داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 90 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 90


 صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔90 راہ حق کے مسافر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کسی اور طرف بھیجا ہے''۔''میں اسے قتل کروں گا''۔ حارث نے کہا… …''اس نے مسلمان کو مسلمان کے خلاف لڑایا ہے۔ اللہ اکبر کے نعرے لگانے والوں نے ایک دوسرے کا خون بہایا ہے۔ مجھے پاگل کیا ہے''۔ وہ غصے سے بے قابو ہوکر اٹھا۔ دیوار کے ساتھ اس کے باپ کی تلوار لٹک رہی تھی۔ وہ لے لی۔
باپ نے پیچھے سے اسے دبوچ لیا۔ دائود نے اس کا بازو پکڑ لیا۔ حارث بے قابو ہوا جارہا تھا۔ باپ نے اسے کہا کہ پہلے میری بات سن لو۔ دائودنے بھی اسے روکا اور کہا کہ ایسے فیصلے کرنے سے پہلے سوچ لینا اچھا ہوتا ہے۔ ہم اسے قتل کرکے ہی چین کا سانس لیں گے لیکن پہلے آپس میں صلاح مشورہ کرلیں۔ حارث مان تو گیا لیکن پھنکار رہا تھا۔ غصے کی شدت سے اس کی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں۔
''اسے قتل کرنا کوئی مشکل کام نہیں''۔ بوڑھے نے اپنے بپھرے ہوئے بیٹے کو بٹھا کر کہا… …''وہ گہری نیند سویا ہوا ہے۔ اسے تو میرے یہ ناتواں بازو بھی قتل کرسکتے ہیں۔ اس کی لاش کو چھاپا بھی جاسکتا ہے مگر اس کے جو دو ساتھی چلے گئے ہیں، وہ ہمیں چھوڑیں گے نہیں۔ وہ ہمیں شک میں پکڑ لیں گے۔ تمہاری جوان بیوی اور جوان بہن کے ساتھ بہت برا سلوک کریں گے۔ اگر ہم انہیں بتائیں گے کہ والئی موصل چلا گیا ہے تو وہ نہیں مانیں گے کیونکہ اس نے انہیں کہا ہے کہ وہ یہیں واپس آئیں''۔
''معلوم ہوتا ہے کہ آپ سیف الدین کو سچا سمجھتے ہیں''۔ حارث نے کہا… ''آپ مسلمان کے خلاف مسلمان کی لڑائی کو بھی جائز سمجھتے ہیں''۔
''یہ بھی ایک وجہ ہے کہ میں اسے اپنے گھر میں قتل نہیں کرنا چاہتا''۔ بوڑھے نے کہا۔ ''میں نے اسے صاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ میں اسے سچا نہیں سمجھتا۔ اس نے مجھے کہا کہ تم صلاح الدین ایوبی کے حامی معلوم ہوتے ہو۔ اس نے مجھے یہ لالچ بھی دیا ہے کہ اگر تمہارا بیٹا جنگ میں مارا گیا تو اس کے عوض بہت رقم دوں گا۔ میں نے اسے کہا کہ میں اپنے بیٹے کی شہادت کا خواہش مند ہوں، حرام موت یا رقم کا نہیں۔ سیف الدین میرے خیالات جان گیا ہے۔ اگر ہم نے اسے قتل کرکے لاش غائب کردی تو اس کا نائب سالار فوراً مجھے پکڑے گا اور کہے گا کہ تم صلاح الدین ایوبی کے حامی ہو، اس لیے تم نے والئی موصل کو قتل کردیا ہے''۔
''دائود بھائی!'' حارث نے دائود سے پوچھا…… ''تم بتائو میں کیا کروں۔ تم نے میری جذباتی حالت دیکھی تھی۔ تم نے کہا تھا کہ خدا نے مجھے گناہ کاکفارہ ادا کرنے کے لیے زندہ رکھا ہے۔ اس سے بڑھ کر نیکی کا اور کام کیا ہوسکتا ہے کہ حکمران کو قتل کردوں جس نے ہزاروں مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کرایا ہے۔ تم دانش مند انسان ہو''۔
''اس ایک آدمی کو قتل کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا''۔ دائود نے کہا…… ''اس کے دوست بھی ہیں جو حلب میں ہیں اور حرن میں بھی۔ ان کے بہت سے سالار ہیں اور ان کی تین فوجیں ہیں۔ اکیلے سیف الدین کے قتل سے یہ سب صلاح الدین ایوبی کے آگے ہتھیار نہیں ڈال دیں گے۔ ہتھیار ڈلوانے کا طریقہ اور ہوتا ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان سب کو میدان جنگ میں ایسا بے بس کردیا جائے کہ یہ ہتھیار ڈال دیں اور صلاح الدین ایوبی کی شرائط ماننے پر مجبور ہوجائیں''۔
''یہ کام صلاح الدین ایوبی کے سوا اور کون کرسکتا ہے؟'' حارث نے کہا…… ''میرے سینے میں جو آگ بھڑک رہی ہے، وہ کس طرح سرد ہوگی؟ مجھے خدا تین مجاہدین اسلام کا خون کیونکر بخشے گا؟''
دائود بہت خوش تھا کہ اسے والئی موصل یہیں مل گیا ہے۔ وہ حارث اور اس کے باپ کو یہ بتانے سے جھجک رہا تھا کہ وہ جاسوس ہے۔ جاسوس کو جذبات میں آکر اپنا پردہ نہیں اٹھانا چاہیے مگر پردہ اپنے اوپر ڈالے رکھنے سے وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے تو یہ سوچ لیا تھا کہ سیف الدین جہاں بھی جائے گا وہ اس کا تعاقب کرے گا اور اس کی سرگرمیوں کو غور سے دیکھے گا لیکن اتنے دن حارث کے گھر میں ٹھہرنا مشکل نظر آرہا تھا۔ اسے باپ بیٹے کے تعاون کی ضرورت تھی۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ وہ اعتماد میں لے یا نہ لے، اس نے ان کے ساتھ اپنے انداز سے باتیں شروع کردیں۔ اس نے دیکھا کہ حارث تو سیف الدین کو قتل کرنے پر تلا ہی ہوا تھا۔ اس کا باپ بھی صلاح الدین ایوبی کے اس دشمن کا نام حقارت سے لیتا تھا۔
''اگر میں آپ کو ایسا طریقہ بتائوں جس سے سیف الدین آئندہ اٹھنے کے قابل نہ رہے تو کیا آپ میرا ساتھ دیں گے؟'' دائود نے ان سے پوچھا۔
''میرے بیٹے کی طرح تم جذبات سے نہیں سوچ رہے تو میں تمہارا ساتھ دوں گا''۔ حارث کے باپ نے کہا۔
''اور میں قتل سے ہٹ کر اور کچھ نہیں سنوں گا''۔ حارث نے کہا۔
: ''اگر تم اپنی عقل اور اپنے جذبات کی لگام میرے ہاتھ میں دے دو تو تمہارے ہاتھوں ایسا کام کرائوں گا جو تمہاری روح کو سکون اور چین سے مالا مال کردے گا''۔ دائود نے دونوں کو بڑی غور سے دیکھا۔ حارث کی بیوی اور بہن ذرا الگ ہٹ کر بیٹھی سن رہی تھیں۔ دائوں نے انہیں بھی غور سے دیکھا اور کہا…… ''مجھے قرآن دو''۔
حارث کی بہن نے اٹھ کر قرآن اٹھایا۔ آنکھوں سے لگایا، چوما اور دائود کو دے دیا۔ دائود نے بھی قرآن پاک کو آنکھوں سے لگایا، چوما اور قرآن کھولا۔ اس نے ایک جگہ انگلی رکھی اور پڑھا۔
''شیطان نے ان کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور خدا کی یاد ان کے ذہنوں سے نکل گئی ہے۔ یہ جماعت شیطان کا لشکر ہے اور سن رکھوں کہ شیطان کا لشکر نقصان اٹھانے والا ہے جو لوگ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل وخوار ہوں گے''۔
یہ اٹھائیسویں پارے کی اٹھارہویں آیات (سورۂ الحشر) تھیں جو قرآن کھلتے ہی سامنے آگئیں۔ دائود نے کہا…… ''یہ اللہ پاک کا کلام ہے۔ میں نے مرضی سے یہ صفحہ نہیں کھولا۔ یہ الفاظ اپنے آپ میرے سامنے آئے ہیں۔ یہ خدا کا فرمان ہے اور یہ خدا کی بشارت ہے۔ قرآن پاک نے ہم سب کو بتا دیا ہے کہ یہ جماعت شیطانوں کا لشکر ہے لیکن میں اپنے پیر استاد کا سبق تمہیں پڑھانا چاہتا ہوں۔ بے شک قرآن پاک نے فرمایا ہے کہ جو لوگ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں، وہ ذلیل وخوار ہوں گے لیکن وہ اس وقت تک ذلیل وخوار نہیں ہوں گے جب تک ہم کوشش کرکے ان کی ذلت وخواری کا سامان پیدا نہیں کریں گے۔ یہ ہم سب پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم انہیں ذلیل وخوار کریں''۔
اس نے قرآن پاک دونوں ہاتھوں پر رکھ کر آگے کیا اور سب سے کہا…… ''سب اپنا اپنا دایاں ہاتھ خدا کے اس پاک کلام پر رکھو اور کہو تم راز سے پردہ نہیں اٹھائو گے اور دشمن کو شکست دینے میں اپنی جانیں قربان کردو گے''۔
سب نے جن میں دونوں خواتین بھی شامل تھیں، قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی ہے۔ دائود نے کہا…… ''خداوند تعالیٰ نے قرآن پاک تمہاری زبان میں اتارا ہے۔ تم اس مقدس کتاب کا ایک ایک لفظ سمجھتے ہو اگر تم نے اس قسم سے انحراف کیا تو اس کی سزا قرآن پاک میں لکھی ہوئی ہے۔ تم بھی اسی ذلت ورسوائی میں پھینک دئیے جائو گے جو شیطان کے لشکر کے مقدر میں لکھی ہوئی ہے؟''
''تم کون ہو؟'' بوڑھے نے حیرت زدہ آواز میں دائود سے پوچھا…… ''تم کسی بہت بڑے عالم کے مرید معلوم ہوتے ہو''۔
''میرے پاس کوئی علم نہیں'' دائود نے کہا…… ''میرے پاس عمل ہے۔ میں قرآن کی روشنی میں جان ہتھیلی پر رکھ کر یہاں آیا ہوں۔ یہ سبق مجھے کسی عالم نہیں، صلاح الدین ایوبی نے دیا ہے۔ میں موصل کا نہیں، دمشق کا باشندہ ہوں اور میں سلطان ایوبی کا بھیجا ہوا جاسوس ہوں۔ یہ ہے وہ راز جس کی تم سب نے قسم کھائی ہے کہ اس سے پردہ نہیں اٹھائو گے۔ مجھے تم سب کے تعاون کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین دلائو کہ جو میں کہوں گا وہ کروں گے''۔
''ہم قسم کھا چکے ہیں''۔ بوڑھے نے کہا…… ''تم اپنا مقصد اور مدعا بیان کرو''۔
''مجھے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہے''۔ دائود نے کہا…… ''میں جس کے سینے سے راز نکال کر سلطان صلاح الدین ایوبی تک پہنچانا چاہتا ہوں، وہ مجھے اس چھت کے نیچے مل گیا ہے جس کے نیچے میں بیٹھا ہوں۔ خدائے ذوالجلال نے مجھے فرشتوں کی راہنمائی دی اور یہاں پہنچا دیا ہے۔ مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ سیف الدین اور اس کے دوستوں کے ارادے اور سرگرمیاں کیا ہیں اگر یہ لوگ جنگ کی تیاریاں کریں تو انہیں تیاری سے پہلے یا تیاری کی حالت میں ختم کیا جاسکتا ہے۔ ان کے اادے قبل از وقت معلوم کرنا ضروری ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی تیار نہ ہو اور یہ لوگ اچانک حملہ کردیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا''۔
''کیا مجھے اجازت ہوگی کہ اپنی فوجوں کو دھوکے میں مسلمانوں کے خلاف لڑانے والوں کو قتل کردوں؟''۔ حارث نے پوچھا۔
''یہ میں بتائوں گا''۔ دائود نے جواب دیا…… ''بعض حالات میں قتل نہ کرنا فائدہ مند ہوتا ہے۔ تمہیں ہر قدم ٹھنڈے مزاج سے اٹھانا ہوگا۔ ہمیں سیف الدین پر نظر رکھنی ہے اور اس کا تعاقب کرنا ہے جس طرح یہ یہاں آکر چھپ گیا ہے، اسی طرح میں اور حارث چھپے رہیں گے اور دیکھتے رہیں گے کہ یہ کیا کرتا ہے''۔
٭ ٭ ٭
 سیف الدین اسی مکان کے ایک کمرے میں گہری نیند سویا رہا۔ صبح طلوع ہوئی۔بوڑھے نے جھانک کر دیکھا وہ سویا ہوا تھا۔ سورج خاصا اوپر آگیا تھا، جب اس کی آنکھ کھلی۔ حارث کی بہن اور بیوی نے اس کے آگے ناشتہ رکھا۔ اس نے حارث کی بہن کو غور سے دیکھا اور کہا…… ''تم ہماری جو خدمت کررہی ہو، اس کا ہم اتنا صلہ دیں گے جو تمہارے تصور میں بھی نہیں آسکتا۔ ہم تمہیں اپنے محل میں رکھیں گے''۔
''اگر ہم آپ کو اسی جھونپڑے میں رکھیں تو کیا آپ خوش نہیں رہیں گے؟'' لڑکی نے ہنس کر پوچھا۔
''ہم تو صحرا میں بھی رہ سکتے ہیں''…… سیف الدین نے کہا…… ''لیکن تم پھولوں کے ساتھ سجا کر رکھنے والی چیز ہو''۔
''کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ کے نصیب میں محل میں دوبارہ جانا لکھا ہے؟'' لڑکی نے پوچھا۔
''ایسی بات تم نے کیوں کہی ہے؟''
''آپ کی حالت دیکھ کر''…… لڑکی نے کہا …… ''بادشاہ کا جھونپڑے میں چھپنا یہ ظاہر کرتا کہ اس کی سلطنت چھن گئی ہے اور اس کی فوج ساتھ چھوڑ گئی ہے''۔
''فوج نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا''…… سیف الدین نے کہا…… ''میں ذرا آرام کے لیے یہاں رک گیا ہوں۔ محل صرف میرے نصیب میں نہیں، تمہارے نصیب میں بھی لکھا ہوا ہے۔ کیا تم میرے ساتھ چلنا پسند کرو گی؟''
حارث کی بیوی کمرے سے نکل گئی تھی۔ بہن سیف الدین کے پاس بیٹھ گئی اور کہنے لگی… …''اگر میں آپ کی جگہ ہوتی تو صلاح الدین ایوبی کو شکست دئیے بغیر محل کا نام نہ لیتی، اگر آپ نے مجھے پسند کیا ہے تو میں آپ کو بتا دیتی ہوں کہ مجھے آپ کا بھاگنا اور چھپنا بالکل پسند نہیں۔ جنگجو بادشاہوں کی طرح باہر نکلیں۔ اپنی فوج کو اکٹھا کریں اور سلطان صلاح الدین ایوبی پر حملہ کردیں''۔
لڑکی بھولی بھالی شکل کی تھی۔ اس کی سادگی میں حسن تھا۔ سیف الدین اسے بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا اور اس کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ تھی جس میں شیطانیت بھی تھی اور محبت بھی۔
''میں شہزادی نہیں ہوں''…… لڑکی نے کہا… …''ان چٹانوں اور صحرائوں میں پیدا ہوئی اور یہیں جوان ہوئی ہوں۔ میں سپاہی کی اولاد اور سپاہی کی بہن ہوں۔ آپ کے ساتھ محل میں نہیں، میدان جنگ میں جائوں گی۔ میرے ساتھ آپ تیغ زنی کا مقابلہ کریں گے؟ چٹانوں کے اوپر نیچے میرے ساتھ گھوڑا دوڑائیں گے؟''
''تم صرف خوبصورت ہی نہیں، جنگجو بھی ہو''…… سیف الدین نے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیر کر کہا۔ ''ایسے پیارے بال میں نے پہلی بار دیکھے ہیں''۔
لڑکی نے اس کا ہاتھ آہستہ سے پرے کردیا اور کہا…… ''بال نہیں بازو۔ ابھی آپ کو میرے بالوں کی نہیں میرے بازوئوں کی ضرورت ہے۔ مجھے بتائیں آپ کا ارادہ کیا ہے؟''
''تمہارا باپ خطرناک آدمی ہے''…… سیف الدین نے کہا…… ''وہ صلاح الدین ایوبی کا حامی ہے اور مجھے شاید پسند نہیں کرتا۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے دھوکہ دے گا''۔
لڑکی الہڑ سی ہنسی ہنس پڑی اور بولی…… ''وہ بوڑھا آدمی ہے۔ معلوم نہیں، آپ کے ساتھ اس نے کیا باتیں کی ہیں۔ ہمارے سامنے رات سے وہ آپ کی تعریفیں کررہا ہے۔ اس نے صلاح الدین ایوبی کا صرف نام سنا ہے۔ اس کے متعلق اور کچھ نہیں جانتا۔ اس سے آپ نہ ڈریں۔ ضعیف آدمی آپ کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ مجھے آزمائیں''۔
سیف الدین نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو لڑکی پیچھے ہٹ گئی۔ کہنے لگی…… ''میں آپ کو اپنے جسم سے محروم نہیں کروں گی۔ اپنے آپ کو آپ کے حوالے کردوں گی لیکن اس وقت جب آپ صلاح الدین ایوبی کو شکست دے کر آئیں گے۔ آپ اس وقت مشکل میں ہیں۔ مجھ سے دور رہیں۔ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کا ارادہ کیا ہے؟''
سیف الدین عیاش اور زن پرست انسان تھا۔ جوان اور خوبصورت لڑکی اس کے لیے عجوبہ نہیں تھی لیکن اس لڑکی میں اس نے یہ عجیب بات دیکھی کہ وہ اس کے آگے جھجک نہیں رہی تھی۔ اس کے آگے تو ہر لڑکی سدھائے ہوئے جانور کی طرح اشاروں پر ناچا کرتی تھی۔ اس لڑکی نے اس پر ایسا وار کیا کہ اس کی غیرت بھڑک اٹھی۔
''سنو لڑکی!''…… اس نے کہا…… ''تم نے میری مردانگی کا امتحان لینا چاہا ہے۔ میں اب اس وقت تمہارے جسم کو ہاتھ لگائوں گا جس وقت میرے ہاتھ میں صلاح الدین ایوبی کی تلوار ہوگی اور میں اسی کے گھوڑے پر سوار ہوں گا۔ مجھ سے وعدہ کرو کہ تم میرے پاس آجائو گی''۔
''مجھے اپنے ساتھ میدان جنگ میں لے چلیں''…… لڑکی نے کہا۔
 ''نہیں''…… سیف الدین نے کہا…… ''مجھے ابھی فوج تیار کرنی ہے۔ میں نے ایک آدمی کو موصل بھیج دیا ہے۔ میں نے انہیں کہلا بھیجا ہے کہ فوجیں اکٹھی کرو اور فوراً صلاح الدین ایوبی پر حملہ کردو، تاکہ وہ ہمارے شہروں کا محاصرہ کرنے آگے نہ آسکے۔ آج شام تک میرے دونوں آدمی واپس آجائیں گے تو معلوم ہوگا کہ حلب اور حرن کی فوجیں کس حالت میں ہیں۔ ہم شکست تسلیم نہیں کررہے۔ جوابی حملہ کریں گے اور فوراً کریں گے''۔
سیف الدین کی شخصیت یہی کچھ تھی۔ زن پرستی اور ایمان فروشی نے اس کا کردار اتنا کھوکھلا کردیا تھا کہ اس نے ایک الہڑ اور سیدھی سادی لڑکی سے متاثر ہوکر اسے راز کی بھی ایک دو باتیں بتا دیں۔ لڑکی نے اس کا ہاتھ چوم لیا اور کمرے سے نکل گئی۔
٭ ٭ ٭
''اس کے ساتھ جو دو آدمی آئے تھے، ان میں سے ایک کو اس نے موصل بھیجا ہے اور دوسرے کو حلب''…… حارث کی بہن اپنے باپ کو، حارث اور دائود کو بتا رہی تھی…… ''اس کا ارادہ یہ ہے کہ تینوں فوجوں کو اکٹھا کرکے صلاح الدین ایوبی پر فوراً حملہ کیا جائے تاکہ وہ آگے آکر ان کے شہروں کو محاصرے میں نہ لے سکے۔ اس کے جو دو آدمی گئے ہوئے ہیں، وہ آکر اسے بتائیں گے کہ فوجیں لڑنے کی حالت میں ہیں یا نہیں''…… سیف الدین نے اسے جو کچھ بتایا تھا وہ اس نے اپنے باپ، بھائی اور دائود کو بتا دیا۔
یہ لڑکی جس کا نام فوزی تھا، کوئی ایسی چالاک اور ہوشیار لڑکی نہیں تھی۔ اسے خدا نے ذہانت اور جذبہ عطا کیا تھا۔ دائود نے اسے بتایا کہ وہ سیف الدین کے دل سے راز نکالے۔ فوزی کو اس نے طریقہ بھی بتایا تھا اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ شخص عیاش اور بدکار ہے۔ اس لیے اس کے جال سے بچ کر رہنا۔ فوزی نے یہ کام خوش اسلوبی سے کرلیا۔ اس نے سیف الدین سے جو باتیں کہلوالی تھیں، ان سے دائود کو یہ پتہ چل گیا کہ سیف الدین کا پیچھا کرنا ضروری ہے۔
آدھی رات سے کچھ دیر پہلے بوڑھے کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دروازے پر دستک سنی اور گھوڑے کو ہنہناتے بھی سنا تھا۔ اس نے دروازہ کھولا، باہر سیف الدین کا نائب سالار کھڑا تھا۔ بوڑھا اس کا گھوڑا دوسری طرف لے گیا اور نائب سالار اندر چلا گیا۔ بوڑھے نے جاکر نائب سالار سے کھانے کے متعلق پوچھا، اس نے انکار کردیا۔ بوڑھے نے غلاموں کی طرح ان سے سلوک کیا۔ سیف الدین نے اسے کہا کہ وہ جاکر سوجائے۔ بوڑھا رعایا کی طرح کے آداب سے وہاں سے نکلا۔ اس نے دائود کو جگایا اور دونوں نے دروازے کے ساتھ کان لگا دئیے۔
''گمشتگین کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ حلب میں الملک الصالح کے ساتھ ہے''…… نائب سالار کہہ رہا تھا…… ''میں نے موصل میں جو حالات دیکھے ہیں وہ کوئی ایسے برے نہیں کہ ہم لڑ ہی نہ سکیں۔ صلاح الدین ایوبی ترکمان رک گیا ہے۔ صلیبیوں کے جاسوسوں نے بتایا ہے کہ وہ الجزیرہ، دیار اور بقر اور اردگرد کے علاقوں سے لوگوں کو فوج میں بھرتی کررہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ فوری طور پر پیش قدمی نہیں کرے گا۔ پیش قدمی ضرور کرے گا جو طوفانی ہوگی۔ اس کی فوج کی خیمہ گاہ بتا رہی ہے کہ وہ وہاں زیادہ دن قیادم کرے گا۔ وہ غالباً اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ ہم لڑنے کے قابل نہیں رہے۔ ہماری جو فوج موصل پہنچی ہے اس کی نفری ایک تہائی سے کچھ زیادہ کم ہے۔ یہ سپاہی مارے گئے ہیں اور ان میں لاپتہ بھی شامل ہیں''۔
''تو کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ ہم اسی فوج سے صلاح الدین ایوبی پر حملہ کردیں؟''…… سیف الدین نے پوچھا۔
''صرف ہماری فوج حملے کے لیے کافی نہیں''…… نائب سالار نے جواب دیا…… ''الملک الصالح اور گمشتگین کو ساتھ ملانا ضروری ہے۔ ہمارے مشیروں (صلیبیوں) نے بھی یہی مشورہ دیا ہے''۔
''تم نے انہیں بتا دیا ہے کہ میں کہاں ہوں؟''…… سیف الدین نے پوچھا۔
 ''میں نے یہ جگہ نہیں بتائی''…… نائب سالار نے جواب دیا…… ''انہیں یہ بتایا ہے کہ آپ ترکمان کے مضافات میں گھوم پھر رہے ہیں اور صلاح الدین ایوبی کی نقل وحمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اگلے معرکے کا منصوبہ تیار کیا جاسکے… میرا حیال ہے کہ تین چار روز بعد آپ کو موصل چلے جانا چاہیے''۔
''مجھے حلب کی خبر معلوم کرلینے دو''… …سیف الدین نے کہا…… ''وہ (کمان دار) کل شام تک واپس آجائے گا۔ تم جانتے ہو کہ گمشتگین شیطان کی فطرت کا انسان ہے۔ اسے اپنے قلعے (حرن) میں چلے جانا چاہیے تھا۔ حلب میں وہ کیا کررہا ہے؟ میں موصل جانے سے پہلے حلب جائوں گا۔ گمشتگین بے شک ہمارا اتحادی ہے مگر میں اسے اپنا دوست نہیں کہہ سکتا۔ مجھے الملک الصالح کے سالاروں کو اس پر بھی قائل کرنا ہے کہ وہ صلاح الدین ایوبی کے سستانے سے فائدہ اٹھائیں اور وقت ضائع کیے بغیر حملہ کردیں۔ میں اب یہ مشورہ بھی دوں گا کہ تینوں فوجیں ایک مرکزی کمان کے ماتحت ہونی چاہئیں اور ان کا ایک سالار اعلیٰ ہونا چاہیے۔ ہم نے صرف اس لیے شکست کھائی ہے کہ ہماری فوجوں کی کمان الگ الگ تھی۔ ہمیں ایک دوسرے کے منصوبے اور چالوں کا علم ہی نہیں تھا ورنہ مظفرالدین نے صلاح الدین ایوبی کے پہلو پر جو حملہ کیا تھا وہ کبھی ناکام نہ ہوتا''۔
''مرکزی کمان آپ کے پاس ہونی چاہیے''…… نائب سالار نے کہا۔
''اور ہمیں اپنے دوستوں سے بھی ہوشیار رہنا چاہیے''…… سیف الدین نے کہا اور پوچھا…… ''صلیبی ہمیں مدد دیں گے؟''
''وہ اپنی فوج تو نہیں دیں گے''…… نائب سالار نے جواب دیا… ''اونٹ، گھوڑے اور اسلحہ وغیرہ دیں گے''…… نائب سالار نے پوچھا…… ''یہاں آپ نے کوئی خطرہ تو محسوس نہیں کیا؟''
''نہیں''…… سیف الدین نے کہا…… ''بوڑھا قابل اعتماد معلوم ہوتا ہے۔ اس کی بیٹی جال میں آگئی ہے لیکن جذباتی اور جوشیلی ہے۔ کہتی ہے پہلے صلاح الدین ایوبی کو شکست دو، اس کی تلوار لائو اس کے گھوڑے پر سوار ہوکر آئو اور میں تمہارے ساتھ چلی چلوں گی''۔
نائب سالار نے قہقہہ لگایا۔ حارث، اس کا باپ اور دائود دروازے کے ساتھ کان لگائے سن رہے تھے۔ سیف الدین اور اس کے نائب سالار کے فرشتوں کو بھی معلوم نہ تھا کہ اس گھر میں صرف ایک بوڑھا اور دولڑکیاں ہی نہیں، دو جوان مجاہد بھی ہیں جو کسی بھی موزوں موقعے پر اسے قتل کردیں گے۔ سیف الدین کو ذرا سا بھی شک نہیں ہوا تھا کہ اس نے فوزی کو اپنے جال میں نہیں پھانسا، بلکہ خود اس کے جال میں آگیا ہے۔ دائود اور حارث اندر رہے۔ سیف الدین اور اس کا نائب سالار ڈیوڑھی کے ساتھ والے کمرے میں بند رہے۔ دن کے دوران فوزی تین چار بار اس کمرے میں گئی، وہ چونکہ اس سے دو ہاتھ دور رہتی تھی۔ اس لیے سیف الدین اس کی طرف اور زیادہ کھچا آتا تھا۔ فوزی سے اس نے پوچھا…… ''تمہارا بھائی میری فوج میں سپاہی ہے، میں اسے جیش کا کمان دار بنا دوں گا''۔
''ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں''… … فوزی نے کہا…… ''اگر وہ زندہ نہ ہوا تو ہم بے آسرا ہوجائیں گے''۔
''اس صورت میں تمہارے باپ کو اور تمہارے بھائی کی بیوی کو بھی اپنے ساتھ لے جائوں گا''…… سیف الدین نے کہا۔
فوزی کا باپ بھی سیف الدین کے پاس جاتا رہا۔ اس نے عملی طور پر سیف الدین کو یقین دلا دیا کہ وہ اس کا وفادار ہے۔
رات کو پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ بوڑھے نے دروازہ کھولا باہر سیف الدین کا وہ کمان دار کھڑا تھا جسے اس نے حلب روانہ کیا تھا۔ بوڑھے نے اسے سیف الدین کے کمرے میں بھیج دیا اور اس کا گھوڑا دوسرے گھوڑوں کے ساتھ باندھ کر کمان دار سے کھانے کے متعلق پوچھنے گیا۔ کمان دار بہت تیز آیا تھا، کہیں رکا نہیں تھا، اس لیے راستے میں کچھ کھا نہیں سکا تھا۔ بوڑھا اندر کھانا لینے کے لیے گیا تو فوزی نے کہا کہ وہ کھانا لے جائے گی اور باتیں سنے گی۔
وہ کھانا لے کر گئی تو کمان دار بولتے بولتے چپ ہوگیا۔ سیف الدین نے کہا…… ''تم بات کرو، یہ اپنی بچی ہے''۔
فوزی کمان دار کے آگے کھانا رکھ کر سیف الدین کے قریب بیٹھ گئی۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ وہ اس کے اتنی قریب بیٹھی تھی۔ سیف الدین نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ فوزی نے ہاتھ چھڑایا نہیں، ورنہ صلیبیوں کا یہ دوست ہاتھ سے نکل جاتا۔
 ''حلب کی فوج کا جذبہ قابل تعریف ہے''۔ کمان دار نے بات شروع کی۔ فوزی نے سیف الدین کی انگلی میں پڑی ہوئی انگوٹھی کو انگلیوں سے مسلنا اور اس کے ہیرے کو بچوں کے سے اشتیاق سے دیکھنا شروع کردیا جیسے اسے کمان کی باتوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہ ہو لیکن اس کے کان اسی طرف لگے ہوئے تھے۔ کمان دار کہہ رہا تھا۔ ''الملک الصالح نے صلاح الدین ایوبی کو صلح کا پیغام بھیجا ہے''۔
''صلح کاپیغام!'' سیف الدین نے بدک کر پوچھا۔
''جی ہاں، صلح کا پیغام''…… کمان دار نے کہا …… ''لیکن مجھے پتہ چلا ہے کہ اس نے صلاح الدین ایوبی کو دھوکہ دیا ہے۔ اس کے صلیبی دوست اس کی فوج کے سامان کا نقصان پورا کررہے ہیں اور اسے اکسا رہے ہیں کہ وہ موصل اور حرن کی فوجوں کو مشترکہ کمان میں لاکر صلاح الدین ایوبی پر فوراً حملہ کرے۔ اگر صلاح الدین ایوبی کی فوج نے سستا لیا اور اس نے اسی علاقے سے لوگوں کو بھرتی کرکے نفری پوری کرلی تو پھر اسے روکنا محال ہوجائے گا۔ جاسوس خبر لائے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی نے ترکمان کے سبزہ زار میں لمبے عرصے کے لیے پڑائو کرلیا ہے اور پیش قدمی کی تیاریاں بہت تیزی سے کررہا ہے۔ الملک الصالح کے سالار بھی یہی کہتے ہیں کہ ترکمان کے مقام پر صلاح الدین ایوبی پر فوری حملہ ہونا چاہیے''……
''میں نے حلب کی فوج کے ایک صلیبی مشیر کے ساتھ بات کرنے کاموقعہ پیدا کرلیا تھا۔ میں نے انجان بن کر اسے کہا کہ ہم فوری حملے کے قابل نہیں۔ اس نے کہا کہ یہ تمہاری بہت بڑی جنگی لغزش ہوگی۔ صلاح الدین ایوبی پر حملے کا مقصد یہ نہیں ہوگا کہ اسے شکست دی جائے۔ مقصد یہ ہوگا کہ اسے تیاری کی مہلت نہ دی جائے۔ اس ترکمان کے علاقے میں پریشان رکھا جائے اور ایسی لڑائی لڑی جائے جو طویل ہو، جنگ نہ ہو، معرکے لڑے جائیں۔ یہ معرکے صلاح الدین ایوبی کے انداز کے ہی ہوں، یعنی ضرب لگائو اور بھاگو، شب خون مارو اور کوشش کرو کہ ترکمان کے سبزہ زار سے جہاں پانی کی بھی بہتات ہے، صلاح الدین ایوبی کو پیچھے ہٹا دیا جائے تاکہ اس کی فوج کو چارہ اور پانی نہ مل سکے''۔
''بہت اچھی ترکیب ہے''…… سیف الدین نے کہا …… ''ایسی جنگ میرا شیر، سالار مظفرالدین لڑ سکتا ہے۔ وہ بہت عرصہ صلاح الدین ایوبی کے ساتھ رہا ہے میں کوشش کروں گا کہ تینوں فوجوں کی مشترکہ کمان مجھے مل جائے۔ میں صلاح الدین ایوبی کو صحرائی لومڑی کی طرح دھوکے دے دے کر ماروں گا''۔
فوزی نے سیف الدین کی تلوار لے لی اور اسے نیام سے نکال کر دیکھنے لگی۔ وہ بالکل بھولی بنی ہوئی تھی۔
''میں نے کوشش کی تھی کہ الملک الصالح کے ساتھ میری ملاقات ہوجائے''…… کمان دار نے کہا…… ''لیکن سالاروں اور دوسرے حکام نے اسے ایسا گھیرا ہوا ہے کہ میں اسے مل نہ سکا۔ یہ باتیں اس کے سالاروں سے معلوم کی ہیں''۔
''تمہیں آج پھر حلب جانا ہوگا''…… سیف الدین نے کہا …… ''الملک الصالح کو یہ پیغام دینا کہ تم نے صلاح الدین ایوبی کے ساتھ صلح کرکے ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ تم نے اس کے حوصلے بڑھا دئیے ہیں۔ اس کے ہاتھ مضبوط کردئیے ہیں۔ وہ ہم میں سے کسی کو بھی نہیں بخشے گا۔ تم ابھی بہت چھوٹے ہو، گھبرا گئے ہو، یا تمہارے سالاروں نے لڑائی سے بچنے کے لیے تمہیں مشورہ دیا ہے''…… سیف الدین نے اس موضوع کا طویل پیغام دیا اور کمان دار سے کہا…… ''تمہیں سحر کی تاریکی میں نکل جانا چاہیے۔ دن کے وقت تمہیں اس گائوں میں کوئی نہ دیکھے''۔
یہ تھا وہ پیغام جس کا ذکر تاریخ میں آیا ہے۔ کمان دار کچھ دیر آرام کرکے حلب کو روانہ ہوگیا۔
٭ ٭ ٭
: فوزی نے جو کچھ سنا تھا، وہ دائود کو بتا دیا۔ یہ معلومات بھی کام کی تھیں۔ حارث اور اس کا باپ گہری نیند سوگئے۔ دائود کسی کام سے باہر نکلا۔ فوزی بھی دبے پائوں نکل آئی۔ دائود اپنے گھوڑے کے پاس جارکا۔ فوزی بھی وہیں چلی گئی۔
''مجھے اس سے کوئی بڑا کام بتائو''…… فوزی نے کہا…… ''میں تمہارے لیے جان بھی دے سکتی ہوں''۔
''میرے لیے نہیں، اپنی قوم کے لیے اور اپنے مذہب کے لیے جان دینا''…… دائود نے کہا…… ''تم جو کام کر رہی ہو، وہ بہت بڑا ہے۔ ہم جو جاسوس ہیں، اسی کام میں اپنی جانیں قربان کردیا کرتے ہیں۔ یہ کام میرا تھا جو میں تم سے کرا رہا ہوں۔ میں نے تمہیں خطرے میں ڈال دیا ہے''۔
''خطرہ کیسا؟''
''تم اتنی چالاک لڑکی نہیں ہوفوزی''…… دائود نے کہا …… ''سیف الدین بادشاہ ہے، وہ اس جھونپڑے میں بھی بادشاہ ہے''۔
''تو کیا بادشاہ مجھے کھا جائے گا؟''… … فوزی نے کہا…… ''میں چالاک تو نہیں، سیدھی سادی بھی نہیں ہوں''۔
''تم نے بادشاہی کی چمک دیکھی تو تمہاری آنکھیں بند ہوجائیں گی''…… دائود نے کہا…… ''ان لوگوں نے اسی چمک سے اندھا ہوکر ایمان بیچا ہے اور اسلام کی چڑیں کاٹ رہے ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہیں تم بھی اس جال میں نہ آجائو''۔
''تم کہاں کے رہنے والے ہو؟''
''میں کہیں کا بھی رہنے والا نہیں''…… دائود نے جواب دیا… …''میں جاسوس اور چھاپہ مار ہوں۔ جہاں دشمن کے ہاتھ چڑھ گیا، وہیں مارا جائوں گا اور جہاں بھی مارا جائوں گا، وہ میرا وطن ہوگیا۔ شہید کا لہو جس زمین پر گرتا ہے وہ زمین سلطنت اسلامی کی ہوجاتی ہے۔ اس زمین کو کفر سے پاک کرنا ہر مسلمان کا فرض بن جاتا ہے۔ ہماری مائوں اور بہنوں نے ہمیں جوان کیا اور خدا کے حوالے کردیا ہے۔ انہوں نے دلوں پر پتھر رکھ لیے ہیں اور اس خواہش سے دست بردار ہوگئی ہیں کہ ہم انہیں کبھی ملیں گے''۔
''تمہارے دل میں اپنے گھر جانے کی، اپنی ماں کو دیکھنے کی، بہن سے ملنے کی خواہش تو ہوگی''…… فوزی نے جذباتی لہجے میں کہا۔
''انسان خواہشوں کا غلام ہوجائے تو فرض دھرے رہ جاتے ہیں''…… دائود نے کہا…… ''جان سے پہلے جذبات قربان کرنے پڑتے ہیں۔ تمہیں بھی یہ قربانی دینی ہوگی''۔
فوزی اس کے قریب ہوگئی اور بولی۔ ''مجھے اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو؟''
''نہیں''… دائود نے کہا۔
''کچھ دن میرے پاس رہ سکتے ہو؟''…… فوزی نے پوچھا۔
''میرے فرض نے ضرورت سمجھی تو رہوں گا''…… دائود نے کہا…… ''مجھے اپنے پاس رکھ کر کیا کروگی؟''
''تم مجھے اچھے لگتے ہونا''…… فوزی نے کہا…… ''تم جب سے آئے ہو، تمہاری باتیں سن رہی ہوں، ایسی باتیں میں نے کبھی نہیں سنی تھیں۔ میرے دل میں آتی ہے کہ تمہارے ساتھ رہوں اور……''
''مجھے زنجیر نہ ڈالو فوزی''…… دائود نے کہا …… ''اپنے آپ کو بھی جذبات کی زنجیر سے آزاد رکھو۔ ہمارے سامنے بڑے کٹھن راستے ہیں۔ ایک دوسرے کا ہاتھ ضرور تھامیں گے، اکٹھے چلیں گے مگر ایک دوسرے کے قیدی نہیں بنیں گے''…… اس نے ذرا دیر سوچ کر کہا…… ''فوزی تم زیادہ دور تک میرا ساتھ نہیں دے سکو گی۔ مجھے تمہاری عصمت بھی عزیز ہے۔ کام جو مردوں کا ہے، وہ مرد ہی کریں گے''۔
فوزی نے آہ لی اور اداس سی ہوگئی۔ اس نے دائود کو سر سے پائوں تک دیکھا اور گھوم کر وہاں سے ہٹنے لگی۔ دائود نے لپک کر اس کا بازو پکڑ لیا اور اپنے قریب کرکے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ فوزی اس کے ساتھ لگ گئی اور جذبات سے کانپتی آواز میں بولی …… ''جو کام مردوں کا ہے، وہ عورتیں بھی کرسکتی ہیں۔ میری عصمت کوئی ایسا کچا دھاگا نہیں کہ ذرا سے جھٹکے سے ٹوٹ جائے گا۔ میں تمہیں اپنی عصمت پیش نہیں کررہی۔ تم مجھے اچھے لگتے ہو، تمہاری باتیں مجھے اچھی لگتی ہیں۔ تم نے مجھے جو راستہ دکھایا ہے، وہ میرے دل کو بہت اچھا لگا ہے۔ میں تمہارے قریب اس لیے ہوگئی ہوں کہ شاید تمہیں میرے وجود سے اپنی ماں کی اور بہن کی بو باس مل جائے۔ تم بہت تھکے ہوئے ہو نا دائود! مجھے میرے بھائی کی بیوی نے بہت سی باتیں بتائی ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ مرد جب تھکا ہوا گھر آتا ہے تو عورت کے سوا اس کی تھک اور کوئی دور نہیں کرسکتا۔ عورت نہ ہو تو مرد کی روح مرجھا جاتی ہے۔ میں ڈرتی ہوں کہ تمہاری روح مرجھا گئی تو…… تو کیا ہوگا دائود؟''
 دائود ہنس پڑا اور اس کے گال تھپکا کر بولا۔ ''تمہاری ان بھولی بھالی باتوں نے میری روح کو تروتازہ کردیا ہے''۔
''تمہیں میری کوئی بات بری تو نہیں لگی؟''…… فوزی نے پوچھا…… ''میرے بھائی کو تو نہیں بتائو گے کہ میں تمہارے پاس آئی تھی؟''
''نہیں''…… دائود نے کہا…… ''تمہارے بھائی کو کچھ نہیں بتائوں گا اور تمہاری کوئی بات بھی مجھے بری نہیں لگی''۔
''ہماری منزل ایک ہے دائود'' …… فوزی نے کہا…… ''مجھے معلوم نہیں کہ دل کی بات کس طرح کہی جاتی ہے''۔
''تم نے دل کی بات کہہ دی ہے فوزی!''…… دائود نے کہا…… ''اور میں نے سمجھ لی ہے۔ تم نے ٹھیک کہا ہے کہ ہماری منزل ایک ہے، مگر یہ نہ بھولنا کہ راستے میں خون کی ندی بھی ہے جس پر کوئی پل نہیں۔ اگر تم ہمیشہ کے لیے میری ہو جانا چاہتی ہو تو ہمارا نکاح لہو کی تحریر ہوگی پھر ہماری لاشیں ایک دوسرے سے دور بھی ہوئیں تو ہم اکٹھے ہوجائیں گے۔ راہ حق کے مسافروں کی شادیاں آسمانوں میں ہوتی ہیں اور باراتیں کہکشاں کے رستے میں جایا کرتی ہیں۔ ان کی خوشی میں سارا آسمان ستاروں کی چراغاں کیا کرتا ہے''۔
فوزی جب وہاں سے چلی تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس مسکراہٹ میں مسرت کا تاثر کم اور ایسا تاثر زیادہ تھا جس میں عزم تھا اور کچھ کر گزرنے کا ارادہ۔
٭ ٭ ٭
دو نوں کے بعد کمان دار واپس آگیا جو الملک الصالح کے نام سیف الدین کا پیغام لے کر گیا تھا۔ اس کی ملاقات الملک الصالح سے نہیں ہوسکی تھی، پیغام اس تک پہنچا دیا گیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ وہ پیغام کا تحریری جواب دے گا۔ کمان دار وہاں بتا آیا تھا کہ سیف الدین کہاں ہے اور جس گھر میں وہ بیٹھا ہے، اس کی نشانیاں کیا ہیں…… سیف الدین اپنے پیغام کے جواب کا انتظار کرتا رہا۔ جواب نہ آیا اور وہ پریشان ہونے لگا…… تیسرے چوتھے دن وہ بہت ہی بے چین ہوگیا۔
''کیوں نہ میں خود ہی حلب چلا جائوں''…… اس نے اپنے نائب سالار سے کہا…… ''اگر حلب کی فوج نے صلاح الدین ایوبی کے ساتھ صلح اور جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا ہے تو ہمیں اپنے متعلق بہت کچھ سوچنا پڑے گا۔ گمشتگین (والئی حرن) کا کچھ بھروسہ نہیں۔ ہم تنہا تو نہیں لڑ سکتے۔ ہمیں صلیبیوں کے ساتھ مل کر کوئی اور منصوبہ بنانا پڑے گا''۔
''کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ الملک الصالح صلح کا معاہدہ توڑ دے؟''
''یہ ممکن ہے''…… کمان دار نے کہا …… ''میں نے اس کے جن سالاروں اور کمان داروں سے بات کی ہے، وہ کہتے تھے کہ الملک الصالح نے صلاح الدین ایوبی کو دھوکہ دیا ہے، اگر اس نے دھوکہ نہیں دیا تو بھی زیادہ تر سالار اور دوسرے حکام اس معاہدے کو تسلیم نہیں کرتے۔ مشیر (صلیبی) تو فوری حملے کے حق میں ہیں''۔
''آپ کو حلب چلے جانا چاہیے''…… نائب سالار نے اسے کہا…… ''اور میں موصل چلا جاتا ہوں''۔
''تم ایک بار پھر حلب چلے جائو''…… سیف الدین نے کمان دار سے کہا…… ''الملک الصالح کو بتا دو کہ میں آرہا ہوں۔ تم روانہ ہوجائو گے تو اگلی رات میں بھی روانہ ہوجائوں گا۔ ہوسکتا ہے وہ مجھے ملنا نہ چاہے۔ شہر سے باہر المبارک آکر بتا دینا''۔
''کیا آپ کا اکیلے جانا مناسب ہے؟''…… نائب سالار نے پوچھا۔
''ان علاقوں میں کوئی خطرہ تو نہیں''…… سیف الدین نے کہا…… ''میں رات کو جائوں گا، کسی کو کیا خبر کہ والئی موصل جارہا ہے''۔
''صلاح الدین ایوبی کے جاسوسوں اور چھاپہ ماروں کا کوئی بھروسہ نہیں''…… نائب سالار نے کہا…… ''ان سے ہماری کوئی جگہ محفوظ نہیں''۔
: ''مجھے جانا ضرور ہے''…… سیف الدین نے کہا…… ''خطرہ مول لینا ہی پڑے گا۔ آج تم موصل کو روانہ ہوجائو۔ میں کل رات حلب کو روانہ ہوجائوں گا''۔
جس وقت یہ باتیں ہورہی تھیں، اس وقت دائود اور حارث کے کان دروازے کی درز کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ دونوں وہاں سے ہٹ گئے اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔ دائوں گہری سوچ میںکھویا ہوا تھا۔ اسے سیف الدین کا تعاقب کرنا تھا لیکن کس طرح؟ سوچ سوچ کر اس کے دماغ میں ایک ترکیب آگئی۔
''ہم سیف الدین کے محافظ بنیں گے اور اس کے ساتھ حلب جائیں گے''…… دائود نے حارث سے کہا…… ''ہم اچانک اس کے سامنے جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم اس کی فوج کے سپاہی ہیں''۔
''اگر اس نے کہہ دیا کہ دونوں موصل چلے جائو تو کیا کرو گے؟''…… حارث نے پوچھا۔
''میں اپنا جادو چلانے کی کوشش کروں گا''… …دائود نے کہا۔
''اگر یہ بھی ناکام ہوگیا تو؟''
''پھر یہ بھی حلب نہیں جائے گا''… …دائود نے کہا…… ''الملک الصالح نے صلاح الدین ایوبی کے ساتھ صلح کرلی ہے تو سیف الدین اس معاہدے کو منسوخ کرانے کے لیے حلب نہیں پہنچ سکے گا''…… اس نے حارث کو سمجھا دیا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔
اسی رات سیف الدین بند کمرے میں اپنے نائب سالار اور کمان دار کے پاس بیٹھا انہیں آخری ہدایات دے رہا تھا۔ رات کا پہلا پہر تھا۔ پہلے کمان دار وہاں سے نکلا، حارث کے باپ نے اسے گھوڑا کھول دیا تھا، کچھ دیر بعد نائب سالار بھی چلا گیا۔ سیف الدین اکیلا رہ گیا۔ وہ لیٹ گیا۔ اچانک کمرے کا دروازہ دھماکے سے کھلا، وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ دیکھا، فوزی سراپا مسرت اور خوشی بنی ہوئی تھی۔ وہ ڈرتی آئی اور اس کے پاس بیٹھ کر اس نے سیف الدین کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔
''میرا بھائی آگیا ہے''…… فوزی نے خوشی سے دیوانہ ہوتے ہوئے کہا۔ ''اس کے ساتھ اس کا ایک دوست ہے''۔
جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں