داستان ایمان فروشوں کی ۔136 - اردو ناول

Breaking

منگل, جنوری 11, 2022

داستان ایمان فروشوں کی ۔136


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر136 ایوبی نے قسم کھائی تھی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
غداروں کو اس نے اتنا کمزور اور بے بس کردیا ہے کہ وہ اب ہمارے کسی کام کے نہیں رہے۔ اب کوئی مسلمان حکمران ایسا نہیں رہا جو صلاح الدین ایوبی پر عقب سے حملہ کرے۔ ہم نے حشیشین کو بھی آزما دیکھا ہے۔ وہ چار پانچ قاتلانہ حملوں میں بھی اسے قتل نہیں کرسکے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ کار اور کوئی حل اور راستہ نہیں رہا کہ ہم مل کر سلطان صلاح الدین ایوبی پر یلغار کریں لیکن اپنے جرنیلوں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ حملے میں پہل اسے کرنے دیں۔ اس کی مجھے دو وجوہات بتائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اپنی فوجوں کو اتنی دور نہیں لے جانا چاہیے کہ رسد کے راستے مسدود اور خطرناک ہوجائیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی جس طریقے کی جنگ لڑتا ہے، اس سے ہمیں اپنی فوج دور دور تک پھیلانی پڑتی ہے۔ اب جبکہ دشمن کے علاقے میں ہمارا کوئی حامی نہیں رہا، اس لیے ہمیں حملے کا خطرہ سوچ سمجھ کر مول لینا چاہیے''…
''ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ جاسوسوں کی اطلاع کے مطابق صلاح الدین ایوبی یروشلم کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ کرچکا ہے۔ یہ تمہیں دیکھنا ہے کہ اس کی پیش قدمی کا راستہ کون سا ہوگا اور وہ سیدھا یروشلم کی طرف آئے گا یا کیا کرے گا۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ ہم اکیلے اکیلے اس کے خلاف نہیں لڑ سکتے۔ اب تم متحد ہوگئے ہو۔ صلیب اعظم کو یہاں اٹھا لانے کا مقصد یہ ہے کہ تم سب ایک ہی بار صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھائو کہ تم دشمن کے خلاف یک جان ہوکر لڑو گے اور ذاتی رنجشوں اور ذاتی مفادات کو نظرانداز کرکے متحدہ مفاد کے لیے لڑو گے اور یہ مفاد صلیب اعظم اور یسوع مسیح کے عقیدے کا ہوگا اور تم سب اسلام کے خاتمے کے لیے لڑو گے''۔
سب اٹھے۔ انہوں نے صلیب پر ہاتھ رکھے اور عکرہ کے پادری نے حلف کے جو الفاظ کہے، وہ سب نے دہرائے۔
دوسرے دن سب بہت دیر سے جاگے۔ رات جب پادری نے انہیں چھٹی دی تو وہ شراب اور رقص میں مگن ہوگئے۔ وہ اپنی اپنی پسند کی لڑکیاں ساتھ لائے تھے۔ ان کے حسن وجمال، نیم عریاں جسموں، کھلے بکھرے ہوئے ریشمی بالوں، ناز وادا اور شراب نے اس خطے کو جنت ارضی بنائے رکھا۔ دوسرے دن کا سورج طلوع ہوچکا تھا مگر صلیبیوں کے اس شاہانہ کیمپ میں نیند نے موت کا سکوت طاری کررکھا تھا۔
شہزادہ ارناط کے خیمے سے ایک جواں سال لڑکی نکلی۔ بہت ہی خوبصورت اور لمبے قد کی لڑکی تھی۔ اس کا رنگ دلکش تھا اور اس کی آنکھوں میں سحر تھا لیکن یہ رنگ اور یہ آنکھیں صلیبی یا یہودی لڑکیوں جیسی نہیں تھی۔ یہ سوڈان، مصر یا دمشق جیسے علاقوں کی پیداوار معلوم ہوتی تھی۔ اس کے حسن کی یہی ضمانت کافی تھی کہ ارناط اسے اپنے ساتھ لایا تھا۔
اسے دیکھ کر ایک بوڑھی خادمہ دوڑتی اس تک پہنچی۔ وہاں جو فوج ان حکمرانوں کے ساتھ گئی تھی، اس کی اتنی نفری نہیں تھی جتنی تعداد نوکروں اور نوکرانیوں کی ساتھ تھی۔ اس لڑکی کو ارناط پر نسیس للی کہا کرتا تھا۔ وہ شکل وصورت اور قد بت سے شہزادی ہی لگتی تھی۔ اس نے خادمہ سے کہا کہ صرف میرے لیے ناشتہ جلدی لائو اور بگھی تیار کرو، میں اس علاقے کی سیر کو جارہی ہوں۔
ارناط گہری نیند سویا ہوا تھا، اسے جاگنے کی کوئی جلدی نہیں تھی، وہاں تو صرف پادری صبح سویرے جاگا اور عبادت کرکے پھر سوگیا تھا۔ للی کے لیے کوئی کام نہیں تھا۔ ناشتہ آنے تک وہ تیار ہوگئی اور جب ناشتہ کرچکی تھی تو بگھی آچی تھی۔ یہ دو گھوڑوں کی خوبصورت بگھی تھی۔ کرک سے ارناط کے ساتھ وہ اسی بگھی میں آئی تھی۔
بگھی میں بیٹھنے سے پہلے اس نے بگھی بان سے کہا… ''یہ علاقہ بہت خوبصورت لگتا ہے۔ میں سیر کے لیے جانا چاہتی ہوں۔ تم اس جگہ سے واقف تو نہیں ہوگے؟''
''اچھی طرح واقف ہوں شہزادی محترمہ!'' بگھی بان نے جواب دیا… ''اگر آپ سیر کے لیے جانا چاہتی ہیں تو میں کمان اور ترکش لیے چلتا ہوں۔ آپ شکار بھی کھیل سکتی ہیں۔ یہاں ہرن زیادہ تو نہیں لیکن کہیں کہیں نظر آجاتے ہیں۔ خرگوش عام ہیں، پرندے ہیں''۔
للی نے مسکرا کر کہا… ''کیا تم مجھے تیر انداز سمجھتے ہو؟''… جائو لے آئو۔
''کوئی مشکل نہیں''۔بگھی بان نے کہا… ''آپ لڑائی پر تو نہیں جارہیں۔ شکار پر چلایا ہوا تیر خطا ہوگیا تو کیا ہوجائے گا''۔
وہ دوڑتا گیا اور کمان اور ترکش اٹھایا۔
بگھی خیمہ گاہ سے بہت دور چلی گئی۔ یہ خطہ سرسبز تھا۔ درخت بھی خاصے تھے اور اونچی نیچی ٹیکریاں تھیں۔ مارچ اپریل کے دن تھے، بہار کا موسم تھا۔ اس سے یہ خطہ اور زیادہ خوبصورت ہوگیا تھا۔ بگھی آہستہ آہستہ چلی جارہی تھی۔ ایک جھنڈ کے نیچے للی کے کہنے پر بگھی رک گئی اور وہ اتری۔ اس کا بگھی بان سیبل نام کا عیسائی تھا اور انہی علاقوں کا رہنے والا تھا۔ اس کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر ہوگی۔ خوبرو اور دراز قد جوان تھا۔ اسی لیے ا
: اسی لیے اسے ارناط نے بگھی کے لیے منتخب کیا تھا۔ للی کو بھی یہ آدمی پسند تھا۔ زندہ دل اور فرمانبردار تھا۔ للی جب ارناط کے پاس آئی، اس سے ایک سال بعد سیبل ان کے پاس آیا تھا۔
''مسلمانوں کی سرحد کہاں سے شروع ہوتی ہے؟'' للی نے بگھی سے اتر کر پوچھا۔
''جہاں تک کسی کی فوج پہنچ کر ڈیرے ڈال دے، وہ اس کی سرحد بن جاتی ہے''۔ بگھی بان نے جواب دیا… ''میں آپ کو اتنا بتا سکتا ہوں کہ یہاں سے آٹھ دس میل دور سمندر کی طرح ایک وسیع جھیل ہے جس کا نام گیلیلی ہے۔ اس کے کنارے طبریہ نام کا ایک قصبہ ہے۔ اس سے کچھ ادھر حطین نام کا ایک مشہور گائوں ہے۔ اس جھیل سے آگے سے مسلمانوں کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے''۔
''یعنی مسلمانوں کا علاقہ یہاں سے دور نہیں''۔ للی نے کہا… ''کیا ہم بگھی پر جھیل تک جاسکتے ہیں؟''۔
''ہم کرک سے بگھی پر آئے ہیں''۔ سیبل نے کہا… ''جھیل تو یہ قریب ہے۔ یہ دو گھوڑے بغیر تھکے وہاں تک پہنچا سکتے ہیں''۔
للی نے بچوں کی طرح اس سے راستہ پوچھنا شروع کردیا اور بگھی بان زمین پر لکیریں ڈال کر اسے راستہ سمجھانے لگا۔
''دمشق کو بھی راستہ جاتا ہوگا؟'' للی نے پوچھا۔
بگھی بان نے اسے دمشق تک کا راستہ سمجھا دیا۔
٭ ٭ ٭
للی نے ترکش سے تیر نکالا اور درختوں میں پرندے دیکھنے لگی۔ اس نے ایک پرندے پر تیر چلایا جو خطا گیا۔ للی نے قہقہہ لگایا۔ بگھی بان نے اسے شست لینے کا طریقہ سمجھایا۔ اس نے کچھ تیر ادھر ادھر چلائے۔
''اور آگے چلو''۔ للی نے بگھی میں بیٹھتے ہوئے کہا… ''اس جگہ چلوں جہاں ہرن ہوں۔میں ہرن کو تو مار لوں گی''۔
سیبل اسے ڈیڑھ دو میل دور لے گیا۔ ایک جگہ بگھی روک کر اس نے کہا کہ تھوڑی دیر انتظار کریں، شاید کوئی ہرن یا خرگوش نظر آجائے۔ وہ خود ایک طرف کو چل پڑا۔ کوئی بیس قدم دور ایک درخت تھا۔ سیبل اس کے ساتھ کندھا لگا کر کھڑا ہوگیا۔ وہ شہزادی للی کے لیے ہرن یا خرگوش دیکھ رہا تھا۔ للی کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔ للی نے کماند میں تیر ڈالا اور سیبل کی پیٹھ کا نشانہ لیا۔ اسے کوئی دیکھتا تو یہ یہی کہتا کہ للی مذاق کررہی ہے۔ اس نے کمان کھینچی، اس کے ہاتھوں میں کمان کانپ رہی تھی۔ ایک آنکھ بند کیے وہ سیبل کی پیٹھ کا نشانہ لیے ہوئے تھی۔
اس نے کمان اور زیادہ کھینچی اور تیر چلا دیا۔ تیر سیبل کے کندھے کے بالکل قریب درخت کے تنے میں لگا۔ سیبل گھبرا کر ہٹا اور مڑا۔ اس نے درخت میں اترے ہوئے تیر کو پھر للی کو دیکھا مگر للی ہنس نہیں رہی تھی۔ اس کے چہرے پر ایسی سنجیدگی تھی جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ پھر بھی اس نے ہنس کر کہا… ''آپ مجھ پر تیراندازی کی مشق کررہی ہیں؟''… اور وہ للی کی طرف چل پڑا۔
للی نے ترکش سے اور تیر نکال کر کمان میں ڈال لیا اور بولی… ''وہیں رک جائو اور ادھرادھر نہ ہونا''۔
سیبل رک گیا اور للی نے کمان سامنے کرکے ایک بار پھر کھینچ۔ سیبل نے چلا کر کہا… ''شہزادی آپ کیا کررہی ہیں''۔
شہزادی کی کمان سے تیر نکلا، سیبل کی نظریں اسی پر تھیں۔ وہ بیٹھ گیا اور تیر زناٹے سے اس کے قریب سے گزر گیا۔ سیبل شہزادی کا احترام اور اپنی حیثیت کو بھول گیا۔ للی ترکش سے ایک اور تیر نکال رہی تھی۔ سیبل بڑی ہی تیزی سے اس کی طرف دوڑا۔ للی اتنی جلدی تیر نکال کر کمان میں نہ ڈال سکی۔ سیبل سا پر لپکا تو للی دوڑ کر پرے ہوگئی لیکن سیبل مرد تھا اور جوان بھی تھا۔ دوڑ کر للی تک پہنچا اور اسے پکڑ لیا۔ اس سے کمان چھین لی اور اس کے کندھوں سے ترکش بھی اتارلی۔
''میں ان غلاموں میں سے نہیں ہوں جن پر ان کے آقا ہر طرح کا ظلم کرتے ہیں''۔ سیبل نے کہا اور ایک تیرکمان میں ڈال کر کمان للی پر تانی۔ بولا … ''کیا تم مجھ پر مشق کرنا چاہتی ہو؟ کیا میری خدمات اور فرمانبرداری کا یہ صلہ ہے؟''
للی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے ہونٹ کانپے اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سیبل نے کمان پرے پھینک دی اور آہستہ آہستہ اس کے قریب گیا۔
''میں کچھ بھی نہیں سمجھ سکا کہ آپ نے مجھ پر تیر کیوں چلائے اور آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں آگئے ہیں؟'' سیبل نے پوچھا۔
''تم میری کوئی مدد نہیں کرسکتے؟'' للی نے ایسے لہجے میں کہا جو کسی شہزادی کا نہیں ایک ڈری ہوئی لڑکی کا لہجہ تھا۔
''میں آپ کی خاطر جان تک د ے سکتا ہوں''۔ سیبل نے کہا۔ ''کیسی مدد؟''
''انعام سے مالامال کردوں گی''۔ للی نے کہا… ''مجھے انعام کے طور پر مانگو گے تو یہ بھی قبول کروں گی۔ مجھے جھیل گیلیلی سے آگے مسلمانوں کے علاقے میں لے چلو… دمشق تک چلو۔ وہاں یہ بگھی اور دونوں گھوڑے تمہارے ہوںگے۔ انعام الگ دلوائوں گی''۔
''مجھے شک ہے، آپ کے د ماغ پر کوئی اثر ہوگیا ہے''۔ سیبل نے کہا… ''چلئے، واپس چلیں''۔
''اگر میری بات نہیں مانو گے تو واپس جاکر شہزادہ ارناط سے کہوں گی کہ تم نے یہاں مجھ پر دست درازی کی تھی''۔ للی نے اس کی سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
''اچھا ہوا، آپ نے بتا دیا''۔ سیبل نے کہا… ''اب آپ واپس نہیں جائیں گی، نہ میں واپس جارہا ہوں۔ آپ کے ہاتھ پائوں باندھ کر بگھی میں ڈال لوں گا اور کسی شہر میں جاکر آپ کو بردہ فروشوں کے ہاتھ بیچ ڈالوں گا… مجھے بتائو مسلمانوں کے پاس کیوں جانا چاہتی ہو؟''
تب للی کو احساس ہوا کہ وہ ایک جال میں پھنس گئی ہے۔ وہ بیٹھ گئی اور سر گھٹنوں میں دے کر سسکنے لگی۔ سیبل اسے دیکھتا رہا۔ یہ لڑکی اس کے لیے اجنبی نہیں تھی لیکن اب وہ اسے غور سے دیکھنے لگا۔ اس کے بال، اس کی رنگت اور اس کی ڈیل ڈول صلیبی لڑکیوں جیسی نہیں تھی۔ اسے معلوم تھا کہ صلیبیوں کے پاس مسلمانوں کی اغوا کی ہوئی لڑکیاں بھی ہیں۔ یہ بھی شاید مغویہ ہوگی لیکن اسے تو وہ تین سالوں سے خوش وخرم دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کے پاس بیٹھ گیا۔
''اگر مسلمان ہو تو بتا دو''۔ سیبل نے کہا۔ ''تمہیں شاید اغوا کیا گیا تھا''۔
''اور تم شہزادہ ارناط کو بتا کر انعام لو گے''۔ للی نے کہا… ''اور اسے بتائو گے کہ میں نے بھاگنے کی کوشش کی تھی''… اسے سیبل کے گلے میں ایک ڈوری لٹکتی نظر آئی۔ اس نے یہ ڈوری کھینچی تو چھوٹی سی صلیب ڈوری سے باندھی ہوئی باہر آگئی۔ للی نے کہا… ''اسے ہاتھ میں لے کرقسم کھائو کہ مجھے دھوکہ نہیں دو گے، رناط کو نہیں بتائو گے کہ میں نے تم پر تیر کیوں چلائے تھے''۔
سیبل اس کی اصلیت سمجھ گیا اور بولا۔ ''صلیب پر کھائی ہوئی قسم جھوٹی ہوگی''۔ اس نے صلیب کی ڈوری گلے سے اتاری اور صلیب پرے پھینک دی۔ کہنے لگا… ''مسلمان صلیب پر قسم نہیں کھایا کرتے''۔
للی نے چونک کر سیبل کو دیکھا جیسے اسے سیبل کے ا لفاظ پر یقین نہ آرہا ہو۔ اس نے صلیب کو دیکھا جو پرے زمین پر پڑی تھی۔ کوئی صلیبی کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، صلیب کی توہین نہیں کرتا۔ سیبل کو بہرحال یقین آگیا تھا کہ للی کسی مسلمان کی بیٹی ہے۔
''میں نے تم پر اپنا راز فاش کردیا ہے''۔ سیبل نے کہا… ''اب تم مجھے بتا دو کہ تمہیں کب اور کہاں سے اغوا کیا گیا تھا''۔
''میں حج کعبہ سے اپنے والدین کے ساتھ مصر کو واپس جارہی تھی''۔ للی نے ڈرے ہوئے بچے کی طرح کہا… ''بہت بڑا قافلہ تھا۔ اس وقت میری عمر سولہ سترہ سال تھی۔ چار ساڑھے چار سال گزر گئے ہیں، کرک کے قریب ان کافروں نے قافلے پر حملہ کیا اور مال واسباب لوٹ لیا۔ انہوں نے بہت کشت وخون کیا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ میرے والدین مارے گئے تھے یا زندہ ہیں۔ یہ کافر مجھے اپنے ساتھ لے آئے۔ یہ شاید میری بدقسمتی تھی کہ میں اتنی خوبصورت تھی کہ والئی کرک شہزادہ ارناط نے مجھے پسند کرلیا اور اپنے لیے رکھ لیا۔ اگر میں اتنی خوبصورت نہ ہوتی تو معلوم نہیں کیسے کیسے درندوں کے ہاتھوں اب تک مرچکی ہوتی''…
''شہزادہ ارناط کے آگے میں بہت روئی مگر بے کار تھا۔ اس نے کہا کہ میں اپنی بادشاہی چھوڑ دوں گا، تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ پھر اس نے مجھے شہزادیوں کی طرح رکھا۔ اس نے میرے ساتھ شادی نہیں کی اور مجھے اپنا مذہب قبول کرنے کو بھی نہیں کہا۔ میں اس کی عیاشی کا ذریعہ بنی رہی۔ اس کے پاس کئی اور جوان لڑکیاں تھیں۔ وہ میری دشمن بن گئیں لیکن ارناط صرف مجھے ساتھ رکھتا اور میری بات مانتا تھا۔ میں نے اپنی اس حالت کو قبول کرلیا۔ میں اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ عورت کی قسمت یہی ہوتی ہے کہ جس کے قبضے میں آجائے، اس کی ملکیت اور اسی کی غلام ہوتی ہے''۔
وہ بولتے بولتے چپ ہوگئی۔ سیبل کو غور سے دیکھ کر بولی… ''کیا تم یہ ساری باتیں شہزادہ ارناط کو سنا دو گے؟ پھر وہ مجھے کیا سزا دے گا؟''۔
''اگر وہ واقعی سیبل ہوتا تو یہی کرتا جو تمہیں ڈر ہے''۔ بگھی بان نے کہا… ''میں شامی مسلمان ہوں۔ میرا نام بکر بن محمد ہے''۔
: ''تم ان جاسوسوں میں سے تو نہیں جن کے متعلق ارناط کہا کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں چھپے ہوئے ہیں؟'' لڑکی نے پوچھا اور بولی… ''میرا نام کلثوم ہوا کرتا تھا''۔
''میں جو کچھ بھی ہوں''۔ بکر نے جواب دیا۔ ''مسلمان ہوں، میں تمہیں دھوکہ نہیں دوں گا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ ایک اغوا کی ہوئی مسلمان لڑکی کی ملاقات کسی ایسے مسلمان سے ہوگئی جو صلیبیوں کے پاس عیسائیوں کے بہروپ میں ملازم تھا۔ ایسے واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں۔ یہاں تک بھی ہوا ہے کہ بھائی جاسوس بن کر صلیبیوں کے کسی شہر میں گیا تو وہاں اس کی ملاقات اپنی بہن سے ہوگئی جو بہت عرصہ پہلے تمہاری طرح اغوا ہوئی تھی۔ حیران نہ ہو کلثوم! تم حج کعبہ سے واپس آرہی تھی۔ خدا نے تمہارا حج قبول کرلیا ہے۔ میں عالم فاضل نہیں کہ تمہیں بتائوں کہ خدا نے تمہیں یہ سزا کیوں دی ہے۔ البتہ اب یوں نظر آتا ہے جیسے خدا نے تم سے کوئی نیکی کا کام کرانے کے لیے اس جہنم میں پھینکا تھا… تم صرف فرار ہونا چاہتی ہو یا فرار کا کوئی مقصد بھی ہے؟''
''بہت بڑا مقصد''۔ کلثوم نے کہا… ''تم شاید نہیں جانتے کہ عکرہ کے پادری نے ان صلیبیوں کو یہاں کیوں بلایا ہے۔ رات ارناط جب اپنے خیمے میں آیا تو وہ نشے میں جھوم رہا تھا۔ اس نے مجھے بازوئوں پر اٹھا لیا اور بولا… ''بہت بڑے ملک کی ملکہ بننے والی ہو، صلاح الدین ایوبی چند دنوں کا مہمان ہے۔ وہ ہمارے جال میں آرہا ہے۔ بہت جلدی آرہا ہے''… میں نے خوشی کا اظہار کیا اور اس سے پوچھا کہ ان کا منصوبہ کیا ہے۔ اس نے مجھے پوری تفصیل سے بتا دیا کہ یہاں جتنے صلیبی حکمران آئے ہیں، انہوں نے صلیب پر ہاتھ رکھ کر اتحاد اور ایک دوسرے سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے''۔
''میرے فرار کا مقصد یہی ہے کہ سلطان ایوبی تک یہ خبر پہنچائوں کہ صلیبیوں کے ارادے اور منصوبے کیا ہیں اور انہوں نے کتنی فوج جمع کرلی ہے اور اسے کہاں کہاں تقسیم کرکے پھیلایا ہے۔ ارناط نے مجھے بتایا ہے کہ یہ لوگ حملہ کرنے نہیں جائیں گے بلکہ سلطان ایوبی کو حملے کاموقعہ دیں گے تاکہ وہ اپنے مستقر سے دور آجائے اور اس کی رسد کے راستے لمبے ہوجائیں۔ ان کا ارادہ یہ بھی ہے کہ اگر سلطان ایوبی نے کچھ عرصے تک حملہ نہ کیا تو یہ لوگ تین اطراف سے پیش قدمی اور یلغار کریں گے''۔
''تمہیں اچانک یہ خیال کیوں آیا ہے کہ خبر سلطان ایوبی تک پہنچنی چاہیے؟'' بکر بن محمد نے پوچھا اور اسے بتایا… ''کلثوم! میں اسی میدان کا مجاہد ہوں، اگر میں تمہیں کہوں کہ تم ارناط کے کہنے پر سلطان ایوبی کو غلط خبر دینے جارہی ہو تاکہ وہ گمراہ ہوجائے تو اس کا کیا جواب دو گی؟''
''یہ کہ تم کم عقل آدمی ہو''… کلثوم نے جواب دیا… ''اگر تم سلطان ایوبی کے جاسوس ہو تو تم بے وقوف جاسوس ہو۔ تم اپنی فوجوں کو صلیبیوں کے ہاتھوں مروائو گے۔ اگر ارناط سلطان ایوبی کو گمراہ کرنے کی سوچتا تو وہ کوئی اور ذریعہ اختیار کرسکتا تھا؟ اگر وہ یہ کام مجھ سے ہی کرانا چاہتا تو مجھے رات کو بگھی پر بٹھا کر مسلمانوں کے علاقوں کے قریب نہ چھوڑ آتا… سنو بکر! غور سے سنو۔ میں نے تم پر پہلا جو تیر چلایا تھا، اس کا ارادہ اچانک بجلی کی طرح میرے دماغ میں آیا تھا۔ میں تو صرف سیر کے لیے نکلی تھی۔ یہ تم تھے جس نے کہا تھا کہ تیروکمان ساتھ لے چلیں، یہاں شکار ہوگا''…
''یہاں آکر میں نے تم سے مسلمانوں کی سرحد اور دمشق کے جو راستے پوچھے، وہ یہ معلوم کرنے کے لیے پوچھے تھے کہ اس سرحد سے کتنی دور ہوں اور کیا میں آسانی سے وہاں تک پہنچ سکتی ہوں؟ تم نے جب بتایا کہ وہ علاقہ چند میل دور ہے تو میں سوچنے لگی کہ تمہیں کوئی لالچ دے کر ساتھ لے چلوں لیکن تمہیں میں عیسائی سمجھتی رہی اور بالکل امید نہیں رکھتی تھی کہ تم میری مدد کروں گے بلکہ امید یہ تھی کہ تم ارناط سے انعام لینے کے لیے اسے بتا دو گے کہ یہ لڑکی مسلمانوں کی جاسوس ہے۔ میرے لیے کوئی راستہ نہیں تھا۔ تم مجھ سے تھوڑی دور درخت کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوگئے تو میں نے درخت پر ایک پرندے پر تیر چلانے کے لیے تیر کمان میں ڈالا۔ اس وقت میری نظریں تمہاری پیٹھ پر جم گئیں''…
''تب مجھے اچانک خیال آیا کہ تم اتنے قریب ہو کہ تیر تمہاری پیٹھ میں گہرا اتر جائے گا اور مجھے دوسرا تیر چلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تم مرجائو گے تو میں بگھی بھگا کر اس راستے پر ہولوں گی جو تم نے مجھے سمجھا دیا تھا۔ میں نے کوئی اور خطرہ سوچا ہی نہیں تھا۔ شاید مجھ میں عقل کم اور جذبات زیادہ تھے اور ان جذبات میں انتقام کا جذبہ زیادہ تھا۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے تیر چلا دیا۔ مجھ میں یہ اتنی سی بھی عقل نہ رہی کہ تمہیں کہہ دیتی کہ تیر غلطی سے نکل گیا ہے۔ تم فوراً مان لیتے کیونکہ تم جانتے ہو کہ میں نے کبھی کمان ہاتھ میں نہیں لی تھی۔ میں نے یہی راہ نجات دیکھی کہ تمہیں مار ہی ڈالوں اور مسلمانوں کے علاقے کی طرف بھاگ جائوں مگر میں کامیاب نہ ہوسکی''۔
 ''اس سے پہلے تمہیں کبھی بھاگنے کا خیال نہیں آیا؟'' بکر بن محمد نے پوچھا۔

جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں