۔ بوڑھا آدمی تھا، جنگ حطین سے چند روز پہلے مرگیا۔ اس کی جگہ گائی آف لوزینان نے بیت المقدس کی حکومت سنبھال لی تھی۔
٭ ٭ ٭
تاریخ آج تک کمانڈو اور گوریلا آپریشن کی ایسی مثال پیش نہیں کرسکی جیسی سلطان ایوبی کے چھاپہ مار دستوں نے کی تھی۔ چھاپہ مار دشمن کے ہاں تباہی بپا کرسکتے ہیں لیکن کسی علاقے پر قبضہ نہیں کرسکتے۔ قبضہ فوج کیا کرتی ہے بشرطیکہ وہ فوج تیز ہو اور چھاپہ ماروں کی بپا کی ہوئی افراتفری اور تباہی کے فوراً بعد حملہ کردے۔ سلطان ایوبی نے چھاپہ ماروں اور فوج کو مشن دے دیا تھا، جو مختصراً یوں تھا کہ بیت المقدس کے اردگرد، دوردور تک کے علاقوں سے صلیبی کو بے دخل اور تباہ کرنا، ساحلی علاقوں کی قلعہ بندیوں پر قبضہ کرنا اور دشمن کا جس قدر اسلحہ اور رسد ہاتھ آئے، اسے محفوظ مقامات پر ذخیرہ کرنا۔
سلطان ا یوبی نے اپنی فوج کو واضح مقصد دے رکھا تھا۔ یہی اس کی اصل قوت تھی۔ سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں سے کہہ رکھا تھا کہ جس شہر اور قصبے پر قبضہ کرو، وہاں کے مسلمانوں کی حالت اپنے سپاہیوں کو دکھائو، انہیں وہ مسجدیں دکھائو جنہیں صلیبیوں نے ویران کیا اور بے حرمتی کی تھی۔ انہیں وہ مسلمان خواتین دکھائو جو صلیبیوں کے ہاتھوں بے آبرو ہوتی رہیں۔ انہیں اچھی طرح دکھائو کہ ہمارا دشمن کیسا ہے اور اس کے عزائم کیا ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ سلطان ایوبی کی فوج کا چھوٹے سے چھوٹا دستہ بڑے سے بڑے دستے پر قہر بن کر ٹوٹا۔ سپاہیوں نے وہ سب کچھ دیکھ لیا تھا جو سلطان ایوبی انہیں دکھانا چاہتا تھا۔ یہ دیوانگی کی کیفیت تھی، ایک جنون تھا، سلطان ایوبی کے کانوںمیں ایک ہی آواز پڑتی تھی… ''فلاں قصبے پر قبضہ کرلیا گیا ہے… فلاں مورچے سے صلیبی پسپا ہوگئے ہیں''… سپاہی آرام کے بغیر مسلسل لڑ اور بڑھ رہے تھے مگر ایک روز سلطان ایوبی سر سے پائوں تک ہل گیا۔
وہ اپنے کمرے میں نقشے پر جھکا ہوا اپنی ہائی کمان کے سالاروں اور مشیروں سے اگلا پلان تیار کررہا تھا، باہر شور اٹھا۔ ''میں تمہارے سلطان کو بھی قتل کردوں گا۔ تم صلیب کے پجاری ہو، چھوڑ دو مجھے… نعرۂ تکبیر… اللہ اکبر''… یہ ایک ہی آدمی کی آواز تھی۔ اس کے ساتھ کئی اور آوازیں سنائی دے رہی تھیں… ''یہاں سے لے جائو اسے… سلطان خفا ہوں گے… ماردو، جان سے مار دو اسے… اس کے منہ پر پانی پھینکو… پاگل ہوگیا ہے''۔
سلطان ایوبی دوڑ کر باہر نکلا۔ اسے توقع تھی کہ کوئی صلیبی سپاہی ہوگا مگر وہ اس کی اپنی فوج کا ایک کمان دار تھا جس کے دونوں ہاتھ خون سے لال تھے اور اس کے کپڑوں پر خون ہی خون تھا۔ اس کی آنکھیں خون کی طرح گہری لال تھیں اور اس کے ہونٹوں کے کونوں سے جھاگ پھوٹ رہی تھی۔ اسے چار آدمیوں نے بازوئوں سے جکڑ رکھا تھا، وہ قابو میں نہیں آرہا تھا۔
''چھوڑ دو اسے''۔ سلطان ایوبی نے گرج کرکہا۔
''سلطان!'' اس کمان دار نے قہر بھری آواز میں کہا۔ ''یہاں آکر تمہاری سب فوج بے غیرت ہوگئی ہے، کفار کیوں زندہ نکل رہے ہیں۔ تم ہمارے سلطان بنے پھرتے ہو، تم نے ان مسلمان عورتوں اور بچوں کو دیکھا تھا جو قید میں پڑے تھے؟''
سلطان کے محافظ دستے کے کمانڈر نے لپک کر اس کمان دار کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ کمان دار نے اس کمانڈر کے بازو کو پکڑ کر اتنی زور سے جھٹکا دیا کہ کمانڈر اس کے کندھوں کے اوپر سے ہوتا ہوا سلطان ایوبی کے سامنے جاپڑا۔
''مت روکو اسے بولنے سے''… سلطان ایوبی نے ایک بار پھر گرج کر کہا… ''آگے آئو دوست! امجھے بتائو انہوں نے تمہیں کیوں پکڑ لیا ہے؟''
 بات یہ کھلی کہ وہ ایک جیش کا کمان دار تھا۔ اسے یہ فرض سونپا گیا تھا کہ جو مسلمان کنبے قید میں پڑے رہے تھے، ان کے گھروں میں اناج وغیرہ پہنچائے اور ان میں جو بیمار ہیں، انہیں فوج کے طبیبوں کے پاس بھیجے۔ اس کام کے لیے سو سو سپاہیوں کے دو جیش مقرر کیے گئے تھے۔ یہ کمان دار مظلوم مسلمانوں کے گھروں میں جاتا رہا۔ ان سے اسے معلوم ہوتا رہا کہ عیسائیوں نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا۔ یہ تفصیلات بڑی ہی دردناک اور بڑی ہی شرمناک تھیں۔ اس کمان دار نے اپنی فوج کے سپاہیوں کو مسجدیں صاف کرتے دیکھا۔ ایک مسجد میں دو عورتوں کی برہنہ لاشیں نکلیں جو گل سڑ رہی تھیں۔ یہ اس کمان دار نے دیکھ لیں۔
لاشیں نکالنے اور مسجد کو صاف کرنے والے سپاہیوں کے آنسو بہہ رہے تھے۔ ان میں سے ایک کہہ رہا تھا۔ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی یہ حالت ہوتی رہی اورہمارے سلطان نے کفار کو اجازت دے دی ہے کہ جو یہاں سے جانا چاہے، اپنے کنبے کو لے کر چلا جائے۔
اس کمان دار کا خون کھول اٹھا۔ وہ آگے گیا تو پندرہ بیس لڑکیاں اسے جاتی نظر آئیں، ان کے ساتھ اس کا ایک ساتھی کمان دار چند ایک سپاہیوں کے ساتھ جارہا تھا۔ لڑکیاں بہت خوبصورت تھیں، کمان دار نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ یہ لڑکیاں کون ہیں اور ان کے ساتھ سپاہیوں کیوں جارہے ہیں؟
''یہ وہ لڑکیاں ہیں جنہوں نے مصر اور شام میں غدار پیدا کیے تھے''… کمان دار نے اسے بتایا۔ وہ اسے قافلے کے ساتھ چل پڑا۔ اس کے ساتھی نے اسے سنایا… ''ان کی کارستانیاں تم سنتے رہے ہو۔ ان کا سردار (ہرمن) پکڑا گیا ہے۔ یہ سب صلیبی ہیں۔ سلطان نے ان کے سردار کو قید میں ڈال دیا ہے اور لڑکیوں کے متعلق حکم دیا ہے کہ انہیں شہر سے دور لے جا کر ان عیسائیوں کے حوالے کردو جو عکرہ سے جارہے ہیں''۔
''اور تم انہیں زندہ چھوڑ آئو گے؟'' کمان دار نے پوچھا۔
''ہاں، حکم یہی ملا ہے''۔
''کیا یہ ہماری ان بہنوںسے زیادہ پاک اور مقدس ہیں جن کی برہنہ لاشیں مسجدوں سے نکل رہی ہیں اور جنہیں قید میں رکھ کر بے آبرو کیا جاتا رہا ہے؟''
اس کے ساتھی نے آہ بھر کر کہا… ''میں حکم کا پابند ہوں''۔
کمان دار رک گیا اور اس قافلے کو جاتے دیکھتا رہا۔ا چانک اس نے تلوار نکال لی اور ان کی طرف دوڑ پڑا۔ اس نے نعرہ لگایا… ''میں کسی کا پابند نہیں''… اس نے تلوار اس قدر تیز چلائی کہ پلک جھپکتے ہی تین چار لڑکیوں کے سر کاٹ ڈالے۔ ان کا محافظ کمان دار اسے پکڑنے کو دوڑا۔ لڑکیاں چیختی چلاتی ادھر ادھر بھاگیں۔ کمان دار ایک ایک لڑکی کے پیچھے گیا اور مزید تین چار لڑکیوں کو ختم کردیا۔ ایک سپاہی اسے پکڑنے کے لیے قریب گیا تو اس نے اس سپاہی کے پیٹ میں تلوار برچھی کی طرح گھونپ دی۔ پھر اس کے قریب کوئی نہیں جاتا تھا۔ اس نے باقی لڑکیوں کو دیکھا جو ادھر ادھر بھاگ گئی تھیں۔
اس طرح وہ شہر سے باہر نکل گئے۔ اسے کچھ عیسائی شہر سے جاتے نظر آئے۔ کمان دار نے ان پر حملہ کردیا۔ اس کے سامنے جو آیا، اسے اس نے قتل کیا اور یہی نعرے لگاتا رہا… ''میں بے غیرت نہیں ہوں۔ اللہ اکبر''۔
اس کے ساتھی کمان دار کے واویلے پر کئی ایک سپاہی اکٹھے ہوگئے جنہوں نے اسے گھیر کر پکڑ لیا۔ اسے گھسیٹ کر لارہے تھے کہ اس عمارت کے قریب سے گزرے جہاں سلطان ایوبی اپنے عملے کے ساتھ قیام پذیر تھا۔ کسی نے کہا کہ اسے سلطان کے عملے کے حوالے کردو۔ وہ ڈرتے تھے کہ سلطان کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی ہے، کسی نہتے شہری پر ہاتھ اٹھانے کا جرم قرار دیا گیا تھا۔ یہ کمان دار چلا رہا تھا۔ اس کا شور سن کر سلطان ایوبی باہر نکل آیا۔
سلطان ایوبی نے یہ واردات سنی اور کمان دار کی لعن طعن بھی سنی۔ سب ڈر رہے تھے کہ سلطان اسے قید میں ڈال دے گا لیکن سلطان نے اسے گلے لگا لیا اور اندر لے گیا۔ اسے شربت پلایا اور اسے ذہن نشین کرایا کہ ان کا مقصد صلیبیوں کا قتل نہیں بلکہ اپنے قبلۂ اول کو آزاد کرکے اس تمام سرزمین عرب سے صلیبیوں کو نکالنا ہے۔ کمان دار کی ذہنی حالت ٹھکانے نہیں تھی۔ اسے سلطان ایوبی نے اپنے طبیب کے حوالے کردیا۔
''فوج کو اتنا جذباتی نہیں ہونا چاہیے''۔ سلطان ایوبی نے سالاروں اور مشیروں سے کہا… ''لیکن ایمان دیوانگی کی حد تک ہی پختہ ہونا چاہیے۔ ہمارا یہ کمان دار ہوش اور عقل کھو بیٹھا ہے۔ اگر مسلمان اپنے دین کے دشمن کو دیکھ کر دیوانے ہوجائیں تو اسلام کا پرچم وہاں تک پہنچ جائے جہاں یہ زمین ختم ہوجاتی ہے''۔
ہرمن کی جو لڑکیاں اس کمان دار سے بچ کر بھاگ گئی تھیں، ان میں سے دو سمندر کے کنارے جا پہنچیں۔ سمندر دور نہیں تھا۔ وہ خوف سے کانپ رہی تھیں اور پناہ ڈھونڈ رہی تھیں۔ وہ ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گئیں۔ فوراً بعد ایک کشتی کنارے آلگی۔ اس میں دو ملاح تھے، تیسرا کوئی افسر معلوم ہوتا تھا۔ وہ سلطان ایوبی کی بحریہ کا ایک افسر تھا جس کا نام الفارس بیدرین لکھا گیا ہے۔ بحریہ کا سب سے بڑا کمانڈر عبدل الحسن تھا جو رئیس البحرین (دو سمندروں، بح
: روم اور بحیرۂ احمر) کا ''ہائی ایڈمرل'' کہلاتا تھا۔ اس کے نیچے امیر البحر حسام الدین لولو تھا۔
سلطان ایوبی کے حکم سے بحری بیڑہ جس کا ہیڈکوارٹر سکندریہ میں تھا، بحیرۂ روم میں گشت کرتا تھا کہ یورپ سے صلیبیوں کے لیے کمک اور سامان وغیرہ آئے تو ان کے جہازوں کو راستے میں ہی روکا جاسکے۔ حسام الدین لولو، بحیرۂ احمر میں تھا۔ سلطان ایوبی چونکہ ساحلی علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، اس لیے مصری بیڑے کو حکم بھیجا تھا کہ چھ بحری جہاز ساحل کے ساتھ بھیج دئیے جائیں۔ یہ جنگی جہاز تھے جن میں منجنیقوں کے علاوہ دور مار تیر انداز اور لڑاکا دستے بھی تھے۔
رئیس البحرین نے الفارس بیدرین کی کمانڈ میں چھ جہاز بھیجے تھے اور الفارس اپنے بحری جہاز سے کشتی میں آیا تھا۔ وہ احکام لینے کے لیے سلطان ایوبی کے پاس جارہا تھا۔ ساحل پر اسے یہ دو صلیبی لڑکیاں نظر آئیں جو کسانوں کے لباس میں تھیں۔ الفارس ان کے قریب چلا گیا اور پوچھا کہ وہ کون ہیں اور یہاں کیا کررہی ہیں؟ لڑکیوں نے بتایا کہ وہ خانہ بدوش قبیلے کی ہیں جو جنگ کی زد میں آگیا تھا۔ ان کے بہت سے مرد مارے گئے اور باقی ادھر ادھر بھاگ گئے ہیں۔
''…اور ہم چھپتی پھر رہی ہیں''۔ ایک لڑکی نے کہا… ''عیسائیوں سے ہم اس لیے ڈرتی ہیں کہ وہ ہمیں مسلمان سمجھتے ہیں اور مسلمان ہمیں عیسائی سمجھتے ہیں''۔
''تم مسلمان ہو یا عیسائی؟''
''ہمارا مذہب وہی ہے جو ہمارے مالک کا ہوگا''۔ دوسری لڑکی نے کہا… ''ہمیں کسی نہ کسی کے ہاتھ فروخت ہی ہونا ہے''۔
الفارس بیدرین بحری لڑائی کا ماہر اور غیرمعمولی طور پر دلیر کمانڈر تھا۔ ان خوبیوں کے علاوہ اسے اس لیے بھی پسند کیا جاتا ہے کہ وہ شگفتہ طبیعت کا زندہ مزاج آدمی تھا۔ اس دور میں اس کی حیثیت کے آدمی بیک وقت دو دو تین تین بیویاں رکھتے تھے لیکن اس نے شادی ہی نہیں کی تھی۔ وہ جنگ وجدل کا زمانہ تھا۔ بحریہ کو کئی کئی مہینے سمندر میں رہنا پڑتا اور خشکی دیکھنی نصیب نہیں ہوتی تھی۔ ہر بحری جہاز کا کپتان اپنی بیوی یا بیویوں کو ساتھ رکھتا تھا۔
الفارس کو ان لڑکیوں کے حسن نے ایسا متاثر کیا کہ اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوگیا کہ وہ تین مہینوں سے زیادہ عرصے سے سمندر میں گھوم پھر رہا ہے، اس نے لڑکیوں سے پوچھا کہ وہ اس کے ساتھ رہنا پسند کریں تو انہیں اپنے جہاز میں رکھے گا۔
''ہم بے بس اور کمزور لڑکیاں ہیں، ہمارے ساتھ دھوکہ نہیں ہونا چاہیے''۔
''میں تمہیں فروخت نہیں کروں گا''۔ الفارس نے کہا۔ ''مصر لے جائوں گا اور دونوں کے ساتھ شادی کرلوں گا''۔
لڑکیوں نے ایک دوسری کی طرف دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ طے کیا اور الفارس کے ساتھ چلنے کی رضا مندی ظاہر کردی۔ الفارس نے اپنی کشتی کے ملاحوں سے کہا… ''انہیں میرے جہاز میں لے جائو۔ انہیں میرے کمرے میں کھانا دو اور انہیں وہیں چھوڑ کر واپس یہیں آجائو اور میرا انتظار کرو''۔
لڑکیوں کو کشتی میں بٹھا کر الفارس رومانی گیت گنگناتا عکرہ کو چل دیا۔
''الفارس!'' سلطان ایوبی نے اسے کہا… ''میں تمہارے نام سے واقف ہوں۔ تمہارے دو تین بحری کارنامے بھی سنے ہیں لیکن اب صورتحال کچھ اور ہے۔ پہلے تم اکا دکا معرکہ لڑتے رہے ہو۔ اب بڑے پیمانے کی بڑی جنگ کا امکان ہے۔ میں بیت المقدس فتح کرنے آیا ہوں لیکن اس سے پہلے میں تمام بڑی بڑی بندرگاہوں پر قبضہ کرنا اور شمال سے جنوب تک کے ساحلی علاقوں کو اپنی تحویل میں لینا ضروری سمجھتا ہوں۔ ان ساحلی شہروں میں بیروت، ٹائر اور عسقلان بہت اہم ہیں۔ تمہارے ساتھ میرا رابطہ قاصدوں سے ہوگا۔ تمہاری دو تین کشتیاں ساحل کے ساتھ موجود رہنی چاہئیں۔میں خشکی پر جدھر جائوں گا تمہیں اطلاع دیتا رہوں گا۔ تمہارے جہاز سمندر میں گشت کرتے رہیں گے… تمہاری جہازوں میں اسلحہ اور رسد کی کمی تو نہیں؟''
''ہم ہر لحاظ سے تیار ہوکر آئے ہیں''۔ الفارس بیدرین نے جواب دیا۔
: ''بڑے پیمانے کی جنگ کا بھی امکان ہے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''صلیبیوں نے حطین میں جو شکست کھائی ہے اور جس برے طریقے سے یہ بھاگے ہیں، یہ دنیائے صلیب کے لیے معمولی سا واقعہ نہیں۔ ان کے چار حکمران میری قید میں ہیں، ایک کو میں نے قتل کردیا ہے۔ ریمانڈ مر گیا ہے۔ ان کا بڑا ہی قابل اور دلیر بادشاہ بالڈون بھی مرگیا ہے۔ اس کے فرنگی بہت بڑی طاقت ہیں، مجھے قاہرہ سے علی بن سفیان نے اطلاع دی ہے کہ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ اور جرمنی کا بادشاہ فریڈرک ارض فلسطین پر صلیب کی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے اپنی فوجوں اور بحری بیڑے کے ساتھ آنے کی تیاری کررہے ہیں۔ وہ آئے تو میں فیصلہ کرسکوں گا کہ انہیں خشکی پر آنے دوں یا سمندر میں ہی روکنے کی کوشش کروں۔ انگلستان کے بحری بیڑے کے متعلق سنا ہے کہ زیادہ طاقت ور ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے بارود تیار کیا ہے اور ایسی نلکیوں میں بھرا ہے جنہیں آگ لگائو تو نلکیاں اڑتی ہوئی آتی اور جہازوں کو آگ لگا دیتی ہیں۔ میں ایسی نلکیاں حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔ ہم خود بنا لیں گے… بہرحال تم ساحل کے ساتھ اپنے جہازوں کو رکھنا۔ رئیس البحرین المحسن کھلے سمندر میں رہے گا''۔
الفارس نے مزید احکامات لیے اور چلا گیا۔ کشتی اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ اپنے بحری جہاز میں جاکر اس نے د وسرے جہازوں کے کپتانوں کو بلایا، انہیں ہدایات اور احکامات دے کر رخصت کردیا اور اپنے کیبن میں چلا گیا جہاں دو لڑکیاں اس کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔ وہ بھولی بھالی بنی رہیں اور اس سے پوچھتی رہیں کہ وہ سمندر میں کیا کرتا ہے۔ الفارس لمبے عرصے سے سمندر میں تھا۔ اس پر ہنسنے کھیلنے کی کیفیت طاری ہوگی۔ ان لڑکیوں کو مردوں کی اس کیفیت میں لانے اور انہیں اپنے رنگ میں استعمال کرنے کی مہارت حاصل تھی۔
٢٠ جولائی ١١٨٧ء کے روز سلطان صلاح الدین ایوبی عکرہ سے نکلا۔ اس کے چھاپہ مار دستوں نے اس کے لیے راستہ صاف کررکھا تھا۔ ساحل کے ساتھ ساتھ اس نے کئی ایک قلعے اور قصبے فتح کرلیے۔ ٣٠جولائی ١١٨٧ء کے روز اس نے بیروت کا محاصرہ کیا۔ صلیبیوں نے اس اہم شہر کو بچانے کی بہت کوشش کی لیکن سلطان ایوبی نے بے دریغ قربانی دے کر بیروت لے لیا۔ وہاں بھی مسلمانوں کی وہی حالت تھی جو عکرہ میں تھی۔
٢٩جولائی تک بیروت کو اپنی عمل داری میں لے کر سلطان ایوبی نے ایک اور مشہور ساحلی شہر ٹائر کا رخ کیا۔ وہ جاسوسوں اور دیکھ بھال کے جیشوں سے رپورٹیں لیے بغیر پیش قدمی نہیں کیا کرتا تھا۔ اسے بتایا گیا کہ اپنی فوج بہت زیادہ علاقے میں پھیل گئی ہے اور ادھر ادھر سے بھاگے ہوئے صلیبی ٹائر میں جمع ہوکر منظم ہورہے ہیں۔ تمام فرنگی بھی ساحلی علاقے سے پسپا ہوکر ٹائر چلے گئے تھے۔ سلطان ایوبی نے ٹائر پر حملے کا ارادہ ترک کردیا۔ وہ بیت المقدس کے لیے فوج بچا کر رکھنا چاہتا تھا۔
اس دوران الفارس بیدرین کے بحری جہاز ساحل سے دور گشت اور دیکھ بھال کرتے رہے۔ دونوں لڑکیاں اس کے جہاز میں رہیں۔ وہ اس کے دل پر غالب آگئی تھیں لیکن اس نے اپنے فرائض میں کوتاہی نہ کی۔ جب کوئی بحری جہاز ساحل کے قریب لنگر انداز ہوتا تھا، چھوٹی کشتیاں اس کے اردگرد گھومنے لگتی تھیں۔ یہ غریب دیہاتیوں کی کشتیاں تھیں جو پھل، انڈے اور مکھن وغیرہ ملاحوں اور فوجی دستوں کے پاس بیچتے تھے۔ جہازوں کے کپتان ان میں سے کسی کو رسہ پھینک کر جہاز میں اٹھا لیتے اور اس سے خشکی کی دنیا کی خبریں سنتے تھے۔
ایک روز الفارس کا جہاز ساحل پر چلا گیا۔ اسے وہاں سے بری فوج کے کسی کمان دار سے کچھ پوچھنا تھا۔ دونوں لڑکیاں جہاز کے عرشے پر جنگلے کا سہارا لیے کھڑی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی تین چار کشتیاں آگئیں۔ ان میں پھل وغیرہ تھا۔ ان کے ملاح جہاز والوں کی منتیں کرنے لگے کہ وہ ان سے کچھ لے لیں۔ ایک کشتی میں ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا، جس کے جسم پر تہمند کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ بہت غریب معلوم ہوتا تھا۔ اس نے دونوں لڑکیوں کو جہاز میں کھڑے دیکھا تو کشتی قریب لے گیا۔
''کچھ لے لو شہزادی!'' اس نے کہا… ''بہت غریب آدمی ہوں''۔
لڑکیوں نے اسے نظر بھر کر دیکھا تو اس نے بائیں آنکھ سے خفیف سا اشارہ کردیا۔ دونوں نے حیران سا ہوکے ایک دوسری کی طرف دیکھا۔ اس آدمی نے ادھر ادھر دیکھ کر سینے پر انگلی اوپر نیچے اور پھر دائیں بائیں چلا کر صلیب کا نشان بنایا۔ ایک لڑکی نے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی پر دوسرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی رکھ کر کراس بنایا۔ آدمی مسکرایا۔ ایک لڑکی نے جہاز کے ملاح سے کہا کہ اس آدمی کو اوپر لائو۔
: ملاحوں کو معلوم تھا کہ یہ لڑکیاں ان کے جہاز کے کپتان کی ہیں جو تمام جہازوں کا کمانڈر ہے۔ انہوں نے فوراً رسوں کی سیڑھی پھینکی۔ وہ آدمی ٹوکری میں مختلف چیزیں رکھ کر اوپر لے آیا اور ٹوکری لڑکیوں کے آگے رکھ دی۔ لڑکیاں چیزیں دیکھنے لگیں۔ کسی اور کو ان کے قریب آنے کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی۔
''تم یہاں کیسے پہنچ گئی ہو؟'' کشتی کے ملاح نے پوچھا۔
''اتفاق کی بات ہے''۔ ایک لڑکی نے جواب دیا… ''ہرمن پکڑا گیا ہے''… اس نے اس آدمی کو سارا واقعہ سنا دیا اور الفارس کے متعلق بتایا کہ وہ انہیں خانہ بدوش سمجھ کر اپنے ساتھ لے آیا ہے۔
''کچھ سوچا ہے کیا کروگی؟'' ملاح نے پوچھا۔ ''جائو گی کہاں؟''
''ابھی تو صرف جان بچانے کا بندوبست کیا ہے''۔ لڑکی نے جواب دیا… ''کمانڈر الفارس کی رگوں پر ہم نے قبضہ کرلیا ہے۔ کہیں موقعہ ملا تو بھاگنے کی کوشش کریں گی۔ اگر تم رہنمائی کرو تو یہیں رہ کر کچھ اور کریں گی''۔
یہ غریب سا ماہی گیر ملاح صلیبیوں کا جاسوس تھا اور وہ ان لڑکیوں کو اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ بھی اسے جانتی تھیں۔ اس نے کہا… ''ساحل پر اتر کر بھاگنے کی کوشش نہ کرنا۔ بہت بری موت مروگی۔ بیروت تک مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا ہے۔ ہماری صلیبی فوج ہر جگہ سے پسپا ہورہی ہے۔ اب ٹائر ایک جگہ رہ گئی ہے جہاں تمہیں پناہ مل سکتی ہے۔ ابھی اسی جہاز میں رہو۔ میں تمہیں ملتا رہوں گا۔ ہمارے لیے حالات بہت ہی خطرناک ہوگئے ہیں۔ ہر طرف مسلمان سپاہی دندناتے پھر رہے ہیں''۔
''تم یہاں کیا کررہے ہو؟''
''صلیب پر ہاتھ رکھ کر جو حلف اٹھایا تھا، وہ پورا کرنے کی کوشش کررہا ہوں''۔ اس نے جواب دیا… ''ان چھ جہازوں کی نقل وحرکت دیکھ رہا ہوں۔ انہیں تباہ کرانے کا انتظام کروںگا''۔
''اپنے جہاز کہاں ہیں؟''
''ٹائر کے قریب''۔ اس نے بتایا… ''یہ جہاز ادھر گئے تو اپنے جہازوں کو پہلے سے اطلاع کردوں گا۔ اب اتفاق سے تم کمانڈر کے جہاز میں آگئی ہو۔ تم میری مدد کرسکو گی اور میں تمہیں اس جہاز سے نکال کر ٹائر پہنچا سکوں گا۔ مجھے اب جانا چاہیے۔ اشارے مقرر کرلو۔ میں ان جہازوں کے ساتھ سائے کی طرح لگا ہوا ہوں۔ یہ جہاز کہیں بھی ساحل کے قریب لنگر ڈالے گا، وہاں اسی بھیس میں موجود ہوں گا''۔
انہوں نے اشارے مقرر کرلیے۔ لڑکیوں نے اس کی ٹوکری میں سے کچھ چیزیں اٹھالیں۔ اسے پیسے دئیے اور وہ رسوں کی سیڑھی سے اپنی کشتی میں اتر گیا۔
٭ ٭ ٭
٢ستمبر١١٨٧ء کے روز سلطان ایوبی نے ایک اور مشہور ساحلی شہر عسقلان کا محاصرہ کرلیا۔ یہاں بھی وزنی پتھر پھینکنے والی منجنیقیں اور پہیوں پر چلنے والی مچانیں استعمال کی گئیں۔ سرنگیں کھودنے والے جیش رات کو دیوار توڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ قریب ہی ایک بلندی تھی۔ وہاں سے منجنیقوں سے شہر کے اندر پتھر اور آتشیں گولے پھینکے گئے۔ دوسرے دن محصورین نے گھبرا کر شہر کے دروازے کھول دئیے اور ہتھیار ڈال دئیے۔
اس شہر پر فرینکس نے ١٩ ستمبر ١١٥٣ء میں قبضہ کیا تھا۔ پورے چونتیس برس بعد یہ شہر آزاد کرایا گیا۔
عسقلان سے بیت المقدس چالیس میل مشرق کی سمت واقع ہے۔ سلطان ایوبی کے تیز رفتار دستوں کے لیے یہ دو دن کا سفر تھا۔ اس کے بعض دستے اور چھاپہ مار جیش پہلے ہی بیت المقدس کے قریب پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے صلیبیوں کی بیرونی چوکیاں تباہ کردی تھیں۔ بچے کھچے صلیبی بیت المقدس پہنچ رہے تھے۔سلطان ایوبی نے اپنے بکھرے ہوئے دستوں کو عسقلان میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا اور بیت المقدس پر حملے کی تیاری کرنے لگا۔
سلطان ایوبی کی فتوحات اور طوفانی پیش قدمی کی خبریں دمشق، بغداد، حلب، موصل اور ادھر قاہرہ تک پہنچ چکی تھیں۔آخری خبر یہ پہنچی کہ سلطان عسقلان میں ہے اور بیت المقدس پر حملہ کرنے والا ہے۔ قاضی بہائوالدین شداد جو اس حملے میں سلطان ایوبی کے ساتھ تھا، اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے کہ سلطان ایوبی کی فوج مسلسل فتوحات کی بدولت تھکن کے احساس سے بیگانہ تھی۔ وہ جوں جوں ان مقبوضہ علاقوں میں مسلمانوں کی حالت دیکھتی گئی، قہر بنتی گئی جو بیت المقدس پر ٹوٹنے کو بے تاب تھا۔ یہ تو سلطان کی جنگی قوت تھی۔ قاضی شداد لکھتا ہے کہ عسقلان میں سلطان ایوبی کے پاس روحانی قوت بھی پہنچنے لگی۔ یہ دمشق، بعداد اور دیگر بڑے شہروں کے علماء درویش اور صوفی منش لوگ تھے۔ وہ سلطان ایوبی کے ساتھ بیت المقدس میں داخل ہونے آئے تھے۔ انہوں نے آکر سلطان ایوبی کو دعائیں دیں اور اس کی فوج کو بیت المقدس کی اہمیت اور تقدس بتایا اور سپاہیوں کو آگ بگولا کردیا۔ سلطان ایوبی علماء اور درویشوں کا بہت احترام کیا کرتا تھا۔ انہیں اپنے ساتھ دیکھ کر اس کی تھکن ختم ہوگئی اور اس نے جوش وجذبات سے کہا… ''اب دنیا کی کوئی طاقت مجھے شکست نہیں دے سکتی''۔
عسقلان سے کوچ سے دو چار روز پہلے سلطان ایوبی کے پاس حلب سے ایک مہمان آیا جسے دیکھ کر سلطان حیران رہ گیا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا… یہ نورالدین زنگی مرحوم کی
: بیوہ رضیع خاتون تھی جس نے عزالدین کے ساتھ شادی کرلی تھی۔ وہ گھوڑے پر سوار تھی۔ کود کر گھوڑے سے اتری اور دوڑ کر سلطان ایوبی کو گلے لگا لیا۔ دونوں کے جذبات ابھر آئے ارو ان پر رقت طاری ہوگئی۔
ذرا دیر بعد اونٹوں کی ایک لمبی قطار آرکی۔ ان پر کم وبیش دو سو لڑکیاں سوار تھیں۔
''یہ کیا؟'' سلطان ایوبی نے رضیع خاتون سے پوچھا۔
''زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیے تربیت یافتہ لڑکیاں''۔ رضیع خاتون نے جواب دیا۔ ''میں نے انہیں لڑائی کی تربیت بھی دے رکھی ہے۔ تیر اندازی کی بھی انہیں خاصی مشق ہے… مجھے معلوم ہے کہ تم عورت کو میدان جنگ میں نہیں دیکھنا چاہتے لیکن میرے اور ان کے جذبے کو کچلنے کی کوشش نہ کرنا۔ تم نہیں جانتے کہ شام میں جو ان لڑکیوں پر قابو پانا محال ہورہا ہے، جسے دیکھو وہ محاذ پر پہنچنے کے لیے بے تاب ہے۔ اگر تم اجازت دو تو میں ایک ہزار لڑکیاں محاذ پر بھیج دوں۔ سپاہیوں کی طرح لڑیں گی، جن مائوں کے بیٹے یہاں لڑ رہے ہیں، وہ مائیں ان کی خیریت کی نہیں، فتح کی خبر سننا چاہتی ہیں۔ آبادیوںمیں ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے… ''محاذ کی کیا خبر ہے؟''… کہو صلاح الدین! کتنی لڑکیاں بھیجوں؟''
''میں انہیں اپنے ساتھ رکھ لوں گا''… سلطان ایوبی نے کہا… ''اور کسی کو نہ بھیجنا''۔
''اس اونٹ پر ایک منبر لدا ہوا ہے''… رضیع خاتون نے کہا۔ یہ کہتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ذرا خاموش رہنے کے بعد کہنے لگی… ''تمہیں شاید یاد نہیں، میرے مرحوم شوہر (نورالدین زنگی) نے یہ منبر اس عہد کے ساتھ بنواکر پاس رکھ لیا تھا کہ بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کرائے گا تو یہ منبر مسجد اقصیٰ میں رکھے گا۔ بہت خوبصورت منبر ہے۔ یہ دمشق میں رکھا تھا، اٹھا لائی ہوں۔ اللہ تمہیں فتح دے صلاح الدین اور میں دیکھوں کہ تم نے یہ منبر مسجد اقصیٰ میں رکھ کر میرے مرحوم شوہر کا عہد پورا کردیا ہے''۔
سلطان ایوبی پر رقت طاری ہوگئی۔ اس کے منہ سے سسکی سی نکلی… ''اللہ یہ عہد مجھ سے پورا کرائے''۔
ایک جواں سال لڑکی ان کے قریب آکھڑی ہوئی اور سلطان ایوبی کو مسکرا کر سلام کیا۔ رضیع خاتون نے کہا… ''پہچانا نہیں صلاح الدین؟ یہ میری بیٹی شمس النساء ہے''… سلطان ایوبی نے لپک کر اسے گلے لگا لیا اور پھر وہ اپنے آنسو نہ روک سکا۔ اس نے اس لڑکی کو اس وقت دیکھا تھا جب یہ بہت چھوٹی تھی۔
''یہ تمہارے ساتھ محاذ پر رہے گی''۔ رضیع خاتون نے کہا… ''لڑکیاں اس کی کمان میں رہیں گی۔ مجھے واپس جانا ہے''۔
٭ ٭ ٭
وہ علماء اور درویش وغیرہ جو سلطان ایوبی کے پاس آگئے تھے، ورد، وظیفے اور دعائوں میں مصروف رہتے یا سپاہیوں میں گھومت پھرتے اور انہیں روحانی حوصلہ دیتے رہتے۔ وہ عسقلان سے باہر وہاں تک بھی گئے جہاں دستے اور جیش موجود تھے۔ ان کے وعظ اور خطبوں کے الفاظ کچھ اس قسم کے تھے… ''نوے سال سے کفار تمہارے قبلۂ اول پر قابض ہیں۔ قرآن کے احکام پڑھو تو قبلۂ اول کو کفار کے ناپاک قبضے سے چھڑانے تک کسی مسلمانوں کو نیند نہیں آنی چاہیے تھی۔ وہ مسجد اقصیٰ جہاں سے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے بلاوے پر معراج پر تشریف لے گئے تھے، کفار کی عباد گاہ بنی ہوئی ہے۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مقدس ہم پر لعنت بھیج رہی ہے۔ ہم پر نیند، کھانا، پینا اور ہم پر اپنی بیویاں حرام ہونی چاہئیں تھیں مگر نوے سال سے ہم گہری نیند سورہے ہیں اور عیش وعشرت میں مگن ہیں''…
''اللہ کے سپاہیو! ہمارے حکمرانوں نے صلیبیوں اور یہودیوں کے خوبصورت جال میں پھنس کر ان کے خلاف خانہ جنگی کی، جنہوں نے قبلۂ اول کو آزاد کرانے کا عہد کیا تھا۔ بیت المقدس وہ پاک جگہ ہے جہاں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدم ا ئے اور ان کی جبین مبارک نے یہاں سجدے کیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ہمارے جانے کتنے انبیاء نے یہاں ورد فرمایا مگر نوے سال سے یہاں مسلمانوں پر جو قہر ٹوٹ رہا ہے، وہ تم شہر میں جاکر دیکھو گے۔ مسجد اقصیٰ پر صلیب کھڑی ہے۔ مسجدیں اصطبل بنی ہوئی ہیں۔ مسلمانوں کا قتل عام اس طرح ہوا ہے کہ گلیوں میں خون ندی کی طرح چلتا رہا۔ مسلمان قیدوبند کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہماری بیٹیاںکفار کی لونڈیاں بنا دی گئی ہیں''…
: ''اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس پر مرمٹنے والو! اللہ نے یہ سعادت تمہیں عطا کی ہے کہ بیت المقدس کو آزاد کرائو، پاک کرو اور اگر تم ناکام رہو تو وہاں سے تمہاری لاشیں اٹھائی جائیں… اور تم سن کر حیران ہوگے کہ جس بیت المقدس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی نوع انسان کو محبت کا سبق دیا تھا، وہاں صلیب کے پجاریوں نے یہاں تک درندگی کی ہے کہ جب انہیں کسی محاذ پر فتح ہوتی تو وہ بیت المقدس میں جشن مناتے جس میں ہماری بیٹیوں کو برہنہ کرکے نچاتے اور چند ایک تندرست وتوانا مسلمانوں کو ذبح کرکے ان کا گوشت پکا کر کھاتے… اب تمہیں ایک ایک معصوم کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لینا ہے۔ دمشق سے سلطان نورالدین زنگی مرحوم کی بیوہ وہ منبر لائی ہے جو مرحوم نے مسجد اقصیٰ میں رکھنے کے لیے بنوایا تھا۔ یہ خاتون دو سو لڑکیوں کے ساتھ بہت دور کا سفر کرکے آئی ہے۔ یہ عہد تمہیں پورا کرنا ہے''۔
اس دوران سلطان ایوبی اپنے دستوں کو یکجا کرکے ان کی تقسیم کرتا رہا اور جاسوسوں کی رپورٹوں کے مطابق بیت المقدس کے محاصرے کا پلان بناتا رہا۔

اس کے ساتھ ہی قارئین قصہ * فصل صلیبی جس نے کاٹی تھی * ختم ہوا جاتا ہوا اورجاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں