داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 88 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 88


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔88طور کا جلوہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
''اونہہ!'' آشی نے کہا …… '' اکیلے کیا خاک مزہ آئے گا ؟ آپ بھی چلیے ۔ یہاں کوئی خطرہ نہیں ۔ دونوں طرف سنتری کھڑے ہیں ۔ کچھ دیر بعد یہیں آجانا''۔آشی اس فن کی استاد تھی ۔ بچپن سے اب تک اسے مردوں کو اپنے جان میں پھانسنے اور انگلیوں پر نچانے کی تربیت دی گئی تھی۔ اس نے یہی فن اپنے آقائوں اور استادوں کے خلاف آزمانا شروع کر دیا۔ سوڈانی سالار اس کی مسکراہٹ کے فریب میں آگیا اور اس کے ساتھ چل پڑا۔ باہر جا کر اس نے ایک ملازم کو شراب لانے کو کہا اور آشی کے ساتھ کمرے میں چلاگیا۔ آشی نے اسے اپنے بازوئوں کے گھیرے میں لے لیا اور ذرا سی دیر میں بوڑھے سالار پر جوان لڑکی کا طلسم طاری ہوگیا۔ اتنے میں شراب آگئی۔ آشی نے سالار کو جام پہ جام پلانے شروع کردئیے۔
٭ ٭ ٭
'' نیت صاف ہو تو خدابھی مدد کرتاہے''۔ عمردرویش نے اسحاق سے کہا …… '' میں نے جو سوچا تھا وہ ہر لحاظ سے اور ہرپہلو سے عملی شکل میں آگیاہے۔ ساری بات شہر سے نکل کر سنائو ں گا ۔ دو چھاپہ مار ساتھ لایا ہوں۔ دو سنتری ادھر کھڑے ہیں دو ادھر۔ ہمیں صرف اس طرف کے سنتریوں کو ختم کرنا ہے جس طرف سے نکلناہے ۔ چار گھوڑے تیار کھڑے ہیں ۔ چھار گھوڑے سنتریوں کے تیار کھڑے ہیں تا کہ فرار کی صورت میں وہ ہمارا تعاقب کر سکیں۔ اپنے ہاں مصر کے کچھ لوگ آئے ہیں ۔ ایک آدمی بہت دانشمند معلوم ہوتاہے۔ اس نے اپنا نام نہیں بتایا ۔ قاہرہ میں اطلاع پہنچ گئی ہے کہ یہاں کیاہوا ہے۔ سالار کو لڑکی لے گئی ہے۔ میں ذرا باہر جائزہ لے لوں۔ لڑکی کو بھی ساتھ لے کر جانا ہے ''۔
'' کیوں ؟'' …… اسحاق نے پوچھا …… ''اس بدکار کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے''۔
''باہرچل کر بتائوں گا''۔ عمر درویش نے کہا …… ''یہ کوئی ایسا ویسا تعلق نہیں ۔لڑکی مسلمان ہے''۔
عمردرویش باہر نکلا۔ سنتریوں نے اسے سوڈانی سالار کے ساتھ اس کمرے میں آتے دیکھا تھا ، اس لیے انہوں نے اسے احترام کی نظروں سے دیکھا۔ وہ اپنے چھاپہ ماروں کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ سنتریوں کو سنبھالنے کا وقت آگیا ہے۔ پھر اس نے اس کمرے کادروازہ آہستہ سے ذرا کھولا۔ سالار کے ہوش شراب میں ڈوب چکے تھے۔ اس نے جھوم کر پوچھا۔ ''کون ہے؟'' 
''میں دیکھتی ہوں''۔ آشی نے کہا …… ''ہوا سے دروازہ کھل گیا ہے'' ۔ اس نے سالار کو سہارا دے کر پلنگ پر لٹا دیا ۔ سالار نے بازو پھیلا کر لڑکھڑاتی آواز میں کہا …… ''تم بھی آئو ۔ نشے کو دوگنا کردو''۔
آشی باہر نکل آئی اور آواز پیدا کیے بغیر دروازہ باہر سے بند کر دیا۔ عمردرویش اور آشی نے دونوں چھاپہ ماروں کو ساتھ لیااور اسحاق والے کمرے کی طرف چلے گئے۔ سوڈانی جاسوس شہر میں داخل ہو چکا تھا اور وہ جاسوسی کے مرکز کی طرف جارہا تھا ۔ عمردرویش نے دونوں سنتریوں سیکہا …… ''دونوں اندر چلیں اور قیدی کو قید خانے میں لے جائو۔ سالار نے حکم دیا ہے کہ ہاتھ باندھ کر لے جانا''۔
دونوں سنتری اکٹھے اندر گئے۔ ان کے پیچھے دروازہ بند ہوگیا ۔ دونوں چھاپہ مار بیک وقت ان پر جھپٹے۔ دونوں کی گردنیں ایک ایک چھاپہ مار کے بازو کے شکنجے میں آگئیں۔ چھاپہ ماروں نے خنجر پہلے ہی نکال لیے تھے۔ انہوں نے سنتریوں کے دلوں پر وار کیے اور انہیں ختم کر دیا۔ سوڈانی جاسوس اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیااور نائب سالار کو صحیح رپورٹ دے رہا تھا ۔ عمردرویش نے اسحاق سے کہا …… ''فوراً نکلو '' …… باہر چار گھوڑے عمردرویش کے کھڑے تھے اور چار سنتریوںکے۔ دوسری طرف کے سنتریوں کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ اندر کیا ہورہاہے۔
یہ سب گھوڑوں پر بیٹھے ۔ رات نے فرار پر پرداہ ڈالے رکھا۔ شہر گہری نیند سویا ہوا تھا۔ فرار ہونے والوں نے گھوڑوں کو فوراً ایڑ نہ لگائی ۔ آشی بھی ان کے ساتھ تھی ۔ سوڈانی جاسوس نے اپنی رپورٹ دی تو نائب سالار اسے سوڈانی سالار کے پال لے گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ کہا ں ہے۔ دونوں ادھر آئے تو راستے میں انہوں نے پانچ گھوڑ سوار جاتے دیکھے۔ وہ ایک دوسرے کے قریب سے گزر گئے۔ اندھیرے کی وجہ سے کوئی کسی کو نہ پہچان سکا۔
نائب سالار نے اس برآمدے میںجا کر ادھر ادھر دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے دو سنتری کھڑے تھے۔ اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو اسے دونوںسنتریوں کی لاشیں پڑی نظر آئیں۔ خون بہہ بہہ کر ہر طرف پھیل گیا
) نائب سالار نے اندر جا کر دوسرا دروازہ کھولا۔ ادھر دو سنتری آرام سے کھڑے تھے۔ بھاگ دوڑ شروع ہوگئی۔ ایک کمرے میں سالار پلنگ پر پڑا نشے میں بدمست آشی کو پکار رہا تھا۔ نائب سالار نے اسے بلایا اور اُٹھایا۔ آشی نے اسے بہت ہی زیادہ پلادی تھی ۔ اسے جب بتایا گیا کہ دو سنتری کمرے میں مرے پڑے ہیں تو ذرا ہوش میں آیا۔ جب وہ بات سننے اور سمجھنے کی حالت میں آیا اس وقت عمردرویش ، اسحاق ، دو چھاپہ مار اور آشی شہر سے بہت دور نکل گئے تھے ۔ تعاقب بیکار تھا ۔ صبح کے وقت اسے صحیح صورت حال کا علم ہوا۔
٭ ٭ ٭
اگلی رات آدمی گزر گئی تھی جب عمردرویش اپنے قافلے کے ساتھ اپنے پہاڑی علاقے میں داخل ہوا۔ علی بن سفیان ان کے انتظار میں بے تاب ہورہا تھا۔ ضروری یہ تھا کہ اسحاق اور عمردرویش کو فوراً مصر بھیج دیا جائے لیکن ایک ضرورت یہ بھی تھی کہ انہیں اس علاقے میں گھمایا جائے تا کہ جن لوگوں نے سوڈانیوں کی شعبدہ بازیاں دیکھی ہیں انہیں اصل حقیقت معلوم ہوجائے۔ البتہ فوری طور پہ یہ انتظام کر دیا گیا کہ کچھ آدمیوں کو دیکھ بھال کے لیے مقرر کر دیا گیا تا کہ سوڈانی فوج حملہ کرے تو قبل از وقت اطلاع مل جائے۔ دوسری ضرورت یہ تھی کہ مصری فوج کے کچھ اور چھاپہ مار اس علاقے میں بلا لیے جائیں جو سوڈانی فوج کے حملے کی صورت میں عقب سے شبخون ماریں اور فوج کو اس علاقے سے دوررکھیں۔
اس طرح عمردرویش، علی بن سفیان اور اس کے چھاپہ ماروں نے وہ معرکہ جیت لیا کو کمانڈروں ، بادشاہوں اور قوم کی نظروں سے اوجھل رہ کر لڑا گیا تھا ۔ یہ ایک انفرادی جنگ تھی جو ایمان اور قومی جذبے کی قوت سے لڑی گئی تھی ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس درپردہ جنگ پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھی تھی ۔ اس کا انٹیلی جنس کا نظام بہت ہوشیار تھا۔
٭ ٭ ٭ 
اس وقت جب سوڈانی مسلمانوں نے یہ معرکہ جیت لیا تھا ، سلطان ایوبی مسلمان امراء …… گمشتگین ، سیف الدین اور الملک الصالح …… کی متحدہ افواج کو شکست فاش دے کر ان کے تعاقب میں جارہا تھا۔ اس نے چند ایک اہم مقامات اور چھوٹے چھوٹے قلعوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ وہ حلب کی طرف بڑھ رہا تھا جو ایک اہم شہر اور الملک الصالح کی فوج کا مرکز تھا۔ سلطان ایوبی اس شہر کو محاصرے میں لے کر محاصرہ اُٹھا چکا تھا ۔ وہاں کے مسلمانوں نے اس کا مقابلہ ایسی بے جگری سے کیا تھا کہ سلطان ایوبی عش عش کر اُٹھا تھا۔ محاصرہ اُٹھانے وجہ اس سے پہلے سنائی جا چکی ہے۔
اس کے بعد مسلمان افواج کی آپس جو جنگ ہوئی اس کی تفصیلات بھی سنائی جا چکی ہیں۔ سلطان ایوبی نے تینوں مسلمان فوجوں کو بے تحاشہ نقصان پہنچا کر اس طرح پسپا کیا کہ فوجیں بکھر گئیں۔ سلطان ایوبی نے تعاقب جاری رکھا۔ اس کی زیادہ تر توجہ حلب کی فوج پر تھی کیونکہ یہ بہادری سے لڑنے والی فوج تھی۔ یہ حلب کی سمت پسپا ہو رہی تھی ۔ سلطان ایوبی اسے راستے میں ہی تباہ کردینا چاہتا تھا ۔ کیونکہ وہ حلب پر قبضہ کرنے کو پیش قدمی کر رہا تھا ۔ اس نے تعاقب کا انداز یہ نہ رکھا کہ اپنی فوج کو اس کے پیچھے ڈال دیا بلکہ اس نے اپنے برق رفتار دستے کسی دوسرے راستے سے آگے بھیج دئیے اور کچھ چھاپہ مار دونوں پہلوئوں پر بھیج دئیے ۔
حلب کی فوج افراتفری کے عالم میں حلب کو جارہی تھی ۔ آگے جا کر اس کے کمانڈروں نے دیکھا کہ سلطان ایوبی کی فوج نے راستہ روک رکھا ہے۔ حلب کی فوج رُک گئی۔ اس کے سپاہیوں میں لڑنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔ ان کا سازوسامان بھی کم رہ گیا تھا۔ رسد اورخوراک بھی کم تھی ۔ یہ فوج رُکی تو پہلوئوں پر سلطان ایوبی کے چھاپہ ماروں نے شب خون اور چھاپے مارنے شروع کردئیے۔ سلطان ایوبی کے کمانڈروں نے اعلان کرنے شروع کردئیے …… ''حلب والو! ہتھیار ڈال دو''۔
 سلطان ایوبی محاذ سے پیچھے تھا۔ اسے اطلاعیں مل رہی تھیں کہ حلب کی فوج ہتھیار ڈالنے کی حالت میں آرہی ہے ۔ اس نے کہا …… ''اگر یہ فوج صلیبیوں کی ہوتی تو میں اس کے ایک بھی سپاہی کو زندہ نہ چھوڑتا مگر یہ میرے اپنے بھائیوں کی فوج ہے۔ یہ لوگ ہتھیار ڈال دیں گے تو میں انہیں بخشش دوں گا۔ مجھے خوشی پھر بھی نہیں ہوگی۔ مرنے کے بعد میری روح بھی بے چین رہے گی کہ میرے دور میں مسلمانوں کی تلواریں آپس میں ٹکرائی تھیں۔ اگر ہمارے یہ بھائی اب بھی دوست اور دشمن کی پہچان کر لیں تو اس شرم ناک غلطی کا ازالہ ہو سکتا ہے''۔
دوسرے ہی دن خدا نے سلطان ایوبی کی دعا سن لی۔ اس نے دو گھوڑ سوار اپنی طرف آتے دیکھے۔ ان میں سے ایک نے سفید جھنڈا اُٹھا رکھا تھا۔ ان کے دائیں بائیں سلطان ایوبی کی اپنی فوج کے دو کماندار تھے۔ قریب آکر گھوڑے رُک گئے۔ ایک کماندار نے گھوڑے سے اتر کر سلام کیا اور کہا …… ''حلب کے حاکم الملک الصالح نے صلح کا پیغام بھیجا ہے۔ یہ دو ایلچی جنگ بندی اور صلح کا پیغام لائے ہیں''۔
ایک ایلچی نے پیغام سلطان ایوبی کے ہاتھ میں دیا۔ سلطان ایوبی نے پیغام پڑھ کر کہا …… '' الملک الصالح سے کہنا صلاح الدین ایوبی نے جنگ سے پہلے صلح کا پیغام بھیجا تھا تو تم نے فرعونوں کی طرح میرے ایلچی کی بے عزتی کرکے میرا پیغام ٹھکرادیا تھا۔ آج خدائے عزوجل نے مجھے یہ طاقت بخشی اور تجھے یہ ذلت دی کہ میں تمہاری فوج کو اس طرح پیس سکتا ہوں جس طرح دوپتھروں کے درمیان والے پیسے جاتے ہیں لیکن میرے دشمن تم نہیں ہو۔ تم اس باپ کے بیٹے ہو جس نے صلیبیوں کو گھٹنوں بٹھا رکھا تھا اور تم صلیبیوں سے دوستی گانٹھ کر اپنے باپ کی فوج کے خلاف لڑنے آئے تھے …… اسے کہنا کہ میں نے تمہیں معاف کیا۔ دعا ہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف کردے ''۔
سلطان ایوبی نے اپنی شرائط پر صلح کی پیش کش منظور کرلی۔ الملک الصالح کو اس شرط پر اپنی فوج حلب کو لے جانے کی اجازت دے دی کہ جب اس کی فوج حلب آئے تو حلب کی فوج کوئی مزاحمت نہ کرے ۔
ایک اور دلچسپ واقعہ ہوا۔ الملک الصالح اپنی فوج نکال کر لے گیا ۔ سیف الدین بھی پسپا ہوکرموصل چلا گیا تھا اور گمشتگین نے اپنے قلعے حرن میں جانے کی بجائے حلب کا رُخ کیا۔ سلطان ایوبی اپنی فوج کو اور آگے لے گیا اور ایک مقام ترکمان کو عارضی کیمپ بنالیا۔ ایک روز حلب کا ایک قاصد اس کے پاس آیا اور الملک الصالح کا ایک پیغام سلطان ایوبی کو دیا۔ سلطان ایوبی نے پیغام کھول کر پڑھا تو چونک اُٹھا لیکن یہ پیغام اس کے نام نہیں بلکہ سیف الدین کے نام تھا۔ الملک الصالح نے سیف الدین کو لکھا تھا :
''آپ کا خط مل گیا ہے جس میں آپ نے اس پر خفگی کا اظہار کیا ہے کہ میں نے صلاح الدین ایوبی کے آگے ہتھیار ڈال کر صلح کر لی ہے۔ بے شک میں نے ایسا ہی کیا ہے لیکن میرے لیے اور کوئی راستہ نہ تھا۔ میری فوج اس کی فوج کے گھیرے میں آگئی تھی ۔ میرے سپاہی تھکے ہوئے، ڈرے ہوئے اور زخمی تھے۔ میرے سالاروں نے مجھے مشورہ دیا کہ صلاح الدین ایوبی کو صلح کا دھوکہ دیا جائے اور اپنی فوج کو اس کے چنگل سے نکالا جائے۔ میں نے یہی بہتر جانا اور صلاح الدین ایوبی کو صلاح کا پیغام دے دیا '' ……
''محترم غازی سیف الدین ! آپ مطمئن رہیں۔ میں نے وقت حاصل کرنے کے لیے صلح کی ہے ورنہ میرے پاس آج ایک بھی سپاہی نہ ہوتا۔ میں اب حلب میں اپنی فوج کی تنظیم نو کرارہا ہوں۔ نئی بھرتی شروع کرادی ہے میں نے صلاح الدین ایوبی کی یہ شرط تسلیم کر لی ہے کہ اس کی فوج جب حلب میں آئے گی تو ہماری فوج مزاحمت نہیں کرے گی لیکن وہ جب یہاں آئے گا تو اس کی فوج کو ایسی مزاحمت ملے گی جو اس کے تصور میں بھی نہیں آسکتی ۔ آپ اپنی فوج کو ازسرنو تیار کرلیں ۔ ہمیں صلا ح الدین ایوبی کے خلاف لڑنا اور اس کی طاقت کو ختم کرنا ہے''۔
: اس پیغام میں اور بھی بہت کچھ لکھا تھا ۔ مؤرخوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ الملک الصالح نے سلطان ایوبی کو صلح کا دھوکہ دیا تھا اور اس پر بھی کہ الملک الصالح نے سیف الدین کے خط کے جواب میں جو جواب لکھا ، غلطی سے سلطان ایوبی کو مل گیا تھا یا یہ قاصد سلطان ایوبی کا جاسوس تھا ۔ یورپی مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ قاصد کی غلطی تھی ۔ دو نے لکھا ہے کہ پیغام سربمہر کیا گیا تو باہر غلطی سے سلطان ایوبی کا نام لکھ دیا گیا تھا۔ مسلمان مؤرخوں جن میں سراج الدین خاص طور قابل ذکر ہے لکھتاہے کہ سلطان ایوبی کا نظام جاسوسی ایسا باکمال تھا کہ الملک الصالح کا قاصد اس کا جاسوس تھا۔ وہ الملک الصالح کا اتنا اہم پیغام سلطان ایوبی کے پاس لے آیا۔ 
قاضی بہائو الدین شداد نے اپنی یاداشتوں میں لکھتا ہے کہ اس پیغام نے سلطان ایوبی کو اس قدر پریشان کیا کہ کئی گھٹنے اس نے کسی کے ساتھ بات بھی نہ کی ۔ خیمے میں اکیلا پڑا رہا۔ البتہ اسے یہ خوشی ضرور ہوئی کہ اسے دشمن کے عزائم کا علم ہوگیا۔ اس نے حکم دیا کہ الجزیزہ، دیار اور بقر سے فوراً لوگوں کو بھرتی کیا جائے۔ اس نے اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف ایک اور خونزیز جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔

اسکے ساتھ ہی تیسری جلد بھی حتم ھوی جاری ھے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں