داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 93 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 93

 


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔93 جانباز، جنات اور جذبات
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترکمان کا معرکہ ختم ہوچکا تھا یا سلطان صلاح الدین ایوبی کے کم از کم ان نائب سالاروں اور کمانڈروں کی نگاہ میں یہ معرکہ ختم ہوچکا تھا، جنہوں نے الملک الصالح، سیف الدین اور گمشتگین کی متحدہ افواج کو ان کی توقعات کے خلاف بے ترتیب اور بزدلانہ پسپائی پر مجبور کردیا تھا۔ سلطان ایوبی کے فاتح کمانڈروں کے سامنے دشمن کی لاشیں پڑی تھیں، زخمی تڑپ رہے تھے، منہ زور گھوڑے اور زخمی گھوڑے اور اونٹ زخمیوں اور لاشوں کو کچل رہے تھے۔ دشمن کے جو سپاہی بھاگ نہیں سکے تھے، وہ ہتھیار پھینک کر الگ جمع ہوتے جارہے تھے۔ بے انداز تلواریں، ڈھالیں، برچھیاں، کمانیں، تیروں سے بھرے ہوئے ترکش، خیمے، فوجیوں کا ذاتی سامان جس میں نقدی اور قیمتی اشیاء بھی تھیں، دور دور تک بکھری ہوئی تھیں۔
سلطان صلاح الدین ایوبی اس مقام پر کھڑا تھا جو اس کے دشمن اتحادیوں کے سپریم کمانڈر سیف الدین غازی کا ہیڈکوارٹر اور اس کی رہائش گاہ تھی۔ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ سیف الدین اپنی افواج کو بکھرتا اور سلطان ایوبی کی فوج کو یقینی فتح کی طرف بڑھتا دیکھ کر کسی کو بتائے بغیر بھاگ گیا تھا۔ اس کا فرار خفیہ تھا اور شرمناک بھی۔ اس کے ساتھ اس کے حرم کی منتخب لڑکیاں تھیں، ناچنے گانے والیاں اور ان کے سازندے تھے۔ سونے کے سکوں اور دیگر نقدی کی بوریاں بھری ہوئی تھیں۔ یہ رقم افواج کی تنخواہ تھی اور یہ سلطان ایوبی کے آدمیوں کو خریدنے کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی۔ سیف الدین کی یہ رہائش گاہ دلکش کپڑوں کے خیموں، قناتوں اور شامیانوں سے بنی تھی۔ یہ کپڑے کی دیواروں اور چھتوں کا محل تھا۔ اس دور کے جنگجو حکمران ایسے محل اور تمام تر آسائشیں اور عشرت کا سامان ساتھ رکھتے تھے۔ سیف الدین بھی انہیں حکمرانوں میں سے تھا۔ اس نے شراب کی صراحیاں، رنگا رنگ پیالے اور مٹکے بھی ساتھ رکھے ہوئے تھے۔
سلطان ایوبی کپڑوں کے اس دلفریب محل کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر پلنگ پر پڑی، وہاں تلوار پڑی تھی۔ سیف الدین ایسا بوکھلا کر بھاگا تھا کہ تلوار ساتھ لے جانا بھول گیا تھا۔ سلطان ایوبی نے تلوار اٹھالی۔ نیام سے نکالی۔ تلوار چمک رہی تھی۔ سلطان ایوبی اس تلوار کو دیکھتا رہا۔ اپنے ساتھ کھڑے دو سالاروں کی طرف دیکھ کر اس نے کہا…… ''مسلمان کی تلوار پر جب عورت اور شراب کا سایہ پڑ جاتا ہے تو یہ لوہے کا بے کار ٹکڑا بن جاتی ہے۔ اس تلوار کو فلسطین فتح کرنا تھا مگر صلیب نے اسے اپنے گناہوں میں ڈبو کر اپنی طرح لکڑی کا ڈنڈا بنا ڈالا ہے جو تلوار شراب سے بھیگ جائے وہ لہو کے رنگ سے محروم رہتی ہے''۔
اس سے ملحق ایک وسیع اور خوش نما خیمے میں جواب، حسین اور نیم عریاں لڑکیاں ڈری سہمی ہوئی بیٹھی تھیں۔ انہیں اپنا انجام کچھ اور نظر آرہا تھا۔ فاتح فوج کے قبضے میں آکر وہ جانتی تھیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ ایسی دلکش لڑکیوں کو دیکھ کر کون درندہ نہیں بن جاتا لیکن انہیں جب سلطان ایوبی کا یہ حکم سنایا گیا کہ وہ آزاد ہیں اور وہ جہاں جانا چاہیں، بتا دیں تاکہ وہاں تک انہیں حفاظت اور باعزت بھیجا جاسکے تو وہ اور زیادہ خوف زدہ ہوگئیں۔ انہیں اپنی حفاظت میں لے لیا گیا۔ سلطان ایوبی میدان جنگ میں عورت کے وجود کو برداشت نہیں کیا کرتا تھا۔ ان لڑکیوں سے پوچھا گیا کہ ان کی تعداد کتنی تھی تو انہوں نے بتایا کہ ان میں سے دو لاپتہ ہیں۔ ان کے متعلق یہ بھی بتایا گیا کہ وہ مسلمان نہیں تھی اور وہی دو سیف الدین پر چھائی رہتی تھیں۔ یہی کہا جاسکتا تھا کہ وہ سیف الدین کے ساتھ بھاگ گئی ہیں۔
اس دور کی جنگوں میں عموماً یوں ہوتا تھا کہ جنگ ختم ہوتے ہی فاتح فوج مال غنیمت پر ٹوٹ پڑتی تھی۔ زیادہ تر فوجی شکست خوردہ فوج کے اعلیٰ کمانڈر کی رہائش گاہ یعنی مرکز پر دھاوا بولتے تھے کیونکہ وہاں خزانہ، شراب اور عورتیں ہوتی تھیں۔ ایک طوفانی ہڑ بونگ اور بعض اوقات دنگا فساد برپا ہوجاتا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے احکام سخت تھے۔ کسی افسر کو بھی اس کا عہدہ کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو، اجازت نہیں تھی کہ مال غنیمت کو ہاتھ لگائے۔ مال غنیمت سمیٹنے اور ایک جگہ جمع کرنے کا کام کسی ایک دستے کے سپرد کیا جاتا تھا۔ اس کی تقسیم سلطان ایوبی خود کرتا تھا۔ ترکمان کے معرکے کے بعد سلطان ایوبی نے مال غنیمت کے متعلق کوئی حکم نہ دیا۔ اس نے اپنے اور دشمن کے زخمیوں کو اٹھانے، مرہم پٹی کرنے اور جنگی قیدیوں کو الگ کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
 سلطان ایوبی میدان جنگ میں نظم ونسق اور ڈسپلن کی سختی سے پابندی کراتا تھا۔ اس معرکے میں دشمن بے ترتیبی سے بھاگا تھا۔ سلطان ایوبی کے بعض دستوں نے تعاقب بھی کیا تھا لیکن اس کی ٹریننگ ایسی تھی کہ تعاقب میں بھی دستے اور جیش ترتیب میں اور ایک دوسرے کے ساتھ راستے میں رہتے تھے۔ سلطان ایوبی نے تعاقب رکوا دیا اور دائیں اور بائیں پہلو کو اسی طرح تیار رکھا تھا جس طرح جنگ سے پہلے تھے۔ حملے میں اس نے دوسرے دستے، چھاپہ مار اور ریزرو کی کچھ نفری استعمال کی تھی۔ معرکہ ختم ہونے کے بعد بھی اس نے پہلوئوں کے دستوں کو سمیٹا نہیں تھا۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے محفوظہ (سٹرائیک فورس) کو فوراً واپس بلا کر اسے اپنی کمان میں لے لیا تھا۔
''دشمن کے سازوسامان اور جانوروں وغیرہ کے متعلق کیا حکم ہے؟'' ایک سالار نے سلطان ایوبی سے پوچھا اور کہا… ''لڑائی ہمارے حق میں ختم ہوچکی ہے''۔
''میں ابھی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''لڑائی ابھی ختم نہیںہوئی۔ میرے سبق اتنی جلدی بھول نہ جایا کرو۔ ہم نے دشمن کی مرکزیت اور جمعیت کو بکھیرا ہے۔ کیا ہمارے کسی دستے نے اس کے پہلوئوں پر حملہ کیا تھا؟… نہیں کیا تھا۔ مجھے شک ہے کہ اس کے دونوں نہیں تو ایک پہلو محفوظ ہے۔ وہ آخر تین فوجیں تھیں۔ ان کے سالار ایمان فروش ہوسکتے ہیں، ایسے اناڑی نہیں ہوسکتے کہ ان کے جو دستے لڑائی میں شامل نہیں ہوئے، انہیں وہ جوابی حملے کے لیے استعمال نہ کریں۔ ہوسکتا ہے ان کا محفوظہ بھی محفوظ اور تیار ہو''۔
''ان کی مرکزی کمان ختم ہوچکی ہے سلطان محترم!'' سالار نے کہا… ''انہیں حکم دینے والا کوئی نہیں رہا''۔
''صلیبیوں کا خطرہ بھی ہے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''گو مجھے کسی طرف سے بھی اطلاع نہیں ملی کہ صلیبی فوج کہیں قرب وجوار میں موجود ہے لیکن یہ علاقہ چٹانی ہے۔ یہاں ٹیلے اور وسیع نشیب بھی ہیں۔ بعض جگہوں پر جنگ بھی ہیں اور کچھ حصہ ریگستانی بھی ہے۔ نظر دور تک نہیں دیکھ سکتی۔ دشمن اور سانپ پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ مرتے مرتے ڈنک مار دیتا ہے۔ مجھے سیف الدین کے سالار مظفرالدین کی کوئی خبر نہیں۔ تم سب جانتے ہو کہ مظفرالدین اتنی آسانی سے بھاگنے والا سالار نہیں۔ میں اس کا انتظار کررہا ہوں۔ اپنی آنکھیں کھلی رکھو۔ دستوں کو یکجا کرلو… مظفرالدین اگر میرے سبق بھول نہیں گیا تو وہ مجھ پر ایک جوابی حملہ تو ضرور کرے گا''۔
٭ ٭ ٭
سلطان ایوبی کا خطرہ بے بنیاد نہیں تھا۔ آپ نے قرونِ حماة کی جنگ میں سیف الدین کے ایک سالار مظفرالدین بن زین الدین کا ذکر پڑھا ہے۔ مظفرالدین سلطان ایوبی کی فوج میں سالار رہ چکا تھا اور اس کی مرکزی کمان میں اس کے ساتھ بھی رہا تھا۔ اس لیے اسے اچھی طرح علم تھا کہ سلطان ایوبی جنگی منصوبہ کن عناصر کو سامنے رکھ کر تیار کرتا اور میدان جنگ میں اس میں کس طرح ردوبدل کرتا ہے۔ مظفرالدین کچھ تو ذہنی لحاظ سے پیدائشی جنگجو تھا، زیادہ تر تربیت سلطان ا یوبی سے حاصل کی، اس لیے اس میں وہ جوہر تھے جو اسے میدان جنگ سے منہ نہیں موڑنے دیتے تھے۔ وہ سیف الدین کا قریبی رشتہ دار (غالباً چچا زاد بھائی) تھا۔ جب سلطان ایوبی مصر سے دمشق آیا اور مسلمان امراء اس کے خلاف صف آرا ہوگئے تو مظفرالدین سلطان ایوبی کو بتائے بغیر اس کی فوج سے نکل کر اس کے دشمن کے کیمپ میں چلا گیا تھا۔
 ترکمان کے اس معرکے سے پہلے قرونِ حماة کے معرکے میں مظفرالدین نے سلطان ایوبی کے پہلو پر ایسا شدید حملہ کیا تھا جس کا مقابلہ سلطان ایوئی نے پہلو کے دستوں کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے کر کیا تھا۔ بہائوالدین شداد کی تحریر کے مطابق اگر سلطان ایوبی خود قیادت نہ کرتا تو مظفرالدین جنگ کا پانسہ پلٹ دیتا۔ سلطان ایوبی مظفرالدین کو فن حرب وضرب کا استاد مانتا تھا۔ اب ترکمان میں اسے جاسوسوں نے اس کے متحدہ دشمنوں کی افواج کے متعلق جو معلومات دی تھیں، ان میں ایک یہ بھی تھی کہ مظفرالدین بھی ان افواج کے ساتھ ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ وہ قلب میں ہے، دائیں ہے بائیں ہے یا وہ محفوظہ کا سالار ہے۔ سلطان ایوبی نے چند ایک جنگی قیدیوں سے اس کے متعلق پوچھا تھا۔ انہوں نے یہ تصدیق تو کردی تھی کہ مظفرالدین لشکر کے ساتھ ہے مگر یہ کسی کو علم نہیں تھا کہ کہاں ہے۔
''ہوسکتا ہے قیدیوں نے اس پر پردہ ڈال لیا ہو کہ مظفرالدین کہاں ہے''۔ سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں سے کہا… ''میں تسلیم نہیں کرسکتا کہ وہ لڑے بغیر بھاگ گیا ہوگا۔ وہ میرا شاگرد ہے۔ میں اس کی جنگی اہلیت سے بھی واقف ہوں اور اس کی فطرت سے بھی۔ وہ حملہ کرے گا اگر اسے یقین ہوا کہ وہ شکست کھا جائے گا پھر بھی وہ حملہ کرے گا۔ اسے حملہ کرنا چاہیے، ورنہ مجھے مایوسی ہوگی''۔
''صلاح الدین ایوبی یہ نہ کہے کہ مظفرالدین بھی بھاگ گیا ہے''۔ یہ آواز سیف الدین کے سالار مظفرالدین کی تھی جو ترکمان کے میدان جنگ سے دو اڑھائی میل دور سنائی دے رہی تھی…… ''میں لڑے بغیر واپس نہیں جائوں گا''۔
اس وقت جب سلطان ایوبی سیف الدین کے رہائشی خیموں میں کھڑا تھا، سیف الدین کا کوئی کمانڈر یہ پیغام لے کر مظفرالدین کے پاس پہنچا تھا کہ سلطان ایوبی کو کسی طرح قبل از وقت پتہ چل گیا تھا کہ اس پر حملہ آرہا ہے، اس لیے ہم دھوکے میں آگئے۔ اب یہاں لڑنا بے کار ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تم بھی واپس چلے جائو اور اپنے دستوں کو کسی اور بہتر جگہ لڑانے کے لیے بچا کر لے جائو۔ سیف الدین نے اس پیغام میں اپنے متعلق بتایا تھا کہ وہ کسی کو بتائے بغیر میدان جنگ سے جارہا ہے۔
''ہم آپ کا ہر حکم بجا لائیں گے''۔ مظفرالدین کے ایک نائب سالار نے اسے کہا… ''لیکن اس حالت میں جبکہ ہماری فوج کے لڑنے والے حصے مار ے گئے، زخمی یا قیدی ہوگئے یا بھاگ گئے ہیں۔ اس تھوڑی سی فوج سے جوابی حملہ کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا''۔
''میں ان دستوں کو ناکافی نہیں سمجھتا جو میرے پاس ہیں''۔ مظفرالدین نے کہا…… ''یہ اس فوج کا ایک چوتھائی ہیں جو ہم ساتھ لائے تھے۔ سلطان ایوبی اس سے بھی کم نفری سے لڑتا اور کامیاب ہوا کرتا ہے۔ میں اس کے پہلو پر حملہ کروں گا۔ میں اس اسے وہ چال نہیں چلنے دوںگا جو اس نے قرونِ حماة میں چلی تھی۔ تم سب حملے کے لیے تیار رہو''۔
''عالی مقام سیف الدین غازی والئی موصل تین فوجوں کی نفری سے ہار گئے ہیں''۔ نائب سالار نے کہا…… ''میں اپنے مشورے کو دہرائوں گا کہ اس تھوڑی سی نفری سے حملہ کرنا اسے مروانے والی بات ہے''۔
''میدان جنگ میں اپنے حرم ا ور شراب کے مٹکے ساتھ رکھنے والوں کے پاس تین کے بجائے دس فوجیں ہوں تو بھی ان کا انجام یہی ہوتا ہے جو والئی موصل سیف الدین کا ہوا ہے ''۔ مظفرالدین نے کہا…… ''میں بھی شراب پیتا ہوں لیکن یہاں پانی بھی نہ ملے تو میں پرواہ نہیں کرتا۔ سلطان ایوبی مجھے ایمان فروش اور غدار کہتا ہے لیکن میں اس لیے اس سے لڑنے سے منہ نہیں موڑوں گا کہ وہ مسلمان ہے۔ یہ دو سالاروں کی ٹکر ہوگی۔ یہ دو پہلوانوں کا دنگل ہوگا۔ یہ تیغ زنوں کا مقابلہ ہوگا…… اپنے دستوں کو تیار کرو اور یاد رکھو، صلاح الدین ایوبی کے جاسوسوں کی نظریں زمین کے نیچے بھی دیکھ سکتی ہیں۔ اپنے دستوں کو آج رات اور پرے لے چلو اور ہر طرف دور دور تک اپنے آدمی چھوڑ دو۔ وہ جسے مشکوک حالت میں گھومتا پھرتا دیکھیں، اسے پکڑ لیں''۔
: اس نے ایک جگہ منتخب کرلی تھی جہاں دستوں کو چھپایا جاسکتا تھا۔ حملے کے لیے اس نے کوئی دن اور وقت مقرر نہ کیا۔ اپنے نائب سالاروں سے کہا…… ''سلطان ایوبی میں لومڑی کی چالاکی اور خرگوش کی پھرتی ہے۔ ) مجھے میرے مخبروں نے بتایا ہے کہ اس نے ابھی مال غنیمت سمیٹا نہیں اور اس نے اپنی فوج کے پہلوئوں کو بھی نہیں سمیٹا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پیش قدمی نہیں کرے گا اور یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہمارے جوابی حملے کا خطرہ محسوس کررہا ہے۔ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں وہ کس انداز سے سوچا کرتا ہے۔ میں اسے یہ دھوکہ دوں گا کہ ہم سب بھاگ گئے ہیں اور اب حملے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ یہ عقل اور فہم وفراست کی جنگ ہوگی۔ وہ دو دنوں سے زیادہ انتظار نہیں کرے گا۔ اس کی طرح میں بھی اپنے جاسوسوں کو اس کی نقل وحمل دیکھنے کے لیے استعمال کروں گا۔ جونہی وہ مال غنیمت سمیٹنے لگے گا اور اس کی توجہ دائیں بائیں سے ہٹ جائے گی۔ ہم اس کے پہلو پر حملہ کردیںگے''۔
یہی وہ خطرہ تھا جسے سلطان ایوبی محسوس کررہا تھا۔
٭ ٭ ٭
سیف الدین کے لشکر پر جس طرح سلطان ایوبی نے بے خبری میں اس کی توقعات اور اس کے خوابوں کے خلاف حملہ کیا تھا، اس کی تفصیلات پچھلی نشست میں سنائی جاچکی ہیں۔ آپ نے پڑھا ہے کہ سلطان ایوبی نے ایک تو اپنے دستے سیف الدین کی فوج کے دائیں بائیں سے اس کے عقب میں بھیج دئیے تھے، ان کے علاوہ اس نے اپنے چھاپہ مار بھی روانہ کردئیے تھے۔ یہ اس کی کمانڈو فورس تھی جس کے ہر کمانڈر اور سپاہی میں غیرمعمولی ذہانت، دلیری اور پھرتی تھی اور یہ تربیت یافتہ جاسوس بھی تھے۔ اس فورس نے چارچار سے لے کر بارہ بارہ کی ٹولیوں میں تقسیم ہوکر دشمن کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔ ان میں ایک ٹولی بارہ سپاہیوں کی تھی جس کے صرف تین سپاہی اور ٹولی کاکمانڈر الناصر زندہ تھے۔
الناصر اپنی ٹولی کے ساتھ ترکمان کے معرکے سے ہی سیف الدین کی متحدہ فوج کے دور پیچھے چلا گیا تھا۔ اس کا نشانہ عموماً دشمن کی رسد ہوتی تھی۔ اب کے بھی وہ اپنی ٹولی کو گھوڑوں پر لے گیا تھا۔ اس کے پاس فیتے والے (آتشیں) تیر تھے۔ تھوڑا سا آتش گیر مادہ تھا۔ برچھیاں، تلواریں اور خنجر تھے۔ رسد بہت دور تھی۔ الناصر کو زمین نے یہ سہولتیں مہیا کی تھیں کہ یہ میدان یا ریگزار نہیں بلکہ دور دور تک چٹانیں، ٹیلے اور نشیبی علاقے تھے جن میں چھپنا آسان تھا۔ دن کے دوران ہدف کے قریب گھوڑے چھپائے جاسکتے تھے۔ اتحادیوں کی افواج کی رسد جس میں فوج کے لیے اناج اور جانوروں کے لیے خشک گھاس اور دانہ وغیرہ تھا، پیچھے آرہا تھا۔ اس سامان میں تیروکمان اور برچھیاں وغیرہ بھی تھیں۔ الناصر نے پہلی ہی رات رسد پر کامیاب چھاپہ مارا تھا۔ بہت سی رسد آتشیں تیروں سے جل گئی تھی۔
دن کو وہ اپنی ٹولی کے ساتھ ایک جگہ چھپا رہا تھا مگر سویا نہیں تھا۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ دشمن کے فوجی کھڈ نالوں میں اور ٹیلوں کی اوٹ میں اس کی پارٹی کو ڈھونڈ رہے تھے۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو ادھر ادھر موزوں بلندیوں پر بٹھا دیا تھا۔ انہوں نے کمانوں میں تیر ڈال رکھے تھے۔ دشمن کے فوجی دور سے ہی واپس چلے گئے تھے۔ سورج غروب ہونے کے بعد اس نے چھپ کر رسد کا قافلہ دیکھا۔ قافلے نے پڑائو ڈال دیا تھا مگر اس رات شب خون آسان نظر نہیں آتا تھا۔ دشمن نے اردگرد گشتی پہرے کا بڑا سخت انتظام کردیا تھا۔ یہ پہرہ پیدل بھی تھا اور گھوڑ سوار بھی۔ اس کے باوجود الناصر نے شب خون کا ارادہ کرلیا۔ دشمن کی ابھی بہت سی رسد باقی تھی۔ یہ سلطان ایوبی کا ایک تباہ کن طریقہ کار تھا۔ دشمن کی رسد کو چھاپہ ماروں سے تباہ کرادیا کرتا تھا۔ اس کے لیے اس نے ایسے فوجی تیار کررکھے تھے جو جذبے کے لحاظ سے جنونی اور خبطی تھے۔ ان کی دلیری غیر معمولی اور ذہانت اوسط درجہ سپاہیوں سے خاصی زیادہ تھی۔ ان جانبازوں کی دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ اتنی دور جاکر بھی جہاں انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا، وہ فرض شناسی کا جانبازانہ مظاہرہ کرتے تھے۔
 الناصر نے رات کو گھوڑے وہیں بندھے رہنے دئیے جہاں دن کو چھپائے تھے۔ اپنی پارٹی کو پیدل لے گیا۔ ایک جگہ سے وہ دشمن کی رسد کے پڑائو میں داخل ہوگیا۔ اس نے سامان کے انباروں پر آتش گیر مادہ چھڑک کر آگ لگا دی۔ اپنی ٹولی کو بکھیر دیا۔ سپاہیوں نے شعلوں کی روشنی میں بھاگتے دوڑتے سپاہیوں کو تیروں کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ دشمن کے فوجی انہیں تلاش کرنے لگے۔ چھاپہ مار کب تک چھپ سکتے تھے۔ ایک ایک کرکے پکڑے اور مارے گئے۔ ان میں سے وہی تین زندہ رہے جو الناصر کے ساتھ تھے۔ انہوں نے بہت تباہی مچائی تھی۔ رسد کے ساتھ جو پہرہ دار اور دیگر لوگ تھے، انہوں نے ان سب کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی۔ الناصر نے اپنے تین ساتھیوں کو الگ نہ ہونے دیا۔ وہ شعلوں سے دور ہٹ کر اندھیرے میں گھوڑا گاڑیوں اور خیموں کی اوٹ میں چھپتے، اپنے قریب سے گزرتے سپاہیوں سے بچتے کسی اور ہی سمت کو نکل گئے۔
الناصر نے آسمان کی طرف دیکھا۔ اسے کوئی ستارہ نظر نہ آیا۔ چھاپہ ماروں کو ستاروں سے سمت معلوم کرنے کی ٹریننگ دی جاتی تھی مگر اس رات آسمان گردوغبار کی طرح کے بادلوں میں چھپا ہوا تھا۔ الناصر رسد کے پڑائو سے دور نکل گیا۔ اسے دشمن کی جلتی ہوئی رسد اور سازوسامان کے شعلوں کی سرخی دکھائی دے رہی تھی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کے باقی نو سپاہی زندہ ہیں یا شہید ہوچکے ہیں۔ اس نے دل ہی دل میں ان کی سلامتی کے لیے دعا کی اور اپنے تین ساتھیوں کو ساتھ لیے اندازے کے مطابق اس طرف چل پڑا جہاں اس کی ٹولی کے گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ وہ رات بھر چلتا رہا۔ دشمن کی رسد کے شعلے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ فضا میں شعلوں کی جو سرخی نظر آتی تھی، وہ بھی غائب ہوگئی۔ اگر یہ سرخی نظر آتی رہتی تو وہ اپنے ٹھکانے تک پہنچ سکتا تھا۔ یہ بھی نہ رہی اور وہ اندھا دھند چلتا گیا۔
زمین کے خدوخال بدل گئے تھے۔ درخت تو کوئی تھا نہیں۔ اس نے پائوں تلے سخت زمین کے بجائے ریت محسوس کی۔ ٹیلے اور چٹانیں بھی نہیں تھیں۔ ریت نے اس کے اور اس کے ساتھیوں کے پائوں وزنی کردئیے۔ پانی اور کھانے کی اشیاء گھوڑوں کے ساتھ تھیلوں میں بندھی تھیں اور گھوڑے نہ جانے کہاں تھے۔ اس نے پیاس محسوس کی۔ وہ بہت تھک گیا تھا۔ اس کے تینوں ساتھی بھی پیاس کی شکایت کرچکے تھے۔ ان سب کی رفتار بھی ختم ہوتی جارہی تھی۔ الناصر نے وہیں رک جانا ور آرام کرلینا مناسب سمجھا۔ اس کے ساتھیوں نے اس امید پر چلتے رہنے کا مشورہ دیا کہ کہیں پانی مل جائے گا۔ اس خطے میں پانی کی قلت تو نہیں تھی لیکن وہ اس خطے کے اس حصے میں جانکلے تھے جو ریگزار تھا۔ وہاں پانی کا نام ونشان نہ تھا۔ وہ کچھ دیر اور چلے اور تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ 
الناصر کی آنکھ کھلی تو اس کے تینوں سپاہی بے ہوشی کی نیند سوئے ہوئے تھے۔ سورج افق سے اٹھ آیا تھا۔ الناصر نے چاروں طرف دیکھا۔ وہ ریت کے سمندر میں کھڑا تھا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ وہ تو صحرائوں میں جناپلا اور صحرائوں میں اس نے لڑائیاں لڑی تھیں۔ وہ ریگزار سے ڈرنے والا نہیں تھا۔ اس کی گھبراہٹ کی وجہ یہ تھی کہ اسے توقع نہیں تھی کہ یہاں ریگستان ہوگا۔ گھبراہٹ کی وجہ یہ بھی تھی کہ افق تک پانی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔ پیاس سے وہ حلق میں جلن اور چبھن محسوس کررہا تھا۔ اپنے ساتھیوں کی حالت کا وہ اندازہ کرسکتا تھا۔ اس نے سورج کے مطابق اس سمت دیکھا جدھر ترکمان تھا۔ اسے پہاڑیوں کی ٹیڑھی سی لکیر نظر آئی۔ وہ سیدھا اس سمت نہیں جاسکتا تھا کیونکہ راستے میں دشمن کی فوج تھی۔
اس نے اپنے ساتھیوں کو جگایا۔ وہ اٹھے تو ان کے چہروں پر بھی گھبراہٹ اور تذبذب کے آثار پیدا ہوگئے۔
''ہم دو دن اور بھوکے اور پیاسے رہ سکتے ہیں''۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا… ''اور ان دو دنوں میں ہم اگر منزل تک نہ پہنچ سکے تو پانی تک ضرور پہنچ جائیں گے''۔
تینوں نے اپنے اپنے خیال اور اندازے کا اظہار کیا مگر وہ بہت دور نکل گئے تھے۔ اگر ان کے پاس گھوڑے ہوتے تو مشکل ذرا آسان ہوجاتی۔ نیند نے ان کے جسموں کو کچھ تازگی دے دی تھی۔
: ''ساتھیو!'' الناصر نے کہا…… ''خدائے ذوالجلال نے ہمیں جس امتحان میں ڈال دیا ہے، اس میں پورا اترنا اور کوئی گلہ شکوہ نہ کرنا ہمارا فرض ہے''۔
''یہاں رکے رہنا تو کوئی علاج نہیں''…… ایک ساتھی نے کہا…… ''پیشتر اس کے کہ سورج ہمارے سروں پر آکر ہمیں جلانے لگے، چل پڑو، اللہ تعالیٰ راستہ دکھائے گا''۔
وہ چل پڑے۔ سمت کا انہوں نے محض اندازہ کیا تھا۔ انہیں دور کا چکر بھی کاٹنا تھا۔ سورج اوپر آتا رہا۔ ریت گرم ہوتی گئی اور تھوڑی دور یوں نظر آتا جیسے یہ ریت نہیں پانی ہو۔ زمین سے لرزتا ہوا دھواں سا اوپر کو اٹھ رہا تھا۔ وہ چاروں صحرا کے قہر سے واقف تھے اور عادی بھی۔ انہیں سراب بھی نظر آنے لگے مگر صحرا کے اس دھوکے سے واقف ہونے کی بدولت انہوں نے ہر سراب کو نظر انداز کیا۔
''ساتھیو!'' الناصر نے کہا…… ''ہم ڈاکو نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سزا نہیں دے گا۔ اگر ہم مرگئے تو یہ موت نہیں شہادت ہوگی۔ دل میں خدا کو یاد کرتے چلو''۔
''اگر کوئی ایسا مسافر مل گیا جس کے پاس پانی ہوا تو میں ڈاکہ ڈالنے سے گریز نہیں کروں گا''…… ایک سپاہی نے کہا۔
سب ہنس پڑے اور سب نے محسوس کیا کہ ہنسنے کے لیے بھی انہیں طاقت صرف کرنی پڑی تھی…… پھر سورج ان کے سروں پر آگیا۔ اوپر سے سورج اور نیچے سے ریت ان سب کو جلانے لگی۔ الناصر ایک جنگی ترانہ گنگنانے لگا۔ ترانہ ختم ہوگیا تو انہوں نے ایک آواز اور ایک لے میں ''لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ'' کا مترنم ورد شروع کردیا۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ ریت کے چمکتے ہوئے ذرے ان کے نقوش کو مٹاتے جارہے تھے۔
سورج دوسری سمت نیچے اترنے لگا۔ چاروں کی آواز دھیمی ہوتی جارہی تھی۔ قدم وزنی اور رفتار گھٹ گئی تھی۔ ہونٹ خشک ہوگئے اور منہ بند نہیں ہوتے تھے۔ ان کے سائے جب دوسرے طرف بڑھنے لگے تو ان کا ایک ساتھی خاموش ہوگیا کچھ دیر بعد دوسرے کی بھی زبان جواب دے گئی۔ الناصر اور اس کا تیسرا ساتھی سرگوشیوں میں ''لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ''کا ورد کررہے تھے۔ کچھ دور گئے تو سرگوشیاں بھی خاموش ہوگئیں۔
''ساتھیو!''…… الناصر نے جسم کی بچی کھچی طاقت صرف کرکے کہا…… ''حوصلہ نہ ہارنا۔ ہمارے جسموں میں ایمان کی بہت نمی ہے۔ ہم ایمان کی طاقت سے زندہ رہیں گے''۔ اس نے اپنے ساتھیوں کے چہرے کو باری باری دیکھا، وہاں خون کا نام ونشان نہیں تھا۔ سب کی آنکھیں اندر کو چلی گئیں تھیں۔
سورج غروب ہوگیا۔ جوں جوں شام تاریک ہوتی گئی، ریت ٹھنڈی ہوگئی۔ الناصر نے ساتھیوں کو رکنے نہیں دیا۔ خنکی میں ذرا تیز چلا جاسکتا تھا۔ اگر وہ کوئی عام مسافر ہوتے تو کبھی کے گر چکے ہوتے۔ وہ فوجی اور چھاپہ مار تھے۔ ان کے جسم عام انسانوں کی نسبت کہیں زیادہ صعوبتیں برداشت کرسکتے تھے۔ وہ چلتے گئے اور کچھ فاصلہ طے کر الناصر نے انہیں رکنے اور سوجانے کو کہا۔
٭ ٭ ٭
صبح کاذب کے قریب الناصر جاگا۔ آسمان صاف تھا۔ ستاروں کو دیکھ کر اس نے اندازہ کیا کہ رات کتنی رہتی ہے۔ ایک ستارے کو دیکھ کر اس نے سمت طے کی اور اپنے ساتھیوں کو جگا کر انہیں ساتھ لیا اور سب چل پڑے۔ ان کی رفتار اچھی تھی مگر پیاس انہیں بولنے نہیں دے رہی تھی۔
''یہ ریگستان اتنا وسیع نہیں ہوسکتا''۔ الناصر نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ زبان سے نکالے…… ''آج ختم ہوجائے گا، ہم آج پانی تک پہنچ جائیں گے''۔
پانی جو دن کو سراب تھا، اندھیرے میں امید بن گیا اور وہ اس امید کی طاقت پر چلتے گئے۔ صبح کا اجالا سپید ہوا پھر افق سے سورج ابھرا۔ ان جانباز مسافروں کو سب سے پہلا صدمہ یہ ہوا کہ پانی کی امید دم توڑ گئی۔ ریت تو نہیں تھی، زمین سخت تھی۔ اس میں دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ یہ پھٹی پھٹی زمین تھی پائوں کی جہاں ٹھوکر لگتی تھی۔ وہاں سے ریت اور مٹی اڑتی تھی۔ آٹھ دس میل دور زمین سے ابھرے ہوئے ستون اور مینار سے نظر آتے تھے۔ یہ مٹی کے ٹیلے اور ریتلی چٹانوں کی چوٹیاں تھیں۔ درخت ایک بھی نظر نہیں آتا تھا۔ زمین کی حالت بتاتی تھی کہ صدیوں سے پیاسی ہے اور یہ کسی انسان کا خون پینے سے گریز نہیں کرے گی۔
 الناصر نے اپنے ساتھیوں کے چہروں کا جائزہ لیا۔ اس سے اسے اندازہ ہوگیا کہ اس کے اپنے چہرے کی حالت کیسی ہے۔ اس کے ایک ساتھی کی زبان کچھ باہر نکل آئی تھی۔ ہونٹوں پر ہلکی ہلکی سوجن تھی۔ یہ علامتیں خوفناک تھیں۔ صحرا نے خراج وصول کرنا شروع کردیا تھا۔ سلطان ایوبی کے اس جانباز کا خون پیاسی زمین کی بھینٹ چڑھنے لگا تھا۔ دوسرے دو سپاہیوں کی ظاہری حالت یہ تو نہیں تھی لیکن صاف نظر آرہا تھا کہ میناروں جیسے ٹیلوں تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ الناصر ان کا کمانڈر تھا۔ اپنی ذمہ داری کا اسے اتنا زیادہ احساس تھا کہ اس کا دماغ اس کے قابو میں تھا۔ اس کی جسمانی حالت اپنے ساتھیوں سے بہتر نہیں تھی۔ اس نے بولنے کی کوشش کی۔ یہ اس کی قوت ارادی تھی کہ اس کے منہ سے چند الفاظ نکل آئے۔ اس نے اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی مگر یہ ایک ناکام کوشش تھی۔
جوں جوں سورج اوپر اٹھتا آرہا تھا، زمین کے غ یرمرئی شعلے بلند ہوتے جارہے تھے۔ ان چاروں کی رفتار کا اب یہ حال تھا کہ وہ قدم اٹھاتے نہیں، پائوں گھسیٹتے تھے، جس سپاہی کی زبان باہر نکل آئی تھی اس کی برچھی اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ پھر اس نے کمربند سے تلوار کھولی اور پھینک دی۔ اس نے یہ حرکات بے خیالی میں کی تھیں۔ اس کے ہاتھ اپنے آپ کام کررہے تھے اور وہ ناک کی سیدھ میں چلا جارہا تھا۔ یہ صحرا کا ایک ظالمانہ اثر ہوتا ہے کہ بھٹکا ہوا پیاسا مسافر نیند میں مختلف حرکات کرنے کے انداز سے اپنے جسم سے بوجھ پھینکنا شروع کردیتا ہے۔ مختلف اشیاء پھینکنے کے بعد وہ اپنے جوتے بھی اتار پھینکتا ہے۔ وہ کہیں رکتا نہیں، چلتا جاتا اور چیزیں پھینکتا جاتا ہے۔ صحرائی مسافر جب جگہ جگہ ایسی اشیاء پڑی دیکھتے ہیں تو وہ اس توقع پر آگے بڑھتے ہیں کہ کچھ ہی دور آگے ایک لاش پڑی ہوگی یا اس بدنصیب کی ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوگا جو راستے میں اپنی آخری متاع بکھیرتا گیا ہے۔
صحرا نے الناصر کے ایک ساتھی کو اس مرحلے میں داخل کردیا تھا جہاں وہ دنیا کی اشیاء اور اپنے فرائض سے دستبردار ہورہا تھا۔ الناصر نے اس کی برچھی اور تلوار اٹھالی اور اس سپاہی سے بڑے پیار سے کہا…… ''اتنی جلدی نہ ہارو میرے عزیز دوست! اللہ کا سپاہی مرجاتا ہے، ہتھیار نہیں پھینکا کرتا۔ اپنی عزت اور عظمت کو ریت میں نہ پھینکو''۔
اس کے ساتھی نے اسے دیکھا، الناصر اسے دیکھتا رہا۔ سپاہی نے اچانک قہقہہ لگایا اور سامنے دیکھتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ بڑی جاندار آواز میں بولا…… ''پانی…… وہ دیکھو…… باغ…… پانی مل گیا''…… اور وہ آگے کو دوڑ پڑا۔
وہاں پانی تھا نہ پانی کا سراب۔ وہ زمین ایسی تھی جہاں سراب نظر نہیں آیا کرتے۔ سراب ریت کی چمک کا ہوتا ہے۔ اس پر صحرا کا دوسرا ظالمانہ اثر ہونے لگا تھا۔ یہ تھے واہمے اور ایسے تصورات جو حقیقی روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ پانی کی جھیلیں اور باغ نظر آتے ہیں۔ عمارتیں دکھائی دیتی ہیں، یوں بھی نظر آتا ہے جیسے ایک دو میل دور شہر ہے۔ قافلے جاتے یا اپنی طرف آتے دکھائی دیتے ہیں۔ ناچنے اور گانے والیاں بھی نظر آتی ہیں…… اس بے رحم ویرانے نے الناصر کے ایک ساتھی کو فریب دینے شروع کردئیے تھے۔ صحرا اس کی جان سے کھیلنے لگا تھا۔ یہ شاید صحرا کی رحم دلی بھی ہے کہ کسی مسافر کی جان لینے سے پہلے اسے بڑے ہی حسین اور دلفریب تصوروں میں الجھا دیتا ہے تاکہ مرنے والا اذیت سے محفوظ رہے۔
الناصر کا ساتھی آگے کو دوڑ پڑا۔ وہی سپاہی جو قدم گھسیٹ رہا تھا، تازہ دم آدمی کی طرح دوڑ رہا تھا مگر یہ دوڑ اس چراغ کی مانند تھی جو بجھنے سے پہلے آخری بار ٹمٹمایا ہو۔ الناصر اس کے پیچھے دوڑا اور اسے پکڑ لیا۔ اس کے دوسرے دو ساتھیوں میں ابھی کچھ دم باقی تھا۔ وہ بھی دوڑے اور اپنے ساتھی پر قابو پالیا۔ وہ ان سے آزاد ہونے کو تڑپ رہا تھا اور چلا رہا تھا۔ ''چلو جھیل تک چلو، وہ دیکھو، کتنے غزال جھیل سے پانی پی رہے ہیں''۔
ساتھیوں نے اسے پکڑے رکھا اور وہ آہستہ آہستہ، قدم گھسیٹتے چلتے گئے۔ الناصر نے وہ کپڑا جو اس کے سر پر رکھا تھا، اس کے چہرے پر بھی ڈال دیا تاکہ وہ کچھ دیکھ ہی نہ سکے۔
٭ ٭ ٭
: سورج سر کے عین اوپر آگیا تھا جو ایک اور سپاہی نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا…… ''باغ میں رقاصہ ناچ رہی ہے۔ لعنت بھیجو پانی پر، چلو ناچ دیکھیں، حسن دیکھو…… چلو دوستو، وہاں پانی مل جائے گا۔ لوگ کھانا کھا رہے ہیں۔ میں سب کو جانتا ہوں…… چلو…… چلو''۔ اور وہ دوڑ پڑا۔
جس سپاہی کو پہلے واہمہ نظر آیا تھا، وہ کچھ دیر خاموش رہا تھا، اس لیے ساتھیوں نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ وہ اپنے ساتھی کو دوڑتا دیکھ کر اس کے پیچھے دوڑ پڑا اور چلانے لگا…… ''رقاصہ بہت خوبصورت ہے۔ میں نے اسے قاہرہ میں دیکھا تھا۔ وہ مجھے جانتی ہے۔ میں اس کے ساتھ کھانا کھائوں گا۔ اس کے ساتھ شربت پیوں گا''۔
الناصر کا سر ڈول گیا۔ وہ صحرا کی صعوبتیں برداشت کرسکتا تھا، اپنے ساتھیوں کی یہ حالت اس کی برداشت سے باہر تھی۔ انہیں سنبھالنا اس کے بس سے باہر ہوا جارہا تھا۔ اس کی اپنی جسمانی حالت بھی دگرگوں ہوگئی تھی۔ اس کے ساتھ اب ایک ہی ساتھی رہ گیا تھا جس کا دماغ ابھی ٹھکانے تھا۔ جسمانی لحاظ سے وہ بے شک ختم ہوچکا تھا۔
ان کے جو دو ساتھی باغ اور رقص کے واہمے کے پیچھے دوڑے تھے، چند قدم دوڑ کر گر پڑے۔ انہیں گرنا ہی تھا۔ ان کے جسموں میں رہا ہی کیا تھا۔ الناصر اور اس کے ساتھی نے انہیں بٹھا کر اپنے سہارے لے لیا اور ان پر کپڑوں کا سایہ کردیا۔ ان کی آنکھیں بند ہوگئی تھیں اور سرڈول رہے تھے۔
''تم اللہ کے سپاہی ہو''۔ الناصر نے دھیمی سی آواز میں کہنا شروع کیا۔ ''تم قبلہ اول اور خانہ کعبہ کے پاسبان ہو۔ تم نے اسلام کے دشمنوں کی کمر توڑ دی ہے۔ تم سے کفار ڈرتے اور کانپتے ہیں۔ تم شعلوں کو روندنے والے مرد مومن ہو۔ اس صحرا کو، پیاس کو اور سورج کے قہر کو تم کیا سمجھتے ہو، تم پر اللہ کی رحمت برس رہی ہے۔ تمہیں فرشتے بہشت کی ٹھنڈک پہنچا رہے ہیں…… تمہارا جسم پیاسا ہے، روح پیاسی نہیں۔ ایمان والے پانی کی ٹھنڈک سے نہیں، ایمان کی حرارت سے زندہ رہتے ہیں''۔
دونوں نے آنکھیں کھول دیں اور الناصر کو دیکھا۔ الناصر نے مسکرانے کی کوشش کی۔ اس نے جذبات کے غلبے سے جو باتیں کہی تھیں، وہ اثر کرگئیں۔ دونوں سپاہی تصوروں اور واہموں کی دنیا سے نکل کر حقیقت میں آگئے۔ وہ اٹھے اور نہایت آہستہ آہستہ چل پڑے۔
صبح روانگی کے وقت انہیں ٹیلوں اور ریتلی چٹانوں کے جو ستون اور مینار نظر آئے تھے، وہ قریب آگئے تھے۔ اب وہ بہت بڑے بڑے ہوگئے تھے۔ امید رکھی جاسکتی تھی کہ وہاں پانی ہوگا۔ وہاں نشیب اور کھڈ نالے بھی ہوسکتے تھے۔ الناصر نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ پانی کے قریب آگئے ہیں اور آج شام سے پہلے پانی مل جائے گا مگر وہ زمین اور وہ ماحول ایسی اور اتنی گرم حقیقت تھی کہ پانی کی امید شبنم کے قطرے کی طرح اڑ گئی۔ وہ ٹیلوں اور ٹیکریوں کے اور قریب چلے گئے۔ اچانک ایک سپاہی دوڑ اٹھا۔ وہ نعرے لگا رہا تھا…… ''میرا گائوں آگیا ہے۔ میں سب کے لیے کھانا پکوانے جارہا ہوں۔ کنوئیں سے میرے گائوں کی لڑکیاں پانی نکال رہی ہیں''۔
اس کے پیچھے دوسرا سپاہی دوڑ پڑا اور چلانے لگا…… ''مرغا بیاں…… مرغابیاں''…… وہ دوڑتے دوڑتے منہ کے بل گرا اور ہاتھ سے مٹی اور ریت اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔
الناصر اور اس کا تیسرا ساتھی دوڑے۔ اس کے منہ سے مٹی نکالی۔ کپڑے سے منہ صاف کیا اور اسے اٹھایا، مگر وہ چلنے کے قابل نہیں تھا۔ دوسرا سپاہی بھی گر پڑا تھا اور پیٹ کے بل رینگتے ہوئے کہہ رہا تھا…… ''کنوئیں سے پانی پی لوں پھر تمہارے لیے کھانا پکوائوں گا''۔
الناصر نے اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے اور آسمان کی طرف منہ کرکے کہا۔ ''اے خدائے ذوالجلال! ہم تیرے نام پر لڑنے اور مرنے آئے تھے، کوئی گناہ نہیں کیا۔ کہیں ڈاکہ نہیں ڈالا، اگر کفار سے لڑنا گناہ ہے تو ہمیں بخش دے، بخش دے صحرائوں کو آگ لگانے والے خدا! میری جان لے لے۔ میرے خون کو پانی بنا دے۔ میرے ساتھی پی کر زندہ رہیں۔ انہوں نے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبلہ اول کے غاصبوں کے خلاف لڑائی لڑی ہے۔ میرے خون کو پانی بنا اور انہیں پلا دے''۔
: اس کے ساتھی آہستہ آہستہ اٹھے اور ہاتھ آٰگے کو پھیلا کر یوں چلنے لگے جیسے انہیں کچھ نظر آرہا ہو، جس تک وہ پہنچنا چاہتے ہوں۔ الناصر اور اس کے ساتھی نے جو ذہنی لحاظ سے ابھی ٹھیک تھا، اپنے ساتھیوں کو دیکھا تو وہ بھی قدم گھسیٹنے لگے۔ اس وقت الناصر کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آیا اور چھٹ گیا، جیسے سیاہ گھٹا کا ٹکڑا چاند کے آگے سے گزر گیا ہو۔ اندھیرا گزر جانے کے بعد اسے محسوس ہوا جیسے اسے سبزہ زار سا نظر آیا ہو مگر اس کے سامنے ٹیلوں اور چٹانوں کے مینار اور ستون تھے۔ اس نے ایک لمحے کے لیے سبزہ دیکھا ضرور تھا۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ وہ سمجھ گیا کہ صحرا اسے بھی فریب دینے لگا ہے۔
٭ ٭ ٭
وہ ٹیلوں کے اندر جارہے تھے۔ یہ ٹیلے چوڑے تھے، کوئی اونچا تھا۔ کہیں کہیں کوئی ریتلی چٹان بھی نظر آتی تھی۔ وہ اور آگے گئے تو کسی ندی یا دریا کا خشک پاٹ آگیا۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ صدیوں سے یہاں سے پانی نہیں گزرا۔
الناصر آگے آگے اور اس کے ساتھی اس کے پیچھے پیچھے جارہے تھے۔ الناصر چلتے چلتے رک گیا۔ اس نے اپنے سرکو زور سے جھٹکا دیا، مگر اسے جو کچھ دکھائی دیا تھا، وہ بدستور نظر آتا رہا…… خشک پاٹ کے بائیں کنارے پر ریتلی چٹان تھی جو اوپر جاکر آگے کو جھک آئی تھی۔ شاید ایک دو صدیاں پہلے اس کے دامن سے پانی ٹکراتا رہا تھا۔ وہاں سے یہ پانی کی ماری ہوئی تھی۔ اس کی شکل برآمدی کی سی بنی ہوئی تھی۔ چھت خاصی اونچی تھی اور وہاں سایہ تھا۔ اس سائے میں دو گھوڑے کھڑے تھے اور ان کے قریب دو جوان لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ان کے رنگ گورے اور نقش ونگار بہت دلکش تھے۔
الناصر نے ان سے دور رک کر اپنے ساتھیوں سے پوچھا… ''تمہیں بھی وہ دولڑکیاں اور دو گھوڑے نظر آرہے ہیں؟''
اس کے وہ دو ساتھی جو واہموں اور تصوروں کا شکار ہوچکے تھے، خاموش رہے۔ ایک نے کہا…… ''دھند ہے، کچھ بھی نظر نہیں آرہا''…… اور وہ گر پڑا۔
جاری ھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں