داستان ایمان فروشوں کی قسط 131 - اردو ناول

Breaking

اتوار, جنوری 09, 2022

داستان ایمان فروشوں کی قسط 131

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر131 نہ میں تمہاری، نہ مصر تمہارا

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

فتح حاصل کرکے کون خوش نہیں ہوتا؟ سلطان صلاح الدین ایوبی کو کسی معرکے، محاصرے یا بڑی جنگ میں فتح ہوتی تھی تو اس کے چہرے پر نورانی سی رونق آجاتی تھی۔ اس کی فوج جشن مناتی، سپاہی رقص کرتے، گاتے اور راتوں کو سوتے تھے۔ بکرے، دنبے اور اونٹ ذبح ہوتے۔ سپاہی خود پکاتے اور سلطان ایوبی ان کے لیے مشروبات کے مٹکے کھول دیا کرتا تھا مگر ١١٨٣ء (٥٧٩ہجری) کے دوران اس کے چہرے پررونق نہیں تھی، نہ ہی اس کی فوج جشن منا رہی تھی، حالانکہ اس نے ایک سال کے عرصے میں متعدد قلعے سرکر لیے ا ور شاہ آرمینیا جیسے طاقتور حکمران سے شکست کے عہدنامے پر دستخط کراکے اس سے اپنی شرائط منوالی تھیں۔

مؤرخوں نے اس دور کو سلطان ایوبی کی فتوحات کا دور کہا ہے مگر اس کی جذباتی کیفیت یہ تھی جیسے ہر فتح کے بعد اس کے چہرے پر بڑھاپے کی ایک لکیر کا اضافہ ہوگیا ہو۔ یہ لکیریں بڑھاپے اور اداسی کی تھیں۔ وہ ان میں سے کسی ایک فتح اور کسی ایک کامیابی پر بھی خوش نہ تھا۔ اسے جب چھاپہ ماروں کا سالار صارم مصری فاتحانہ انداز سے رپورٹ دیتا تھا کہ گزشتہ رات چھاپہ ماروں نے فلاں جگہ شب خون مار کر دشمن کو اتنا نقصان پہنچایا ہے تو سلطان ایوبی آہستہ سے سر ہلا کر اسے خراج تحسین پیش کرتا اور پھر اس کا سر یوں جھک جاتا تھا جیسے اس کے ضمیر پر ایسا بوجھ آپڑا ہو جو اس کی برداشت سے باہر ہو۔

''مجھے مبارکباد اس روز کہنا جس روز تم صلیبیوں کو شکست دو گے''… ایک روز سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں سے کہا۔ وہ اسے دیارِ بکر کی فتح کے بعد مبارکباد کہنے آئے تھے۔ اس روز تو اس کی آنکھیں لا ہوگئیں جیسے وہ آنسوئوں کو روکنے کی کوشش کررہا ہو۔ اس نے کہا… ''تم محسوس نہیں کررہے کہ ہم گھروں سے نکلے تھے، صلیبیوں کو شکست دینے اور انہیں اپنی سرزمین سے نکالنے کے لیے مگر انگلیوں پر گنو کہ تم کتنے برسوں سے اپنے ہی بھائیوں سے لڑ رہے ہو اور حساب کرو کہ ہم ایک دوسرے کا کتنا خون بہا چکے ہیں۔ کیا تم اسے فتح کہتے ہو؟ میں اس خانہ جنگی میں جو بھی فتح حاصل کرتا ہوں، وہ میری اور تمہاری نہیں، وہ صلیبیوں کی فتح ہوتی ہے۔ جب دو بھائی آپس میں لڑتے ہیں تو خوشی اور کامیابی ان کے دشمن کی ہوتی ہے۔ میں اسے فتح نہیں کہتا جو ہم نے اپنے بھائیوں پر حاصل کی ہے''۔

''صلیبی کیوں دبک گئے ہیں؟''… ایک سالار نے کہا… ''ہم آپ کو ان پر بھی فتح حاصل کرکے دکھا دیں گے''۔

''انہیں وہاں سے نکلنے اور لڑنے کی کیا ضرورت ہے، جہاں وہ دبک کر بیٹھ گئے ہیں''… سلطان ایوبی نے کہا… ''جنگ کا پہلا اصول کیا ہے؟… دشمن کی عسکری قوت کو تباہ کرنا۔ صلیبیوں نے ہماری عسکری قوت کو ہمارے بھائیوں کے ہاتھوں تباہ کرانے کا کامیاب انتظام کررکھا ہے۔ ہم آپس میں لڑ لڑ کر کمزور ہوتے جارہے ہیں اور صلیبی اس صورتحال سے اور اس وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روزبروز طاقتور ہوتے جارہے ہیں۔ فلسطین پر ان کا قبضہ مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ حکمرانی سدا اللہ کی ہے مگر حکمرانی کا نشہ جب انسان پر طاری ہوتا ہے تو مذہب اورملت کا وقار تو دور کی بات ہے وہ اپنی بیٹیوں کو ننگا نچانے لگتا ہے۔ جھوٹ اور فریب کاری کو وہ جائز اور ضرورت سمجھنے لگتا ہے۔ صلیبی امت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ریاستوں میں تقسیم کرتے چلے جارہے ہیں اور اللہ کی فوج کو ان ریاستوں میں تقسیم کرکے اسلام کی عسکری قوت کو پارہ پارہ کررہے ہیں''۔

''ہمیں ان علاقوں سے فوج کے لیے بہت بھرتی مل رہی ہے''… ایک سالار نے کہا… ''بڑے اچھے سپاہی اور سوار بڑی خوشی سے آرہے ہیں''۔

''لیکن مجھے اس کی کوئی خوشی نہیں''… سلطان ایوبی نے سب کو چونکا دیا۔ اس نے کہا… ''یہ لوگ صرف اس لیے ہماری فوج میں بھرتی ہورہے ہیں کہ جس شہر کو فتح کیا جاتا ہے، وہاں ہماری فوج لوٹ مار کرتی ہے اور وہاں سے حسین عورتیں ملتی ہیں''۔

''ہم نے اپنی فوج کو اپنی لوٹ مار اور آبروریزی کی اجازت کبھی نہیں دی''… ایک اور سالار نے کہا۔

''مگر ہمارا دشمن ہماری فوج کے خلاف یہی مشہور کررہا ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے اپنی فوج کو لوٹ مار کی اور مفتوح کی جوان لڑکیاں اٹھالے جانے کی اجازت دے رکھی ہے۔ دشمن نے ہماری فوج کے خلاف یہ بے بنیاد باتیں اس لیے مشہور کررکھی ہیں کہ خود مسلمانوں کے دلوں میں اسلامی فوج کے خلاف نفرت پیدا ہوجائے اور ہمیں کہیں سے بھی لوگوں کا تعاون نہ ملے بلکہ ہم جس شہر کا محاصرہ کریں وہاں کے لوگ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہماری اس فوج کے خلاف لڑیں جو اسلامی فوج ہے اور جو ہر لحاظ سے حزب اللہ کہلانے کی حق دار ہے۔ یاد رکھو میرے دوستو! قوم بغیر فوج کے اور فوج قوم کے والہانہ تعاون کے بغیر دشمن کے لیے آسان ہوتی ہے۔ اپنے دشمن کو پہچانو۔ تمہارا دشمن دانشمند ہے، اس نے ہماری قوم اور فوج میں نفرت پیدا کرنے کا بڑا اچھا اہتمام کیا ہے۔ قرآن نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانے کا حکم صرف قوم یا صرف فوج کو نہیں دیا۔ سیسہ پلائی ہوئی دیوار قوم اور فوج مل کر بنتی ہے۔ اس دیوار میں شگاف ڈالنے کا یہ طریقہ کارگر ہے کہ فوج کو نااہل، بزدل، زانی اور ڈاکوکہہ کر قوم کی نظروں سے گرا دیا جائے''۔

''دیارِ بکر کے لوگوں پر تو ایسا کوئی اثر نہیں دیکھا''… صارم مصری نے کہا… ''انہیں جونہی پتہ چلا کہ محاصرہ کرنے والے ہم ہیں اور ان کا حکمران اپنی فوج کے خلاف لڑا رہا ہے تو لوگوں نے شہر کے دروازے کھول دئیے تھے''۔

''وہاں ہمارے جاسوس زیادہ تعداد میں تھے''۔ سلطان ا یوبی نے کہا۔ ''وہاں کی تمام بڑی مسجدوں کے امام ہمارے آدمی تھے۔ انہوں نے وہاں کے لوگوں کو صرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰة کے وعظ نہیں دئیے، اس کے ساتھ وہ لوگوں کو صلیبیوں کے عزائم اور اپنے ایمان فروش امراء اور حاکموں کے متعلق بھی بتاتے رہے ہیں اور یہ بھی کہ جب ایک مسلمان دوسرے کا خون بہاتا ہے تو عرش معلی لرز جاتا ہے اور خدا اس بستی پر اپنا قہر نازل کرتا ہے جہاں کے مسلمان مسلمانوں کے خلاف لڑتے اور خون بہاتے ہیں۔ تمہیں یہ معلوم نہیں کہ دیارِ بکر میں صلیبیوں کے جاسوس اور تخریب کار بھی درویشوں، صوفیوں اور عالموں کے بہروپ میں موجود تھے اور نظریاتی تخریب کاری کررہے تھے لیکن ہمارے آدمیوں نے ان میں بعض کو خفیہ طریقوں سے اغوا اور قتل کیا اور ان کی آواز کو بیکار کردیا مگر ہم اس وقت جس علاقے میں ہیں، یہاں صلیبیوں کی تخریب کاری کامیاب ہورہی ہے''۔

''یہ جو سپاہی اور سوار لوٹ مار کے لالچ سے بھرتی ہورہے ہیں، کیا یہ پوری فوج کو خراب نہیں کریں گے؟'' سالار نے پوچھا۔

''تم نے دیکھا نہیں کہ انہیں کس قسم کی تربیت دی جارہی ہے؟''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں نے تمہیں تربیت اور جنگی مشقوں کا جو نیا طریقہ بتایا ہے وہ انہیں صحیح سوچ پر لے آئے گا۔ میں فوج میں ان کی تقسیم ایسے طریقے سے کررہا ہوں کہ یہ فوج پر نہیں بلکہ فوج ان پر اثرانداز ہوگی۔ تم بہت جلدی میرا یہ تحریری حکم بھی دیکھ لو گے کہ مفتوحہ علاقے میں اپنا کوئی سپاہی لوٹ مار کرتا یا کسی عورت پر ہاتھ ڈالتا دیکھا جائے تو اسے تیر کا نشانہ بنا دیا جائے یا قریب جاکر اس کی گردن اڑا دی جائے۔ دشمن کے بے بنیاد الزامات کو غلط ثابت کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ فوج اپنے کردار سے مفتوح لوگوں پر اور اپنی قوم پر بھی دل موہ لینے والا اثر پیدا کرے۔ مجھے یہی خطرہ نظر آرہا ہے کہ صلیبی اور یہودی ہر دور میں اسلام کی فوج اور قوم کے درمیان منافرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ قوم کی کردار کشی الگ اور فوج کی الگ کریں گے اور اس طرح دونوں کا ایمان اور قومی جذبہ برباد کرکے انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنائے رکھیں گے۔ یہ کام وہ مسلمانوں کے ہاتھوں کرائیں گے''۔

٭ ٭ ٭

: سلطان صلاح الدین ایوبی دریائے فرات کے کنارے خیمہ زن تھا۔ اس نے کئی ایک چھوٹی چھوٹی مسلمان ریاستوں کے حکمرانوں کو مطیع بنا لیا اور متعدد قلعوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ وہ مسلمان حکمران تھے جو درپردہ صلیبیوں کے دوست اور سلطان ایوبی کے مخالف تھے۔ سلطان ایوبی کی منزل بیت المقدس تھی جس پر صلیبیوں نے قبضہ کرکے اسے یروشلم کا نام دے رکھا تھا مگر اپنے مسلمان حکمران ا ور امراء سلطان ایوبی کے راستے میں حائل ہوگئے تھے۔ سلطان ایوبی فوج کو چند دن آرام دینے کے لیے فرات کے کنارے رک گیا تھا، وہاں گھوڑوں، خچروں، اونٹوں اور رسد کی کمی پوری کی جارہی تھی۔

سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے سلطان ایوبی فرات کے کنارے ٹہل رہا تھا۔ اس کے ساتھ گھوڑ سوار دستوں کا سالار اور چھاپہ مار دستوں کا سالار صارم مصری تھا۔ ان سے کچھ دور سفید جبے میں ملبوس ایک آدمی کھڑا تھا جس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا رکھے تھے۔ سلطان ایوبی ادھر چل پڑا۔ قریب پہنچا تو دیکھا کہ وہاں چار قبریں ہیں۔ ان میں سے ایک قبر کے سرہانے ایک ڈنڈا گڑا تھا اور اس کے ساتھ لکڑی کی ایک تختی تھی جس پر لال رنگ سے عربی زبان میں لکھا تھا:

عمرالملوک

اللہ تیری شہادت قبول کرے

نصرالملوک

اس کے ساتھ کی قبر پر بھی ایسی تختی لگی ہوئی تھی جس پر اسی قسم کی لال تحریر تھی!

نصرالملوک

اللہ میری شہادت قبول کرے

سلطان ایوبی نے دونوں تحریریں پڑھیں اور اس آدمی کی طرف دیکھا جو قبروں پر فاتحہ پڑھ رہا تھا۔ وہ وضع اور لباس سے عالم فاضل لگتا تھا۔ سلطان ایوبی نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے ذرا جھک کر کہا… ''میں اس گائوں کا امام ہوں، جہاں کہیں پتہ چلتا ہے کہ شہید کی قبر ہے وہاں چلا جاتا ہوں اور فاتحہ پڑھتا ہوں۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ جس جگہ شہید کے خون کا قطرہ گرتا ہے وہ جگہ مسجد جتنی مقدس ہوجاتی ہے۔ میں لوگوں کو یہی بتایا کرتا ہوں کہ مجاہد وہ عظیم شخصیت ہے جس کے گھوڑے کے سموں کی اڑائی ہوئی گرد کا احترام خدا نے بھی کیا ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کو خدائے ذوالجلال نے افضل عبادت کہا ہے''۔

''مگر اللہ کے نام پر جانیں قربان کرنے والے ایسے ہی گمنام لوگ ہوتے ہیں جن کی قبریں آپ دیکھ رہے ہیں۔ تاریخ میں ان کا نہیں میرا نام آئے گا مگر مجھے عظمت دینے والے یہ لوگ تھے''… اس نے اپنے سالاروں کی طرف دیکھا اور قبروں کی دونوں تختیوں کی تحریروں پر ہاتھ پھیر کر کہا… ''یہ الفاظ لال رنگ میں انگلی ڈبو کر لکھے گئے ہیں۔ لکھنے والا ایک ہی آدمی معلوم ہوتا ہے''۔

''لال رنگ نہیں سلطان محترم!''… چھاپہ ماروں کے سالار صارم مصری نے کہا… ''یہ خون ہے۔ عمرالملوک کی قبر کی تختی نصرالملوک نے اپنے خون سے لکھی تھی اور اس نے اپنے ہی خون سے اپنی قبر کی بھی تختی لکھی اور شہید ہوگیا تھا۔ سولہ سترہ دن گزرے رات کو دریا سے ہم نے ایک بہت بڑی کشتی پکڑی تھی جس میں دشمن کے چھاپہ ماروں کے لیے رسد جارہی تھی۔ آپ کو اس کی اطلاع دی گئی تھی۔ یہ کشتی ہمارے آٹھ چھاپہ ماروں نے پکڑی تھی۔ ان میں سے یہ چار شہید ہوگئے تھے۔ ہمیں پہلے اطلاع مل گئی تھی کہ ایک بڑی کشتی رات کو گزرے گی جس میں دشمن کی رسد اور اسلحہ ہوگا۔ میں نے اپنے آٹھ چھاپہ مار بھیجے۔ یہ ایک چھوٹی سی کشتی میں تھے''…


''آدھی رات دوسرے کنارے کے ساتھ ساتھ وہ کشتی جارہی تھی۔ ہمیں اطلاع ملی تھی کہ اس میں چار پانچ آدمی ہوں گے لیکن ہمارے چھاپہ ماروں کی کشتی اس کے قریب گئی تو اس میں کم وبیش بیس آدمی تھے۔ اس سے پہلے کہ ہمارے یہ چھاپہ مار دشمن کی کشتی میں کود جاتے، دشمن کے آدمی جو تلواروں سے مسلح تھے، ہمارے کشتی میں کود آئے۔ ہمارے یہ چھاپہ مار دریائی چھاپوں کا تجربہ رکھتے تھے۔ وہ اپنی کشتی سے دریا میں کودے اور دشمن کی کشتی پر چڑھ کر اس کے بادبانوں کے رسے کاٹ دئیے۔ دونوں کشتیوں میں خون ریز معرکہ لڑا گیا۔ ہمارے چھاپہ ماروں نے بڑی کشتی سے اپنی کشتی پر تیز پھینکے جس میں دشمن کے آدمی تھے۔ بہرحال ہمارے جانباز عقل اور دائوپیچ سے معرکہ لڑکر دونوں کشتیاں لے آئے۔ دشمن کے آدمی جو مرے نہیں تھے، دریا میں کود کر دوسرے کنارے پر چلے گئے''…

''کشتیاں کنارے لگیں، مجھے اطلاع ملی تو میں انہیں دیکھنے گیا۔ صبح طلوع ہورہی تھی۔ ایک کشتی میں عمرالملوک کی اور اس کی دو ساتھیوں کی لاشیں تھیں اور باقی سب زخمی تھے۔ نصرالملوک سب سے زیادہ زخمی تھا۔ دو گہرے زخم برچھی کے اور تین زخم تلوار کے تھے۔ وہ ہوش میں تھا، مرہم پٹی کے لیے لے گئے تو اس نے مجھ سے کہا کہ اسے ایک تختی دی جائے جو وہ اپنے دوست کی قبر پر لگانا چاہتا ہے۔ میں نے ترکھانوں سے اسے تختی منگوا دی۔ اس دوران اس نے اپنی مرہم پٹی نہ ہونے دی۔ تختی آئی تو اس نے اپنے خون میں شہادت کی انگلی ڈبو

: ڈبو ڈبو کر عمرالملوک کا نام اور یہ تحریر لکھی اور تختی مجھے دے کر کہا کہ یہ عمر کی قبر پر لگا دی جائے۔ میں نے یہ تختی ایک ڈنڈے کے ساتھ لگا کر عمرالملوک کی قبر کے سرہانے لگا دی''…

''نصرالملوک کے زخموں سے خون نکلتا رہا۔ بند نہیں ہورہا تھا۔ تیسرے دن اس کی حالت بگڑ گئی۔ میں اسے دیکھنے آیا تو جراح نے مایوسی کا اظہار کیا۔ خود نصرالملوک کو محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ زندہ نہیں رہ سکے گا۔اس نے مجھے کہا کہ اسے ویسی ہی ایک تختی دی جائے۔ میں نے تختی منگوا دی۔ اس نے تختی اپنے پاس رکھ لی۔ رات کو مجھے اطلاع ملی کہ نصر شہید ہوگیا ہے۔ میں گیا تو اس کے ایک زخمی ساتھی نے تختی مجھے دی اور بتایا کہ نصر نے اپنے ایک زخم سے پٹی کھول لی۔ خون نکل رہا تھا۔ اس نے اپنے خون میں انگلی ڈبو ڈبو کر یہ تحریر لکھی… ''نصرالملوک… اللہ میری شہادت قبول کرے''… اس کے ساتھی نے بتایا کہ نصر نے کہا تھا کہ اسے اپنے دوست عمرالملوک کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ اس طرح یہ دونوں تختیاں ایک ہی شہید کے خون سے لکھی گئی ہیں''۔

''یہ د ونوں مملوک تھے محترم امام!''… سلطان ایوبی نے امام سے کہا… ''آپ جانتے ہوں گے کہ مملوک کس نسل سے ہیں۔ یہ ان غلاموں کی نسل سے ہیں جنہیں آزاد کرادیا گیا تھا۔ ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلامی کو ممنوع قرار دیا اور فرمایا تھا کہ انسان انسان کا غلام نہیں ہوسکتا۔ ذرا دیکھو، ان غلاموں نے کیسا کارنامہ کردکھایا ہے۔ یہ آٹھ تھے لیکن بیس آدمیوں سے اتنی بڑی کشتی چھین کر لے آئے ہیں۔ مجھے اپنی فوج میں مملوکوں اور ترکوں پر جتنا بھروسہ ہے اور کسی پر نہیں''۔

''اب انسان پھر انسان کا غلام بنتا جارہا ہے''… امام نے کہا… ''حکمرانی حاصل کرنے کے جتن اسی لیے کیے جاتے ہیں کہ انسانوں کو غلام بنایا جائے لیکن انسان سمجھتا نہیں کہ تخت وتاج نے کسی کے ساتھ کبھی وفا نہیں کی۔ فرعون بھی مٹی میں مل گئے۔ خدا نے ہر اس انسان کو عبرتناک سزا دی ہے جس نے تخت وتاج سے پیار کیا اور ہر اس انسان کا خون بہایا جس سے اسے اپنی بادشاہی کے لیے خطرے کی بو آئی''۔

سلطان ایوبی کے محافظ دستے کا کمانڈر ایک آدمی کو ساتھ لیے آرہا تھا۔ اس آدمی کی حالت بتا رہی تھی کہ بڑے لمبے سفر سے آیا ہے۔ کمانڈر نے قریب آکر کہا… ''قاہرہ سے قاصد آیا ہے''۔

''کیا خبر لائے ہو؟''… سلطان ایوبی نے اس سے پوچھا۔

''خبراچھی نہیں''… قاصد نے کہا اور کمربند سے ایک کاغذ نکال کر سلطان ایوبی کو دیا۔

سلطان ایوبی اپنے خیمے کو چل پڑا۔ خیمے میں بیٹھ کر اس پیغام کو کھولا۔ یہ اس کے جاسوسی اور سراغ رسانی کے سربراہ علی بن سفیان کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔ لکھا تھا… ''ہمارا سب سے زیادہ دین دار اور دلیر نائب سالار حبیب القدوس دس دنوں سے لاپتہ ہے۔ صلیبیوں کی تخریب کاری زوروں پر ہے۔ ہم یہاں زمین دوز جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایمان فروشوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس مسئلے پر آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم دشمن کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ پریشانی حبیب القدوس نے پیدا کردی ہے۔ اس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔ اس کا صرف لاپتہ ہوجانا پریشان کن نہیں، ہم ایک اور خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ حبیب القدوس کے ماتحت جتنے دستے ہیں، وہ ان میں اتنا ہر دل عزیز ہے کہ سپاہی اس کے اشارے پر جانیں قربان کرتے ہیں۔ اگر وہ خود دشمن سے جاملا ہے تو یہ خطرہ ہے کہ وہ اپنے دستوں کو جو اس کے زیراثر ہیں، سلطنت کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرسکتا ہے۔ میں اسے تلاش کرنے کی کوششوں سے دستبردار یا مایوس نہیں ہوا۔ میں آپ سے صرف یہ اجازت لینا چاہتا ہوں کہ اگر تلاش کے دوران وہ سامنے آجائے اور ضرورت محسوس ہو کہ اسے مار ڈالا جائے تو اسے مار دیا جائے۔ آپ کے قائم مقام ا میر مصر نے اس کی اجازت نہیں دی۔ صرف یہ اجازت دی ہے کہ میں آپ کو براہ راست خط لکھ کر اجازت لے لوں۔ اگر میں اسے تلاش نہ کرسکا تو آپ مجھ سے بازپرس کریں گے اور اگر وہ میرے ہاتھ سے مارا گیا تو بھی آپ پسند نہیں کریں گے۔ اس نائب سالار کا ہمارے دشمن کے پاس رہنا ہمارے لیے بہت بڑا خطرہ ہے''۔

سلطان ایوبی نے اسی وقت کاتب کو بلایا اور پیغام کا جواب لکھوانے لگا:

 ''عزیز علی بن سفیان! تم پر خدا کی رحمت ہو۔ حبیب القدوس پر مجھے اتنا ہی اعتماد تھا جتنا تم پر ہے، جو انسان اپنا ایمان فروخت کرنے پر آجائے وہ خدا سے نہیں ڈرتا، وہ مجھ جیسے حقیر انسان کو بھی دھوکہ دے سکتا ہے۔ ایمان ایک قوت ہے مگر یہ ہیرے اور جواہرات کی طرح چمکتا نہیں۔اس میں عورت کے حسن وجمال کی کشش نہیں اور ایمان میں تخت اور تاج بھی نہیں۔ جب انسان پر دنیا کی لذتوں کا سرور اور زروجواہرات کی ہوس پیدا ہوجاتی ہے تو ایمان سے دستبردار ہونے میں کچھ وقت نہیں لگتا… حبیب القدوس کو تلاش کرنے کی کوشش کرو اگر کبھی ضرورت محسوس ہو کہ اسے قتل کردیا جائے تو تمہیں میری طرف سے اجازت لیکن یہ معلوم کرنے کی بھی کوشش کرنا کہ اسے اغوا تو نہیں کیا گیا؟ حالات تمہاری نظر میں ہیں۔ جو بہتر سمجھو وہ کرو۔ مفاد سلطنت اور مذہب مقدم ہے۔ ایک انسان کی زندگی اور موت اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی، جہاں فوج کی اتنی زیادہ تعداد ماری جارہی ہے، سپاہی اپنی جانیں دے رہے ہیں، وہاں ایک غدار حاکم کو مار دینے سے پہلے اتنا زیادہ نہ سوچو کہ تمہارا قیمتی وقت اس پر صرف ہوتا رہے۔ اللہ سے گناہوں کی بخشش مانگتے رہو۔ ہم سب گناہ گار ہیں۔ پاک ذات صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔ تم حق پر ہو تو اللہ تمہارے ساتھ ہے''۔

سلطان ایوبی نے پیغام کے نیچے اپنی مہر لگائی اور پیغام قاصد کے حوالے کردیا اور اسے کہا کہ وہ رات بھر آرام کرکے علی الصبح روانہ ہوجائے۔

وہ تاریخ اسلام کا پرآشوب دور تھا۔ ادھر سرزمین عرب مسلمانوں کے خون سے لال ہورہی تھی۔ صلیبیوں اور یہودیوں نے مسلمانوں میں غدار اور سازشی پیدا کرکے مسلمانوں کو خانہ جنگی میں الجھا دیا تھا۔ ادھر مصر میں یہی کفار مسلمان حاکموں میں غدار پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ لوگوں میں سلطان ایوبی کی حکومت کے خلاف نفرت پیدا کررہے تھے اور سلطان ایوبی کی فوج پر بڑے ہی شرمناک الزامات کی تشہیر کررہے تھے۔ انہوں نے یہ مہم زمین دوز طریقے سے چلا رکھی تھی۔ علی بن سفیان اور قاہرہ کا کوتوال غیاث بلبیس اس مہم کے اثرات زائل کرنے اور مجرموں کو پکڑنے میں سرگرم رہتے تھے۔

ایک نائب سالار کا غائب ہوجانا معمولی واقعہ نہیں تھا مگر اس کا کچھ بھی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ حبیب القدوس کے متعلق کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ بھی غداری کا مرتکب ہوسکتا ہے لیکن اس دور میں غداری ایک عام سی چیز بن کے رہ گئی تھی۔ حبیب القدوس لاپتہ ہوا تو سب نے یہی کہا کہ وہ کوئی فرشتہ تو نہیں تھا۔ اس کی تین بیویاں تھیں اور یہ کوئی معیوب امر نہیں تھا۔ اس کی حیثیت کے حاکموں نے چار چار بیویاں رکھی ہوئی تھیں اور جو ذرا زندہ دل تھے، ان کے ہاں ایک دو داشتہ عورتیں بھی ہوتی تھیں۔ حبیب القدوس کی زندگی میں شراب اور راگ رنگ کا ذرہ بھر دخل نہ تھا۔ صوم وصلوٰة کا پابند تھا اور میدان جنگ میں دشمن کے لیے سراپا قہر۔ شجاعت کے علاوہ فن حرب وضرب میں مہارت رکھتا تھا۔ جنگی منصوبہ بندی ایسی کہ کم سے کم نفری سے کثیرتعداد دشمن کا ستیاناس کردیتا تھا۔

اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اپنے دستوں میں ہر دل عزیز تھا۔ اس کے ماتحت جو کمان دار اور سپاہی تھے ان کے لڑنے کا انداز یہ ہوتا تھا جیسے وہ حکم سے نہیں عقیدت سے لڑ رہے ہوں۔ بعض اوقات تو یہ گمان ہوتا تھا کہ یہ دستے اس کی ذاتی فوج ہیں اور یہ سلطان ایوبی کے حکم سے نہیں،حبیب القدوس کے اشارے پر ہی لڑتے ہیں۔ ان کی تربیت اس نے اتنی سخت کررکھی تھی اور انہیں اتنی جنگی مشقیں کراتا تھا کہ آج کی زبان میں یہ ''کریک ٹروپس'' بن گئے تھے۔ ان کی نفری تین ہزار پیادہ اور دو ہزار سوار تھی۔ تیر اندازی میں اتنے ماہر جیسے اندھیرے میں آواز پر تیر چلائیں تو تیر بولنے والے کے منہ میں لگے۔

علی بن سفیان جاسوسی اور سراغ رسانی کا ماہر تھا۔ غیاث بلبیس کوتوال تھا اور سول انٹیلی جنس میں مہارت رکھتا تھا۔ ان دونوں کی رائے یہ تھی کہ حبیب القدوس کو دشمن نے اس کی اسی خوبی کی وجہ سے اپنے جال میں لیا ہے کہ وہ اپنے پانچ ہزار نفری کے دستوں کو باغی کرسکے گا۔ پانچ ہزار نفری معمولی نفری نہیں تھی۔ ان دستوں کو نہتہ کردینے کی بھی تجویز پیش ہوئی تھی جو علی بن سفیان اور غیاث بلبیس نے یہ دلیل دے کر مسترد کردی تھی کہ اس طرح یہ باغی نہ ہوئے تو بھی باغی ہوجائیں گے۔ اس کے بجائے انہوں نے ان دستوں میں کسی نہ کسی بہروپ میں اپنے جاسوس چھوڑ دئیے تھے جو بارکوں میں سپاہیوں کی گپ شپ سنتے رہتے تھے۔ کمان داروں پر بھی ان کی نظر تھی۔

گہری نظر حبیب القدوس کے گھر پر رکھی گئی تھی۔ اس کی تین بیویوں میں ایک کی عمر تیس اور چالیس کے درمیان تھی اور دو چوبیس پچیس سال کی تھیں۔ ان سے پوچھا گیا۔ انہوں نے اتنا ہی بتایا تھا کہ ایک شام اس کے پاس دو آدمی آئے تھے۔ حبیب القدوس ان کے ساتھ نکل گیا تھا، پھر واپس نہیں آیا۔ ملازموں سے بھی بہت گہری تفتیش کی گئی۔ ان سے بھی کوئی سراغ نہ ملا۔ بیویوں کے متعلق درپردہ معلوم کیا گیا۔ ان میں کوئی بھی مشکوک نہیں تھی۔ صرف اتنا پتہ چلا کہ چھوٹی عمر کی دو بیویوں میں سے ایک کے ساتھ جس کا نام زہرہ تھا، اسے سب سے زیادہ پیار تھا۔ یہ اس کے ایک سوار دستے کے کمان دار کی بیٹی تھی۔

اس کمان دار سے پوچھاگیا کہ اس نے اپنی عمر کے آدمی کو اپنی جوان بیٹی کیوں دی تھی؟ کیا حبیب القدوس نے اسے ماتحت سمجھ کر مجبور کیا تھا؟

''نہیں''۔ کمان دار نے جواب دیا… ''نائب سالار حبیب القدوس اسلام اور جہاد کے اتنے ہی متوالے ہیں جتنا میں ہوں۔ میں نے ان کے ساتھ لڑائیاں لڑی ہیں، وہ کہا کرتے تھے کہ مومن کی تلوار نیام سے نکل آئے تو نیام میں اس وقت تک نہیں آنی چاہیے جب تک دشمن کا ایک بھی سپاہی سامنے موجود ہے اور وہ کہا کرتے تھے کہ کفر کا فتنہ ختم ہونے تک جہاد جاری رہتا ہے۔ غداروں سے وہ اتنی نفرت کرتے تھے کہ ایک سرحدی لڑائی میں سوڈانیوں نے اچانک حملہ کیا تو ہمارے دو سوار بھاگ اٹھے۔ نائب سالار نے دیکھ لیا، انہیں پکڑنے کا حکم دیا۔ انہیں پکڑ لائے۔ نائب سالار نے ان سے کچھ پوچھے اور کہے بغیر دونوں کو انہی کے گھوڑوں کے پیچھے اپنے ہاتھوں سے باندھا اور گھوڑوں پر دو سوار بٹھا کر حکم دیا کہ گھوڑے دوڑائو اور رکو اس وقت جب گھوڑے خود تھک کر رک جائیں''…

''جب گھوڑے واپس آئے تو ان کا پسینہ بہہ رہا تھا اور سانس لینا مشکل ہورہا تھا۔ ان کے پیچھے بندھے ہوئے سپاہیوں کا یہ حال تھا کہ ان کے جسم پر کپڑے نہیں تھے اور ان کی کھالیں اتر گئی تھیں۔ جسم پر گوشت بھی پورا نہیں تھا۔ لڑائی اس طرح ختم ہوگئی تھی کہ سوڈانیوں میں سے زیادہ تر مارے گئے، کچھ پکڑے گئے اور باقی بھاگ گئے۔ حبیب القدوس نے تمام دستوں کو اکٹھا کرکے ان سپاہیوں کی لاشیں دکھائیں اور کہا کہ اللہ کی راہ میں لڑنے سے بھاگنے والوں کی یہ سزا دنیاوی ہے، اگلے جہان ان کے جسم سالم ہوں گے اور انہیں دوزخ میں پھینک دیا جائے گا''…

''ہم سب جہاد اور شہادت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ایک روز میری بیٹی میرے ساتھ تھی۔ میں نے اپنی بیٹی کو بھی وہی تربیت دے رکھی ہے جو باپ نے مجھے دی تھی۔ میرا ایک بیٹا اس وقت سلطان کی فوج کے ساتھ شام میں ہے۔ میں اپنی بیٹی کو بتایا کرتا تھا کہ ہمارے نائب سالار حبیب القدوس سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے مجاہد ہیں۔ میری بیٹی کو اس روز نائب سالار نے دیکھ لیا اور پوچھا کہ یہ کون ہے؟ میں نے بتایا کہ یہ میری بیٹی ہے اور یہ مجاہدہ ہے۔ بہت دنوں بعد انہوں نے مجھے کہا کہ وہ اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے اپنی بیٹی کی ماں سے بات کی تو اس نے کہا کہ بیٹی پہلے ہی کہتی ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے جو اسلام کی پاسبانی میں اپنی جان کی بازی لگانے والا ہو۔ اس طرح میں نے بڑی خوشی سے اپنی بیٹی کی شادی نائب سالار سے کردی اور میری بیٹی نے انہیں دلی طور پر قبول کر لیا۔ اب سنا ہے کہ وہ لاپتہ ہیں، میں آپ کو یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ان کے متعلق اگر دل سے کسی کو رنج ہے تو وہ صرف میری بیٹی ہے۔ وہ اسی کو زیادہ چاہتے تھے، باقی دو بیویاں کہتی ہیں کہ یہ مرگیا تو کسی اور کے ساتھ شادی کرلیں گی''۔

٭ ٭ ٭

 ''مجھے اب یقین سا ہونے لگا ہے کہ اس کا دماغ ہمارے قبضے میں آگیا ہے''… یہ آواز قاہرہ سے بہت دور ان کھنڈروں سے ابھری تھی جہاں کسی فرعون نے اپنے زمانے میں محل بنایا تھا۔ اس زمانے میں یہ جگہ بہت خوبصورت اور سرسبز ہوگی۔ علاقہ پہاڑی تھا اور دریائے نیل کے کنارے پر تھا۔ پہاڑیوں پر درخت اور سبزہ تھا اور وہاں دریا کچھ اندر کو آجاتا تھا۔ کسی فرعون نے یہ محل بنایا تھا۔ سلطان کے دور میں یہ ڈرائونا کھنڈر بن چکا تھا۔ دیواروں اور ستونوں پر کائی اگی ہوئی تھی۔ چیلوں جتنے بڑے چمگاڈروں کے سیاہ بادل اس کھنڈر میں سمٹے رہتے تھے۔ کھنڈروں کے برآمدوں اور کمروں میں انسانی ہڈیاں اور کھونپڑیاں بکھری ہوئی تھیں۔ اس دور کے ہتھیار بھی ادھر ادھر پڑے نظر آتے ہیں، ادھر اب کوئی نہیں جاتا تھا، مشہور ہوگیا تھا کہ وہاں جنوں، چڑیلوں اور بدروحوں کا بسیرا ہے جو زندہ انسانوں کا شکار کرتی ہیں۔

اس ہولناک کھنڈر میں جس کے میلوں دور سے بھی کوئی نہیں گزرتا تھا، ایک آدمی کہہ رہا تھا کہ مجھے اب یقین سا ہونے لگا ہے کہ اس کا دماغ ہمارے قبضے میں آگیا ہے۔ پھر اس نے کہا… ''نہیں آئے گا تو یہاں سے زندہ نہیں نکلے گا''۔

''ہم اسے اس لیے نہیں لائے کہ یہاں لاکر اسے قتل کردیں''… دوسرے نے کہا… ''اگر قتل کرنا ہوتا تو اسے اس کے گھر سے اٹھانے اور اتنی دور لانے کے بجائے وہیں قتل نہ کردیتے؟ اسے اس کام کے لیے تیار کرنا ہے جس کے لیے اسے لائے ہیں''۔

''حشیش اپنا کام کررہی ہے''۔

''تم کسی کو نشہ پلا کر اس سے ایسی باتیں کراسکتے ہو جن کا اس کی عقل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ حشیش سے تم کسی کے ایمان اور نظریئے کو نہیں بدل سکتے۔ یہ شخص پانچ ہزار نفری کی جنگی قوت کا حامل ہے۔ ہمیں صرف اسے نہیں، اس کی پوری نفری کو اپنے ہاتھ میں لے لینا اور اسے مصر کی فوج کے خلاف لڑانا ہے، پھر مصر ہمارا ہوگا اور پھر صلاح الدین ایوبی کی حالت اسی شیر جیسی ہوگی جو بہت سے شکاریوں کے گھیرے میں ہوگا۔ وہ سب کو چیرپھاڑ دینے کو جھپٹے گا مگر اسے صرف موت ملے گی… اگر سلطان ایوبی کا یہ نائب سالار حبیب القدوس اپنے دستوں کو اشارہ کردے تو وہ کچھ سوچے بغیر اس کا حکم مانیں گے''۔

حبیب القدوس اسی کھنڈر کے ایک کمرے میں بیٹھا تھا جسے صاف کرلیا گیا تھا۔ اس کے نیچے نرم گدے بچھے ہوئے اور اس کے پیچھے گول تکیے تھے۔ آسائش کا سارا سامان موجود تھا۔ اس کے سامنے ایک آدمی بیٹھا تھا جس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رکھی تھی اور وہ کہہ رہا تھا… ''مصر میری مملکت ہے، صلاح الدین ایوبی عراقی کرد ہے۔ اس نے میری مملکت پر قبضہ کررکھا ہے۔ صلاح ا لدین ایوبی نے میری مملکت کی حسین لڑکیوں سے اپنا حرم بھر رکھا ہے۔ میرے پانچ ہزار جانباز پورے مصر پر قبضہ کرلیں گے''۔

حبیب القدوس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس کے چہرے پر رونق تھی، وہ بڑبڑانے کے لہجے میں کہنے لگا… ''میری تلوار کہاں ہے؟ میرا گھوڑا تیار کرو۔ میں صلاح الدین ایوبی کو قتل کروں گا۔ میرے پانچ ہزار جانباز ایک دن میں مصر کی فوج سے ہتھیار ڈلوالیں گے''۔

''صلیبی میرے دوست ہیں''… اس آدمی نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے کہا… ''وہ میری مدد کو آئیں گے۔ دوست وہ جو برے وقت میں مدد دے''۔

''میری تلوار کہاں ہے؟'' حبیب القدوس ذرا صاف آواز میں بولنے لگا… ''مصر بہت خوبصورت ہوگیا ہے۔ مصر کی لڑکیاں زیادہ حسین ہوگئی ہیں، مصر میرا ہے، مصر میرا ہے''۔

ایک لڑکی اندر آئی جس کا لباس ایسا تھا کہ برہنہ لگتی تھی۔ اس کے بال ملائم اور کھلے ہوئے تھے۔ اس کا جسم ہلکے گلابی رنگ کا اور سڈول تھا۔ وہ حبیب القدوس کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنا ایک بازو حبیب القدوس کے کندھوں پر ڈال دیا۔ حبیب القدوس اپنا گال اس کے ریشمی بالوں سے مس کرنے لگا۔ اس نے مخمور لہجے میں کہا… ''مصر بہت حسین ہوگیا ہے''۔

لڑکی ایک طرف ہٹ گئی اور بولی… ''لیکن مجھ پر سلطان ایوبی کا قبضہ ہے''۔

حبیب القدوس نے لپک کر اسے اپنے بازوئوں میں لے لیا اور اپنے قریب گھسیٹ کر بولا… ''تم پر کوئی قبضہ نہیں کرسکتا۔ تم میری ہو، مصر میرا ہے''۔

''جب تک صلاح الدین ایوبی زندہ ہے یا جب تک مصر پر اس کی بادشاہی ہے، نہ میں تمہاری نہ مصر تمہار ہے''۔

''میں اسے قتل کردوں گا''۔ حبیب القدوس نے کہا… ''میں اسے قتل کردوں گا''۔

: ''رک جائو''۔ ایک سخت غصیلی آواز کمرے میں گونجی۔ یہ ایک صلیبی تھا جو مصری زبان بول رہا تھا۔ یہ وہی تھا جسے کھنڈر میں کسی دوسری جگہ ایک مصری بتا رہاتھا کہ اب یقین ہونے لگا ہے کہ اس شخص (حبیب القدوس) کا دماغ ہمارے قبضے میں آرہا ہے اور اس نے کہا تھا کہ اسے حشیش کے نشے کے بغیر اپنے کام میں لانا ہے۔ وہ اس کمرے میں آیا جہاں حبیب القدوس کے دماغ کو حشیش کے نشے کے زیراثر اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ اس نے غصے میں کہا… ''تم حسن بن صباح کے پجاری حشیش اور خفیہ قتل کے سوا کچھ بھی نہیں جانتے۔ لڑکی کو اس کے پاس رہنے دو اور تم میرے ساتھ آئو''۔

وہ اس آدمی کو اپنے ساتھ لے گیا۔ باہر لے جاکر اسے کہا… ''اب اسے حشیش نہ دینا۔ اس کا نشہ اتر جانے دو۔ ہمیں اس کے ہاتھوں صلاح الدین ایوبی کو قتل نہیں کرانا۔ ہمیں اس کے دستوں کو بغاوت پر آمادہ کرنا ہے۔ میں بہت دیر سے پہنچا ورنہ اس کا یہ حال نہ ہونے دیتا۔ ہوش میں رکھ کر اسے صلاح الدین ا یوبی کا دشمن بنانا ہے۔ تم لوگوں نے اسے جس خوبی سے اغوا کیا ہے اس کی میں دل سے تعریف کرتا ہوں اور اس کی تمہیں اتنی قیمت دی جارہی ہے جو پہلے تمہیں کہیں سے نہیں ملی ہوگی مگر تم نے اسے حشیش دے دے کر ہمارا کام مشکل بنا دیا ہے۔ اسے اب وہ سفوف اور شربت دو جس سے نشے کا اثر اتر جاتا ہے''۔

صلیبیوں کی جاسوسی اور تخریب کاری اور مسلمان نوجوانوں کی کردارکشی کے طریقے اناڑیوں والے نہیں تھے۔

جاری ھے ،
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں