داستان ایمان فروشوں کی-132 - اردو ناول

Breaking

اتوار, جنوری 09, 2022

داستان ایمان فروشوں کی-132


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر132 نہ میں تمہاری، نہ مصر تمہارا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صلیبیوں کی جاسوسی اور تخریب کاری اور مسلمان نوجوانوں کی کردارکشی کے طریقے اناڑیوں والے نہیں تھے۔ ان کے اس فن کے ماہرین انسانی فطرت کی کمزوریوں اور مطالبات سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کی نظر سلطان ایوبی کی فوج اور انتظامیہ کے ہر افسر پر تھی۔ ادھر عرب کے امرائ، وزراء اور مختلف ریاستوں کے مسلمان حکمرانوں کی خامیوں سے بھی وہ آگاہ تھے۔ ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ حکمران اور حاکم ان کے زیراثر ہوجائیں اور سلطان ایوبی کے خلاف لڑنے پر آمادہ ہوجائیں۔ یہودی اپنی دولت اور اپنی لڑکیوں کی صورت میں ان کی پوری مدد کررہے تھے۔ ان کفار کے ماہرین نے مسلمان حکمرانوں وغیرہ کو چند ایک زمروں میں تقسیم کررکھا تھا۔
ایک زمرے میں انہیں رکھا گیا تھا جو ایک دو خوبصورت اور شوخ لڑکیوں، شراب اور زروجواہرات کے عوض اپنا ایمان بیچ ڈالتے تھے۔ دوسرے زمرے میں وہ تھے جو اپنی الگ ریاست بنا کر اس کے خودمختار بادشاہ بننے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ تیسرے میں وہ تھے جو ملک وملت کے وفادار اور پکے مسلمان تھے۔ ان میں سے صلیبی یہ دیکھتے تھے کہ کون اثرورسوخ والا ہے جسے ہاتھ میں لیا جائے تو وہ سلطان ایوبی کی خفیہ پالیسیوں اور پرگراموں سے قبل از وقت اطلاعات دے سکتا ہو اور ان میں کون ایسا ہے جس کا فوج کے کچھ حصے پر اثر ہو اور وہ اسے حصے کو اپنی سلطنت کے خلاف باغی کرسکتا ہو۔ ان پکے دین داروںا ور مجاہدوں کو ہاتھ میں لینے کے لیے ان کے پاس کچھ طریقے تھے جن میں ایک اغوا کرنا اور اسے اپنا اتحادی بنانا تھا۔ ایک طریقہ قتل کا بھی تھا لیکن قتل کم ہی کرائے جاتے تھے۔ اگر ضرورت پڑے تو قتل حسن بن صباح کے پیشہ ور قاتلوں سے کرایا جاتا تھا۔
نائب سالار حبیب القدوس ایسا حاکم تھا جس کو قتل کرانے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ اسے ہاتھ میں لینا تھا۔ جیسا کہ بتایا جاچکا ہے کہ مصر کی فوج کی پانچ ہزار نفری اس کی مرید تھی۔ صلیبیوں کے مسلمان ایجنٹوں نے انہیں بتایا تھا کہ یہ شخص ایمان نہیں، جان دینے والا ہے اور اس میں اتنا شدید جذبہ اور غیرمعمولی اہمیت ہے کہ اگر اسے اپنے انہی دستوں کے ساتھ ایک لاکھ کے لشکرکے خلاف لڑایا جائے تو شام کا سورج اتنی جلدی افق میں نہیں گرے گا جتنی جلدی اس کے آگے دشمن کی لاشیں اور ہتھیار گریں گے۔
صلیبیوں نے تجربہ کرلیا تھا۔ وہ اس طرح کہ انہوں نے کبھی اس کے پاس کوئی نوجوان اور غیرمعمولی طورپر خوبصورت لڑکی ایک نادار، یتیم اور مظلوم لڑکی کے بہروپ میں مدد لینے کے لیے بھیجی۔ کبھی کسی لڑکی کو کسی اور ذاتی کام سے بھیجا۔ ضیافتوں اور کھیل تماشوں میں بڑی بڑی حسین لڑکیاں اس کے پیچھے ڈالیں مگر وہ اس جال میں نہ آیا، جیسے پتھر ہو۔ مصر میں بغاوت کرانا صلیبیوں کے لیے ضروری ہوگیا تھا کیونکہ سلطان صلاح الدین ایوبی شام اور فلسطین کے علاقوں کے بکھرے ہوئے مسلمان امراء کو دلائل سے یا تلوار سے اپنا مطیع بناتا چلا جارہا تھا اور اس کے بعد ا سے فلسطین کا رخ کرنا تھا۔ اس کی توجہ فلسطین سے ہٹانے کے لیے ایک طریقہ یہ ہوسکتا تھا کہ مصر میں اس کی جو فوج ہے اسے بغاوت پر آمادہ کیا جائے۔
اس سے پہلے صلیبی سوڈانیوں کو مصری فوج کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرچکے تھے۔ سوڈانی فوج نے حملہ کیا تھا مگر سوڈانی فوج میں اکثریت وہاں کے حبشیوں کی تھی اور وہ توہم پرست تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ ہجوم کی صورت میں لڑتے اور ہجوم کی صورت میں بھاگتے تھے۔ صلیبیوں نے انہیں مصر کے خلاف ہی رکھا لیکن لڑنے کی نہ سوچی۔ اب بغاوت مصر کی فوج ہی سے کرائی جاسکتی تھی۔ اس کے لیے انہوں نے جو موزوں سالار دیکھا وہ حبیب القدوس تھا۔ جاسوسوں اور ماہرین نے اس کے اغوا کا فیصلہ کیا اور حسن بن صباح کے فرقے کے فدائیوں کو منہ مانگی اجرت دے کر ان سے اغوا کرلیا۔
اغوا کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ ایک شام دوآدمی اس کے گھر گئے اور کسی گائوں کا نام لے کرکہا کہ وہاں کی مسجد کی چھت بیٹھ گئی ہے اور پوری مسجد ازسرنو تعمیر کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رات کو گائوں کے لوگ جمع ہورہے ہیں اور وہ بھی چلیں تاکہ لوگ دل کھول کر مالی مدد دیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایسی جذباتی باتیں کیں کہ وہ ان کے ساتھ چل پڑا۔ شہر سے باہر نکل گئے تو چار اور آدمی ملے۔ ان سب نے اسے جکڑ لیا اور اس کھنڈر میں لے گئے۔ وہاں پہنچتے ہی اسے دھوکے میں حشیش پلا دی۔ صلیبی جو اس سے بات کرنے اور اسے اپنا ہم خیال بنانے پر مامور تھا وہ کسی اور کام سے کہیں چلا گیا۔ اسے اغوا کرانے والے کھنڈر میں موجود رہے۔ کھنڈر کے ایک کمرے میں اس کے لیے آسائش کی ہر چیز پہنچا دی گئی۔ دو لڑکیاں بھی تھیں جو حسین ہونے کے علاوہ دلوں کو موہ لینے اور پتھر جیسے پختہ کردار کے آدمیوں کو بھی حیران بنا دینے کے فن کی ماہر تھیں۔
ان سب کو معلوم تھا کہ اس نائب سالار کو کیوں اغوا کیا گیا ہے۔ انہوں نے انعام واکرام کے لالچ میں از خود ہی اس کے ذہن کو اپنے مخصوص طریقے سے اپنے سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں شروع کردیں۔ یہ طریقہ حشیش کی ایک خاص قسم سے نشہ طاری کرنے کا تھا جس کے دوران مطلوبہ فرد کے ذہن میں باتوں کے ذریعے نہایت دلکش تصورات ڈالے جاتے تھے۔ یہ ایک قسم کا ہیپناٹائز کرنے کا طریقہ تھا۔ اس میں نیم عریاں خوبصورت لڑکیاں بھی استعمال کی جاتی تھیں۔ یہ گروہ کئی دنوں سے حبیب القدوس پر یہ طریقہ استعمال کررہا تھا اور اس نے ان کے ساتھ مطلب کی باتیں شروع کردی تھیںجن سے انہیں امید بندھ چلی تھی کہ انہوں نے اس کے دماغ کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
٭ ٭ ٭
ادھر قاہرہ میں مصری فوج اور کوتوالی کے جاسوس اس کی تلاش میں پریشان ہورہے تھے۔ سب کا یہی خیال تھا کہ وہ سوڈانیوں یا صلیبیوں کے پاس چلا گیا ہے۔ علی بن سفیان کو معلوم تھا کہ حبیب القدوس کا اثر اپنے دستوں پر کس قدر زیادہ ہے، اس لیے اس نے مصر کے قائم مقام امیر کی اجازت سے سلطان ایوبی کو اطلاع دے دی تھی۔ توقع یہی تھی کہ وہ اپنے معتمد کمان داروں کو کوئی پیغام بھیجے گا۔ جاسوسوں اور سراغ رسانوں نے ہر طرف نظر رکھی لیکن معلوم یہی ہوتا تھا کہ اس کا پیغام کسی کی طرف نہیں آیا۔ یہ بھی دیکھا جارہا تھا کہ ان دستوں میں سے کون سا کمان دار غائب ہوتا ہے لیکن اتنے دنوں میں کوئی بھی غیرحاضر نہ ہوا۔
اتنے میں وہ صلیبی کھنڈرات میں آگیا جسے حبیب القدوس کے ساتھ بات چیت کرنی تھی۔ اس نے پہلا کام یہ کیا کہ حشیش رکوائی اور حبیب القدوس کا نشہ اتارا۔ صلیبی نے پوری رات نشے کے اثرات اترنے کا انتظار کیا۔ اگلے روز وہ حبیب القدوس کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ ابھی سویا ہوا تھا۔ اس کی جب آنکھ کھلی تو اس نے ادھر ادھر دیکھا اورجب اس کی نظر صلیبی پر پڑی تو وہ فوراً اٹھ بیٹھا اور صلیبی کو بڑی غور سے دیکھنے لگا۔
''مجھے افسوس ہے کہ ان لوگوں نے آپ کے ساتھ بہت برا سلوک کیا''۔ صلیبی نے کہا… ''آپ اتنے حیران اور پریشان نہ ہوں۔ یہ بدبخت آپ کو حشیش پلاتے رہے اور آپ کو بڑے خوبصورت خواب دکھاتے رہے ہیں۔ آپ حشیش اور فدائیوں کے اس طریقے سے یقینا واقف ہوں گے۔ آپ کی توہین کی گئی ہے جس کی میں معافی چاہتا ہوں۔ میں آپ کو کوئی خواب نہیں دکھائوں گا۔ بڑی خوبصورت حقیقت آپ کے سامنے رکھوں گا۔ اپنے آپ کو قیدی نہ سمجھیں۔ میں آپ کا رتبہ اونچا کروں گا، کم نہیں ہونے دوں گا''۔
''یہ لوگ دھوکے میں مجھ یہاں لے آئے تھے''۔ حبیب القدوس نے کہا… ''پھر شاید مجھے کہیں اور لے گئے تھے''۔ اس نے نگاہیں گھما کر ہر طرف دیکھا اور حیران سا ہوکے بولا… ''وہ کوئی بہت ہی خوبصورت جگہ تھی… مجھے یہاں کون لایا ہے؟''
''اپنے آپ کو بیدار کریں''۔ صلیبی نے کہا… ''یہ سب حشیش کا اثر تھا۔ آپ پہلے روز سے یہیں ہیں''۔
''مجھے اغوا کیا گیا تھا؟'' حبیب القدوس نے حقیقت کو سمجھتے ہوئے ذرا رعب سے کہا… ''تم کون ہو؟''
''میں آپ کا ایک مسلمان بھائی ہوں''۔ صلیبی نے کہا… ''مجھے آپ سے لینا کچھ بھی نہیں، کچھ دینا ہے''۔
''اگر میں لینے دینے سے انکار کردوں تو؟''
''تو زندہ واپس نہیں جاسکیں گے''۔ صلیبی نے کہا… ''آپ قاہرہ سے اتنی دور ہیں کہ آپ کو میں نے آزاد کردیا تو آپ راستے میں مرجائیں گے''۔
''مجھے وہ موت زیادہ پسند ہوگی''۔ حبیب القدوس نے کہا… ''میں اپنے دشمن کی قید میں نہیں مرنا چاہتا''۔
''نہ آپ قید میں ہیں، نہ میں آپ کا دشمن ہوں''… صلیبی نے کہا… ''ان خبیثوں نے آپ کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرکے آپ کو بدظن کردیا ہے۔ مجھے آپ سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں''۔
''ان باتوں کے لیے مجھے اغوا کرکے اتنی دور لانے کی کیا ضرورت تھی؟''
 ''اگر میں یہ باتیں قاہرہ میں آپ کے ساتھ کرتا تو ہم دونوں قید خانے کے تہہ خانے میں ہوتے''۔ صلیبی نے کہا… ''وہاں قدم قدم پر علی بن سفیان اور کوتوال غیاث بلبیس نے جاسوس کھڑے کر رکھے ہیں''۔
حبیب القدوس کا ذہن صاف ہوچکا تھا۔ اس کا دماغ سوچنے کے قابل ہوگیا تھا۔ وہ جان گیا کہ وہ صلیبی تخریب کاروں کے چنگل میں آگیا ہے۔ اس نے پوچا… ''تم صلیبیوں کے آدمی ہو یا سوڈانیوں کے؟''
''میں مصر کا آدمی ہوں''۔ اس نے جواب دیا… ''اور آپ بھی مصری ہیں۔ آپ بغدادی، شامی یا عربی نہیں۔ مصر مصریوں کا ہے۔ یہ نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کے خاندان کی جاگیر نہیں۔ یہ اسلامی ملک ہے۔ یہاں اللہ کی حکمرانی ہوگی اور اس کا انتظام اور کاروبار مصری مسلمان چلائیں گے۔ کیا آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ ہم پر حکومت کرنے والے بغداد اور دمشق سے آئے ہیں اور انہوں نے مصر کو شام کے ساتھ ملا کر ا یک سلطنت بنا لیا ہے؟''
''تم مجھے مصر کو صلاح الدین ایوبی سے آزاد کرانے پر اکسا رہے ہو؟''
''میں جانتا ہوں کہ آپ صلاح الدین ایوبی کو پیغمبر نہیں تو پیرومرشد ضرور سمجھتے ہیں''… صلیبی نے کہا… ''میں اس کے خلاف کوئی بات نہیں کروں گا۔ ایوبی میں بہت سی خوبیاں ہیں۔ میں بھی اسے اتنا ہی پسند کرتا ہوں جتنا آپ کرتے ہیں مگر ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ وہ کب تک زندہ رہے گا۔ اس کے بعد مصر اس کے جس بھائی یا بیٹے کے ہاتھ آئے گا، اس میں صلاح الدین ایوبی کی خوبیاں نہیں ہوں گی۔ مصر ایک فرعون کے قبضے میں آجائے گا''۔
''مجھ سے تم کیا کام لینا چاہتے ہو؟''
''اگرآپ میری بات سمجھ گئے ہیں تو میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ آپ کیا کرسکتے ہیں''… صلیبی نے جواب دیا… ''اگر آپ کے دل میں شک ہے تو مجھ سے پوچھیں۔ پہلے اپنا شک رفع کریں۔ آپ سوچ لیں۔ آپ ابھی ابھی جاگے ہیں۔ ان بدبختوں کی دی ہوئی حشیش کا بھی آپ پر اثر ہے۔ میں آپ کے لیے ناشتہ بھجواتا ہوں۔ اتنے دنوں آپ کو کسی نے نہانے نہیں دیا۔ میں آپ کو ایک چشمے پر لے چلوں گا''۔
وہ اٹھا اور باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور آدمی آیا۔ اس نے کہا… ''میرے ساتھ چلیں۔ ناشتے سے پہلے نہالیں''۔
کھنڈر سے اسے کسی ایسے راستے سے نکالا گیا جو پہاڑیوں میں چلا گیا تھا۔ کچھ آگے ایک چشمہ تھا جس کا شفاف پانی چھوٹے سے قدرتی تالاب میں جمع ہورہا تھا۔ وہ پہاڑیوں سے گھوم کر چشمے کی طرف گئے تو وہاں دو لڑکیاں بالکل ننگی نہا رہی تھیں اور ایک د وسری پر ہاتھوں سے پانی پھینک رہی تھیں۔ حبیب القدوس رک گیا اور اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ لڑکیاں چیختی بھاگ اٹھیں۔ اس ویرانے میں ایسی حسین اور برہنہ لڑکیاں جن اور چڑیلیں لگتی تھیں۔ حبیب القدوس نے ادھر ادھر دیکھا۔ ہر طرف پہاڑیاں تھیں۔ اس نے پیچھے دیکھا، کھنڈر ایک پہاڑی کے پیچھے آگیا تھا۔ اس کے ساتھ جو آدمی آیا تھا وہ اس کے آگے آگے جارہا تھا۔
حبیب القدوس نے لپک کر ایک بازو اس کی گردن کے گرد لپیٹ دیا اور بازو کا شکنجہ تنگ کرکے اس نے دوسرے ہاتھ سے اس کی پیٹ میں پوری طاقت سے تین چار گھونسے مارے۔ یہ آدمی دم گھٹنے سے مر گیا۔ حبیب القدوس نے اسے گھسیٹ کر ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے پھینک دیا اور خود بھاگ اٹھا۔ اس نے ایک پہاڑی میں سے راستہ دیکھ لیا تھا۔ وہاں پہنچا تو ایک آدمی برچھی تانے کھڑا تھا۔ اس نے اتنا ہی کہا… ''واپس''… وہ نہتہ تھا، سرجھکا کر پیچھے کو مڑا۔ چند قدم ہی چلا ہوگا کہ صلیبی اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔
''میں آپ کو دانشمند سمجھتا ہوں''۔ صلیبی نے کہا… ''آپ اس علاقے سے نکل نہیں سکتے۔ احمق نہ بنیں، نہا لیں۔ میرے ساتھ آئیں''۔
وہ جھیل سے نہا کر نکلا اور کپڑے پہنے۔ صلیبی اسے اپنے ساتھ لے آیا۔ راستے میں اس نے صلیبی سے پوچھا… ''یہ لڑکیاں تمہارے ساتھ ہیں؟''
: ''اس ویرانے میں ایسی رونق ساتھ رکھنا ضروری ہے''۔ صلیبی نے کہا… ''کیا آپ کی تین بیویاں نہیں؟… اگر آپ کو ان کے ساتھ دلچسپی نہیں تو نہ سہی۔ اگر آپ تنہائی یا گھبراہٹ محسوس کریں تو ان لڑکیوں میں سے کسی کو بھی اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں''۔
اتنے میں ایک لڑکی ناشتہ لے کر آئی۔ حبیب القدوس اسے دیکھتا رہا۔ لڑکی اس کے پاس بیٹھ گئی اور صلیبی باہر نکل گیا۔ لڑکی نے باتوں اور ادائوں سے اس پر طلسم طاری کردیا۔ بہت دیر بعد جب صلیبی واپس آیا اور لڑکی چلی گئی تو حبیب القدوس کو افسوس سا ہوا۔
''آپ آزاد مصر کے سالارِ اعلی ہوں گے''… صلیبی نے اسے کہا… ''آپ کے دستوں میں جو تین ہزار پیادے اور دو ہزار سوار ہیں، وہ آپ کے مرید ہیں۔ آپ ان کی مدد سے مصر کی حکومت پر قبضہ کرسکتے ہیں''۔
''صلاح الدین ایوبی حملہ کرے گا تو کیا میں انہی دستوں سے مصر کو اس سے بچا لوں گا؟''
''سوڈانی مسلمان جو کبھی مصر کی فوج میں ہوا کرتے تھے، ہمارے ساتھ ہوں گے''… صلیبی نے کہا۔ ''صلاح الدین ایوبی کی فوج میں جو مصری ہیں، ان تک ہم خبر پہنچائیں گے کہ یہ خانہ جنگی نہیں بلکہ مصری مصر کو آزاد کرانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ آپ اپنے دستوں سے بغاوت کرائیں۔ آپ کو جنگی طاقت دینا ہمارا کام ہے''۔
اس آدمی نے لمبی تفصیل سے اسے اپنا منصوبہ بتایا۔ حبیب القدوس اب انکار نہیں کررہا تھا بلکہ یوں سوال کررہا تھا جیسے وہ قائل ہوگیا ہو۔
''میں واپس قاہرہ نہیں جائوں گا تو بغاوت کیسے کرائوں گا؟''… حبیب القدوس نے پوچھا۔
''آپ واپس نہیں جائیں گے''… صلیبی نے کہا… ''آپ یہیں سے اپنے قابل اعتماد ساتھیوں کو پیغام دیں گے۔ اس کا انتظام ہم کریں گے… آپ نے ہمارے ایک قیمتی آدمی کو مار ڈالا ہے۔ ہم آپ کو قتل کرسکتے ہیں۔ ہمارے بازو اتنے لمبے ہیں کہ آپ کے خاندان کے بچے بچے کو قتل کرسکتے ہیں۔ اگر آپ نے ہمیں دھوکہ دیا تو ہم ایسا کرکے دکھا بھی دیں گے''۔
''پھر مجھے یہاں لمبے عرصے کے لیے رہنا پڑے گا''… حبیب القدوس نے کہا۔
''کچھ عرصہ تو لگے گا''۔ صلیبی نے جواب دیا۔
''میری ایک ضرورت پوری کردو''… حبیب القدوس نے کہا… ''تم نے مجھے دو لڑکیاں پیش کی ہیں، میں گناہ سے بچنا چاہتا ہوں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ میں اتنی حسین لڑکی میں الجھ کر اپنا اصل مقصد بھول جائوں۔ اس کے بجائے یہ انتظام کردو کہ میری سب سے چھوٹی بیوی کو جس کا نام زہرہ ہے، یہاں لے آئو۔ اسے میں پیغام رسانی کے لیے بھی استعمال کرسکوںگا''۔
''اسے اغوا کرنا پڑے گا''… صلیبی نے کہا… ''اگر اسے ہم یہ کہیں گے کہ آپ اسے بلا رہے ہیں تو وہ ہم پر اعتبار نہیں کرے گی۔ وہ ہمیں پکڑوا بھی سکتی ہے۔ ہم آپ کو اس کا جو نعم البدل دے رہے ہیں، اسے آپ قبول کرلیں اور پیغام رسانی کے لیے اپنے کسی آدمی کا اتا پتہ دیں''۔
''پھر مجھ پر اعتماد کرو''۔ حبیب القدوس نے کہا… ''مجھے قاہرہ پہنچا دو۔ میں ایک ماہ کے اندر بغاوت کردوں گا''۔
''یہ نہیں ہوسکتا''۔ صلیبی نے کہا… ''محترم! ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ مصر کے مفاد میں ہے اور اس میں آپ کا بھی فائدہ ہے۔ میں یا میری تنظیم کا کوئی بھی فرد مصر کا حکمران بننے کا خواب نہیں دیکھ رہا۔ آپ سمجھنے کی کوشش کریں''۔
''میں سمجھ گیا ہوں''۔ حبیب القدوس نے کہا… ''اور میں سوچ سمجھ کر بات کررہا ہوں۔ میری بیوی زہرہ تک میرا پیغام پہنچائو کہ میرے پاس آجائے۔ جو کام وہ کرسکتی ہے وہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ اس کے آنے کے بعد دیکھوں گا کہ اس منصوبے کو کس طرح کامیاب بنایا جاسکتا ہے''۔
وہ ایک بھکارن تھی جس نے زہرہ کو راستہ میں روک لیا تھا۔ وہ دو تین دن سے دیکھ رہی تھی کہ زہرہ حبیب القدوس کے گھر سے ہر روز بعد دوپہر اپنے ماں باپ کے گھر جاتی ہے۔ بھکارن نے اس کے آگے ہاتھ پھیلا کر کہا… ''نائب سالار حبیب القدوس نے آپ کو بلایا ہے۔ یہ ان کے ہاتھ کی تحریر ہے''… زہرہ نے کاغذ ہاتھ میں لے کر تحریر پڑھی۔ یہ اس کے خاوند کے ہاتھ کی تھی۔ بھکارن نے کہا… ''وہ جہاں کہیں بھی ہیں، خود گئے ہیں۔ اتنے بڑے آدمی کو کوئی اٹھا کر نہیں لے جاسکتا۔ وہ صرف آپ کو چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زہرہ کے بغیر میں زندہ نہیںرہ سکتا… اور میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ آپ نے مجھے پکڑوانے کی کوشش کی یا کوتوال کو اطلاع دی تو دونوں کو قتل کردیا جائے گا۔ حبیب القدوس کے پاس آپ کا جانا ضروری ہے''۔
: ''میں تم پر کس طرح اعتبار کرلوں؟'' زہرہ نے پوچھا۔
''میں بھکارن نہیں''۔ عورت نے جواب دیا۔ ''یہ میرا بہروپ ہے۔ میں بھی آپ کی طرح شہزادی ہوں، ہمارا مقصد نیک اور مقدس ہے۔ آپ دل میں کوئی وہم نہ رکھیں''۔
اس عورت نے اور بھی بہت سی باتیں کیں جن سے زہرہ متاثر ہوگئی۔ اس نے اس عورت کے کہنے کے مطابق رات کو ایک جگہ چوری چھپے پہنچنے کا وعدہ کردیا۔ اس نے اس ڈر سے کسی سے ذکر نہ کیا کہ اس عورت نے کہا تھا کہ اس کی اور اس کے خاوند کی زندگی اور موت کا اور مصر کی آزادی اور غلامی کا سوا تھا۔
اسے رات مقرر کی ہوئی جگہ زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا۔ دو آدمی جنہیں وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچان نہ سکی، اسی بھکارن کے ساتھ آئے۔ بھکارن کو اس نے آواز سے پہچانا مگر وہ اب بھکاریوں کے بہروپ میں نہیں تھی۔ وہ کوئی جوان اور خوصبورت عورت تھی۔ اس نے زہرہ سے کہا۔ ''اللہ کے بھروسے پر ان کے ساتھ چلی جائو۔ دل میں کوئی ڈر نہ رکھنا''… اسے ایک گھوڑے پر بٹھایا گیا۔ وہ دونوں بھی گھوڑوں پر سوارہوئے اور زہرہ ایک ایسے سفر روانہ ہوگئی جس کی منزل کا اسے علم نہ تھا۔ عورت وہیں کھڑی رہی۔ شہر سے دور جاکر سواروں نے زہرہ سے کہاکہ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھنا ضروری ہے۔ زہرہ ان میں اکیلی تھی۔ مزاحمت نہیں کرسکتی تھی۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔
دو روز بعد پتہ چلا کہ نائب سالار حبیب القدوس کی چھوٹی بیوی بھی لاپتہ ہوگئی ہے۔ سراغ رسانوں نے ابتدائی تفتیش کی تو وہ ماننے کو تیار نہ ہوئے کہ اسے اغوا کیا گیا ہے۔ حبیب القدوس کے متعلق ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ وہ صلیبیوں یا سوڈانیوں کے پاس چلا گیا ہے۔ اب لوگ یہ بھی کہنے لگے کہ اس کی بیوی بھی اس کے پاس چلی گئی ہے۔ کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کس وقت اور کس طرح گئی ہے۔ اس وقت تک وہ حبیب القدوس کے پاس پہنچ چکی تھی۔ اس کی آنکھیں اس کمرے میں کھولی گئی تھیں جہاں اس کا خاوند اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ پوری رات اور اگلا دن آدھا دن سفر میں رہی تھی۔ راستے میں اسے کھانے پلانے کے دوران ا نکھوں سے پٹی کھولی گئی تھی اور اسے ساتھ لے جانے والے آدمیوں نے اس کے ساتھ کوئی بلا ضرورت یا ایسی ویسی بات نہیں کی تھی۔ اسے انہوں نے یہ یقین بار بار دلایا تھا کہ اسے ڈرنا نہیں چاہیے۔
حبیب القدوس کو دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی۔ اس کے ساتھ صلیبی بھی تھا۔ حبیب القدوس نے زہرہ سے کہا… ''یہ ہمارا دوست ہے اور اپنے آپ کو یہاں قیدی نہ سمجھنا۔ تم بہت تھکی ہوئی ہو۔ آج رات آرام کرلو۔ کل صبح تمہیں بتائیں گے کہ ہم کیا کرنے والے ہیں۔ تم اکثر کہا کرتی ہو کہ مردوں کی طرح جہاد میں شریک ہونا چاہتی ہو۔ میرے اس دوست نے تمہارے لیے بڑااچھا موقعہ پیدا کردیا ہے''۔
صلیبی انہیں اکیلا چھوڑ کر باہر نکل گیا۔
٭ ٭ ٭
زہرہ ابھی نوجوانی کی عمر میں تھی اور اس کے حسن میں خاصی کشش تھی۔ جسم چھریر اور طبیعت میں کچھ شوخی بھی تھی۔ شام سے ذرا پہلے وہ دو لڑکیاں جنہیں حبیب القدوس نے تالاب میں نہاتے دیکھا تھا، اس کے کمرے میں آئیں اور زہرہ کو بے تکلف سہیلیوں کی طرح اپنے ساتھ لے گئیں۔ یہ تھا تو ہیبت ناک کھنڈر لیکن لڑکیاں جہاں رہتی تھیں وہ کمرہ سجا ہوا اور وہاں رنگین فانوس تھے۔ اس کمرے میں کھنڈر کا گماں نہیں ہوتا تھا۔ زہرہ تھوڑے سے وقت میں ان میں گھل مل گئی۔ ان میں سے ایک لڑکی نے اسے کہا… ''تمہارے ماں باپ کتنے ظالم ہیں جنہوں نے تم جیسی نوخیز کلی کو اس بوڑھے کے قدموںمیں پھینک دیا ہے۔ تمہیں اس نے خریدا تو نہیں تھا؟''
''ہاں'' زہرہ نے رنجیدہ لہجے میں کہا… ''اس نے مجھے خریدا تھا۔ میں بھاگ کر کہیں جا بھی تو نہیں سکتی''۔
''اگر کوئی پناہ مل جائے تو بھاگ جائو گی؟''
''اگر یہ پناہ میری موجودہ زندگی سے بہتر ہوئی تو میں ضرور بھاگوں گی''… زہرہ نے کہا اور پوچھا… ''اس نے مجھے یہاں کیوں بلایا ہے؟ تم لوگ کون ہو؟ کیا یہ مجھے بیچ رہا ہے؟''
''اگر تم ہمارے پاس آجائو تو شہزادی بن کے رہو گی''… ایک لڑکی نے اسے کہا… ''ہم تمہیں بتا دیں گی کہ ہم کون ہیں لیکن اس سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ تم ہمارے ساتھ رہنے کے قابل بھی ہو یا نہیں… تم ہمارے ساتھ باہر جاکر ہماری طرح کپڑے اتار کر تالاب میں نہا سکو گی؟''
''اس حیوان سے مجھے آزاد کرادو تو جو کہو گی، کروں گی''… زہرہ نے کہا۔
ایک آدمی زہرہ کو کھانے کے لیے بلانے آگیا۔ اس نے کہا کہ نائب سالار کھانے پر انتظار کررہے ہیں۔ زہرہ چلی گئی تو وہی صلیبی آگیا جو حبیب القدوس کے ساتھ بات چیت کرتا رہا تھا۔ لڑکیوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے بتایا… ''یہ لڑکی ہمارے کام کی ہے اور وہ اس بوڑھے خاوند سے سخت نفرت کرتی ہے۔ اگر تم اجازت دو تو اسے اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہیں۔ تم نے دیکھ لیا ہے، یہ کتنی خوبصورت ہے۔ اس میں شوخی بھی ہے اور اس کا جسم سختی برداشت کرسکتا ہے۔ تربیت کی ضرورت ہے''۔
 ''لیکن میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ شخص تو یہ کہتا تھا کہ اسے اپنی بیوی پر اعتماد ہے اور وہی پیغام رسانی کا کام کرسکتی ہے''… صلیبی نے کہا… ''اگر یہ لڑکی اس شخص سے نفرت کرتی ہے تو اسے دھوکہ دے گی اور ہم سب کو پکڑوائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں اس معاملے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ آدمی ہمارے فریب میں آگیا ہے۔ مجھے مصری مسلمان اور وطن پرست سمجھتا ہے۔ ہمارا کام کرنے کو تیار ہوگیا ہے۔ اگر یہ لڑکی اسے دھوکہ دینے کی سوچ سکتی ہے تو ہم اسے استعمال کرسکتے ہیں۔ میں اسے پرکھوں گا۔ تم رات کو تھوڑی دیر کے لیے اسے میرے پاس لے آنا کسی بہانے باہر چلی جانا''۔
کھانے کے کچھ دیر بعد لڑکیاں پھر اسے ہنسنے کھیلنے اور گپ شپ کے لیے لے آئیں۔ اسے پہلے سے زیادہ بے تکلف بلکہ کسی حد تک بے حیا کرلیا۔ صلیبی آگیا اور لڑکیاں کسی بہانے سے باہر نکل گئیں۔ صلیبی نے زہرہ سے وہی باتیں کیں جو لڑکیاں اس کے ساتھ کرچکی تھیں۔ صلیبی نے اسے اپنے معیار کے مطابق پرکھا اور اسے بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کرنے لگا تو زہرہ نے اپنا بازو چھڑا کر کہا… ''میں ایسی عام اور سستی چیز نہیں کہ ذرا سے اشارے پر آپ کی گود میں گر پڑوں گی''۔
صلیبی کو اس کی یہ بات پسند آئی۔ لڑکی ہر کسی کے ہاتھ آنے والی نظر نہیں آتی تھی۔ البتہ اس نے یہ دیکھ لیا کہ زہرہ میں وہ جوہر موجود ہیں جو ان کی جاسوس اور تخریب کار لڑکیوں میں ہوتے تھے۔ ذرا تربیت کی ضرورت تھی۔ اسے بھی زہرہ نے بتایا کہ اسے اپنے خاوند سے نفرت ہے لیکن وہ چونکہ مجبور ہے اور نفرت کا انظہار نہی کرسکتی، اس لیے وہ سمجھتا ہے کہ وہ اسے چاہتی ہے۔

جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں