داستان ایمان فروشوں کی قسط 140 - اردو ناول

Breaking

ہفتہ, جنوری 22, 2022

داستان ایمان فروشوں کی قسط 140


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر140 فصل صلیبی جس نے کاٹی تھی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حطین میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے جو فتح حاصل کی تھی، وہ معمولی نوعیت کی نہیں تھی۔ سات صلیبی حکمران متحد ہوکر سلطان ایوبی کی جنگی قوت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے اور اس کے بعد مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ پر قبضہ کرنے آئے تھے لیکن وہ اپنی جنگی قوت کا یہ حشر کرا بیٹھے جیسے صحرا کا ٹیلہ آندھی سے ریت کے ذروں کی صورت میں صحرا میں بکھر جاتا ہے۔
چار مشہور اور طاقت ور حکمران جنگی قیدی بنے جن میں یروشلم (بیت المقدس) کا حکمران گائی آف لوزینان قابل ذکر ہے۔ صلیبی فوج کا مورال ٹوٹ گیا اور سلطان ایوبی کی فوج کا مورال بلند ہوگیا۔
جنگ ختم ہوچکی تھی، چھاپہ ماروں کی جنگ جاری تھی۔ وہ بھاگنے والے صلیبی سپاہیوں کو پکڑ رہے تھے۔ صلیبیوں کے حوصلے اس حد تک پست ہوچکے تھے کہ قاضی بہائوالدین شداد کے الفاظ میں ''ایک شخص نے جس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ سچ بولتا ہے، مجھے بتایا کہ اس نے اپنی فوج کے سپاہی کو د یکھا جو تیس صلیبی سپاہیوں کو خیمے کی ایک ہی رسی سے باندھے ہوئے لارہا تھا''۔ ایسے مناظر تو کئی ایک دیکھنے میں آئے کہ ایک ایک مسلمان سپاہی کئی کئی صلیبی سپاہیوں کو نہتہ کرکے ہانک کر لا رہا ہے۔ بعض یورپی مؤرخوں نے صلیبیوں کی اس شکست کے اسی قسم کے کئی واقعات لکھے ہیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی جنگی اہلیت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
بحیرۂ روم کے ساحل پر اسرائیل کے شمال میں عکرہ ایک مشہور شہر تھا جسے بعض نے علّہ بھی لکھا ہے۔
اس شہر کی شہرت کی وجہ یہ ہے کہ وہاں صلیب اعظم کا محافظ پادری رہتا تھا۔ پچھلی قسط میں سنایا جاچکا ہے کہ وہ صلیب عکرہ کے بڑے گرجے میں رکھی تھی جس کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی پر مصلوب کیا گیا تھا۔ اسے صلیب الصلبوت کہتے تھے۔ سلطان ایوبی کے خلاف لڑنے والے بلکہ دنیائے عرب پر قبضہ کرنے کے لیے لڑنے والے عیسائی اسی صلیب پر حلف اٹھاتے تھے۔ اسی لیے انہیں صلیبی کہا گیا تھا۔ حلف اٹھانے والے ہر صلیبی کے گلے میں لکڑی کی چھوٹی سی صلیب تعویذ کی طرح ڈال دی جاتی تھی۔ لہٰذا جتنے صلیبی فوجی جنگ میں گرتے تھے، اتنی ہی صلیبیں گرتی تھیں۔ علامہ اقبال نے اس کو فصلِ صلیبی کہا ہے۔
حطین اور اس کے گردونواح کے میل ہا میل علاقے میں اور اس سے بھی دور دور جہاں جہاں جنگ لڑی گئی تھی، صلیبیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ مرنے والے تڑپ تڑپ کر مرے تھے۔ معمولی طور پر زخمی ہونے والے بھی مر گئے تھے جس کی وجہ زخم نہیں پیاس تھی۔ آہن پوش نائٹوں کے لیے زرہ بکتر تنور بن گئی اور ان کی موت کا باعث بنی تھی۔ زخمیوں کو پانی پلانے والا کوئی نہ تھا، نہ کوئی ان کی مرہم پٹی کرنے والا تھا۔ ان میں مسلمان زخمی اور شہید بھی تھے۔ انہیں رات مشعلوں کی روشنی میں اٹھا لیا گیا تھا۔
آج کے دور کا ایک مؤرخ انتونی ویسٹ اس دور کے مؤرخوں کے حوالے سے لکھتا ہے کہ حطین کے میدان جنگ میں لاشوں کی تعداد تیس ہزار سے اوپر تھی۔ لاشیں اٹھانے کا کوئی انتظام نہ کیا گیا۔ ان کے جو ساتھی زندہ رہے، وہ جنگی قیدی ہوگئے یا تتر بتر ہوکر بھاگ گئے تھے۔ انتونی ویسٹ نے لکھا ہے کہ ان لاشوں کو مردار خور پرندوں اور درندوں نے کھایا۔ مردار خور اتنے نہیں تھے جتنی لاشیں تھیں۔ بہت سی لاشیں چند دنوں میں ہڈیوں کے سالم ڈھانچوں میں بدل گئیں۔ بلندی سے دیکھنے والے کو حد نگاہ تک زمین ہڈیوں کی وجہ سے سفید نظر آتی تھی۔ ان ہڈیوں میں ہزاروں چھوٹی چھوٹی صلیبیں بکھری ہوئی تھیں جیسے پکے ہوئی فصل سے پھل گر کر خشک ہوگیا ہو۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہ فصل کاٹ ڈالی تھی۔ اسے اس علاقے کو لاشوں سے صاف کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اسے وہاں رکنا نہیں تھا۔ اس کی منزل بیت المقدس تھی لیکن وہ باتیں عکرہ کی کررہا تھا۔ عکرہ کے متعلق ہم بتا چکے ہیں کہ صلیب الصلبوت کی بدولت اسے وہی مقام حاصل ہوگیا تھا جو ہمارے لیے مکہ معظمہ کا ہے۔ تمام صلیبی حکمران عکرہ جاکر صلیب کے محافظ اعظم سے دعا لیتے اور صلیب اعظم کو چوم کر میدان جنگ میں جاتے تھے لیکن اب یہ صلیب سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے کے باہر پڑی تھی۔ اس کا محافظ اعظم پادری مارا جاچکا تھا۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ صلیبی دل چھوڑ بیٹھے تھے۔
٭ ٭ ٭
: ''ہمیں اب سیدھا عکرہ پر یلغار کرنی ہے''… سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں اور نائب سالاروں سے کہا… ''اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے پورا محفوظہ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑی''… اس نے سب پر نگاہیں دوڑائیں اور مسکرا کر کہا… ''یہ نہ سمجھو کہ مجھے آپ کی اور آپ کے دستوں کی تھکن کا احساس نہیں۔ اس کا اجر تمہیں اللہ دے گا۔ تمہارا حج مسجد اقصیٰ میں ہوگا۔ اگر ہم یہاں آرام کرنے بیٹھ گئے تو صلیبی کہیں جمع ہوکر تازہ دم ہوجائیں گے۔ میں انہیں زخم چاٹنے کی بھی مہلت نہیں دینا چاہتا''۔
سالار قدرے حیران ہوئے۔ انہیں توقع تھی کہ سلطان بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کا حکم دے گا مگر اس نے عکرہ پر حملے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس کے پیچھے صلیب الصلبوت رکھی تھی۔ اس نے صلیب کو دیکھا اور کچھ دیر دیکھتا رہا۔ حاضرین پر خاموشی طاری رہی۔ اس نے اچانک تیزی سے سالاروں کی طرف گھوم کر کہا… ''میرے رفیقو! یہ د و عقیدوں کی جنگ ہے۔ یہ حق اور باطل کا تصادم ہے، اس صلیب پر جما ہوا خون دیکھو۔ یہ خون حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نہیں، یہ خون اس پادری کا نہیں جسے عیسائی دنیا اس صلیب کا محافظ مانتی تھی اور یہ خون ان راہبوں کا بھی نہیں جنہوں نے یہ اتنی بڑی صلیب میدان جنگ میں اٹھا رکھی تھی۔ وہ سب اللہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں لیکن یہ خون ان میں سے کسی کا بھی نہیں۔ یہ باطل کا خون ہے، یہ بے بنیاد عقیدے کا اور یہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظریئے کا خون ہے''۔
سلطان ایوبی کی آواز میں جذبات کا جوش پیدا ہوگیا۔ اس نے کہا… ''میں ہر جنگی مہم جمعہ کے روز شروع کرتا ہوں۔ پیش قدمی جمعہ کے روز کرتا ہوں، جمعہ مبارک دن ہے۔ میں ہر مہم کی ابتداء جمعہ کے خطبے کے وقت کیا کرتا ہوں کیونکہ یہ وقت قبولیت ایزدی کا ہوتا ہے اور جب تم دشمن سے لڑ رہے ہوتے ہو، تم پر تیروں کا مینہ برس رہا ہوتا ہے، دشمن کی منجنیقیں تم پر آگ اور پتھر برسا رہی ہوتی ہیں، اس وقت قوم کے ہر فرد بشر کے ہاتھ اللہ کے حضور تمہاری سلامتی اور فتح کے لیے اٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ تم نے دیکھا نہیں کہ میں نے کوچ جمعہ کے روز کیا تھا اور اس جنگ کی ابتدا بھی جمعہ کے روز کی تھی؟ اور تم فاتح ہو۔ تمہیں اللہ کی خوشنودی حاصل ہے۔ یہ ہمارے عظیم عقیدے اور نظریئے کی فتح ہے۔ یہ چاند ستارے اور چوبی صلیب کا معرکہ تھا جو چاند ستارے نے جیت لیا… میں تم سے یہ باتیں کیوں کہہ رہا ہوں؟ اس لیے کہ تم میں سے کسی کے دل میں اپنے عقیدے کے متعلق کچھ شک ہو تو وہ رفع ہوجائے اور تم اللہ کی رسی کو اور زیادہ مضبوطی سے پکڑ لو''…
''تم شاید حیران ہورہے ہو کہ میں نے عکرہ پر حملے کا فیصلہ کیوں کیا ہے۔ جذباتی لحاظ سے اس کی وجہ یہ ہے کہ صلیبیوں نے ایک بار مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کی طرف پیش قدمی کی تھی۔ شہزادہ ارناط (کائونٹ ریجنالڈ) مکہ معظمہ سے صرف دو کوس دور رہ گیا تھا۔ میں نے ارناط سے مکہ معظمہ کو بری نظر سے دیکھنے کا انتقام لے لیا۔ اب مجھے صلیبیوں کے حکمرانوں اور نائٹوں سے انتقام لینا ہے۔ عکرہ ان کا مکہ ہے۔ میں اسے تہہ تیغ کروں گا۔ مسجد اقصیٰ کی جو بے حرمتی ہورہی ہے ، میں اس کا انتقام لوں گا… اور جنگی لحاظ سے بیت المقدس سے پہلے عکرہ پر قبضہ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس سے صلیبیوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے''۔
سلطان ایوبی نے بہت بڑا نقشہ جو اس نے اپنے ہاتھ سے بنا رکھا تھا، کھول کر سب کے آگے پھیلایا اور حطین پر انگلی رکھ کر کہا… ''تم اس وقت یہاں ہو''… وہ اپنی انگلی اس طرح عکرہ تک تیزی سے لے گیا جیسے اس نے کچھ کاٹنے کے لیے خنجر کی نوک چلائی ہو۔ کہنے لگا… ''میں صلیبیوں کے حکمرانوں کو دو حصوں میں کاٹ کر ان حصوں کے درمیان آجائوں گا ۔ عکرہ پر قبضہ کرکے میں ٹائِر، بیروت، حیفہ، عسقلان اور چھوٹے بڑے تمام ساحلی شہروں اور قصبوں کو تباہ و بربادکروں گا۔ کسی بھی صلیبی کو خواہ وہ فوجی ہے یا غیرفوجی ان علاقوں میں نہیں رہنے دوں گا۔ ساحلی علاقوں پر قبضہ اس لیے بھی ضرورت ہے کہ یورپ کی کچھ اور بادشاہیاں اپنے صلیبی بھائیوں کی مدد کے لیے اپنی فوجیں، مال ودولت اور جنگی سامان بھیجیں گی۔ ساحل تمہارا ہوگا تو دشمن کا کوئی بحری جہاز ساحل کے قریب نہیں آسکے گا۔ یہاں سے ہم بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کریں گے۔ ہمیں جنگ جاری رکھنی ہے''۔
اگر آپ فلسطین (موجودہ اسرائیل) اور لبنان کا نقشہ دیکھیں تو آپ کو جھیل گیلیلی کے کنارے پر حطین اور اس کے بالمقابل سمندر کے کنارے عکرہ نظر آئیں گے۔ جنوب میں یروشلم (بیت المقدس) ہے۔ حطین سے عکرہ پچیس میل اور حطین سے بیت المقدس ستر میل ہے۔ آج کے لبنان اور فلسطین پر صلیبی قابض تھے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے پلان بنایا تھا کہ حطین سے عکرہ تک اس طرح پیش قدمی کرے گا کہ راستے میں آنے والے علاقوں پر قبضہ کرتا جائے گا اور وہاں کے صرف مسلمان باشندوں کو وہاں رہنے دے گا اور صلیبیوں کو وہاں
: اور صلیبیوں کو وہاں سے نکال دے گا۔ جنگی علوم کے ماہرین نے اسے نہایت عمدہ پلان کہا ہے۔ سلطان ایوبی نے یہ پلان صلیبیوں کی جنگی قوت کو دو حصوں میں کاٹنے کے لیے ہی بنایا تھا۔ اس کی فوج صلیبیوں کے مقابلے میں صلیبیوں کے اتنے زیادہ جانی نقصان کے باوجود کم تھی لیکن اس کی جنگی چالیں صلیبیوں سے برتر اور نقل وحرکت کی رفتار بہت تیز تھی۔
٭ ٭ ٭
''عکرہ کا دفاع بہت مضبوط ہے''… سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں سے کہا… ''ہمارے جاسوسوں نے بتایا ہے کہ وہاں جوان اور تندرست مسلمان باشندے قید میں پڑے ہیں۔ عورتیں اور بچے بھی قید میں ہیں، وہاں کے عیسائی شہری شہر کے دفاع میں جان کی بازی لگا کر لڑیں گے۔ چونکہ مسلمان قید میں ہیں، اس لیے وہ اندر سے ہماری کوئی مدد نہیں کرسکیں گے۔ میں لمبا محاصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ تمہاری یلغار طوفانی ہونی چاہیے۔ عکرہ تک ہماری پیش قدمی کی حفاظت چھاپہ مار کریں گے۔ پیش قدمی پھیل کر ہوگی۔ راستے میں کوئی بستی آباد نہ رہے مگر سپاہی مال غنیمت کے لیے رکیں نہیں۔ اس کام کے لیے الگ جیش مقرر کردئیے گئے ہیں''۔
عکرہ میں مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ کوئی بوڑھا یا ا پاہج مسلمان آزاد ہوگا۔ باقی سب دہشت زدگی کی زندگی گزار رہے تھے۔ بہائوالدین شداد نے ان مسلمانوں کی تعداد جو قید میں تھے، چار ہزار سے زائد لکھی ہے۔ شداد کے علاوہ اس دور کے دو وقائع نگاروں نے پانچ اور چھ ہزار کے درمیان لکھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ عکرہ مسلمانوں کے لیے قید خانہ تھا۔ کسی مسلمان کی بہو بیٹی کی عزت محفوظ نہیں تھی۔ صلیبیوں کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان چلتی پھرتی لاشیں بن کے رہ جائیں اور ان کے بچوں میں مذہب اور قومیت کا احساس ہی پیدا نہ ہو، وہاں کی مسجدیں ویران ہوگئی تھیں۔
٤جولائی ١١٨٧ء کے بعد وہاں کے مسلمانوں پر صلیبیوں نے ظلم وتشدد کا اضافہ کردیا۔ گھروں میں جو مسلمان تھے، انہیں بھی ہانک کر کھلے قید خانے میں لے گئے۔ یہ ایک طرح کا بیگار کیمپ تھا۔ وہاں مسلمانوں سے مویشیوں کی طرح کام لیا جاتا تھا۔ ٥جولائی ١١٨٧ء کے بعد انہیں کام کے لیے باہر نہ نکالا گیا اور ان پر پہرہ اور سخت کردیا گیا۔ اس سے ان بدنصیبوں نے اندازہ لگا لیا کہ صلیبیوں کو کہیں شکست ہوئی ہے یا اسلامی فوج نے شہر کا محاصرہ کرلیا ہے۔ عورتیں خدا کے حضور گڑگڑانے لگیں۔ سجدوں پہ سجدے کرنے لگیں۔ قید خانے میں سسکیاں سنائی دینے لگیں، مائوں نے ننھے ننھے بچوں کے ہاتھ پکڑ کر دعا کے لیے اٹھائے اور کہا… ''بیٹا! کہو اللہ اسلام کو فتح دے، کہو میرے اللہ باہر کے مسلمانوں کو ہمت دے کہ ہمیں ظالموں کی بستی سے نکال لے جائیں''۔
(اسلام اور انسان تاریخ اسلام اور انسانیت پر مبنی فیسبک پیج سے آپ پڑھ رہیں ، صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ، داستان ایمان فروشوں کی)
سینکڑوں بچے اور سینکڑوں عورتیں اللہ کے حضور دست بدعا تھیں۔ بچے اپنی مائوں کو سسکتا دیکھ کر رونے لگے تھے۔ انہیں آہ وبکا سنائی دی اور اس کے ساتھ کوڑوں کے زناٹے بھی سنائی دینے لگے۔ سب سہم گئے، انہوں نے دیکھا کہ بہت سے قیدی لائے جارہے تھے۔ یہ شہر کے وہ باشندے تھے جو گھروں میں تھے۔ ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی ساتھ لے آئے تھے، ان پر کوڑے برسائے جارہے تھے۔
٧/٦جولائی کی درمیانی رات آدھی گزر گئی تھی جب شہر میں بڑبونگ بپا ہوگئی اور آگ کے شعلے کہیں کہیں سے بلند ہونے لگے۔ تیر اس کھلے قید خانوں میں بھی گرنے لگے۔ ان قیدیوں کے اردگرد خشک زردار جھاڑیوں کی گھنی باڑ بچھی ہوئی تھی اور رسوں کے جال بھی تنے ہوئے تھے۔ رات کو قید خانے کے اردگرد جگہ جگہ مشعلیں جلا کر رکھ دی گئیں تاکہ قیدیوں پر نظر رکھی جاسکے۔ کسی قیدی نے باہر سے آیا ہوا ایک تیر اٹھا کر مشعل کی روشنی میں دیکھا تو اس نے چلا کر کہا… ''میں اس تیر کو پہچانتا ہوں، یہ اسلامی فوج کا تیر ہے''۔
 رسوں کے جال میں سے ایک تیر سنسناتا آیا جو اس قیدی کے سینے میں اتر گیا۔ یہ کسی صلیبی سنتری نے اس مسلمان کو خاموش کرنے کے لیے چلایا تھا۔ شہر جاگ اٹھا۔ شہر اور قلعے کی دیواروں پر بھاگ دوڑ اور شور میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور کمانوں سے تیر نکلنے کی آوازیں بڑھتی جارہی تھی۔ باہر ''اللہ اکبر'' کے نعرے گرجنے لگے تھے، دھمک دھمک کی آوازیں بھی سنائی دینے لگی تھیں۔ یہ بڑے بڑے پتھر تھے جو سلطان ایوبی کی فوج کی منجنیقیں دیوار کے کسی ایک مقام پر پھینک رہی تھیں۔
یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا محاصرہ تھا جو محاصرہ کم اور یلغار زیادہ تھی۔ شہر میں آگ پھینکنے والی منجنیقوں کے علاوہ دروازوں اور دیوار پر وزنی پتھر پھینکنے والی بڑی منجنیقیں بھی استعمال کی جارہی تھیں۔ بلند مچانیں ساتھ لائی گئی تھیں، ہر ایک مچان میں دس اور بیس تک سپاہی کھڑے ہوسکتے تھے۔ ان کے نیچے پہئے تھے، انہیں گھوڑے یا اونٹ کھینچتے تھے۔ یہ متحرک مچانیں دیوار تک لے جائی جاتی تھیں مگر صلیبی شہر کے دفاع میں بے جگری سے لڑ رہے تھے۔ شہر ی بھی اپنی فوج کے دوش بدوش لڑ رہے تھے۔ وہ سلطان ایوبی کی متحرک مچانوں پر تیروں کی بوچھاڑیں مار کر مسلمان سپاہیوں کو ختم کردیتے تھے۔ بعض مچانیں جو دیوار کے قریب چلی گئی تھیں، ان پر صلیبیوں نے جلتی ہوئی مشعلیں پھینکیں اور آتش گیر سیال کی ہانڈیاں پھینک کر انہیں جلا ڈالا۔
اندر قیدی کیمپ میں اب یہ کیفیت تھی کہ ہزار ہا قیدی ایک ہی آواز میں لا الہ الا اللہ کا ورد کررہے تھے۔ عورتوں نے جھولیاں پھیلا رکھی تھیں اور بہتے آنسوئوں سے مردوں کے ساتھ آواز ملا کر کلمہ شریف کا ورد کررہی تھیں۔ پھر کسی نے بلند آواز سے کہا… ''نصر من اللہ وفتح وقریب''… فوراً ہی تمام مردوں، عورتوں اور بچوں کی آوازیں ایک آواز بن گئی جو جنگ کے شوروغل سے زیادہ بلند تھیں اور سارے شہر میں سنائی دے رہی تھی۔
دو تین سنتری اندر آگئے، وہ قیدیوں کو خاموش کرانے کی کوشش کرنے لگے، تین چار جوشیلے جوان اٹھے اور سنتریوں پر ٹوٹ پڑے۔ پھاٹک کھلا تھا، باقی قیدی باہر کو دوڑے مگر تیروں کی بوچھاڑ نے آگے والوں کو گرا دیا، پھر گھوڑے سرپٹ دوڑتے آئے۔ سواروں کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں، قیدی اندر کو بھاگے اور جو پیچھے رہ گئے تھے، وہ سواروں کی برچھیوں سے شہید ہوگئے۔ فرار کامیاب نہ ہوسکا۔ عورتیں اور بچے اللہ کے حضور سجدے کرنے لگے اور پھر سب ایک ہی آواز میں کلام پاک کا ورد کرنے لگے۔
رات بھر سلطان ایوبی کے جانباز جیش دیوار تک پہنچنے اور شگاف ڈالنے یا سرنگ کھودنے کے لیے آگے بڑھتے رہے اور اوپر سے صلیبی ان پر تیر، پتھر اور آگے پھینکتے رہے۔ سلطان ایوبی بے دریغ قربانی دے رہا تھا۔ شہر کی دیوار کے ایک مقام پر بڑی منجنیقوں سے وزنی پتھر مارے جارہے تھے۔ صبح طلوع ہوئی تو دیوار پر ہر طرف عکرہ کے شہری اور فوجی مکھیوں کی طرح نظر آرہے تھے۔ وہ تیر برسا رہے تھے، یہ بھی نظر آیا کہ دیوار ایک جگہ سے پھٹ رہی تھی۔ سلطان ایوبی گھوڑے پر سوار ذرا پیچھے کھڑا دیکھ رہا تھا۔ اس نے حکم دیا کہ جہاں سے دیوار پھٹ رہی ہے، اس کے اوپر اور دائیں بائیں سے دشمن پر تیروں کا مینہ برسا دو۔ اس نے دوسری طرف سے بھی تیر انداز بلا کر اسی مقام پر مرکوز کردئیے۔ اس نے سرنگیں کھودنے والے جیش سے کہا کہ دوڑ کر دیوار تک پہنچیں۔
جانبازوں کا جیش پہنچ گیا۔ دیوار کے اوپر اتنے زیاد اور اتنے تیز تیر برسائے جارہے تھے کہ اوپر والوں کے لیے سر اٹھانا محال ہوگیا۔ جانبازوں نے دیوار میں اتنا شگاف ڈال لیا جس میں سے دو آدمی بیک وقت گزر سکتے تھے۔ سپاہیوں میں اس قدر جوش وخروش تھا کہ وہ حکم کے بغیر شگاف کی طرف اٹھ دوڑے اور ایک دوسرے کے پیچھے اندر چلے گئے۔ صلیبیوں نے دیوار کے اوپر سے نیچے آتے اتنا وقت لگا دیا کہ بہت سے مسلمان سپاہی اندر چلے گئے۔ صلیبیوں نے بے جگری سے مقابلہ کیا مگر ان مسلمان عورتوں اور معصوم بچوں کی دعائیں جو اندر قید میں پڑے کفار کا ظلم وستم سہہ رہے تھے، عرش تک پہنچ چکی تھیں۔ سلطان ایوبی کی دراصل قوت تو یہ تھی۔
٭ ٭ ٭
 شہر کے اندر بھگدڑ بپا ہوگئی۔ وہاں یہ خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی کہ صلیب الصلبوت مسلمانوں کے قبضے میں چلی گئی ہے اور اس کا محافظ اعظم مارا گیا ہے۔ حطین کی جنگ سے بھاگے ہوئے صلیبی سپاہی بھی اس شہر میں آئے تھے۔ کچھ زخمی بھی پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے اپنی شکست اور پسپائی کو برحق ثابت کرنے کے لیے بڑی دہشت ناک افواہیں پھیلائی تھیں۔ ان کے اثرات اس وقت سامنے آئے جب سلطان ایوبی کے جانبازوں نے دیوار توڑ ڈالی اور رکے ہوئے سیلاب کی طرح اندر جانے لگے۔ صلیبیوں نے مقابلہ کیا لیکن شہریوںمیں بھگدڑ بپا ہوگئی۔ وہ شہر سے بھاگنے کے لیے دروازوں پر ٹوٹ پڑے اور سپاہیوں کے روکنے کے باوجود تین دروازے کھول دئیے۔
شہریوں کا ہجوم دروازوں میں پھنس گیا۔ مسلمان سواروں نے اپنے کمان داروں کے حکم سے گھوڑوں کو ایڑی لگا دی۔ گھوڑے شہریوں کو کچلتے ہوئے اندر چلے گئے، پھر مجاہدین کے سیلاب کو کوئی نہ روک سکا۔ تمام دروازے کھل گئے اور صلیبی ہتھیار ڈالنے لگے۔ سورج غروب ہونے سے پہلے عکرہ کا حکمران سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے کھڑا تھا۔ سلطان ایوبی نے صلیبی فوج کے جرنیلوں اور دیگر کمانڈروں کو الگ کردیا اور اس جگہ چلا گیا جہاں مسلمانوں کے پورے پورے کنبے قید میں پڑے تھے۔ ان کے سنتری بھاگ گئے تھے اور قیدی پھاٹک اور رسوں کا جال توڑنے کی کوشش کررہے تھے۔
سلطان ایوبی ان سے دور ہی رک گیا۔ یہ تو انسانی لاشیں تھیں، اس نے عورتوں اور بچوں کو دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
''جائو، رسے کاٹ دو۔ انہیں آزاد کردو''… سلطان ایوبی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا… ''اور انہیں یہ نہ بتانا کہ میں شہر میں موجود ہوں، میں ان کا سامنا نہیں کرسکتا''۔
سلطان ایوبی کے حکم پر چند ایک سوار سرپٹ گھوڑے دوڑا کر پہنچے۔ انہوں نے لکڑی کا پھاٹک توڑ دیا۔ کئی جگہوں سے رسوں کا جال کاٹ کر جھاڑیاں ہٹا دیں۔ قیدیوں کا ہجوم بھگدڑ کے انداز سے نکل رہا تھا۔ سواروں نے ان پر قابو پانے کے لیے چلا چلا کر کہا… ''آرام سے نکلو، اب تمہیں پکڑنے کوئی نہیں آئے گا۔ وہ دیکھو، قلعے پر تمہارا جھنڈا لہرا رہا ہے''۔
''انہوں نے ہمارے گناہوں کی سزا بھگتی ہے''… سلطان ایوبی نے اپنے پاس کھڑے ایک سالار سے کہا… ''یہ غداروں کے گناہ تھے جن کی سزا ان معصوموں کو ملی۔ اپنے دین کے دشمنوں کو دوست سمجھنے والوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ قوم کا کیا حشر ہوگا۔ اگر میرا راستہ تخت وتاج کے شیدائی اور غدار نہ روک لیتے تو ہمارے ان ہزاروں بچوں اور بیٹیوں کی یہ حالت نہ ہوتی… حضرت عیسیٰ علیہ ا لسلام نے محبت اور امن کا سبق دیا تھا لیکن صلیب کے پجاریوں میں مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت بھری ہوئی ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کے فرمان کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ دنیا میں صرف دو مذہب باقی رہیں گے۔ اسلام اور عیسائیت۔ اگر ہم نے دل سے دنیا کی جھوٹی لذتوں کو نہ نکالا تو عیسائیت ہماری اس کمزوری سے اسلام کا خاتمہ کردے گی''۔
سلطان ایوبی اس جگہ گیا جہاں صلیبی جرنیل اور دیگر کمانڈر الگ کھڑے تھے۔ اس نے کہا… ''ان سب کو ساحل پر لے جائو اور سب کو قتل کرکے سمندر میں پھینک دو۔ دوسرے جنگی قیدیوں میں سے چھانٹی کرلو، جنہیں زندہ رکھنا چاہتے ہو، انہیں دمشق بھیج دو اور باقی سب کو ختم کردو۔ کسی نہتے شہری پر ہاتھ نہ اٹھانا۔ ان میں سے جو شہر سے جانا چاہتے ہیں انہیں مت روکو، جو یہاں رہنا چاہتے ہیں، انہیں عزت سے رہنے دو''۔
٨جولائی ١١٨٧ء عکرہ پر قبضہ مکمل ہوچکا تھا۔
رات جب سلطان ایوبی کھانے سے فارغ ہوا تو اسے اطلاع دی گئی کہ ایک نہایت اہم قیدی اس کے سامنے لایا جارہا ہے۔
''کون ہے وہ؟''
''ہرمن''۔ سلطان کو بتایا گیا۔ ''صلیبیوں کا علی بن سفیان''۔
قارئین نے اس سلسلے کی پچھلی کہانیوں میں ہرمن کا نام کئی بار پڑھا ہوگا۔ یہ علی بن سفیان کی طرح صلیبیوں کی انٹیلی جنس کا سربراہ تھا اور کردار کشی کا ماہر، جو صلیبی اور یہودی لڑکیاں مسلمان علاقوں میں جاسوسی اور کردار کشی کے لیے بھیجی جاتی تھیں، انہیں ٹریننگ دینے والا ہرمن تھا۔ وہ اپنی بہت سی لڑکیوں کے ساتھ عکرہ میں تھا اور پکڑا گیا۔ وہ شہر سے نکل رہا تھا لیکن ایوبی کا ایک جاسوس اس کے تعاقب میں تھا۔ اس نے ہرمن کو اس کے بہروپ میں بھی پہچان لیا۔ وہ لڑکیوں کو کسان عورتوں جیسا لباس پہنا کر ساتھ لے جارہا تھا۔ جاسوس نے ایک کمان دار کو بتایا۔
 کمان دار نے دو تین سپاہیوں کے ساتھ ہرمن اور اس کے زنانہ قافلے کو گھیر لیا۔ ہرمن لڑکیوں کے علاوہ اپنے ساتھ سونا بھی لے جارہا تھا۔ اس نے لڑکیاں کمان دار اور اس کے سپاہیوں کے سامنے کھڑی کردیں اور سونا ان کے آگے رکھ دیا۔ بولا… ''جسے جو لڑکی پسند ہے لے لے اور یہ سونا بھی آپس میں بانٹ لو''۔
''مجھے تمام لڑکیاں پسند ہیں''۔ کمان دار نے کہا… ''اور میں سارا سونا لے لوں گا۔ تم بھی میرے ساتھ چلو''۔
وہ ان سب کو ساتھ لے آیا اور ان سب کو سونے سمیت سلطان ایوبی کے ذاتی عملے کے حوالے کردیا۔ ہرمن سلطان ایوبی کے لیے اہم اور قیمتی قیدی تھا۔ اسے سلطان ایوبی کے کمرے میں داخل کردیا گیا۔
''تم میری زبان جانتے ہو ہرمن!''… سلطان ایوبی نے کہا… ''اس لیے میری زبان میں بات کرو۔ میں تمہارے فن اور تمہاری دانشمندی کا اعتراف کرتا ہوں۔ تمہاری قدر جتنی میں کرسکتا ہوں، اتنی تمہارے حکمران نہیں کرسکے۔ میں تمہارے ساتھ کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں''۔
''اگر آپ مجھ سے باتیں کیے بغیر میرے قتل کا حکم دے دیں تو زیادہ اچھا ہوگا''۔ ہرمن نے کہا… ''اگر مجھے عکرہ کی فوج کے جرنیلوں اور کمانڈروں کی طرح قتل ہونا اور میری لاشوں کو مچھلیوں کی خوراک بننا ہے تو باتیں کرنے سے کیا حاصل؟''۔
''تم قتل نہیں ہوگے ہرمن!''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں جسے قتل کرایا کرتا ہوں، اس کی صرف صورت دیکھا کرتا ہوں، اس سے کبھی بات نہیں کرتا''۔
سلطان نے دربان کو بلایا اور اسے کہا کہ ہرمن کو شربت پیش کرے۔ ہرمن کے چہرے پررونق آگئی۔ وہ عرب کے اس رواج سے واقف تھا کہ عربی میزبان دشمن کو پانی یا شربت پیش کرے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے دل سے دشمنی نکال دی ہے اور اس نے جاں بخشی کردی ہے۔ دربان نے شربت پیش کیا جو ہرمن نے پی لیا۔
''آپ مجھ سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کون کون سے علاقے میں ہماری کتنی کتنی فوج ہے''… ہرمن نے کہا… ''اور آپ یہ جاننا چاہیں گے کہ ان کی لڑنے کی اہلیت کیسی ہے''۔
''نہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''یہ تم مجھ سے پوچھو کہ تمہارے کس علاقے میں کتنی فوج ہے۔ میرے جاسوس تمہارے سینے کے اندر بیٹھے رہے ہیں… اور اب مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ کہاں کتنی فوج ہے۔ حطین میں تمہاری فوج تھوڑی نہیں تھی۔ تھوڑی فوج میری تھی۔ اب اور تھوڑی رہ گئی ہے۔ ارض مقدس سے اب مجھے کوئی فوج نہیں نکال سکتی۔ تم یہ خبر سنو گے کہ صلاح الدین ایوبی مرگیا ہے، پسپا نہیں ہوا''۔
''اگر آپ کے تمام کمان دار اس کمان دار کے کردار کے ہیں جو مجھے پکڑ لایا ہے تو میں آپ کو یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ کو بڑی سے بڑی فوج بھی یہاں سے نہیں نکال سکتی''۔ ہرمن نے کہا… ''میں نے اسے جو لڑکیاں پیش کی تھیں، انہوں نے آپ کے پتھروں جیسے سالاروں اور قلعہ داروں کو موم کیا اور صلیب کے سانچے میں ڈھالا ہے اور سونا ایسی چیز ہے جس کی چمک آنکھوں کو نہیں، عقل کو اندھا کردیتی ہے۔ میں سونے کو شیطان کی پیداوار کہا کرتا ہوں۔ آپ کے کمان دار نے سونے کی طرف دیکھا تک نہیں، میری نظر انسانی فطرت کی کمزوریوں پر رہتی ہے۔ لذت اور ذہنی عیاشی ایمان کو کھا جاتی ہے۔ میں نے آپ کے خلاف یہی ہتھیار استعمال کیا ہے۔ جب یہ کمزوریاں کسی جرنیل میں پیدا ہوجاتی ہیں یا پیدا کردی جاتی ہیں تو شکست اس کے ماتھے پر لکھ دی جاتی ہے۔ میں نے آپ کے ہاں جتنے غدار پیدا کیے ہیں، ان میں پہلے یہی کمزوریاں پیدا کی تھیں۔ حکومت کرنے کا نشہ انسانوں کو لے ڈوبتا ہے''۔
''میری فوج کے کردار کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟'' سلطان ایوبی نے پوچھا۔
 ''اگر آپ کی فوج کا کردار ویسا ہی ہوتا، جیسا میں بنانے کی کوشش کررہا تھا تو آج آپ کی فوج یہاں نہ ہوتی''… ہرمن نے کہا… ''اگر آپ بدکردار حکمرانوں، امیروں، وزیروں اور سالاروں کو ختم نہ کرچکے ہوتے تو وہ آپ کو کبھی کے ہماری قید میں ڈال چکے ہوتے۔ میں آپ کی تعریف کروں گا کہ آپ نے دل میں حکومت کی خواہش نہیں رکھی''۔
''ہرمن!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''میں نے تمہاری جان بخشی کی ہے، تمہیں اپنا دوست کہا ہے، مجھے یہ بتائو کہ میں اپنی فوج کے کردار کو کس طرح مضبوط اور بلند رکھ سکتا ہوں اور میرے مرنے کے بعد یہ کردار کس طرح مضبوط رہ سکتا ہے''۔
''محترم سلطان!'' ہرمن نے کہا… ''میں آپ کو جاسوسی اور سراغ رسانی کا استاد سمجھتا ہوں۔ آپ صحیح مقام پر ضرب لگاتے ہیں۔ آپ کا جاسوسی کا نظام نہایت کارگر ہے، علی بن سفیان، حسن بن عبداللہ اور بلبیس جیسے جاسوسی کے ماہرین کی موجودگی میں آپ ناکام نہیں ہوسکتے مگر میں آپ کو یہ بتا دو کہ یہ صرف آپ کی زندگی تک ہے۔ ہم نے آپ کے ہاں جو بیج بویا ہے، وہ ضائع نہیں ہوگا۔ آپ چونکہ ایمان والے ہیں، اس لیے آپ نے بے دین عناصر کو دبا لیا ہے۔ خانہ جنگی کس نے کرائی تھی؟… ہم نے۔ ہم نے آپ کے امراء کے دلوں میں حکومت، دولت، لذن اور عورت کا نشہ بھر دیا ہے۔ آپ کے جانشین اس نشے کو اتار نہیں سکیں گے۔ میرے جانشین اس نشے کو تیز کرتے رہیں گے''…
''محترم سلطان! یہ جنگ جو ہم لڑ رہے ہیں، یہ میری اور آپ کی یا ہمارے بادشاہوں کی اور آپ کی جنگ نہیں۔ یہ کلیسا اور کعبہ کی جنگ ہے جو ہمارے مرنے کے بعد بھی جاری رہے گی۔ ہم میدان جنگ میں نہیں لڑیں گے۔ ہم کوئی ملک فتح نہیں کریں گے، ہم مسلمانوں کے دل ودماغ کو فتح کریں گے۔ ہم مسلمانوں کے مذہبی عقائد کا محاصرہ کریں گے، ہماری یہ لڑکیاں، ہماری دولت اور ہماری تہذیب کی کشش، جسے آپ بے حیائی کہتے ہیں، اسلام کی دیواروں میں شگاف ڈالیں گی، پھر مسلمان اپنی تہذیب سے نفرت اور یورپ کے طور طریقوں سے محبت کریں گے۔ وہ وقت آپ نہیں دیکھیں گے، میں نہیں دیکھوں گا۔ ہماری روحیں دیکھیں گی''۔
سلطان ایوبی جرمن نژاد ہرمن کی باتیں بڑی غور سے سن رہا تھا۔ ہرمن کہہ رہا تھا… ''ہم نے فارس، افغانستان یا ہندوستان پر جا قبضہ کیوں نہیں جمایا؟ ہم نے عرب کو کیوں میدان جنگ بنایا ہے؟… صرف اس لیے کہ ساری دنیا کے مسلمان اسی خطے کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے ہیں اور یہاں مسلمانوں کا کعبہ ہے۔ ہم مسلمانوں کے اس مرکز کو ختم کررہے ہیں۔ آپ کا عقیدہ ہے کہ آپ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصیٰ سے آسمانوں پر گئے تھے، ہم نے اس کی منڈیر پر صلیب رکھ دی ہے اور وہاں کے مسلمانوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ ان کا یہ عقیدہ غلط ہے کہ ان کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی یہاں آئے اور یہاں سے معراج کو گئے تھے''۔
''ہرمن!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''میں تمہارے نظریئے اور عزائم کی تعریف کرتا ہوں، اپنے مذہب کے ساتھ ہر کسی کو اسی طرح وفادار ہونا چاہیے جیسے تم ہو۔ زندہ وہی قوم رہتی ہے جو اپنے مذہب اور اپنی معاشرتی اقدار کی پاسبانی کرے اور ان کے گرد ایسا حصار کھینچے کہ کوئی باطل نظریہ انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ میں جانتا ہوں کہ یہودی ہمارے ہاں نظریاتی تخریب کاری کررہے ہیں اور وہ تمہارا ساتھ دے رہے ہیں۔ میں بیت المقدس جارہا ہوں اور اسی غرض سے جارہا ہوں جس غرض سے تم یہاں آئے ہو۔ یہ ہمارے عقیدوں کا مرکز ہے۔ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہاں سے معراج کی سعادت بخشی تھی۔ میں اسے صلیب کے قبضے سے چھڑائوں گا''۔
''پھر کیا ہوگا؟'' ہرمن نے کہا… ''پھر آپ اس دنیا سے اٹھ جائیں گے۔ مسجد ا قصیٰ پھر ہماری عبادت گاہ بن جائے گی۔ میں جو پیشن گوئی کررہا ہوں، یہ اپنی اور آپ کی قوم کی فطرت کو بڑی غور سے د یکھ کر کررہا ہوں۔ ہم آپ کی قوم کو ریاستوں اور ملکوں میں تقسیم کر کے انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیں گے اور فلسطین کا نام ونشان نہیں رہے گا۔ یہودیوں نے آپ کی قوم کے لڑکوں اور لڑکیوں میں لذت پرستی کا بیج بونا شروع کردیا ہے۔ ان میں سے اب کوئی نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں ہوگا''۔
سلطان ایوبی کا ذہن فارغ نہیں تھا۔ اس نے ہرمن سے مسکرا کر ہاتھ ملایا اور کہا… ''تمہاری باتیں بہت قیمتی ہیں۔ میں تمہیں دمشق بھیج رہا ہوں، وہاں تمہیں معزز قیدیوں میں رکھا جائے گا''۔
: لبنان) کی موت کی مختلف وجوہات لکھی ہیں۔ قاضی بہائوالدین شداد نے پھیپھڑوں کی بیماری لکھی ہے لیکن زیادہ تر نے لکھا ہے کہ اسے حشیشین نے زہر دے دیا تھا۔ ریمانڈ دوغلے کردار کا اور سازشی ذہن کا صلیبی حکمران تھا۔ مسلمانوں میں خانہ جنگی کرانے میں اس کا بھی ہاتھ تھا۔ صلیبی حکمرانوں میں منافرت پھیلانے سے بھی باز نہیں آتا تھا۔ اس کا یارانہ حسن بن صباح کے فدائیوں کے ساتھ تھا۔ سلطان ایوبی پر اس نے ایک دو قاتلانہ حملہ کرائے تھے۔ اس نے ایک دو صلیبی حکمرانوں کو بھی فدائی حشیشین سے قتل کرانے کی کوشش کی تھی مگر نہ صرف ناکام رہا بلکہ جنہیں وہ قتل کرانا چاہتا تھا، انہیں اس کے منصوبے کا علم بھی ہوگیا تھا۔ اس دور کے کاتبوں اوروقائع نگاروں کی غیرمطبوعہ تحریروں میں ایسے اشارے ملتے ہیں کہ ریمانڈ اتحادیوں کے ساتھ صلیب الصلبوت پر حلف اٹھا کر حطین کے میدان میں گیا تھا لیکن بھاگ آیا۔ تریپولی پہنچا تو اگلے ہی روز اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا۔ زندگی کی آخری رات حشیشین کا سردار شیخ سنان اس کے پاس گیا تھا۔

جاری ھے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں