داستان ایمان فروشوں کی- 127 - اردو ناول

Breaking

اتوار, جنوری 09, 2022

داستان ایمان فروشوں کی- 127

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر127 چلے قافلے حجاز کے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

خون کا انتقام لینا ہے۔ جنہیں صلیب کے ایک جنگجو بادشاہ ارناط نے عکرہ لے جا کر قتل کیا تھا۔ جنگی قیدیوں کو قتل نہیں کیا جاتا مگر ارناط نے ہمارے تمام قیدیوں کو پہلے بھوکا رکھا۔ ان سے مشقت کرائی پھر انہیں قطار میں کھڑا کرکے قتل کیا تھا۔ اس واقعہ کو سات سال گزر گئے ہیں۔ میں اسے ساری عمر نہیں بھول سکتا۔ آج انتقام کا موقع ملا ہے۔ میں یہ نہیں سننا چاہتا کہ یہ صلیبی ڈاکو ہمارے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے۔ انہیں زندہ لائو لیکن میں انہیں زندہ نہیں رہنے دوں گا۔ میں انہیں اسی طرح قتل کروں گا جس طرح صلیبیوں نے ہمارے قیدی قتل کیے تھے''۔

حسام الدین کے سپاہی تین راستوں سے میدان میں داخل ہوئے۔ انہوں نے جلتی ہوئی مشعلوں سے اپنی مشعلیں جلائیں۔ جو صلیبی جاگ رہے تھے، انہوں نے نشے کی حالت میں گالیاں دیں۔ وہ لڑنے کی حالت میں نہیں تھے۔ حملہ آور سپاہیوں نے انہیں زندہ پکڑنے کے بجائے تلواروں سے ختم کردیا، جو سوئے ہوئے تھے وہ شوروغل سے جاگ اٹھے۔ بیشتر اس کے کہ وہ سمجھ پاتے کہ یہ کیا ہورہا ہے، وہ برچھیوں کی انیوں پر دھر لیے گئے۔ انہیں ہتھیار اٹھانے کی مہلت نہ ملی۔ غار نما کمروں میں سے چند ایک برچھیاں اور تلواریں لے کر نکلے لیکن کچھ مارے گئے، باقی ہتھیار پھینک کر الگ کھڑے ہوگئے۔ ان کا نائٹ اس حالت میں مدہوش پڑا تھا کہ اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہ تھا۔ وہ گالیاں بکنے لگا۔ مسلمان سپاہیوں کو وہ اپنے سپاہی سمجھ رہا تھا۔ اس کے کمرے سے تین مسلمان لڑکیاں برآمد ہوئیں۔

دوسرے کمروں سے بھی چند ایک لڑکیاں نکلیں۔ یہ سب مسلمان تھیں۔ ان کی حالت بہت بری تھی۔ وہ مسلمان سپاہیوں کو شاید ڈاکوئوں کا کوئی دوسرا گروہ سمجھ رہی تھیں، اسی لیے وہ دہشت سے دبکی ہوئی تھیں۔ جب انہیں پتا چلا کہ یہ مسلمان سپاہی ہیں تو لڑکیاں پاگلوں کی سی حرکتیں کرنے لگی۔ وہ روتی تھیں اور کبھی صلیبیوں کو دانت پیس پیس کر گالیاں دیتیں اور کبھی مسلمان سپاہیوں کو کوسنے لگتیں۔ انہوں نے انہیں بے خیرت اور بزدل کہا ور ان میں سے بعض بار بار کہتی تھیں… ''اگر تم مسلمان ہو تو ان کافروں کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ کیا ہم تمہاری بہنیں اور بیٹیاں نہیں؟ کیا ہماری عصمتیں تمہاری بیٹیوں کی عصمتوں جیسی نہیں؟''

اس وقت حسام الدین اور بری دستے کا کمانڈر کمروں کی تلاشی لے رہے تھے۔ باہر اب کوئی لڑائی نہیں ہورہی تھی۔ صلیبیوں کو ایک جگہ بٹھا دیا۔ ان کے گرد مسلح سپاہی کھڑے تھے، جن میں بہت سے سپاہیوں نے کمانوں میں تیر ڈال رکھے تھے۔

٭ ٭ ٭

صبح جب صلیبیوں کا نشہ اترا تو وہ سمندر کے کنارے بیٹھے تھے۔ لڑکیوں کو حسام الدین نے اپنے بحری جہاز میں رکھا۔ قیدیوں کی تعداد کم وبیش پانچ سو تھی۔ باقی مارے گئے تھے۔ انہوں نے ٹیلوں کے اندر جو سامان اور رقم جمع کررکھی تھی، وہ قیدیوں سے اٹھوا کر ساحل پر لائی گئی۔ ان قیدیوں کے کمانڈر سے جو معلومات حاصل ہوئیں، ان سے یہ انکشاف ہوا کہ یہ ایک مشہور صلیبی بادشاہ رینالڈڈی شائتون کی فوج کا دستہ تھا۔ مسلمان قافلوں کو لوٹنے کے لیے اتنی نفری کا ایک دستہ یہاں موجود رہتا تھا۔ کچھ عرصے بعد دوسرا دستہ بھیج دیا جاتا تھا۔ سامان جو لوٹا جاتا، اس میں سے کچھ حصہ سپاہیوں کو ملتا اور باقی سب اپنے بادشاہ کو بھیج دیا جاتا تھا۔ اونٹ اور گھوڑے بھی سرکاری ملکیت میں چلے جاتے تھے۔

لڑکیوں کے متعلق یہ احکام تھے کہ کمسن بچیاں جو غیرمعمولی طور پر خوبصورت ہوتی تھیں، وہ صلیبیوں کے ہیڈکوارٹروں میں بھیج دی جاتی تھیں جہاں انہیں ٹریننگ دے کر جوانی کی عمر میں جاسوسی اور تخریب کاری کے لیے مسلمانوں کے علاقوں میں بھیجا جاتا تھا۔ جوان لڑکیوں میں کوئی بہت ہی خوبصورت ہو تو اسے بھی ہیڈکوارٹروں کے حوالے کردیا جاتا تھا۔ باقی لڑکیوں کو یہ صلیبی سپاہی اور کمانڈر اپنے پاس رکھ لیتے تھے۔

''اس قافلے کے ساتھ بھی بچیاں ہوں گی''… حسام الدین نے پوچھا۔

''بارہ چودہ تھیں''… صلیبی کمانڈر نے بتایا… ''صرف ایک بھیجی گئی ہے''۔

''اور باقی؟''

''قتل ہوچکی ہیں''۔

''اور قافلے کے جن آدمیوں کو ساتھ لائے تھے؟''

''انہیں سامان اٹھانے کے لیے لائے تھے، پھر انہیں قتل کردیا تھا''۔

اس نے جوان لڑکیوں کے متعلق بتایا کہ ان میں ایک رقاصہ تھی۔ بہت خوبصورت تھی۔ اس کا جسم، حسن اور اس کا رقص ہماری اس ضرورت کے مطابق تھا جس کے لیے ہم لڑکیاں حاصل کرتے ہیں۔ اس رقاصہ کو اسی شام بھیج دیا گیا تھا۔ فوراً بھیجنے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ ایسی قیمتی اور دلکش لڑکی کو سپاہیوں میں رکھنا خطرناک ہوتا ہے۔ کوئی بھی سپاہی اسے آزادی کا جھانسہ دے کر بھگا لے جاسکتا ہے۔

''انہوں نے اس قافلے کو قتل کیا ہے جو حج کو جارہا تھا''… حسام الدین نے کمانڈر سے کہا… ''قافلہ حجاز تک : نہ پہنچ سکا۔ ان بدنصیبوں کے بجائے میں ان کے قاتلوں کو حجاز بھیجوں گا اور وہاں انہیں قتل کرائوں گا''۔

حسام الدین تمام قیدیوں کو اس جگہ لے گیا جہاں انہوں نے انہوں نے قافلے کو لوٹا اور قتل عام کیا تھا، وہاں لومڑیوں، بھیڑیوں اور گیڈروں کی کھائی ہوئی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ حسام الدین نے قیدیوں سے قبریں کھدوائیں۔ اس نے سب کی نماز جنازہ پڑھائی اور سب کو دفن کردیا۔ اس نے قاہرہ سے حکم لیے بغیر ان تمام قیدیوں کو ایک ہی بحری جہاز میں ٹھونسا اور جدہ کی طرف لے گیا، وہاں انہیں اتارا اور اس پیغام کے ساتھ حجاز روانہ کردیا کہ انہیں منیٰ کے میدان میں قتل کردیا جائے۔ پیغام میں اس نے تفصیل سے لکھا کہ ان کا جرم کیا ہے۔

یورپی مؤرخوں نے صلیبی سپاہیوں اور ان کے کمانڈر کے قتل کو بہت اچھالا اور غلط رنگ میں پیش کیا ہے۔ انہیں انہوں نے جنگی قیدی کہا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کون سی جنگ کے جنگی قیدی تھے۔ وہ کسی قلعے میں نہیں تھے۔ مسلمان مؤرخوں نے اصل واقعہ لکھا ہے۔ ان کی تحریروں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ امیر البحر حسام الدین لولو کا قافلہ تھا جس سے سلطان صلاح الدین ایوبی بالکل بے خبر تھا۔

٭ ٭ ٭

اس صلیبی ڈاکو دستے کے کمانڈر نے جس رقاصہ کے متعلق بتایا تھا کہ اسے اسی شام یہاں سے بھیج دیا گیا تھا۔ وہ رعدی تھی۔ اس کے کہنے کے مطابق اسے اتنی جلدی اس لیے بھیج دیا گیا تھا کہ گھوڑے کے نیچے آکر اس کی حالت اچھی نہیں تھی۔ کمانڈر نے اس ڈر سے اسے بھیج دیا کہاس پر یہ الزام عائد نہ ہوسکے کہ اس رقاصہ کو اس کے تشدد نے اس حالت تک پہنچایا ہے۔ یہ کمانڈر جس وقت حسام الدین کو اپنا بیان دے رہا تھا، اس وقت رقاصہ رعدی چار صلیبی سپاہیوں کے ساتھ وہاں سے بہت دور پہنچ چکی تھی۔ وہ گھوڑے پر سوار تھی۔ اس کی حالت بہت بہتر ہوگئی تھی۔ راستے میں اس نے سپاہیوں سے کئی بار کہا تھا کہ وہ اسے قاہرہ لے چلیں جہاں وہ انہیں بے شمار رقم دے گی مگر سپاہی نہ مانے۔ آخر ایک سپاہی نے اسے کہا… ''تم دیکھ رہی ہو کہ ہم تمہیں شہزادیوں کی طرح ساتھ لے جارہے ہیں، تم اتنی زیاہ خوبصورت ہو اور تمہارے جسم میں ایسا جادو ہے کہ جسے اشارہ کرو، وہ تمہارے قدموں میں جان دے دے گا لیکن ہم تمہارے جسم سے چار قدم دور رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ تم ہمارے پاس امانت ہو اور یہ امانت ہمارے بادشاہ کی ہے جو صلیب کا بادشاہ ہے۔ اگر تمہارا کہا مان لیں یا تمہیں اپنی ملکیت سمجھ لیں تو ہمیں نہ بادشاہ بخشے گا، نہ صلیب''۔

''ہماری منزل کہا ہے؟''… رعدی نے پوچھا۔

''بہت دور''… اسے جواب ملا… ''سفر کٹھن ہے اور لمبا بھی۔ ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اس علاقے میں سے بھی گزرنا پڑے گا جو مسلمانوں کے قبضے میں ہے''۔

رعدی کو یہ چار صلیبی واقعی شہزادیوں کی طرح لے جارہے تھے۔ ''تم کسی بڑے حاکم کی بیٹی معلوم ہوتی ہو یا کسی دولت مند تاجر کی بیٹی۔ تم اپنے خاندان کے ساتھ حج کو جارہی تھی؟''… ایک صلیبی نے پوچھا۔

''تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ میں رقاصہ ہوں؟''… رعدی نے جواب دیا… ''میرا کوئی باپ نہیں، کوئی بھائی نہیں، میری ماں اسمٰعیلیہ میں مشہور رقاصہ اور مغنیہ ہے۔ مجھے بالکل علم نہیں کہ میں اس کے کس چاہنے والی کی بیٹی ہوں۔ ماں نے بچپن میں ہی مجھے رقص کی تربیت دینی شروع کردی تھی، مجھے رقص اور گانا اچھا لگتا تھا۔ میں سولہ سترہ سال کی ہوئی تو ماں نے مجھے ایک بہت امیر آدمی کے گھر بھیجا۔ وہ بوڑھا آدمی تھا، شراب پئے ہوئے تھا، بوڑھے نے مجھے کہا کہ وہ میری محبت میں دیوانہ ہوا جارہا ہے۔ مجھے اس بوڑھے سے نفرت ہوگئی، مجھے یہ احساس ہوا کہ میرا باپ نہیں ہے، اس بوڑھے کو دیکھ کر مجھے اپنے باپ کا خیال آگیا تھا۔ اس بوڑھے نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر ایسی ذلیل حرکتیں کیں کہ مجھے پتہ چل گیا کہ یہ میرا باپ نہیں، نہ اس کے دل میں میری محبت ہے، یہ میرا گاہک ہے''…

''میں وہاں سے اکیلی بھاگ گئی۔ ماں کو بتایا تو اس نے مجھے سمجھایا کہ یہ ہمارا پیشہ ہے، میں نہ مانی۔ ماں نے مجھے مارا پیٹا، میں نے کہا کہ میں ناچوں گی، گائوں گی لیکن کسی کے گھر نہیں جائوں گی۔ ماں نے میری شرط مان لی۔ جن کے پاس دولت تھی، وہ ہمارے گھر آنے لگے۔ میں چونکہ کسی کے گھر نہیں جاتی تھیں، اس لیے میری قیمت چڑھ گئی۔ تین سال گزر گئے اور اس دوران میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کوئی میرے حسن اور میرے رقص کے بجائے میرے ساتھ محبت کرے جس میں عیاشی اور بدمعاشی کا دخل نہ ہو۔ آخر ایک آدمی مجھے مل گیا۔ وہ دوبار میرے ہاں آیا تھا۔ وہ مجھے اچھا لگتا تھا۔ مجھ سے سات آٹھ سال بڑا تھا۔ میری اور اس کی ملاقاتیں بہر ہونے لگیں۔ میں بگھی میں سیر کے بہانے چلی جاتی اور وہ وہاں موجود ہوتا''

: ''وہ تو شہزادہ تھا، شراب پیتا تھا، میں نے ایک شام اسے کہا کہ شراب چھوڑ دو۔ اس نے قسم کھا کر کہا کہ وہ آئندہ شراب نہیں پئے گا۔ اس نے وعدہ پورا کر دکھایا۔ ایک روز اس نے مجھے کہا کہ ناچنا چھوڑ دو، میں نے قسم کھا کر کہا کہ میں اس پیشے پر لعنت بھیجوں گی لیکن جب تک اس گھر میں ہوں، یہ ممکن نہیں۔ اس نے کہا کہ میں عیاش باپ کا عیاش بیٹا ہوں، میرے باپ کے حرم میں تم سے چھوٹی عمر کی بھی لڑکیاں ہیں۔میں اس گھر میں رہ کر نیک نہیں بن سکتا۔ میں نے اسے کہا کہ میں ناچنے والی ماں کی ناچنے والی بیٹی ہوں۔ تمہیں اپنے باپ کی عیاشی خراب کررہی ہے اور مجھے اپنی ماں کا پیشہ خراب کررہا ہے۔ آئو کہیں دور چلے چلیں اور میاں بیوی کی طرح پاک زندگی بسر کریں۔ وہ مان گیا''…

''وہ مسلمان تھا، میرا کوئی مذہب نہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ میرا باپ مسلمان تھا، عیسائی یا یہودی تھا۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے مسلمان سمجھو اور بتائو کہ مذہب کیا ہے۔ مجھے محبت دو، مجھے پاک زندگی دو، اس نے بہت سوچا ور بولا کہ پاک ہونا ہے تو حجاز چلو۔ میں نے حجاز کی بہت باتیں سنی تھیں۔ مجھے ایسے گانے بہت پسند آتے تھے جن میں حجاز اور حجاز کے قافلوں کا ذکر ہوتا۔ میں ایک گانا اکیلے میں بھی گنگنایا کرتی تھی… ''چلے قافلے حجاز کے''… اس نے حجاز کا نام لے کر میری آرزو کو شعلہ بنا دیا۔ میں نے اسے کہا کہ میں تیار ہوں۔ ہمت کرو، میری آرزو پوری کردو۔ اس نے پوچھا۔ تم جانتی ہو کہ میں تمہیں حجاز کیوں لے جارہا ہوں؟ میں نے کہا کہ وہ بہت خوبصورت سرزمین ہے۔ اس نے کہا کہ صرف خوبصورت نہیں، وہ پاک سرزمین ہے، وہاں خانہ کعبہ ہے، وہاں آب زمزم ہے اور وہا ںجو جاتا ہے اس کی روح پاک ہوجاتی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہاں ہم حج کعبہ کریں گے اور پاک ہوکر شادی کریں گے پھر وہیں رہیں گے''…

''میں اس وقت کو بھول نہیں سکتی جب وہ میرے ساتھ یہ باتیں بچوں کی طرح کررہا تھا اور میں جیسے اس کی آنکھوں میں اتر کر اس کی روح میں سما گئی تھی۔ میری ذات فنا ہوگئی تھی، میرا وجود اس کے وجود میں تحلیل ہوگیا تھا اور میں نے اسے کہا تھا کہ کل چلنا ہے تو ابھی چلو۔ اس نے کہا کہ قافلے جاتے رہتے ہیں، میں معلوم کرلوں گا… پھر ایک شام اس نے کہا کہ آج رات یہیں آجانا۔ قافلہ روانہ ہوگیا ہے۔ ہم اس سے جاملیں گے۔ میں نے اسے کہا کہ میں گھر چلی گئی تو رات کو کوئی آنے نہیں دے گا۔ ابھی لے چلو۔ اس نے کہا آجائو۔ میں نے بگھی والے کو کچھ نہ بتایا۔ شام گہری ہوگئی تھی۔ چھپ کر اس کے ساتھ چلی گئی۔ اس نے مجھے ایک کھنڈر میں چھپا دیا اور چلا گیا۔ وہ کچھ دیر بعد دو گھوڑے لیکر آگیا۔ وہ گھوڑے پر سوار تھا، دوسرا گھوڑا خالی تھا۔ دونوں کے ساتھ پانی اور کھانے کا سامان بندھا تھا''…

''ہم اگلی شام قالے سے جاملے اور رات وہاں جاپہنچے جہاں تم نے میرے خواب میری محبت کے لہو میں غرق کر دئیے۔ وہ مارا گیا میں پکڑی گئی۔ حجاز کا قافلہ لوٹا گیا اور خانہ کعبہ سے دور ہی اللہ کے حضور چلا گیا… خدا نے میرے گناہ بخشے نہیں، میرے ماتھے کی قسمت میں کعبہ کا سجدہ نہیں لکھا تھا۔ میرا وجود ناپاک تھا جو اللہ کو پسند نہیں تھا کہ اس کے کعبے تک پہنچے''۔

''تم مذہب میں پناہ لینا چاہتی ہو تو ہمارے مذہب کو قریب سے دیکھنا''… ایک سپاہی نے کہا۔۔

''تم نے میرا ایک پاک تصور ریزہ ریزہ کردیا ہے''… رعدی نے کہا… ''کیا تمہارے مذہب نے یہ حکم دیا ہے جس کی تم نے تعمیل کی ہے؟ جو تصور لے کر نکلی تھی وہ ایسا بھیانک تو نہیں تھا؟''

''یہ ہمارا مذہب نہیں''… سپاہی نے کہا… ''یہ ان انسانوں کا حکم تھا جن کے ہم ملازم ہیں''۔

''تم سے تو میں اچھی ہوں جس کے قدموں میں شہزادے زروجواہرات کے ساتھ اپنا سر بھی رکھتے تھے''… رعدی نے کہا… ''مگر میں صحرائوں کی خاک چھاننے نکل آئی… حکم وہ مانو جو اپنی روح سے نکلے۔ میں اس کے مذہب کی مرید ہوں جس نے مجھے پاک محبت دی اور پاکیزہ تصور دیا۔ اس سے میں سمجھی کہ اس کا مذہب بھی پاک ہوگا۔ وہ مجھے میرے تصوروں کی سرزمین حجاز کی طرف لے جارہا تھا۔ تم مجھے کہاں لے جارہے ہو؟''

''ہم انسانوں کے حکم کے پابند ہیں''… سپاہی نے کہا۔

''میں خدا کے حکم کی پابند ہوں''… رعدی نے کہا۔

''خدا نے تمہیں دھتکار دیا ہے''… ایک اور سپاہی بولا… ''تم اس وقت ہماری پابند ہو۔ ہم جہاں تمہیں لے جارہے ہیں وہاں سوچنا کہ خدا کو راضی کس طرح کیا جائے۔ کوئی نیکی کرنا، شاید خدا تمہیں بخش دے''۔

: ''میں جانتی ہوں، تم مجھے کہاں لے جارہے ہو اور کیوں لے جارہے ہو''… رعدی نے کہا… ''میرا وجود سراپا گناہ ہوگیا اور میں کوئی نیکی نہیں کرسکوں گی''۔

''تم کوئی نیکی سوچ بھی نہیں سکتی''… ایک سپاہی نے کہا… ''تم گناہ کی پیداوار ہو۔ گناہوں میں تم نے پرورش پائی ہے۔ ایک گناہ گار کے ساتھ گھر سے بھاگ کر جارہی تھی… تم نیکی کیا کرو گی؟''

''ان بے گناہوں کے خون کا انتقام لوں گی جنہیں تم نے قتل کیا ہے''… رعدی نے دانت پیس کر کہا۔

چاروں سپاہیوں نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا اور ایک نے کہا… ''ہم پر تمہارا احترام فرض ہے۔ ہمیں حکم ہی ایسا ملا ہے، ورنہ تم ایسے الفاظ دوبارہ زبان سے نہ نکالتی''۔

رعدی انہیں دیکھتی رہی اور اس کے دل میں نفرت گہری ہوتی گئی۔


موصل میں ایک درویش کی شہرت آناً فاناً پھیل گئی۔ وہ ایک ضعیف العمر انسان تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ کسی خوش نصیب انسان کے ساتھ ہی بات کرتا ہے اور وہ جس کی بات کرتا ہے، اس کی ہر مراد پوری ہوجاتی ہے۔ کسی نے اسے شہر کی دیواروں کے باہر ایک جھونپڑہ دے دیا تھا۔ اس کی کرامات سارے شہر میں مشہور ہوگئیں۔ لوگ اس کے جھونپڑے کے گرد ہجوم کیے رکھتے۔ وہ ذرا سی دیر کے لیے باہر آتا، بازو اوپر کرکے لوگوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتا، ہجوم پر خاموشی طاری ہوجاتی۔ وہ اشاروں میں انہیں تسلی دیتا اور جھونپڑے میں چلا جاتا۔ اس کے ساتھ چار پانچ خوبرو آدمی تھے جن کے چہرے سفید اور گلابی تھے اور وہ سر سے پائوں تک سبز لبادوں میں ملبوس تھے۔

پھر یہ مشہور ہوگیا کہ درویش موصل والوں کے لیے خوشخبری لایا ہے۔ شہر میں اجنبی سے کچھ لوگ نظر آتے تھے، وہ لوگوں کو درویش کے متعلق کچھ ایسی باتیں سناتے تھے جو ہر کسی کے دل میں اتر جاتی تھیں۔ ہر کسی کو اپنی اپنی مراد پوری ہوتی نظر آتی تھی۔ چند دنوں میں یہ مشہور ہوگیا کہ درویش امام مہدی ہے۔ بعض اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہنے لگے، پھر ایک روز لوگوں نے دیکھا کہ درویش والئی موصل عزالدین کی بگھی پر محل کو جارہا تھا۔ عزالدین کے محافظوں نے اس کا استقبال کیا اور وہ محل میں چلا گیا۔ کئی گھنٹوں بعد وہاں سے نکلا اور شاہی بگھی پر چلا گیا۔ لوگ جب اس کے جھونپڑے کو گئے تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ درویش کو بگھی کہیں دور لے گئی تھی۔ شام کو بگھی واپس آئی۔ اس میں بگھی بان اور دو محافظ تھے، لوگوں نے بگھی روک لی اور محافظوں سے پوچھا کہ درویش کہاں چلا گیا ہے۔

''ہمیں کچھ علم نہیں، وہ کہاں ہے؟''… ایک محافظ نے لوگوں کو بتایا… ''اس نے پہاڑیوں کے قریب بگھی رکوالی اور ہمیں کہا کہ تم چلے جائو۔ ہم نے اس کے ساتھ ایک آدمی سے پوچھا کہ درویش کہاں جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ان پہاڑیوں میں سے کسی کی چوٹی پر بیٹھے گا۔ اسے افق سے ایک نشانی نظر آئے گی۔ درویش پہاڑی کی چوڑی سے اتر آئے گا اور والئی موصل کو بتائے گا کہ وہ کیا کرے، پھر موصل کی فوج جدھر جائے گی، ادھر پہاڑ اسے راستہ دے دیں گے۔ صحرا سرسبز ہوجائیں گے، دشمن کی فوجیں اندھی ہوجائیں گی اور والئی موصل جہاں تک پہنچ سکے گا وہاں تک اس کی حکمرانی ہوگی۔ صلاح الدین ایوبی عزالدین کے آگے ہتھیار ڈال دے گا۔ صلیبی اس کے غلام ہوجائیں گے اور موصل کے لوگ آدھی دنیا کے بادشاہ ہوں گے۔ سونے چاندی میں کھیلیں گے… ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہ کون سی پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھے گا''۔

موصل کے کچھ دور کوہستانی علاقہ تھا، وہاں کوئی آبادی نہیں تھی، جہاں کہیں پہاڑوں میں گھرا ہوا میدان تھا، وہاں دو چار جھونپڑے نظر آتے تھے۔ علاقہ ہرابھرا تھا، گڈریئے مویشی لے کر وہاں جاتے تھے۔ ایک روز گڈریوں کو ادھر جانے سے روک دیا گیا۔ لوگوں کو دور سے گزرنے کی اجازت تھی۔ موصل کی فوج کے سنتری گشت کررہے تھے۔ ان کے ساتھ باہر کے اجنبی لوگ بھی تھے۔ کوہستان کا ایک وسیع علاقہ تھا جس کے قریب جانے سے لوگوں کو منع کردیا گیا۔ ان پابندیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خطہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اس کے متعلق عجیب وغریب باتیں سننے میں آنے لگیں۔ یہ تو ایک دن میں ہر کسی کی زبان پر چڑھ گیا کہ درویش کو آسمان سے ایک نشانی نظر آئے گی پھر آدھی دنیا پر موصل والوں کی بادشاہی ہوگی۔

٭ ٭ ٭

: صرف ایک چار دیواری تھی جس کے اندر چار آدمی بیٹھے کچھ اور قسم کی باتیں کررہے تھے۔ ان میں ایک حسن الادریس بھی تھا۔ پچھلی قسط میں آپ تفصیل سے پڑھ چکے ہیں کہ حسن الادریس سلطان ایوبی کا جاسوس تھا جو بیروت سے نہایت قیمتی خبر لایا تھا اور اس خبر کے ساتھ والئی موصل عزالدین کے ایلچی احتشام الدین اور اس کی رقاصہ بیٹی سائرہ کو بھی سلطان ایوبی کے پاس لے آیا تھا۔ یہ ایک بے مثال کامیابی تھی۔ اسلام کی تاریخ پر اس جاسوس نے بہت بڑا احسان کیا تھا۔ احتشام الدین نے سلطان ایوبی کو بتایا تھا کہ صلیبی موصل کے قریب پہاڑیوں کی کھوہ میں اسلحہ اور آتش گیر سیال اور رسد کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کریں گے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس کوہستان کو اپنی فوج کا اڈہ بنائیں گے۔ موصل کو تو وہ اپنے چھاپہ ماروں کا اڈہ بنا رہے تھے۔ اس حقیقت کو سلطان ایوبی اور سالار سمجھ سکتے تھے کہ جس فوج کا اڈہ اور رسد قریب ہو، وہ آدھی جنگ جیت لیتی ہے۔ صلیبی فوج کو یہ تلخ تجربہ ہوچکا تھا کہ انہوں نے جب کبھی پیش قدمی کی یا حملہ کیا، سلطان ایوبی کے چھاپہ ماروں نے عقب میں جاکر ان کی رسد تباہ کردی یا رسد اور فوج کے درمیان حائل ہوکر رسد روک لی۔ آگے سلطان ایوبی نے یہ انتظام کررکھا ہوتا تھا کہ پانی جہاں کہیں ہوتا تھا، وہاں قبضہ کرلیتا تھا۔ جہاں کہیں گھاس اور چارہ ہوتا وہاں بھی وہ قبضہ کرلیتا یا گھاس وغیرہ کٹوا لیتا یا تباہ کردیتا تاکہ صلیبیوں کے گھوڑوں اور اونٹوں کو چارہ نہ مل سکے، اس کے علاوہ وہ بلندیوں پر اپنے تیر اندازوں کی ٹولیاں بٹھا دیتا تھا۔

آپ پڑھ چکے ہیں کہ سلطان ایوبی نے اپنی انٹیلی جنس کے سربراہ حسن بن عبداللہ سے کہا تھا کہ وہ معلوم کرے کہ صلیبی کس مقام پر ذخیرہ کررہے ہیں، اس نے چھاپہ مار دستوں کے سالار صارم مصری سے کہا تھا کہ جب ذخیرے کا مقام معلوم ہوجائے تو اسے تباہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ سلطان ایوبی کی دوربین نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ صلیبی اب مکمل تیاری کرکے کھلی جنگ لڑیں گے۔ اس سے پہلے وہ صلیبی علاقوں پر حملہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔

اسے جب احتشام الدین کی زبانی صلیبیوں کے عزائم کی اطلاع ملی تو اس نے یہ منصوبہ بنایا کہ صلیبیوں کو کہیں بھی قدم نہ جمانے دئیے جائیں۔ اس نے ایک حکم یہ دیا کہ معلوم کرو کہ صلیبی کوہستان میں کہاں ذخیرہ جمع کررہے ہیں اور دوسرا حکم یہ دیا کہ سنجار کی طرف پیش قدمی کرو اور قلعے کو محاصرے میں لے لو۔ سنجار موصل سے کچھ دور ایک اہم قلعہ اور جنگی اہمیت کا ایک قصبہ تھا۔ اس کا امیر شرف الدین بن قطب الدین تھا۔ سنجار کو اپنے قبضے میں لینے کا اقدام سلطان ایوبی کے اس منصوبے کی کڑی تھی جس کے متعلق اس نے کہا تھا کہ وہ اب کسی سے تعاون کی بھیک نہیں مانگے گا بلکہ تلوار کی نوک پر تعاون حاصل کرے گا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے مسلمان امراء خودمختار حکمران رہنا چاہتے ہیں، اس لیے صلیبیوں کے ساتھ درپردہ معاہدے کررہے ہیں۔ سنجار کے امیر شرف الدین کے متعلق سلطان ایوبی کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ والئی موصل عزالدین کا دوست ہے اور اس دوستی کی بنیاد یہی ہے کہ سلطان ایوبی کے خلاف محاذ مضبوط کیا جائے۔

حسن بن عبداللہ نے اپنے جاسوسوں کا جائزہ لیا۔ موصل میں اس کے جاسوس موجود تھے لیکن وہ محسوس کررہا تھا کہ کسی زیادہ ذہین اور جرأت مند جاسوس کو ان کے پاس بھیجا جائے کیونکہ اسے خیال تھا کہ صلیبیوں کا ذخیرہ معلوم کرنا مشکل کام ہوسکتا ہے۔ حسن الادریس نے اپنی خدمات پیش کیں۔ حسن بن عبداللہ اسے نہیں بھیجنا چاہتا تھا کیونکہ وہ لمبے عرصے تک بیروت رہا تھا، اس لیے اسے پہچانا جاسکتا تھا۔ حسن الادریس بھیس اور اپنا لب ولہجہ بدلنے کا ماہر تھا۔ اس نے حسن بن عبداللہ سے کہا کہ وہ اگر بیروت چلا جائے تو ایسا بہروپ دھارے گا کہ جو اسے پہچانتے ہیں، وہ بھی نہیں پہچان سکیں گے۔ موصل میں تو اسے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ آخر اسی کو روانہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ور سلطان ایوبی نے خود اسے کچھ ہدایات دیں۔

''میرے عزیز دوست!''… سلطان ایوبی نے اپنے ہاتھ سینے پر رکھ کر حسن الادریس سے کہا۔ ''تاریخ میں نام سلطان ایوبی کاآئے گا۔ شکست کھائوں گا تو تاریخ مجھے شرمسار کرے گی اور فتح حاصل کرکے مروں گا لوگ میری قبر پر پھول چڑھائیں گے اور آنے والی نسلیں مجھے خراج تحسین پیش کریں گی۔ یہ بہت بڑی بے انصافی ہوگی۔ فتح کا سہرا تمہارے سر ہوگا، تمہارے ان ساتھیوں کے سر ہوگا جو دشمن کے اندر جاکر خبر لاتے اور میری فتح کا باعث بنتے ہیں۔ خدا اس حقیقت کو دیکھ رہا ہے، تمہارے سر پر سہرا خدا اپنے ہاتھوں باندھے گا۔ میں شکست کھائوں گا تو یہ میری اپنی غلطی ہوگی کہ میں نے تمہاری اطلاع کے مطابق عمل نہ کیا اور میں فتح حاصل کروں گا تو یہ تمہاری فتح ہوگی کیونکہ میری آنکھیں اور میرے کان تم ہو۔ میری روح تمہاری قبر پر پھول چڑھاتی رہے گی۔ عظیم تم ہو : اور تمہارے جاسوس ساتھی۔ میری کوئی عظمت نہیں، میں پوری فوج لے کر سنجار جارہا ہوں۔ تم اکیلے جارہے ہو۔ میں جو فتح پوری فوج کے ساتھ حاصل کروں گا، وہ تم اکیلے کرلو گے۔ جائو میرے دوست! خدا حافظ''۔

جب حسن الادریس ایک غریب مسافر کے بھیس میں ایک اونٹ پر سوار ہوکر نصیبہ کی خیمہ گاہ سے نکلا، اس وقت سورج غروب ہوچکا تھا۔ وہ دور نکل گیا تو اسے بے شمار گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دینے لگے۔ وہ رک گیا۔ اسے معلوم تھا یہ گھوڑے کس کے ہیں، یہ صلاح الدین ایوبی سنجار کو محاصرے میں لینے جارہا تھا۔ اس نے نصیبہ سے اپنا کیمپ اکھاڑ انہیں تھا۔ اپنا ہیڈکوارٹر اور کچھ عملہ وہیں رہنے دیا ور اپنے محفوظہ (ریزروٹروپس) کو بھی تیاری کی حالت میں نصیبہ چھوڑ گیا تھا۔

٭ ٭ ٭

''تم یہاں یہ معلوم کرنے آئے ہو کہ صلیبی پہاڑوں میں اپنا ذخیرہ کہاں رکھیں گے''… موصل کے جاسوسوں کے کمانڈر نے کہا… ''اور ہم یہاں یہ معلوم کرنے کی سوچ رہے ہیں کہ یہ درویش کون ہے جو انہی پہاڑوں میں کہیں جا بیٹھا ہے۔ کوئی اسے امام مہدی کہتا ہے اور کوئی عیسیٰ''… اس نے حسن الادریس کو پوری تفصیل سے بتایا کہ اس درویش کو شہر میں اور اردگرد کے علاقے میں کیسی شہرت حاصل ہوئی ہے… ''ان پہاڑیوں کے قریب سے گزرنے کی بھی اجازت نہیں۔ کچھ تو اپنی فوج کے سنتری ہیں اور کچھ اجنبی سے آدمی ہیں جو کسی کو آگے نہیں جانے دیتے۔ درویش کسی پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھا ہے۔ اسے خدا آسمان سے کوئی اشارہ دے گا، رات کو لوگ اپنی چھتوں پر کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ستارہ ٹوٹتا ہے تو وہ چلا اٹھتے ہیں، وہ رہا اشارہ۔ لوگ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھولتے جارہے ہیں''۔

یہ چاروں جاسوس تھے۔ انہیں خصوصی ٹریننگ دی گئی تھی جس میں یہ تعلیم بھی شامل تھی کہ توہم پرستی حرام ہے اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو کچھ ہے وہ انسان خود ہے۔ جہاں موصل کے ہر باشندے کے دماغ پر یہ درویش غالب آگیا تھا، وہاں یہ چار جاسوس درویش کی حقیقت معلوم کرنے کی فکر میں تھے۔

''میرے دوستو! میری بات ہنسی میں نہ ٹال دو تو کہوں''۔ حسن الادریس نے کہا۔ ''جہاں درویش ہے وہاں صلیبیوں کا ذخیرہ ہے اور یہ کوئی معمولی ذخیرہ ہوتا تو اس علاقے کے لوگوں کے لیے ممنوع قرار دے کر درویش کا ڈھونگ نہ رچایا جاتا۔ تم جانتے ہو کہ اتنے وسیع علاقے کے اردگرد پوری فوج کا پہرہ کھڑا کردو تو بھی کوئی نہ کوئی اندر چلا ہی جاتا ہے لیکن صرف یہ کہہ دینا کہ یہاں خدا کا بھیجا ہوا ایک درویش بیٹھا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اس علاقے میں کوئی آئے تو کوئی ادھر دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کرتا''۔

''یہ اعلان میں کہا گیا ہے کہ جس نے اس علاقے میں جانے کی اور درویش کو دیکھنے کی کوشش کی تو وہ کوڑھی ہوجائے گا اور اس کے بچے اندھے ہوجائیں گے''… حسن الادریس کے ایک اور ساتھی نے کہا… ''تم نے یہ بتا کر کہ صلیبی وہاں کچھ رکھیں گے، ہمارا آدھا مسئلہ حل کردیا ہے۔ اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ درویش صلیبیوں کا کوئی ڈھونگ ہے یا یہ معلوم کرنا ہے کہ انہوں نے وہاں ذخیرہ کیا ہے؟''

''درویش کو ذخیرہ کے ساتھ تباہ کرنا ہے''۔ حسن الادریس نے کہا۔

''اور لوگوں کو اس وہم سے بچانا ہے جو ان پر طاری کردیا گیا ہے''۔ جاسوسوں کے کمانڈر نے کہا… ''صلیبیوں کی عقل کی تعریف کرو۔ وہ اس جگہ ایک درویش کو بٹھا کر اپنے ذخیرے کو لوگوں کی نظروں سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ موصل کی فوج اور لوگوں کو اور والئی موصل کو بھی خدا کے اشارے کا جھانسہ دے کر جنگی تیاریوں سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ فوج بھی اور لوگ بھی خدا کے اس اشارے کے انتظار میں بیٹھ گئے ہیں جو درویش کو ملے گا''۔

''والئی موصل کا درویش کے متعلق کیا رویہ ہے؟'' حسن الادریس نے پوچھا۔

''درویش اس کے محل میں اس کی چھ گھوڑوں کی بگھی پر گیا تھا''… کمانڈر نے جواب دیا… ''اور درویش اسی بگھی میں پہاڑیوں میں گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عزالدین بھی اس سازش میں شامل ہے یا وہ اس سازش کا شکار ہے جو کچھ بھی ہے، ہمیں معلوم ہوجائے گا۔ رضیع خاتون محل میں موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوجائے گا کہ محل میں درویش کی حیثیت کیا ہے''۔

انہوں نے اس علاقے اور درویش کی حیثیت معلوم کرنے پر غور کرنا شروع کردیا۔

جاری ھے 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں