داستان ایمان فروشوں کی -134 - اردو ناول

Breaking

اتوار, جنوری 09, 2022

داستان ایمان فروشوں کی -134


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر134 نہ میں تمہاری، نہ مصر تمہارا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہر لمحہ ڈر تھا کہ کہیں نہ کہیں سے کوئی آدمی نکل آئے گا یا کہیں سے تیر آئے گا… کچھ بھی نہ ہوا۔ کشتی پہاڑیوں کے تنگ راستے سے نکل گئی اور دریا کا شور شروع ہوگیا۔''اللہ کا نام لو اور ایک چپو تم سنبھال لو''… حبیب القدوس نے زہرہ سے کہا… ''تم جہاد میں حصہ لینے کی خواہش مند رہتی تھی۔ اللہ نے تمہیں موقعہ دے دیا ہے۔ ہم ابھی خطرے سے نکلے نہیں۔ کشتی کو دریا کے درمیان لے چلتے ہیں''۔
ایک چپو زہرہ نے اور دوسرا حبیب القدوس نے لے لیا اور دونوں کشتی کھینچنے لگے۔ پہاڑیوں کے سیاہ بھوت پیچھے ہٹنے اور چھوٹے ہونے لگے۔ ان دنوں دریائے نیل کنارے سے کنارے تک بھرا ہوا اور پورے جوبن پر تھا۔ کناروں کے ساتھ ساتھ بہائو پرسکون تھا، درمیان میں بہت تیز اور سرکش لہریں اٹھ رہی تھیں۔ حبیب القدوس کو وہاں تک نہیں جانا چاہیے تھا لیکن کنارے کے ساتھ ساتھ جانا بھی پرخطر تھا۔ جونہی کشتی تیزبہائو میں پہنچی، یوں لگا جیسے کسی قوت نے اسے اپنی طرف گھسیٹ لیا ہو۔ کشتی تیزی سے بہنے، اوپر اٹھنے اورگرنے لگی۔ حبیب القدوس نے زہرہ سے کہا… ''گھبرانہ جانا۔ ہم ڈوبیں گے نہیں۔ میں ذرا سمت دیکھ لوں''۔
''آپ میری فکر نہ کریں''… زہرہ نے کہا… ''ڈوب گئے تو کیا ہوجائے گا۔ ان کافروں کی قید سے تو نکل آئے ہیں''۔
حبیب القدوس نے آنکھیں سکیڑ کر پہاڑوں کی طرف دیکھا جو اب زمین کے ابھار کی طرح نظر آرہے تھے، پھر اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور پرجوش لہجے میں بولا… ''میں اس جگہ کو پہچانتا ہوں۔ اس پہاڑی خطے کی صحرا والی طرف اپنے دستوں کو پہاڑی جنگ کی مشق کراچکا ہوں۔ ادھر دریا والی طرف سے میں واقف نہیں تھا۔ ہم سیدھے قاہرہ جارہے ہیں۔ نیل ہمیں بڑی تیزی سے قاہرہ لے جارہا ہے… اللہ کا شکر ادا کرو، زہرہ۔ یہ خدائی مدد ہے۔ اللہ نیتوں کو پہچانتا ہے… لیکن ہمیں قاہرہ سے پہلے ایک اور جگہ رکنا ہے۔ کچھ دور آگے دریا کا موڑ ہے۔ اس کے قریب ہماری فوج کی ایک چوکی ہے۔ دریائی گشت کے لیے ان کے پاس کشتیاں ہیں۔ اس چوکی کی نفری سے میں ان سب آدمیوں کو پکڑ سکوں گا مگر وہ بیدار ہوجائیں گے''۔
''مجھے امید ہے کہ کل دوپہر تک ان میں سے کوئی بھی بیدار نہیں ہوسکے گا''… زہرہ نے کہا… ''میرے ہاتھ سے انہوں نے شراب خاصی زیادہ پی لی تھی اور میں نے آخری بھری ہوئی صراحی سے انہیں جو ایک ایک پیالہ پلایا تھا، اس میں خاکی سے رنگ کا تھوڑا سا سفو ف ملا دیا تھا''۔
''وہ کیا تھا؟''
''ان لڑکیوں پر میں نے جس طرح ا عتماد پیدا کرلیا تھا، وہ تو آپ کو ہر رات تنہائی میں بتاتی رہی ہوں''… زہرہ نے کہا… ''کل کی بات ہے کہ انہوں نے حشیش دکھائی اور اس کا استعمال سمجھایا، پھر انہوں نے مجھے ایک ڈبیہ کھول کر یہ سفوف دکھایا اور کہا کہ بعض آدمیوں کو بے ہوش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ چٹکی بھر سفوف شربت میں یا پانی یا کھانے میں ملا دو تو آدمی بے ہوش ہوجاتا ہے۔ اسے جہاں جی چاہے، اٹھا لے جائو… آج رات جب میں شراب کے مٹکے سے آخری صراحی بھرنے گئی تو اس ڈبیہ سے آدھا سفوف اس میں ملا دیا۔ اگر اس کا اثر ویسا ہی ہے جیسا لڑکیوں نے بتایا ہے تو انہیں کل شام تک ہوش میں نہیں آنا چاہیے''۔
حبیب القدوس نے آنکھیں سکیڑ کر پہاڑوں کی طرف دیکھا اور پرجوش لہجے میں بولا… ''میں اس جگہ کو پہچانتا ہوں''۔ اس کے آنسو پھوٹ آئے۔ یہ جذبات کی شدت اور خراج تحسین کے آنسو تھے۔ اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا… ''میں نے تمہیں بہت سخت آزمائش میں ڈال دیا تھا زہرہ! میں نے تمہیں جس دنیا کا بھید لینے کو کہا تھا، وہ گناہوں کی غلیظ مگر بڑی حسین دنیا ہے۔ تم نے میرے لیے بہت بڑی قربانی دی ہے''۔
''آپ کے لیے نہیں اسلام کی عظمت کے لیے''… زہرہ نے کہا… ''میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے یہ مقدس فرض ادا کرنے کا موقعہ دیا۔ آپ شاید مجھ پر اعتبار نہ کریں، گناہوں کی پرکشش دنیا میں جاکر بھی اپنا دامن گناہ سے پاک رکھا ہے۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ مجھے یہاں لایا گیا تو انہوں نے مجھے آپ کے ساتھ تنہا رہنے دیا، ورنہ آپ مجھے بتا نہ سکتے کہ یہ لوگ آپ کو بغاوت کرانے کے لیے اغوا کرکے لائے ہیں اور مجھے ان لڑکیوں میں بے حیا اور شوخ لڑکی بن کر یہ ظاہر کرنا ہے کہ مجھے آپ سے نفرت ہے اور میں اس سے بھاگنا چاہتی ہوں۔ آپ نے جب مجھے ان لڑکیوں کی خصلتیں اور ان کے کمالات بتائے اور کہا کہ میں بھی ایسی ہی بن جائوں تو میں گھبرا گئی تھی، کیونکہ میں تو تصور میں بھی ایسا نہیں کرسکتی لیکن یہ بڑی ہی عجیب بات ہے کہ یہ حرکتیں اور یہ سب باتیں مجھ سے بغیر کوشش کے ہوگئیں اور خدا نے مجھے کامیابی عطا فرمائی۔ اگر یہ لڑکیاں مجھے دریا تک کا راستہ نہ دکھاتیں تو ہم وہاں سے کبھی نہ نکل سکتے… کیا آپ نے مجھے اسی کام کے لیے یہاں بلایا تھا
: ''نہیں!''… حبیب القدوس نے کہا… ''یہ صورت تمہارے آنے سے ازخود پیدا ہوگئی ہے۔ میں نے کچھ اور سوچا تھا۔ تمہیں استعمال اپنی رہائی کے لیے ہی کرنا تھا۔ تمہیں فرضی پیغام رساں بنانا تھا لیکن ان لڑکیوں نے تم میں کسی اور ہی دلچسپی کا اظہار کیا تو میرے دماغ میں یہ ترکیب آگئی جس پر تم نے نہایت خوبی سے عمل کیا اور اب ہم آزاد ہیں… میں نے ان لوگوں پر اعتماد کرلیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ لوگ غیرمعمولی طور پر چالاک ہوتے ہیں لیکن ہم لوگ اپنے ہوش میں ایمان قائم رکھیں تو یہ لوگ احمق ہیں۔ میرے ساتھ جس آدمی کو تم نے دیکھا تھا، یہ اپنے آپ کو مصری مسلمان ظاہر کرتا تھا۔ میں پہلے روز ہی جان گیا تھا کہ یہ صلیبی ہے اور میں صلیبیوں کے جال میں آگیا ہوں''۔
٭ ٭ ٭
وہ پہاڑی خطہ بہت دور رہ گیا تھا۔ نیل کے د رمیان کی رو بہت ہی تیز ہوگئی اور زیادہ جوش میں آگئی تھی۔ کشتی اس کے رحم وکرم پر اوپر اٹھتی گرتی اور اٹھتی جارہی تھی۔ چپو بیکار تھے، دریا کے جوش اور قہر میں جو اضافہ ہوگیا تھا، اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ دریا تنگ ہوگیا ہے اور آگے موڑ ہے۔ یہ وہی موڑ تھا جس سے کچھ آگے فوج کی چوکی تھی… اچانک کشتی رکی اور گھوم گئی۔ حبیب القدوس نے چپو تھام لیے۔ د ریا کا شور بہت بڑھ گیا تھا۔ کشتی ایک جکر میں گھومنے لگی۔ کشتی بھنور میں آگئی تھی۔ حبیب القدوس نے پوری طاقت سے چپو مارے مگر بھنور کے چاکر کی طاقت بہت زیادہ تھی۔ کشتی قابو میں نہیں رہی تھی۔ اسے اپنے دونوں مسافروں سمیت دریا کی تہہ میں جانا تھا۔
''زہرہ!''… حبیب القدوس نے چلا کر کہا… ''میری پیٹھ پر آجائو''۔
زہرہ اس کی پیٹھ پر سوار ہوگئی اور بازو اس کی گردن کے گرد لپیٹ لیے۔ حبیب القدوس نے اسے کہا۔ ''مجھے اور زیادہ مضبوطی سے پکڑ لو اور مجھ سے الگ نہ ہونا''… یہ کہہ کر اس نے چکر میں بھنور کے زور پر تیرتی کشتی سے دریا میں اس طرح چلانگ لگائی کہ بھنور سے باہر پہنچ جائے۔
وہ زہرہ کے ساتھ پانی کے اندر چلا گیا اور جسم کی تمام تر قوتیں مرکوز کرکے ابھر آیا۔ وہ بھنور کی زد سے نکل گیا لیکن یہ موڑ تھا اور دونوں طرف چٹانیں تھیں۔ پانی سکڑ گیا تھا اور موجیں زیادہ اونچی اور غضبناک ہوگئی تھیں۔ زہرہ تیرنا نہیں جانتی تھی۔ اس نے خدا سے مدد مانگنی شروع کردی۔ حبیب القدوس اس کے بوجھ تلے سیلابی موجودسے لڑ رہا تھا۔ وہ اسے چٹان کے ساتھ پٹختی تھیں اور وہ چٹان سے بچنے کے لیے ہاتھ پائوں مارتا تھا۔ اس کی کوشش یہ تھی کہ اپنا اور زہرہ کا منہ پانی سے باہر رکھے لیکن موجیں اسے بار بار ڈبو کر اوپر سے گزر جاتی تھیں۔
پھر مو جیں اسے موڑ سے نکال لے گئیں اور دریا چوڑا ہوگیا۔ حبیب القدوس کے بازو اور ٹانگیں شل ہوچکی تھیں۔ اس نے طاقت کے آخری ذرے یکجا کیے اور اس تندرو سے نکلنے کو زور لگایا۔ اس نے محسوس کیا کہ زہرہ کی گرفت ڈھیلی ہوگئی ہے۔ اس نے زہرہ کو پکارا مگر وہ نہ بولی۔ اس کے بازو بالکل ڈھیلے ہوگئے… حبیب القدوس سمجھ گیا کہ زہرہ کے منہ اور ناک کے راستے پانی اندر چلا گیا ہے۔ اسے بچانا اور تیرنا بہت مشکل ہوگیا۔ اس نے ایک ہاتھ سے اسے سنبھالا اور زور لگایا تو تند رو سے نکل گیا۔ کنارا ابھی دور تھا۔ اب تیرنا آسان تھا۔ اس نے مدد کے لیے چلانا شروع کردیا۔
اس کا جسم اکڑ چکا تھا اور زہرہ گری جارہی تھی کہ ایک کشتی اس کے قریب آئی۔ اسے آواز سنائی دی… ''کون ہو؟''… اس نے آخری بار بازو مارے اور لپک کر کشتی کا کنارا پکڑ لیا۔ اس نے کہا… ''اسے میرے اوپر سے اٹھا لو''… زہرہ کو کشتی والوں نے اوپر گھسیٹ لیا۔ وہ بے ہوش ہوچکی تھی۔ کشتی میں اس کی فوج کے سپاہی تھے۔ ان کی چوکی یہیں تھی۔ وہ حبیب القدوس کی پکار پر ادھر آئے تھے۔
چوکی میں جاکر اس نے بتایا کہ وہ نائب سالار حبیب القدوس ہے۔ چوکی کے کمان دار نے اسے پہچان لیا اور بہت حیران ہوا۔ زہرہ بے ہوش پڑی تھی۔ حبیب القدوس نے اسے پیٹ کے بل لٹا کر پیٹھ اور پہلوئوں پر اپنا وزن ڈالا تو اس کے منہ اور ناک سے بہت پانی نکلا۔ وہ ابھی ہوش میں نہیں آئی تھی۔ حبیب القدوس نے کمان دار سے کہا کہ دو بڑی کشتیوں میں دس دس سپاہی سوار کرو اور پہاڑی خطے تک چلو۔ اس نے بتایا کہ پہاڑیوں کے اندر جو کھنڈر ہے، اس میں دس بارہ صلیبی تخریب کار بے ہوش پڑے ہیں، انہیں لانا ہے اور ہوسکتا ہے وہاں کچھ اور آدمی پہنچ چکے ہوں، مجھے خشکی کی طرف سے اندر جانے کے راستے کا علم نہیں۔
''میں ایک راستہ جانتا ہوں''۔ کمان دار نے کہا… ''خشکی سے آسان رہے گا''۔
بیس گھوڑ سواروں کے آگے حبیب القدوس اور چوکی کا کمان دار تھا۔ صبح کی روشنی ابھی دھندلی تھی۔ جب وہ پہاڑیوں میں داخل ہوگئے۔ خاموشی کی خاطر انہوں نے گھوڑے باہر ہی رہنے دئیے اور پیدل آگے گئے۔ حبیب القدوس کی جسمانی حالت کو دریا نے چوس لیا تھا۔ پھر بھی چلا جارہا تھا۔ وہ اپنی بیوی کو بے ہوشی کی حالت میں چوکی میں چھوڑ آیا تھا۔ اس کے لیے زیادہ ضروری تخریب کاروں کی گرفتاری تھی۔ وہ پہاڑیوں اور چٹانوں کے درمیان بھول بھلیوں جیسے راستوں سے گزرتے گئے۔ کچھ دیر بعد انہیں کھنڈر نظر آنے لگا۔
سب سے پہلے حبیب القدوس کو صلیبی نظر آیا۔ اس کے قدم ڈگمگا رہے تھے اور سر ڈول رہا تھا۔ اسے پکڑا گیا تو وہ کچھ بڑبڑایا۔ سات آٹھ آدمی وہیں بے ہوش پڑے تھے، جہاں رات کو گرے تھے۔ کمرے میں مصری اور سوڈانی اور دونوں لڑکیاں برہنہ اور بے ہوش پڑی تھیں۔ ان سب کو سپاہیوں نے اٹھا لیا۔ ان کا سامان بھی اٹھا لیا گیا اور ان سب کو گھوڑوں پر ڈال کر چوکی میں لے گئے۔ اس وقت تک زہرہ ہوش میں آچکی تھی۔
دن کا پچھلا پہر تھا، جب یہ تخریب کار ہوش میں آنے لگے۔ اس وقت قاہرہ کے راستے میں تھے۔ وہ گھوڑوں کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ بیس سپاہیوں کی حراست میں تھے۔ حبیب القدوس نے ان کے ساتھ کوئی بات نہ کی۔ قافلہ چلتا رہا۔
آدھی رات کے بعد علی بن سفیان کے ملازم نے اسے جگایا اور کہا کہ امیر بلاتے ہیں۔ وہ فوراً پہنچا۔ وہاں غیاث بلبیس بھی موجود تھا۔ علی بن سفیان یہ د یکھ کر حیران رہ گیا کہ حبیب القدوس بھی بیٹھا تھا۔ اس نے ان تمام فوجی اور غیرفوجی حاکموں کے نام بتائے جو اسے کھنڈر میں معلوم ہوئے تھے۔ یہ غدار تھے۔ انہیں بغاوت میں شامل ہونا اور کامیاب کرانا تھا۔ قائم مقام امیر کے حکم سے اسی وقت ان سب کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور سب کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان کے گھروں سے جو زروجواہرات برآمد ہوئے، وہ ان کے جرم کو ثابت کررہے تھے۔
٭ ٭ ٭
اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی حلب کو محاصرے میں لینے کے لیے اس شہر کے قریب ایک مقام میدان الاخدر پر خیمہ زن تھا۔ اس نے شام اور دوسرے مقامات سے اپنی فوج کے تھوڑے تھوڑے دستے بلا لیے تھے۔ حلب کے متعلق وہ اپنے سالاروں سے کہہ چکا تھا کہ اس شہر کے لوگ اسی طرح بے جگری سے لڑیں گے جس طرح وہ پہلے محاصرے میں لڑے تھے۔ گو اس کے جاسوسوں نے جو حلب کے اندر تھے، اسے یہ اطلاع دی تھی کہ اب اتنے برسوں کی خانہ جنگی سے حلب کے لوگوں کے خیالات بدل گئے ہیں۔ خیالات بدلنے کے لیے سلطان ایوبی نے بھی زمین دوز اہتمام کیا تھا۔ اب وہاں کا حکمران سلطان عمادالدین تھا جسے لوگ زیادہ پسند نہیں کرتے تھے، پھر بھی سلطان ایوبی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوا۔ اس نے ادھر ادھر سے دستے میدان الاخدر میں جمع کرلیے۔
وہ اپنے سالاروں کو آخری ہدایات دے رہا تھا کہ قاہرہ کا قاصد پہنچا۔ اس نے جو پیغام دیا، اسے پڑھ کر اس کا چہرہ چمک اٹھا۔ اس نے بلند آواز سے کہا… ''میرا دل کہہ رہا تھا کہ حبیب القدوس مجھے دھوکہ نہیں دے گا۔ اللہ اسلام کی ہر بیٹی کو زہرہ کا جذبہ اور ایمان دے''۔ علی بن سفیان نے اسے نائب سالار حبیب القدوس کی واپسی کی ساری روئیداد لکھی تھی جس میں اس کی بیوی زہرہ کا تفصیلی ذکر تھا۔ اس نے اسی وقت پیغام کا جواب لکھوایا جس میں ان غداروں کے لیے جو پکڑے گئے تھے، یہ سزا لکھی کہ انہیں گھوڑوں کے پیچھے باندھ کر گھوڑے شہر میں دوڑائے جائیں اور گھوڑے اس وقت روکے جائیں جب ان غداروں کا گوشت ہڈیوں سے الگ ہوجائے۔
دو ر وز بعد سلطان ایوبی نے حلب پر چڑھائی کردی جو محاصرہ نہیں، یلغار تھی۔ بڑی منجنیقوں سے شہر کے دروازوں پر پتھر اور آتش گیر سیال کی ہانڈیاں ماری گئیں۔ شہر کی دیواروں پر اور اندر بھی ہانڈیاں پھینک کر آتشیں تیروں کامینہ برسا دیا گیا۔ دیواریں توڑنے والے جیش دیواریں توڑنے لگے لیکن شہر والوں اور فوج کی طرف سے مزاحمت میں اتنی شدت نہیں تھی۔ قاضی بہائوالدین شداد نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ حلب کے حکمران عمادالدین کے امرائ، وزراء اس کی خامیوں سے آگاہ تھے۔ اس نے صلیبیوں سے جنگی امداد کے علاوہ سونے کی صورت میں دولت بہت لی تھی۔ اس کے امرائ، وزراء کی نظر اس پر تھی۔ انہوں نے ایسے مطالبات پیش کیے کہ عمادالدین جو پہلے ہی سلطان ایوبی کی طوفانی یلغار سے خوفزدہ تھا، ان مطالبات سے گھبرا گیا۔
اس نے حلب کے قلعہ دار (گورنر) حسام الدین کو سلطان ایوبی کے پاس اس درخواست کے ساتھ بھیجا کہ اسے موصل کا تھوڑا سا علاقہ دے دیا جائے۔ سلطان ایوبی نے اس کی یہ شرط مان لی۔ یہ خبر جب شہر کے لوگوں نے سنی تو وہ ہے اور لوگ اپنا کوئی نمائندہ سلطان ایوبی کے پاس بھیج کر اس کے ساتھ صلح کرلیں یا جو کارروائی وہ کرنا چاہتے ہیں، کریں۔
: شہر کے معززین نے عزالدین جردوک النوری اور زین الدین کو اپنی نمائندگی کے لیے سلطان ایوبی کے پاس بھیجا۔ جردوک النوری مملوک تھا۔ وہ ١١ جون ١١٨٣ء (١٧صفر ٥٧٩ہجری) کے روز سلطان ایوبی کے پاس گئے اور اپنی تمام فوج کو شہر کے باہر بلا کر سلطان ایوبی کے حوالے کردیا۔ فوج کے ساتھ حلب کے معززین اور امرائ، وزراء بھی آئے تھے۔ سلطان ایوبی نے سب کو بیش قیمت لباس پیش کیے۔
چھٹے روز جب سلطان ایوبی اس فتح سے مسرور تھا۔ اسے اطلاع ملی کہ اس کا بھائی تاج الملوک جو اسی جنگ میں زخمی ہوگیا تھا، چل بسا ہے۔ سلطان ایوبی کی مسرت گہرے غم میں بدل گئی۔ تاج الملوک کے جنازے میں عمادالدین بھی شامل ہوا۔ اس کے بعد عمادالدین حلب سے نکل گیا۔ سلطان ایوبی نے حلب کی حکومت سنبھال لی۔ بہائوالدین شداد کے بیان کے مطابق اس نے اپنی تمام فوج کو جو لمبے عرصے سے مسلسل لڑ رہی تھی، رخصت پر گھروں کو بھیج دیا اور خود حلب کے انتظامی امور میں مصروف ہوگیا۔ اس کی منزل بیت المقدس تھی۔

اس کے ساتھ ہی قارئین قصہ *نہ میں تمہاری، نہ مصر تمہارا* ختم ہوا جاتا ہوا اورجاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں