داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 89 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 89


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔89 راہ حق کے مسافر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بادشاہ ایک جھونپڑے میں چھپا ہوا تھا۔ یہ واقعہ اپریل ١١٧٥ء (رمضان المبارک ٥٧٠ھ) کا ہے، جب تین مسلمان حکمران… نورالدین زنگی کا بیٹا الملک الصالح، گمشتگین اور سیف الدین غازی… سلطان صلاح الدین ایوبی کے مقابلے میں آئے تھے۔ ان کی پشت پناہی صلیبی کررہے تھے۔ صلیبیوں نے انہیں گھوڑے، اونٹ، آتش گیر سیال کے مٹکے اور دیگر اسلحہ دیا تھا۔ صلیبیوں نے ضروری نہیں سمجھا تھا کہ وہ سلطان ایوبی کو میدان جنگ میں ہی شکست دیں۔ اصل مقصد شکست دینا اور سرزمین عرب پر قبضہ کرکے اسلام کو ختم کرنا تھا۔ فلسطین صلیبیوں کے قبضے میں تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کی دو تین کمزوریاں بھانپ لی تھیں۔ یہ تھیں اقتدار کی ہوس، زر، زن اور عیش پرستی۔ صلیبی یورپ سے یہ توقع لے کر آئے تھے کہ وہ اپنے برتر اسلحہ، فوجوںکی افراط اور بحری جنگی قوت سے مسلمانوں کو تھوڑے سے عرصے میں ختم کرکے قبلہ اول اور خانہ کعبہ پر قابض ہوجائیں گے اور اسلام کا خاتمہ کردیا جائے گا۔
مذہب کوئی درخت نہیں جسے جڑوں سے کاٹ دیا جائے تو سوکھ کر ختم ہوجائے گا۔ مذہب کسی ایک کتاب یا کتابوں کے انبار کا نام نہیں جسے جلا دیا جائے تو مذہب جل کر راکھ ہوجائے گا۔ مذہب، عقائد اور نظریات کا نام ہے جو انسان کے ذہن ودل میں محفوظ ہوتے ہیں اور انسان کو اپنا پابند کیے رکھتے ہیں۔ انسانوں کو قتل کردینے سے عقائد اور نظریات ختم نہیں ہوجاتے، کسی مذہب کو ختم کرنے کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ ذہنوں اور دلوں میں تعیش پسندی اور لذت پرستی ڈال دی جائے۔ عقائد اور نظریات کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے اور انسان آزاد ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہودیوں اور صلیبیوں نے مسلمانوں کے لیے یہی جال تیار کیا۔ سرزمین عرب اور مصر میں لاکر بچھایا تو مسلمان امراء اس میں آنے لگے ۔ ملت اسلامیہ کی بدبختی ہے کہ مسلمان اقتدار اور عورت کی خاطر عقیدے قربان کردیا کرتا ہے۔
نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کے دور میں یہ میٹھا زہر مسلمان حکمرانوں اور امراء کی رگوں میں اتر چکا تھا اور صلیبی فلسطین پر قابض ہوچکے تھے۔ متعدد مسلمان ریاستیں ایسی تھیں جن پر صلیبیوں کا قبضہ تو نہیں تھا لیکن ریاستوں کے امراء کے دلوں پر انہی کا قبضہ تھا۔ صلیبی اور یہودی، مسلمانوں کی کردار کشی میں اس حد تک کامیاب ہوچکے تھے کہ کسی بھی مسلمان سالار کے متعلق یقین سے نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ سلطنت اسلامیہ کا وفادار ہے۔ زنگی اور ایوبی کے لیے یہ غدار بہت بڑا مسئلہ بن گئے تھے۔ ١١٧٥ئ، ٢٢٧٤ء میں سلطان ایوبی اور فلسطین کے درمیان کلمہ گو بھائی حائل ہوگئے تھے۔صلیبی دور بیٹھے تماشا دیکھ رہے تھے۔ سلطان ایوبی ہر میدان میں صلیبیوں کو شکست پہ شکست دیتا چلا آرہا تھا مگر صلیبیوں نے مسلمان امراء کو ہی اس کے مقابلے میں کھڑا کردیا۔ اس کا بے حد تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ نورالدین زنگی کا اپنا بیٹا الملک الصالح اسماعیل اس کی وفات کے بعد سلطان ایوبی کے مخالف کیمپ میں چلا گیا۔
وہ بادشاہ جو اپریل ١١٧٥ء میں ایک جھونپڑے میں بیٹھا تھا، الملک الصالح کا اتحادی سیف الدین غازی تھا۔ ان کا تیسرا اتحادی گمشتگین تھا۔ آپ اس معرکے کی تفصیل پڑھ چکے ہیں جس میں سلطان ایوبی نے ان تینوں کی متحدہ فوج کو ایسی شرمناک شکست دی تھی کہ تینوں اپنی اپنی فوج کے مرکز (ہیڈکورٹر) کے خیمے سازوسامان سمیت چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ ان کے جو جنگی قیدی سلطان ایوبی کی فوج نے پکڑے تھے، انہیں مسلمان سمجھ کر رہا کردیا گیا تھا۔ یہ سلطان ایوبی کی قوم پرستی اور کشادہ ظرفی تھی جو اسے مہنگی پڑی۔ یہ قیدی واپس گئے تو انہیں فوج میں لے کر چند دنوں میں بکھری ہوئی فوجیں منظم کرلی گئیں۔ یہ تو چند دنوں بعد کی بات ہے۔ میدان جنگ سے الملک الصالح، سیف الدین غازی اور گمشتگین کا بھاگنا بڑا عجیب تھا۔ انہیں ایک دوسرے کا ہوش نہیں تھا۔ گمشتگین حرن کا قلع تھا جو بغداد کی خلافت کے تحت تھا لیکن جنگ سے پہلے اس نے خود مختاری کا اعلان کردیا تھا۔ وہ بھاگا تو حرن جانے کے بجائے حلب چلا گیا جسے الملک الصالح نے اپنا دارالخلافہ بنا رکھا تھا۔ وہ اس خوف سے حرن نہیں گیا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی تعاقب میں آکر اسے پکڑے لے گا۔
 سیف الدین ایک اور شہر موصل اور اس کے مضافات کا حکمران امیر تھا۔ وہ حکمران ہی نہیں، سالار بھی تھا۔ میدان جنگ کے دائو پیچ سے واقف تھا، جنگجو تھا اس نے اپنا ایمان بیچ ڈالا تھا جو مومن کی تلوار بھی ہوتا ہے، ڈھال بھی۔ وہ میدان جنگ میں بھی حرم کی چیدہ چیدہ لڑکیوں اور ناچنے والیوں کو ساتھ لے گیا تھا۔ شراب کے مٹکوں کے علاوہ خوبصورت پرندے بھی اس کے ساتھ تھے۔ وہ عیش وعشرت کا یہ سارا سامان وہیں چھوڑ کر بھاگا تھا۔ اس کے ساتھ بھاگنے والوں میں اس کا نائب سالار اور ایک کمان دار بھی تھا۔ اسے موصل جانا تھا لیکن سلطان ایوبی کے چھاپہ مار دشمن کے عقب میں چلے گئے تھے۔ انہوں نے دشمن کی بکھری ہوئی فوج کے لیے پسپائی محال کردی تھی۔
سیف الدین اور اس کے دونوں ساتھیوں نے شاید چھاپہ ماروں کی کوئی پارٹی دیکھ لی تھی جس سے بچنے کے یے وہ موصل کے راستے سے بھٹک گئے۔ یہ علاقہ اس دور میں عجیب تھا۔ ریگستان بھی تھا، چٹانی بھی اور کہیں سرسبز بھی۔ وہاں انہیں چھپنے کی جگہیں ملتی رہیں۔ وہ موصل سے تھوڑی ہی دور تھے۔ رات گہری ہوگئی تھی۔ انہیں چاندنی رات میں کچھ مکان نظر آئے۔ سیف الدین نے پہلے ہی مکان کے دروازے پر دستک دی۔ ایک سفید ریش بوڑھا باہر آیا۔ اس کے سامنے تین گھوڑ سوار کھڑے تھے جو اس قدر بری طرح ہانپ رہے تھے کہ بوڑھے نے پوچھا… ''معلوم ہوتا ہے تم بھی موصل کی فوج کے سپاہی ہو اور بھاگ کر آئے ہو۔ میں دو دنوں سے سپاہیوں کو گزرتے دیکھ رہا ہوں۔ وہ پانی پینے کے لیے رکتے ہیں اور موصل کو چلے جاتے ہیں''۔
''یہاں سے موصل کتنی دور ہے؟'' سیف الدین نے پوچھا۔
''اگر تمہارے گھوڑوں میں دم ہے تو سحری تک پہنچ سکتے ہو''۔ بوڑھے نے کہا… ''یہ گائوں موصل کا ہی ہے''۔
''اگر تمہارے پاس جگہ ہو تو کیا ہم رات تمہارے ہاں گزار سکتے ہیں؟'' سیف الدین نے پوچھا۔
''جگہ دل میں ہوا کرتی ہے''۔ بوڑھے نے جواب دیا۔ ''گھوڑوں سے اترو اور اندر چلو''۔
٭ ٭ ٭
ایک کمرے میں تینوں مشعل کی روشنی میں بیٹھے تو بوڑھے نے ان کے لباس غور سے دیکھے۔
''ہمیں پہچاننے کی کوشش کررہے ہو؟'' سیف الدین نے مسکرا کر پوچھا۔
''میں دیکھتا ہوں کہ تم سپاہی نہیں ہو؟'' بوڑھے نے کہا… ''تمہارا رتبہ سالاری تک ہوسکتا ہے''۔
''یہ والئی موصل سیف الدین غازی ہیں''۔ نائب سالار نے کہا… ''تم نے کسی معمولی آدمی کو پناہ نہیں دی، تمہیں اس کا انعام ملے گا۔ میں نائب سالار ہوں اور یہ کمان دار ہیں''۔
''ایک بات غور سے سن لو میرے بزرگ!'' سیف الدین نے کہا… ''ہوسکتا ہے ہمیں تمہارے گھر زیادہ دن رکنا پڑے۔ ہم دن کے وقت باہر نہیں نکلیں گے، گسی کو پتہ نہ چلے کہ ہم یہاں ہیں۔ اگر کسی کو پتہ چل گیا تو تمہیں سزا ملے گی اور اگر تم نے یہ راز چھپائے رکھا تو انعام ملے گا جو مانگو گے، ملے گا''۔
''میں نے والئی موصل کو پناہ نہیں دی''۔ بوڑھے نے کہا… ''آپ بھولے بھٹکے، مصیبت کے مارے میرے ہاں آئے ہیں، جتنے دن رہیں گے، خدمت کروں گا۔ اگر آپ چھپ کر رہنے کے خواہش مند ہیں تو چھپائے رکھوں گا اور مجھے آپ کے ساتھ اس لیے بھی دلچسپی ہے کہ میرا بیٹا آپ کی فوج میں سپاہی ہے''۔
''اگر آپ اسے فوج سے سبکدوش کردیں تو میرے لیے یہ بہت بڑا انعام ہوگا''۔ بوڑھے نے کہا۔
''ہاں''۔ سیف الدین نے کہا… ''ہم اسے فوج سے سبکدوش کردیں گے، ہر باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا زندہ رہے''۔
''میں نے اس کی زندگی کی آرزو کبھی نہیں کی''۔ بوڑھے نے کہا… ''میں نے اسے اپنی قوم کی فوج میں بھیج کر خدا کے سپرد کردیا تھا۔ میں بھی سپاہی تھا۔ آپ ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے جب میں فوج میں بھرتی ہوا تھا۔ اللہ آپ کے والد مرحوم قطب الدین کو جنت عطا فرمائے۔ میں ان کے دور میں سپاہی تھا۔ ہم نے کفار کے خلاف معرکے لڑے ہیں مگر میرے بیٹے کو آپ اپنے بھائیوں کے خلاف لڑانے لے گئے ہیں۔ میں اس کی شہادت کا آرزو مند تھا، موت کا نہیں''۔
''صلاح الدین ایوبی نام کا مسلمان ہے''۔ سیف الدین نے کہا… ''اس کے خلاف جنگ جائز ہے، بلکہ فرض ہے''۔
''محترم بزرگ!'' نائب سالار نے کہا… ''ان باتوں کو آپ نہیں سمجھ سکتے، ہم بہتر جانتے ہیں کہ کون مسلمان اور کون کافر ہے''۔
: ''میرے بیٹو!'' بوڑھے نے کہا… ''عبرت حاصل کرو، میری عمر پچھتر سال ہوگئی ہے۔ میرا باپ نوے برس کی عمر میں مرا تھا اور اس کا باپ پچاس برس کی عمر میں میدان جنگ میں شہید ہوا تھا۔ دادا نے اپنے وقتوں کے قصے کہانیاں میرے باپ کو سنائے تھے۔ میرے باپ نے وہ میرے سینے میں ڈال دئیے تھے۔ اس طرح میں دعویٰ کرسکتا ہوں کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ بادشاہی کی ہوس نے جسے بھی بھائی سے لڑایا وہ ایک نہ ایک دن بھاگ کر کسی غریب کے جھونپڑے میں جا چھپا۔ جو تم سے پہلے گزر گئے ہیں ان کا بھی یہی انجام ہوا تھا۔ تمہاری تین فوجوں کو صلاح الدین ایوبی کی ایک فوج نے پسپا کیا ہے اور جس حالت میں پسپا کیا ہے وہ دو دنوں سے دیکھ رہا ہوں۔ تمہارے ساتھ دس فوجیں ہوتیں تو وہ بھی اسی طرح بھاگتیں جو حق پر ہوتے ہیں وہ فتح حاصل کرتے ہیں اور جب انہیں شکست ہوتی ہے تو وہ بھاگتے نہیں، ان کی لاشیں میدان جنگ سے اٹھائی جاتی ہیں۔ وہ چھپتے نہیں''۔
''تم صلاح الدین ایوبی کے حامی معلوم ہوتے ہو''۔ سیف الدین نے ایسے لہجے میں کہا جس میں غصے کی جھلک تھی۔ ''ہمیں تم پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے''۔
''میں آپ کا حامی ہوں''۔ بوڑھے نے کہا… ''میں اسلام کا حامی ہوں۔ میں اپنے تجربے کی روشنی میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے اپنے بھائیوں کے دشمن کو دوست سمجھا اور یہ نہ سمجھ سکے کہ وہ آپ کے مذہب کا دشمن ہے۔ آپ کی شکست کا سبب یہی ہے۔ آپ مجھ پر بھروسہ کریں اگر صلاح الدین ایوبی کی فوج یہاں اچانک آگئی تو آپ کو چھپائے رکھوں گا، دھوکہ نہیں دو گا''۔
اتنے میں ایک جوان اور خوبصورت لڑکی کھانا لے کر کمرے میں آئی۔ اس کے پیچھے ایک جوان عورت آئی۔ اس کے ہاتھ میں بھی کھانا تھا۔ سیف الدین کی نظرین لڑکی پر جم گئیں۔ وہ کھانا رکھ کر چلی گئیں تو سیف الدین نے بوڑھے سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟
''چھوٹی میری بیٹی ہے''۔ بوڑھے نے جواب دیا… ''اور بڑی میری بہو۔ میرے اس بیٹے کی بیوی جو آپ کی فوج میں ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میری بہو بیوہ ہوگئی ہے''۔
''اگر تمہارا بیٹا مارا گیا تو میں تمہیں بے انداز رقم دوں گا''۔ سیف الدین نے کہا… ''اور اپنی بیٹی کے متعلق تمہیں کوئی فکر نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کسی جھونپڑے میں کسی سپاہی کی دلہن بن کر نہیں جائے گی۔ ہم نے اسے اپنی زوجیت کے لیے پسند کرلیا ہے''۔
''میں نے نہ اپنا بیٹا بیچا ہے، نہ بیٹی کو بیچوں گا''۔ بوڑھے نے کہا… ''جھونپڑے میں پل کر جوان ہونے والی بیٹی کسی سپاہی کے جھونپڑے میں ہی اچھی لگتی ہے۔ میں آپ سے ایک بار پھر درخواست کرتا ہوں کہ مجھے لالچ نہ دیں۔ آپ میرے مہمان ہیں۔ میزبانی کا ہر فرض ادا کروں گا''۔
''تم سو جائو''۔ سیف الدین نے بوڑھے سے کہا… ''ہمیں تم پر بھروسہ ہے اور خوشی ہے کہ ہماری ریاست میں تم جیسے صاف گو اور بااصول بزرگ موجود ہیں''۔
بوڑھا چلا گیا تو سیف الدین نے اپنے ساتھیوں سے کہا… ''اس قسم کے انسان دھوکہ نہیں دیا کرتے… تم نے اس کی بیٹی کو غور سے دیکھا تھا؟''
''اچھا موتی ہے''۔ نائب سالار نے کہا۔
''حالات ذرا بہتر ہولیں تو یہ موتی اپنی جھولی میں ہوگا''۔ سیف الدین نے مسکرا کر کہا، پھر چونک کر اپنے نائب سالار سے کہنے لگا… ''تم موصل کی خبر لو، فوج کو یکجا کرو، صلاح الدین ایوبی کی سرگرمیاں بھانپو اور مجھے بہت جلدی بتائو کے میں موصل آجائوں یا کچھ دیر رکا رہوں… اور تم…'' اس نے کمان دار سے کہا… ''حلب والوں کو بتا دو کہ میں کہاں ہوں۔ خود جائو یا کسی کو بھیجو''۔
دونوں روانہ ہوگئے۔ سیف الدین جو شراب میں بدمست ہوکر حسین سے حسین تر لڑکیوں سے دل بہلا کر محل سے میں سونے کا عادی تھا، ایک کچے سے مکان کے فرش پر سوگیا۔
٭ ٭ ٭
اس سے ایک روز پہلے کا واقعہ ہے کہ میدان جنگ سے ایک سپاہی بھاگا ہوا موصل کی طرف جارہا تھا۔ وہ گھوڑا دوڑاتا تھا، رکتا تھا اور آہستہ آہستہ چلانے لگتا تھا۔ کبھی گھوڑا روک کر گھبراہٹ کے عالم میں ادھر ادھر دیکھتا تھا۔ وہ عام راستہ سے کچھ ہٹ کر جارہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس پر خوف طاری ہے اور اس کا ذہن اس کے قابو میں نہیں۔ ایک جگہ اس نے گھوڑا روکا، اترا اور قبلہ رو ہوکر نماز پڑھنے لگا۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو زاروقطار رو پڑا، وہاں سے وہ اٹھا نہیں۔ سر ہاتھوں میں لے کر بیٹھا رہا۔
 یہ فوجیں جب سلطان ایوبی سے شکست کھا کر بکھری اور پسپا ہوئی تھیں، سلطان ایوبی کے کئی ایک جاسوس ان میں شامل ہوگئے تھے۔ یہ سلطان ایوبی کی انٹیلی جنس کا طریقہ تھا کہ دشمن جب پسپا ہوتا تھا تو کچھ جاسوس بھاگے ہوئے سپاہیوں یا جنگ کی زد میں آئے ہوئے گائوں کے مہاجرین کے بہروپ میں دشمن کے علاقے میں چلے جاتے اور دشمن کی تنظیم نو، عزائم اور دیگر کوائف دیکھ کر اطلاعیں فراہم کرتے تھے۔ دمشق سے جب الملک الصالح اپنی فوج کے ساتھ بھاگا تھا تو بھی جاسوسوں کی خاصی تعداد فوج اور بھاگے ہوئے شہریوں کے ساتھ چلی گئی تھی۔ جیسا کہ پہلے وضاحت سے بیان کیا جاچکا ہے کہ سلطان ایوبی آدھی جنگ جاسوسی کے نظام سے جیت لیا کرتا تھا۔ جاسوسی کے لیے جن آدمیوں کو منتخب کیا جاتا، وہ غیرمعمولی طور پر ذہین، ٹھنڈے مزاج والے، فیصلے کی اہلیت اور خوداعتمادی رکھنے والے، لڑاکے اور پھرتیلے ہوتے تھے۔
اپریل ١١٧٥ء میں سلطان ایوبی نے اپنے مسلمان دشمنوں کی متحدہ فوج کو شکست دی تو اس کی انٹیلی جنس کے سربراہ، حسن بن عبداللہ نے ان جاسوسوں کو جو اس کام کے لیے تربیت یافتہ تھے، دشمن کی بکھری ہوئی فوج میں شامل ہوکر حلب، موصل اور حرن تک جانے اور دشمن کے آئندہ عزائم معلوم کرنے کو بھیج دیا۔ ان میں بعض دشمن کی فوج کے لباس میں تھے اور بعض دیہاتی لباس میں۔ ان کا جانا بہت ہی ضروری تھا، کیونکہ یہ خطرہ ہر لمحہ موجود تھا کہ دشمن تنظیم نو (ری گروپنگ) کرکے جوابی حملہ کرے گا۔ سلطان ایوبی نے دشمن کو جو نقصان پہنچایا تھا، اس سے اسے اندازہ تھا کہ دشمن ری گروپنگ میں خاصے دن صرف کرے گا۔ دشمن کی تین فوجیں تھیں۔ سلطان ایوبی کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس کے تینوں دشمن دلی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ نہیں۔ تینوں میں سے ہر ایک کی خواہش یہ تھی کہ وہ سلطان ایوبی کو شکست دے کر سلطنت اسلامیہ کو مختار کل اور شہنشاہ بن جائے۔ وہ ایک دوسرے کے بھی خلاف تھے مگرفی الحال صورت یہ تھی کہ وہ سلطان ایوبی کو اپنا مشترک دسمن سمجھتے تھے۔ اس لیے یہ امکان موجود تھا کہ وہ تینوں فوجوں کو ایک فوج کی صورت میں منظم کرلیں گے اور جوابی حملہ کریں گے۔
سلطان ایوبی یہ بھی جانتا تھا کہ عیاشیوں کے دلدادہ میدان جنگ میں نہیں ٹھہر سکتے، لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کے دشمنوں کو صلیبیوں کی مدد اور پشت پناہی حاصل ہے اور اس کے پاس صلیبی مشیر بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمان سالاروں میں دو تین ایسے تھے جو قیادت کی اہلیت رکھتے تھے۔ ان میں مظفر الدین ابن زین الدین خاص طور پر قابل ذکر تھا۔ وہ سلطان ایوبی کی فوج میں سالار رہ چکا تھا، اس لیے سلطان ایوبی کے دائو وپیچ کو خوب سمجھتا تھا۔ صلیبی مشیروں اور مظفر الدین جیسے سالاروں نے سلطان ایوبی کو بہت چوکس کردیا تھا۔
اسے جو عنصر زیادہ پریشان کررہا تھا وہ اس کی اپنی فوج کی کیفیت تھی جو تسلی بخش کہلائی جاسکتی تھی لیکن یہ خطرہ تھا کہ وہ فوری طور پر دوسری جنگ نہیں لڑ سکے گا۔ جانی نقصان کم نہ تھا۔ دشمن کو شکست تو دے دی گئی تھی مگر کچھ قیمت بھی دینی پڑی تھی جو تھوڑی نہیں تھی۔ سلطان ایوبی کے لیے ایک مشکل یہ بھی تھی کہ وہ اپنے مستقر سے دور تھا۔ رسد اس کے ساتھ تھی لیکن طویل جنگ کی صورت میں رسد کی کیفیت مخدوش ہوسکتی تھی۔ ) اس نے قریبی آبادیوں سے بھرتی شروع رادی تھی۔ لوگ بھرتی ہورہے تھے۔ ان میں زیادہ تر تیغ زنی، تیر اندازی اور گھوڑ سواری سے واقف تھے لیکن فوج کی صورت میں لڑانے کے لیے ٹریننگ کی ضرورت تھی۔ ٹریننگ شروع کردی گئی تھی اور اس کے ساتھ ہی سلطان ایوبی نے پیش قدمی جاری رکھی تاکہ کام کے علاقوں پر قبضہ کرلیا جائے۔ اسے بعض مقامات مزاحمت کے بغیر مل گئے اور وہ ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں دور دور تک سبزہ ہی سبزہ تھا اور پانی کی افراط تھی۔ فوج اور جانور تھک کر چور ہوچکے تھے۔ جانوروں کی یہ حالت تھی کہ اتنا زیادہ سبزہ اور پانی دیکھ کر وہ بھول ہی گئے کہ ان کا استعمال اور فرائض کیا ہیں۔
سلطان ایوبی نے وہیں خیمہ زن ہونے کا حکم دیا۔ دیکھ بھال کے دستے موزوں جگہوں پر بھیج دئیے۔ جاسوس پہلے ہی چلے گئے تھے۔ اسے حکم دینے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ یہ نظام ایک مشین کی طرح از خود چلتا تھا۔ یہ مقام جہاں سلطان ایوبی نے قیام کیا تھا ترکمان کے نام سے مشہور تھا۔ اس کا پورا نام حباب الترکمان (ترکمان کا کنواں) تھا۔
''بھرتی اور تیز کردو''۔ سلطان ایوبی نے اپنی مرکزی کمان کی پہلی کانفرنس میں کہا …… ''اجتماعی طورپر لڑنے کی تربیت اور زیادہ تیز کردو۔ خدا نے تم پر کرم کیا ہے کہ تمہیں بڑا ہی احمق دشمن دیا ہے اگر ان لوگوں میں کچھ سوجھ بوجھ ہوتی تو وہ پسپا ہوکر اس جگہ اکٹھے ہوجاتے۔ جنگی جانوروں اور سپاہیوں کے لیے یہ مقام
: سپاہیوں کے لیے یہ مقام جنت سے کم نہیں۔ یہاں تمہارے جانور اتنا چارہ کھا لیں گے کہ دس روز بغیر چارے کے لڑ سکیں گے… میرے دوستو! دشمن کو حقیر نہ سمجھنا۔ فوج کو آرام دو لیکن تیاری کی حالت میں رہنا۔ طبیبوں سے کہو کہ راتوں کو نہ سوئیں، زخمیوں کو بہت جلد صحت یاب کریں اور بیماروں کو دن رات نگرانی میں رکھیں… اور یاد رکھو، ہمارا مقصد اپنے بھائیوں کو قتل کرنا یا انہیں برا بھلا کہنا اور دھتکارنا نہیں۔ ہماری منزل فلسطین ہے اگر آپس میں دست وگریبان ہوتے رہے تو صلیبی اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔ نظر فلسطین پر رکھو اور راستے میں جو رکاوٹ آئے، اسے روندتے چلے جائو''۔
اسی مقام پر سلطان صلاح الدین ایوبی کو الملک الصالح کی طرف سے صلح کا پیغام ملا تھا جس کا تفصیلی تذکرہ پچھلی قسط میں کیا گیا ہے۔ سلطان ایوبی نے اپنی شرائط پر صلح نامہ قبول کرلیا تھا۔ اس سے اسے یہ اطمینان ہوگیا تھا کہ اس کے دشمن نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ سلطان ایوبی نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ اپنے بھائیوں کو دشمن نہیں سمجھتا عالی ظرفی کا یہ مظاہرہ کیا تھا کہ اس نے دشمن کے جو جنگی قیدی پکڑے تھے، انہیں مختصر سا وعظ دے کر رہا کردیا تھا۔ الملک الصالح کے صلح نامے پر اپنی مہر ثبت کرنے سے پہلے بھی اس نے کوئی کڑی شرط نہ رکھی کیونکہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو ذہن نشین کرانا چاہتا تھا کہ تمہارا دشمن میں نہیں ہوں، صلیبی ہیں۔
اس پیغام نے اسے جو اطمینان دیا تھا، وہ تین چار دنوں سے زیادہ نہ رہا کیونکہ اسے الملک الصالح کا ایک اور پیغام ملا۔ اس نے کھول کر دیکھا تو یہ اس کے نام نہیں بلکہ سیف الدین غازی کے نام تھا جو غلطی سے قاصد سلطان ایوبی کے پاس لے آیا تھا۔ (پچھلی قسط میں اس پیغام کا بھی تفصیلی ذکر کیا گیا ہے) اس پیغام سے یہ ظاہر ہوا کہ سیف الدین غازی (سلطان ایوبی کا دشمن نمبر دو) نے الملک الصالح کو لکھا تھا کہ اس نے سلطان ایوبی کے ساتھ صلح کرکے غلطی کی ہے اور اپنے اتحادیوں کو دھوکہ دیا ہے۔ سیف الدین کے اس پیغام کے جواب میں الملک الصالح نے اسے لکھا تھا کہ تم لوگ بے فکر رہو، میں نے صلاح الدین ایوبی کو صلح کا دھوکہ دیا ہے تاکہ وہ اس حالت میں ہم پر نہ آدھمکے، جبکہ ہماری فوجیں فوری طور پر مقابلے کے لیے تیار نہی۔ میں جانتا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی کی نظر حلب پر ہے۔ اس کی فوج بھی ابھی حملے کے لیے تیار نہیں۔ میں نے وقت حاصل کرنے کے لیے اسے صلح کا جھانسہ دیا ہے۔ تم لوگ اپنی اپنی فوج کو منظم کرو۔ صلیبی مشیر میری فوج کو تیزی سے منظم اور تیار کررہے ہیں۔ تم مجھ سے اتفاق کرو گے کہ ہم ابھی لڑنے کے قابل نہیں۔
اس سے پہلے بتایا جاچکا ہے کہ الملک الصالح نورالدین زنگی کا بیٹا تھا جس کی عمر صرف تیرہ سال تھی۔ نورالدین زنگی فوت ہوگیا تو انتظامیہ اور فوج کے مفاد پرست حکام بالا نے الملک الصالح کو نورالدین زنگی کا جانشین بنا کر اسے سلطان کا خطاب دیا، پھر اسے اپنے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا لیا۔ سلطنت اسلامیہ بکھرنے لگی۔ سلطان ایوبی مصر سے دمشق گیا۔ الملک الصالح اور اس کے حواری دمشق کی فوج کے کچھ حصے بھاگ کر حلب چلے گئے اور اس شہر کو دارالسلطنت بنا لیا۔ الملک الصالح کو حواری استعمال کررہے تھے۔ سلطان ایوبی کو صلح کا دھوکہ انہی لوگوں نے صلیبی مشیروں کے مشورے سے دیا تھا مگر پیغام سیف الدین کے پاس جانے کے بجائے سلطان صلاح الدین کے ہاتھ آگیا۔ یہ اس دور کی تاریخ کا ایک مشہور واقعہ ہے، بعض مورخین نے لکھا ہے کہ قاصد یہ پیغام غلطی سے سلطان ایوبی کے پاس لے گیا تھا لیکن مسلمان مورخین نے جن میں سراج الدین قابل ذکر ہے، وثوق سے لکھا ہے کہ قاصد سلطان صلاح الدین ایوبی کا جاسوس تھا۔ سلطان ایوبی کو اس پیغام نے پریشان کردیا لیکن اس نے پریشانی سے متاثر ہوکر فوری طور پر کوچ اور حملے کا حکم نہ دیا۔ دشمن کی طرح اسے بھی اپنی فوج کی کیفیت کو بہتر بنانے کی ضرورت تھی۔ اس کے پیش نظر سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اس کا دشمن اپنے مستقر کے قریب تھا اور وہ خود مستقر سے بہت دور۔ رسد کا راستہ طویل اور غیر محفوظ ہوگیا تھا۔ اس کے علاوہ اندھا دھند پیش قدمی کا قائل نہ تھا۔ جاسوسوں کی مستند رپورٹوں کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھتا تھا۔ اس کے بجائے وہ دشمن کو آگے آنے کی مہلت دیتا تھا۔ چنانچہ اس نے حسن بن عبداللہ سے کہا کہ وہ کچھ اور جاسوس دشمن کے علاقے میں بھیج دے جو بہت جلدی معلومات حاصل کرکے بھیجیں۔ اس کے علاوہ اس نے کچھ اور ضروری انتظامات کیے۔ اس نے اپنی مرکزی کمان سے کہا کہ وہ حملہ نہیں کرے گا بلکہ دشمن کو حملے کی مہلت دے گا تاکہ وہ اپنے اڈے سے دور نکل آئے۔ ان ہدایات کے بعد وہ دور دور کی زمین کا جائزہ لینے لگا جہاں اسے دشمن کو لڑانا تھا۔
٭ ٭ ٭
: ذکر اس سپاہی کا ہورہا تھا جو میدان جنگ سے بھاگ کر موصل کی سمت جارہا تھا۔ وہ موصل یعنی سیف الدین غازی کی فوج کا سپاہی تھا۔ اس فوج کا بہت سارا حصہ تو اجتماعی طور پر پسپا ہوا تھا جو سپاہی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تھے وہ بکھر کر اکیلے اکیلے بھاگے تھے۔ یہ سپاہی اکیلے بھاگنے والوں میں سے تھا۔ وہ پریشانی کے عالم میں تھا۔ اس نے ایک جگہ گھوڑا روکا، نماز پڑھی اور دعا کرتے رو پڑا۔ پھر وہ اٹھا نہیں، سر ہاتھوں میں لے کر بیٹھا رہا۔ ایک گھوڑ سوار اس کے قریب جا رکا۔ سپاہی عالم خیال میں ایسا محو تھا کہ گھوڑے کے قدموں کی آہٹ بھی اسے بیدار نہ کرسکی۔ سوار گھوڑے سے اترا اور سپاہی کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ تب اس نے بدک کر اوپر دیکھا۔
''یہ تو میں بتا سکتا ہوں کہ تم میدان جنگ سے پسپا ہوکر آئے ہو''۔ سوار نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔ ''لیکن تم اس طرح کیوں بیٹھے ہو؟ اگر زخمی ہو تو میں کچھ مدد کروں؟''
''میرے جسم پر کوئی زخم نہیں''۔ سپاہی نے جواب دیا اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہا… ''میرے دل میں گہرا زخم آیا ہے''۔
یہ گھوڑ سوار جو اس کے پاس آبیٹھا تھا، سلطان ایوبی کے ان جاسوسوں میں سے تھا جنہیں دشمن کی پسپائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کے علاقوں میں جانے کو بھیجا گیا تھا۔ اس کا نام دائود تھا۔ ٹرینگ کے مطابق وہ اس سپاہی کا غور سے جائزہ لے رہا تھا۔ اسے وہ استعمال کرسکتا تھا۔ اپنی ذہانت سے وہ سمجھ گیا کہ یہ سپاہی جذباتی لحاظ سے اکھڑا ہوا ہے اور یہ شکست کی دہشت کا اثر ہے۔ اس نے سپاہی کے ساتھ ایسی باتیں کیں کہ سپاہی کے دل میں جو غبار تھا وہ باہر آگیا۔
''سپاہ گری میرا خاندانی پیشہ ہے''۔ سپاہی نے کہا… ''میرا باپ سپاہی تھا، دادا بھی سپاہی تھا۔ سپاہ گری ہمارا ذریعہ معاش بھی ہے اور ہماری روح کی غذا بھی۔ میں اللہ کا سپاہی ہوں۔ اپنے مذہب اور اپنی قوم کے لیے لڑتا ہوں۔ مجھے معلوم تھا کہ صلیبی ہمارے مذہب کے بدترین دشمن ہیں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارا قبلہ اول صلیبیوں کے قبضے میں ہے۔ میرے باپ نے مجھے دوستی اور دشمنی کی تاریخ زبانی سنائی تھی۔ میں اسلامی جذبے سے فوج میں شامل ہوا تھا۔ تھوڑا عرصہ گزرا ہمیں بتایا جانے لگا کہ صلاح الدین ایوبی صلیبیوں کا دوست ہے اور بدکار آدمی ہے۔ اس سے پہلے ہم سنتے تھے کہ صلاح الدین ایوبی صلیبیوں کے خلاف لڑ رہا ہے اور صلیبی اس سے ڈرتے ہیں اور وہ صلیبیوں سے قبلہ اول آزاد کرائے گا۔ ہماری فوج کے امام نے بھی ہمیں صلاح الدین ایوبی کے خلاف بہت بری بری باتیں بتائیں''…
''ہم اپنی ریاست کے والئی سیف الدین غازی کو سچا سمجھتے رہے۔ ایک روز ہماری فوج کو کوچ کا حکم ملا۔ ہم ادھر آئے تو جنگ ہوئی۔ جنگ کے دوران ہمیں پتہ چلا کہ ہم مسلمان فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ صلاح الدین ایوبی کی فوج تھی۔ اس فوج کے سپاہی نعرے لگا رہے تھے …… حق کے خلاف نہ لڑو مسلمانو۔ تمہارے دشمن صلیبی ہیں، ہم نہیں، ہمارا ساتھ دو، قبلہ اول کو آزاد کرائو، عیاش حکمرانوں کے لیے نہ لڑو، میں نے اس فوج کے جھنڈے دیکھے جن پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا تھا… میرے دوست! میں نے ان سپاہیوں کو جس طرح لڑتے دیکھا، اس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اللہ ان کے ساتھ ہے، ہمارے ساتھ نہیں۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ تیر کدھر سے آرہے ہیں اور شعلے کہاں سے اٹھ رہے ہیں''…
''ایک جگہ چٹان پھٹی ہوئی تھی۔ میرے دل پر موت کا نہیں، خدا کا خوف ایسا طاری ہوا کہ میرے بازوئوں میں طاقت نہ رہی کہ تلوار کا وزن اٹھا سکتے ۔ گھوڑے کی باگیں کھینچنے کی ہمت نہ رہی۔ میں نے گھوڑا پھٹی ہوئی چٹان کے اندر کرلیا۔ میں بزدل نہیں ہوں مگر میرا سارا جسم کانپ رہا تھا۔ باہر تلواریں ٹکرا رہی تھیں، گھوڑوں کا شور تھا اور مجھے نعرے سنائی دے رہے تھے… رمضان شریف میں بھائیوں کے خلاف نہ لڑو''… مجھے یاد آیا کہ ہمیں حکم ملا تھا کہ جنگ میں روزے معاف ہوتے ہیں۔ مجھے پتہ چلا کہ صلاح الدین ایوبی کے سپاہی روزے سے تھے۔ میں اس وقت تک ان میں سے تین سپاہیوں کو قتل کرچکا تھا۔ ان کا خون میری تلوار پر جم گیا تھا۔ سپاہی اپنی تلوار پر خون دیکھ کر خوش ہوا کرتا ہے مگر میں اپنی تلوار کو دیکھنے سے گھبرا رہا تھا کیونکہ میری تلوار کے ساتھ میرے بھائیوں کا خون تھا۔
''مجھ میں اب وہاں سے باہر نکلنے اور لڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ میں وہیں دبکا رہا۔ صلاح الدین ایوبی کے ایک سوار نے مجھے دیکھ لیا اور مجھے للکارا۔ اس نے برچھی مجھ پر سیدھی کی۔ میں نے خون آلود تلوار اس کے گھوڑے کے قدموں میں پھینک دی اور کہا… …''میں تمہارا مسلمان بھائی ہوں، نہیں لڑوں گا''… …گمسان کی جنگ کچھ دور تھی۔ یہ سوار شاید چھاپہ مار تھا اور چھپے ہوئے سپاہیوں کو ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ آگے آگیا اور مجھ سے پوچھا… …''تمہیں احساس ہوگیا ہے کہ تم خدا کے سچے مسلمانوں کے خلاف لڑ رہے ہو؟''… …میں نے اپنے گناہ کا اقرار کیا اور کہا کہ یہ گناہ مجھ سے کرایا گیا
: مجھے گمراہ کیا گیا ہے۔ اس نے مجھ سے برچھی لے لی۔ تلوار تو میں پہلے ہی پھینک چکا تھا۔ اس نے ایک طرف اشارہ کرکے کہا… …''خدا سے اپنے گناہ کی بخشش مانگو اور ادھر کو نکل جائو۔ پیچھے نہ دیکھنا۔ میں اللہ کے حکم سے تمہارے جان بخشی کرتا ہوں''……
''میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ وہ محفوظ راستہ تھا۔ میں میدان جنگ سے دور نکل آیا۔ رات و میں ایک جگہ رکا اور سوگیا۔ خواب میں مجھے وہ تین سپاہی نظر آئے جنہیں میں نے جنگ میں قتل کیا تھا۔ ان کے جسموں سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ میرے اردگرد آہستہ آہستہ گھوم رہے تھے۔ ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ وہ مجھے کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔ خاموش تھے۔ میرے دل پر ایسا خوف طاری ہورہا تھا جس سے جسم سے جان نکلتی جارہی تھی۔ میں نے بچوں کی طرح چیخنا شروع کردیا اور میری آنکھ کھل گئی۔ اتنی ٹھنڈی رات میں بھی میرے جسم سے پسینہ پھوٹ رہا تھا۔ خوف سے مرا جارہا تھا۔ میں نفل پڑھنے لگا اور روتا رہا''……
''میں تین چار دنوں سے بھٹک رہا ہوں۔ رات کو میں سو نہیں سکتا۔ دن کو کہیں چین نہیں آتا۔ رات کو خواب میں ان تین سپاہیوں کو دیکھتا ہوں جو میری تلوار سے قتل ہوئے اور دن کے وقت ان ویرانوں میں وہ مجھے اپنے اردگرد گھومتے محسوس ہوتے ہیں، نظر نہیں آتے اگر وہ سوار جس نے مجھے چٹان میں چھپا ہوا دیکھ لیا تھا، مجھے قتل کردیتا تو اچھا ہوتا۔ اس نے میری جان بخشی کرکے مجھ پر بہت بڑا ظلم کیا ہے اگر میرے پاس تلوار ہوتی تو میں اپنے آپ کو ختم کرلیتا۔ میں نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تین مجاہدوں کو قتل کیا ہے''۔
''تم زندہ رہو گے''۔ دائود نے اسے کہا…… ''یہ خدا کی رضا ہے کہ تم مرو گے نہیں۔ میدان جنگ سے تم زندہ نکل آئے ہو، تمہارے پاس خودکشی کرنے کے لیے کوئی ہتھیار نہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے تم سے کوئی نیکی کا کام کرانے کے لیے زندہ رکھا ہے۔ خدا نے تمہیں موقع دیا ہے کہ گناہ کا کفارہ ادا کردو''۔
''تم مجھے یہ بتائو کہ صلاح الدین ایوبی کے متعلق مجھے جو بری بری باتیں بتائی گئی تھیں وہ سچی ہیں یا جھوٹی؟''
''بالکل جھوٹی''۔ دائود نے جواب دیا …… ''بات صرف یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی صلیبیوں کو یہاں سے نکال کر خدا کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے اور سیف الدین اور اس کے دوست اپنی اپنی بادشاہی کے خواہش مند ہیں۔ انہوں نے صلیب کے پجاریوں کے ساتھ گہری دوستی کرلی ہے اور ان کی مدد سے یہ سب صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنے آئے تھے''… …دائود نے اسے پوری تفصیل سے بتایا کہ صلاح الدین ایوبی کیا ہے اور کیا ارادے رکھتا ہے۔ موصل کے حکمران سیف الدین کے متعلق اسے بتایا کہ وہ اتنا عیاش ہے کہ میدان جنگ میں بھی عیاشی کا سامان ساتھ لے گیا تھا۔
''مجھے یہ بتائو کہ میں صلاح الدین ایوبی کے ان تین سپاہیوں کو خون کا خراج کس طرح ادا کرسکتا ہوں''۔ سپاہی نے دائود سے پوچھا…… ''اگر یہ بوجھ میرے دل سے نہ اترا تو میں بہت بری موت مروں گا۔ اگر مجھے کہو تو میں والئی موصل سیف الدین کو قتل کردوں''۔
''ایسی بھی کوئی ضرورت نہیں''۔ دائود نے کہا…… ''تم پسند کرو گے کہ میں تمہارے ساتھ چلوں؟''
''تم کون ہو؟'' سپاہی نے پوچھا…… ''میں نے یہ تو تم سے پوچھا ہی نہیں کہ تمہارا نام کیا ہے اور تم کہاں سے آئے ہو، کہاں جارہے ہو؟…… میرا نام حارث ہے''۔
''میں موصل جارہا ہوں''۔ دائود نے جھوٹ بولا…… ''وہیں کا رہنے والا ہوں۔ جنگ کی وجہ سے میں راستے سے دور جارہا ہوں اگر تمہارا گائوں راستے میں پڑتا ہے تو وہاں رکوں گا''۔
''میرا گائوں دور نہیں''۔ سپاہی حارث نے کہا…… ''تم میرے گھر نہیں رکو گے تو زبردستی روکوں گا۔ تم نے میری زخمی روح کو سکون دیا ہے۔ میں نے اتنی اچھی باتیں کبھی نہیں سنی تھیں۔ میں گھر ہی جائوں گا۔ موصل کی فوج میں اب کبھی نہیں جائوں گا۔ مجھے امید ہے کہ تم مجھے نجات کا راستہ دکھا سکو گے''
والئی موصل سیف الدین غازی بوڑھے کے کچے سے مکان میں فرش پر گہری نیند سویا ہوا تھا۔ وہ کئی راتیں جاگا تھا۔ آج رات وہ اتنی گہری نیند سویا کہ مکان کے باہر والے دروازے پر دستک ہوئی تو اس کی آنکھ نہ کھلی۔ رات آدھی گزر گئی تھی۔ سفید ریش بوڑھے کی آنکھ کھل گئی۔ اس کی بیٹی اور بہو بھی جاگ اٹھیں۔ بوڑھے نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا…… ''معلوم ہوتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کا بھگایا ہوا موصل کا کوئی اور کمان دار یا سپاہی آیا ہے۔ راستے میں گھر نہیں ہونا چاہیے''۔
اس نے دروازہ کھولا تو باہر دو گھوڑے کھڑے تھے۔ سوار اتر آئے تھے۔ حارث نے سلام کیا تو بوڑھا اس کے ساتھ لپٹ گیا مگر اس نے محبت کی بے تابی کا اظہار الفاظ میں نہ کیا۔ ''میرے عزیز بیٹے! مجھے خوشی ہے کہ حرام موت سے بچ آئے ہو، ورنہ جب تک میں زندہ رہتا لوگوں سے یہی سنتا رہتا کہ تمہارا بیٹا اسلامی فوج کے خلاف لڑا تھا''…… اس نے اپنے بیٹے کے ساتھ دائود کے ساتھ ہاتھ ملایا۔
دائود کچھ کہنے لگا تھا۔ بوڑھے
: دائود کچھ کہنے لگا تھا۔ بوڑھے نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی، پھر سرگوشی میں کہا…… ''تمہارا بادشاہ اور سالار اعلیٰ سیف الدین غازی اندر سویا ہوا ہے۔ گھوڑے خاموشی سے دوسری طرف لے جاکر باندھ دو اور اندر آجائو''۔
''سیف الدین غازی؟'' حارث نے حیرت سے کہا… …''یہاں کیسے آگیا ہے؟''
''شکست کھا کر''۔ بوڑھے نے سرگوشیوں میں جواب دیا…… ''اندر چلو''۔
گھوڑے دوسری طرف سے اندر لے جاکر باندھ دئیے گئے۔ دائود اور حارث کو بوڑھا اندر لے گیا۔ حارث ہی اس کا وہ سپاہی بیٹا تھا جس کے متعلق اس نے سیف الدین کو بتایا تھا۔ حارث دائود کو اسی کمرے میں لے گیا جہاں اس کی بیوی اور جوان بہن تھی۔ اس نے باپ سے کہا …… ''اس کا نام دائود ہے۔ اس سے بہتر اور کوئی دوست نہیں ہوسکتا''۔
''کیا تم بھی بھاگ کر آئے ہو؟'' بوڑھے نے دائود سے پوچھا۔
''میں فوجی نہیں ہوں''۔ دائود نے جواب دیا …… ''موصل جارہا ہوں، جنگ نے مجھے راستے سے ہٹا دیا تھا۔ حارث مل گیا تو میں اس کے ساتھ چل پڑا''۔
''مجھے یہ بتائو کہ والئی موصل ہمارے گھر میں کیسے آیا ہے؟'' حارث نے اپنے باپ سے پوچھا۔
سفید ریش باپ نے اسے بتایا کہ وہ کس طرح آیا ہے۔ ''آج ہی رات آیا ہے''۔ اس نے کہا …… ''اس کے ساتھ ایک نائب سالار اور کمان دار تھا۔ ان دونوں کو اس نے کہیں بھیج دیا ہے۔ میرے کانوں میں اس کے یہ الفاظ پڑے تھے کہ فوج کو یکجا کرو اور مجھے بتائو کہ میں موصل آجائوں یا ابھی چھپا رہوں… میں اس وقت دروازے کے قریب تھا''۔
''ابھی تو وہ اتنا ڈرا ہوا ہے کہ مجھے کہتا تھا کہ کسی کو پتہ نہ چلنے دوں کہ یہ یہاں ہے''۔ بوڑھے نے جواب دیا… …''میں اپنے تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ اس کا ارادہ صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑنے کا ضرور ہے۔ اپنے کمان دار کو اس نے موصل کے بجائے کسی اور طرف بھیجا ہے''۔

اسکے ساتھ ہی تیسری جلد بھی حتم ھوی جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں