داستان ایمان فروشوں کی قسط-130 - اردو ناول

Breaking

اتوار, جنوری 09, 2022

داستان ایمان فروشوں کی قسط-130


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر130 دوسرا درویش

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

یہ شخص محل میں ملازم ہے۔ لڑکی کو کچھ شک ہوا۔ اس نے اس آدمی کی نیت معلوم کرنے کے لیے گلیوں کے دو تین موڑ مڑے۔ یہ آدمی اس کے پیچھے رہا۔ لڑکی آبادی سے باہر نکل گئی۔ یہ آدمی بھی باہر نکل گیا۔ کچھ دور درختوں کا جھنڈ تھا۔ لڑکی وہاں بیٹھ گئی۔ یہ آدمی آگے نکل گیا۔ اسے غالباً یہ شک ہوگا کہ لڑکی کسی کے انتظار میں بیٹھی ہے۔ وہ بہت آگے چلا گیا۔

لڑکی ہوشیار تھی۔ وہ جلدی سے قریب کی جھاڑیوں میں چھپ گئی۔ وہاں سے سرکتی جھاڑیوں سے نکلی اور ایک گلی میں غائب ہوگئی۔ وہ آدمی دور جاکر واپس آیا۔ اب اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا تھا۔ اسے توقع تھی کہ لڑکی کے پاس کوئی آدمی بیٹھا ہوگا مگر اس نے قریب آکر دیکھا، وہاں لڑکی نہیں تھی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ لڑکی کا نام ونشان نہیں تھا۔

لڑکی اپنے گھر پہنچ چکی تھی۔

٭ ٭ ٭

سلطان صلاح الدین ایوبی آرمینیا کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا خطرہ مول لے رکھا تھا۔ صلیبی افواج کسی بھی وقت متحد ہوکر اس پر حملہ کرسکتی تھیں اور وہ اکیلا تھا۔ مسلمان امراء اس کے خلاف تھے۔ اپنی اپنی ریاست اور حکمرانی الگ الگ قائم کرنے کے لیے وہ اپنا ایمان صلیبیوں کے ہاتھ بیچ چکے تھے۔ خانہ جنگی تک ہوچکی تھی جو صلیبیوں کی درپردہ کوششوں کا نتیجہ تھا۔ اب سلطان ایوبی ان تمام مسلمان امراء کو بزور شمشیر اپنے محاذ پر متحد کرنے کا عزم لیے ہوئے تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ان میں سے جو میری صفوں میں نہیں آتا، وہ خودمختار بھی نہیں رہے گا۔ اس نے چند ایک قلعوں پر قبضہ کرلیا تھا اور وہاں کے امراء اور قلعہ داروں نے اس کی اطاعت قبول کرلی تھی۔ اب وہ ان حکمرانوں کی طرف بڑھ رہا تھا جو کچھ طاقت رکھتے تھے۔ وہ کمال دلیری سے ان دشمنوں کے درمیان فوج کو گھما پھرا رہا تھا اور یہ بہت بڑا خطرہ تھا۔

''اگر تمہارے ارادے نیک ہیں توتمہیں ڈرنا نہیں چاہیے''… سلطان ایوبی تل خالد کے راستے میں ایک پڑائو کیے پڑا تھا۔ اس نے اپنے خیمے میں سالاروں کو بلا رکھا تھا، کہہ رہا تھا… ''میں جانتا ہوں کہ تم کیا سوچ رہے ہو۔ اگر تم میں سے کوئی میرے اس فیصلے سے متفق نہیں کہ میں صلیبیوں کی طرف سے بے خبر ہوکر غلط سمت کو چل پڑا ہوں تو میں اسے حق بجانب سمجھوں گا۔ میں اسے یہ نہیں کہوں گا کہ وہ میرا حکم مانے اور میرے غلط فیصلے پر عمل کرے۔ میں اسے یہی کہوں گا کہ وہ میرے مقصد کو سمجھے اور اور دل سے تمام خوف اور وسوسے نکال دے۔ ہماری منزل یروشلم ہے۔ بیت المقدس، قبلہ اول… خدا نے ہمیں اس کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے کہ ہمارے بھائی ایمان فروش نکلے۔ انہیں قبلہ اول نہیں حکمرانی چاہیے… یاد رکھو میرے رفیقو! جب تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں یہ تحریر ہوگا کہ ہمارے دور کی فوج بزدل اور نااہل تھی۔ شکست کی لعنت ہمیشہ فوج کے حصے میں آتی ہے۔ حکمران اگر کفار کے درپردہ دوست ہی ہوئے، آنے والی نسلیں فوج پر لعنت بھیجیں گی''…

''ہمیں خدا کے حضور بھی جانا ہے۔ خدا نے ہم پر فرض عائد کیا ہے وہ ہمیں پورا کرنا ہے یا اس فرض کی ادائیگی میں جان دینی ہے۔ مرکز سے الگ ہونے والوں کے لیے میرے دل میں کوئی رحم نہیں۔ اگر ہم نے آج الگ الگ ریاستیں بنانے کے رجحان کو نہ روکا تو ایک دن یہی رجحان اسلام کے زوال کا باعث بنے گا۔ کہنے کو یہ اسلام ملک ہوں گے لیکن اپنی بادشاہیاں اور عیش وعشرت قائم رکھنے کے لیے اپنے طاقتور دشمن کے ساتھ سمجھوتے کرتے اور اپنا ایمان نیلام کرتے پھریں گے۔ اپنے طاقتور دشمن کو خوش کرنے کے لیے درپردہ ایک دوسرے کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہیں گے۔ ان کا کمزور سا دشمن بھی ان کے لیے طاقتور ہوگا۔ ایک حکمران اپنی پوری رعایا کو بے وقار بنا دے گا۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ قوم کے بکھرے ہوئے شیرازے کو آج ہی سمیٹ لیں''…

''میں اب یہ باتیں بار بار اس لیے کررہا ہوں کہ اپنا نقطہ نظر جو وقت کی ایک ضرورت ہے، تمہارے دلوں پر نقش ہوجائے اور ایسا نہ ہو کہ اپنے کسی ایسے بھائی کو دیکھ کر جو ہمارے مذہب کا دشمن ہو، تمہاری تلوار جھک جائے۔ قوم کی مرکزیت اور اتحاد کو ختم کرنے والا بھائی دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے… میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ ہم تل خالد کے محاصرے کے لیے جارہے ہیں اور یہ ہمارا آخری پڑائو ہے۔ اس کے آگے تل خالد ہے۔ محاصرے کے لیے میں تم سب کو بتا چکا ہوں کہ کس کس کے دستے ہوں گے۔ محفوظہ میرے ہاتھ میں ہوگا۔ چھاپہ مار دستے ٹولیوں میں تقسیم ہوکر ان راستوں کو زد میں لے لیں گے جن سے صلیبی فوج کے آنے کا خطرہ ہوسکتا ہے یا آرمینیا کی فوج محاصرہ توڑنے کے لیے آسکتی ہے۔ جاسوسوں کی اطلاع کے مطابق صلیبی حملے کا خطرہ نہیں، پھر بھی احتیاط لازمی ہے''…

''ہم آرمینیا پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے، ہمیں شاہ آرمینیا سے اپنی شرائط تسلیم کران

: تسلیم کرانی ہیں۔ میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ عزالدین شاہ آرمینیا کی مدد کا طلب گار ہے۔ ہمیں آرمینیا پر خطرہ بن کر سوار ہوجانا ہے تاکہ شاہ آرمینیا عزالدین کو مدد نہ دے سکے لیکن میں تمہیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا۔ یہ عین ممکن ہے کہ آرمینیا کی فوج اور شہری ہمارا مقابلہ اتنا سخت کریں کہ ہمیں پسپا ہونا پڑے۔ اس صورت میں عزالدین بھی ہم پر حملہ کرسکتا ہے اور حلب کا والی عمادالدین بھی۔ ہمیں گرتا دیکھ کر چھوٹے چھوٹے امراء بھی ہمیں گھوڑوں تلے روندیں گے۔ ان نتائج اور خطروں کو سامنے رکھ کر ہمیں لڑنا ہے۔ میں تمہیں نقشہ دکھا چکا ہوں کسی کے دل میں کوئی شک ہو تو رفع کرلو۔ یہ محاصرہ اور حملہ ہمیں اتنی بڑی مشکل میں ڈال سکتا ہے کہ ہم شکست بھی کھا سکتے ہیں''۔

رات کا پہلا پہر تھا جب سلطان صلاح الدین ایوبی اس آخری پڑائو میں اپنے سالاروں کو اپنی پہلے سے دی ہوئی ہدایات یاد دلا رہا تھا۔ اس کے سامنے نقشہ پڑا تھا۔ دربان نے خیمہ میں آکر اس کے کان میں کچھ کہا۔ سلطان ایوبی نے اسے کہا… فوراً اندر بھیج دو۔

دربان نے خیمے کا پردہ اٹھایا اور سر سے اشارہ کیا۔ فہد خیمے میں داخل ہوا۔ اس نے موصل سے یہاں تک کہیں رکے بغیر مسافت طے کی تھی۔ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ ہونٹ خشک تھے اور آنکھیں بند ہوئی جارہی تھیں۔ جاسوسی اور سراغ رسانی کے محکمے کا سربراہ حسن بن عبداللہ خیمے میں موجودتھا۔

''معلوم ہوتا ہے تم نے آرام کیے بغیر سفر کیا ہے''۔ فہد نے اکھڑی ہوئی سانسوں سے کہا… ''میرا گھوڑا شاید زندہ نہ رہ سکے''۔

''کیا خبر ہے؟''

''شاہ آرمینیا اپنے دارالحکومت میں نہیں''۔ فہد نے کہا… ''وہ ہرزم میں خیمہ زن ہے۔ عزالدین اسے ملنے ہرزم جارہاہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ہماری فوج کے خلاف معاہدہ ہوگا۔ شاہ آرمینیا کے ساتھ اپنی فوج کے بھی دو دستے ہوں گے اور عزالدین بھی اپنی فوج کے دو تین دستے اپنے ساتھ لا رہا ہے''۔

''یہ بادشاہ شاہی شان وشوکت سے ایک جگہ اکٹھے ہورہے ہیں''۔ سلطان ایوبی نے مسکرا کر کہا، پھر پوچھا… ''موصل میں صلیبیوں کے کیا رنگ ڈھنگ ہیں''۔

''صلیبی ٹھنڈے ٹھنڈے سے معلوم ہوتے ہیں''۔ فہد نے جواب دیا… ''ان کے ذخیرے کی تباہی کی اطلاع آپ کو مل چکی ہے۔ ہم نے وہاں کے لوگوں کے دلوں سے پہلے درویش کا وہم اور فریب نکال دیا ہے''۔

''شاہ آرمینیا اور عزالدین کی ہرزم میں ملاقات کے متعلق تمہیں کہاں سے اطلاع ملی ہے؟'' سلطان ایوبی نے پوچھا… ''میں کیسے یقین کرلوں کہ یہ اطلاع صحیح ہے؟''

''رضیع خاتون کی اطلاع غلط نہیں ہوسکتی''۔ فہد نے کہا۔

''اللہ اس عظیم خاتون کو اپنی رحمتوں سے نوازے''۔ سلطان ایوبی نے کہا اور جذبات کے غلبے سے اس کی آواز بھرا گئی۔

''رضیع خاتون نے آپ کو سلام کہا ہے''۔ فہد نے کہا… ''اور یہ بھی کہ عزالدین کے پائوں لڑنے سے پہلے ہی اکھڑ گئے ہیں۔ اس پر گھبراہٹ طاری ہے اوراگر اسے ایک ضرب اور پڑی تو وہ گھٹنے ٹیک دے گا''۔

''موصل میں کوئی فوجی ہلچل ہے؟'' سلطان ایوبی نے پوچھا… ''کوئی جنگی تیاری؟''

''صلیبی جاسوس اور مشیر سرگرم ہیں''۔ فہد نے جواب دیا… ''کوئی جنگی تیاری نظر نہیں آتی۔ عزالدین صلیبیوں سے جس قسم کی اعانت مانگ رہا ہے، وہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ شہر میں ہمارے آدمی پوری کامیابی سے اپنا کام کررہے ہیں اور رضیع خاتون اور ان کی بیٹی شمس النساء کی کوششوں سے قلعے اور محل کے اندر کا ہر گوشہ اور ہر راز ہماری نظر میں ہے''۔

''صد آفرین میرے دوست!'' سلطان ایوبی نے اٹھ کر اس کے گال کو تھپکایا اور کہا… ''تمہیں معلوم نہیں کہ تم جو اطلاع لائے وہ کتنی کارآمد اور قیمتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ فوجوں کا اب اتنا خون خرابہ نہیں ہوگا، جتنا محاصرے اور حملے میں ہوتا''۔ اس نے سالاروں سے مخاطب ہوکر کہا… ''اب ہم تل خالد کا محاصرہ نہیں کریں گے۔ فوج ادھر ہی جائے گی۔ چھاپہ ماروں کا صرف ایک دستہ میرے ساتھ ہرزم کی سمت جائے گا''۔

٭ ٭ ٭

 ہرزم ایک خوبصورت جگہ تھی۔ ہر طرف سبزہ زار، چشمے اور ہرے بھرے درخت تھے۔ ہریالی سے ڈھکی ہوئی چٹانیں بھی تھیں۔ اس خطے کو قدرت نے تو حسن دیا ہی تھا، آرمینیا کے بادشاہ نے اسے آکر جنت ارض بنا دیا۔ شامیانوں اور قناتوں نے محل کا منظر بنا دیا۔ ان کے اندررنگین روشنیوں والے فانوس لٹکائے گئے تھے۔ چھ چھ گھوڑوں کی بگھیاں بھی تھیں اور محافظ دستے کے سوار اور گھوڑے طلسماتی سی شان کے حامل تھے۔ رقص وسرور کا خاص انتظام تھا۔ آرمینیا کی سب سے زیادہ حسین اور ناچنے والی لڑکیاں ساتھ لائی گئیں تھیں۔ حرم کی منتخب لڑکیوں کے خیمے الگ تھے۔ شاہ آرمینیا نے مروین کے امیر کو بھی وہاں مدعو کیا تھا۔ مروین ہرزم کے قریب ہی ایک علاقہ تھا جس کا امیر قطب الدین غازی تھا۔ مروین اس کی جاگیر تھی… شامیانوں، قناتوں اور خیموں سے کچھ دور شاہ آرمینیا کی دو دستے فوج خیمہ زن تھی۔

شاہ آرمینیا امیر مروین کے ساتھ دو تین روز شکار کھیلتا رہا، پھر ایک روز والئی موصل عزالدین آگیا۔ اس کے ساتھ بھی اپنی فوج کے دو منتخب دستے تھے۔ رات کو رقص وسرور کی محفل جمی۔ شراب کی صراحیاں خالی ہوئیں، عورت اور شراب نے وہ کیفیت پیدا کردی کہ یہ مسلمان حکمران، ان کے امرائ، وزراء اور سالار قبلہ اول کے ساتھ خانہ کعبہ کو بھی بھول گئے۔ رات عیش وعشرت میں گزار کر وہ سارا دن گہری نیند میں سوئے رہے۔ اس رات جب وہ شراب اور عورت کے نشے میں مخملیں قالینوں پر رنگین فانوسوں کے نیچے بدمست ہورہے تھے، اس رات سلطان صلاح الدین ایوبی وہاں سے دو اڑھائی میل دور چھاپہ ماروں کے ایک دستے کے ساتھ پتھریلی زمین پر سویا ہوا تھا۔ اس نے چھوٹا سا سفری خیمہ ساتھ رکھا تھا تاکہ نصب کرنے اور گاڑھنے میں زیادہ وقت صرف نہ ہو۔ وہ یہاں سلطان نہیں چھاپہ مار بن کے آیا تھا۔


اس نے خانہ بدوشوں کے بہروپ میں اپنے جاسوس ہرزم کے اس شاہانہ کیمپ کا جائزہ لینے اور تمام تر ضروری معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیج دیئے تھے۔ ان میں فہد بھی تھا۔ اس نے پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے تھے۔ یہ تین چار جاسوس اپنے اونٹوں کی مہاریں پکڑے کیمپ کے اردگرد گھومتے رہے تھے۔ انہیں کوئی وہاں ہٹ جانے کو کہتا تو وہ ہاتھ پھیلا کر کھانے کی بھیک مانگتے۔ فہد شاہی شامیانوں کے قریب سے گزرا تو اسے وہ نوجوان خادمہ نظر آئی جس نے اسے رضیع خاتون کا پیغام دیا تھا۔ فہد نے اسے پہچان لیا۔ یہ لڑکی عزالدین کی خصوصی خادمہ تھی جو یہاں بھی اس کے ساتھ آئی تھی۔

فہد نے بھکاریوں کی طرح صدا لگائی… ''شہزادی! آپ کا غلام سفر میں ہے، کچھ کھانے کو مل جائے''۔

''بھاگ جائو یہاں سے''۔ لڑکی نے دور سے کہا… ''ورنہ پکڑے جائو گے''۔

''فہد کو موصل میں تو کوئی نہیں پکڑ سکا''۔ فہد نے اپنی اصلی آواز میں کہا… ''تم یہاں پکڑوا دو''۔

''اوہ!'' لڑکی ادھر ادھر دیکھ کر اس کے قریب آگئی… ''تم پہنچ گئے ہو؟ دیکھ لو۔ میری خبر غلط تو نہیں تھی… لیکن یہاں نہ رکو۔ چلے جائو… تم رات کہاں ہوگے؟ آج رات شاید میں جلدی فارغ ہوجائوں۔ مل بیٹھے مدت گزر گئی ہے''۔

''تم نے ہی کہا تھا کہ جذبات پر فرض کو غالب نہ آنے دینا''۔ فہد نے کہا… ''ہمارا فرض ابھی ادا نہیں ہوا۔ زندہ رہے تو ملیں گے''۔

''تم نے سب کچھ دیکھ لیا ہے؟'' لڑکی نے پوچھا۔ ''سلطان کہاں ہیں؟''

''سلطان جلدی آجائے گا''۔ فہد نے جواب دیا۔

''اوئے کون ہے یہ؟'' کسی کی آواز آئی۔ ''ہٹائو اس بدبخت کو یہاں سے''۔

لڑکی فہد کو ڈانٹنے لگی اور فہد وہاں سے چلا گیا۔ لڑکی ایک خیمے کی اوٹ سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔ اس خیال سے اس کے آنسو نکل آئے کہ فہد کا فرض کیسا اذیت ناک ہے اور کتنا خطرناک ہے۔ وہ اس خوبرو اور تنومند جوان کو دل وجان سے چاہتی تھی مگر وہ چوری چھپے ملتے تھے تو اپنے جذبات کی کم اور فرائض کی باتیں زیادہ کرتے تھے۔ کئی معرکے جو ان کی فوج نے جیتے تھے، وہ فہد اور اس لڑکی جیسے جاسوسوں کی بدولت جیتے تھے۔ یہ دشمن کے گھر میں رہ کر زمین دوز معرکہ لڑتے تھے۔ ان کی جان ہر لمحہ موت کے منہ میں رہتی تھی۔ اس نوجوان اور حسین خادمہ کے جذبات ابل آئے اگر اس کا فرض راستے میں حائل نہ ہوتا تو وہ فہد کو یہد مارا مارا پھرنے نہ دیتی۔ وہ جانتی تھی کہ فہد انہی پتھریلی وادیوں میں کہیں سو جاتا ہوگا۔

''ہم خدا کے حضور ملیں گے''۔ لڑکی نے اپنے آپ سے کہا اور اپنے کام کو چلی گئی۔

 رات کا پہلا پہر تھا۔ آج رات ہرزم کے شاہی کیمپ میں کوئی گانا بجانا نہیں تھا۔ خاموشی طاری تھی۔ شاہ آرمینیا کے شامیانے میں اس کے پاس عزالدین اور امیر مروین قطب الدین غازی بیٹھے تھے۔ عزالدین کہہ رہا تھا… ''اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ صلاح الدین ایوبی اپنی سلطنت وسیع کررہا ہے۔ اگر ہم اس کے اتحادی بن جائیں تو وہ ہمیں اپنا امیر بنا کر رکھے گا۔ ہم خودمختار نہیں ہوں گے۔ حال ہی میں وہ مسلمان امراء کے کئی قلعوں پر قبضہ کرچکا ہے اور اس کی فوجی طاقت کے خوف سے یہ تمام امراء اور قلعہ دار اس کی اطاعت قبول کرچکے ہیں۔ اگر میں نے اسے نہ روکا تو وہ صرف موصل پر نہیں، حلب پر بھی ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کرے گا مگر میں اکیلا اس کے خلاف نہیں لڑ سکتا۔ عمادالدین میرے ساتھ ہے لیکن اس صورت میں صلاح الدین ایوبی اپنی فوج لٹیروں کی طرح لیے دندناتا پھر رہا ہے، عمادالدین کو اپنی فوج حلب سے نہیں نکالنی چاہیے۔ حلب کا دفاع زیادہ ضروری ہے کیونکہ یہ مقام بہت اہم ہے''۔

''میں جانتا ہوں''۔ شاہ آرمینیا نے کہا… ''صلیبیوں کی بھی نظریں حلب پر لگی ہوئی ہیں''۔

''اسی لیے میں صلیبیوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کرتا''۔ عزالدین نے کہا… ''وہ ہم سے مدد کے عوض حلب مانگیں گے''۔

''اور وہ ضرور مانگیں گے''۔ قطب الدین غازی نے کہا… ''میں بہتر یہی سمجھتا ہوں کہ آپ کو آپس میں کوئی معاہدہ کرلینا چاہیے۔ آپ دونوں کی فوجیں مل کر صلاح الدین ایوبی کو شکست دے سکتی ہیں''۔

''مجھے معلوم ہوا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج تل خالد کی طرف جارہی ہے''۔ عزالدین نے کہا۔

''میری اس کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں''۔ شاہ آرمینیا نے کہا… ''میرا خیال ہے وہ میری سرحدوں سے دور رہے گا۔ میں نے اس کی پیش قدمی کی سمت کا جائزہ لیا ہے۔ وہ کہیں اور جارہا ہے''۔

''مجھے صلیبیوں پر بھروسہ نہیں''۔ عزالدین نے کہا… ''وہ مجھے ہر طرح کی مدد دیتے ہیں لیکن جنگ صرف سامان اور مشیروں سے نہیں لڑی جاسکتی۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ میں صلاح الدین ایوبی کی فوج کو جنگ میں الجھا لیتا ہوں اور وہ اس پر حملہ کردیں۔ میں نے انہیں یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ دمشق اور بغداد کو محاصرے میں لے لیں اگر وہ ایسا کریں تو صلاح الدین ایوبی ہمارے علاقوں سے نکل جائے گا مگر وہ نہ جانے کیا سوچ رہے ہیں''۔

''وہ ہم سب کو اپنا محکوم بنانے کی سوچ رہے ہیں''۔ شاہ آرمینیا نے کہا… ''سلطان ایوبی نہ رہا تو صلیبی ہمیں کھا جائیں گے۔ ہمیں ان پر بھروسہ کرنا ہی نہیں چاہیے''۔

''پھر آپ میری مدد کریں''۔ عزالدین نے کہا… ''میں آگے بڑھ کر صلاح الدین ایوبی سے لڑتا ہوں۔ آپ اس پر حملہ کریں''۔

اس موضوع پر وہ بہت دیر تبادلہ خیالات کرتے رہے۔ آخر شاہ آرمینیا نے اس شرط پر عزالدین کی تجویز مان لی کہ اس کی فوج کے انسانوں اور جانوروں کی خوراک کی ذمہ داری عزالدین لے۔ عزالدین نے یہ شرط مان لی اور طے ہوا کہ عزالدین سلطان ایوبی کے ساتھ آمنے سامنے کی ٹکر لے گا اور شاہ آرمینیا کی فوج سلطان ایوبی کی فوج پر عقب سے حملہ کردے گی۔ عزالدین تجربہ کار جنگجو تھا۔ جنگ لڑنا اور لڑانا جانتا تھا۔ اس نے وہیں جنگ کی منصوبہ بندی کرلی۔

٭ ٭ ٭

آدھی رات سے کچھ دیر پہلے کا ذکر ہے۔ جب عزالدین اور شاہ آرمینیا جنگ کا پلان بنا رہے تھے۔ رات گھوڑوں کے ٹاپوئوں سے لرزنے لگی۔ شاہ آرمینیا نے دربان کو بلا کر غصے سے کہا… ''یہ جن سواروں کے گھوڑے کھل کر بھاگ رہے ہیں، انہیں صبح یہاں لے آئو۔ بدبخت بے خبری کی نیند سو جاتے ہیں''۔

مگر یہ گھوڑے اس کے دستے کے نہیں تھے۔ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار سوار تھے جن کی تعداد چالیس اور پچاس کے درمیان تھی۔ یہ ان کا شب خون تھا۔ ذرا سی دیر میں باہر قیامت بپا ہوگئی۔ چھاپہ مار دو حصوں میں تقسیم ہوکر سرپٹ آئے اور گزر گئے۔ ان کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں جن سے وہ فوج کے خیموں کو جلاتے گزر گئے۔ کئی خیموں کو آگ لگ گئی تھی۔ سوئے ہوئے سپاہی ہڑبڑا کر اٹھے۔ فوراً بعد سواروں کی ایک اور موج آئی جو برچھیوں اور تلواروں سے اپنے سامنے آنے والوں کو کاٹتے گزر گئے۔ جلتے ہوئے خیموں نے روشنی کردی تھی۔ پھر تیروں کا مینہ برسنے لگا۔ ان میں جلتے ہوئے فلیتوں والے تیر بھی تھے۔ بندھے ہوئے گھوڑوں اور اونٹوں کا وہ غل کہ دہشت طاری ہوئی جارہی تھی۔ زخمیوں کی چیخ وپکار قیامت خیز تھی۔

پھر جانوروں کے رسے کھل گئے۔ گھوڑے اور اونٹ ڈر کر ادھر ادھر بھاگنے دوڑنے لگے۔ اس غل غپاڑے اور چیخ وپکار میں کیمپ کے اردگرد سے بلند آوازیں سنائی دے رہی تھیں… ''ہتھیار ڈال دو۔ عزالدین ہمارے سامنے آجائو، شاہ آرمینیا تل خالد ہمارے محاصرے میں ہے''۔

ان میں سے کوئی بھی سامنے نہ آیا۔ عزالدین نے اپنے ایک وفادار کمان دار سے کہا کہ وہ اسے ایک گھوڑا لا دے۔ بڑی مشکل سے اسے گھوڑا لا کر دیا گیا۔ وہ سوار ہوا اور افراتفری کے اس قیامت خیز عالم میں نکل گیا۔ اس نے اپنے

: قیامت خیز عالم میں نکل گیا۔ اس نے اپنے دستوں کی، اپنے ذاتی عملے کی اور اپنے ساتھ جو لڑکیاں لایا تھا، ان کی بھی پروا نہ کی۔ جان بچا کر بھاگ گیا۔

اس دور کا ایک وقائع نگار اسد الاسدی لکھتا ہے کہ سلطان ایوبی گھیرا تنگ کرکے ان حکمرانوں کو گرفتار کرسکتا تھا لیکن اس نے مصلحتاً ایسا اقدام نہ کیا۔ اس کی وجہ یہی ہوسکتی تھی کہ وہ ان حکمرانوں کو اپنا اتحادی بنا کر ان کی فوجوں کو فتح فلسطین کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ وجہ خواہ کچھ ہی تھی۔ فروری ١١٨٣ء (٥٧٩ہجری) کا یہ معرکہ سلطان ایوبی نے چھاپہ ماروں سے اسی طرح لڑایا ور اس نے آگے بڑھ کر کسی کو گرفتار کرنے کی کوشش ہی نہ کی۔ اس شب خون کی نگرانی اس نے خود کی تھی۔

شاہ آرمینیا نے بھاگنے کے بجائے وہیں رکے رہنا مناسب سمجھا۔ رات گزرگئی۔ صبح ہوئی تو کیمپ میں جلے ہوئے خیموں کی راکھ بکھری ہوئی تھی، لاشیں پڑی تھیں، زخمی تڑپ رہے تھے، گھوڑے اور اونٹ ادھر ادھر گھوم پھر رہے تھے۔ حملہ آوروں کا کچھ پتہ نہ تھا، کہاں ہیں۔ شاہ آرمینیا جانتا تھا کہ سلطان ایوبی یہیں کہیں قریب ہی ہوگا۔ وہ سوچنے لگا کہ سلطان ایوبی کو کہاں تلاش کرے۔ اتنے میں اسے دو سوار آتے نظر آئے۔ وہ شاہ آرمینیا کے سامنے آکر اترے اور سلام کیا۔ وہ سلطان ایوبی کے فوجی حکام تھے۔

''سلطان صلاح الدین ایوبی نے سلام بھیجا ہے''۔ ایک نے کہا… ''انہوں نے کہا ہے کہ وہ کسی کو گرفتار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ عزالدین واپس موصل چلا جائے اور آرام سے بیٹھ کر سوچے اور شاہ آرمینیا کے لیے سلطان محترم نے پیغام دیا ہے کہ ان کی فوج تل خالد کے قریب پہنچ گئی ہے۔ آپ کو شام تک وہاں سے اطلاع مل جائے گی۔ آپ کے پہنچنے تک آپ کا دارالحکومت ہمارے قبضے میں ہوگا۔ اگر آپ سلطان شام ومصر کی شرائط قبول کرلیں تو تل خالد سے فوج واپس آسکتی ہے۔ اگر آپ مقابلے کا فیصلہ کرتے ہیں تو نتائج کو پہلے ذہن میں رکھ لیں۔ ہمیں پیغام کا جواب دیں۔ آپ ہمارے محاصرے میں ہیں''۔

''سلطان صلاح الدین ایوبی کو میرا سلام کہو''۔ شاہ آرمینیا نے کہا… ''میں اپنے ایک وزیر کو شام سے پہلے سلطان کے پاس بھیج رہا ہوں''۔

دونوں سوار چلے گئے۔ شاہ آرمینیا کا یہ وزیر بکتیمور تھا جو اس کے ساتھ تھا۔ شاہ آرمینیا نے اسے کہا کہ ''ہمیں ان لوگوں کے اختلافات اور عداوت میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ ادھر تل خالد محاصرے میں ہے اور ہم یہاں ہیں۔ جائو اور صلاح الدین ایوبی سے کہو کہ اپنی فوج واپس بلا لے۔ ہم اس کے کسی دشمن کے ساتھ کوئی معاہدہ اور کوئی اتحاد نہیں کریں گے''۔

بکتیمور دانش مند وزیر تھا۔ اس نے سلطان ایوبی کے ساتھ بات کی۔ سلطان ایوبی نے بڑی سخت شرائط پیش کیں اور منوالیں۔ بکتیمور نے تحریری وعدہ دے دیا کہ شاہ آرمینیا کی فوج سلطان ایوبی کے کسی دشمن کی مدد کو نہیں جائے گی۔ سلطان ایوبی نے محاصرہ اٹھا لیا اور شاہ آرمینیا سے ملے بغیر تل خالد کو روانہ ہوگیا۔

٭ ٭ ٭

ایک اور اہم مقام دیارِ بکر تھا جو اس زمانے میں عمیدہ کہلاتا تھا۔ اس مقام کو جنگی اہمیت حاصل تھی اور اس کی اہمیت یہ بھی تھی کہ اس کے گردونواح کے علاقے کے لوگ جنگجو اور فن سپہ گری کے ماہر تھے۔ سلطان ایوبی کی فوج میں بہت سے سپاہی اسی علاقے کے تھے۔ اپنی فوج کی کمی سلطان اسی علاقے سے پوری کیا کرتا تھا۔ یہاں کے لوگ تو سلطان ایوبی کے حامی تھے مگر ان کا حکمران اپنی حکمرانی قائم رکھنے کی خاطر سلطان ایوبی کا مخالف تھا اور مسلمان ہوتے ہوئے صلیبیوں کے ساتھ درپردہ دوستی کی کوشش میں تھا۔

: سلطان ایوبی نے اپنی فوج کو دیارِ بکر کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا۔ یہ برق رفتار پیش قدمی تھی۔ سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں کو اتنا ہی بتایا تھا کہ دیارِ بکر کو محاصرے میں لے کر اس جگہ پر قبضہ کرنا ہے اور فتح کی صورت میں وہاں کے موجودہ امیر کی کوئی شرط تسلیم نہیں کی جائے گی اور کوئی رحم نہیں کیا جائے گا۔

''میرا خیال ہے کہ ان امراء پر ظلم نہ کیا جائے''۔ ایک سالار نے کہا… ''ان کی افواج کو اپنی فوج میں شامل کرکے انہیں برائے نام امیر رہنے دیا جائے''۔

''میں اب کسی سانپ کو قوم کی آستیں میں نہیں پلنے دوں گا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''مجھے اطلاعیں ملی ہیں کہ یہ شخص اپنے علاقے کے لوگوں کو ہماری فوج میں شامل ہونے سے روک رہا ہے اور وہ خلافت کے خلاف کارروائیں کررہا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ مرکز سے خودمختاری مانگنے والے یا درپردہ کوششوں سے الگ ہونے والے غدار ہوتے ہیں اور یہ غدار بہت خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ وہ قوم کے دشمن سے مدد لیتے ہیں اور اپنی قوم یعنی خلافت کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ میں ان لوگوں کا سرکچل دینا چاہتا ہوں تاکہ جب آپ کا اصل دشمنی یعنی صلیبی آپ کے سامنے آئیں تو آپ کی پیٹھ پیچھے سے کوئی وار کرنے والا نہ ہو اور کوئی سانپ زمین سے نکل کر آپ کو ڈنک نہ مار سکے۔ دیارِ بکر اللہ کے سپاہیوں کا خطہ ہے۔ ہماری فوج کی ایک چوتھائی نفری اسی خطے کی ہے۔ اگر ہم نے ان جنگجوئوں کے غدار حکمران کو بخش دیا تو اس خطے کے لوگوں کا ایمان بھی تباہ ہوجائے گا اور فنِ سپاہ گری بھی''…

''ساری قوم یا کسی ملک کے تمام لوگ غدار یا بے ایمان نہیں ہوا کرتے۔ حکمران اگر ایمان فروش ہو تو قوم کے جوہر ختم ہوجاتے ہیں۔ اچھی بھلی قومیں بے وقار ہوجاتی ہیں۔ جذبے مرجاتے ہیں اور پھر قومیں آزاد قوموں کی طرح زندہ نہیں رہتیں۔ ہمیں اپنے اس قسم کے حکمرانوں کو ختم کرنا ہے اور سلطنت اسلامیہ کا ایک مرکز بنانا ہے۔ آپ نے دیکھا ہے کہ خلافت بغداد مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ اگر خلافت کا حکم چلتا تو ہمیں فوج کشی نہ کرنی پڑتی۔ یہ فوج کا فرض ہے کہ ملک کے اندر انتشار کو اور نااہل اور ایمان فروش حکمران کو ختم کرے۔ میں پھر وہی الفاظ دہراتا ہو کہ تاریخ یہی کہے گی کہ چھٹی صدی ہجری کی فوج نکمی تھی جس نے نہ خلافت کا وقار بحال کیا نہ دشمن کو نیست ونابود کیا''۔

دیارِ بکر کا محاصرہ اتنی تیزی سے ہوا کہ اندر والوں کو مزاحمت کی مہلت نہ ملی۔ سلطان ایوبی نے ہدایت جاری کی تھی کہ شہریوں کا نقصان کم سے کم ہو۔ اندر اپنے جاسوس موجود تھیا ور سلطان ایوبی خود بھی شہر سے اور حکمران کے محل اور ہیڈکوارٹر سے واقف تھا۔ اس لیے منجنیقوں سے جو پتھر اور آتش گیر سیال کی جو ہانڈیاں پھینکی گئیں، وہ سرکاری عمارتوں پر پھینکی گئیں۔ باہر سے اعلان کیے گئے کہ امیر ہتھیار ڈال کر باہر آجائے لیکن قلعے کی دیواروں پر کھڑے امیر نیجوابی اعلان کرایا کہ تھیار نہیں ڈالے جائیں گے۔ لڑو اور شہر لے لو۔

دیارِ بکر کی فوج نے جم کر مقابلہ کیا۔ سلطان ایوبی محاصروں کا ماہر تھا لیکن اس نے مزاحمت دیکھی تو سمجھ گیا کہ یہ محاصرہ طول پکڑے گا اور اس کے لیے کچھ زیادہ ہی قربانی دینی پڑے گی۔ دیواریں توڑنے والے افراد رات کی تاریکی میں دیوار تک پہنچ گئے لیکن اوپر سے ان پر آگ پھینکی گئی اور وزنی پتھر بھی پھینکے گئے۔ بڑے دروازے پر منجنیقوں سے آتش گیر سیال کی ہانڈیاں پھینک کر فلیتے والے تیر مارے گئے جس سے د روازے کا لکڑی کا حصہ جل گیا مگر اس کا لوہے کا ڈھانچہ گھنا تھا جس میں سے گزرنا ممکن نہیں تھا تاہم گزرنے کی کوشش کی جاسکتی تھی۔ فضا میں تیر اڑ رہے تھے۔

سلطان ایوبی حیران تھا کہ اندر والے ایسا سخت مقابلہ کیوں کررہے ہیں۔ یہ راز بعد میں کھلا تھا کہ امیر دیارِ بکر نے محاصرے کی اطلاع ملتے ہی شہر میں اعلان کرادیا تھا کہ صلیبیوں نے شہر کا محاصرہ کرلیا ہے۔ اس اعلان پر شہر کے لوگ لڑنے اور مرنے کے لیے تیار ہوگئے تھے اور انہوں نے فوج کے دوش بدوش شہر کی دیوار پر آکر محاصرہ کرنے والوں پر تیروں اور برچھیوں کا مینہ برسا دیا۔ یہ دیکھا گیا تھا کہ چاروں طرف دیوار پر فوج کے ساتھ شہری بھی تھے۔ شہر کے لوگوں کا حوصلہ بلند تھا لیکن سلطان ایوبی نے شہریوں کو لڑتے دیکھ کر بھی یہ حکم نہ دیا کہ شہر پر بھی آگ برسائی جائے۔

محاصرہ آٹھ روز جاری رہا۔ زیادہ تر نقصان سلطان ایوبی کی فوج کا ہورہا تھا کیونکہ اس کی ٹولیاں آگے بڑھتی اور تیروں کا نشانہ بنتی تھیں۔ پھر ایک معجزہ ہوا۔ شہر کی دیوار سے نعرے گرجنے لگے… ''یہ صلیبی نہیں ہیں، یہ سلطان صلاح الدین ایوبی ہے۔ ان کے جھنڈے دیکھو، مسلمانو! تم آپ میں لڑے رہے ہو''۔ تب سلطان ایوبی کی فوج میں دیارِ بکر کے علاقے کے جو سپاہی اور کمان دار تھے، انہوں نے بلند آواز سے پکارنا شروع کردیا… ''ہم تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی ہیں، دروازے کھول دو''۔

: یہ انکشاف بھی بعد میں ہوا تھا کہ شہر کے اندر سلطان ایوبی کے جو جاسوس اور زمین دوز کارندے تھے، انہوں نے بھاگ دوڑ کر لوگوں کو بتایا تھا کہ محاصرہ کرنے والے صلیبی نہیں، مسلمان ہیں اور یہ سلطان صلاح الدین ایوبی ہے۔ یہ مہم آسان نہیں تھی۔ جاسوس آزادی سے لوگوں کو سرکاری اعلان کے خلاف کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔ اس مہم میں جو جاسوس پکڑے بھی گئے تھے، انہوں نے کامیابی حاصل کرلی۔ نویں روز اندر کی فوج اور شہریوں کی سوچ اور جذبہ بدل گیا۔ شہریوں نے حکمران اور اس کے حاشیہ برداروں کی دھمکیوں اور چیخ وپکار کی پروا نہ کرتے ہوئے شہر کے دروازے کھول دئیے۔ جب سلطان ایوبی شہر میں داخل ہوا تو شہر کے لوگوں نے بے تابی سے نعرے لگا لگا کر اس کا استقبال کیا۔ عورتوں نے منڈیروں اور دریچوں سے اس کی فوج پر اپنے دوپٹے اور رومال پھینکے۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے دیارِ بکر کے امیر کو شہر سے نکل جانے کا حکم دیا اور یہ شہر نورالدین ابن قاراارسلان اور ایک اور امیر کو دے دیا۔ قاضی بہائوالدین شداد نے اس کا نام ابن نکن لکھا ہے جو نورالدین کے ہی خاندان کا فرد تھا۔ سلطان ایوبی نے انہیں ضروری ہدایات دیں۔وہاں کی فوج کو اپنی فوج کا حصہ بنایا اور حکم دیا کہ اس علاقے سے مزید فوج تیار کی جائے۔

مئی ١١٨٣ء (محرم الحرام ٥٧٩ہجری) میں سلطان ایوبی نے دیارِ بکر کو اپنی عمل داری میں لیا اور حلب کی سمت کوچ کیا۔ اس کے سب سے بڑے دشمن حلب کا والی عمادالدین اور موصل کا والی عزالدین تھے۔ اب وہ ان کی طرف توجہ دینا چاہتا تھا۔

جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں