داستان ایمان فروشوں کی -128 - اردو ناول

Breaking

اتوار, جنوری 09, 2022

داستان ایمان فروشوں کی -128

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر128 چلے قافلے حجاز کے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

غور کرنا شروع کردیا۔ سنجار کے قلعے کی دیواروں پر سنتری نیم بیدار تھے۔ وہ زمانہ جنگ وجدل کا تھا مگر سنجار کے امیر شرف الدین بن قطب الدین کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہورہا تھا۔ وہ صلیبیوں کا حاشیہ بردار تھا۔ اس لیے ان سے اسے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ والئی حلب عماد الدین اور والئی موصل عزالدین نے اسے کہا کہ اسے جب بھی ضرورت پڑی وہ دونوں اس کی مدد کو پہنچیں گے۔ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو اس کی نیت کا علم نہیں۔ وہ شراب اور عورت میں بدمست ہوکر گہری نیند سویا ہوا تھا۔ صلیبیوں نے اسے دو بڑی حسین لڑکیاں تحفے کے طور پر بھیجی تھیں۔ یہ لڑکیاں اسے بیداری کے خوابوں میں مگن رکھتی تھیں۔

قلعے کی دیوار کے اوپر سے ایک شرارہ سا گزر گیا۔ اس کے فوراً بعد ایک اور پھر ایک اور… سنتری پر دہشت طاری ہوگئی۔ یہ شرارے قلعے کے اندر گرے اور بھیانک شعلے بن گئے۔ قریب ہی کوئی سامان پڑا تھا اور اس کے قریب ایک مکان تھا۔ دونوں کو آگ لگ گئی۔ یہ آتش گیر سیال کی ہانڈیاں تھیں جو سلطان ایوبی کی فوج نے منجنیقوں سے پھینکی تھیں۔ ان کے ساتھ جلتے ہوئے فلیتے بندھے ہوئے تھے۔ ہانڈیاں مٹی کی تھیں جو گر کر ٹوٹیں تو اندر کا سیال پھیل گیا اور جلتے ہوئے فلیتوں نے اسے آگ لگا دی۔

قلعے میں قیامت بپا ہوگئی۔ قلعے کے اوپر رات روشن ہوگئی۔ ہر کوئی جاگ اٹھا۔ امیر شرف الدین کو جگایا گیا، اس نے کھڑکی میں سے شعلے دیکھے تو واہی تباہی بکتا باہر آیا۔ کسی وقت شرف الدین مرد میدان ہوا کرتا تھا مگر صلیبیوں نے اسے شراب اور لڑکیوں سے اس حال تک پہنچا دیا تھا کہ اس رات اس کے قدم نہیں اٹھتے تھے۔ راتوں کو ریگزاروں اور سنگلاخ وادیوں میں بلا تھکے لڑنے والا جنگجو چلنے کے قابل نہیں رہا تھا… پھر قلعے کا رات کی ڈیوٹی والا کمان دار اوپر سے دوڑا آیا اور شرف الدین کو بتایا کہ قلعہ محاصرے میں ہے۔

''کس بدبخت نے محاصرہ کیا ہے؟'' اس نے پوچھا۔

''سلطان صلاح الدین ایوبی نے''۔ کمان دار نے جواب دیا۔ ''وہ باہر سے للکار رہے ہیں کہ قلعے کے دروازے کھول دو، ورنہ ہم قلعے کو جلا کر بھسم کردیں گے''۔

شرف الدین کا نشہ اتر گیا… وہ سوچ میں پڑ گیا۔ بہت دیر بعد بولا… ''دروازہ کھول دو، ہم خود باہر جائیں گے''۔

کچھ دیر بعد قلعے کا دروازہ کھلا ور شرف الدین باہر نکلا۔ اس کے ساتھ مشعل بردار تھے۔ ادھر سے سلطان ایوبی نے اپنے ایک سالار سے کہا کہ وہ آگے جاکر شرف الدین کو اس کے پاس لے آئے۔ وہ خود ہی آرہا تھا۔ اس کے استقبال کے لیے سلطان ایوبی ایک قدم آگے نہ بڑھا۔ شرف الدین سلطان ایوبی کے سامنے جاکر گھوڑے سے اترا اور بازو پھیلا کر اس کی طرف دوڑا لیکن سلطان ایوبی نے ایسا سرد رویہ اختیار کیا کہ بددلی سے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا۔

''شرف الدین!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''اپنی فوج اور جنگی سامان کے سوا قلعے میں سے جو کچھ لے جانا چاہتے ہو، صبح طلوع ہونے سے پہلے نکال کر لے جائو، پھر ادھر کا رخ نہ کرنا''۔ اس نے اپنے ایک سالار سے کہا… ''کچھ نفری اپنے ساتھ لے جائو اور نظر رکھو کے قلعے سے فوج اور جنگی سامان باہر نہ جائے۔ فوج کی گنتی کرو اور اسے اپنی فوج میں شامل کرلو''۔

''میں آپ کا غلام ہوں سلطان!'' شرف الدین نے کہا۔ ''قلعہ اور فوج آپ کی ہوگی۔ مجھے قلعے میں رہنے دیں''۔

''قلعے کی ضرورت تھی تو مقابلہ کرتے''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ ''تم جیسے بزدلوں اور ایمان فرشوں کو حق حاصل نہیں کہ اتنے بڑے قلعے کے امیر کہلائیں''۔

''میں اور آپ کا مقابلہ کرتا؟'' شرف الدین نے کہا۔ ''میں نے سنا کہ آپ آئے ہیں تو میں باہر آگیا۔ مسلمان مسلمان کے خلاف کیسے لڑ سکتا ہے؟''۔

''جیسے پہلے لڑ چکا ہے''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ ''شرف الدین! تم صلیبیوں کے دوست ہو اور نام کے مسلمان، ذرا اپنی حالت دیکھو، تم سپاہی سے کیا بن گئے ہو۔ ایمان بیچ کر عیاشی خریدنے والوں کی یہی حالت ہوتی ہے۔ شراب اور عورت نے تم میں جرأت نہیں رہنے دی۔ تم جھوٹ بھی بولتے ہو، اگر تم میں ذرا سی بھی غیرت ہوتی تو اپنا قلعہ یوں لڑے بغیر اور مرے بغیر میرے حوالے نہ کرتے''۔

''سلطان عالی مقام!'' شرف الدین نے التجا کی۔ ''مجھے قلعے میں رہنے دیجیے''۔

سلطان نے اپنے ایک سالار سے کہا۔ ''اسے قلعے میں لے جائو اور قید میں ڈال دو۔ اس کی خواہش پوری کردو''۔

تین چار آدمی آگے بڑھے تو شرف الدین نے سلطان ایوبی کے قریب ہوکر کہا… ''میں موصل جانا چاہتا ہوں''۔

''ہاں۔ عزالدین تمہارا دوست ہے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اس کے پاس چلے جائو''۔

 سنجار پر سلطان ایوبی نے قبضہ کرلیا اور تقی الدین کو اس کا قلعہ دار اور امیر مقرر کیا۔

اس سے آگے آمد ایک قلعہ تھا۔ سلطان ایوبی نے رات باقی حصہ سنجار قلعے میں گزارا اور صبح آمد کی طرف کوچ کر کرگیا۔ آمد جسے آج کل امیدہ کہا جاتا ہے، دجلہ کے کنارے ایک مشہور قصبہ تھا اور اس کا بھی امیر مسلمان تھا۔ یہ قصبہ ایک قلعہ تھا۔ سلطان ایوبی نے اسے محاصرے میں لے لیا، وہاں کی فوج اور شہریوں نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر آٹھویں روز امیر نے ہتھیار ڈال دئیے۔ سلطان ایوبی نے وہاں کا جو امیر اور قلعہ دار مقرر کیا اس کا نام نورالدین تھا جو کارا ارسلان کا بیٹا تھا۔

٭ ٭ ٭

رعدی چار صلیبیوں کے ساتھ ابھی سفر میں تھی۔ اس کی جسمانی حالت ٹھیک ہوگئی تھی۔ صلیبیوں نے اس کے آرام کا بہت خیال رکھا تھا لیکن اس رات کے بعد جب اس نے انہیں اپنی زندگی کی کہانی سنائی تھی، ان کے ساتھ کوئی بات نہ کی۔ اس کے ذہن میں صلیبی کے یہ الفاظ گونج رہے تھے۔ ''تمہیں خدا نے دھتکار دیا ہے، کوئی نیکی کرو، خدا تمہیں بخش دے گا''… اس کی جسمانی حالت تو ٹھیک تھی لیکن جذباتی حالت بہت بری تھی۔ وہ جس کے ساتھ حج کو جارہی تھی، اس کی یاد اسے تڑپاتی رہتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس کے تصوروں میں حجاز کے قافلے سوئے منزل چلتے رہتے تھے۔ وہ جب بہت پریشان ہوجاتی تو یہ سوچنے لگتی کہ خدا اسے اس کے گناہوں کی سزا دے رہا ہے۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ گناہوں سے بخشش کس طرح مانگی جاتی ہے۔

رعدی اپنے چار محافظوں کے ساتھ منزل کے قریب آگئی تھی۔ یہ اب موصل کے علاقے میں داخل ہوگئے تھے۔ ایک روز انہوں نے ایک شتر سوار دیکھا جس نے انہیں دیکھ کر اونٹ روک لیا تھا۔ اس نے سر اور چہرہ سیاہ پگڑی میں لپیٹ رکھا تھا۔ صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ اس کی نظریں رعدی پر جمی ہوئی تھیں۔ صلیبی سپاہی اپنی فوجی وردی میں نہیں تھے، اس لیے کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ صلیبی سپاہی ہیں۔ انہیں ڈاکو یا مسافر کہا جاسکتا تھا۔

''اس شتر سوار کی آنکھیں دیکھی تھیں؟'' ایک صلیبی نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا۔

''بہت غور سے دیکھی تھیں''۔ دوسرے سپاہی نے جواب دیا۔ ''میں ان نظروں کو پہچانتا ہوں۔ اب ہمیں زیادہ ہوشیار رہنا پڑے گا۔ یہ لڑکی اتنی خوبصورت ہے کہ کسی ڈاکو کی نظر میں آگئی تو مشکل پیدا ہوجائے گی۔ آگے علاقہ پہاڑی ہے''۔

وہ دن بھر چلتے رہے۔ شام کے بعد دو چٹانوں کے درمیان موزوں جگہ دیکھ کر انہوں نے گھوڑے روک لیے اور کھانے پینے کا اہتمام کرنے لگے۔ کھانے کے بعد وہ بے سدھ ہوگئے۔ صرف ایک سپاہی ہر رات کی طرح جاگتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اسے کوئی آہٹ سنائی دی۔ یہ کسی گیڈر وغیرہ کے چلنے سے ڈھلان سے پتھر لڑھکا ہوگا لیکن سپاہی چوکنا ہوگیا۔ اس نے کان کھڑے کرلیے، آہٹ سنائی دی۔ اس نے اپنے ایک ساتھی کو جگایا اور اسے کان میں بتایا کہ اسے کسی کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔ وہ بھی اٹھا۔ دونوں نے کمانوں میں تیر ڈال لیے اور ایک ایک طرف ا ور دوسرا دوسری طرف کھڑا ہوگیا۔

رات تاریک تھی، کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ اب کوئی آہٹ سنائی نہیں دیتی تھی۔ رات کے سکوت میں یکے بعد دیگرے دو مرتبہ ''پنگ پنگ'' کی آواز سنائی دی۔ پیشتر اس کے کہ دونوں سپاہی ان آوازوں کی سمت معلوم کرسکتے، ایک ایک تیر دونوں کی پسلیوں میں اتر گیا۔ ان کے ساتھی دن بھر کے تھکے ہوئے گہری نیند سورہے تھے۔ ان دونوں نے تیر کھا کر انہیں آوازیں دیں تو وہ ہڑبڑا کر اٹھے، بھاگتے قدموں کی آوازیں سنائی دیں تو ایک مشعل بھی جل اٹھی جو ان دونوں سپاہیوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ فوراً بعد وہ سات آٹھ آدمیوں کے محاصرے میں آگئے۔ ان میں ایک نے چہرہ اور سر پگڑی میں لپیٹ رکھا تھا۔ یہ وہی معلوم ہوتا تھا جو دن کے وقت اونٹ پرسوار تھا ور اس نے رک کر رعدی کو گہری نظروں سے دیکھا تھا۔

: دونوں سپاہی تھے، انہوں نے تلواروں سے مقابلہ کیا لیکن سات آٹھ برچھیوں نے ان کے جسم چھلنی کردئیے اور رعدی حملہ آوروں کے قبضے میں آگئی۔ وہ الگ کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر خوف کی ہلکی سی بھی جھلک نہیں تھی۔ مشعل کے ناچتے ہوئے شعلے میں اس کا حسن ایسا پراسرار لگ رہا تھا جیسے وہ اس دنیا کی مخلوق نہ ہو۔

رعدی کو گھوڑے پر سوار کرلیا گیا۔ سیاہ پگڑی والا بھی گھوڑے پر سوار ہوا اور دونوں گھوڑے پہلو بہ پہلو چلنے لگے۔ اس آدمی نے رعدی سے پوچھا… ''اپنے متعلق کچھ بتائو گی؟''… رعدی نے اپنے متعلق سب کچھ بتا دیا۔

٭ ٭ ٭

رعدی کو جہاں لے جایا گیا، وہ کوئی محل یا مکان نہیں بلکہ ایک چوکور خیمہ تھا۔ اس کا آدھا حصہ زمین کے اوپر اور باقی نصف زمین میں تھا۔ قناتیں اور اوپر شامیانہ پھول دار ریشمی کپڑے کا تھا۔ اندر قالین بچھا ہوا اور چوڑا پلنگ تھا۔ فانوس روشن تھے۔ گمان نہیں ہوتا تھا کہ یہ خیمہ ہے۔ شراب کی صراحی بھی رکھی تھی۔ وہاں تین آدمی موجود تھے جن کے متعلق فوراً پتہ چل گیا کہ صلیبی ہیں۔ انہوں نے رعدی کو دیکھا تو وہ خاموشی سے اور حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔ سیاہ نقاب پوش اس کے ساتھ تھا۔ اس نے پگڑی کا نقاب اتار پھینکا اور بولا… ''ایسا تحفہ پہلے کبھی دیکھا ہے؟… اور یہ رقاصہ ہے''۔

رعدی خاموش کھڑی رہی۔ فانونس کی روشنی میں اس کا حسن اور زیادہ طلسماتی لگتا تھا۔ وہ یہاں بھی خوفزدہ نہیں تھی۔ اسے پلنگ پر بٹھایا گیا ور پوچھا گیا کہ وہ کون ہے اور کہاں جارہی تھی۔ رعدی نے اپنی زندگی کی کہانی ایک بار پھر سنا دی۔ اس کی کہانی سے وہاں کوئی بھی متاثر نہ ہوا۔ ان لوگوں کے پاس متاثر ہونے والے جذبات کی کمی تھی۔ اس سوال کے جواب میں کہ وہ کہاں جارہی تھی، اس نے کہا… ''مجھے کسی صلیبی بادشاہ کے پاس لے جایا جارہا تھا''۔

''تو کیا تم نے چار صلیبیوں کو قتل کردیا ہے؟'' ایک آدمی نے غصے سے اس آدمی سے پوچھا جو رعدی کو لایا تھا۔

''وہ صلیبی نہیں لگتے تھے''۔ اس نے جواب دیا… ''تم نے مجھے کہا کہ دو تین لڑکیاں لے آئو تاکہ اس ویرانے میں دل بہلانے کا کوئی ذریعہ ہو۔ مجھے اتفاق سے یہ نظر آگئی۔ میں نے ان چاروں کو مشکوک مسلمان سمجھا۔ پیچھا کیا اور انہیں قتل کرکے لڑکی لے آیا''۔

''تمہارے ساتھ کون کون تھا؟''

''صرف دو آدمی تھے''۔ اس نے جواب دیا… ''باقی پانچ موصل کے مسلمان تھے جو یہاں پہرے کا کام کرتے ہیں''۔

''اگر یہ راز فاش ہوگیا کہ تم نے اپنے کسی حکمران کا تحفہ اس کے محافظوں کو قتل کرکے اڑا لیا ہے تو اس کا نتیجہ جانتے ہو کیا ہوگا؟''

وہ خاموش رہا۔ اچانک ایک آدمی خیمے میں اترا اور بولا… ''یہ راز فاش نہیں ہوگا۔ تم ڈرتے ہو کہ ہم جو مسلمان تمہارے ساتھ ہیں، یہ راز فاش کردیں گے۔ ایسا نہیں ہوگا''۔

''یہ کون ہے؟''

''یہ میرا خاص آدمی ہے''۔ سیاہ پگڑی والے نے جواب دیا اور موصل کے کسی بڑے آدمی کا نام لے کر کہا… ''اس نے دیا ہے، قابل اعتماد اور عقل مند ہے''۔

''میں آپ کا ہی آدمی ہوں'' اس نے کہا… ''موصل اور اس علاقے کے جو راز آپ کے پاس جاتے ہیں، وہ میرے اور میرے ساتھیوں کے حاصل کیے ہوئے ہوتے ہیں''۔

اس سے کچھ اور باتیں پوچھی گئیں جن کے جواب میں اس نے ایسے انداز سے باتیں کیں کہ سب نے اسے قابل اعتماد سمجھ لیا۔ کسی کو ذرا سا بھی شبہ نہ ہوا کہ یہ صلاح الدین ایوبی کا بڑا ہی خطرناک جاسوس ہے جس کا اصل نام حسن الادریس ہے۔ خدا نے اس کے چہرے مہرے اور جسم کی ساخت میں ایسی جاذبیت پیدا کی تھی کہ دیکھنے والا اسے نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے اپنی زبان اور لب ولہجے میں ایسا جادو پیدا کرلیا تھا جسے سننے والا مسحور ہوجاتا تھا۔ وہ اداکاری اور لہجہ بدل کر بات کرنے کا ماہر تھا۔ موصل میں سلطان ایوبی کے جو جاسوس تھے، ان کا رابطہ حکام کے حلقے تک بھی تھا۔ انہوں نے معلوم کرلیا تھا کہ اس درویش سے والئی موصل عزالدین بھی متاثر ہے۔ اس نے موصل کے ہر باشندے کی طرح تسلیم کرلیا تھا کہ درویش کو آسمان سے اشارہ ملے گا اور اس کے بعد عزالدین اپنی فوج کو باہر نکالے گا پھر یہ فوج فتح پر فتح حاصل کرتی چلی جائے گی۔

: جاسوسوں کو عزالدین کے عقیدے کے متعلق اس کی بیوی رضیع خاتون (بیوہ نورالدین زنگی) نے اطلاع دی تھی۔ اس خاتون کے متعلق آپ پچھلی اقساط میں پڑھ چکے ہیں۔ وہ سلطان ایوبی کی عقیدت مند تھی۔ محل کی خبریں اسی کے ذریعے باہر آتی تھیں۔ اس نے جاسوسوں کو تفصیل سے بتایا تھا کہ عزالدین صلیبیوں کے جال میں بری طرح پھنس گیا ہے۔ صلیبیوں نے اس پر جادو ساکردیا ہے۔ یہ درویش اگر صلیبیوں کا کوئی ڈھونگ نہیں اور درویش ہی ہے تو یہ کوئی پاگل ہے۔ اس کا یہ کہنا ہے کہ خدا اسے فتح کا اشارہ دے گا، ہمارے اسلامی عقیدے کے منافی ہے۔ اس پیغام کے ساتھ رضیع خاتون نے جاسوسوں سے کہا تھا کہ اس درویش کو بے نقاب کریں اور ممکن ہو تو قتل کردیں۔ رضیع خاتون نے اس شک کا بھی اظہار کیا کہ صلیبی ان پہاڑیوں کے اندر کچھ اور کررہے ہیں۔ معلوم کرو کہ یہ کیا ہے اور اس کی اطلاع سلطان ایوبی تک پہنچائو۔

حسن الادریس درویش کی پراسرار دنیا میں داخل ہوگیا تھا اور اس نے ان صلیبیوں میں اعتماد حاصل کرلیا تھا جو پہاڑیوں میں رہتے تھے مگر اسے ایک حد سے آگے پہاڑیوں میں نہیں جانے دیا جاتا تھا جو راز تھا، وہ اس حد سے آگے تھا۔ وہاں پہاڑیاں اونچی تھیں اور ان میں گھری ہوئی چٹانیں تھیں۔ حسن الادریس درویش کو دیکھنا چاہتا تھا مگر وہ اسے نظر نہیں آتا تھا۔ وہ کسی سے پوچھتا نہیں تھا، تاکہ اس پر کوی شک نہ کرے۔ اس نے اس قدر اعتماد حاصل کرلیا تھا کہ وہ اسے رعدی کے اغوا کے لیے بھی ساتھ لے گئے تھے۔

رعدی اس نیم زمین دوز سائبان میں رہنے والے دو تین صلیبیوں کے تفریح کا سامان بن گئی تھی۔ ان میں جو ان کا سربراہ تھا، وہ رعدی کو تفریح کے ذریعے سے کچھ زیادہ اہمیت دینے لگا تھا۔ اس لیے وہ اس لڑکی کو ہر کسی کا کھلونا بننے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ یہ رعدی کے حسن کا اثر بھی تھا جو بازاری قسم کی ناچنے والیوں کی نسبت پاک اور معصوم لگتا تھا اور یہ اثر اس کی باتوں کا بھی تھا جو ناچنے والیوں جیسی نہیں تھیں۔ ایک رات اس سربراہ نے اس سے پوچھا… ''کیا تم میری خوشنودی کے لیے ناچتی ہو اور کیا تم میرے ساتھ راتیں گزارنے میں خوشی محسوس کرتی ہو؟''

''نہ آپ کو خوش ہونا چاہیے، نہ میں خوش ہوں''۔ رعدی نے متانت سے کہا… ''مجبوری نے مجھے کھلونا بنا دیا ہے۔ میں دل کی بات کہنے سے ڈروں گی نہیں۔ مجھے آپ سے نفرت ہے۔ میں آپ کے ہر حکم کی تعمیل شدید حقارت سے کرتی ہوں''۔

''تم جانتی ہو کہ اس بدزبانی کی پاداش میں، میں تمہارا سر تن سے جدا کرسکتا ہوں؟'' سربراہ نے کہا۔ ''میں تمہارا یہ حسین چہرہ گدھوں کے آگے پھینک سکتا ہوں''۔

''اور یہ میرے لیے بہت بڑا انعام ہوگا''۔ رعدی نے کہا… ''میرے لیے یہ بہت سخت سزا ہے کہ میرا سر میرے تن کے ساتھ ہے اور آپ جیسا گدھ میری رو ح کو کھا رہا ہے۔ آپ اپنے آپ کو جنگجو اور بہادر سمجھتے ہیں، ایک بے بس اور مجبور لڑکی کو قید میں رکھ کر فخر محسوس کرتے ہیں، مردانگی اور تلوار کے زور سے آپ مجھے اپنی لونڈی بنانا چاہتے ہیں۔ میرے دل پر اس طرح حکومت کریں کہ آپ مجھ سے یہ نہ پوچھیں کہ میں آپ کی خوشنودی کے لیے آپ کا حکم مانتی ہوں؟ بلکہ میں آپ سے پوچھوں کہ میرے رقص اور میرے وجود سے آپ کو مسرت حاصل ہوتی ہے یا نہیں؟''

''اگر میں تمہارے سامنے سونے کی ڈلیاں رکھ دو تو دل سے مجھے اپنا آقا تسلیم کرلو گی؟''

''نہیں''۔ رعدی نے جواب دیا… ''مجھے جس انعام کی ضرورت ہے، وہ تمہارے پاس نہیں ہے۔ وہ جس کے پاس تھا وہ مرگیا۔ وہ انسان تھا، جسے میرے جسم کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی… اور تم؟… تم گدھ ہو، گیڈر ہو، بھیڑیے ہو''۔

''اس نے تمہیں محبت دی تھی''۔ سربراہ نے کہا… ''اگر میں تمہیں وہی محبت دے دوں تو؟''

 ''میں نہیں، میری روح محبت کی پیاسی ہے''۔ اس نے کہا۔ سربراہ نے شراب کا پیالہ اٹھایا۔ منہ سے لگانے لگا تو رعدی نے پیالہ پکڑ لیا اور اس کے ہاتھ سے لے کر رکھا نہیں بلکہ پرے پھینک دیا ور کہا… ''مجھے باتوں پر اکسایا ہے تو میری باتیں سن لو۔ شراب پی لو گے تو تمہاری عقل اور جذبات پر بھی پردے پڑ جائیں گے۔ تم نے پوچھا ہے کہ تم مجھے وہی محبت دے دو تو میں قبول کرلوں گی؟ مجھے پہلے اپنی محبت دکھائو۔ یہ سچی ہوئی تو مجھے اپنے ساتھ جلتے ہوئے صحرا میں لے چلو گے تو ہنسی خوشی چلوں گی۔ تمہارے ساتھ جل کر مرجائوں گی''۔

سربراہ نے اسے دیکھا۔ اس نے اس لڑکی کے جسم کے روئیں روئیں کو دیکھا تھا۔ کئی روز سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے بھورے بھورے، بکھرے بکھرے بالوں کے گداز سے بھی لطف اندوز ہوا تھا۔ اس نے ان ریشمی بالوں کا سحر اس وقت بھی دیکھا تھا، جب یہ بال اس کے عریاں سینے پر اور عریاں پیٹھ پر بکھرے ہوئے ہوتے تھے۔ وہ لڑکی کے جسم سے اتنا ہی واقف ہوگیا تھا جتنا اپنے جسم سے واقف تھا مگر لڑکی نے نفرت اور حقارت کا اظہار ایسی بے خوفی سے کردیاا ور اس کے ہاتھ سے پیالہ چھین کر پرے پھینک دیا تو اس شخص کی مردانگی جواب دے گئی۔ اس نے اپنے آپ میں ایسی بے بسی محسوس کی جیسے یہ لڑکی اس پر طلسم بن کر غالب آگئی ہو۔ یہ مرد کی فطرت ہے کہ دس مردوں کا مقابلہ کرسکتا ہے، درندوں سے بھی لڑ جاتا ہے مگر ایک عورت جسے وہ پسند کرتا ہے، وہ اسے کہہ دے کہ مجھے تم سے نفرت ہے تو وہ ریت کی ڈھیری بن جاتا ہے۔ یہی جذباتی حالت اس شخص کی ہوئی جس نے جوانی میدان جنگ میں گزاری اور مسلسل موت سے کھیل رہا تھا۔

''میں تمہیں اپنے کسی ساتھی کے ہاتھ کھلونا نہیں بننے دوں گا''۔

''میں حکم کی پابند ہوں''۔ رعدی نے کہا… ''میں خودکشی نہیں کروں گی۔ یہ بزدلی ہے۔ میں بھاگنے کی بھی کوشش نہیں کروں گی، یہ دھوکہ ہے۔ میں خودکشی کرچکی ہوں،اپنا من مار دیا ہے''۔

وہ آہستہ آہستہ اٹھا اور اس طرح قدم پھونک کر رعدی کی طرف بڑھا جیسے اس لڑکی نے اسے ہیپناٹائز کرلیا ہو۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ اٹھایا اور رعدی کے بالوں پر ہاتھ پھیر کربولا… ''تم میرے تصوروں سے بھی زیادہ خوبصورت ہو''۔ اس نے ہاتھ پیچھے کرلیا اور بولا… ''میں نے آج پہلی بار محسوس کیا کہ تمہاری آواز میں سوز ہے، تم رقاصہ ہو۔ مغنیہ تو نہیں؟''

''میں گاتی بھی ہوں''۔ رعدی نے کہا… ''لیکن نغمہ وہ سنائوں گی جو مجھے پسند ہوگا، جس میں میرا درد ہوگا''۔

وہ گنگنانے لگی ''چلے قافلے حجاز کے''۔

سائبان کے اندر کے ماحول پر وجد طاری ہوگیا۔ آواز رعدی کے دل سے نکل رہی تھی۔ اس نغمے میں اس کی محبت کے بین تھے۔ دل کی آہیں تھیں، آرزوئوں کا سوز تھا اور اس کے ان خوابوں کا حسن تھا جو حجاز کے راستے میں شہید ہوگئے تھے۔ رعدی کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے، اس کی لے اور پرسوز ہوگئی… اور عجیب بات یہ ہوئی کہ صلیبی سربراہ کی ایسی غنودگی آنے لگی جو اسے پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ اسے ہر رات شراب مدہوش کرتی اور وہ اسی مدہوشی میں سوجایا کرتا تھا۔

وہ گہری نیند سوگیا تو رعدی کی نظر اس خنجر پر پڑی جو پلنگ کے قریب تپائی پر پڑا تھا۔ رعدی نے آہستہ سے خنجر نیام سے نکالا۔ اس کی نوک پر انگلی رکھی اور خنجر مضبوطی سے پکڑ کر سوئے ہوئے صلیبی کے قریب گئی۔ اس نے خنجر کی نوک اس کی شہ رگ کے قریب کی، پھر دل کے قریب لے گئی۔ ہاتھ اوپر اٹھایا تو اسے آواز سنائی دی… ''شی''… اس نے ادھر دیکھا۔ سائبان کا پردہ اٹھائے وہی خوبرو آدمی کھڑا تھا جس نے کہا تھا کہ وہ صلیبیوں کا جاسوس ہے۔ وہ حسن الادریس تھا۔

٭ ٭ ٭

: حسن الادریس نے رعدی کو اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ رعدی نے خنجر نیام میں ڈالا اور پردے تک گئی… حسن الادریس نے اسے بازو سے پکڑا اور باہر لے گیا، بولا… ''آج رات یہ اکیلا ہے، دوسرے بہت دنوں کے لیے چلے گئے ہیں۔ یہ شخص میری ذمہ داری اور حفاظت میں ہے لیکن میں سوئے ہوئے کو قتل نہیں کروں گا۔ اسے جو قتل کرنے آئے گا، وہ میرے ہاتھوں مارا جائے گا… تم تو اسے کہہ رہی تھی کہ میں خود کشی نہیں کروں گی کہ یہ بزدلی ہے اور میں بھاگوں گی نہیں کہ یہ دھوکہ ہے، مگر سوئے ہوئے کو قتل کرنے لگی تھیں، کیا یہ دھوکہ نہیں؟''

''تم اسے بتا دو گے کہ میں نے اس کی شہ رگ اور دل پر خنجر رکھا تھا؟'' اس نے پوچھا اور آہ لے کے بولی… ''بتا دینا۔ وہ مجھے قتل کردے گا۔ اس سے میرا بھلا ہوجائے گا اور وہ تمہیں انعام دے گا، اس سے تمہارا بھلا ہوجائے گا''۔

''مجھے اس شخص سے اتنی ہی نفرت ہے جتنی تمہارے دل میں ہے''۔ حسن الادریس نے کہا… ''میں اسے کچھ نہیں بتائوں گا''۔

''اور مجھ سے اس کا انعام مانگو گے؟'' رعدی نے پوچھا… ''بلکہ مجھے انعام کے طور پر مانگو گے؟''

''نہیں'' حسن الادریس نے کہا… ''مجھے کسی انعام کی ضرورت نہیں''… وہ لڑکی کو ذرا پرے لے گیا اور اپنائیت کے لہجے میں بولا… ''میں بھی تمہارے طرح حجاز کا مسافر ہوں۔ ہم نے جس رات تمہیں ان آدمیوں سے چھینا تھا، اس رات تم نے اپنی زندگی کی کہانی سنائی تھی۔ تم نے اپنے جذبات اور اپنی ایک خواہش کا بھی ذکر کیا تھا۔ میں اس رات سے سوچ رہا ہوں کہ تمہیں کون سی نیکی بتائوں جس سے تم خدا کی خوشنودی حاصل کرسکتی ہو''۔ حسن الادریس کی زبان کے سحر نے رعدی کو مسحور کرلیا۔ وہ بولتا رہا، وہ سنتی رہی۔ سلطان ایوبی کے اس جاسوس نے اس حسینہ کے دل پر قبضہ کرلیا… رعدی وہاں سے اٹھنے پر آمادہ نہیں تھی… حسن الادریس نے اسے جانے پر مجبور کیا تو وہ چلی گئی۔

وہ تین چار راتیں ملے۔ حسن الادریس نے رعدی کو اپنی جذباتی باتوں اور نیک نیتی کے جادو میں گرفتار کرلیا تھا۔ رعدی اس سے حجاز کی باتیں پوچھتی تھی اور وہ جذباتی انداز میں اسے حجاز کی دلکش باتیں سناتا تھا۔ دن کے وقت حسن الادریس اس کوشش میں لگا رہتا کہ معلوم کرسکے کہ جہاں اسے نہیں جانے دیا جاتا، وہاں کیا ہے مگر وہ کچھ بھی معلوم نہ کرسکا۔ ایک رات اس نے لڑکی کو اعتماد میں لے لیا اور کہا کہ ان لوگوں نے ان پہاڑوں میں کیا چھپا رکھا ہے۔ رعدی نے فوراً جواب دیا۔ ''جنگی سامان ہے۔ اس (سربراہ) نے مجھے بتایا تھا۔ کہتا تھا کہ اس میں آگ لگانے والا تیل اتنا زیادہ ہے کہ مسلمانوں کے سارے شہروں کو جلا کر بھی ختم نہ ہو… بے شک میں اس شخص کی لونڈی بلکہ داشتہ ہوں لیکن یہ میرے آگے غلاموں جیسی حرکتیں کرتا ہے''۔

''کیا تم اس سے خوش ہو کہ تم اتنے اونچے رتبے والے صلیبی کی داشتہ ہو اور یہ تمہارا غلام ہے؟''

''نہیں!'' رعدی نے اداس لہجے میں جواب دیا… ''میں اپنے جسم کی بات کررہی ہوں۔ میری روح کبھی خوش نہیں ہوگی۔ مجھے جو حجاز کے راستے سے اغوا کرکے لائے تھے، وہ کہتے تھے کہ خدا تم سے ناراض ہے۔ کوئی ایسی نیکی کرو کہ خدا تمہارے گناہ بخش دے اور جو مجھے حجاز لے جارہا تھا اور جسے میں نے چاہا تھا، کہتا تھا کہ حج کرکے ہم پاک ہوجائیں گے، پھر وہیں شادی کریں گے۔ میں تو گناہوں میں ڈوبتی چلی جارہی ہوں۔ میں کیا نیکی کروں گی۔ خدا مجھے سزا دیتا چلا جائے گا''۔

''زم زم کا پانی ہی نہیں، آگ بھی تمہیں پاک کرسکتی ہے''… حسن الادریس نے ہنس کر کہا… ''تم حجاز نہ پہنچ سکی، پاسبان حجاز کو خوش کردو تو خدا تمہاری روح کو گناہوں سے پاک کردے گا، تم نجات پالو گی''۔

''کون ہے پاسبان حجاز؟'' رعدی نے حیران ہوکر پوچھا… ''اور یہ کون سی آگ ہے جو مجھے پاک کرسکتی ہے؟''

''پاسبان حجاز سلطان صلاح الدین ایوبی ہے''۔ حسن الادریس نے کہا… ''اور آگ یہ ہے جو ان پہاڑوں میں کنستروں اور مٹکوں میں تیل کی صورت میں بھری پڑی ہے۔ اس سے حجاز تک کو آگ لگائی جائے گی۔ تم کسی طرح مجھے وہاں تک پہنچا دو، جہاں آگ اور جنگ کا سامان بھرا پڑا ہے''۔

رعدی کچھ سمجھ نہ سکی۔ حسن الادریس نے اسے بڑی لمبی کہانی سنائی۔ سلطان ایوبی کا عزم اور اس کا کردار بتایا۔ صلیبیوں کے عزائم بتائے اور اسے ایسی باتیں سنائیں کہ اس کے دل میں صلیبیوں کی نفرت پیدا ہوگئی اور اسے حق اور باطل کا تضاد معلوم ہوگیا۔

٭ ٭ ٭

: دوسرے دن حسن الادریس نے دیکھا کہ رعدی گھوڑے پر سوار صلیبی سربراہ کے ہمراہ پہاڑیوں کے اس حصے کی طرف جارہی تھی جدھر حسن الادریس کو اور صلیبی پہرہ داروں کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی… رات کو سربراہ رعدی سے دل بہلا کر گہری نیند سوگیا۔ یہ نیند بہت ہی گہری تھی کیونکہ رعدی نے حسن الادریس کو دیا ہوا چٹکی بھر سفوف اس کے شراب کے پیالے میں ڈال دیا تھا۔ جاسوس بے ہوش کرنے والا سفوف اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ رعدی اس جگہ پہنچ گئی جہاں حسن الادریس اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔

''وہاں تو بہت بڑا غار ہے''۔ رعدی نے اسے بتایا… ''ان لوگوں نے کھود کھود کر اسے زیادہ وسیع کرلیا ہے۔ اتنا چوڑا اور لمبا کہ دہانے سے دوسرا سرا نظر نہیں آتا۔ اندر آگ لگانے والے تیل کے ہزار ہا مٹکے اور کنستر رکھے ہیں۔ ساتھ ہی برچھیاں، تیروکمان، اناج، خیمے، کپڑے اور بے انداز سامان پڑا ہے… میں نے اس صلیبی سردار سے بچوں کی طرح کہا کہ میں ان پہاڑیوں کے اندر سیر کرنا چاہتی ہوں۔ اس نے کہا کہ کل دن کو لے چلوں گا۔ تم تو میری ملکہ ہو۔ کسی کو بتانا مت کہ میں تمہیںادھر لے گیا تھا۔ وہ مجھے لے گیا''… رعدی نے اسے بتایا کہ اس غار میں سامنے دو آدمی پہرے پر کھڑے رہتے ہیںاور غار کا دہانہ کھلا رہتا ہے۔ غار سے سو ڈیڑھ سو گز دور پہرہ دار دستے کے خیمے ہیں۔ رعدی نے کہا… ''غار سے ذرا پرے ایک خیمہ ہے جس کے باہر ایک ضعیف آمی بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ سربراہ نے اسے پائوں کی ٹھوکر سے بیدار کرکے کہا… ''اوئے درویش! کوئی تکلیف تو نہیں؟ کھانا ٹھیک ملتا ہے؟… بوڑھے نے صغیف آواز میں پوچھا۔ ''جناب، مجھے کب رہا کرو گے؟ مجھے اب جانے دو''… سربراہ نے نفرت سے کہا… ''ابھی انتظار کرو، بہت انعام ملے گا''… یہ شاید وہی درویش ہے جس کا تم نے ذکر کیا تھا''۔

''ہاں!'' حسن الادریس نے کہا… ''یہ صلیبیوں کا وہی ڈھونگ ہے جس نے موصل کے باشندوں اور ان کے والئی عزالدین کو بھی دیوانہ بنا رکھا ہے… آئو رعدی! ہم دونوں مل کر خدا سے تمہارے گناہوں کی بخشش حاصل کریں گے''۔

دونوں چل پڑے مگر چھپ چھپ کر۔ رات کا اندھیرا فائدہ دے رہا تھا۔ وہ چٹانوں کی تنگ گلیوں سے گزرتے، رکتے، ادھر ادھر دیکھتے، کان کھڑے کیے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے، جہاں دو پہرہ دار کھڑے تھے۔ ان کے قریب ایک مشعل جل رہی تھی جس کا ڈنڈا زمین میں گڑھا ہوا تھا۔ حسن الادریس اور رعدی ان سے پندرہ بیس قدم دور چھپے رہے۔ دونوں اپنی اپنی جان کی بازی لگانے آئے تھے۔ خدا دیکھ رہا تھا۔ حسن الادریس کھانسا اور رعدی کو ایک طرف کردیا اور خود بیٹھ گیا۔ ایک سنتری ''کون ہے؟'' پکار کر ادھر آیا۔ اندھیرے میں اسے کچھ نظر نہ آیا۔ حسن الادریس نے پیچھے سے اس کی گردن بازو کے گھیرے میں جکڑ لی اور دوسرے ہاتھ سے خنجر کے تین چار وار اس کے دل کے مقام پر کیے۔ سنتری گر پڑا۔

حسن الادریس انتظارکرتا رہا۔ دوسری سنتری نے اپنے ساتھی کو پکارا۔ اسے جواب نہ ملا تو وہ آہستہ آہستہ ادھر آیا۔ وہ جب اپنے مرے ہوئے ساتھی کے قریب پہنچا تو اندھیرے میں اسے کوئی زمین پر پڑا نظر آیا۔ اس نے جھک کر دیکھا اور وہ حسن الادریس کے شکنجے میں آگیا۔ رعدی نے انتظار نہ کیا۔ وہ غار کی طرف دوڑی اور زمین سے مشعل اکھاڑ کر غار کے اندر چلی گئی۔ حسن الادریس نے دوسرے سنتری کو بھی ختم کردیا۔ پہرے داروں کا دستہ خیموں میں سویا ہوا تھا۔ حسن الادریس نے رعدی کو پکارا مگر وہ وہاں نہیں تھی۔ وہ غار کی طرف دوڑا۔ وہاں مشعل بھی نہیں تھی۔

اتنے میں غار میں ایک شعلہ اٹھا۔ رعدی دوڑتی باہر آئی۔ اس کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی۔ اس نے غار کے اندر آتش گیر سیال کا ایک مٹکا اوندھا کرکے مشعل سے اسے آگ لگا دی تھی۔ اسے معلوم نہ تھا کہ یہ سیال کس طرح بھڑک کر جل اٹھتا ہے۔ شعلے نے پھیل کر رعدی کو بھی رد میں لے لیا۔ جب حسن الادریس نے اسے پکڑا، اس وقت اس کا اتنا حسین چہرہ سیاہ ہوچکا تھا ور اس کے ریشم جیسے بال جل چکے تھے۔ حسن الادریس نے اس کے کپڑوں کی آگ بجھاتے اپنے ہاتھ جلا لیے۔ کپڑوں کی آگ تو بجھ گئی مگر رعدی پر غشی طاری ہورہی تھی۔ اس کی آنکھیں جھلس کر بند ہوگئی تھیں۔

حسن الادریس نے اسے کندھے پر اٹھایا اور دوڑ پڑا۔ ممنوعہ علاقے سے نکل کر اسے اگلے علاقے سے پوری واقفیت تھی۔ غار میں رُکی ہوئی آگ نے بند کنستروں اور مٹکوں کو اتنی حرارت دے دی کہ ایک مہیب دھماکہ ہوا جس سے زمین زلزلے کی طرح کانپی۔ ہزاروں من بند آتش گیر سیال ایک ہی بار پھٹ گیا تھا۔ اس نے جہاں تباہی کا سارا سامان تباہ کیا، وہاں صلیبیوں کا چھپایا ہوا تمام تر اسلحہ اور دیگر سامان بھی بھسم ہوگیا۔

: دھماکے نے موصل شہر کو جگا دیا۔ لوگوں پر دہشت طاری ہوگئی۔ حسن الادریس شہر میں داخل نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ شہر کے دروازے بند تھے۔ وہ شہر کے بجائے نصیبہ کی طرف چل پڑا۔ وہ خطرے سے نکل گیا تھا۔ اس نے رعدی کو کندھے پر ڈال رکھا تھا۔ بہت دور جاکر وہ تھک گیا۔ رُکا اور رعدی کو زمین پر لٹا دیا۔ رعدی نے سرگوشی کی… ''آگ نے مجھے پاک کردیا ہے''… وہ ہنسی اور خواب میں بڑبڑانے کے لہجے میں بولی… ''قافلہ حجاز کو جارہا ہے۔ وہاں جاکر شادی کریں گے''۔

''رعدی، رعدی''۔ حسن الادریس نے اسے بلایا۔

''خدا نے میرے گناہ بخش دئیے ہیں نا؟'' رعدی نے پوچھا۔ وہ اٹھ بیٹھی اور بازو آگے کرکے بولی… ''وہ جارہے ہیں، دیکھو۔ وہ قافلے حجاز کو جارہے ہیں۔ میں بھی جارہی ہوں''۔

وہ ایک طرف گری۔ حسن الادریس نے اسے بلایا، ہلایا، آخر نبض پر ہاتھ رکھا… رعدی کی روح حجاز کے قافلے کے ساتھ جاچکی تھی۔

حسن الادریس نے خنجر سے قبر کھودی۔ صبح تک وہ دو اڑھائی فٹ گہرا اور رعدی کے قد جتنا لمبا گڑھا کھود سکا۔ اس نے رعدی کو اس میں لٹایا اور اوپر مٹی ڈال دی۔

جب کچھ روز بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کو صلیبیوں کے ذخیرے کی تباہی کی اطلاع ملی تو اس وقت وہ ایک مشہور مقام تل خالد کی طرف پیش قدمی کررہا تھا۔ تل خالد ایک بڑی ریاست تھی جس کا حکمران سوکمان القطبی شاہ ارمن تھا۔ وہ اس وقت ہر زم کے مقام پر تھا جہاں اسے والئی موصل عزالدین کو فوج اور دیگر جنگی مدد دے۔ سلطان ایوبی کو اس ملاقات کا علم قبل از وقت ہوگیا۔ اس نے شاہ ارمن کے دارالحکومت تل خالد کو محاصرے میں لینے کے لیے پیش قدمی کردی۔

جاری ھے ،


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں