داستان ایمان فروشوں کی-129 - اردو ناول

Breaking

اتوار, جنوری 09, 2022

داستان ایمان فروشوں کی-129

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر129 دوسرا درویش

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

صلیبیوں کے لیے یہ چوٹ معمولی نہیں تھی کہ انہوں نے مسلمان کے علاقے موصل کے قریب پہاڑیوں کے غاروں کو وسیع کرکے اتنا زیادہ اسلحہ اور آتش گیر سیال چھپا کر رکھا تھا جس سے وہ سلطنت اسلامیہ کی تمام تر قلعہ بندیوں کو کھنڈروں میں بدل سکتے تھے، مگر سلطان ایوبی کے تباہ کار جاسوسوں نے اسے اڑا دیا۔ یہ سامان چونکہ پہاڑی کے اندر وسیع غار میں تھا۔ اس کے دھماکے نے دور دور تک زمین یوں ہلا دی تھی جیسے زلزلہ آیا ہو۔ یہ تو کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ تباہی کس طرح بپا کی گئی ہے جس سے صرف صلیبیوں کی ہی نہیں بلکہ صلیبیوں کے سب سے بڑے اتحادی عزالدین کی بھی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ انہوں نے سلطان ایوبی کے خلاف جو درپردہ معاہدہ کررکھا تھا، اس معاہدے کے پرخچے اڑ گئے تھے۔ صلیبیوں کو یقین تھا کہ یہ سلطان ایوبی کے جاسوسوں کا کام ہے۔ انہوں نے سوچا ہی نہیں کہ یہ اتفاقیہ حادثہ بھی ہوسکتا ہے۔

پچھلی قسط میں تفصیل سے بیان کیا جاچکا ہے کہ صلیبی موصل کے والی عزالدین کو اپنا اتحادی بنا کر موصل کے پہاڑی علاقے کو اپنا فوجی اڈہ اور اسلحہ بارود اور دیگر رسدکا بہت بڑا ذخیرہ بنانا چاہتے تھے مگر رعدی نام کی صرف ایک لڑکی نے اپنے ساتھی حسن الادریس کے تعاون سے ان کا ذخیرہ تباہ کردیا۔ اس علاقے سے لوگوں کو دور رکھنے کے لیے ایک درویش کی نمائش کرکے اس کی زبانی یہ مشہور کرادیا گیا تھا کہ یہ درویش اس علاقے کی ایک پہاڑی پر بیٹھے گا اور اسے خدا موصل کی فتح کا اشارہ دے گا پھر موصل یعنی عزالدین کی سلطنت دور دور تک پھیل جائے گی۔ اس درویش کا یہ انجام ہوا کہ اسلحہ اور آتش گیر سیال کی تباہی کے ساتھ ہی تباہ ہوگیا۔

دوسرے دن موصل کے لوگوں پر دہشت طاری تھی۔ انہیں بتانے والا کوئی نہ تھا کہ رات یہ دھماکہ اور زمین کا لرزہ کیسا تھا اور پہاڑیوں میں سے یہ جو سیاہ بادل اٹھ اٹھ کر آسمان کو جارہے ہیں، یہ کیسے ہیں۔ آتش گیر سیال کئی روز جلتا رہا تھا۔ اس کے ساتھ وسیع غار میں اندر جو سامان رکھا تھا، وہ بھی جل رہا تھا۔ ڈر کے مارے کوئی ادھر جاتا نہیں تھا۔ سب اسے درویش کی کرامات یا قہر سمجھ رہے تھے۔ ایسی دہشت زدگی کی اذیت ناک کیفیت میںانہیں ایک صدا سنائی دی… ''وہ جہنم کی آگ میں جل گیا ہے۔ وہ اپنے جہنم میں جل گیا ہے''۔

یہ ایک اور درویش تھا جو سبز قبا میں ملبوس تھا۔ سر کے بال لمبے اور سفید تھے، داڑھی بھی لمبی اور سفید تھی۔ اس کے چہرے پر بڑھاپے کی جھریاں تھیں۔ ایک ہاتھ میں لمبا عصا اور دوسرے میں قرآن تھا۔ یہ اسی درویش کی مانند تھا جو اسی کی طرح اچانک نمودار ہوا اور جب وہ بازار میں آیا تو خوف سے کانپتے ہوئے لوگوں نے اسے روک کر گھیر لیا۔ اس کی آنکھیں نیم وا تھیں۔ اس نے رک کر کہا… ''وہ جہنم میں جل گیا ہے جو کہتا تھا خدا اشارہ دے گا۔ اس کے انجام سے عبرت حاصل نہ کرنے والو! تم سب اسی جہنم میں، اسی دنیا میں جلو گے۔ خدا نے تمہیں رات کو بجلی کی کڑک کی آواز سے اشارہ دے دیا ہے۔ وہ سیاہ دھواں دیکھو۔ اللہ کے قہر سے ڈرو۔ اس کتاب کو مانو جو میرے ہاتھ میں ہے۔ یہ اللہ کا کلام ہے۔ یہ قرآن پاک ہے''۔

''خدا کے لیے ہمیں کچھ بتا''۔ ایک بوڑھے نے آگے ہوکر پوچھا۔ ''یہ سب کچھ کیا تھا؟ وہ کون تھا؟ تم کون ہو؟ ہمیں بتا کہ رات زمین کیوں لرزی تھی اور یہ سیاہ دھواں کیسا ہے؟''۔

''وہ مجذوب تھا''۔ نئے د رویش نے کہا… ''پاگل تھا، اس نے اللہ کے رازوں کی دنیا میں دخل دیا۔ اللہ کے سوا کوئی اور فتح کا یا کسی خوشخبری کا اشارہ نہیں دے سکتا۔ فتح اور شکست، خوشی اور غم اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے اپنے آپ کو اللہ کا ایلچی کہا اور گناہ گار ہوا۔ اس نے سزا پالی۔ جاکر دیکھو، اس کی ایک ہڈی بھی نظر نہیں آئے گی۔ وہ جس پہاڑ پر بیٹھا تھا، اس پہاڑ کو بھی سزا ملی۔ وہ سیاہ دھواں دیکھو، پہاڑ ابھی تک جل رہا ہے۔ اس جھوٹے درویش کو اب بھی سچا مانو گے تو تم بھی جلو گے''۔

''ہمیں بتا سچا کون ہے؟'' لوگوں نے پوچھا… ''کیا تو سچا ہے؟''

''نہیں''۔ اس نے جواب دیا اور قرآن بلند کرکے کہا… ''اللہ کا یہ کلام سچا ہے۔ اس درویش کو بھول جائو، اس کتاب کی بات مانو جو اشارے اللہ نے اس میں دئیے ہیں، وہ کوئی انسان نہیں دے سکتا''۔

وہ آگے چل پڑا۔

٭ ٭ ٭

 ٭

وہ دن بھر موصل میں یہی صدا لگاتا پھرتا رہا… ''وہ جہنم کی آگ میں جل گیا ہے، وہ اپنی آگ میں جل گیا ہے، جہاں اسے لوگ روک لیتے، وہ اس موضوع پر وعظ دیتا کہ غیب کا حال کوئی انسان نہیں جانتا اور خدا کے اشارے یہی ہیں جو قرآن میں ہیں۔ اس نے ظہر کی نماز ایک مسجد میں پڑھی، عصر کی کسی دوسری مسجد میں اور مغرب کی ایک اور مسجد میں پڑھی۔ وہ جس مسجد میں گیا وہاں نمازیوں کے ہجوم جمع ہوگئے۔ اس نے ہر مسجد میں یہی وعظ دیا کہ برحق صرف قرآن پاک ہے اور اے لوگو! قرآن کے اشاروں پر عمل کرو''۔

وہ مغرب کی نماز پڑھ کر نکلا تو رات گہری ہورہی تھی۔ وہ ایک ویرانے کی طرف چل پڑا۔ لوگ بھی اس کے پیچھے چل پڑے۔ اس نے سب کو روک کر کہا… ''اب میرے پیچھے کوئی نہ آئے۔ میں ساری رات ویرانے میں عبادت کروں گا اور تمہارے گناہوں کی بخشش مانگوں گا''۔

اس نے لوگوں پر ایسا تاثر پیدا کردیا تھا کہ ان کے دلوں میں پہلے درویش کی دہشت نکل گئی تھی۔ اس نے لوگوں سے وہیں رکنے کو کہا تو وہ رک گئے۔ اس نے دعائیہ الفاظ کہے اور اندھیرے میں غائب ہوگیا۔ لوگ وہیں کھڑے چہ میگوئیاں کرتے رہے۔ کسی میں اس کے پیچھے جانے کی جرأت نظر نہیں آتی تھی مگر ایک آدمی ایسا تھا جو اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کی نظریں بچا کر درویش کے پیچھے جارہا تھا۔ درویش لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوکر تیز چلنے لگا تھا۔ اس کے پیچھے جانے والے آدمی نے بھی قدم تیز کرلیے۔ اس کے قدموں کی آواز پر درویش رکا اور پیچھے دیکھا۔ وہ آدمی جسے اندھیرے میں درویش سائے کی طرح نظر آرہا تھا، فوراً رکا اور بیٹھ گیا۔ درویش کو کچھ بھی نظر نہ آیا تو وہ چل پڑا لیکن وہ بار بار گھوم کر دیکھتا تھا۔

کچھ اور آگے گئے تو یہ آدمی درویش کے قریب پہنچ گیا۔ درویش نے بلند آواز سے کچھ پڑھنا شروع کردیا۔ یہ کسی آیت کا ورد تھا۔ اس نے قدم سست کرلیے۔ پیچھے والے آدمی نے اپنے کمر بند سے خنجر نکالا اور دبے پائوں وہ فاصلے طے کیا جو اس کے اور درویش کے درمیان رہ گیا تھا۔ اس نے خنجر والا ہاتھ اوپر کیا۔ وہ پیچھے سے درویش پر وار کرکے اسے ختم کرنے کو تھا۔ خنجر ابھی اوپر ہی تھا کہ درویش بجلی کی تیزی سے گھوما۔ اس نے اپنا موٹا عصا اوپر کو گھمایا۔ عصا اس آدمی کی خنجر والی کلائی پر لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اس آدمی کے پیٹے میں ایسی لات جمائی کہ وہ آدمی دہرا ہوگیا۔ درویش کے ایک ہاتھ میں قرآن تھا، اس لیے وہ ایک ہی ہاتھ سے لڑ سکتا تھا۔ اس نے عصا اس آدمی کے سر پر مارا۔ اس کا خنجر اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔

درویش نے خنجر اٹھا لیا۔ وہ آدمی آہستہ آہستہ اٹھ رہا تھا۔ درویش نے اسے کہا… ''خنجر میرے ہاتھ میں ہے، پیٹ کے بل لیٹے رہو''۔

وہ آدمی پیٹ کے بل لیٹ گیا۔ درویش نے منہ سے کسی جانور کی آواز نکالی۔ ایسی ہی آواز دور سے بھی سنائی دی۔ اس نے پھر آواز نکالی۔ اندھیرے میں دوڑتے قدموں کی آہٹیں سنائی دیں۔ دو آدمی درویش کے قریب آرکے۔ درویش نے ہنس کر کہا… ''اس بدبخت نے وہی حرکت کی ہے جس کا ہمیں پہلے ہی خطرہ تھا۔ مجھے تو امید تھی کہ دن کے وقت موصل کے کسی دریچے سے تیر آئے گا اور میرے دل میں اتر جائے گا لیکن انہوں نے مجھے رات کو اس سے قتل کرانے کی کوشش کی ہے۔ یہ لو اس کا خنجر''… درویش نے زمین پر لیٹے ہوئے آدمی کو عصا کی ہلکی سے ضرب لگا کر کہا… ''اٹھ مردود! تو مسلمان ہے؟''

''ہاں میرے بزرگ!'' اس شخص نے ادب سے کہا… ''میں مسلمان ہوں''۔

درویش اور اس کے دونوں ساتھیوں نے قہقہہ لگایا۔ درویش نے اسے کہا… ''مجھے بزرگ نہ کہو دوست! میں تم سے زیادہ جوان ہوں''۔

''تمہارا بہروپ کامیاب رہا ہے''۔ درویش کو اس کے ایک ساتھی نے کہا۔

: اس آدمی کو تینوں اپنے ساتھ دور ایک خیمے میں لے گئے جس کے قریب چار پانچ اونٹ بندھے تھے۔ اردگرد چٹانیں تھیں۔ اس آدمی کو خیمے میں بٹھایا گیا۔ ایک دیا جل رہا تھا، اس نے دیکھا کہ درویش کا چہرہ تو جھریوں بھرا تھا جیسے وہ اسی سال کا بوڑھا ہو لیکن اب اس کی آواز جوانوں جیسی تھی۔ درویش نے سفید داڑھی اور سر کے لمبے بال اتار دئیے۔ اس کے ایک ساتھی نے اسے پانی میں بھیگا ہوا کپڑا دیا جو درویش نے اپنے منہ پر رگڑا۔ بڑھاپے کی جھریاں غائب ہوگئیں۔ ان میں سے جو چہرہ برآمد ہوا، وہ ایک جوان آدمی کا چہرہ تھا، جس پر سلیقے سے تراشی ہوئی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی۔

''تم اصل میں کون ہو؟'' حملہ کرنے والے نے اس سے پوچھا۔

''جسے تم قتل کرنے آئے تھے''۔ اس نے کہا… ''اب تم بتا دو کہ تمہیں کس نے میرے قتل کے لیے بھیجا تھا۔ کچھ چھپانے کی کوشش کرو گے تو بہت بری موت مرو گے''۔

''میرے پاس چھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں''۔ اس آدمی نے جواب دیا… ''مجھے محل کے ایک حاکم احمد بن عمرو نے کہا تھا کہ شہر میں ایک درویش پھر رہا ہے۔ اس نے مجھے تمہارا حلیہ اور تمہاری صدائیں بتائی تھیں اور کہا تھا کہ اس درویش کو اندھیرے میں قتل کرنا ہے۔ کسی کو پتہ نہ چلے۔ احمد بن عمرو نے کہا تھا کہ درویش کو قتل کرکے آئو گے تو دو سو دینار ملیں گے''۔

''کیا احمد بن عمرو مجھے بوڑھا درویش سمجھ رہا تھا؟''

''اس نے بتایا نہیں''۔ اس آدمی نے جواب دیا… ''اس نے یہی کہا تھا کہ درویش کو قتل کرنا ہے''۔

درویش کا بہروپ دھارنے والے اس کے دونوں ساتھی صلاح الدین ایوبی کے زمین دوز گروہ کے آدمی تھے جو موصل میں کام کررہے تھے۔ پچھلی کہانی میں جس درویش کا ذکر آیا ہے، اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے سلطان ایوبی کے گروہ کے ان آدمیوں نے ایک آدمی کو درویش بنایا اور اسے شہر میں گھمایا تھا۔ لوگ توہم پرست تھے، درویشوں کو خدا کی آواز سمجھتے تھے۔ پہلے درویشوں کو صلیبیوں نے اپنے ایک فریب کی کامیابی کے لیے استعمال کیا تھا۔ سلطان ایوبی کے آدمیوں نے اپنے ایک جوان ساتھی کو درویش کے بہروپ میں پیش کرکے لوگوں کو توہم پرستی سے ہٹا کر قرآن کی طرف مائل کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی۔

احمد بن عمرو جو موصل میں بن عمرو کے نام سے مشہور تھا، والئی موصل عزالدین کی انتظامیہ کا ایک اعلیٰ حاکم تھا جس کی حیثیت وزیر جتنی تھی۔ اسے اطلاع ملی کہ ایک درویش شہر میں پہلے درویش کے خلاف صدائیں لگاتا پھر رہا ہے تو وہ سمجھ گیا کہ یہ سلطان ایوبی کے حامی گروہ کا آدمی ہے، لہٰذا اسے قتل کرنا ضروری ہے، ورنہ لوگوں کو پہلے درویش کی اصلیت کا علم ہوجائے گا اور انہیں یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ پہاڑوں میں کیا جل رہا ہے۔ سلطان ایوبی کے اس آدمی کو قتل کرنے کے لیے محل کے حفاظتی دستے کا ایک سپاہی منتخب کیا گیا اور اسے دو سو دینار کا لالچ دے کر ''درویش'' کے قتل کے لیے بھیجا گیا۔ کرائے کا یہ قاتل جسے بوڑھا سمجھ رہا تھا، وہ ایک جوان آدمی نکلا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ بوڑھے کے بہروپ میں یہ جوان آدمی تجربہ کار لڑاکا جاسوس اور چھاپہ مار ہے۔

بن عمرو کے بھیجے ہوئے اس قاتل کو دئیے کی روشنی میں خیمے میں بٹھا کر بہت کچھ پوچھا گیا، لیکن اس سے کوئی راز معلوم نہ ہوسکا۔ وہ صلیبیوں کے کسی باقاعدہ جاسوس یا تخریب کار گروہ کا آدمی نہیں تھا۔ وہ اجرت پر صرف قتل کرنے آیا تھا۔ جس آدمی نے درویش کا بہروپ دھارا تھا، اس نے اپنے دونوں ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ تینوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ طے کرلیا۔ ان میں سے ایک اٹھا اور خیمے سے رسی کا ایک گز بھر لمبا ٹکڑا اٹھایا۔ وہ کرائے کے اس قاتل کے پیچھے ہوا اور تیزی سے رسی اس کے گردن کے گرد لپیٹ کر ایسا پھندا بنایا کہ یہ آدمی تڑپنے لگا اور ذرا سی دیر میں ٹھنڈا ہوگیا۔ دوسرے دن احمد بن عمرو والئی موصل عزالدین کے دیوڑھی نما کمرے میں اس کے پاس کھڑا تھا۔ وہ غصے میں تھا اور عزالدین کے چہرے پر پریشانی تھی۔ احمد بن عمرو کے ہاتھ میں ایک کاغذ ان کے سامنے فرش پر ایک لاش پڑی تھی جس کی گردن کے گرد رسی لپٹی ہوئی تھی اور اس رسی کے ساتھ یہ کاغذ بندھا ہوا تھا جو عزالدین کے پاس تھا۔ یہ حفاظتی دستے کے اس سپاہی کی لاش تھی جسے اس نے نئے درویش کو اندھیرے میں کہیں جاکر قتل کرنے کو بھیجا تھا۔ بن عمرو ساری رات اس سپاہی کا انتظار کرتا رہا تھا۔ صبح اسے اطلاع ملی کہ اس کے گھر کے سامنے ایک لاش پڑی ہے۔ وہ باہر آیا۔ زمین پر اس کے سپاہی کی لاش پڑی تھی۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھی، زبان باہر آگئی تھی۔ گردن کے گرد رسی تھی اور رسی کے ساتھ کاغذ بندھا تھا۔

: کاغذ پر لکھا تھا۔ ''عزالدین والئی موصل کے نام… تمہارے ایک حاکم احمد بن عمرو نے اس آدمی کو میرے قتل کے لیے بھیجا تھا۔ میں اس کی لاش عزت واحترام سے احمد بن عمرو کی دہلیز پر رکھ چلا ہوں۔ یہ بدنصیب سپاہی مجھے قتل نہیں کرسکتا۔ تم بھی اس طرح کی بدنصیب ہو جو سلطان ایوبی کا ابھی تک کچھ نہیں بگاڑ سکے اور آئندہ بھی کچھ نہیں بگاڑ سکو گے۔ کفار کی دوستی سے تم ذلت کے سوا کچھ حاصل نہیں کرسکو گے۔ ہم تمہیں چین سے جینے نہیں دیں گے۔ ایک روز تمہاری لاش بھی تمہارے محل کی دہلیز پر پڑی ہوگی۔ احمد بن عمرو جیسے حاکموں اور مشیروں سے بچو۔ یہ خوشامدی ٹولہ تمہارا کبھی وفادار نہیں ہوسکتا۔ یہی لوگ تمہارے زوال کا باعث بنیں گے۔ ہماری طاقت دیکھو، تمہارا فوجی مشیر احتشام الدین بیروت صلیبیوں کے ساتھ درپردہ معاہدے کے لیے گیا لیکن ہم نے اسے لاپتہ کردیا۔ وہ اب سلطان ایوبی کے پاس ہے۔ تمہارے صلیبی دوستوں نے پہاڑیوں کو کھود کر ان کے اندر جنگی سامان رکھا۔ ہم نے یہ سامان نذرآتش کرکے تمہاری ریاست کو زلزلے کا جھٹکا دیا۔ تم نے اپنے ایک سپاہی کو میرے قتل کے لیے بھیجا اور ہم نے تمہارے سپاہی کی لاش تم تک پہنچا دی۔ ہم جنوں اور بھوتوں کی طرح تم پر غالب رہیں گے مگر تم ہمیں دیکھ نہیں سکو گے۔ تمہارا زوال شروع ہوچکا ہے۔ تمہاری نجات اسی میں ہے کہ سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کرلو اور اپنی فوج اس کے حوالے کردو۔ ہمیں قبلہ اول آزاد کرانا ہے۔ اس دنیاوی بادشاہی اور جاہ وجلال سے باز آجائو۔ تخت وتاج نے کسی کا کبھی ساتھ نہیں دیا''۔

احمد بن عمرو نے لاش اپنے گھر کے سامنے سے اٹھوائی اور عزالدین کے سامنے جا رکھوائی۔ عزالدین نے بھی یہ تحریر پڑھی اور کاغذ بن عمرو کو دے کر گہری سوچ میں کھو گیا۔احمد بن عمرو غصے کا اظہار کررہا تھا لیکن عزالدین کا غصہ سرد پڑ چکا تھا۔

''مجھے اطلاع ملی ہے کہ مسجدوں میں بھی اس نئے درویش کے چرچے ہورہے ہیں''… عزالدین نے کہا … ''اور اب اس تحریر سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ کوئی درویش نہیں بلکہ صلاح الدین ایوبی کا کوئی آدمی ہے''۔ اس نے کاغذ مروڑ کر لاش پر پھینک دیا۔

''میں اسے تلاش کرلوں گا''… احمدبن عمرو نے غصے سے کہا… ''اور سرعام اس کا سرتن سے جدا کرائوں گا''۔

''ٹھنڈے دل سے سوچو''… عزالدین نے کہا… ''اس ایک آدمی کو قتل کردینے سے تم صلاح الدین ایوبی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ہمیں کچھ اور کرنا ہے، کچھ اور سوچنا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ صلیبی صلاح الدین ایوبی پر حملہ کردیتے، مگر معلوم نہیں وہ آگے کیوں نہیں آرہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں صلاح الدین ایوبی سے براہ راست ٹکر لوں، پھر وہ میری مدد اس طرح کریں گے کہ ان کے چھاپہ مار دستے صلاح الدین ایوبی کے پہلوئوں اور عقب پر اور اس کی رسد پر شب خون مارتے رہیں گے۔ اس طرح مجھے میدان جنگ میں برتری اور کامیابی حاصل ہوگی''۔

''اور ضرور ہوگی''… احمد بن عمرو نے فرش پر پائو مارتے ہوئے کہا۔

''اس تحریر میں صحیح لکھا ہے کہ تم خوشامدی ہو''… عزالدین نے کہا… ''میں ایک الجھن میں پڑا ہوا ہوں اور تم خوش کرنے کے لیے بچوں کی طرح باتیں کررہے ہو۔ کیا تم مجھے کوئی بہتر مشورہ نہیں دے سکتے؟''… اس نے تالی بجائی۔ ایک نوجوان خادمہ دوڑی آئی۔ اس نے جھک کر سلام کیا۔ عزالدین نے کہا… ''دربان سے کہو کہ یہ لاش اٹھوالے اور کہیں دفن کردے''… یہ کہہ کر وہ دوسرے کمرے میں چلا گیا جو اس کا خاص کمرہ تھا۔ احمد بن عمرو بھی ساتھ تھا۔ عزالدین پھر ادھر آیا اور خادمہ سے کہا… ''صراحی اور پیالے لے آئو۔ دربان سے کہو کسی کو ادھر نہ آنے دے''۔

٭ ٭ ٭

خادمہ نے لاش دیکھی تو وہ ڈر گئی۔ اس کی نظر مروڑے ہوئے کاغذ پر پڑی۔ وہ عربی پڑھ سکتی تھی۔ اس نے تحریر پڑھی اور کاغذ اپنے کپڑوں کے اندر چھپا لیا۔ دوڑ کر باہر گئی۔ دربان سے کہا کہ لاش اٹھوا کر دفن کرادے اور صراحی اور دو پیالے سنہری تھال میں رکھ کر عزالدین کے کمرے میں چلی گئی۔

''شاہ آرمینیا نے میرے پیغام کا جواب دے دیا ہے''… عزالدین بن عمرو سے کہہ رہا تھا… ''اس نے مجھے اپنے دارالحکومت تل خالد میں ملنے کے بجائے مجھے ہر زم بلایا ہے۔ وہ تل خالد سے روانہ ہوگیا ہے۔ میں دو روز بعد اسے ملنے جارہا ہوں''۔

: خادمہ نے پیالوں میں جلدی جلدی شراب ڈالنے کے بجائے کپڑے سے پیالے پونچھنے شروع کردئیے۔ اس کے کان عزالدین کی باتوں پر لگے ہوئے تھے۔

''میرا خیال ہے شاہ آرمینیا تل خالد سے ہرزم جانے کی غلطی کررہا ہے''… احمد بن عمرو نے کہا۔

''کیونکہ صلاح الدین ایوبی تل خالد کی طرف پیش قدمی کررہا ہے''… عزالدین نے کہا… ''تمہیں یہ ڈر ہے کہ شاہ آرمینیا کی غیر حاضری میں صلاح الدین ایوبی تل خالد کو محاصرے میں لے لے گا… ایسا نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہوا بھی تو ہم صلاح الدین ایوبی کی فوج پر عقب سے حملہ کردیں گے۔ ہم اس لڑائی کو طول دیں گے اور صلیبیوں کو اطلاع دیں گے کہ وہ بھی صلاح الدین ایوبی پر حملہ کردیں۔ مجھے یقین ہے کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج پس کے رہ جائے گی''۔

''آپ کب جارہے ہیں؟''…احمد بن عمرو نے پوچھا۔

''دو روز بعد''… عزالدین نے جواب دیا۔

خادمہ شراب پیش کرنے میں اس سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے پیالوں میں شراب ڈالی اور دونوں کو پیش کی۔ عزالدین نے اسے کہا کہ وہ چلی جائے۔ وہ ڈیوڑھی نما کمرے میں گئی تو وہاں سے لاش اٹھائی جاچکی تھی۔ خادمہ ابھی وہاں سے باہر نہیں جاسکتی تھی۔ اسے ڈیوٹی پر رہنا تھا۔ وہ بیٹھ گئی اور سوچنے لگی۔ اچانک اس کے منہ سے ''ہائے'' نکلی۔ اس نے دونوں ہاتھ پیٹ پر رکھ لیے اور دوہری ہوگئی۔ دربان اور دوسرے ملازم دوڑے آئے۔ اس نے کراہتے ہوئے بتایا کہ اسے پیٹ میں اچانک درد اٹھا ہے۔ اس کی جگہ فوراً دوسری خادمہ بلا کر وہاں بٹھا دی گئی اور اسے طبیب کے پاس لے گئے۔ طبیب کو اس نے بتایا کہ اسے پیٹ میں درد ہے۔ اسے دوائی دی گئی۔ اس نے کہا کہ وہ کام کے قابل نہیں رہی۔

کچھ دیر بعد اس کی طبیعت سنبھل گئی۔ طبیب نے اسے دو دنوں کی چھٹی لکھ دی اور اسے کہا کہ اپنے گھر چلی جائے ۔ وہ اپنے گھر کو جانے کے بجائے غلام گردشوں وغیرہ سے گزرتی عزالدین کی بیوی رضیع خاتون کے کمرے میں چلی گئی۔ رضیع خاتون کے متعلق پہلے تفصیل سے بتایا جاچکا ہے کہ نورالدین زنگی مرحوم کی بیوہ تھی۔ عزالدین نے اس کے ساتھ شادی کرلی تھی۔ رضیع خاتون نے اس امید پر شادی قبول کرلی تھی کہ عزالدین کو وہ سلطان ایوبی کا دوست اور اتحادی بنا دے گی اور مسلمان امراء اور حکمران متحد ہوکر فلسطین سے صلیبیوں کو نکال دیں گے مگر عزالدین نے جس نیت سے شادی کی تھی وہ رضیع خاتون کی نیت سے الٹ تھی۔ دمشق، بغداد اور ان مقامات کے گردونواح کے تمام علاقوں پر رضیع خاتون کا اثر تھا اور رضیع خاتون اپنے مرحوم خاوند نورالدین زنگی کی طرح سلطان ایوبی کی معتقد اور اس کے نیک عزائم کی حامی تھی۔ اس نے جوان لڑکیوں کی فوج بنا رکھی تھی۔

عزالدین نے اس عظیم خاتون کے ساتھ اس نیت سے شادی کی تھی کہ اسے سلطان ایوبی کے خلاف استعمال کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہوسکا کہ اسے زوجیت کی قید میں رکھے تاکہ دمشق اور بغداد کے لوگ اس کی قیادت سے محروم ہوجائیں۔ رضیع خاتون نے شادی کے بعد اس کی نیت پہچان لی تھی۔ پہلے تو اس نے احتجاج کیا لیکن عورت عقل والی تھی۔ اس نے عزالدین پر اپنا اعتماد پیدا کرکے جاسوسی شروع کردی اور شہر میں سلطان ایوبی کے جو جاسوس تھے، ان کے ساتھ درپردہ رابطہ قائم کرلیا۔ اس کی بیٹی (جو زنگی کی بیٹی تھی) شمس النساء جوان تھی۔ وہ بھی جاسوسی کررہی تھی۔ ماں بیٹی نے سلطان ایوبی تک بڑے ہی قیمتی راز پہنچائے تھے۔ اس کے ساتھ ہی رضیع خاتون نے عزالدین کے دو سالاروں اور ایک مشیر کو اپنے ہاتھ میں کرلیا تھا۔ عزالدین کو اس نے یقین دلا دیا تھا کہ وہ اب سلطان ایوبی کے حق میں نہیں رہی یا کم از کم اس کے خلاف نہیں رہی۔ رضیع خاتون خوبصورت عورت تھی۔ اس نے نسوانیت کی شیرینی اور زبان کی چاشنی سے عزالدین کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی محل کے اندر بھی جاسوسوں کا گروہ بنا لیا تھا۔

وہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی کہ عزالدین کی نوجوان خادمہ اندر آئی۔

 ''پیٹ درد کا بہانہ کرکے آئی ہوں''… خادمہ نے رضیع خاتون سے کہا… ''طبیب نے آج اور کل کی چھٹی دے دی ہے''… اس نے قمیض کے اندر سے وہ کاغذ نکالا جو اس نے لاش سے اٹھایا تھا۔ کاغذ رضیع خاتون کو دیا اور اسے بتایا کہ یہ کاغذ ایک سپاہی کی لاش کے ساتھ تھا۔

رضیع خاتون نے تحریر پڑھی اور بولی… ''آفرین، ہمارے مجاہد کام کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کم بختوں نے ہمارے آدمی کو قتل کرانے کی کوشش کی تھی۔ مجھے اطلاع مل چکی ہے کہ ہمارے اس درویش نے لوگوں کے دلوں سے صلیبیوں کے درویش کی دہشت اور وہم نکال دیا ہے''۔

''یہ تحریر اسی کی ہے''… خادمہ نے کہا… ''میں اس کا ہاتھ پہچانتی ہوں''۔

رضیع خاتون نے ہنس کر کہا… ''مجھے معلوم ہے کہ تم اس کا ہاتھ ہی نہیں، اس کا دل بھی پہچانتی ہو، لیکن یہ خیال رکھنا کہ دلوں کے جال میں نہ الجھ جانا۔ فرض پہلے''۔

خادمہ شرما سی گئی۔ کہنے لگی… ''ابھی تک اپنے جذبات کو فرض کے راستے میں نہیں آنے دیا۔ میں فہد کو بھی یہی کہا کرتی ہوں کہ اسے مجھ سے دلی محبت ہے تو اپنے فرض کو جذبات پر حاوی رکھے''۔

فہد وہی جواں سال آدمی تھا جس نے نئے درویش کا روپ دھارا تھا۔ وہ بغداد کا رہنے والا تھا۔ اس میں جاسوس بننے کی تمام تر خوبیاں موجود تھیں۔ خوبرو جوان تھا، دو سال سے موصل میں مقیم تھا اور کامیابی سے جاسوسی کررہا تھا اور نظریاتی محاذ پر بھی اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نمایاں کامیابیاں حاصل کرلی تھیں۔ اسی سلسلے میں اس کی ملاقات عزالدین کی خادمہ سے ہوئی تھی اور دونوں ایک دوسرے کے دل میں اتر گئے تھے۔ خادمہ شہر میں رہتی تھی لیکن اس کا زیادہ وقت محل میں گزرتا تھا۔ جاسوسی کی زمین دوز کارروائیوں کے علاوہ بھی ان دونوں کی ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔

''میں جو خبر لائی ہوں، وہ ابھی بتائی ہی نہیں''… خادمہ نے رضیع خاتون سے کہا… ''عزالدین دو روز بعد شاہ آرمینیا سے ملنے ہر زم جارہے ہیں۔ میں نے شراب پیش کرنے کے دوران اس سے یہ بات سنی ہے۔ وہ احمد بن عمرو کو بتا رہے تھے کہ شاہ آرمینیا نے انہیں پیغام بھیجا ہے کہ وہ تل خالد سے ہرزم روانہ ہورہا ہے اور عزالدین اسے وہاں ملیں… میں رات تک فارغ نہیں ہوسکتی تھی۔ میں نے پیٹ درد کا بہانہ بنایا اور آپ تک پہنچی ہوں''۔

رضیع خاتون نے اپنے زانو پر ہاتھ مار کر کہا… ''صلاح الدین ایوبی تل خالد کی طرف پیش قدمی کررہا ہے، مجھے معلوم نہیں کہ تل خالد میں اپنے جاسوس ہیں یا نہیں۔ یہ خبر صلاح الدین ایوبی تک پہنچنی چاہیے۔ ہوسکتا ہے وہ ان دونوں کو ہرزم میں پکڑ لے۔ یہ کام تم ہی کرو۔ فہد یا اس کے کسی اور ساتھی تک پہنچو اور اسے یہ خبر سنا کر میرا پیغام دو کہ صلاح الدین ایوبی ابھی تل خالد کے راستے میں ہوگا، یہ خبر اس تک پہنچا دو۔ ابھی جائو''۔

خادمہ چلی گئی۔

 

٭ ٭ ٭

کچھ ہی دیر بعد عزالدین رضیع خاتون کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر گھبراہٹ بڑی صاف تھی۔ رضیع خاتون کو معلوم تھا کہ وہ کیوں پریشان ہے، پھر بھی اس پریشان کی وجہ پوچھی۔

''میں صلاح الدین ایوبی کی دشمنی اور صلیبیوں کی دوستی کے پتھروں میں پس رہا ہوں''… عزالدین نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا۔

''میری تمام دلچسپیاں آپ کے ساتھ ہیں''… رضیع خاتون نے کہا… ''مگر میں صلاح الدین ایوبی کے حق میں کوئی بات کرتی ہوں تو آپ کو شک ہوتا ہے کہ میں اس کی حامی اور آپ کے خلا ہوں۔ آپ کی پریشانی کی وجہ یہ نہیں کہ آپ کے اور صلاح الدین ایوبی کے درمیان عداوت پیدا ہوگئی ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ آپ نے اس قوم کو دوست سمجھ لیا ہے جو آپ کی دوست نہیں ہوسکتی ہے، وہ آپ کے مذہب کی دشمن ہی رہے گی۔ صلیبی اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے آپ کو دھوکہ دیں گے اور ضرور دیں گے''۔

''تو کیا میں صلاح الدین ایوبی کے قدموں میں جاکر تلوار رکھ دوں؟''… عزالدین نے طنزیہ لہجے میں پوچھا… ''اگر میں ایسا کر گزروں تو اپنی فوج کے سامنے کس منہ سے کھڑا ہوں گا''۔

: ''صلاح الدین ایوبی آپ کو اپنا محکوم نہیں، اپنا اتحادی بنانا چاہتا ہے''… رضیع خاتون نے کہا۔

''تم اس شخص کی نیت کو نہیں سمجھ سکی''… عزالدین نے کہا… ''وہ سلطنت اسلامیہ کی بات کرتا ہے مگر اسے اپنی ذاتی سلطنت بنائے گا''۔

''اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اس سے لڑیں گے''… رضیع خاتون نے کہا… ''اگر آپ کا یہی ارادہ ہے تو پریشان ہونے کے بجائے جنگ کی تیاری کریں۔ فوج میں اضافہ کریں''۔

''میری پریشانی یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے جاسوسوں اور تباہ کاروں کا جال بچھا دیا ہے''… عزالدین نے کہا… ''تمہیں معلوم ہے کہ میرا اتنا قابل فوجی مشیر احتشام الدین بیروت بالڈون سے معاہدہ کرنے گیاا ور وہاں سے غائب ہوگیا۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ وہ صلاح الدین ایوبی کے ساتھ ہے۔ ہمارے تمام راز اس کے پاس ہیں۔ میں نے صلیبیوں سے اسلحہ آتش گیر سیال اور دیگر سامان کا ذخیرہ اپنے قریب جمع کرایا تھا۔ وہ تباہ ہوگیا ہے۔ آج میرے حفاظتی دستے کے ایک سپاہی کی لاش میرے پاس آئی ہے''۔

''اسے کسی نے قتل کیا ہے؟''… رضیع خاتون نے انجان بن کر پوچھا۔

''ہاں''… عزالدین نے اصل بات پر پردہ ڈال کر کہا… ''اسے کسی نے قتل کردیا ہے، اسے ایک خاص کام کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس کے قاتل صلاح الدین ایوبی کے آدمی معلوم ہوتے ہیں''۔

اس لاش کے ساتھ فہد کا لکھا ہوا جو کاغذ تھا وہ رضیع خاتون کے پاس تھا لیکن وہ انجان بنی رہی۔ اس نے سوچا کہ عزالدین گھبرایا ہوا ہے، اس پر اور زیادہ گھبراہٹ طاری کی جائے۔

''آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ صلاح الدین ایوبی صرف میدانِ جنگ میں نہیں لڑتا''… رضیع خاتون نے کہا… ''وہ جب اپنے گھر میں سویا ہوا ہوتا ہے تو اس کے دشمن سمجھتے ہیں جیسے وہ ان کے سر پر بیٹھا ہے۔ اس وقت وہ تل خالد کی طرف جارہا ہے لیکن یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ موصل میں بیٹھا ہے اور اپنی نگرانی میں تباہی کرارہا ہے۔ صلیبیوں کی فوج کا اندازہ کریں۔ صلاح الدین ایوبی کی فوج سے دس گناہ زیادہ ہے مگر صلیبی آگے بڑھ کر اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ صلیبیوں کے مقابلے میں آپ کے پاس جو فوج ہے وہ آپ جانتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ آپ کی فوج میں ایسے کمان دار موجود ہیں جو آپ کے وفادار نہیں۔ وہ آپ کو دھوکہ دے سکتے ہیں''۔

عزالدین اور زیادہ گھبرا گیا اور بولا… ''میں اس حد تک پہنچ چکا ہوں جہاں سے آسانی سے واپس نہیں آسکتا۔ میں دو روز بعد کہیں باہر جارہا ہوں، اگر حالات نے ساتھ دیا تو کامیاب ہوجائوں گا''… وہ چپ ہوکر گہری سوچ میں گھو گیا۔ کچھ دیر بعد بولا… ''رضیع! میں نے ایک امید تمہارے ساتھ وابستہ کررکھی ہے''۔

''میں آپ کی ہر امید پوری کروں گی''… رضیع خاتون نے کہا… ''اگر آپ مجھے صلاح الدین ایوبی کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کو کہیں گے تو میں کر گزروں گی۔ میں آپ کے ایک بچے کی ماں بن چکی ہوں۔ مجھے بتائیں میں آپ کی کون سی امید پوری کرسکتی ہوں۔ مجھے کسی کڑی آزمائش میں ڈالیں''۔

''میں باہر جارہا ہوں''… عزالدین نے کہا… ''مجھ سے ابھی یہ نہ پوچھنا کہ میں کہاں جارہا ہوں۔ اسے ابھی راز میں رکھنا ہے، اس کے بعد میں صلاح الدین ایوبی کے خلاف کوئی کارروائی کروں گا۔ اگر حالات میرے خلاف ہوگئے تو میں تم سے امید رکھوں گا کہ تم میری طرف سے سلطان ایوبی کے پاس جائو گی اور اس کے ساتھ میرا سمجھوتہ کرا دو گی۔ ہوسکتا ہے کہ اس وقت میں اس کے پاس جائوں تو وہ مجھے ملنے سے بھی انکار کردے''

رضیع خاتون نے اسے یہ مشورہ دیا کہ وہ شکست سے پہلے ہی سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ سمجھوتہ کرلے۔ اس نے عزالدین سے یہ بھی نہ پوچھا کہ وہ کہاں جارہا ہے۔ اسے خادمہ بتا گئی تھی کہ وہ ہرزم شاہ آرمینیا سے ملنے جارہا ہے اور یہ سلطان کے خلاف محاذ بن رہا ہے۔ رضیع خاتون کو وہ ابھی نہیں بتانا چاہتا تھا کہ وہ کہاں جارہا ہے، کیونکہ اسے وہ راز رکھنا چاہتا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ سلطان ایوبی کی جاسوسہ سے باتیں کررہا ہے۔ تاہم رضیع خاتون نے اسے یقین دلایا کہ وہ جب بھی کہے گا سلطان ایوبی کے ساتھ اس کا سمجھوتہ کرا دیا جائے گا۔ عزالدین کی گھبراہٹ سے رضیع خاتون کو خوشی محسوس ہورہی تھی۔

عزالدین سرجھکائے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔ رضیع خاتون کی ذاتی خادمہ جو اسی کی عمر کی تھی، اندر آئی اور رضیع خاتون سے پوچھا کہ والئی موصل بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ یہ خادمہ بھی رضیع خاتون کے زمین دوز گروہ کی فرد تھی۔

 ''ایمان اور کردار سے منحرف ہوکر انسان کی یہی حالت ہوا کرتی ہے''۔ رضیع خاتون نے کہا… ''یہ حکمران جو قوم سے الگ ہوکر اپنی اپنی ریاستوں کے بادشاہ بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں، کسی درخت کی ان ٹہنیوں کی مانند ہیں جو درخت سے الگ ہوگئی ہیں۔ ان کی قسمت میں اب یہی لکھا ہے۔ ان کے پتے جھڑ جائیں گے، بکھر جائیں گے اور یہ ٹہنیاں سوکھ کر مٹی میں مل جائیں گے۔ یہ حکومت کا لالچ ہے جس نے میرے خاوند کو شراب اور عورت کا شیدائی بنایا ہے۔ اس شخص نے صلیبیوں کا میٹھا زہر اپنی رگوں میں انڈیل لیا ہے۔ عزالدین میدان جنگ کا بادشاہ تھا۔ اس کی تلوار سے صلیب کا دل کٹتا تھا لیکن آج اس کے دل پر خوف طاری ہے۔ اس شخص کی جرأت جواب دے گئی ہے۔ مجھ سے، ایک عورت سے مدد مانگ رہا ہے۔ بادشاہی کا نشہ، شراب اور عورت انسان کا یہی حشر کیا کرتی ہیں۔ اس کی قسمت میں شکست لکھ دی گئی ہے جب ایک سالار تخت وتاج کا خواہاں ہوجاتا ہے تو اس کی پوری فوج دین وایمان سے دستبردار ہوجاتی ہے، پھر ملک وملت کا وقار خاک میں ملتا ہے اور دشمن سر پر سوار ہوجاتا ہے''۔

٭ ٭ ٭

وہ نوجوان خادمہ جو فہد کو یہ پیغام دینے نکلی تھی کہ عزالدین شاہ آرمینیا سے ملنے ہرزم جارہا ہے، اس ٹھکانے پر گئی جہاں فہد کو ہونا چاہیے تھا مگر وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ فہد عموماً شتر بانوں کے بھیس میں رہتا تھا۔ وہ دو اونٹ اپنے ساتھ رکھتا تھا اور تاجروں وغیرہ کا سامان ادھر ادھر لے جاتا تھا۔ وہ اس جگہ گئی جہاں وہ اپنے اونٹوں کے ساتھ بیٹھا یا کھڑا ہوتا تھا۔ وہ وہاں بھی نہیں تھا۔ اس نے ایک شتربان سے پوچھا کہ فہد کہاں ہے، شتر بان کی حیثیت سے اس کا نام کچھ اور تھا۔ اسے بتایا گیا کہ وہ اونٹوں پر سامان لاد کر فلاں جگہ چلا گیا ہے۔ خادمہ ادھر کو چل پڑی… اور اسے پتہ نہ چلا کہ ایک اور آدمی اس کے تعاقب میں آرہا ہے۔

یہ آدمی تھا تو موصل کا مسلمان لیکن صلیبیوں کا جاسوس تھا اور اس کا تعلق عزالدین کے محل کے عملے سے تھا۔ اس نے خادمہ کو طبیب کے پاس پیٹ کے شدید درد کی حالت میں دیکھا تھا۔ وہ اس لڑکی کو جانتا تھا، اس نے اس لڑکی کو اس وقت بھی دیکھا تھا جب وہ دوائی لے کرمحل سے نکل رہی تھی۔ اسے یہ تو معلوم نہ تھا کہ یہ رضیع خاتون سے مل کر آئی ہے، اس نے یہ دیکھا تھا کہ لڑکی اتنی تیز چل رہی تھی جیسے اسے کوئی تکلیف نہ ہو۔ یہ آدمی صلیبیوں کا تیار کیا ہوا جاسوس تھا۔ اسے اس لڑکی پر شک ہوا۔ عزالدین کا اپنا جاسوسی کا نظام اتنا اچھا نہیں تھا۔ صلیبیوں نے اسے بتائے بغیر وہاں اپنے جاسوس چھوڑ رکھے تھے۔ ان کے ذمے دو کام تھے۔ ایک یہ کہ عزالدین پر نظر رکھیں کہ وہ کہیں درپردہ سلطان ایوبی کا دوست تو نہیں بن رہا۔ دوسرا یہ کہ ان افراد کی نشاندہی کریں جو عزالدین کے محل میں اور موصل میں موجود ہیں اور جاسوسی کررہے ہیں۔

صلیبیوں کے اس جاسوس نے اس لڑکی کا تعاقب شروع کردیا اور جب دیکھا کہ وہ اور زیادہ تیز چل رہی ہے اور کسی کو ڈھونڈتی پھرتی ہے تو اس کا شک پختہ ہوگیا۔ اسے اب یہ دیکھنا تھا کہ وہ کسے ڈھونڈ رہی ہے۔ اگر یہ لڑکی واقعی جاسوس ہے تو اس سے ایک یا ایک سے زیادہ جاسوسوں کو پکڑا جاسکتا تھا۔ لڑکی کو اب ایک شتربان نے بتایا تھا کہ وہ کہاں گیا ہے۔ وہ اس طرف جارہی تھی اور جاسوس اس کے پیچھے جارہا تھا۔

ایک جگہ اونٹوں سے سامان اتارا جارہا تھا۔ فہد بھی سامان اتار رہا تھا۔ اس نے لڑکی کو دیکھ لیا۔ قریب سے گزرتے ہوئے لڑکی نے فہد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور آگے نکل گئی۔ فہد کو معلوم تھا کہ وہ کہاں اس کا انتظار کرے گی۔ جاسوس اس کے پیچھے لگا رہا۔ لڑکی کو معلوم نہ تھا۔ فہد نے جلدی جلدی اپنے اونٹوں سے سامان اتارا اور لڑکی کے پیچھے گیا۔ اس نے ایک اونٹ کی مہار پکڑ رکھی تھی۔ دوسرے اونٹ کی مہار اس اونٹ کے پیچھے بندھی تھی۔ لوگ آجارہے تھے۔ فہد لڑکی کے ساتھ ہوگیا۔ لڑکی رکی نہیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اپنے دھیان سے جارہی ہو، فہد بھی بظاہر اس کی طرف توجہ نہیں دے رہا تھا لیکن لڑکی اسے پیغام دے رہی تھی۔

چند قدموں تک لڑکی نے پیغام سنا دیا ور کہا… ''یہ کام کرکے آئو گے تو وہاں ملوں گی جہاں ہم کچھ دیر بیٹھا کرتے ہیں، ابھی نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے فرض سے بھٹک جائیں… تمہیں معلوم ہوگا۔ سلطان کی فوج کہاں ہوگی؟''

''مجھے معلوم ہے''… فہد نے جواب دیا… ''میں ابھی روانہ ہوجائوں گا''۔

''خدا حافظ''… لڑکی نے کہا۔

''فی امان اللہ''۔

لڑکی ایک طرف مڑ گئی۔ وہ ایک گلی تھی۔ تب اس نے گھوم کر دیکھا۔ ایک آدمی اس کے پیچھے آرہا تھا۔ اسے یاد آیا کہ اس آدمی کو اس نے فہد کی تلاش کے دوران تین چار مرتبہ دیکھا تھا۔ اسے یہ بھی خیال آیا کہ اس آدمی کو اس نے محل میں بھی دیکھا ہے۔ ذہن پر زور دیا تو اسے یاد آیا کہ یہ شخص محل میں ملازم ہے۔ 

جاری ھے


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں