داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 92 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 92


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔92 راہ حق کے مسافر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک بار تو اس کا سر ایسا ڈولا کہ وہ گھوڑے سے گرتے گرتے بچا۔ وہ چونک کر سنبھل گیا۔ وہ ایک بار پھر گھوڑے سے گرنے لگا۔ اس نے سنبھلنے کی کوشش کی مگر سنبھل نہ سکا۔ اسے اپنے پائوں کے نیچے زمین محسوس ہوئی۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا تھا۔ وہ ذرا سا اپنے آپ میں آیا تو اسے پتہ چلا کہ یہ رات کا اندھیرا ہے اور اسے کسی نے تھام رکھا ہے۔ اسے وہ دشمن سمجھ کر آزاد ہونے کی کوشش کرنے لگا تو اس کے کانوں میں ایک نسوانی آواز پڑی…… ''دائود! تم گھر میں ہو، گھبرائو نہیں''…… اس نے آواز پہچان لی۔ یہ فوزی کی آواز تھی۔ وہ غشی کی حالت میں منزل پر پہنچ گیا تھا۔ آیتہ کریمہ نے اسے روح کی روشنی عطا کی تھی۔
''بابا کہاں ہیں؟'' اس نے اندر جاکر پوچھا۔
''وہ باہر چلے گئے ہیں''…… فوزی نے کہا…… ''وہ کل یا پرسوں آئیں گے''۔
فوزی اور اس کی بھابی اس کے زخم دھونے لگیں تو اس نے پانی مانگا۔ پانی پی کر اس نے کہا…… ''فوزی! تم نے کہا تھا کہ مردوں کے کام عورتیں بھی کرلیا کرتی ہیں''…… وہ رک رک کر بڑی مشکل سے بول رہا تھا…… ''میرے زخم نہ دھوئو۔ بے کار ہے، میرے اندر خون نہیں رہا…… میں ٹھیک ہوتا تو برداشت نہ کرتا کہ تمہیں اس گھر سے باہر جانے دیتا مگر یہاں مسئلہ میری اور تیری ذات کا نہیں۔ یہ ایک امانت کا مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کا مسئلہ ہے''…… اس نے فوزی کو ترکمان کا راستہ سمجھایا اور اسے پیغام دیا کہ حلب، حرن اور موصل کی فوجیں کس طرح مشترکہ کمان میں حملے کے لیے آرہی ہیں، کدھر سے آرہی ہیں اور ان کا پلان کیا ہے۔ اس نے فوزی کو بتایا کہ اس کا بھائی اس فرض کی ادائیگی میں شہید ہو گیا ہے۔
فوزی تیار ہوگئی اور اس کے ساتھ حارث کی بیوی بھی تیار ہوگئی۔ ایک گھوڑا گھر میں تھا، دوسرا دائود کا تھا۔ فوزی اور اس کی بھابی دائود کو اس حالت میں چھوڑ کر جانے سے گھبرا رہی تھیں۔
''فوزی!'' دائود نے نحیف آواز میں کہا…… ''میرے قریب آئو''…… وہ اس کے قریب آئی تو اس نے لڑکی کا ہاتھ تھام کر اور مسکرا کر کہا…… ''راہ حق کے مسافروں کی شادیاں آسمانوں میں ہوا کرتی ہیں، ان کی باراتیں کہکشاں کے رستے جایا کرتی ہیں۔ ہماری شادی کی خوشی میں آسمان پر ستاروں کی چراغاں ہوگی''…… اور اس کا سر ایک طرف لڑھک گیا۔ فوزی نے اسے بلایا مگر اس کی بارات کہکشاں کے راستے چل پڑی تھی۔
فوزی کو دائود سب کچھ بتا کر شہید ہوا تھا۔ فوزی اور اس کی بھابی نے گھر اللہ کے حوالے کیا۔ گھوڑے پر ز ین ڈالی اور اس پر فوزی کی بھابی سوار ہوگئی۔ فوزی نے دائود کے گھوڑے کو پانی پلایا اور سوار ہوگئی۔ زین پر خون کی تہہ جمی ہوئی تھی…… دونوں گھوڑے گائوں سے نکل گئے۔ دونوں لڑکیاں اللہ کے بھروسے پر جارہی تھیں۔ اس راستے سے وہ واقف نہیں تھیں۔ دائود نے فوزی کو ایک ستارہ سمجھا دیا تھا۔ وہ اس ستارے کی رہنمائی میں چلتی گئیں۔
ادھر تینوں افواج دن بھر قیام کرکے رات کو چل پڑی تھیں۔ ترکمان زیادہ دور نہیں تھا۔ سلطان ایوبی ترکمان میں آنے والے طوفان سے بے خبر تھا۔ اس نے دیکھ بھال کا انتظام کررکھا تھا مگر اس کے دشمن نے بھی اب کے اچھے انتظامات کیے تھے۔ اس نے اپنے چھاپہ ماروں کو بتا دیا تھا کہ ترکمان کے قریب انہیں سلطان ایوبی کے ایسے آدمی ملیں گے جو دیہاتی لباس میں یا خانہ بدوشوں کے بھیس میں ہوں گے اور وہ دیکھ بھال کررہے ہوں گے۔ مورخ لکھتے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی کا اس طوفان سے بچنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ اس کا بے خبری میں دبوچے جانا یقینی تھا۔ اپنے سالاروں سے وہ کہہ رہا تھا کہ حلب، حرن اور موصل والے اتنی جلدی حملہ کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے، حالانکہ اسے سیف الدین کی طرف الملک الصالح کا بھیجا ہوا پیغام مل گیا تھا۔
فوزی اور اس کی بھابی پر جیسے دیوانگی طاری تھی۔ انہیں یہ احساس ہی نہیں رہا تھا کہ وہ مستورات ہیں اور ان کے راستے میں کیسے کیسے خطرے ہیں۔ رات انہوں نے گھوڑوں پر گزار دی۔ صبح کا نور پھیلنے لگا تو وہ ٹیلوں اور ریتلی چٹانوں کے قریب سے گزر رہی تھیں۔ فوزی نے ایک چٹان کے سہارے ایک آدمی کو بیٹھے دیکھا۔ اس کے کپڑے خون سے لال ہوگئے تھے۔ اس کا سر ڈھلک گیا تھا۔ فوزی نے اپنی بھابی سے کہا کہ کوئی زخمی معلوم ہوتا ہے لیکن رکیں گے نہیں۔ معلوم نہیں کون ہے۔ انہیں اس کے قریب سے گزرنا تھا۔ وہ آدمی اٹھنے کی کوشش کررہا تھا۔
 گھوڑے قریب گئے تو فوزی نے چیخ کر کہا… ''حارث''… اور وہ گھوڑے سے کود گئی۔
وہ حارث تھا۔ وہ شہید نہیں ہوا تھا لیکن ان کا زندہ رہنا بھی معجزہ تھا۔ اس کے جسم پر برچھیوں کے بہت سے زخم تھے۔ لڑکیوں نے گھوڑے کے ساتھ پانی کے چھوٹے چھوٹے مشکیزے باندھ رکھے تھے۔ انہوں نے حارث کو پانی پلایا۔ اسے ذرا سا ہوش آیا تو اس نے پوچھا…… ''میں گھر میں ہوں؟ دائود کہاں ہے؟''
فوزی نے اسے ساری بات بتا دی اور بتایا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں اور کدھر جارہی ہیں۔ حارث نے کہا……''مجھے گھوڑے پر ڈال لو اور ترکمان کی طرف گھوڑے دوڑا دو''۔
دونوں لڑکیوں نے اسے گھوڑے پر بٹھا دیا۔ فوزی اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔ حارث روح کی قوت سے زندہ تھا، ورنہ اس کے جسم میں خون کا ایک قطرہ نہیں بچا تھا۔ یہ فرض کی لگن کا کرشمہ تھا۔ فوزی نے اس کی پیٹھ اپنے سینے سے لگا رکھی تھی اور اسے ایک بازو سے پکڑا ہوا تھا۔ وہ سرگوشیوں میں فوزی کو راستہ بتا رہا تھا۔
سلطان ایوبی کی دشمن افواج سیف الدین کی کمان میں ترکمان کے قریب پہنچ رہی تھی۔ ادھر فوزی، حارث اور حارث کی بیوی ایک محفوظ سمت سے ترکمان کی طرف جارہی تھیں۔ افق سے آسمان گہرا بادامی ہوتا جارہا تھا اور یہ رنگ اوپر ہی اوپر اٹھتا جارہا تھا۔ فوزی کی بھابی نے افق کی طرف دیکھا تو اس نے گھبرا کر چلا کر کہا…… ''فوزی، ادھر دیکھو''…… حارث نے سرگوشی کی…… ''کیا ہے فوزی؟''
''آندھی'' فوزی نے کہا اور اس کے دل پر گھبراہٹ طاری ہوگئی۔
اس خطے کے لوگ ان آندھیوں سے واقف تھے۔ یہ علاقہ بے شک چٹانی تھا لیکن کچھ حصے ریتلے تھے اور اردگرد ریگزار تھا۔ آندھی جب آتی تھی چٹانوں کو ریت میں دفن کرجاتی تھی۔ انسانوں اور جانوروں کے لیے یہ قیامت ہوتی تھی لیکن یہ جو آندھی آرہی تھی وہ اس خطے کی چند ایک بھیانک آندھیوں میں سے ایک تھی اور اس آندھی نے تاریخی حیثیت حاصل کرلی۔ میجر جنرل (ریٹائرڈ) محمد اکبر خان (رنگروٹ) نے اپنی انگریزی کتاب ''گوریلا وار فیئر'' میں ایک یورپی مورخوں اور مسلمان وقائع نگاروں کے حوالے دے کر لکھا ہے…… ''جس روز الملک الصالح، گمشتگین اور سیف الدین کی متحدہ افواج سلطان صلاح الدین ایوبی پر بے خبری میں حملہ کرنے کے لیے ترکمان کے قریب پہنچ گئیں تو ایسی آندھی آئی کہ اپنی ناک سے ایک بالشت آگے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ سلطان ایوبی کو معلوم نہیں تھا کہ اس آندھی میں اس پر ایک اور طوفان آرہا ہے''۔
تاریخ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ متحدہ افواج نے سلطان ایوبی پر حملہ کرنے میں تاخیر کردی جو سالار اعلیٰ کی لغزش تھی لیکن راہ حق کے مسافروں کی مدد خدا کیا کرتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ خدائے ذوالجلال نے دو مسلمان لڑکیوں کے جذبہ حریت کی لاج رکھ لی تھی۔ ایک بہن اپنے زخمی بھائی کو سینے سے لگائے مجاہدین اسلام کو کفر کی یلغار سے خبردار کرنے کو دوڑی جارہی تھی، اسے کوئی غم نہ تھا کہ اس کا بھائی مررہا ہے۔
آندھی اتنی تیزی سے آئی کہ کسی کو سنبھلنے کا موقعہ نہ ملا۔ متحدہ افواج چٹانوں کی اوٹ میں بکھر کر پناہ گزین ہوئیں۔ گھوڑے اور اونٹ بے لگام ہوگئے۔ کمانڈروں کو اطمینان تھا کہ آندھی گزر جائے گی اور فوجوں کو منظم کرلیا جائے گا، مگر آندھی کا زور بڑھتا جارہا تھا۔سلطان ایوبی کی خیمہ گاہ کی بھی حالت بہت بری تھی، خیمے اڑ رہے تھے۔ بندھے ہوئے گھوڑوں اور اونٹوں نے قیامت برپا کررکھی تھی۔ ریت کی بوچھاڑوں کے ساتھ کنکریاں اور ریزے جسموں میں داخل ہوتے محسوس ہوتے تھے۔ چیخیں ایسی، جیسے بدروحیں اور چڑیلیں چیخ رہی ہوں۔ سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا مگر پتہ چلتا تھا کہ سورج کو بھی آندھی اڑا لے گئی ہے۔ کمانڈر چلاتے پھر رہے تھے۔ سپاہی اڑتے خیموں کو سنبھالتے، گرتے اور اٹھتے تھے۔
تین چار سپاہی ایک چٹان کی اوٹ میں دبکے بیٹھے تھے۔ ایک گھوڑا جو آہستہ آہستہ چل رہا تھا، ان پر چڑھ گیا۔ سپاہیوں نے ادھر ادھر گرتے چلا چلا کر کہا…… ''گھوا روکو بدبخت، کہیں اوٹ میں ہوجائو''…… گھوڑا رکا تو ایک سپاہی نے اپنے ساتھیوں سے کہا…… ''کچھ اور نہ کہنا، عورت ہے''…… ایک اور نے کہا…… ''یہ دو عورتیں ہیں''۔
: وہ فوزی اور اس کی بھابی تھیں۔ سپاہیوں نے یہ سمجھ کر آندھی میں راستہ بھول کر ادھر آنکلی ہیں، ان کے گھوڑوں کی باگیں پکڑ لیں اور انہیں چٹان کی اوٹ میں کرنے لگے۔
''ہمیں سلطان ایوبی تک پہنچائو''۔ فوزی نے آندھی کی چیخوں میں چلا کر کہا…… ''سلطان صلاح الدین ایوبی کہاں ہے؟ ہم بہت ضروری پیغام لے کر آئی ہیں، ورنہ سب مارے جائو گے''۔
سپاہیوں نے گھوڑے پر ایک لہولہان زخمی کو بھی دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے گھوڑوں کی باگیں پکڑیں اور بڑی ہی مشکل سے سلطان ایوبی کے خیمے تک پہنچے مگر وہاں کوئی خیمہ نہیں تھا۔ اس کی حفاظت کے لیے قناتیں تان دی گئی تھیں۔ لڑکیوں کو دیکھ کر سلطان ایوبی تیزی سے اٹھا۔ سب سے پہلے حارث کو گھوڑے سے اتارا گیا۔ وہ ابھی زندہ تھا۔ لڑکیاں گھوڑوں سے اتریں اور تیزی سے بولتے ہوئے فوزی نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ متحدہ فوج حملے کے لیے آگئی ہے۔ حارث نے سرگوشیوں میں ضروری باتیں بتائیں اور وہ بولتے بولتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔
اس سے کچھ دیر بعد آندھی کا زور تھمنے لگا۔ سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں کو بلایا اور حکم دیا کہ خیمے سنبھالنے کی ضرورت نہیں۔ سپاہیوں کو جیشوں اور دستوں میں اکٹھا کرو۔ چھاپہ مار دستے فوراً بلائو اس نے سالاروں کو بتایا کہ کیا ہونے والا ہے اور رات کے اندر اندر کیا کیا نقل وحرکت کرنی ہے۔
آندھی کا زور کچھ اور کم ہوگیا لیکن رات کا اندھیرا پھیل گیا۔ سیف الدین کی متحدہ افواج اپنے آپ کو سنبھالنے میں مصروف ہوگئیں۔ بہت سے سپاہی سو گئے۔ رات کا حملہ اس بدنظمی کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا۔ جانور بھی ادھر ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے۔ آدھی رات کے بعد افواج پر نیند کا غلبہ طاری ہوگیا۔ سلطان ایوبی کا کیمپ جاگ رہا تھا اور وہاں بے پناہ سرگرمی تھی۔ سیف الدین کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ اس کے دائیں اور بائیں سے دو تین میل دور اس فوج کا حصہ گزرتا جارہا ہے جسے وہ بے خبری میں تباہ کرنے آیا تھا۔
٭ ٭ ٭
صبح طلوع ہوئی۔ متحدہ افواج بری طرح بکھر ہوئی تھیں۔ رسد اڑ گئی تھیں۔ بعض گھوڑوں نے منہ زور ہوکر سپاہیوں کو کچل ڈالا تھا۔ افواج کو عجلت سے منظم کیا گیا۔ آدھے سے زیادہ دن اسی میں گزر گیا۔ سیف الدین نے تینوں افواج کے سالاروں کو حکم دیا کہ چونکہ سلطان ایوبی بے خبر ہے، اس لیے سامنے سے کھلا حملہ کردیا جائے۔
دن کے پچھلے پہر حملہ کیا گیا۔ دائیں بائیں چٹانیں اور سرسبز ٹیلے تھے۔ ان سے حملہ آوروں پر تیروں کا مینہ برسنے لگا۔ سامنے سے آگ کے گولے آنے لگے۔ آتش گیر مادے کی ہانڈیاں گرتی اور پھٹتی تھیں۔ سیال مادہ بکھر جاتا تھا۔ اس پر جب منجنیقوں کے پھینکے ہوئے آگ کے گولے گرتے تھے تو زمین مہیب شعلے اگلتی تھی۔ حملہ رک گیا۔ سیف الدین نے افواج کو پیچھے ہٹا لیا اور حملے کی ترتیب اور سکیم بدل دی مگر اس کی افواج پیچھے ہٹیں تو عقب سے ان پر ایسا شدید اور تیز حملہ ہوا کہ افواج کا شیرازہ بکھر گیا۔ یہ حملہ سلطان ایوبی کے اپنے مخصوص سٹائل کا تھا۔ حملہ آوروں کی تعداد تھوڑی تھی۔ گھوڑے سرپٹ دوڑتے آئے۔ سواروں کی برچھیاں اور تلواریں چلیں اور وہ غائب ہوگئے۔
ایسے ہی حملے پہلوئوں پر ہوئے۔ سیف الدین کی مرکزی کمان ختم ہوگئی۔ رات آئی۔ حملے رات کو بھی جاری رہے۔ سیف الدین اور پیچھے ہٹا تو اس پر تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں۔ سلطان ایوبی کے چھاپہ مار رات بھر سرگرم رہے۔ صبح ابھی دھندلی تھی، جب سلطان ایوبی نے ایک چٹان پر چڑھ کر میدان جنگ کی کیفیت دیکھی۔ اس کے سامنے اب جنگ کا آخری مرحلہ تھا۔ اس نے قاصد کو اپنے ریزرو دستوں کے کمانڈر کی طرف دوڑا دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سرپٹ دوڑتے گھوڑوں نے زمین ہلا ڈالی۔ پیادہ دستے دائیںاور بائیں سے نکلے۔ اللہ اکبر کے نعروں سے آسمان پھٹنے لگا۔
سیف الدین کی افواج اس قابل نہیں رہی تھیں کہ اس حملے کی تاب لاسکیں۔ گھیرا بھی تھا اور گھیرا مکمل تھا۔ سامنے سے شدید حملہ آگیا۔ سیف الدین کی افواج کا جذبہ تو ختم ہوچکا تھا، خود سیف الدین دل چھوڑ بیٹھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ کمان اس کے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور افواج لڑنے کے قابل نہیں رہیں۔ سوار زخمی سپاہیوں کو روند رہے تھے۔ آخر انہو ں نے فرداً فرداً ہتھیار ڈالنے شروع کردئیے۔ سلطان ایوبی کی وہ فوج جو سیف الدین کے عقب میں تھی، آگے آرہی تھی۔ دائیں بائیں سے چھاپہ مار ہلے پہ ہلہ بول رہے تھے۔ سیف الدین کی افواج شکنجے میں پس گئیں۔
 سیف الدین کے مرکز تک پہنچے تو وہاں شراب کی صراحیوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ وہاں سے جو قیدی پکڑے گئے، انہوں نے بتایا کہ ان سالار اعلیٰ آخری بار ایک چٹان کی اوٹ میں دیکھا گیا تھا پھر نظر نہیں آیا۔ اسے سلطان ایوبی کے حکم سے بہت تلاش کیا گیا مگر وہ کہیں بھی نظر نہ آیا۔ وہ نکل گیا تھا۔ اپنی افواج کو سلطان ایوبی کے رحم وکرم پر چھوڑ کر وہ بھاگ گیا تھا۔
رات ایک خیمے میں جو ترکمان کے سبزہ زار میں خاص طور پر نصب کیا گیا تھا، فوزی اپنے بھائی کی لاش کے پاس بیٹھی کہہ رہی تھی…… ''میں نے خون کی ندی پارکرلی ہے جس پر کوئی پل نہیں ہوتا۔ حارث! میں نے تمہارا فرض ادا کردیا ہے''۔
سلطان ایوبی اس خیمے میں داخل ہوا تو فوزی نے پوچھا…… ''سلطان! کیا خبر ہے؟ میرے بھائی کا خون رائیگاں تو نہیں گیا؟''
''اللہ نے دشمن کو شکست دی ہے، تم فاتح ہو، میری بچی! تم'' ……اور سلطان ایوبی کی آواز رقت میں دب گئی۔ اس کے آنسو بہہ نکلے۔

جاری ھے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں