داستان ایمان فروشوں کی ۔133 - اردو ناول

Breaking

اتوار, جنوری 09, 2022

داستان ایمان فروشوں کی ۔133


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر133 نہ میں تمہاری، نہ مصر تمہارا

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

لیکن وہ چونکہ مجبور ہے اور نفرت کا انظہار نہی کرسکتی، اس لیے وہ سمجھتا ہے کہ وہ اسے چاہتی ہے۔

'اب بھی نفرت کا اظہار نہ کرنا''… صلیبی نے اسے کہا… ''میں تمہیں اس سے آزاد کرالوں گا اور تم شہزادیوں کی طرح زندگی بسر کروگی… تم یہیں بیٹھو۔ میں تمہاری سہیلیوں کو تمہارے پاس بھیج دیتا ہوں''۔

وہ کمرے سے نکل گیا اور لڑکیوں کے پاس چلا گیا۔ انہیں کہا… ''لڑکی کام کی ہے۔ اسے اپنے سائے میں لے لو۔ حبیب القدوس اسے بری طرح چاہتا ہے۔ اس لڑکی کو ہم اس بات پر لائیں گے کہ وہ اس کے ساتھ دیوانہ وار محبت کا عملی اظہار کرتی رہے تاکہ وہ اپے قابل اعتماد کمان داروں وغیرہ کے ساتھ اس لڑکی کی معرفت رابطہ قائم کرسکے۔ یہ تمہارا کام ہے کہ لڑکی کو اپنے جال میں لے لو۔ اسے اپنی زندگی کا شاہانہ پہلو دکھائو اور تم جانتی ہو کہ اسے کس طرح اور کس مقصد کے لیے تیار کرنا ہے''۔

زہرہ حبیب القدوس کے ساتھ والہانہ محبت کا اظہار کرتی رہی اور صلیبی اور اس کے ساتھی لڑکیوں کو بتاتی رہی کہ اسے حبیب القدوس سے نفرت ہے۔ دونوں لڑکیوں نے اسے اپنے ساتھ رکھنا اور باہر لے جانا شروع کردیا۔ اسے چشمے کے تالاب پر لے گئیں تو اس نے بلا جھجک تمام کپڑے اتار دئیے اور لڑکیوں کے ساتھ پانی میں کھیلنے لگی۔ پھر یہ ان کا روزمرہ کامعمول بن گیا۔ رات وہ حبیب القدوس کے ساتھ گزارتی تھی، دن کا زیادہ تر وقت دونوں لڑکیاں اسے اپنے ساتھ رکھتیں اور کبھی صلیبی بھی اس کے ساتھ دوستانہ باتیں کرتا تھا۔ زہرہ چار پانچ دنوں میں ان لڑکیوں جیسی ہوگئی۔ اس کی شوخیاں بے حیائی کا رنگ اختیار کرنے لگیں اور لڑکیاں آہستہ آہستہ سے اپنی پراسرار زندگی کے متعلق بتانے لگیں۔

اس دوران صلیبی نے حبیب القدوس کے ساتھ بغاوت کا منصوبہ تیار کرلیا۔ حبیب القدوس نے یہ منصوبہ تیار کرنے میں بہت مدد دی۔ اب صلیبی کو اس پر اعتبار آگیا تھا۔ اس نے حبیب القدوس کو مصری فوج کے ایک دو اعلیٰ حکام اور دوا نتظامیہ کے حاکموں کے نام بتائے جو درپردہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف تھے اور بغاوت کی سوچ رہے تھے۔ انہوں نے ہی یہ فیصلہ کیا تھا کہ کسی طرح اسے ہاتھ میں لیا جائے۔ صلیبی نے اسے یہ نہ بتایا کہ وہ صلیبی ہے۔ وہ اپنے آپ کو مصری وطن پرست ہی بتاتا رہا۔ اس کا مقصد بغاوت کرانا تھا۔

زہرہ ان دونوں لڑکیوں میں اس قدر شیروشکر ہوگئی تھی کہ اب یہ کہنا کہ وہ کسی شریف باپ کی بیٹی یا ایک مسلمان نائب سالار کی بیوی ہے، غلط تھا۔ حبیب القدوس اسے اپنی وفادار بیوی سمجھتا تھا۔ ایک روز اس نے لڑکیوں سے کہا کہ وہ اس کھنڈر سے اوپر پہاڑیوں میں گھری ہوئی دنیا سے تنگ آگئی ہے۔ لڑکیوں نے اسے کہا کہ وہ اسے ان پہاڑیوں سے پرے کی دنیا دکھا لائیں گی۔ چنانچہ وہ اسے ایک پہاڑی راستے سے گزارتی ایک جھیل کے کنارے لے گئیں اور اس کے کنارے کنارے جب وہ اور آگے گئی تو اسے دریائے نیل نظر آیا۔ اسی کا پانی پہاڑی کے اندر آکر جھیل بنا ہوا تھا۔ ایک جگہ پہاڑی کی اوٹ میں ایک کشتی چھپی ہوئی تھی جس میں دو چپو تھے۔ یہ جگہ بہت ہی خوبصورت تھی۔ زہرہ ان لڑکیوں کے ساتھ وہاں ہنستی کھیلتی رہی۔

''یہاں فرعونوں کی شہزادیاں کھیلا کرتی تھیں''… ایک لڑکی نے کہا۔

''اور تم دونوں ان کی بدروحیں لگتی ہو''… زہرہ نے ہنس کر کہا۔

''تمہارے مقابلے میں ہم دونوں واقعی بدروحیں لگتی ہیں''… دوسری لڑکی نے کہا۔

''سنو زہرہ!''… ایک لڑکی نے اس سے کہا… ''تمہیں معلوم ہوگیا ہوگا کہ تمہارا یہ بوڑھا خاوند یہاں کیوں چھپا بیٹھا ہے اور تمہیں کیوں لایا گیا ہے؟''

''وہ تو پہلے روز ہی اس نے بتا دیا تھا''… زہرہ نے کہا… ''میں یہ کام کردوں مگر کہتے ہیں کہ چند دن رک جائو''۔

''اور تم جانتی ہو کہ ہم آزاد مصر کی شہزادیاں ہوں گی؟''

''مجھے اس خاوند سے آزاد کرادینا تو میں اپنے آپ کو شہزادی سمجھنے لگوں گی''… زہرہ نے کہا۔

''یہ طے ہوچکا ہے لیکن تمہارے خاوند کو معلوم نہیں''… لڑکی نے کہا… ''کیا تم اس کام کے لیے تیار ہو جو اس سلسلے میں تمہیں کرنا ہوگا؟''

''وقت آئے گا تو دیکھنا''… زہرہ نے کہا… ''اگر مجھے یہ کام نہ کرنا ہوتا تو اپنے خاوند کو یہاں قتل کرچکی ہوتی۔ یہاں اچھا موقعہ تھا''۔

٭ ٭ ٭

دوسرے دن بھی وہ لڑکیوں کے ساتھ دریا کے کنارے چلی گئی۔ لڑکیاں اسے جس راستے دریا تک لے جاتی تھیں، وہ ایسا راستہ تھا کہ وہ اکیلی جاتی تو اسے یہ راستہ کبھی نہ ملتا۔ یہ راستہ قدرتی تھا لیکن خفیہ۔ زہرہ نے انہیںایک دو بار کہا تھا کہ کشتی پر دریا میں چلیں لیکن لڑکیوں نے اسے روک دیا تھا۔ حبیب القدوس پر بھی اب پہلے جیسی پابندی نہیں رہی تھی۔ اس نے یقین دلا دیا تھا کہ وہ آزاد مصر کا حامی ہے اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا تختہ الٹ کر دم لے گا۔ : اب اس کا یہ حال تھا کہ صلیبی اس کے ساتھ اس موضوع پر اتنی باتیں نہیں کرتا تھا جتنی وہ خود کرنے لگا۔ اس شخص میں انقلاب آگیا تھا۔

ایک دوروز بعد اس کھنڈر میں دو اور آدمی آئے۔ ان میں ایک سوڈانی تھا اور دوسرا مصری۔ انہیں حبیب القدوس سے ملایا گیا۔ وہ ان دونوں کو نہیں جانتا تھا۔ ان کے پاس مصر، سوڈان اور عرب کے نقشے تھے۔ کچھ اور کاغذات بھی تھے۔ انہوں نے حبیب القدوس کے ساتھ بغاوت کے حقیقی پہلوئوں پر بڑی طویل بات کی۔ حبیب القدوس نے نہ صرف دلچسپی کا اظہار کیا بلکہ انہیںایسے مشورے دئیے جو ان کے ذہن میں نہیں آئے تھے۔ انہوں نے حبیب القدوس کو چند اور لوگوں کے نام بتائے جو مصر کی فوج اور انتظامیہ میں تھے اور درپردہ سلطان ایوبی کے خلاف زمین ہموار کررہے تھے۔ ان دونوں آدمیوں نے یہ بھی بتایا کہ مصر پر مصری فوج کے جو دستے ہیں، انہیں غلط حکام دے کر سرحدی دفاع میں اتنا شگاف پیدا کرلیا جائے گا جس سے سوڈان کی فوج کے کچھ دستے اندر آکر بغاوت میں جان ڈال سکیں گے۔

''بغاوت کامیاب ہونے کی صورت میں مصر کا امیر کون ہوگا؟''… حبیب القدوس نے پوچھا۔

''چونکہ تنظیم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ سالار اعلیٰ آپ ہوں گے، اس لیے سب نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ امیر آپ ہی ہوں گے''… مصری نے کہا… ''صلاح الدین ایوبی یقینا حملہ کرے گا اور جنگ طول پکڑ سکتی ہے، اس لیے آزاد مصر کا پہلا ا میر سالار ہی ہونا چاہیے کیونکہ جنگی حالات میں کسی غیرعسکری کو امارت کی گدی پر بٹھانا مناسب نہیں ہوگا۔ آپ میں جو خوبیاں ہیں وہ اور کسی سالار میں نہیں''۔

حبیب القدوس کا سینہ اور زیادہ پھیل گیا اور اس کی گردن تن گئی۔

''امید ہے کہ آپ کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا کہ ضرورت پڑنے پر ہم نے صلیبیوں سے بھی مدد لینے کا انتظام کرلیا ہے''… سوڈانی نے کہا۔

''انہیں معاوضہ کس شکل میں دیا جائے گا؟''… حبیب القدوس نے پوچھا۔

''ان کے لیے یہی معاوضہ کافی ہے کہ ہم صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑیں گے اور مصر کو آزاد کرائیں گے''۔ مصری نے کہا… ''انہیں مصر نہیں چاہیے، وہ فلسطین کو ایوبی سے بچانے کی فکر میں ہیں۔ مصر ایوبی کے ہاتھ سے نکل گیا تو وہ اس فوج سے جو مصر میں موجود ہے، محروم ہوجائے گا اور اسے یہاں سے جو رسد اور دیگر جنگی امداد ملتی ہے وہ بند ہوجائے گی اور اگر اس نے مصر پر حملہ کیا تو اس کے ساتھ جو مصری سپاہی ہیں، وہ اپنے مصری بھائیوں کے خلاف نہیں لڑیں گے''۔

حبیب القدوس نے انہیں نہایت اچھی ترکیبیں بتائیں اور یقین دلایا کہ اس کے ماتحت پانچ ہزار نفری کے جو دستے ہیں، وہ اس کے اشارے پر بغاوت پر آمادہ ہوجائیں گے۔ اب یہ طے کرنا تھا کہ ان دستوں کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے کیا کیا طریقے اور ذریعے اختیار کیا جائیں۔

''صورت ایک ہی بہتر ہے کہ میں واپس چلا جائوں''… حبیب القدوس نے کہا… ''مگر مجھے واپس نہیں جانا چاہیے کیونکہ مجھ سے پوچھا جائے گا کہ میں کہاں رہا۔ مجھے اپنی بیوی نے بتایا ہے کہ علی بن سفیان ا ور غیاث بلبیس یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنی مرضی سے دشمن کے پاس چلا گیا ہوں۔ اس شک کی بناء پر وہ مجھے حراست میں لے لیں گے، پھر ہمارا کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گا۔ میں نے دراصل یہ غلطی کی ہے کہ بیوی کو یہاں بلا لیا ہے۔ اس اگر واپس بھیجا تو اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں ہوگا۔ مجھے یہیں رہنا چاہیے۔ ذرا مجھے سوچنے دیں کہ میں اپنے کون کون سے کمان دار سے آپ کا رابطہ کرائوں''۔

اب حبیب القدوس کی وفاداری پر کوئی شک نہ رہا۔

٭ ٭ ٭

''حلب کا محاصرہ کھیل نہیں ہوگا''… سلطان صلاح الدین ایوبی فرات کے کنارے خیمے میں بیٹھا، اپنے سالاروں سے کہہ رہا تھا… ''تم سب کو یاد ہوگا کہ ہم نے پہلے بھی ایک بار اس شہر کو محاصرے میں لیا تھا لیکن حلب والے ایسی بے جگری سے لڑے تھے کہ ہمیں محاصرہ اٹھانا پڑا تھا۔ یہ حلب والوں کی بہادری تھی جس نے ہمیں آنے پر مجبور کردیا۔ اب وہ حالات نہیں ہیں، پھر بھی ہمیں ہر خطرے کی پیش بندی کرلینی چاہیے۔ یہاں سے فوج میں جو بھرتی لی گئی ہے، اس پر ابھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ مصر سے کمک منگوانی پڑے گی۔ ہوسکتا ہے کہ میں نائب سالار حبیب القدوس کے دستوں کو بلا لوں''… یہ کہہ کر سلطان ا یوبی خاموش ہوگیا۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اس نے دبی دبی سی آوازمیں کہا… ''میں مان نہیں سکتا کہ حبیب القدوس مجھے دھوکہ د ے گیا ہے… وہ آخر کہاں گیا؟… میں جب مصر سے روانہ ہونے لگا تھا تو اس نے مجھے کہا تھا کہ آپ مصر کا غم دل سے نکال دیں، صلیبیوں یا سوڈانیوں نے آپ کی غیرحاضری میں مصر پر حملہ کیا تو صرف میرے تین ہزار پیادے اور دو ہزار سوار ان کے حملے کو پسپا کردیں گے اور اگر کسی نے مصر کے اندر سے سراٹھایا تو اس کا سر اس کے دھڑ کے ساتھ نہیں رہے گا… ہم اللہ کے سپاہی ہیں لیکن وہ اللہ کا شیر ہے''۔

: ''معلوم ہوتا ہے اس کی انہی خوبیوں کو دیکھتے ہوئے دشمن نے اسے غائب کردیا ہے''… ایک سالار نے کہا۔ ''اس کا آدھی فوج پر بڑا گہرا اثر ہے۔ اس لحاظ سے وہ اپنی ذات میں ایک طاقت ہے۔ دشمن نے ہمیں اس طاقت سے محروم کیا ہے''۔

''اگر وہ نہ ملا تو اس کے دستوں کو یہاں بلا لوں گا''… سلطان ایوبی نے کہا… ''لیکن اتنی جلدی نہیں بلائوں گا۔ مصر کا دفاع زیادہ ضروری ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ مصر کو باہر سے اتنا زیادہ خطرہ نہیں جتنا اندر سے ہے۔ ایمان فروش ہمارے اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فلسطین کو ہم سے بہت دور کردیا ہے''۔

اور اس وقت قاہرہ سے دور پہاڑیوں میں گھرے ہوئے ایک ڈرائونے کھنڈر میں سلطان ایوبی کا قابل اعتماد اور بڑا ہی قابل نائب سالار مصر میں بغاوت کا اہتمام کرچکا تھا۔ کھنڈر میں اس رات جشن منایا جارہا تھا۔ا گر باہر کے لوگ اس رات کھنڈر میں آتے تو ڈر کر بھاگ جاتے۔ وہ ان چند ایک انسانوں اور اتنی حسین لڑکیوں کو جنات یا بدروحیں سمجھتے۔ صحیح معنوں میں جنگل میں منگل بنا ہوا تھا۔ آٹھ دس آدمی تھے، ان میں سے حبیب القدوس صرف اس صلیبی کی جو پہلے دن سے اس کے ساتھ تھا، مصری اور سوڈانی کو جن کے ساتھ اس نے بغاوت کے منصوبے کو آخری شکل دی تھی، جانتا تھا۔ د وسروں کو اس نے پہلی بار دیکھا۔ یہ سب اسی کھنڈر میں حبیب القدوس کے آنے سے پہلے موجود تھے لیکن پہاڑیوں کے اندر اور اوپر چھپ چھپ کر پہرہ دیتے رہتے تھے۔ وہ انہی کا ایک ساتھی تھا جسے حبیب القدوس نے فرار کی کوشش میں قتل کردیا تھا۔ اب پہرے کی ضرورت نہیں تھی۔ حبیب القدوس ان کا قابل اعتماد دوست بن چکا تھا۔ اسے انہوں نے خفیہ طریقوں سے آزما بھی لیا تھا۔

آج رات یہ پورا گروہ جشن میں شامل تھا۔ ضیافت کا ویسا ہی انتظام تھا جیسا کہ کسی محل میں ہوتا ہے۔ شراب کی صراحیاں خالی ہورہی تھیں، ان کی دونوں لڑکیوں نے رقص بھی کیا تھا۔ حبیب القدوس جشن میں شریک تھا لیکن اس نے شراب پینے سے انکار کردیا تھا، اسے مجبور نہ کیا گیا۔ زہرہ نے د وسری لڑکیوں کی طرح شراب پیش کی لیکن خود نہ پی۔ صلیبی نے مصری اور سوڈانی سے کہہ دیا تھا کہ زہرہ کے متعلق محتاط رہیں، ورنہ حبیب القدوس بگڑ جائے گا۔ زہرہ نے دوسری لڑکیوں کی طرح بے حیائی کا مظاہرہ نہ کیا لیکن جشن میں دلچسپی اور جوش وخروش سے حصہ لے رہی تھی۔

آدھی رات تک سب شراب میں مدہوش ہوچکے تھے۔ مصری اورصلیبی دونوں لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ بعض تو بے ہوش ہوگئے تھے۔ زہرہ نے حبیب القدوس کو آنکھ سے اشارہ کیا۔ وہ وہاں سے اٹھ گیا۔ زہرہ نے اس کمرے میں جاکر جھانکا جہاں مصری اور سوڈانی لڑکیوں کو لے گئے تھے۔ وہ دونوں آدمی اور لڑکیاں برہنہ حالت میں پڑی تھیں۔ ان میں سے کوئی بھی ہوش میں نہیں تھا۔ زہرہ کو معلوم تھا کہ ہتھیار کہاں رکھے ہیں۔ وہ ایک برچھی، ایک تلوار، دو کمانیں اور تیروں سے بھرے دو ترکش اٹھا لائی۔ حبیب القدوس اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔ اس نے زہرہ کے ہاتھ سے تلوار لے لی۔ ایک کمان اور ترکش اپنے کندھوں سے لٹکایا اور دوسری زہرہ کے کندھوں سے لٹکا دی اور برچھی اسی کے پاس رہنے دی۔

''ان سب کو قتل نہ کردیا جائے؟''… زہرہ نے حبیب القدوس سے پوچھا۔

''یہاں سے فوراً نکلنا زیادہ ضروری ہے''… حبیب القدوس نے کہا۔ ''مجھے دریا تک لے چلو''۔

زہرہ نے دریا تک راستہ دیکھ رکھا تھا، اگر پہلے یہ راستہ نہ دیکھا ہوتا تو وہ دونوں وہاں سے کبھی نہ نکل سکتے۔ زہرہ آگے آگے چل پڑی۔ وہ دبے پائوں جارہے تھے اور ان کے کان ادھر ادھر کی آوازوں پر لگے ہوئے تھے۔ حبیب القدوس نے تلوار اور زہرہ نے برچھی تان رکھی تھی۔ زہرہ حبیب القدوس کو کشتی تک لے گئی جو چھپا کر رکھی گئی تھی۔ دونوں نے کشتی کھولی۔ اس میں بیٹھے اور نہایت آہستہ آہستہ چپو مارنے لگے تاکہ آواز پیدا نہ ہو۔ ہر لمحہ ڈر تھا کہ کہیں نہ کہیں سے کوئی آدمی نکل آئے گا یا کہیں سے تیر آئے گا… کچھ بھی نہ ہوا۔ کشتی پہاڑیوں کے تنگ راستے سے نکل گئی اور دریا کا شور شروع ہوگیا۔

جاری ھے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں