داستان ایمان فروشوں کی-135 - اردو ناول

Breaking

اتوار, جنوری 09, 2022

داستان ایمان فروشوں کی-135


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر135 ایوبی نے قسم کھائی تھی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صلاح الدین ایوبی کے چہرے پر اس روز رونق تھی اور آنکھوں میں وہ چمک جسے اس کی ہائی کمانڈ کے سالار اور اس کے قریب رہنے والے سول حکام بڑی اچھی طرح پہچانتے تھے۔ اس کے چہرے پر ایسی رونق اور آنکھوں میں ایسی چمک اس وقت آیا کرتی تھی، جب وہ کوئی تاریخی فیصلہ کرچکتا تھا۔ وہ محرم ٥٨٣ہجری (مارچ ١١٨٧ئ) کا مہینہ تھا۔ سلطان ایوبی دمشق میں تھا۔ وہ ان تمام مسلمان امرائ، حکمرانوں اور قلعے داروں کو اپنا مطیع اور اتحادی بنا چکا تھا جو صلیبیوں کے دوست بن کر اس کے خلاف محاذ آراء ہوگئے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم حلب اور موصل کے والئی عزالدین اور عمادالدین تھے۔ انہوں نے برسوں پر پھیلی ہوئی خانہ جنگی کے بعد سلطان ایوبی کے آگے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ ان کی فوجیں سلطان ایوبی کی مشترکہ کمان کے تحت آگئی تھیں۔
وہ دمشق اس وقت گیا تھا جب اس نے یہ عہد پورا کرلیا تھا کہ فلسطین کی طرف پیش قدمی سے پہلے ایمان فروشوں کو گھٹنوں بٹھائوں گا تا کہ ان میں سے کوئی بھی اس کے اور قبلہ اول کے درمیان حائل نہ ہوسکے۔ ان غداروں کوبزور شمشیر راہ راست پر لاکر سلطان ایوبی نے اپنی زبان سے یہ نہیں کہا تھا کہ فاتح ہوں۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اسلام کی تاریخ کایہ باب بڑا ہی شرمناک ہوگا جس میں یہ واقعات بیان کیے جائیں گے کہ صلاح الدین ایوبی کا دور سیاہ دور تھا جب صلیبی بیت المقدس پر قابض تھے اور مسلمان آپس میں لڑ رہے تھے۔ البتہ وہ ضرور کہا کرتا تھا کہ غداروں کو اپنا اتحادی بنا کر ہم نے صلیبیوں کے عزائم تباہ کردئیے ہیں۔
اس روز دمشق میں اس نے اپنی ہائی کمانڈ کے سالاروں، مشیروں اور فوج سے تعلق رکھنے والے غیرفوجی حکام کو کانفرنس کے لیے بلایا تو سب نے سلطان کے چہرے پر مخصوص رونق اور آنکھوں میں وہ چمک دیکھی جو کبھی کبھی دیکھنے میں آیا کرتی تھی ۔ سب سمجھ گئے کہ ان کے سلطان نے اپنی کو روانہ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس میں کسی کو شک نہ تھا کہ اُس کی منزل بیت المقدس ہے۔ اب انہیں اس کی زبان سے یہ سننا تھا کہ کس روز اور کس وقت کوچ ہوگا اور کوچ کس ترتیب سے ہوگا اور راستہ کون سا ہوگا۔
''میرے دوستو! میرے رفیقو!''… سلطان صلاح الدین ایوبی ٹھہری ہوئی آواز میں ان سے مخاطب ہوا… ''آپ سب یقینا میری تائید کریں گے کہ ہم بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کے لیے تیار ہیں۔ آج میں آپ سے جو باتیں کروں گا اور آپ اپنے شکوک رفع کرنے کے لیے مجھ سے جو سوال پوچھیں گے اور جو اعتراض کریں گے وہ ہماری تاریخ ہوگی۔ ہمارے الفاظ اور ہمارے عہد تاریخ کی تحریر بنیں گے اور یہ تحریر ہماری آخری نسل تک جائے گی۔ یہ بھی نہ بھولنا کہ ہم اس دنیا میں یہ تحریر چھوڑ کر جائیں گے اور خدا کے حضور اپنے اعمال لے کرجائیں گے۔ یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے آگے اور خدائے ذوالجلال کے آگے شرمسار ہونا ہے یا سرخرو۔ فتح کی ضمانت ہم میں سے کوئی بھی نہیں دے سکتا مگر ہم سب یہ عہد کرسکتے ہیں کہ ہم لڑیں گے، مریں گے، واپس نہیں آئیں گے''۔
سلطان ایوبی نے سب کو دیکھا۔ اس کی نگاہیں سب پر گھومیں۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ اس نے کہا ''میں تمہیں خوش فہمیوں میں مبتلا نہیں کروں گا لیکن آپ میں سے کسی کے دل میں یہ ڈر ہو کہ صلیبیوں کے پاس جتنی فوج ہے ہم اس سے آدھی فوج تیار کرسکتے ہیں اور ہم اتنی دور لڑنے جارہے ہیں۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہم ہمیشہ تھوڑی سی کم نہیں بلکہ بہت کم تعداد سے کئی گنا زیادہ دشمن سے لڑے اور فتح پائی ہے۔ جنگ تعداد سے نہیں جذبے اور عقل سے لڑی جاتی ہے۔ ایمان مضبوط ہو تو بازو، تلواریں اور دل بھی مضبوط ہوجاتے ہیں۔ ہمارے پاس ایمان کی کمی نہیں، عقل کی بھی کمی نہیں۔ اپنے ایمان کو مضبوط رکھیں اور عقل کو استعمال کریں''۔
''ہم میں کوئی ایک بھی نہیں جو اپنی اور دشمن کی فوجی طاقت کا موازنہ کررہا ہو''… چھاپہ ماروں کے سالار صارم مصری نے اٹھ کر کہا اور اپنے ساتھیوں پر نظریں دوڑائیں۔ ہر ایک نے اس کی تائید کی۔ صارم مصری نے کہا۔ ''البتہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہم بیت المقدس تک کس طرف سے اور کس انداز سے پہنچیں گے۔ احتیاط لازمی ہے۔ ہم تکبر سے گریز اور حقیقت کو تسلیم کریں گے''۔
 ''میں نے آپ کو یہی بتانے کے لیے بلایا ہے''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں نے پیش قدمی اور جنگ کا منصوبہ آپ کے مشوروں سے تیار کیا ہے اور میں نے کئی راتوں کی سوچ کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ہماری پہلی منزل حطین ہوگی۔ آپ سب حطین کی جنگی اہمیت سے آگاہ ہیں، وہاں مجھے وہ زمین مل جائے گی جہاں میں صلیبیوں کو لڑانا چاہتا ہوں۔ جنگ کا یہ اصول جو میں آپ کو پہلے بھی کئی بار بتا چکا ہوں اپنے ذہن پر نقش کرلو کہ جنگ میں آپ کی بہترین دوست وہ زمین ہے جس پر آپ دشمن کو لاکر لڑاتے ہیں۔ زمین ایسی منتخب کرو جو آپ کو فائدے اور دشمن کو نقصان دے۔ یہ زمین ہمیں حطین کے علاقے میں میسر آئے گی، بشرطیکہ آپ برق رفتاری، رازداری اور پہل کاری سے اس زمین تک پہنچ جائیں اور دشمن کو تمام فائدوں سے محروم کردیں''…
''حطین کے علاقے میں بلندیاں بھی ہیں اور پانی بھی۔ آپ بلندیوں اور پانیوں پر قبضہ کرلیں تو سمجھ لیں کہ آپ آدھی جنگ جیت گئے لیکن دشمن کو ایسی زمین پر لانا آسان نہیں۔ اگر ہمارے منصوبے کی ایک بھی کڑی پر عمل نہ ہوسکا تو سارا منصوبہ تباہ ہوجائے گا اور تباہی ہمیں وہاں تک لے جائے گی جہاں سے واپسی ناممکن ہوگی۔ میرا خیال ہے کہ ہم اس ماہ کے وسط دمشق سے کوچ کرسکیں گے۔ میں نے حلب اور مصر قاصد بھیج دئیے ہیں۔ انہیں تیز رفتاری سے، کم سے کم پڑائو کرکے فوجیں بھیجنی ہیں، جو ہمیں راستے میں ملیں گی۔ ہمیں اپنی تمام فوجوں کو ایک جگہ جمع کرنا ہے۔ باہر سے آنے والی فوج اور یہاں کی فوج کو ملا کر اور ان کے سالاروں کو مکمل منصوبہ بتا کر فوجوں کی تقسیم کرنی ہے۔ ہماری پیش قدمی فوج کے مختلف حصوں کی پیش قدمی ہوگی۔ ہر حصے کا راستہ الگ ہوگا''…
''میں نے راز داری برقرار رکھنے کا انتظام حسب معمول کردیا ہے۔ آپ کے سوا کسی اور کو، کسی کمان دار اور کسی سپاہی کو معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ ہمارے جاسوس دشمن کے علاقے میں موجود ہیں۔ وہ دشمن کی ذرا ذرا سی حرکت کی اطلاعیں باقاعدگی سے بھیج رہے ہیں۔ اب ضرورت یہ ہے کہ دشمن کے ان جاسوسوں کو اندھا، بہرہ اور گمراہ کردیا جائے جو ہمارے علاقے میں موجود ہیں۔ حسن بن عبداللہ نے اس کا بھی انتظام کردیا ہے۔ ایک بات میں آپ کو ابھی بتا دینا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ میرے ساتھ ہوگا جسے میں کرک لے جائوں گا''۔
سلطان ایوبی اچانک خاموش ہوگیا۔ اس کا سرجھک گیا، کچھ دیر بعد اس نے سرکو جھٹکا دے کر اوپر کیا اور بولا… ''چار سال گزرے میں نے ایک قسم کھائی تھی، مجھے یہ قسم پوری کرنی ہے''۔
٭ ٭ ٭
سلطان صلاح الدین ایوبی کی یہ قسم ایک تاریخی واقعہ تھا۔ اس نے کانفرنس میں چار سال پہلے کا یہ واقعہ سب کو یاد دلایا۔ اس سلسلے کی پہلی کہانیوں میں تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ صلیبی حکمران اخلاق اور کردار سے ایسے عاری تھے کہ مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے۔ یہ کام ان کی فوج کیا کرتی تھی جن دنوں حاجیوں کے قافلے حجاز کو جاتے اور واپس آتے تھے، ان دنوں صلیبی فوج کے دستے ان قافلوں کو لوٹنے کے لیے راستوں میں گھات لگاتے تھے۔ ایک صلیبی حکمران ارناط جو اس وقت کرک پر قابض تھا، یہ کام اپنے حکم اور اپنے خاص دستوں سے کرایا کرتا تھا۔ اپنے اس جرم پر وہ ناز بھی کیا کرتا اور حاجیوں کے قافلے کو لوٹ کر فخر سے اس کا ذکر کیا کرتا تھا جیسے اس نے مسلمانوں پر بہت بڑی فتح حاصل کی ہو۔ اس کی اس راہزنی کا ذکر صرف مسلمان مؤرخوں نے ہی نہیں کیا۔ یورپی مؤرخوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ وہ قافلوں کو لوٹنے کا انتظام کس طرح کیا کرتا تھا۔
٨٤۔١١٨٣ء میں اس کے ایک دستے نے حجاز سے مصر کو واپس جانے والے ح اجیوں کے ایک قافلے پر حملہ کیا اور لوٹ لیا تھا۔ ایک مصری وقائع نگار محمد فرید ابو حدید نے لکھا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کی بیٹی بھی اس قافلے میں تھی لیکن اور کسی مؤرخ یا اس وقت کے وقائع نگار نے یہ نہیں لکھا کہ اس قافلے میں سلطان ایوبی کی بیٹی تھی۔ قاضی بہائوالدین شداد کی ڈائری مستند دستاویز ہے کیونکہ وہ واقعات کا عینی شاہد ہے۔ البتہ ایک اشارہ ایک وقائع نگار کی تحریر سے ملتا ہے جو اس طرح ہے کہ جب سلطان ایوبی کو اطلاع ملی کہ ارناط کی فوج نے مصر کے ایک قافلے کو لوٹ لیا ہے تو سلطان ایوبی کی غضب ناک اور گرج دار آواز سنائی دی تھی… ''وہ میری بیٹی تھی۔ میں اس کا انتقام لوں گا۔ وہ میری بیٹی تھی''۔
: قافلے میں کوئی نوجوان لڑکی تھی جسے صلیبی اٹھا لے گئے تھے۔ سلطان ایوبی نے اسی وقت قسم کھائی تھی… ''ارناط کو میں آج سے اپنا ذاتی دشمن سمجھتا ہوں، میں قسم کھاتا ہوں کہ اس سے اپنے ہاتھوں انتقام لوں گا''۔
سب جانتے ہیں کہ ان کے سلطان نے اس انداز اور لب ولہجے میں کبھی بات نہیں کی۔ وہ بھڑک کر بات کرنے اور بڑ مارنے کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کی ہر بات فیصلہ ہوا کرتی تھی۔ اس نے جب انتقام کی قسم کھائی تو سب سمجھ گئے کہ یہ سلطان کا عزم اور فیصلہ ہے۔ یوں تو ہر صلیبی حکمران اسلام کا دشمن تھا لیکن ارناط اسلام کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرتا تھا۔ مسلمان قیدیوں کو سامنے کھڑا کرکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وہ دشنام طرازی کرتا اور کہا کرتا …'' بلائو اپنے ربِ کعبہ کو تمہاری مدد کرے۔ پڑھو اپنے رسول کا کلمہ کہ تم آزاد ہوجائے ''… اور وہ قہقہے لگایا کرتا تھا۔ اس کی اس عادت سے سلطان ایوبی بھی واقف تھا، اس لیے وہ ارناط کا جب نام لیتا تو نفرت کا بھرپور اظہار کیا کرتا تھا۔
آج چار سال بعد سلطان ایوبی جب صلیبیوں کے خلاف فوج کشی کی ہدایات اپنے سالاروں کو دے رہا تھا تو اس نے یہ سارا واقعہ یاد دلا کر کہا… ''اس بدبخت کافر (ارناط) سے مجھے اپنے ہاتھوں سے انتقام لینا ہے۔ اللہ مجھے یہ موقعہ اور ہمت عطا فرمائے کہ میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک کا انتقام لے سکوں''… اس نے سالاروں کو مزید ہدایات دیتے ہوئے کہا… ''مجھے امید ہے کہ ہم تین ماہ بعد اس موسم میں حطین کے علاقے میں پہنچیں گے جب سورج کے شعلے پانی کے قطروں کو ریت کے ذروں میں بدل دیتے ہیں اور جب ریت کے یہ جلتے ہوئے ذرے انسانوں کو بھون ڈالتے ہیں اور جب ریگزار میں سراب اور آسمانوں کو اٹھنے والے ریت کے بلولوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا، میں صلیبیوں کو اس وقت لڑائوں گا جب سورج سر پر ہوگا۔ صلیبی لوہے کے خودوں اور زرہ بکتر میں جل جائیں گے۔ لوہے کا جو لباس وہ تیروں، تلواروں اور برچھیوں سے بچنے کے لیے پہنتے ہیں، وہ ہر صلیبی کا اپنا اپنا جہنم بن جائے گا''۔
مؤرخوں اور جنگ کے یورپی ماہرین اور مبصروں نے سلطان ایوبی کے اس اقدام کی تعریف کی ہے کہ اس نے جنگ کے لیے جس موسم کا انتخاب کیا وہ جون جولائی کے دن تھے، جب ریگزار بھٹی سے نکالی ہوئی سل کی طرح گرم ہوتا ہے۔ صلیبی فوجی آہنی چادروں کے لباس میں محفوظ ہوتے تھے۔ ان کے نائٹ (سردار) سر سے پائوں تک زرہ بکتر میں ملبوس ہوتے تھے۔ تیر اور تلوار کا ان پر کچھ اثر نہیں ہوتا تھا مگر سلطان ایوبی نے لوہے کا یہ لباس ان کی بہت بڑی کمزوری بنا دیا تھا۔ ایک تو وہ چھاپہ مار قسم کی جنگ لڑتا تھا۔ تھوڑی سی نفری سے پہلوئوں پر برق رفتار حملے کرتا اور حملے آور دستے ضرب لگا کر وہاں رکتے نہیں تھے۔ اس چال سے صلیبی فوج کو پھیلنا پڑتا اور رفتار تیز کرنی پڑتی لیکن زرہ بکتر کا وزن رفتار اتنی نہیں ہونے دیتا تھا، جتنی سلطان ایوبی کے دستوں کی ہوتی تھی۔
سلطان ایوبی نے زرہ بکتر کا دوسرا توڑ یہ سوچا کہ وہ اس وقت جنگ شروع کرتا تھا جب سورج سر پر اور ریگستان شعلہ بنا ہوتا تھا۔ زرہ بکتر تنور کی طرح تپ جاتی تھی۔ پیاس سے جسم خشک ہوجاتا تھا اور پانی پر سلطان ایوبی جنگ سے پہلے قبضہ کرلیتا تھا۔ ریگستان کی جھلسا دینے والی تپش اسلامی فوج کے لیے بھی دشواریاں پیدا کرتی تھی، لیکن اس کے لباس ہلکے پھلکے ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ سلطان ایوبی کی ٹریننگ بڑی سخت تھی۔ وہ گھوڑوں، اونٹوں اور تمام فوج کو لمبے لمبے عرصے کے لیے ریگستان میں رکھتا اور خود بھی ان کے ساتھ رہتا تھا۔ اس نے فوج کو بھوکا پیاس رہنے کی ٹریننگ بھی دے رکھی تھی۔ رمضان کے مہینے میں وہ ٹریننگ اور جنگی مشقیں زیادہ کیا کرتا تھا کہ اس مبارک مہینے میں خدائے ذوالجلال اپنے ہاتھوں ہماری تربیت کرتے ہیں۔
جسمانی ٹریننگ کے علاوہ اس نے سپاہیوں کی ذہنی بلکہ روحانی تربیت کا بھی انتظام کررکھا تھا۔ سپاہیوں کو یہ ذہن نشین کرایا جاتا تھا کہ وہ اللہ کے سپاہی اور دین اسلام کے محافظ ہیں، کسی بادشاہ یا سلطان کی فوج کے ملازم نہیں۔ وہ مال غنیمت سپاہیوں میں تقسیم کرتا تھا لیکن انہیں تاثر یہ دیا جاتا تھا کہ جنگ مال غنیمت کے لیے نہیں لڑی جاتی اور مال غنیمت جہاد کا انعام بھی نہیں۔ انعام اللہ دیتا ہے۔ سب سے بڑی چیز غیرت تھی جو اس نے ساری فوج میں پیدا کررکھی تھی۔ وہ سب سے زیادہ ذکر ان مسلمان لڑکیوں کا کرتا تھا جنہیں صلیبی اٹھا لے جاتے تھے اور ان خواتین کا بھی جو صلیبیوں کے مقبوضہ علاقوں میں صلیبیوں کی درندگی کا شکار ہورہی تھیں۔
''قوم کے شہیدوں کو اور قوم کی مظلوم بیٹیوں کو بھول جانے والی قوم کی قسمت میں کفار کی غلامی لکھ دی جاتی ہے''… یہ الفاظ سلطان ایوبی کی زبان پر رہتے تھے۔ وہ سپاہیوں میں گھومتا پھرتا رہتا تھا، ان کی گپ شپ اور ان کی کھیل کود میں شامل ہوجایا 
: کرتا تھا۔ ان سے وہ کہا کرتا تھا… ''انتقام فوج لیا کرتی ہے، اگر فوج نے فرض ادا نہ کیا تو اس کے لیے اس دنیا میں بھی ذلت ہے اور اگلی دنیا میں بھی''۔
٭ ٭ ٭
سامنے صلیب الصلبوت رکھی تھی اور اس کے پاس اس صلیب کا محافظ کھڑا تھا جو عکرہ کا بڑا پادری تھا۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق یہ وہ اصل صلیب تھی جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس چوبی صلیب پر ابھی تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خون کے نشان موجود ہیں۔ اسے صلیب اعظم بھی کہتے ہیں۔ اسی لیے عکرہ کا پادری ''محافظ صلیب اعظم'' کہلاتا تھا اور اس کا حکم بادشاہوں کے حکم سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ بادشاہ بھی اس کے حکم کے پابند ہوتے تھے۔ عیسائیوں اور یہودی لڑکیوں کو اسی کی اجازت سے مسلمانوں کے علاقوں میں جاسوسی، کردار کشی اور نظریاتی تخریب کاری کے لیے بھیجا جاتا تھا جو لڑکی اس کام کی ٹریننگ مکمل کرکے باہر بھیج جاتی، اسے صلیب کا محافظ اعظم اپنی دعائوں کے ساتھ رخصت کیا کرتا تھا۔
ان لڑکیوں سے صلیب الصلبوت پر ہاتھ رکھوا کر وفاداری کا اور صلیب کو دھوکہ نہ دینے کا حلف لیا جاتا تھا۔ ایسا ہی حلف صلیبی فوج کے ہر افسر اور ہر سپاہی سے بھی لیا جاتا تھا۔ اس کے بعد ایسی ہی ایک چھوٹی سی صلیب اس کے گلے میں لٹکا دی جاتی تھی۔
ناصرہ کے مقام پر صلیبی حکمران جمع تھے۔ ان میں گائی آف لوزیناں، ریمانڈ آف تریپولی، گرینڈ ماسٹر گراڈ، مائونٹ فیرت، ہمفرے آف توران، امارلک اور شہزادہ ارناط آف کرک قابل ذکر ہیں… اور وہاں عکرہ کا پادری ''محافظ صلیب اعظم'' بھی موجود تھا۔ ان کے لیے جو شامیانے اور قناتیں لگائی گئی تھی، وہ کپڑوں کا ایک خوش نما محل تھا۔ محل کی طرح اس کے کمرے، برآمدے اور غلام گردشیں تھیں، رنگا رنگ روشنی والے فانوسوں کی روشنی نے اسے مرمر اور خارا محلات سے زیادہ حسین بنا رکھا تھا۔ اس کے اردگرد رہائشی شامیانوں اور قناتوں کے کمرے تھے اور ان کے اردگرد صلیبی نائٹوں کے خیمے اور ان کی فوج کے منتخب دستے خیمہ زن تھے۔ شراب کے مٹکوں کے ساتھ ان حسین اور دلکش لڑکیوں کی کچھ تعداد بھی موجود تھی جن کا طلسماتی حسن اور شوخیاں بھائی کو بھائی اور باپ کو بیٹے کا دشمن بنا دیتی تھیں۔
ایک شامیانے تلے جس پر پختہ محل کے کمرے کا گمان ہوتا تھا، صلیب الصلبوت رکھی ہوئی تھی ا ور اس کے پاس عکرہ کا پادری کھڑا تھا۔ اس کے سامنے صلیبی حکمران اور ان کے جرنیل اور منتخب نائٹ بیٹھے تھے۔ سب کو معلوم تھا کہ یہ ایک تاریخی اجتماع ہے اور تاریخ کا ایک نیا باب لکھا جانے لگا ہے۔ اس باب کا عنوان تھا … ''صلاح الدین ایوبی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردو''۔
''صلیب کے محافظو!''… عکرہ کے پادری نے کہا… ''یہ ہے وہ صلیب جس پر تم سب نے ہاتھ رکھ کر حلف اٹھایا تھا۔ آج یہ صلیب تمہارے سامنے اس لیے عکرہ سے لاکر رکھی گئی ہے کہ اس کے ساتھ تم نے جو عہد کیا تھا وہ تمہارے دلوں میں تازہ ہوجائے۔ اب تمہیں ایک خونریز اور فیصلہ کن جنگ کے لیے تیار ہونا ہے۔ یہ جنگ تمہیں لڑنی ہے۔ تم سب جنگجو ہو، جرنیل ہو، تمہاری عمر میدان جنگ میں گزر گئی ہے۔ میں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں۔ میں تمہارے مذہب کا پیشوا ہوں۔ میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی کو شکست دے کر دنیائے عرب پر صلیب کی حکمرانی قائم کرنی ہے۔ یروشلم تو ہے ہی ہمارا، یہ مت بھولو کہ مکہ اور مدینہ پر بھی قبضہ کرنا ہے اور اس مقدس صلیب کو مسلمانوں کے خانہ کعبہ کے اوپر رکھنا اور اسے یسوع مسیح کی عبادت گاہ بنانا ہے''…
''یاد رکھو کہ تم مدینہ سے تین میل دور تک پہنچ گئے تھے مگر مسلمانوں نے تمہیں اس سے آگے نہ بڑھنے دیا۔ تمہیں بھی اسی جنون سے لڑنا ہے جس جنون سے مسلمان اپنے کعبے کے تحفظ کے لیے لڑے تھے۔ صلاح الدین ایوبی کی نظریں یروشلم پر لگی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ یہ بیت المقدس ہے اور یہاں کا قبلۂ اول ہے۔ اگر اس سے یروشلم کو بچانا چاہتے ہو تو نظریں مکہ پر رکھو۔ ذہن میں یہ یاد رکھو کہ ہماری جنگ صلاح الدین ایوبی سے نہیں، یہ صلیب اور اسلام کی جنگ ہے۔ یہ دو مذہبوں کی، دو عقیدوں کی جنگ ہے۔ یہ جنگ ہم نہ جیت سکے تو ہماری اگلی نسل لڑے گی۔ وہ اسلام کا خاتمہ نہ کرسکی تو اس سے اگلی نسل لڑے گی، تاآنکہ دونوں میں سے ایک مذہب ختم ہوجائے گا۔ خاتمہ اسلام کا ہوگا اور ساری دنیا پر صلیب کی حکمرانی ہوگی''…
''ہم نے مسلمانوں کو شکست دینے کے لیے دوسرے طریقے بھی اختیار کیے ہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ تم سب کو یاد ہوگا کہ ہم اس مہم میں کتنی لڑکیاں ضائع کرچکے ہیں۔ ہم بے شمار دولت اور اسلحہ بھی ضائع کرچکے ہیں جو مسلمان امراء کو صلاح الدین ایوبی کے خلاف دیتے رہے۔ ہم نے ان لڑکیوں اور زروجواہرات سے یہ حاصل کیا ہے کہ مسلمانوں میں شراب اور عیاشی کی عادت پیدا کردی ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ہم چھ سات سال انہیں آپس میں لڑاتے رہے۔ 
 ان کی اس خانہ جنگی سے ہم نے یہ فائدہ ضرور اٹھایا ہے کہ مسلمانوں کی جنگی قوت خاصی حد تک ضائع کردی ہے اور سلطان ایوبی کے بہترین اور تجربہ کار سپاہی اور ان کے کمانڈر خانہ جنگی میں مروا دئیے ہیں۔ اس خانہ جنگی سے ہم نے یہ فائدہ بھی اٹھایا ہے کہ سات آٹھ سال صلاح الدین ایوبی کو اس کے اپنے علاقوں سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ اس عرصے میں ہم نے جنگی تیاریاں مکمل کرلیں اور یروشلم کا دفاع اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے لیے ان راستوں تک پہنچنا جو یروشلم کو جاتے ہیں۔ ناممکن ہوگیا ہے''…
''مگر اس نے وہ کیفیت پھر حاصل کرلی ہے جو ان کی خانہ جنگی سے پہلے تھی۔ حلب اور موصل کی فوجیں بھی اسے مل گئی ہیں۔ تمام مسلمان امراء اس کے حامی ہوگئے ہیں۔مظفرالدین اور ککبوری جیسے سالار جو اس کے خلاف لڑے اور ہمارے دوست بن گئے تھے، اس کے پاس چلے گئے ہیں۔ غداروں کو اس نے اتنا کمزور اور بے بس کردیا ہے کہ وہ اب ہمارے کسی کام کے نہیں رہے۔ 
جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں