داستان ایمان فروشوں کی-138 - اردو ناول

Breaking

بدھ, جنوری 19, 2022

داستان ایمان فروشوں کی-138


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر138 ایوبی نے قسم کھائی تھی

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

منزل بیت المقدس تھی۔ یہ مہم آسان نہیں تھیں، صلیبیوں کی جنگ قوت زیادہ بھی تھی اور برتر بھی۔ صلیبیوں کو یہ فائدہ حاصل تھا کہ انہیں دفاع میں اپنی زمین پر لڑنا تھا، جہاں انہیں رسد کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا اور وہ اپنے مستقر کے قریب تھے۔ سلطان ایوبی اپنے مستقر سے دور جارہا تھا جہاں تک رسد کے راستے مخدوش تھے۔ جنگی فنون کے مطابق زیادہ دشواریاں حملہ آور کوہ پیش آتی ہیں اور حملہ آور کی نفری دشمن سے اگر سہ گنا نہیں تو د وگنی ضرور ہونی چاہیے مگر سلطان ایوبی کی نفری کم تھی۔ اسے یہی یقین تھا کہ یہ جنگ بہت طول پکڑے گی اور گھروں کو واپس آنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے اس نے یہ ضروری سمجھا کہ اپنے سالاروں کو بتا دے کہ وہ طارق بن زیاد کی اس کارروائی کو ذہن میں رکھیں جس میں اس نے بحیرۂ روم پار کرکے کشتیاں جلا ڈالی تھیں کہ واپسی کا خیال ہی ذہن سے نکل جائے۔

قاضی بہائوالدین شداد نے اپنی یادداشتوں بعنوان ''سلطان (صلاح الدین ایوبی) پر کیا افتا پڑی'' میں لکھا ہے… ''سلطان کا عقیدہ یہ تھا کہ خدا نے کفار کے خلاف لڑنے کا جو حکم دیا ہے، یہ اس کا فرض اولین ہے جسے دنیا کے ہر کام اور ہر فرض پر فوقیت حاصل ہے۔ کفار سے لڑنا اور اللہ کی حکمرانی قائم کرنا، اس کا ایسا فرض ہے جو خدا کے حکم سے اسے سونپا گیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ملکوں کو اللہ کی سلطنت میں شامل کرنا اور بنی نوع انسان کو اطاعت الٰہی کی طرف لانا… اس نے تمام فوجوں کو، جہاں جہاں وہ تھیں، ایشترا کے مقام پر جمع ہونے کا جو حکم بھیجا، اس میں اللہ کے حکم کے الفاظ بھی لکھے''۔

سلطان ایوبی کی نظریں مستقبل کی تاریکیوں میں جھانک رہی تھیں، اس نے حطین کے مقام کو میدان جنگ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ حطین فلسطین کا ایک گمنام سا گائوں تھا لیکن سلطان ایوبی نے اسے وہ عظمت بخشی کہ عیسائی دنیا کے جنگی مبصر آج بھی تجزیے کرتے نظرے آتے ہیں کہ صلیبی جنگوں کے اس ہیرو نے کس قسم کی چالوں اور سٹریٹجی سے اتنے طاقتور اور برتر اسلحہ والے دشمن کو ایسی شرمناک شکست دی تھی کہ صلیبیوں کے ایک کے سوا باقی تمام حکمران جنگی قیدی ہوگئے تھے۔

جنگی علوم کی باریکیاں سمجھنے والے مبصروں اور مؤرخوں نے سلطان ایوبی کی دیگر خوبیوں کے علاوہ اس کے انٹیلی جنس اور کائونٹر انٹیلی جنس اور کمانڈو آپریشن کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ ہے بھی حقیقت کہ بکر بن محمد جیسے جاسوس اپنی جانیں موت کے منہ میں رکھ کر اہم معلومات حاصل کررہے تھے اور سلطان ایوبی تک پہنچا رہے تھے۔ کلثوم جیسی مظلوم لڑکیاں شاہانہ زندگی اور عیش وعشرت کو ٹھکرا کر اپنے طور پر اسلامی فوج کی مدد کررہی تھیں۔ تاریخ ان گمنام غازیوں اور شہیدوں کے نام بتانے سے قاصر ہیں جنہوں نے پس پردہ اور زمین دوز جہاد کیا اور حطین کو تاریخ اسلام کی عظمت کا نشان بنا دیا۔

سلطان ایوبی ہمیشہ جمعہ کے مبارک دن لڑائی کے لیے کوچ کیا کرتا تھا کہ یہ قبولیت کا دن ہے۔ اس مبارک روز ہر مسلمان خدا کے حضور جھکا ہوا ہوتا ہے اور جب سپاہی اپنی قوم کو عبادت میں مصروف چھوڑ کر جہاد کے لیے نکلتا ہے تو ساری قوم کی دعائیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔ حطین کو کوچ کرنے کے لیے بھی اس نے جمعہ کا دن منتخب کیا۔ یہ ١٥مارچ ١١٨٧ء کا دن تھا۔ اس نے فوج کا صرف ایک حصہ ساتھ لیا اور کرک کے قریب جاکر خیمہ زن ہوا۔

صلیبی جاسوسوں نے فوراً اپنی اتحادی فوج کو خبر پہنچا دی کہ سلطان ایوبی کرک کے قریب خیمہ زن ہوگیا ہے۔ اس سے یہ مطلب لیا گیا کہ وہ کرک کا محاصرہ کرے گا لیکن اس کا مقصد یہ تھا کہ مصر اور شام کے قافلے حج کعبہ سے واپس آرہے تھے، ان پر کرک کے قریب ہی حملے ہوا کرتے تھے۔ والئی کرک شہزادہ ارناط اس معاملے میں بڑا ہی بدنیت تھا۔ سلطان ایوبی ان قافلوں کو خیریت سے وہاں سے گزارنے کے لیے اس علاقے میں چلا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ صلیبیوں کو دھوکہ دے اور وہ اپنا دفاع پھیلاد ینے پر مجبور ہوجائیں۔ اس نے اپنے سالاروں کو بتا دیا کہ قافلے گزار کر وہ کہاں جائے گا۔

٭ ٭ ٭

کرک کے محل میں تو جیسے زلزلہ آگیا تھا۔ شہزادہ ارناط کو نصف شب کے بعد جگا کر بتایا گیا کہ کوئی بہت بڑی فوج شہر سے کچھ دور خیمے گاڑ رہی ہے۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا۔ یہ سلطان ایوبی کے سوا کون ہوسکتا تھا۔ کلثوم اس کی خواب گاہ میں تھی۔ وہ ارناط کے ساتھ دوڑتی شہر کے بڑے دروازے کے اوپر والی دیوار پر گئی۔ وہاں سے سینکڑوں مشعلیں نظر آرہی تھیں۔ زیادہ تر مشعلیں متحرک تھیں۔ خیمے گاڑے جارہے تھے، رات کی خاموشی میں گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔

ارناط نے اپنی فوج کو محاصرے میں لڑنے کے لیے دیواروں پر مورچہ بند کردیا۔ دروازوں پر دفاعی انتظامات مضبوط کردیئے گئے۔

: دروازوں پر دفاعی انتظامات مضبوط کردیئے گئے۔ ارناط بھاگ دوڑ رہا تھا۔ اسے کلثوم کا کوئی خیال نہیں تھا۔ کلثوم واپس گئی تو ارناط کا محافظ دستہ بیدار ہوکر حکم کا منتظر کھڑا تھا اور ایک جگہ وہ شاہی بگھی کھڑی تھی جس پر کلثوم ناصرہ گئی اور سیر کے لیے بھی گئی تھی۔ اس کے پاس بکر بن محمد چاک وچوبند کھڑا تھا، وہاں ہر آدمی اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گیا تھا۔

کلثوم نے حکم کے لہجے میں بکر سے کہا… ''سیبل! بگھی ادھر لائو''۔

بکر بگھی لایا تو کلثوم اس میں بیٹھ گئی اور اسے کسی طرف لے گئی۔ ارناط کے حرم کی عورتیں بھی جاگ کر باہر آگئی تھیں، انہوں نے کلثوم کو جوان کے لیے پرنسس للی تھی، بگھی بان کو حکم دیتے اور بگھی میں بیٹھ کر جاتے دیکھا تو ان میں سے ایک نے دانت پیس کرکہا… ''یہ بدبخت کسی مسلمان کی اولاد اپنے آپ کو ملکہ سمجھنے لگی ہے۔ اسے ٹھکانے لگانا ہی پڑے گا''۔

''وقت آگیا ہے''۔ دوسری نے کہا… ''صلاح الدین ایوبی کا محاصرہ بہت خوفناک ہوتا ہے۔ وہ آگ پھینکے گا، منجنیقوں سے پتھر پھینکے گا۔ اندر بھگدڑ اور تباہی مچے گی اور یہ وقت ہوگا جب ہم اس منہ چڑھی ڈائن کو ٹھکانے لگا دیں گی''۔

''تمہارا چاہنے والا وہ جرنیل بھی تو کچھ نہیں کرسکا''۔ تیسری نے کہا۔

''اور بہت ہیں کچھ کرنے والے''۔ اس نے جواب دیا۔ ''کل شام تک شہر کی حالت دیکھنا، پھر شہزادہ ارناط کسی اور شہزادی للی کو تلاش کرے گا''۔

اس وقت کلثوم نے بگھی ایک اندھیری جگہ رکوا رکھی تھی۔ بکر بگھی کے ساتھ کھڑا تھا۔ کلثوم اس سے پوچھ رہی تھی… ''ہمارے آدمی اندر سے کوئی دروازہ کھولنے کا انتظام کرسکیں گے؟''۔

''کوشش کی جائے گی''۔ بکر نے کہا… ''اگر یہ فوج ہماری ہے تو میں حیران ہوں کہ ہمیں پہلے اطلاع کیوں نہیں دی گئی۔ سلطان ایوبی ایسی غلطی نہیں کیا کرتے، مجھے کچھ شک ہے۔ یہ صبح پتہ چلے گا کہ یہ کس کی فوج ہے''۔

''کیا ہم یہاں سے فرار ہوسکیں گے؟''۔ کلثوم نے پوچھا۔

''حالات پر منحصر ہے''۔

''میں اس افراتفری میں ارناط کو آسانی سے قتل کرسکتی ہوں''۔

''ایسی حرکت نہ کرنا''… بکر بن محمد نے کہا… ''فوج شہر میں داخل ہوگئی تو ہم نظر رکھیں گے کہ وہ فرار ہونے کی کوشش نہ کرے… کوئی نئی خبر؟''

''ارناط سلطان ایوبی کو دیکھ رہا تھا کہ کس طرف پیش قدمی کرتا ہے''۔ کلثوم نے کہا… ''اب حالات کچھ اور ہوگئے ۔ پہلے کہتا تھا کہ وہ اپنی فوج کے ساتھ جھیل گیلیلی کو جارہا ہے''۔

''زیادہ دیر نہ رکو''۔ بکر نے کہا… ''چلو واپس چلیں''۔

٭ ٭ ٭

صبح طلوع ہوئی تو کرک کی دیواروں پر دور مارکمانوں والے تیر انداز مستعد کھڑے تھے۔ پتھر اور آگ کی ہانڈیاں پھینکنے والی منجنیقیں نصب ہوچکی تھیں۔ فوج تیاری کی حالت میں کھڑی تھی اور شہزادہ ارناط دیوار پر کھڑا سلطان ایوبی کی فوج کو دیکھ رہا تھا۔ یہ یقین ہوگیا کہ یہ سلطان ایوبی کی فوج ہے۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سلطان خود بھی ساتھ ہے مگر اس فوج میں محاصرے والی کوئی حرکت اور سرگرمی نہیں تھی۔ خیمے لگے ہوئے تھے اور سپاہی روزمرہ معمول میں لگے ہوئے تھے۔

یہ دن گزر گیا، پھر پانچ چھ دن گزر گئے۔ ارناط پر انتظار اور اضطراب کی کیفیت طاری رہی۔ اسے جو نظر نہیں آرہا تھا، وہ یہ تھا کہ رات کو سلطان ا یوبی نے اپنے گھوڑ سوار چھاپہ مار اس راستے پر دور تک پھیلا دئیے تھے جن پر حجاج کے قافلوں کو گزرنا تھا۔ چند دنوں بعد پہلا قافلہ آتا نظر آیا۔ یہ مصر کا قافلہ تھا۔ گھوڑ سوار اس کے ساتھ ہوگئے۔ قافلہ سلطان ایوبی کی خیمہ گاہ کے قریب پہنچا تو سلطان دوڑ کر آگے بڑھا اور حجاج سے مصافحہ کیا۔ اس نے عقیدت اور احترام سے سب کے ہاتھ چومے اور اپنی خیمہ گاہ میں انہیں آرام اور کھانے کے لیے روکا اور اس کے چھاپہ مار دور تک حجاج کے ساتھ گئے۔ ایک ہی روز بعد شامی حجاج کا قافلہ بھی آگیا۔ اس کا بھی سلطان ایوبی نے استقبال کیا۔ کھانا کھلایا اور اپنے حفاظتی انتظامات میں اسے رخصت کیا۔

اتنے دن کرک کے اندر صلیبی فوج تیاری کی حالت میں رہی اور شہر پر خوف طاری رہا۔ سلطان ایوبی کے جاسوس اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ ایک صبح ارناط کو اطلاع ملی کہ سلطان ایوبی کی فوج جارہی ہے۔ا رناط اس کے سوا کچھ بھی نہ دیکھ سکا کہ حجاج کے دونوں قافلے سلطان ایوبی کی فوج کی حفاظت میں گزر گئے ہیں۔سلطان ایوبی کے صرف جاسوسوں کو معلوم تھا کہ اصل قصہ کیا تھا۔ اس نے کوچ سے پہلے انہیں اطلاع بھجوا دی تھی کہ فوج کہیں اور جارہی ہے اور وہ (جاسوس) ارناط کی نقل وحرکت کی اطلاعیں دیتے رہیں۔

: ٢٧مئی ١١٨٧ء (١٧ربیع الاول) کے روز سلطان ایشترا کے مقام پر جا خیمہ زن ہوا، وہاں مصر اور شام کی فوجیں اس سے جاملیں۔ اس کا سب سے بڑا بیٹا الملک الافضل جس کی عمر سولہ سال تھی، ایک مشہور سالار مظفرالدین کے ساتھ جاملا۔ اس طرح اس کی ساری فوج جمع ہوگئی۔ اس نے تمام سالاروں، نائب سالاروں کو آخری ہدایات کے لیے جمع کیا اور کہا… ''میرے رفیقو! اللہ تمہارا مدد گار ہو۔ دلوں سے اپنے عزیزوںا ور اپنے گھروں کا خیال نکال دو اور دلوں میں قبلۂ اول کو بسا لو اور دلوں میں خدائے ذوالجلال کا اسم مبارک نقش کرلو جس نے ہمیں یہ سعادت بخشی ہے کہ قبلۂ اول کو آزاد کرائیں اور اپنی بیٹیوں کی بے عزتی کاانتقام لیں جو کفار کے ہاتھوں بے آبرو ہوئیں''…

''اب ہم جو بات کریں گے، وہ حقیقت کی کریں گے۔ ہماری تعداد دشمن کے مقابلے میں کم ہے ا ور آپ کا مقابلہ سات صلیبی بادشاہوں کی متحدہ فوج کے ساتھ ہے جس میں دو ہزار دو سو سر سے پائوں تک زرہ بکتر میں ڈوبے ہوئے نائٹ ہیں۔ ان کی دوسری فوج نیم زرہ پوش ہے۔ اس فوج کو یہ سہولت حاصل ہے کہ اپنے مستقر کے قریب ہے اور یہ سارا علاقہ اس کا اپنا ہے جہاں اسے رسد کی کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ ہمیں دو جنگیں لڑنی ہیں، ایک براہ راست دشمن کے خلاف اور دوسری ان دشواریوں کے خلاف جو ہمیں درپیش ہیں۔ یہ دشواریاں دشمن کی طرف منتقل کرنی ہیں''۔

اس نے نقشہ پھیلا کر اپنی تلوار کی نوک سے سب کو بتایا کہ اس کا میدان جنگ کون سا ہوگا۔ جو سالار اس جگہ سے واقف تھے، انہوں نے چونک کر سلطان ایوبی کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں حیرت تھی۔ سلطان ایوبی ان کے استعجاب کو سمجھ گیا اور مسکرایا۔

''یہ حطین کے مضافات کا میدان ہے''۔ اس نے کہا… ''آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ زمین سوکھے ہوئے درخت کی کھال کی طرح خشک، اونچی نیچی اور موسم کی بے رحمی سے کٹی پھٹی ہے اور یہ زمین اتنی پیاسی ہے کہ انسانوں اور ہمارے گھوڑوں کا خون پی جائے گی۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ اس کے اردگرد اونچی نیچی ٹیکریاں ہیں۔ہاں، یہ سب بے آب وگیاہ اور پیاسی ہیں۔ یہ لوہے کی طرح تپ رہی ہیں۔ آپ کی آنکھوں میں جو سوال ہے، وہ میں سمجھتا ہوں، وہ کون سی فوج ہے جو اس جہنم نماا علاقے میں لڑے گی؟… وہ ہماری فوج ہوگی۔ آپ کے ہلکے پھلکے سواروں کے دستے (لائٹ کیولری) یہاں تتلیوں کی طرح اڑتے پھریں گے اور وہ لوہے کے لباس میں ملبوس نائٹوں اور نیم زرہ پوش صلیبی سواروں کو نچاتے پھریں گے۔ دشمن کے یہ سوار اور پیادے لوہے کی تپش سے بہت جلدی پیاس سے بے حال ہوجائیں گے اور لوہے کا وزن انہیں اتنی پھرتی سے حرکت نہیں کرنے دے گا، جس تیزی سے ہمارے سوار بھاگیں دوڑیں گے''…

''آپ جانتے ہیں کہ میں ہر کارروائی جمعہ کے مبارک روز کیا کرتا ہوں۔ میں اس وقت آگے بڑھوں گا، جب مسجدوں میں قوم خطبہ سن رہی ہوگی۔ یہ وقت قبولیت کا ہوتا ہے۔ میں نے ہر قصبے اور ہر گائوں میں اطلاع بھجوا دی تھی کہ جمعہ کے روز دعائوں میں اپنے ان مجاہدین کو شامل رکھا کریں جو جمعہ کی نماز سے محروم ہوکر میدان جنگ میں زخمی ہوکر گرتے ہیں۔ اٹھتے ہیں اور جمعہ نہ پڑھ سکنے کا خراج لہو کے نذرانوں سے ادا کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوگا جب سورج سر پر ہوگا اور زمین کولوہے کی پھٹی کی طرح گرم کردے گا''…

''اور یہ دیکھو، یہ گیلیلی کی جھیل ہے اور یہ دریا ہے''۔ اس نے تلوار کو چھڑی کی طرح نقشے پر مار مار کر بتایا… ''اور یہ واحد تالاب ہے جس میں پانی ہے۔ باقی تمام تالاب خشک ہوگئے ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جسے صلیب کے پجاری جون کہا کرتے ہیں۔ ہمیں پانی اور دشمن کے درمیان آنا ہے۔ میں الفاظ میں دشمن کو پانی سے محروم کرچکا ہوں، اس کو عملی طور پر پیاسا مارنا آپ کا کام ہے۔ دشمن حطین کے میدان میں لڑنے سے گریز کرے گا، میں اسے یہیں لڑائوں گا۔ فوج کو میں نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مظفرالدین اور میرا بیٹا الافضل ہم میں نہیں ہیں۔ وہ ایک حصے کو ساتھ لے کر دریائے اردن جھیل گیلیلی کے جنوب سے پار کرگئے ہیں۔ یہ دستے طبور (جبل طور) تک پہنچیں گے، شاید پہنچ چکے ہوں گے۔ یہ ایک دھوکہ ہے جو میں دشمن کو دے رہا ہوں''۔

اس نے فوج کے باقی تین حصوں کی تفصیلات اور ان کے مشن بتائے۔ ان تین میں سے ایک حصہ (مین باڈی) اپنی کمان میں رکھا۔ مؤرخین کے مطابق یہی حصہ ریزرو اور ٹاسک فورس کے طور پر استعمال کرنا تھا۔ یہ فیصلہ کن کارروائی کے لیے تھا۔ ان حصوں کو مختلف مقامات سے دریا پار کرایا گیا۔ صلیبی اپنے مخبروں اور دیکھ بھال کے دستوں کے ذریعے یہ نقل وحرکت دیکھ رہے تھے لیکن یہ نہ سمجھ سکے کہ سلطان ایوبی کا پلان کیا ہے۔ سلطان ایوبی نے جھیل گیلیلی کے مغربی کنارے پر طبریہ کے مقام پر ایک پہاڑی پر جا ڈیرے ڈالے۔

٭ ٭ ٭

: صلیبیوں کو ایک اور دھوکہ بھی ہوا۔ سلطان ایوبی اکثر چھاپہ مار قسم کی جنگ لڑا کرتا تھا، شب خون زیادہ مارتا تھا۔ کم سے کم نفری سے دشمن کی زیادہ تعداد پر ''ضرب لگائو اور بھاگو'' کے اصول پر حملے کرتا اور دشمن کو پھیلا دیتا تھا۔ صلیبی اس کی اسی جنگ کے لیے تیار تھے۔ اس کی فوج کا جو حصہ مظفرالدین اور الافضل کی زیرکمان دریا پار کرگیا تھا، اس نے صلیبیوں کی فوج کی چوکیوں (آئوٹ پوسٹوں) پر شب خون مارنے شروع کردئیے تھے۔ اس سے صلیبیوں کو یہ دھوکہ ہوا کہ سلطان ایوبی اپنے مخصوص انداز سے لڑے گا لیکن اب اس نے کوئی اور ہی انداز سوچ رکھا تھا۔ چھاپہ ماروں کو اس نے حسب معمول وہی مشن دئیے جو ہر جنگ میں انہیں دیا کرتا تھا۔

صلیبی فوج قلعہ بندیوں میں تھی اور باہر بھی تھی۔ سلطان ایوبی نے تیز رفتاری سے فوج کو اس طرح ڈیپلائے کیا کہ جھیل گیلیلی اور جو ایک دو پانی کے تالاب تھے، وہ اس کے قبضے میں آگئے۔ صلیبیوں کی فوج کے ایک حصے (فرنگیوں) نے سیفوریہ کے مقام پر اجتماع کیا لیکن سلطان ایوبی آگے بڑھ کر مقابلہ کرنے کے بجائے طبریہ کے مقام پر رکا رہا۔ وہ صلیبیوں کو حطین کے قریب لانا چاہتا تھا۔ صلیبی آگے آتے نظر نہ آئے تو اس نے پیادہ دستے ذرا سا آگے بڑھا دئیے اور خود ہلکا رسالہ (لائٹ کیولری) لے کر طبریہ پر حملہ کردیا اور حکم دیا کہ طبریہ کو تباہ وبرباد کرکے شہر کو آگ لگا دی جائے۔ اس حکم پر عمل کیا گیا۔

طبریہ کا قلعہ ذرا ہٹ کر تھا۔ فوج قلعہ میں تھی، شہر کو بچانے کے لیے فوج قلعے سے نکل کر شہر کو روانہ ہوئی۔ سلطان ایوبی نے اس کا راستہ روک لیا۔ سلطان ایوبی نے اپنی فوج کے دوسرے حصے مختلف سمتوں کو روانہ کردئیے تھے۔ صلیبیوں کی فوج جو قلعے سے آئی تھی، اس کی کمان شاہ ریمانڈ کے ہاتھ میں تھی۔ طبریہ کی ٹیکریوں پر اس کی اور سلطان ایوبی کی آمنے سامنے کی لڑائی ہوئی۔ قاضی بہائوالدین شداد اس لڑائی کا آنکھوں دیکھا حال ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ ''دونوں فوجوں کے سواروں نے ایک دوسرے پر ہلہ بولا۔ ہر اول کے سوار تیر چلاتے آرہے تھے، پھر پیادہ دستوں کو بھی میدان میں اتار دیا گیا۔ صلیبیوں کو موت نظر آنے لگی تھی اور مسلمانوں کو پیچھے دریا اور سامنے دشمن نظر آرہا تھا۔ پیچھے ہٹنے کے لیے ان کے پاس کوئی جگہ نہیں تھی، اس لیے دونوں فوجیں اتنے قہر سے لڑیں جس کی مثال تاریخ پیش نہیں کرسکتی''۔

سارا دن لڑائی جاری رہی۔ رات مسلمان چھاپہ ماروں نے دشمن کو پریشان رکھا۔ دشمن کی فوج اور گھوڑے پیاسے تھے لیکن پانی پر مسلمان قابض تھے۔ چھاپہ مار دشمن کو پانی کی تلاش میں جانے بھی نہیں دیتے تھے۔ اگلے روز صلیبیوں نے ٹیکریوں پر چڑھ کر لڑائی لڑی۔ مسلمان بڑھ بڑھ کر حملے کرتے تھے مگر صلیبی بلندیوں سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔ مسلمانوں کا رسالہ چونکہ ہلکا تھا، اس لیے انہوں نے ٹیکریوں کا گھیرا کرکے اوپر چڑھنا شروع کیا، پیادہ تیر اندازوں نے ان کے سروں کے اوپر تیر برسائے۔ اتنے میں صلیبیوں نے دیکھا کہ ان کے کمانڈر کا جھنڈا نظر نہیں آرہا۔ یہ فوراً ہی معلوم ہوگیا کہ ان کا بادشاہ ریمانڈ میدان جنگ سے بھاگ گیا ہے، حالانکہ اس نے صلیب اعظم پر ہاتھ رکھ کر اپنے اتحادیوں کا وفادار رہنے اور پیٹھ نہ دکھانے کا حلف اٹھایا تھا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ صلیب اعظم حطین کی اس جنگ میں ساتھ لائی گئی تھی۔

صلیبیوں کے بھاگنے کے راستے مسدود ہوچکے تھے۔ وہ اب دفاعی جنگ لڑ رہے تھے۔ بلندیاں ان کی مدد کررہی تھیں۔ یہ دن بھی گزر گیا۔ مسلمان فوج نے بے انداز خشک گھاس اور لکڑیاں جمع کرکے صلیبیوں کے اردگرد آگ لگا دی۔ رات کو سلطان ایوبی کی فوج گھاس اور لکڑیاں جمع کرتی اور آگ تیز کرتی رہی۔ دن بھر کے پیاسے اور تھکے ہوئے صلیبی ٹیکریوں پر جھلسنے لگے۔ ان میں سے ایک دستے نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن مسلمانوں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی زندہ نہ جانے دیا۔ دوسرے دن صلیبی فوج نے ہتھیار ڈال دئیے اور جرنیلوں سمیت سلطان ایوبی کی قید میں آگئے۔

٭ ٭ ٭

: سلطان ایوبی کی فوج کے د وسرے تین حصے مختلف جگہوں پر اس قسم کی جنگ لڑ رہے تھے کہ کبھی صلیبیوں کے پہلو پر حملہ کرتے اور نکل جاتے اور کبھی عقب پر حملہ کرکے ادھر ادھر ہوجاتے۔ ایک دو پیادہ دستے اس انداز سے دشمن کے سامنے رہے کہ آگے بڑھتے اور پیچھے ہٹ آتے۔ اس طرح دشمن حطین کے میدان میں آگیا مگر اس وقت تک وہ اور اس کے گھوڑے پیاس سے ادھ موئے ہوچکے تھے۔

٣جولائی ١١٨٧ء کے روز سلطان ا یوبی نے اپنے پلان کی اس کڑی پر کارروائی شروع کی جو اس نے حطین کے لیے بنایا تھا۔ یہ بھی جمعہ کا مبارک دن تھا۔ اسے پہلے سے جاسوسوں نے جن میں کلثوم اور بکر قابل ذکر ہیں، یہ بتا دیا تھا کہ سات صلیبیوں نے اتحاد کرلیا ہے، لہٰذا سلطان ایوبی کی جنگی طاقت جو تھی، سو تھی، اس نے اپنی چالوں، فوج کی تقسیم، چھاپہ ماروں کے استعمال، دیکھ بھال کے انتظام اور میدان جنگ میں برق رفتار نقل وحرکت کے انداز میں ردوبدل اور کارگر طریقے اور دائو سوچ لیے تھے۔ دشمن کو وہ بڑی خوبی سے حطین میں لے آیا تھا۔ اردگرد کی قلعہ بندیوں اور آبادیوں پر وہ قابض ہوچکا تھا۔ پانی اس کے قبضے میں تھا اور اب موسم کا قہر اس کے حق میں تھا۔

دشمن جب حطین میں آیا تو وہ جان نہ سکا کہ وہ سلطان ایوبی کی نہایت خوبی سے تقسیم اور ڈیپلائے کی ہوئی فوج کے نرغے میں آگیا ہے۔ سلطان ایوبی کے چھاپہ ماروں نے دشمن کی دیکھ بھال کی چوکیوں اور گشتی جیشوں، آئوٹ پوسٹوں اور رسد کے لیے قیامت بپاکررکھی تھی۔ رات کو وہ دشمن کو نہ آرام کرنے دیتے تھے، نہ جرنیلوں کو سوچنے کی مہلت دیتے تھے۔

٤جولائی ١١٨٧ء کے روز سلطان ایوبی کی فوج کے درمیانی حصے نے آمنے سامنے حملہ کیا۔ ٹیکریوں کی وجہ سے میدان جنگ تنگ تھا۔ صلیبی ادھر ادھر سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تو مسلمانوں کا لائٹ رسالہ حرکت میں آجاتا۔ تیرانداز بلندیوں پر تھے جہاں سے وہ صلیبیوں پر تیروں کا مینہ برسا رہے تھے۔ سلطان ایوبی کی کیفیت یہ تھی کہ کبھی اوپر جاتا اور کبھی نیچے آتا اور اس کے صبا رفتار قاصد پیغام لا اور لے جارہے تھے۔ صلیبی نائٹوں کو زرہ بکتر جلا رہی تھی۔ ان کے گھوڑے پیاسے تھے، پانی سامنے نظر آرہا تھا جو پیاس کو بڑھا رہا تھا۔

صلیبیوں نے کمک منگوا کر ایک جوابی حملہ کیا جو ان کی آخری امید تھی۔ جہاں انہوں نے حملہ کیا وہاں کی کمان تقی الدین کے ہاتھ تھی۔ اس نے حملہ روکنے کے لیے اپنے دستوں کو نیم دائرے کی شکل میں کردیا۔ دشمن سیدھا اور سرپٹ آیا۔ تقی الدین نے نیم دائرے کے سرے بند کردئیے اور صلیبی گھیرے میں آگئے۔ مسلمان سواروں نے انہیں کاٹ اور کچل ڈالا۔

اب جنگ کی یہ صورت تھی کہ صلیبی حطین کے میدان میں دفاعی جنگ لڑ رہے تھے۔ حطین سے دور ان کا اگر کوئی دستہ رہ گیا تھا تو اسے مسلمانوں نے وہیں بے کار کردیا جہاں وہ تھا۔ یہ پہلا اور آخری موقع تھا کہ عکرہ کا پادری ''محافظ صلیب اعظم'' صلیب الصلبوت میدان جنگ میں موجود تھا، یعنی جس صلیب پر صلیبیوں نے اسلام کو ختم کرنے کے حلف اٹھائے تھے، وہ صلیب میدان جنگ میں لائی گئی تھی مگر صلیبی بادشاہوں نے پیٹھ دکھانی شروع کردی۔ گائی آف لوزینان اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ بھاگ رہا تھا کہ اسے مسلمان سواروں نے دیکھ لیا اور انہیں زندہ پکڑ لیا۔

عکرہ کا پادری مارا گیا اور صلیب اعظم مسلمانوں کے قبضے میں آگئی۔ مشہور مؤرخوں نے اس صلیب کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ اس دور کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ بیت المقدس کی فتح کے بعد سلطان ایوبی نے صلیب وہاں کے عیسائیوں کو احترام سے لوٹا دی تھی۔

شام تک جنگ حطین کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ صلیبیوں کے جانی نقصان کا کوئی شمار نہ تھا۔ باقی فوج نے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ سلطان ایوبی کے سامنے جو قیدی لائے گئے، ان میں ریمانڈ کے سوا باقی چھ اتحادی تھے اور ان میں کرک کا شہزادہ ارناط بھی تھا جسے اپنے ہاتھوں قتل کرنے کی قسم سلطان ایوبی نے کھائی تھی۔ مؤرخ لکھتے ہیں اور اس کا تفصیلی ذکر قاضی بہائوالدین شداد نے کیا ہے کہ سلطان ایوبی نے صلیبی بادشاہ جیفرے کو شربت پیش کیا۔ جیفرے نے آدھا شربت پی کر گلاس ارناط کو دے دیا۔

ارناط شربت پینے لگا تو سلطان ایوئی نے اپنے ترجمان سے گرج کر کہا… ''اسے (ارناط سے) کہو کہ اسے میں نے نہیں، اپنے بادشاہ نے شربت دیا ہے۔ عربی میزبان صرف اس دشمن کو شربت پیش کرتے ہیں جس کی وہ جان بخشی کردیتے ہیں۔ میں نے ارناط کو شربت پیش نہیں کیا''… بہائوالدین شداد لکھتا ہے کہ سلطان ایوبی کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے۔


جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں