داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 91 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 91

 


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔91 راہ حق کے مسافر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فوزی نے خوشی سے دیوانہ ہوتے ہوئے کہا۔ ''اس کے ساتھ اس کا ایک دوست ہے''۔''تم نے انہیں بتایا ہے کہ میں یہاں ہوں؟''…… سیف الدین نے پوچھا۔
''ہاں!''…… فوزی نے کہا…… ''میں نے بتا دیا ہے اور وہ اتنے خوش ہیں کہ آپ سے ملنے کی اجازت مانگتے ہیں''۔
''انہیں لے آئو''۔
٭ ٭ ٭
دائود اور حارث سیف الدین کے سامنے گئے۔ فوجی انداز سے سلام کیا اور سیف الدین کے اشارے سے اس کے پاس بیٹھ گئے۔ انہوں نے اپنے کپڑوں اور چہروں پر گرد ڈال لی تھی اور سانسیں اس طرح لے رہے تھے جیسے بہت تھکے ہوئے ہوں۔ سیف الدین نے ان سے پوچھا کہ وہ کون سے دستے میں تھے۔ حارث چونکہ اس کی فوج کا سپاہی تھا، اس لیے ان سوالوں کا جواب اسی نے دیا۔ دائود کو تو کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔
''تم اتنے دن کہاں رہے ہو؟''…… سیف الدین نے پوچھا۔
''ہمیں بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ہماری فوج کس طرح پسپا ہوئی''…… دائود نے کہا…… ''ہمیں بھی پسپا ہونا تھا لیکن میں اسے ساتھ لے کر ایک چٹان پر چھپ گیا اور یہ دیکھنے لگا کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج تعاقب میں آتی ہے یا کہیں پڑائو کرتی ہے۔ میں نے جاسوسی شروع کردی۔ آپ کو شاید یاد ہوگا کہ آپ نے صلیبی مشیروں سے چھاپہ مار جیش تیار کرائے تھے۔ میں بھی ایک جیش میں تھا۔ میں نے گہری دلچسپی سے تربیت حاصل کی تھی۔ جنگ میں یہ تربیت بہت کام آئی۔ جنگ ختم ہوگئی تو میں نے اس تربیت سے فائدہ اٹھایا اور سوچا کہ میں اگر بھاگوں تو اپنی فوج کے لیے دشمن کے کچھ راز بھی لیتا چلوں۔ یہ (حارث) مل گیا۔ اسے میں نے اپنے ساتھ رکھ لیا۔ صلاح الدین ایوبی کی فوج پیش قدمی کرتی رہی اور ہم دیکھتے رہے اگر ہمارے ساتھ سات آٹھ سپاہی ہوتے تو شب خون مار مار کر اس فوج کا بہت نقصان کرتے''……
''ہم نے صلاح الدین ایوبی کی فوج کو ترکمان کے علاقے میں پڑائو کرتے دیکھا ہے۔ فوج نے خیمے جس طرح گاڑے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے جیسے فوج وہاں لمبے عرصے کے لیے ٹھہرے گی۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ ہماری فوجیں گھبرا کر بھاگ آئی ہیں۔ اس سے پوچھیں، ہم نے رات کو ان کی خیمہ گاہ کے قریب جاکر دیکھا ہے۔ اللہ توبہ، زخمیوں کا کراہنا برداشت نہیں ہوتا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے آدھی فوج زخمی ہے۔ امیر محترم! اللہ آپ کا اقبال بلند کرے۔ آپ بہتر جانتے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے۔ ہم آپ کے غلام ہیں جو حکم دیں گے، بجا لائیں گے۔ میرا خیال یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج لڑنے کے قابل نہیں۔ اگر آپ اپنی فوج فوراً اکٹھی کرکے حملہ کردیں تو صلاح الدین ایوبی کو آپ دمشق پہنچا سکتے ہیں''۔
سیف الدین دائود کی رپورٹ دلچسپی سے سن رہا تھا۔ وہ شکست خوردہ تھا، اس لیے وہ ایسی باتیں سننے کو ترس رہا تھا جو اسے یہ تسکین دیں کہ اسے شکست نہیں ہوئی اور وہ بھاگا نہیں بلکہ اس کی فوج اور اس کے اتحادی گھبرا کر بھاگے تھے۔ دائود اس کی یہ نفسیاتی ضرورت پوری کررہا تھا۔ یہ اس کی کمزوری تھی جس کے اثر سے دائود کی باتیں اسے ذہنی سکون دے رہی تھیں۔
''ہم موصل جارہے تھے''…… دائود نے کہا…… ''اس (حارث) کا گائوں راستے میں پڑتا تھا۔ یہ کہنے لگا کہ گھر والوں سے ملتے چلیں۔ ہم یہاں آئے تو اس کے محترم والد نے بتایا کہ آپ یہاں ہیں۔ یقین نہ آیا۔ آپ کو یہاں دیکھ کر بھی ہمیں یقین نہیں آرہا کہ آپ یہاں ہیں۔ ہم یہ باتیں آپ تک پہنچانا چاہتے تھے، خدا نے ہم پر بڑا ہی کرم کیا ہے''۔
''ہم تمہاری باتیں سن کر بہت خوش ہوئے ہیں''…… سیف الدین نے بادشاہوں کی طرح کہا…… ''تمہیں اس بہادری کا انعام ملے گا''۔
''ہمارے لیے اس سے بڑا اور انعام کیا ہوسکتا ہے کہ ہم آپ کی برابری میں بیٹھے آپ کے ساتھ باتیں کررہے ہیں''…… حارث نے کہا… …''ہم آپ کے لیے جانیں دے کر اپنی روحوں کو خوش کرنے کو بے تاب ہیں''۔
''معلوم ہوا ہے کہ آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟''…… دائود نے پوچھا۔
''وہ دونوں چلے گئے ہیں''…… سیف الدین نے کہا…… ''میں بھی چلا جائوں گا''۔
''ہم پوچھنے کی جرأت نہیں کرسکتے کہ آپ یہاں کیوں رکے ہوئے ہیں''…… حارث نے کہا…… ''اور اب کہاں جارہے ہیں۔ میں آپ سے بہت شرمسار ہوں کہ آپ کو میرے گھر والوں نے اس گندے سے کمرے میں رکھا اور فرش پر بٹھا رکھا ہے''۔
''میرا خواہش یہی تھی''…… سیف الدین نے کہا…… ''میں یہیں چند دن گزارنا چاہتا تھا۔ تم کسی کو نہ بتانا کہ میں یہاں ہوں''۔
: ''آپ کہاں جارہے ہیں؟''…… دائود نے پوچھا۔
''میں حلب جائوں گا''…… سیف الدین نے جواب دیا…… ''وہاں سے موصل چلا جائوں گا''۔
''لیکن آپ اکیلے ہیں''…… دائود بولا…… ''آپ کے ساتھ کوئی محافظ نہیں''۔
''اس علاقے میں کوئی خطرہ نہیں''…… سیف الدین نے کہا…… ''اکیلا چلا جائوں گا''۔
''گستاخی کی معافی چاہتا ہوں''… …دائود نے کہا…… ''اس علاقے کو دشمن سے خالی نہ سمجھیں۔ جو میں جانتا ہوں، وہ آپ نہیں جانتے۔ صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار گھوم پھر رہے ہیں۔ کسی نے آپ کو پہچان لیا تو ہم دونوں ساری عمر پچھتاتے رہیں گے کہ ہم آپ کو ساتھ کیوں نہ چلے گئے۔ اتفاق سے ہم آگئے ہیں۔ ہمارے پاس گھوڑے ہیں، ہتھیار ہیں، ہم آپ کے ساتھ چلیں گے، ویسے بھی کوئی حکمران محافظوں کے بغیر کہیں جاتا اچھا نہیں لگتا''۔
سیف الدین کو محافظوں کی ضرورت تھی۔ وہ تو پہلے ہی ڈرا ہوا تھا۔ دائوں نے اسے اور ڈرا دیا۔ اس نے انہیں کہا کہ وہ اپنے کپڑے صاف کرلیں اور اگلی رات چلنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ وہ اندر چلے گئے اور سیف الدین فوزی کا انتظار کرنے لگا لیکن فوزی اس کے کمرے میں نہ گئی۔ دن کو دائود اور حارث اس کے لیے کھانا لے گئے۔ اس کے پاس بیٹھے رہے اور دن گزر گیا۔ جس وقت یہ تین مسلمان حکمران صلاح الدین ایوبی پر حملہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے، وہاں سے کچھ دور صلیبی کمانڈروں اور حکمرانوں کی کانفرنس ہورہی تھی۔ وہ الملک الصالح، گمشتگین اور سیف الدین کی متحدہ افواج کی شکست پر غور کررہے تھے۔ ان میں تقریباً سب سلطان ایوبی کے مقابلے میں آکر شکست کھا چکے تھے۔
''ان تین مسلمان فوجوں کی شکست دراصل ہماری شکست ہے''…… ریمانڈ نے کہا…… ''جہاں تک میں جانتا ہوں، صلاح الدین ایوبی کی فوج کی نفری زیادہ نہیں تھی''۔
''مجھے آپ کی رائے سے اتفاق نہیں''…… ایک مشہور فرانسیسی بادشاہ رینالٹ نے کہا…… ''ہمارا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ مسلمان آپس میں ٹکڑائیں تو ان میں سے کسی فریق کو فتح یا شکست ہو۔ ہمارا مقصد صرف اتنا ہے کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہے اور ایک فریق ہمارے ہاتھ میں کھیلتا رہے۔ ہمارا بدترین اور خطرناک دشمن صلاح الدین ایوبی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کے مسلمان بھائی اس کے راستے میں حائل رہیں اور اس کی طاقت ضائع کرتے رہیں۔ اگر اس کے مسلمان حریفوں کی طاقت ضائع ہورہی ہے تو ہوتی رہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کو شکست دے کر اس کے حریف ہمارے خلاف متحد ہوجائیں''۔
''میں آپ کو مسلمان علاقوں اور حکمرانوں کی پوری کیفیت سناتا ہوں جو ہمارے مشیروں نے بھیجی ہیں''…… ایک کمانڈر نے کہا…… ''صلاح الدین ایوبی کی دشمن تینوں فوجوں کی جذباتی حالت یہ ہے کہ سپاہیوں میں لڑنے کا جذبہ حد تک کم ہوگیا ہے۔ ان کا جانی نقصان بھی بہت ہوا اور وہ بے شمار اسلحہ اور سامان پھینک آئے ہیں۔ وہ فوری طور پر لڑنے کے قابل نہیں تھے۔ ہم نے انہیں جو مشیر دے رکھے ہیں، انہوں نے مسلمان حکمرانوں کو بڑی مشکل سے صلاح الدین ایوبی پر حملہ کرنے کے لیے تیار کیا ہے۔ صلاح الدین ایوبی حباب الرکمان کے خوبصورت علاے میں خیمہ زن ہے۔ وہ فوری طور پر پیش قدمی نہیں کررہا۔ ہمارے مشیر پوری کوشش کررہے ہیں کہ حلب، حرن اور موصل کی فوجیں خواہ وہ کسی بھی حالت میں ہوں، حملہ کردیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ صلاح الدین ایوبی کو بے خبری میں جالیں گیں۔ اسے مارنے کا یہی ایک طریقہ ہے''۔
''اور یہ طریقہ شاید کامیاب نہ ہو''…… آگسٹس نے کہا…… ''کیونکہ ایوبی بے خبر کبھی نہیں بیٹھا۔ اس کا جاسوسی کا نظام ہر لمحہ بیدار اور سرگرم رہتا ہے۔ اسے آنے والے واقعات اور حملوں کی اطلاع دو دن پہلے مل جاتی ہے۔  ہمارے جو مشیر مسلمانوں کے ساتھ ہیں، انہیں سختی سے ہدایت دو کہ اپنے جاسوسوں کو اور زیادہ تیز کردیں اور انکی تعداد بھی بڑھا دیں۔ انہیں یہ کام دیں کہ تمام علاقوں میں گھومتے پھرتے رہیں اور ایوبی کے جاسوسوں کو پکڑیں۔ جب مسلمان فوجیں حملے کے یے کوچ کریں تو جاسوس اور چھاپہ مار دور دور بکھر جائیں۔ جہاں کوئی مشکوک آدمی ادھر ادھر جاتا نظر آئے تو اسے پکڑ لیں…… مسافروں کو بھی روک لیں۔ مقصد یہ ہے کہ ایوبی کو حملے کی خبر اس وقت ہو جب اس کے مسلمان بھائیوں کے گھوڑے اس کے خیمہ گاہ میں داخل ہوکر اس کی فوج کا کشت وخون شروع کردیں''۔
''
۔
''یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ صلاح الدین ایوبی ان علاقوں سے جو اس کے قبضے میں ہیں، فوج کے لیے بھرتی کررہا ہے اور لوگ بھرتی ہورہے ہیں''… …ایک اور کمانڈر نے کہا…… ''یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جو ہم پہلے ہی اختیار کررہے ہیں کہ اس پر جلدی حملہ کرایا جائے تاکہ اسے تیاری کی مہلت نہ ملے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں اخلاقی تخریب کاری کی وہی مہم چلائی جائے جو ہم نے مصر میں چلائی تھی۔ یہ صحیح ہے کہ ہمارے بہت سے آدمی اور کئی ایک کارآمد اور قیمتی لڑکیاں پکڑی گئیں اور ماری گئی ہیں لیکن یہ قربانی تو دینی ہی پڑے گی۔ ہم بھی تو مرتے ہیں۔ صلیب کی خاطر ہمیں خود بھی مرنا ہے اور اپنی اولاد کو بھی مروانا ہے۔ مسلمانوں کے ذہنوں پر حملہ ضروری ہے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہم صلاح الدین ایوبی کو اس خطے سے بے دخل نہیں کرسکے۔ اس نے مصر میں پائوں جما لیے ہیں اور یہاں بھی آگیا ہے۔ اس کی کامیابی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ میدان جنگ کا استاد ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ انتظامیہ کا ماہر ہے اور تیسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے سپاہیوں میں قومیت اور مذہب کا جنون پیدا کررکھا ہے۔ ہمارے خلاف لڑنے کو وہ مذہبی عقیدہ سمجھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اس کے چھاپہ مار بھیڑیوں کی طرح ہماری فوج پر شب خون مارتے ہیں۔ اس جنون اور اس عقیدے کو تباہ کرنا ضروری ہے''۔
''ہم نے ہمیشہ انسان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا ہے جسے فرار اور لذت پرستی کہتے ہیں''…… شاہ آگسٹس نے کہا…… ''جن مسلمانوں کے پاس دولت ہے، وہ حکمران بننا چاہتے ہیں۔ ہم نے ان کی اسی کمزوری کو استعمال کیا ہے۔ ہمیں کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ ایک اور مہم شروع کرنی ہے۔ یہ ہے ایوبی کے خلاف نفرت کی مہم۔ اس کے خلاف انتہائی گھٹیا باتیں مشہور کردو لیکن یہ کام تم نہیں کرو گے بلکہ مسلمانوں کی زبانیں استعمال کی جائیں گے۔ اپنے مخالفین اور دشمنوں کو بدنام کرنے کے لیے اپنے کردار اور اخلاق کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ اپنے مفاد کو سامنے رکھنے چاہیے۔ تمہارا دشمن حیثیت، رتبے اور شہرت کے لحاظ سے جس قدر بلند ہو، اس پر اتنے ہی گھٹیا اور پست الزام عائد کرو۔ سو میں سے پانچ آدمی تو تمہاری بات مان جائیں گے''۔
''اس دوران اپنی جنگی تیاریاں جاری رکھو''…… ایک کمانڈر نے کہا…… ''ہمیں بہت وقت مل گیا ہے۔ آپ نے بہت کامیابی سے مسلمانوں میں حکومت پرستی کا مرض پیدا کرکے انہیں آپس میں ٹکرایا ہے۔ اگر ہم مسلمانوں میں اپنے دوست پیدا نہ کرتے تو آج صلاح الدین ایوبی فلسطین میں ہوتا۔ ہم نے اسی کی قوم اس کے راستے میں کھڑی کردی ہے''۔
''میں حیران ہوں''…… ریمانڈ نے کہا…… ''کہ یہی مسلمان سپاہی ایوبی کی فوج میں ہیں۔ وہ ہمارے دس دس سپاہیوں پر بھاری ہوتے ہیں مگر یہی مسلمان سپاہی ایوبی کے حریفوں کی فوج میں تھے اور ایسی بری شکست کھا گئے کہ بکھرے ہوے بھاگے''۔
''یہ عقیدے اور نظریے کا کرشمہ ہے جسے مسلمان ایمان کہتے ہیں''…… رینالڈ نے کہا…… ''جو سپاہی یا سالار اپنا ایمان نیلام کردیتا ہے۔ اس میں لڑنے کا جذبہ نہیں رہتا۔ اسے زندگی اور اجرت عزیز ہوتی ہے۔ اسی لیے ہم نے کردار کشی کو ضروری سمجھا ہے۔ ان لوگوں میں جنسیت اور نشے کی عادت پیدا کرو، پھر تمہیں سپاہی اور گھوڑے مروانے کی ضرورت نہیں پڑے گی''۔
اس کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ حلب میں تینوں مسلمان فوجوں کو یکجا کرکے ایک کمان میں رکھا جائے، واجبی سی مدد دی جائے۔ انہیں ایک محاذ پر رکھا جائے لیکن ان تینوں میں تفرقہ بھی پیدا کیا جائے۔
٭ ٭ ٭
رات کا پہلا پہر گزر چکا تھا۔ حارث کے گائوں پر نیند کا غلبہ تھا۔ اس کے گھر سے تین گھوڑے نکلے۔ ایک پر سیف الدین سوار ہوا۔ دوسرے پر حارث اور تیسرے پر دائود۔ ان دونوں کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں جو انہوں نے فوجی انداز سے عمودی پکڑ رکھی تھیں۔ انہیں الوداع کہنے کے لیے حارث کا باپ، بہن اور بیوی دروازے کے باہر کھڑی تھیں۔ حارث کے ہاتھ میں مشعل تھی۔ سیف الدین فوزی پر نظریں جمائے ہوئے تھا اور فوزی دائود کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ اس نے سیف الدین کی اور اپنے بھائی کی بھی موجودگی کو نظرانداز کردیا تھا۔ ''خدا حافظ، خدا حافظ'' کی آوازیں سنائی دیں اور تینوں سوار چل پڑے۔
گھوڑے تاریکی میں روپوش ہوگئے۔ فوزی ان کے ٹاپ سنتی رہی۔ جوں جوں ٹاپو دھیمے ہوتے گئے، فوزی کے کانوں میں دائوں کی آواز بلند ہوتی گئی…… ''راہ حق کے مسافروں کی شادیاں آسمانوں میں ہوا کرتی ہیں، ان کی باراتیں کہکشاں کے رستے جایا کرتی ہیں''۔
وہ جب اندر جاکر سونے کے لیے لیٹی تو بھی اس کے گرد دائود کے یہی الفاظ گونج رہے تھے۔ اچانک یہ سوال اس کے ذہن میں آیا…… ''کیا میں دائود کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہوں؟''…… وہ شرمسار ہوگئی، پھر اسے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا۔ اسے دائود کے یہ الفاظ یاد آئے…… ''راستے میں خون کی ندی 
: بھی ہے جس پر کوئی پل نہیں''…… اس کے ذہن میں خون موجیں مارنے لگا۔ شادی ایک بے کار سا خیال بن کر ذہن سے نکل گیا۔
سیف الدین اور اس کے محافظوں نے رات سفر میں گزار دی۔ صبح طلوع ہوئی تو سیف الدین آگے آگے جارہا تھا۔ دائود اور حارث اتنا پیچھے تھے کہ ان کی باتیں سیف الدین کے کانوں تک نہیں پہنچ سکتی تھیں۔ گھوڑوں کے قدموں کی بھی آوازیں تھیں۔
''معلوم نہیں تم مجھے کیوں روک رہے ہو؟''…… حارث نے جھنجھلا کر دائود سے کہا…… ''یہاں ہم اسے قتل کرکے لاش کہیں دبا دیں تو کسی کو ہم پر قتل کا شک نہیں ہوسکتا''۔
''اسے زندہ رکھ کر ہم اس کی پوری فوج کو قتل کراسکیں گے''…… دائود نے کہا…… ''یہ مرگیا تو اس کی فوج کی کمان کوئی اور لے لے گا۔ مجھے راز معلوم کرنا ہے، تم اپنے آپ کو قابو میں رکھو''۔
دوپہر سے کچھ پہلے انہیں حلب کے مینار نظر آنے لگے۔ اس سے الگ ہٹ کر المبارک کا سبزہ زار تھا، جہاں قدرتی چشمے تھے۔ اس جگہ کے قریب پہنچے تو سیف الدین کا وہ کمان دار جو الملک الصالح کے لیے اس کی ملاقات کا پیغام لایا تھا۔ دوڑتا آیا، اس نے بتایا کہ الملک الصالح انتظار کررہا ہے۔ المبار کے سبزہ زار میں داخل ہوئے تو الملک الصالح کے دو سالار استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس کے لیے چشمے کے کنارے خیمہ نصب کیا جائے۔ وہ اسی جگہ قیام کرنا چاہتا تھا۔ تاریخ میں اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ اس نے شہر میں الملک الصالح کے محل میں جانا کیوں پسند نہیں کیا تھا۔ اس نے دائود اور حارث کو اپنے ساتھ رکھا۔ اس کے لیے نہایت خوش نما اور کشادہ خیمہ نصب کردیا گیا۔ ملازم بھی آگئے اور خیمے نے وہاں محل کا منظر بنا دیا۔ الملک الصالح نے اسے قلے میں رات کے کھانے پر مدعو کیا اور وہیں ملاقات طے ہوئی۔
٭ ٭ ٭
شام کو سیف الدین اور الملک الصالح کی ملاقات ہوئی۔ قاضی بہائوالدین شداد نے اپنی یادداشتوں ''سلطان یوسف پر کیا افتاد پڑی'' (سلطان ایوبی کا پورا نام یوسف صلاح الدین ایوبی تھا) میں اس ملاقات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے…… ''آخر کار یہ طے پایا کہ الملک الصالح اور سیف الدین والئی موصل کی ملاقات ہوگی۔ ملاقات قلعے میں ہوئی جہاں الملک الصالح نے سیف الدین کا استقبال کیا۔ سیف الدین نے کمسن شہزادے (الملک الصالح) کو گلے سے لگا لیا اور رو پڑا۔ ملاقات کے بعد سیف الدین اپنے خیمے میں چلا گیا جو چشمہ المبارک کے پاس تھا۔ وہاں اس نے بہت دن قیام کیا''۔
دو وقائع نگاروں نے جو کوائف قلمبند کیے تھے، وہ اس طرح ہیں کہ سیف الدین نے الملک الصالح سے کہا کہ اس نے اس کے پیغام کا جواب نہیں دیا۔ الملک الصالح حیران ہوا۔ اس نے بتایا کہ اس نے دوسرے ہی دن تحریری جواب بھیج دیا تھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ آپ فکر نہ کریں، صلح کا معاہدہ محض دھوکہ ہے جو وقت حاصل کرنے کے لیے سلطان ایوبی کو دیا گیا ہے۔
''مجھے آپ کا کوئی پیغام نہیں ملا''…… سیف الدین نے کہا…… ''میں تو اس پر پریشان تھا کہ آپ نے صلاح الدین ایوبی کے ساتھ صلح کا معاہدہ کرکے غلطی کی ہے اور ہمیں دھوکہ دیا ہے''۔
الملک الصالح کے ساتھ اس کے دو سالار بھی تھے۔ انہوں نے اسی وقت اس آدمی کو بلایا جسے پیغام دیا گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ قاصد کون تھا۔ قاصد کو بلانے گئے تو معلوم ہوا کہ جس روز وہ پیغام لے کر گیا تھا، اس روز کے بعد کسی کو نظر نہیں آیا۔ اس اطلاع پر بھاگ دوڑ شروع ہوگئی۔ قاصد کا کچھ پتہ نہ چلا۔ کسی کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے۔ وہ کہیں اکیلا رہتا تھا، وہاں اس کا سامان پڑا تھا، وہ خود نہیں تھا…… یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا اہم پیغام صلاح الدین ایوبی تک پہنچا دیا گیا ہے۔
یہ معاملہ الملک الصالح کے صلیبی مشیروں تک پہنچا تو انہوں نے یہ فیصلہ دیا…… ''قاصد صلاح الدین ایوبی کا جاسوس تھا یا سیف الدین کی طرف جاتے ہوئے قاصد ایوبی کے جاسوسوں یا چھاپہ ماروں کے ہتھے چڑھ گیا۔ انہوں نے اسے قتل کردیا ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صلاح الدین ایوبی نے جنگی تیاریاں تیز کردی ہوں گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ حملے میں پہل کردے۔ اس کا یہ علاج ہے کہ تینوں فوجوں کو فوراً اکٹھا کیا جائے اور ایوبی پر حملہ کردیا جائے''۔
صلیبی یہی چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان جنگ جاری رہے۔ ایک ہی دن میں موصل اور حرن پیغام بھیج دئیے گئے کہ افواج جس حالت میں ہیں، حلب پہنچیں۔ حرن کے امیر گمشتگین نے کچھ پس وپیش کی لیکن سب کے درمیان بیٹھ کر وہ کھلی مخالفت نہ کرسکا۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ تینوں افواج ایک ہائی کمانڈ کے تحت ہوں گی اور سپریم کمانڈر سیف الدین ہوگا۔ گمشتگین نے اپنی فوج شامل تو کردی لیکن خود حلب میں رہنا پسند کیا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ سیف الدین کے ماتحت نہیں رہنا چاہتا۔
دو تین دنوں میں تینوں فوجیں حلب میں جمع ہوگئیں۔ صلیبیوں نے اسلحہ اور سامان بھیج دیا تھا۔ انہوں نے 
 مزید سامان کا وعدہ کیا اور افواج کو کوچ کرادیا۔ حملے کا پلان عجلت میں بنایا گیا تھا۔ کوچ کو پوشیدہ ر کھنے کے لیے نقل وحرکت رات کو کی گئی۔ دن کو پڑائو کرنا تھا۔ اس کے علاوہ یہ انتظام بھی کیا گیا کہ چھاپہ ماروں کی خاصی تعداد کوچ کے راستے دائیں بائیں اس ہدایت کے ساتھ پھیلا دی گئی کہ کوئی مسافر بھی نظر آئے تو اسے پکڑ کر حلب بھیج دو، تاکہ فوج کا کوچ خفیہ رہے۔
کوچ سے پہلے سیف الدین نے دائود اور حارث کو بلایا۔ انہیں شاباش دی اور کہا کہ انہوں نے مشکل کے وقت میں اس کا ساتھ دیا ہے۔ جنگ کے بعد انہیں ترقی ملے گی اور انعام بھی۔ اس نے حارث سے کہا…… ''تمہاری بہن کا میرے سر پر ایک قرض ہے۔ میں اس کے سامنے اس وقت جائوں گا جب میں یہ قرض ادا کرنے کے قابل ہوں گا''۔ حارث کو حیرت میں دیکھ کر اس نے کہا…… ''فوزی نے کہا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی تلوار لے کر اور اس کے گھوڑے پر سوار ہوکر آئو گے تو میں تمہارے ساتھ چلی چلوں گی… …حارث! میں اگر فاتح واپس آیا تو تمہاری بہن موصل کی ملکہ ہوگی''۔
''انشاء اللہ''…… حارث نے کہا…… ''ہم آپ کو فاتح لائیں گے، کیا تینوں فوجیں اکٹھی جارہی ہیں؟''
''ہاں!'' سیف الدین نے جواب دیا…… ''اور میں تینوں کا سالار اعلیٰ ہوں گا''۔
''زندہ باد''۔ دائود نے کہا…… ''اب بھاگنے کی باری صلاح الدین ایوبی کی ہے''۔
دائود اور حارث نے غلامانہ انداز سے جوشیلی باتیں کرکے اور فوزی کا نام بھی باربار لے کر اس سے پلان کا خاکہ بھی معلوم کرلیا اور نقل وحرکت کا انداز بھی پوچھ لیا۔
''تم دونوں اپنی فوج میں چلے جائو''۔ سیف الدین نے کہا…… ''میرا محافظ دستہ آگیا ہے۔ میں تم دونوں کو ہمیشہ یاد رکھوں گا''۔
٭ ٭ ٭
تینوں فوجوں کا کوچ رات کو ہوا۔ دائود اور حارث موصل کی ایک فوج کے جیش میں شامل ہوگئے تھے۔ حارث کو تو کئی سپاہی جانتے تھے، کیونکہ وہ اسی فوج کا تھا۔ دائود کے متعلق حارث نے بتایا کہ والئی موصل کا بھیجا ہوا آدمی ہے۔ کوچ کی حالت میں کسی نے دائود کے متعلق چھان بین نہ کی۔ رات کو تینوں فوجیں تین کالموں میں چلتی رہیں۔ آدھی رات کے بعد علاقہ چٹانی آگیا، جہاں کئی جگہوں پر کالم کی ترتیب گڈ مڈ ہوگئی۔ دائود نے حارث سے کہا…… ''یہاں سے نکلو، موقعہ اچھا ہے''۔
رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں نے گھوڑے آہستہ آہستہ ایک طرف کرنے شروع کردئیے اور فوج سے دور ہٹتے گئے۔ دائود کی سکیم یہ تھی کہ دور جاکر گھوڑے سرپٹ دوڑا دیں گے۔ دن کو تینوں افواج پڑائو کریں گی اور وہ دونوں ترکمان پہنچ جائیں گے اور صلاح الدین ایوبی کو حملے کی خبر دے دیں گے۔ اس طرح اسے حملے کی اطلاع ایک دن پہلے مل جائے گی اور وہ دشمن کے استقبال کا انتظام کرلے گا۔ دائود کو اپنی سکیم کی کامیابی پر مکمل اعتماد تھا مگر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ اردگرد علاقے میں چھاپہ مار اور جاسوس پھیلا دئیے گئے ہیں۔
وہ دونوں دور دائیں طرف نکل گئے۔ جب دیکھا کہ فوج سے وہ بہت دور محفوظ فاصلے پر آگئے ہیں تو انہوں نے ترکمان کا رخ کرلیا لیکن گھوڑے دوڑائے نہیں، رفتار ذرا سی تیز کردی۔ وہ گھوڑوں کو تھکانے سے بھی گریز کررہے تھے کیونکہ انہیں منزل تک رکے بغیر پہنچنا تھا۔ رات گزرتی جارہی تھی۔ صبح کا اجالا نکھرنے لگا تو دائود گھوڑے سے اترا اور ایک ٹیلے پر چڑھ کر اس طرف دیکھنے لگا جدھر افواج جارہی تھیں۔ اسے دور گرد کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ اسے اطمینان ہوگیا کہ وہ افواج سے بہت دور ہیں مگر یہ اس کی غلطی تھی۔ اسے کوئی دیکھ رہا تھا۔ نیچے آکر گھوڑے پر سوار ہوا اور دونوں نے گھوڑوں کی رفتار تیز کردی۔ یہ ٹیلوں اور ریتلی چٹانوں کا علاقہ تھا۔ وہ دو ٹیوں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔ آگے موڑ تھا۔ وہ موڑ پر پہنچے تو آگے سے چار گھوڑ سوار آگئے۔ چاروں نے برچھیاں ان کی طرف کردیں اور رک گئے۔
: ''گھوڑوں سے اترو''۔ گھوڑ سوار نے رعب سے کہا۔
''ہم مسافر ہیں''۔ دائود نے کہا۔
''مسافر موصل کی فوج کی وردی میں نہیں ہوا کرتے''۔ گھوڑ سوار نے کہا…… ''مسافروں کے پاس یہ ہتھیار نہیں ہوا کرتے جو تم نے اٹھا رکھے ہیں…… تم جو کوئی بھی ہو تمہیں ہمارے ساتھ حلب چلنا ہوگا۔ ہم تمہیں چھوڑ نہیں سکتے۔ گھوڑے موڑو''۔
یہ حلب کے چھاپہ مار تھے جو مشکوک آدمیوں کو پکڑ کر حلب لے جانے کو تمام علاقے میں پھیلا دئیے گئے تھے۔ چاروں سواروں نے ان دونوں کو گھیرے میں لے لیا۔ دائود نے حارث سے آہستہ سے کہا…… ''وقت آگیا ہے بھائی''… …حارث نے اپنے گھوڑے کی لگام کو جھٹکا دیا۔ گھوڑے نے اگلی دونوں ٹانگیں اٹھادیں۔ حارث نے ایڑی لگائی۔ گھوڑے نے جست لگائی۔ حارث نے سامنے والے گھوڑ سوار کے سینے میں برچھی اتار دی لیکن اس کے بائیں جو سوار تھا اس کی برچھی حارث کے کندھے میں اتر گئی۔ دائود تجربہ کار چھاپہ مار تھا۔ اس نے گھوڑے کو ایڑی لگا کر وہیں سے گھمایا اور ایک اور سوار کو بے خبری میں لے لیا۔ وہ چار تھے اور یہ دو۔ یہ جگہ گھوڑوں کی لڑائی کے لیے موزوں نہیں تھی۔ دونوں طرف ٹیلے تھے۔ تھوڑی دیر گھوڑے کودتے پھلانگتے رہے، برچھیاں ٹکراتی رہیں۔ حارث گھوڑے سے گر پڑا۔ دائوں کو بھی زخم آئے تھے جن میں دو تین گہرے تھے لیکن اس نے ہوش ٹھکانے رکھی۔
آخر چاروں سوار مارے گئے یا شدید زخمی ہوکر گر پڑے۔ دائود بھی شدید زخمی تھا۔ اس نے دیکھا کہ معرکہ ختم ہوگیا ہے تو اس نے حارث کے گائوں کا رخ کرلیا۔ حارث کو دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اسے یقین تھا کہ وہ مرگیا ہے اور اسے یہ بھی یقین تھا کہ وہ خود بھی مرجائے گا لیکن وہ سلطان ایوبی کو حملے سے قبل از وقت خبردار کرنے کے لیے زندہ رہنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کا خون اتنا زیادہ بہہ گیا تھا کہ اس کی زین اور گھوڑے کی پیٹھ بھی لال ہوگئی تھی۔ اس نے اندازہ کرلیا تھا کہ ترکمان دور ہے اور حارث کا گائوں قدرے کم دور۔ اس کی نظر حارث کے باپ پر تھی۔ اسے امید تھی کہ وہ زندہ پہنچ گیا تو بوڑھے سے کہے گا کہ اپنے شہید بیٹے کی روح کی تسکین کے لیے ترکمان پہنچو اور سلطان ایوبی کو خبردار کردو۔
اس نے گھوڑے کو ایڑی لگا دی۔ گھوڑا جتنا زیادہ ہلتا تھا، دائود کے جسم سے خون اتنا ہی زیادہ نکلتا تھا۔ پیاس سے اس کے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ وہ سر کو جھٹک جھٹک کر راستہ دیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس نے آیتہ کریمہ کا ورد شروع کردیا اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد آسمان کی طرف منہ کرکے بلند آواز سے کہتا…… ''زمین وآسمان کے مالک! تجھے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ، مجھے تھوڑی سی زندگی عطا کردے''…… اس کے نیچے گھوڑا بڑی اچھی چال دوڑتا جارہا تھا مگر دائود کے زخم کھلتے جارہے تھے اور وہ محسوس کررہا تھا جیسے اس کے جوڑ بھی الگ ہورہے ہوں۔ ایک بار تو اس کا سر ایسا ڈولا کہ وہ گھوڑے سے گرتے گرتے بچا۔ وہ چونک کر سنبھل گیا۔
جاری ھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں