داستان ایمان فروشوں کی -137 - اردو ناول

Breaking

منگل, جنوری 11, 2022

داستان ایمان فروشوں کی -137


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر137 ایوبی نے قسم کھائی تھی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
'' بکر بن محمد نے پوچھا۔''ابتدا میں بھاگنے کا ہی خیال میرے دماغ پر سوار رہا مگر مجھے حقیقت کو قبول کرنا پڑا کہ میں بھاگ نہیں سکتی''۔ اس نے جواب دیا… ''اس میں کوئی شک نہیں کہ ارناط نے مجھے صحیح معنوں میں شہزادی بنا دیا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ مجھے کسی لڑکی سے کبھی ایسی محبت نہیں ہوئی تھی، جیسی تم سے ہوئی ہے۔ میں اس کے ساتھ شراب بھی پیتی رہی۔ اس سے میں بچ نہیں سکتی تھی۔ جسمانی طور پر میں اس زندگی میں تحلیل ہوچکی تھی۔ ایسی شاہانہ زندگی تو کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن تنہائی میں میرا دل مسلمان ہوجاتا تھا اور یہ خیال مجھے تڑپا دیتا تھا کہ میں حج کعبہ سے آئی ہوں۔ کبھی کبھی میں خدا سے گلے شکوے بھی کیا کرتی تھی اور اکثر یوں ہوتا کہ میںخدا کو بھول جاتی تھی''…
''اسی دوران سلطان ایوبی نے کرک کا محاصرہ کیا اور آتشیں گولے پھینک کر شہر کا بہت سا حصہ تباہ کردیا تھا۔ میں تیار ہوگئی تھی کہ اپنی فوج شہر میں داخل ہوجائے گی اور میں ارناط کو اپنے ہاتھوں قتل کردوں گی مگر ہوا یوں کہ ایک ماہ بعد سلطان ایوبی نے محاصرہ اٹھا لیا اور واپس چلا گیا۔ ارناط قہقہے لگاتا میرے پاس آیا اور بولا… ''میں نے اسے پھر بے وقوف بنا لیا ہے۔ میں نے اس کے ساتھ معاہدہ کرلیا ہے کہ آئندہ حاجیوں کے قافلوں پر ہاتھ نہیں اٹھائوں گا اور میں نے اس کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا بھی معاہدہ کرلیا ہے''…
''میرے دل کو بہت صدمہ ہوا۔ سلطان ایوبی کو واپس نہیں جانا چاہیے تھا۔ مجھے رہا کرائے بغیر اسے محاصرہ نہیں ا ٹھانا چاہیے تھا''۔
''سلطان ایوبی کے سامنے اس سے زیادہ بڑی مہم ہے''۔ بکر نے کہا… ''اسے بلکہ ہمیں بیت المقدس آزاد کرانا ہے جہاں ہمارا قبلۂ اول ہے۔ ہمیں ارض فلسطین کو آزاد کرانا ہے جو ہمارے نبیوں اور پیغمبروں کی سرزمین ہے اگر سلطان ایوبی ایک ایک مسلمان لڑکی کو آزاد کرانے نکل کھڑا ہو تو وہ اپنی منزل مقدس سے د ور بھٹکتا اور لڑتا ختم ہوجائے گا… قومیں اتنے مقدس مقصد کی خاطر اپنے بچوں کو قربان کردیا کرتی ہیں''۔
''ارناط کی ایک بری عادت نے مجھے یہ فراموش نہ کرنے دیا کہ میں مسلمان ہوں''۔ کلثوم نے کہا… ''وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا رہتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ سلطان ایوبی اپنے قبلۂ اول تک پہنچنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے اور ہم اس کے خانہ کعبہ کو مسمار کرنے اور اپنی عبادت گاہ بنانے کے لیے جارہے ہیں''۔
صلیبیوں کے ان عزائم کا تذکرہ یورپی مؤرخوں نے بھی کیا ہے کہ صلیبیوں نے خانہ کعبہ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضۂ مبارک مسمار کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا تھا اور ایک بار وہ مدینہ منورہ سے تین میل دور تک پہنچ بھی گئے تھے۔ کرک کا جو محاصرہ سلطان ایوبی نے کیا اور ایک ماہ بعد اٹھا لیا تھا، یہ بھی ایک تاریخی واقعہ ہے۔ محاصرہ اٹھانے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ارناط نے جنگ نہ کرنے اور آئندہ حاجیوں کے قافلوں پر حملے نہ کرنے کا معاہدہ کرلیا تھا۔ وہ تو سلطان ایوبی کو معلوم تھا کہ صلیبی معاہدے توڑنے کے لیے کیا کرتے ہیں۔ محاصرہ اٹھانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ بیت المقدس کی فتح کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ ارناط نے اس معاہدے کے دو ہی سال بعد حاجیوں کے ایک اور قافلے پر حملہ کیا تھا۔ اس معاہدے کی میعاد ١١٨٨ء تک تھی۔ سلطان ایوبی نے ١١٨٧ء میں حطین کی طرف پیش قدمی کی تھی اور اس عہد کے ساتھ وہ دمشق سے نکلا تھا کہ ارناط کو اپنے ہاتھوں قتل کرے گا۔
کلثوم بکر کو بتا رہی تھی… ''ارناط کے ساتھ میں خوش بھی رہی اور میرے دل میں انتقام بھی موجود رہا۔ وہ کبھی کبھی مجھے بتایا کرتا تھا کہ سلطان ایوبی کے جاسوس بھیس بدل کر آجاتے ہیں اور یہاں کے راز لے جاتے ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ بڑی ہی حسین صلیبی اور یہودی لڑکیاں مسلمانوں کے علاقوں میں مسلمانوں کی طرح کے ناموں سے اونچے رتبوں اور عہدوں والے حاکموں کو جال میں پھانس لیتی اور انہیں صلیب کے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ارناط مجھے ان لڑکیوں کی کہانیاں سنایا کرتا تھا۔ یہ سن کر مجھے کئی بار خیال آیا کہ یہ لڑکیاں اپنے مذہب کے لیے اپنی آبرو قربان کردیتی ہیں۔ عصمت ہی وہ موتی ہے جس کے تحفظ کے لیے عورت جان پر کھیل جاتی ہے لیکن یہ لڑکیاں اتنی بڑی قربانیاں دے ڈالتی ہیں''…
: ''میری آبرو تو لٹ ہی چکی تھی۔ میں نے ارادہ کرلیا کہ اپنے مذہب کے لیے قربانی دوں گی مگر مجھے موقعہ نہیں ملتا تھا۔ اب یہاں آکر ارناط نے مجھے ایسے راز دے دیا ہے جو سلطان ایوبی تک پہنچنا چاہیے۔ شاید خدا نے مجھے اسی نیکی کے لیے اس جہنم میں بھیجا تھا! کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ اس خبر سے سلطان ایوبی کو کوئی فائدہ پہنچے گا؟''
''بہت زیادہ''۔ بکر بن محمد نے کہا… ''لیکن یہ خبر تم لے کر نہیں جائو گی۔ اگر تم یا ہم دونوں یہاں سے غائب ہوگئے تو شہزادہ ارناط فوراً سمجھ لے گا کہ ہم دونوں جاسوس تھے۔ اس طرح یہ اپنے منصوبوں میں ردبدل کردیں گے اور ہم سلطان ایوبی تک جو خبر پہنچائیں گے، وہ ا س کی شکست کا باعث بن سکتی ہے''۔
''اس کا مطلب یہ ہوا کہ اتنی اہم خبر سلطان ایوبی تک نہیں پہنچ سکتی''۔ کلثوم نے کہا۔
''پہنچ سکتی ہے اور پہنچائی بھی جائے گی''۔ بکر نے کہا… ''لیکن کرک واپس جاکر یہ انتظام ہوگا''۔
''تم جائو گے؟'' کلثوم نے پوچھا… ''میں یہاں سے بھاگنا بھی چاہتی ہوں''۔
''میں نہیں جائوں گا''۔ بکر نے کہا… ''تم بھی نہیں جائو گی۔ کرک میں میرے ساتھی موجود ہیں۔ خبریں لے جانے کا کام ان کی ذمہ داری ہے۔ میرا کام خبریں حاصل کرنا ہے۔ اب یہ کام تم کروں گی۔ تمہارا کام ختم نہیں ہوا، ابھی شروع ہوا ہے۔ میں تمہیں بتائوں گا کہ سلطان کو کس قسم کی معلومات کی ضرورت ہے۔ یہ معلومات تم مجھے دو گی اور میں انہیں دمشق تک پہنچائوں گا''۔
''تو مجھے اس جہنم میں ہی رہنا پڑے گا؟'' کلثوم نے اداس سی ہو کے پوچھا۔
''ہاں''۔ بکر نے جواب دیا۔ ''تمہیں اس جہنم میں اور مجھے موت کے منہ میں موجود رہنا پڑے گا… کلثوم! تمہیں یہ قربانی دینی پڑے گی۔ سلطان کہا کرتے ہیں کہ ایک جاسوس یا ایک چھاپہ مار اپنی پوری فوج کی فتح یا شکست کا باعث بن سکتا ہے لیکن جاسوس ہر لمحہ موت کے منہ میں کھڑا رہتا ہے۔ جاسوس جب دشمن کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے تو فوراً قتل نہیںکردیا جاتا۔ اسے اذیتیں دی جاتی ہیں، اس کی کھال آہستہ آہستہ اتاری جاتی ہے۔ اسے مرنے نہیں دیا جاتا، اسے جینے بھی نہیں دیا جاتا لیکن اپنے مذہب اور اپنے وطن کے لیے کسی نہ کسی کو اپنی زندہ کھال اتروانی ہی پڑتی ہے۔ قوموں کا نام ونشان اس وقت مٹنا شروع ہوتا ہے جب ان میں قربانی کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے… تم نے جہاں چار سال گزار دئیے ہیں، وہاں چار مہینے اور گزار دو۔ تم اب ارناط کو اپنا آقا نہ سمجھو۔ اس کے ساتھ پہلے سے زیادہ محبت کا اظہار کرو لیکن دل میں یہ سمجھو کہ تم نے ایک ایسے زہریلے ناگ پر قبضہ کررکھا ہے جو تمہارے ہاتھ سے آزاد ہوگیا تو عالم اسلام کو ڈس لے گا''۔
''مجھے بتائو''۔ کلثوم نے بے تاب ہوکر کہا… ''خدا کے لیے مجھے بتاتے رہو کہ میں اپنے خدا کے حضور کس طرح سرخرو ہوسکتی ہوں''۔
بکر نے اسے بتانا شروع کردیا۔ اسے مکمل ہدایات دیں اور کہا… ''سب کے سامنے یہ ظاہر نہ ہونے دینا کہ میرا اور تمہارا کوئی اور تعلق بھی ہے۔ یہاں ہمارے جاسوسوں کا سراغ لگانے والے صلیبی جاسوس بھیس بدل کر گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھو کہ صرف ہم دونوں جاسوس نہیں، ہمارے اور بھی بہت سے ساتھی ہیں۔ وہ ہر اس شہر میں موجود ہیں جہاں صلیبی حکمران اور جرنیل موجود ہیں۔ ان میں ایک سے ایک بہادر اور عقلمند ہے۔ دل میں خوش فہمی نہ رکھنا کہ ہم دونوں کوئی بہت بڑا کارنامہ کررہے ہیں۔ خدا پر احسان نہ کرنا، یہ ہمارا فرض ہے جو ہمیں ادا کرنا ہے، خواہ ہمیں کیسی ہی اذیت میں کیوں نہ ڈال دیا جائے''۔
کلثوم جب خیمہ گاہ میں اپنے خیمے کے سامنے بگھی سے اُ تری، اس وقت وہ شہزادی للی تھی اور بکر بن محمد سیبل تھا۔ کلثوم جب بگھی سے اتر رہی تھی اس وقت سیبل بگھی کے پاس کھڑا غلاموں کی طرح جھکا ہوا تھا۔ خیمے میں گئی تو ارناط ایک نقشے پر جھکا ہوا تھا۔ کلثوم نے اسے کہا کہ وہ سیر کے لیے نکل گئی اور شکار بھی کھیلا تھا۔
''کیا مارا؟'' ارناط نے نقشے سے نظریں ہٹائے بغیر پوچھا۔
''کچھ بھی نہیں''۔ کلثوم نے جواب دیا… ''سب تیر خطا ہوگئے لیکن جلدی ہی شکار مارنے کے قابل ہوجائوں گی''۔ یہ کہہ کر وہ بھی نقشے پر جھک گئی۔ اس نے پوچھا… ''پیش قدمی کا نقشہ ہے یا دفاع کا؟''
''پیش قدمی صلاح الدین ایوبی کرے گا''۔ ارناط نے بے خیال کے عالم میں کہا… ''اور دفاع بھی اسی کو کرنا پڑے گا کیونکہ ہم اسے جال میں لا رہے ہیں۔ اس کا دم خم ختم کرکے ہم پیش قدمی کریں گے۔ ہمیں روکنے والا کوئی نہ ہوگا۔ تم اپنے خیمے میں جائو للی! مجھے بہت کچھ سوچنا ہے۔ آج رات ہماری جو کانفرنس ہوگی، اس میں جنگ کا منصوبہ اور نقشہ بنایا جائے گا۔ مجھے جو مشورے دینے ہیں، ان میں کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے''۔
٭ ٭ ٭
: ''اس کا نام کلثوم ہے اور بکر بن محمد اس کے ساتھ ہے، وہ ارناط کا بگھی بان ہے''۔ سلطان ایوبی کی انٹیلی جنس کا نائب سربراہ حسن بن عبداللہ اسے کرک کے جاسوسوں کی بھیجی ہوئی پوری خبر سنا چکا تھا۔
سلطان کی آنکھیں لال ہوگئیں۔ اس نے کہا… ''کون بتا سکتا ہے کہ ہماری کتنی بیٹیاں ان کفار کے قبضے میں ہیں اور ان کی عیاشی کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ میں ارناط کو نہیں بخشوں گا۔ خیال رکھنا حسن! اس لڑکی کو وہاں سے نکالنا ہے لیکن ابھی نہیں''۔
''کرک میں ہمارے جو آدمی ہیں، وہ اسے موزوں وقت پر نکال لائیں گے''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا۔
عکرہ کا پادری اور یہ صلیبی اتحادی ناصرہ میں تین روز رہے اور انہوں نے پلان اور نقشہ تیار کرلیا تھا۔ کلثوم نے ارناط سے سب کچھ معلوم کرلیا تھا اور بکر کو بتا دیا۔ صلیبیوں کو بھی سلطان ایوبی کے کئی راز معلوم ہوگئے تھے۔ ان کے جاسوس موصل، حلب، دمشق، قاہرہ اور ہر جگہ موجود تھے۔ انہوں نے صلیبیوں کو صحیح اطلاعیں بھیجی تھیں۔ صلیبیوں کو یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ مصر سے بھی فوج آرہی ہے۔ صلیبیوں کو یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ سلطان ایوبی بہت جلدی پیش قدمی کرنے والا ہے، لہٰذا انہوں نے دفاع میں لڑنے، پھر سلطان ایوبی کو گھیرے میں لینے کا پلان تیار کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مختلف جگہوں پر فوج خیمہ زن کردی تھی۔ انہیں ابھی یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ سلطان ایوبی کدھر سے آئے گا اور میدان جنگ کون سا ہوگا۔ اپنے اندازے کے مطابق انہوں نے سلطان ایوبی کی فوج کی نفری، پیادہ اور سوار کا حساب لگا لیا تھا۔
حسن بن عبداللہ نے کرک سے آئے ہوئے اپنے آدمی سے تفصیلی رپورٹ لی۔ اس جاسوس نے کلثوم اور بکر کے متعلق بھی بتایا۔ حسن بن عبداللہ نے یہ رپورٹ سلطان ایوبی کو دی۔
''یہ اطلاع ان تمام اطلاعوں کی تصدیق کرتی ہے جو ہمیں دوسری جگہوں کے جاسوسوں نے بھیجی ہیں''… سلطان ایوبی نے کہا… ''یہ تو ہمیں پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے کہ صلیبی میرا انتظار کررہے ہیں۔ اب کرک کی اطلاع نے اس کی تصدیق کردی ہے۔ اس میں نئی بات یہ ہے کہ چند ایک صلیبیوں نے اتحاد کرلیا ہے اور مجھے ان کی متحدہ فوج سے لڑنا ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ اطلاع نئی ہے ہے کہ جنگی طاقت کتنی ہے۔ ان کے ساتھ دو ہزار دو سو نائٹ ہوں گے۔ یہ بلاشبہ بہت بڑی طاقت ہے۔ نائٹ سر سے پائوں تک زرہ بکتر میں ملبوس اور محفوظ ہوتا ہے۔ نائٹوں کے گھوڑے عام جنگی گھوڑوں کی نسبت زیادہ طاقتور اور پھرتیلے ہوتے ہیں۔ میں انہیں گرمیوں کے عروج میں لڑائوں گا''۔
''اور ان زرہ پوش نائٹوں کے ساتھ آٹھ ہزار سوار ہوں گے''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا… ''پیادہ فوج کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ بتائی گئی ہے''۔
''میرے لیے یہ خبر نئی ہے کہ شاہ آرمینیا کی فوج بھی صلیبیوں کے پاس آرہی ہے''… سلطان ایوبی نے کہا… ''یہ صلیبیوں کی تیس بتیس ہزار فوج کے علاوہ ہوگی۔ یہ ملا کر دشمن کی نفری چالیس ہزار ہوجائے گی۔ کرک کی اطلاع اور دوسری جگہوں سے آنے والی اطلاعوں سے یہ یقین ہوگیا ہے کہ صلیبی دفاعی جنگ لڑیں گے اور مجھے گھیرے میں لے لیں گے۔ اس کے مطابق میرا یہ فیصلہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ میں حطین کے مضافات میں لڑوں گا۔ اس علاقے سے میں اچھی طرح واقف ہوں''۔
٭ ٭ ٭
: ''میرے رفیقو! اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس فرض کی ادائیگی کے لیے نکل کھڑے ہوں، جو خدائے ذوالجلال نے ہمیں سونپا ہے''… سلطان صلاح الدین ایوبی نے دمشق میں اپنے بڑے کمرے میں سالاروں اور نائب سالاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا… ''ہم اقتدار کے لیے آپس میں لڑنے اور مرنے کے لیے پیدا نہیں کیے گئے تھے۔ ہم نے آپس میں بہت کشت وخون کرلیا ہے۔ اس دوران دشمن نے ارض فلسطین میں اپنے پنجے گہرے اتار لیے ہیں۔ قوم نے ہمارے ہاتھ میں تلوار دی ہے اور اس اعتماد کے ساتھ دی ہے کہ ہم دشمنان دین کا خاتمہ کریں گے اور عرب کی مقدس سرزمین کو کفار کے ناپاک وجودسے پاک کریں گے''…
''آپ کئی برسوں سے مسلسل لڑ رہے ہیں لیکن اصل جنگ اب شروع ہورہی ہے۔ اپنے ذہنوں میں اس جنگ کے مقصد کو تازہ کرلو۔ یہ فیصلہ کرلو کہ ہمیں ایک آزاد اور باوقار قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے اور ہمیں اپنے خدا کے عظیم مذہب کو کفر کے گھنائونے سائے سے آزاد رکھنا ہے۔ ہمیں سلطنت اسلامیہ کو وہاں تک لے جانا ہے جہاں تک محمد بن قاسم لے گیا تھا اور جہاں تک طارق بن زیاد لے گیا تھا۔ ان کے بعد آنے والوں کا فرض یہ تھا کہ اللہ کا پیغام وہاں سے بھی آگے لے جاتے، جہاں تک قوم کے یہ بیٹے لے گئے تھے مگر اللہ کی سلطنت ایسی سکڑی کہ ہمارے دین کے دشمن ہمارے گھر میں آن بیٹھے ہیں اور وہ خانہ کعبہ اور روضۂ مبارک کو مسمار کرنے کے منصوبے بنائے ہوئے ہیں۔ کیوں؟… یہ کیوں کر ممکن ہوا؟… جہاں بادشاہی کا جنون دماغوں پر قابض ہوتا ہے، وہاں سرحدیںسکڑتی ہیں اور تخت وتاج کی خاطر امراء اپنے مذہب اور اپنی غیرت کو بھی ترک کردیا کرتے ہیں''…
''ہمارے زوال کا باعث تخت وتاج کا نشہ اور زروجواہرات کی محبت ہے۔ کہاں وہ وقت کہ ہم دنیا پر چھاگئے تھے اور کہاں ہمارا وقت کہ دنیا ہم پر چھا گئی ہے اور ہم آخرت کو فراموت کیے بیٹھے ہیں۔ ہم میں دوست اور دشمن کی پہچان نہیں رہی۔ عسکری جذبے پر فانی دنیا کی جھوٹی لذتوں کا جادو چل گیا ہے۔ یاد رکھو میرے رفیقو! میں آپ کو کئی بار کہہ چکا ہوں کہ قوم کی قسمت تلوار کی نوک سے لکھی جاتی ہے اور یہ تحریر ان مجاہدوں کی ہوتی ہے جن کے ہاتھ میں تلوار ہوتی ہے۔ جب سالار تخت پر بیٹھ کر سر پر تاج رکھ لیتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں طاقت نہیں رہتی کہ تلوار نیام سے باہر کھینچ سکیں۔ ان کے دلوں میں اپنے عقیدے اور اپنی قوم کے وقار کے تحفظ کا جذبہ نہیں رہتا پھر مذہب کا استعمال یہی رہ جاتا ہے کہ اپنی رعایا کہ مذہب کے نام پر دھوکے دو اور دشمن کے ساتھ در پردہ دوستی کرلو تاکہ آرام سے اللہ کے نیک اور سادہ لوح بندوں پر حکومت کرسکو''…
''ہم آج اسلام کی عظمت کی خاطر صرف اس لیے گھروں کو خیرباد کہنے اور دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے قابل ہوئے ہیں کہ ہم نے اقتدار کے پجاریوں کو ختم کردیا ہے۔ ہم نے آستین کے سانپوں کا سرکچل ڈالا ہے۔ اگر ہم ہار گئے تو اس کی وجہ اس کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ ہماری نیت میں فتور تھا''۔
سلطان ایوبی ایسی جذباتی اور لمبی تقریر کرنے کا عادی نہیں تھا لیکن جس مہم کے لیے وہ نکل رہا تھا، اس کے لیے سب کو ذہنی اور روحانی طور پر تیار کرنا ضروری تھا۔ یہ اس کے وفادار اور قابل اعتماد سالار اور نائب سالار تھے۔ ان میں مظفر الدین جیسا قابل اور دلیر سالار بھی تھا جو کسی وقت میں اس کا ساتھ چھوڑ کر اس کے مخالف کیمپ میں چلا گیا اور اس کے خلاف لڑا بھی تھا۔ اس کے ساتھ تقی الدین اور افضل الدین، فرخ شاہ اور ملک العادل جیسے سالار بھی تھے جو اس کے اپنے خاندان اور اپنے خون کے رشتے کے تھے۔ سالار ککبوری اس کا دست راست تھا۔، ان میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو فنی، تکنیکی اور جذباتی لحاظ سے کمتر ہوتا لیکن سلطان ایوبی پہلی بار ارض فلسطین میں حملے کے لیے جارہا تھا اور اس کی منزل بیت المقدس تھی۔
جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں