داستان ایمان فروشوں کی قسط 139 - اردو ناول

Breaking

ہفتہ, جنوری 22, 2022

داستان ایمان فروشوں کی قسط 139


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر139 ایوبی نے قسم کھائی تھی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بہائوالدین شداد لکھتا ہے کہ سلطان ایوبی کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے۔ سلطان نے ملازموں سے کہا کہ ان سب کو کھانے پر بٹھائو۔ جب سب کھانے والے خیمے میں جاکر کھانا کھا چکے تو سلطان نے پھر جیفرے اور ارناط کو اپنے خیمے میں بلایا۔ اس نے ارناط سے کہا کہ تم ہمیشہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرتے رہے ہو۔ تمہاری نجات اس میں ہے کہ اسلام قبول کرلو۔ ارناط نے انکار کردیا۔ سلطان ایوبی کو یہی توقع تھی۔ اس نے بڑی تیزی سے تلوار نکالی اور ایک ہی وار سے ارناط کا ایک بازو جسم سے الگ کردیا اور چلا کر کہا… ''مردود! تو نے میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی، اگر یہ گالیاں مجھے دیتا تو آج تو زندہ ہوتا''… مؤرخ لکھتے ہیں کہ سلطان ایوبی کے خیمے میں اس کے جو دو تین سالار تھے، انہوں نے تلواروں سے ارناط کو ختم کردیا۔ سلطان نے نفرت کے لہجے میں حکم دیا… ''اس ناپاک لاش کو باہر پھینک دو''۔
قاضی بہائوالدین شداد لکھتا ہے… ''سلطان ایوبی نے اس کی لاش خیمے سے باہر اور اس کی روح جہنم کے اندر پھینک دی''۔
بادشاہ جیفرے نے اپنے اتحادی کا یہ انجام دیکھا تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ وہ سمجھ گیا کہ اب اس کی باری ہے۔ سلطان ایوبی نے اسے دیکھا تو آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور تحمل سے کہا… ''بادشاہ بادشاہوں کو قتل نہیں کیا کرتے لیکن اس کے گناہ ایسے تھے کہ مجھے اسے اپنے ہاتھوں قتل کرنے کی قسم کھانی پڑی۔ آپ نہ ڈریں''۔
قیدی بادشاہوں کو قیدیوں کے خیموں میں بھیج دیا گیا اور سلطان ایوبی سجدے میں گر پڑا۔
کرک کے محل میں رات خاموش تھی، وہاں ارناط بھی نہیں تھا اور اس کے جرنیل اور درباری بھی نہیں تھے، وہاں اس کے حرم کی عورتیں تھیں، کلثوم تھی اور ان کے نوکر اور نوکرانیاں تھیں اور قلعے میں مختصر سی فوج تھی۔ وہاں ابھی ارناط کی موت کی اطلاع نہیں پہنچی تھی۔ رات کا پہلا پہر گزر چکا تھا، اس وقت تک کلثوم سو جاتی تھی۔
ایک عورت دبے پائوں کلثوم کی خواب گاہ میں داخل ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ وہ کلثوم کے پلنگ تک پہنچی۔ کمرے میں کوئی روشنی نہیں تھی۔ عورت نے خنجر والا ہاتھ بلند کیا اور پوری طاقت سے خنجر کا وار کیا لیکن اسے کوئی چیخ نہ سنائی دی۔ خنجر پلنگ میں اتر گیا تھا۔ اس نے بستر پر ہاتھ پھیرا، وہاں کلثوم نہیں تھی۔ عورت یہ سمجھ کر کہ کلثوم کہیں نکل گئی ہوگی، پلنگ کے ساتھ چھپ کر بیٹھ گئی۔
ذرا سی دیر بعد کمرے میں دبے پائوں کسی کی آہٹ سنائی دی جو پلنگ تک گئی۔ عورت نے اٹھ کر اس پر خنجر کا وار کیا۔ فوراً بعد اس کے اپنے پیٹ میں خنجر اتر گیا، پھر دونوں طرف سے خنجروں کے وار ہوئے، دونوں باہر کو دوڑیں اور باہر جا کر گر پڑیں۔ حرم کی دوسری عورتوں نے دیکھا کہ ان میں کلثوم نہیں تھی۔ یہ دونوں حرم کی عورتیں تھیں جو کلثوم کو قتل کرنے گئی تھیں۔ اسی روز دونوں نے اس کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا مگر یہ غلط فہمی رہی کہ قتل کرنے کون جائے گی۔ اندھیرے کمرے میں دونوں نے ایک دوسری کو کلثوم سمجھا۔
اس وقت کلثوم محل سے ہی نہیں، کرک سے ہی نکل گئی تھی۔ اسی روز بکر بن محمد کو اپنے جاسوس ساتھیوں کے ذریعے اطلاع ملی تھی کہ حطین میں صلیبیوں کو بہت بری شکست ہورہی ہے۔ کرک کے جاسوسوں نے ہی بکر کو مشورہ دیا تھا کہ وہ کلثوم کو لے کر نکل جائے۔ کلثوم کے لیے رات قلعے کا دروازہ کھلوانا مشکل نہیں تھا۔ سب جانتے تھے کہ یہ شہزادہ ارناط کی چہیتی ہے۔ بکر بن محمد سیبل کے روپ میں اس کے ساتھ اور اسے شاہی بگھی میں لے جارہا تھا۔ حرم کی کوئی عورت کلثوم کو جاتے نہیں دیکھ سکی تھی۔
شہر سے دور جاکر انہیں وہ دو گھوڑے مل گئے جو جاسوسوں کے انتظام کے تحت وہاں انتظار میں کھڑے تھے۔ بگھی وہیں چھوڑ دی گئی۔ کلثوم اور بکر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور غائب ہوگئے۔ دوسرے دن راستے میں انہیں اپنی فوج کے ایک قاصد نے بتایا کہ صلیبیوں کو شکست ہوچکی ہے، ارناط مارا جاچکا ہے اور سلطان ایوبی ابھی حطین میں ناصرہ کے علاقے میں ہے۔ کلثوم سلطان کے پاس جانا چاہتی تھی۔
وہ جھیل گیلیلی پہنچ گئے… اور جب کلثوم کو سلطان ایوبی کے سامنے لے جایا گیا تو وہ سلطان کے پائوںپر گر پڑی۔
''میری بیٹی!''… سلطان ایوبی نے اسے اٹھا کر شفقت سے گلے لگایا اور کہا… ''میری فتح میں تم جیسی نہ جانے کتنی بیٹیوں کا ہاتھ ہے''۔
''میں اس کی لاش دیکھنا چاہتی ہوں''… کلثوم نے کہا۔
''سب کی لاشیں دریا میں پھینک دی گئی ہیں''… سلطان ایوبی نے کہا… ''اسے میں نے اپنے ہاتھوں سزا دی ہے… تمہیں کل قاہرہ بھجوا دیا جائے گا۔ مجھے ابھی بہت دور جانا ہے، جہاں بھی رہو بیٹی! میرے لیے دعا کرتی رہنا کہ میں آگے ہی آگے دور ہی : دور جاتا رہوں اور جہاں شام کو سورج ڈوب جاتا ہے۔ وہاں تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام پہنچا دوں''۔
حطین کی فتح اس لیے بہت اہم تھی کہ اس سے سلطان ایوبی نے ارض فلسطین کا دروازہ توڑ لیا اور اس میں داخل ہوگیا تھا۔ اتنا وسیع علاقہ لے کر اس کے لیے بیت المقدس کی فتح آسان ہوگئی تھی۔ اس نے اس علاقے کو فوجی مستقر بنالیا اور بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کی تیاری اور اسلحہ اور رسد ذخیرہ کرنے لگا۔

جاری ہے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں