داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 65 - اردو ناول

Breaking

بدھ, دسمبر 11, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 65

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔65- صلیب کے سائے میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سب گھوڑوں پر سوار ہوگئے۔ جوردیک کا گھوڑا مرچکا تھا۔ اس نے ایک محافظ کا گھوڑا لے لیا اور یہ قافلہ چل پڑا۔ 
وہ چٹانی علاقے سے نکلنے والے تھے کہ سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دئیے۔ سب نے اپنے گھوڑوں کو ایڑی لگائیں اور نظر آگیا کہ دو گھوڑ سوار پوری رفتار سے حلب کی سمت بھاگے جارہے تھے۔ ان کی کمانیں اور ترکش صاف نظر آرہے تھے۔ وہ یقینا یہاں سے بھاگے تھے۔
''یہ ہوسکتے ہیں تمہارے قاتل!'' ایک نقاب پوش نے کہا اور گھوڑے کو ایڑی لگادی۔ دوسرے نقاب پوش نے بھی گھوڑا دوڑا دیا۔ دونوں نے تلواریں نکال لیں۔ لڑکی وہیں رہی۔
تمام محافظوں نے گھوڑے تعاقب میں ڈال دئیے۔ ان میں سب سے زیادہ تیز گھوڑے نقاب پوشوں کے تھے۔ آگے کچھ علاقہ ریت کی ڈھیر یوں اور گھاٹیوں کا تھا۔ بھاگنے والے سواروں نے گھوڑے موڑے، نقاب پوش تجربہ کار سوار معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے گھوڑوں کا رخ موڑ کر فاصلہ کم کرلیا۔ بھاگنے والوں نے کندھوں سے کمانیں اتار لیں اور ان میں ایک ایک تیر ڈال لیا۔ گھوڑوں کے رخ بدل کر انہوں نے تعاقب کرنے والوں پر تیر چلائے۔ تیر خطا گئے مگر تعاقب میں خطرہ پیدا کرگئے۔ نقاب پوش پہنچ گئے۔ فاصلہ چند گز رہ گیا تو بھاگنے والوں نے تیر چلانے کی کوشش کی مگر نقاب پوشوں نے انہیں مہلت نہ دی۔ ایک نے بھاگنے والے گھوڑے کے پیچھے حصے میں تلوار دی، گھوڑا بے قابو ہوگیا۔ دوسرے نے دوسرے بھاگنے والے پر تلوار کا وار کیا تو اس کا ایک بازو صاف کاٹ دیا۔ دوسرے کا گھوڑا زخمی ہوکر بے لگام ہوگیا تھا۔ اسے محافظوں نے پکڑ لیا۔
انہیں جب جوردیک کے سامنے لے جایا گیا تو اصل صورت واضح ہوگئی۔ نقاب پوشوں نے نقاب اتار دئیے اور انہوں نے بتایا دیا کہ وہ سلطان ایوبی کے جاسوس ہیں۔ ان میں ایک خلت تھاا ور دوسرا اس کا ساتھی اور جو بھاگتے ہوئے پکڑے گئے تھے وہ مسلمان ہی تھے لیکن جوردیک کو قتل کرنے آئے تھے۔ ان میں سے جس کا بازو کٹ گیا تھا، اسے بڑی بے رحمی سے کچھ دور پھینک دیا گیا۔ دوسرے سے کہا گیا کہ وہ زندہ واپس جانا چاہتا ہے تو بتا دے کہ اسے کس نے بھیجا تھا، ورنہ اس کا بھی بازو کاٹ کر یہیں پھینک دیا جائے گا۔ اس نے بتایا کہ ان دونوں کو ریمانڈ کے فوجی نمائندے نے دو مسلمان امراء کی موجودگی میں کہا تھا کہ فلاں دن اور فلاں وقت جوردیک حلب سے روانہ ہورہا ہے اور وہ فلاں وقت چٹانی علاقے میں سے گزرے گا۔ ان دونوں کو بے تحاشہ انعام پیش کیا گیا تھا۔ انہیں جوردیک کے قتل کی یہ ترکیب بتائی گئی تھی کہ چٹانی علاقے میں چھپ جائیں اور جوردیک کو تیروں کا نشانہ بنا کر بھاگ آئیں۔
مقررہ وقت پر دونوں اس علاقے میں پہنچ گئے اور گزرنے والے راستے کو دیکھ کر ایک بلند چٹان پر چھپ گئے۔ بہت سے انتظار کے بعد جوردیک آگیا۔ دو محافظ گھوڑ سوار آگے تھے۔ ایک اس کے دائیں اور دوسرا بائیں۔ باقی پیچھے تھے۔ تیر اندازوں نے نشانے تو ٹھیک لیے تھے لیکن پہلو والا محافظ آگے آجاتا تھا۔  ) جوردیک اور قریب آیا تو تیر چلاتے وقت آگے والا محافظ آگے آگیا۔ تیر چلا دئیے گئے لیکن نشانہ ذرا نیچے ہوگیا تھا۔ دونوں تیر گھوڑے کی پیشانی میں لگے۔ دوسرے دو تیر اس لیے خطا گئے کہ گھوڑا دو تیر کھا کر بدک گیا تھا اور جب تیر چلائے گئے تو وہ بہت زور سے اچھل پڑا تھا۔ اس سے تیر جوردیک کو لگنے کے بجائے گھوڑے کے پہلو میں لگے۔
وہاں چھپنے کی جگہیں بہت تھیں اور موزوں بھی تھیں۔ انہوں نے گھوڑے ایسی ہی ایک جگہ چھپا دئیے تھے اور ان کے منہ باندھ دئیے تھے تاکہ ہنہنا نہ سکیں۔ تیرانداز بھاگ کر کہیں چھپ گئے۔ انہوں نے محافظوں کو دیکھا جو بکھر کر انہیں ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ چھپ کر انہیں دیکھتے رہے پھر ایک طرف سے شور اٹھا کہ ادھر آجائو، پکڑ لیے ہیں۔ تیر اندازوں نے دیکھا کہ محافظ تین نقاب پوشوں کو پکڑ کر لے جارہے تھے۔ تیر انداز بہت خوش ہوئے کہ ان کی جانب بچی مگر وہ ابھی وہاں سے بھاگنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ ابھی پکڑے جانے کا خطرہ تھا۔ ایک محافظ ایک چٹان پر کھڑا رہا۔ اسے وہاں دیکھ بھال کے لیے کھڑا کیا گیا تھا، بہت دیر بعد اس محافظ کو وہاں سے بلایا گیا۔ دونوں تیر انداز اپنے گھوڑوں کے پاس گئے۔ ان کے منہ کھولے اور سوار ہوکر فرار ہوئے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ جوردیک اپنے محافظوں کے ساتھ وہاں سے چل پڑا ہے۔
 : اس تیر انداز کو جوردیک نے اپنے ساتھ لے لیا اور سب حماة کی سمت روانہ ہوگئے۔ دوسرا تیر انداز کٹے ہوئے بازو سے خون بہہ جانے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مرچکا تھا۔ راستے میں خلت نے اسے حمیرہ کے متعلق ساری بات سنائی اور یہ بھی سنایا کہ اس نے ونڈسر کو کس طرح قتل کیا تھا۔ جوردیک کے لیے حیران کن یہ تھا کہ وہ حلب سے نکل کر کس طرح آئے۔ خلت نے اسے بتایا کہ وہاں ان کا ایک کمانڈر بھی تھا جس کا وہ نام اور حلیہ نہیں بتانا چاہتا تھا۔ اس نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ کپڑے وغیرہ لپیٹ کر نوزائیدہ بچے کے قدبت کی شکل بنا دی اور اس پر کفن چڑھا دیا۔ چار پانچ جاسوسوں نے ادھر ادھر بتایا کہ فلاں (جاسوس) کا بچہ مرگیا ہے کفن میں لپٹے ہوئے کپڑوں کو کمانڈر نے ہاتھوں پر اٹھایا۔ خلت، اس کا ساتھی، حمیرہ (مردانہ لباس میں) اور چار پانچ آدمی جنازے کی شکل میں ساتھ چل پڑے۔ قبرستان شہر سے باہر تھا۔ وہاں تین گھوڑے کھڑے تھے۔ یہ گھوڑے ایک ایسا جاسوس لایا تھا جو حلب کی فوج میں تھا۔ یہ چرائے ہوئے گھوڑے تھے۔ ''جنازہ'' فوجیوں کے سامنے سے گزرا اور قبرستان میں گیا۔ وہاں قبر کھودی گئی۔ جنازہ پڑھا گیا، حلت، اس کا ساتھی اور حمیرہ گھوڑوں پر سوار ہوئے اور نکل گئے۔
قلعے میں جوردیک کا قافلہ رات کو پہنچا۔ خلت وغیرہ کو اس نے باعزت مہمانوں کی طرح رکھا۔ اس نے خلت سے پوچھا… ''مجھے اب اپنا دوست سمجھو۔ مجھے یہ بتائو کہ صلاح الدین ایوبی کیا کررہا ہے تمہیں ضرور معلوم ہوگا۔ اس نے الصالح کا تعاقب کیوں نہیں کیا تھا''۔
''میں اگر سلطان کا منصوبہ جانتا بھی ہوں تو آپ کو نہیں بتائوں گا''۔ خلت نے جواب دیا۔ ''اور میں آپ کو یہ بھی نہیں بتائوں گا کہ میں نے حلب سے کیا کیا معلومات حاصل کی ہیں''۔
''صلاح الدین ایوبی کے ساتھ میری ذاتی دشمنی تھی''۔ جوردیک نے کہا… ''پھر میں اس کے خلاف ہوگیا۔ اس کی وجہ جو کچھ بھی تھی، میں غلطی پر تھا۔ مجھے اس غلطی کا احساس دشمن نے دلایا ہے۔ میں نے صلیبیوں کی نیت معلوم کرلی ہے۔ ایک طرف وہ میری فوج اور میرے قلعے کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، دوسری طرف انہوں نے مجھے قتل کرانے کی کوشش کی۔ مجھے نورالدین زنگی مرحوم اور صلاح الدین ایوبی کی باتیں اور اصول یاد آگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جنگ ہلال اور صلیب کی ہے۔ یہ کسی عیسائی بادشاہ کی کسی مسلمان بادشاہ کے خلاف جنگ نہیں۔ ایوبی کہا کرتا ہے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی مسلمان زندہ ہے، صلیبی اسے ختم کرنے کی کوشش میں لگے رہیں گے۔ غیر مسلم خواہ کسی بھی مذہب کا ہو مسلمان کا دوست نہیں ہوسکتا۔ غیر مسلم دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے تو اس میں دشمنی کا زہر ملا ہوا ہوگا۔ نورالدین زنگی بھی اسی اصول کا پابند تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ جس روز مسلمان کسی غیر مسلم سے دوستی کریں گے، اس روز اسلام کا خاتمہ شروع ہوجائے گا''۔
''تو کیا آپ صلاح الدین ایوبی کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوگئے ہیں؟'' خلت نے پوچھا اور یہ بھی کہا… ''میں ایک چھوٹا سا آدمی ہوں۔ معمولی سا سپاہی ہوں۔ مجھے ایسی جرأت نہیں کرنی چاہیے کہ ایک قلعہ دار سے یہ پوچھوں کہ وہ کیا سوچ رہا ہے اور اس کے ارادے کیا ہیں لیکن مسلمان کی حیثیت سے مجھے یہ حق حاصل ہے کہ کوئی مسلمان گمراہ ہوجائے تو اسے اتنا کہہ سکوں کہ تم گمراہ ہوگئے ہو''۔
''ہاں!'' جوردیک نے کہا… ''تمہیں یہ حق حاصل ہے۔ میں تمہیں ایک پیغام دینا چاہتا ہوں، یہ سلطان ایوبی کے کانوں میں ڈال دینا۔ میں تحریری پیغام نہیں دینا چاہتا ہوں، میں اپنا کوئی ایلچی بھی نہیں بھیجنا چاہتا۔ تم ایوبی سے کہنا کہ حماة کے قلعے کو اپنا سمجھو مگر اپنے کسی معتمد سالار کو بھی پتا نہ چلنے دینا کہ میں نے یہ پیشکش کی ہے۔ یہ ایک بڑا ہی نازک راز ہے۔ اسے کہنا کہ صلیبی دوستی کے پردے میں ہمارے علاقوں میں قدم جماتے جارہے ہیں۔ تم سردیوں کے بعد شاید حملہ کرو مگر یہ خیال رکھنا کہ ادھر سے تم پر پہلے ہی حملہ نہ ہوجائے۔ اگر تم نے پیش قدمی کی تو حماة کے راستے سے آنا۔ میں انشاء اللہ پرانی دوستی کا حق ادا کروں گا''۔
دوسرے دن جوردیک نے خلت، اس کے ساتھی اور حمیرہ کو رخصت کردیا۔
٭ ٭ ٭
: صلیبی انٹیلی جنس کے کمانڈر ونڈسر کا قتل بے شک اتفاقیہ تھا۔ اس نے سلطان ایوبی کے دو جاسوسوں کے لیے ایسے حالات پیدا کردئیے تھے کہ وہ ان کے ہاتھوں قتل ہوگیا لیکن یہ بہت بڑا کارنامہ تھا۔ اس کے قتل سے سلطان ایوبی کو فائدہ پہنچا کہ اس کے دشمن کی انٹیلی جنس جو پہلے ہی کمزور تھی منظم نہ ہوسکتی۔ اس کے مقابلے میں سلطان ایوبی کا نظام جاسوسی زیادہ منظم اور ذہین تھا۔ اس کے جاسوس صرف جاسوس نہیں تھے جو پکڑے جائیں تو خاموشی اختیار کرلیں۔ اس نے جاسوسوں کو بڑی ہی سخت کمانڈو ٹریننگ دے رکھی تھی تاکہ وہ پکڑے جانے کی صورت میں لڑ کر نکلیں اور جسے قتل کرنا ضروری ہواسے قتل بھی کریں اور ان کے جسم اتنے سخت ہوں کہ زیادہ سے زیادہ اذیت بھوک، پیاس اور تھکن برداشت کرسکیں۔ یہ خوبیاں خلت اور اس کے ساتھیوں میں بھی تھیں۔ انہوں نے نہ صرف صلیبیوں کے اتنے ہم افسر کو مار کر دشمن کو اندھا کردیا بلکہ جوردیک جیسے سخت مزاج قلعہ دار کے ساتھ ایسی باتیں کیں کہ اسے سلطان ایوبی کا حامی بنا آئے۔
خلت نے سلطان ایوبی کو جب جوردیک کا پیغام دیا تو سلطان کو یوں سکون سا محسوس ہوا جیسے صحرا میں ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا بھولے بھٹکے سے آیا ہو۔ اسے ہر طرف دشمن ہی دشمن نظر آتے تھے۔ اپنے بھی دشمن پرائے بھی دشمن۔ جوردیک کے پیغام نے اسے سکون تو دیا لیکن وہ کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوا۔ یہ دھوکہ بھی ہوسکتا تھا۔ لہٰذا اس نے اپنے حملے کے پلان میں کوئی ردوبدل نہ کیا۔ اتنا ہی پیش نظر رکھا کہ حماة سے حمایت کی توقع ہے۔
اب دشمن کے کیمپ (حلب) سے جو اطلاعات آرہی تھی ان میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہاں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہاں کے کمانڈروں اور مشیروں کو یہی توقع تھی کہ سردیوں میں جنگ کا امکان نہیں۔ ایک اطلاع یہ بھی ملی تھی کہ صلیبی بظاہر سب کے دوست بنے ہوئے ہیں مگر وہ درپردہ بڑے بڑے امراء کو ایک دوسرے کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ یہ تو سلطان ایوبی کو معلوم ہی تھا کہ الصالح کے تمام حواری ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ وہ اکٹھے صرف اس لیے ہوگئے تھے کہ سلطان ایوبی کو وہ اپنا مشترکہ دشمن بنا بیٹھے تھے اور اس دشمنی کی وجہ یہ تھی کہ سلطان ایوبی انہیں عیش وعشرت کی اور من مانی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔ انہیں سلطان ایوبی کا یہ مشن بھی اچھا نہیں لگتا تھا کہ سلطنت اسلامیہ کی توسیع اور استحکام کو جنون یا صحیح الفاظ میں ایمان بنا لیا جائے۔ وہ ان حکمرانوں میں سے نہیں تھا جو آرام اور سکون سے حکومت اورعیش کرنے کی خاطر دشمن کو دوست بنا لیا کرتے تھے۔
اسے جنگی نوعیت کی جن معلومات کی ضرورت تھی وہ اس نے حاصل کرلی تھیں۔ اس کی فوج سردی میں لڑنے کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ اب رات کی ٹریننگ میں کوئی سپاہی بیمار نہیں ہوتا تھا۔ ١١٧٤ء کا دسمبر شروع ہوچکا تھا۔ سلطان ایوبی نے اپنے فوجی کمانڈروں کی آخری کانفرنس بلائی۔ اس میں مرکزی کمان کے تمام افسر شامل تھے اور دستوں کے کمانڈروں کو بھی بلایا گیا تھا۔ سلطان ایوبی نے انہیں پہلا حکم یہ دیا کہ اس لمحے سے فوج کی نقل وحرکت کے متعلق کوئی بات وہ کتنی ہی بے ضرر کیوں نہ ہو باہر کے کسی آدمی کے ساتھ نہیں کی جائے گی جو عسکری اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں، وہ گھروں میں بھی کوئی بات نہیں کریں گے۔ فوج کے کوچ کا وقت آگیا ہے۔ یہ ظاہر کیا جائے گا کہ فوج روزمرہ کی طرح تربیت اور مشق کے لیے جارہی ہے۔
ان ہدایات کے بعد اس نے کہا… ''ہمارے عیش پرست اور ایمان فروش بھائی اسلام کی تاریخ کو اس موڑ پر لے آئے ہیں جہاں تمہارا اپنے ہی عزیزوں کے خلاف لڑنا تم پر فرض ہوگیا ہے۔ کیا کسی نے کبھی یہ بھی سوچا تھا کہ میں اپنے پیرومرشد نورالدین زنگی مرحوم کے بیٹے کے خلاف لڑوں گا؟ مگر صورت یہ پیدا ہوگئی ہے کہ بیٹے کی ماں بھی مجھ پر لعنت بھیج رہی ہے کہ اس کا مرتد بیٹا ابھی زندہ کیوں ہے۔ میرے رفیقو! تم جس فوج سے لڑنے جارہے ہو، اس میں تمہارے چچازاد بھائی بھی ہوں گے، ماموں زاد اور خالہ زاد بھی ہوں گے۔ مجھے دو بھائی ایسے بھی اپنی فوج میں نظر آئے ہیں جن کا ایک بھائی ایمان فروشوں کی فوج میں ہے۔ اگر تم خون کے رشتوں کو دل میں جگہ دو گے تو اسلام کے ساتھ جو تمہارا رشتہ ہے وہ ٹوٹتا ہے۔ کوچ سے پہلے تمہیں عہد کرنا ہوگا کہ تم یہ نہیں دیکھو گے کہ تمہارا مدمقابل کون ہے۔ تمہاری نظریں اپنے علم پر رہیں گی۔ دل میں یہ حقیقت بٹھا لو کہ تمہارے سامنے کلمہ گو بھائی ہیں مگر ان کی پیٹھ پر صلیبی ہیں۔ میں اس بھائی کو بھائی نہیں سمجھتا جو اپنے مذہب کے دشمن کو دوست سمجھتا ہے''۔
ایک وقائع نگار کی تحریر سے پتا چلتا ہے کہ اس لیکچر کے دوران صلاح الدین ایوبی کی آواز بھر آئی۔ اس نے خاموش ہوکر سرجھکا لیا۔ یہ دیکھنا کسی کے لیے مشکل نہ تھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ وہ کچھ دیر سرجھکا کر خاموش بیٹھا رہا۔ کانفرنس کے شرکاء پر سکوت طاری ہوگیا۔ سلطان ایوبی نے سراٹھایا ا
: اور دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے اور آسمان کی طرف منہ کرکے گڑگڑایا… ''خداے عزوجل میں تیرے نام کی خاطر، تیرے رسولۖ کی ناموس کی خاطر اپنے بھائیوں کے خلاف تلوار اٹھا رہا ہوں۔ اگر یہ گناہ ہے تو مجھے بخش دینا میرے خدا! مجھے تیری رہنمائی کی ضرورت ہے۔ مجھے اشارہ دو۔ میں گمراہ ہوں، گناہ گار ہوں''… اس نے سر پھر جھکا لیا اور جانے اسے اپنی ذات سے کوئی اشارہ ملا یا خدا نے اسے کوئی اشارہ دے دیا، اس نے گرج دار آواز میں کہا… ''ہمیں قبلہ اول کو آزاد کرانا ہے، تمہیں بیت المقدس پکار رہا ہے۔ میرے راستے میں میرا باپ آیا تو اسے بھی قتل کردوں گا۔ میرے بچے راستے میں حائل ہوئے انہیں بھی قتل کردوں گا''۔
اس کا چہرہ دمکنے لگا۔ جذباتیت کا غلبہ ختم ہوچکا تھا۔ وہ پھر وہی صلاح الدین بن گیا جو صرف حقائق کے متعلق مختصر سی بات کیا کرتا تھا۔ اس نے کمانڈروں کو بتایا کہ دو روز بعد رات کو کوچ ہوگا۔ اس نے پلان کے مطابق فوجوں کی جو تقسیم کی تھی وہ سب کو بتائی اور ہر حصے کے کمانڈر کو کوچ کا وقت بتایا۔ ہر اول کے کمانڈر کو ضروری ہدایات دیں۔ چھاپہ مار (کمانڈو) جیشوں کی تقسیم بتائی، پہلوئوں پر جن دستوں کو رکھنا تھا، ان کے کمانڈروں کو کوچ کا انداز، راستہ اور وقت بتایا اور اس نے سب کو یہ بھی بتایا کہ اس کا اپنا ہیڈکوارٹر گھومتا پھرتا رہے گا۔ اس سے پہلے اس نے مصر کے راستے پر متحرک رہنے والے چھاپہ مار دستے بھیج دئیے تھے اور مسافروں اور خانہ بدوشوں کے بہروپ میں اس نے اپنی انٹیلی جنس کی بہت سی نفری ان علاقوں میں بھیج دی تھی جہاں ریمانڈ کی فوج کے آنے کی توقع تھی۔
رسد کے متعلق اسے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ کموبیش ایک سال تک مصر سے رسد اور کمک منگوانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسلحہ اور جانوروں کا سٹاک بھی اس نے دمشق میں جمع کرلیا تھا۔ اس نے گھوڑ سوار چھاپہ ماروں کو مصر کے راستے کے اردگرد کے علاقوں میں اس ہدایت کے ساتھ بھیج دیا تھا کہ ریمانڈ کی فوج ادھر آئے تو اس پر شب خون مارنے ہیں اور اگر ضرورت محسوس ہو تو فوراً اطلاع دیں تاکہ صلیبیوں کو گھیرے میں لینے کا انتظام کیا جائے۔
٭ ٭ ٭
٧/٦ دسمبر ١١٧٤ء کی رات کو ہر اول دستے نے دمشق سے کوچ کیا۔ وہ رات بہت ہی سرد تھی۔ یخ جھکڑ چل رہے تھے جو جسم کو کاٹتے تھے۔ سپاہی اور گھوڑے ان جھکڑوں کے عادی ہوچکے تھے۔ ہر اول کے کمانڈر کو بتا دیا گیا تھا کہ دیکھ بھال (ریکی) کا جیش پہلے روانہ ہوچکا ہے۔ اس کے سپاہی وردی میں نہیں تھے۔ وہ مسافروں کے بھیس میں گئے تھے۔ سلطان ایوبی نے انہیں یہ ہدایت دی تھی کہ تیز رفتار قاصد پیچھے آکر ہر اول کے کمانڈر کو آگے کی اطلاعات دیتے رہیں۔ ہر اول کو حماة کے قلعے تک جانا تھا جہاں قلعہ دار جوردیک تھا۔ کمانڈر کو سلطان ایوبی نے بتایا تھا کہ حماة کا قلعہ بغیر لڑے ملنے کا امکان ہے لیکن وہ کسی دھوکے میں نہ آئے۔وہ قلعے سے موزوں فاصلے پر رک جائے اور دیکھے کہ قلعے والوں کا رویہ کیا ہے۔ اگر جوردیک صلح کرنا چاہے تو اسے قلعے سے باہر بلایا جائے اور سلطان ایوبی کے آنے تک اس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔
سلطان ایوبی نے دیواریں توڑنے والے تجربہ کار آدمیوں کی ایک جماعت کو آگے بھیج دیا تھا۔ ہر اول کی روانگی سے تین چار گھنٹوں بعد دوزیادہ نفری کے دستے اس طرح روانہ کیے گئے کہ ایک کو ہر اول کے دائیں اور دوسرے کو بائیں رہنا تھا۔ ان کے لیے ہدایت یہ تھی کہ اگر حماة کے قلعے سے ہر اول کا مقابلہ ہوجائے تو یہ دونوں دستے دونوں طرف سے آگے بڑھ کر قلعے کا محاصرہ کرلیں اور اس پر اس قدر تیر برسائیں کہ دیوار توڑنے والی جماعت دیوار تک پہنچ جائے۔
ان دونوں حصوں کے درمیان سلطان ایوبی جارہا تھا۔ ہر اول اور دونوں پہلوئوں کے دستے سلطان ایوبی کی فوج کا چوتھا حصہ تھے۔ اس نے باقی تمام فوج پیچھے رکھی تھی۔ اس نے کم سے کم نفری سے دشمن سے جھڑپ لینے کا پلان بنایا تھا۔ رسد کے لیے اس نے چھاپہ مار دستے پھیلا دئیے تھے۔ ایسے چھوٹے چھوٹے دستے حماة سے بہت آگے بھی بھیج دئیے تھے… تاکہ حماة سے کوئی قاصد حلب تک نہ جاسکے اورا گر کہیں سے کمک آجائے تو چھاپہ مار اسے شب خون سے پریشان کرتے رہیں اور پیش قدمی روکے رکھیں۔
اگلا دن گزر گیا۔ رات گہری ہوچکی تھی۔ جب ہر اول کے دستے حماة سے دو تین میل دور تک پہنچ چکے تھے۔ ٩دسمبر ١١٧٤ء کی صبح طلوع ہوئی تو قلعے پر کھڑے سنتریوں کو کہر اور دھند میں ایسے سائے سے نظر آئے جیسے بہت سے انسان اور گھوڑے ہوں۔ کوئی قافلہ ہوسکتا تھا۔ جوں جوں سورج اوپر اٹھتا گیا دھند چھٹتی گئی اور سائے نکھرتے گئے۔ سنتریوں نے دیکھا کہ یہ فوج ہے۔ انہیں ابھی یہ معلوم نہیں تھا کہ قلعے کے دائیں اور بائیں بھی فوج موجود ہے جو انہیں نظر نہیں آسکتی۔ نقارہ بجا دیا گیا۔ ایک کمانڈر دوڑتا اوپر آیا، اس نے فوج دیکھی تو دوڑتا گیا اور قلعہ دار جوردیک کو اطلاع دی۔
: ''گھبرا نہیں''… جوردیک نے کمانڈر سے کہا… ''یہ کسی حملہ آور کی فوج نہیں ہوسکتی۔ صلیبی مجھے قتل نہیں کراسکے انہوں نے کوئی اور سازش کی ہوگی۔ انہوں نے الصالح سے یہ حکم لے لیا ہوگا کہ حماة کا قلعہ مجھ سے لے کر کسی اور کو دے دیا جائے۔ یہ فوج قلعے کے لیے آئی ہوگی۔ تم باہر جائو اور دیکھو کہ یہ کس کا دستہ ہے اور یہ لوگ کیا چاہتے ہیں''۔
کمانڈر گھوڑے پر سوار باہر نکلا اور سلطان ایوبی کے ہر اول دستے کی طرف گیا۔ اس نے علم دیکھا تو یہ سلطان ایوبی کا تھا۔ وہ ذرا پیچھے ہی رک گیا۔ ہر اول دستے کا کمانڈر اس تک گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ دونوں نورالدین زنگی کی فوج میں اکٹھے رہ چکے تھے۔
''ایسا بھی ہونا تھا کہ ہم آپس میں لڑیں گے''… ہر اول دستے کے کمانڈر نے اس کے ساتھ ہاتھ ملا کر کہا… ''زنگی زندہ تھا تو ہم دوست اور رفیق تھے، وہ مر گیا تو ہم دشمن بن گئے''۔
''تم کیوں آئے ہو؟'' قلعے کے کمانڈر نے پوچھا۔
''تم قلعے کو نہیں بچا سکو گے''… ہر اول کے کمانڈر نے کہا… ''میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ قلعہ دار سے کہو کہ قلعہ ہمارے حوالے کردے اور خون خرابہ نہ ہونے دے ہم تمہیں زیادہ مہلت نہیں دیں گے۔ تھوڑی دیر میں قلعہ محاصرے میں آچکا ہوگا۔ تمہاری کمک وغیرہ کے راستے بند کیے جاچکے ہیں۔ہتھیار ڈال دو''۔
قلعے کا کمانڈر کوئی جواب دئیے بغیر واپس چلا گیا اور جوردیک کو بتایا کہ صلاح الدین ایوبی نے حملہ کردیا ہے اور وہ ہتھیار ڈالنے کو کہہ رہے ہیں۔ یہ دستے اس کے ہیں… جوردیک نے چلا کر کہا… ''قلعے سے جھنڈا اتار لو، سفید جھنڈا چڑھا د، سلطان صلاح الدین ایوبی آیا ہے''۔
وہ دوڑتا باہر نکلا گھوڑے پر بیٹھا اور قلعے سے نکل گیا۔ ہر اول دستے کے کمانڈر کے پاس پہنچا۔ سلطان ایوبی بہت پیچھے تھا۔ جوردیک ایک رہنما اور اپنے محافظوں کو ساتھ لے کر سلطانایوبی کے ہیڈکوارٹر کی طرف روانہ ہوگیا۔ سلطان ایوبی نے جوردیک کو گلے لگا لیا جوردیک نے اس سے معافی مانگی۔ کچھ جذباتی باتیں کیں اور قلعہ اپنی فوج سمیت سلطان ایوبی کے حوالے کردیا۔ سلطان ایوبی اپنی مرکزی کمان کے ساتھ قلعے میں داخل ہوا تو اس نے سفید جھنڈے کی جگہ اپنا جھنڈا چڑھانے کا حکم دیا۔ جوردیک نے قلعے میں مقیم فوج کے چھوٹے بڑے کمانڈروں کو سلطان ایوبی کے سامنے بلایا اور کہا کہ تم سے ہتھیار نہیں ڈلوائے گئے۔ تمہیں کسی نے شکست نہیں دی۔ اپنے سپاہیوں سے بھی کہہ دو کہ اپنے آپ کو شکست خوردہ نہ سمجھیں۔ہم سب مسلمان ہیں، اب ہم صلیبیوں اور ان کے دوستوں کے خلاف لڑیں گے۔
سلطان ایوبی جس مہم پر نکلا تھا، اس کی پہلی منزل اسے کسی کاوش کے بغیر مل گئی۔ وہ خدا کے حضور سجدے میں گر گیا۔ اس کے بعد اس نے جوردیک کے ساتھ آگے کا پلان بنانا شروع کردیا۔ مشکل ایک ہی تھی کہ جوردیک کے دستوں کو سردی میں لڑنے کی مشق نہیں کرائی گئی تھی۔ تاہم اس قلعے کو اڈہ (بیس) بنالیا گیا۔ جوردیک کے دستوں کو ایسے طریقے سے تقسیم کیا گیا جس سے یہ دشواری ختم ہوگئی کہ وہ سردی میں نہیں لڑ سکیں گے مگر سپاہی کو پتا چلا تو انہوں نے احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ وہ سلطان ایوبی کی فوج کے ساتھ آگے جائیں گے اور لڑیں گے۔
آگے حمص کا قلعہ تھا۔ سلطان ایوبی نے کوچ کا وقت ایسا رکھا کہ حمص تک رات کو پہنچا جائے۔ اس نے اسی وقت ہر اول کو آگے بھیجا لیکن اب کے اس نے ڈیپلائے میں کچھ ردوبدل کردیا کیونکہ حمص میں اسے کوئی توقع نہیں تھی کہ قلعہ بغیر لڑے اس کے حوالے کردیا جائے گا۔ اس نے دیکھ بھال کے لیے ایک پارٹی آگے بھیج دی تھی جس نے راستے میں اطلاع دی تھی کہ قلعے کا محل وقوع کیا ہے اور گردوپیش کے احوال وکوائف کیا ہیں۔سلطان ایوبی نے چند دستے اس طرف بھیج دئیے، جدھر سے مدد وغیرہ آنے کی توقع تھی۔ اس نے اپنی رسد حماة کے قلے میں جمع کرلی اور رسد آگے لے جانے کے راستے کو کئی گشتی پارٹیوں اور چھاپہ ماروں کے ذریعے محفوظ کرلیا۔ اس کے ساتھ حماة کا ایک دستہ بھی تھا۔ سلطان ایوبی کی کوشش یہ تھی کہ حلب تک اس کے حملے کی خبر نہ پہنچے تاکہ وہ دشمن کو بے خبری میں جادبوچے۔ اس نے اس کا انتظام کردیا تھا۔ اپنے آدمی حلب کے راستے پر پھیلا دئیے تھے جن کے لیے یہ حکم تھا کہ وہ کسی بھاگے ہوئے فوجی کو یا کسی ایسے غیر فوجی کو جسے یہ معلوم ہوکہ حملہ شروع ہوچکا ہے، روک لیں۔
: رات گہری ہوچکی تھی۔ قلعہ دار اور اس کے کمانڈر ایک وسیع کمرے میں شراب سے دل بہلا رہے تھے۔ انہوں نے دو ناچنے والیاں بلا رکھی تھیں۔ کمرے میں طبل وسارنگ اور رقص وسرور کا پررونق ہنگامہ بپا تھا۔ سپاہی بے فکری کی نیند سو گئے تھے اور جو ڈیوٹی پر تھے وہ سردی سے بچنے کے لیے کسی نہ کسی اوٹ میں کھڑے تھے۔ رات یخ تھی۔ کمانڈروں نے سب کو بتا رکھا تھا کہ سردیوں کے موسم میں جنگ کاکوئی خطرہ نہیں۔
''ہم اسی لیے نورالدین زنگی کے مرنے کی دعائیں کرتے تھے کہ اسی دنیا میں جنت دیکھ لیں''… قلعہ دار نے شراب کا پیالہ اوپر کرکے کہا… ''اب صلاح الدین ایوبی آیا ہے، خدا اسے بھی جلدی اٹھالے گا''۔
''اسے ہم اٹھائیں گے''… ایک کمانڈر نے کہا… ''ذرا موسم کھل جانے دو''۔
قلعے کی دیوار پر کھڑے ایک سنتری نے اپنے ساتھی سے کہا… ''وہ دیکھو، آگ جل رہی ہے''۔
''جلنے دو''… اس کے ساتھی نے کہا… ''کوئی قافلہ ہوگا''۔
اتنے میں آگ کے تین چار گولے ہوا میں بلند ہوئے جو قلعے کی طرف آئے اور ان دونوں سنتری کے اوپر سے گزر کر قلعے کے اندر جاگرے۔ ان کے پیچھے اورگولے آئے یہ شعلوں کے گولے تھے۔ پھر کئی اور گولے آئے۔ ان میں سے کچھ سامان پر پڑے اور آگ لگ گئی۔ نقارے اور گھڑیال بج اٹھے۔ قلعہ دار کی محفل میں اودھم بپا ہوگیا۔ سب دوڑتے قلعے کی دیوار پر گئے۔ ان پر تیروں کا مینہ برسنے لگا۔ دروازے کے سنتریوں نے شور بپا کردیا کہ دروازہ جل رہا ہے۔ سلطان ایوبی کے حملہ آور دستے نے دروازے پر آتش گیر مادہ پھینک کر آگ لگا دی تھی۔ چیخ چلا کر قلعے کے اندر کی فوج کو بیدار کیا گیا۔ قلعے سے بھی مزاحمت شروع ہوگئی لیکن باہرسے اتنے تیر آرہے تھے کہ سر اٹھانا محال ہورہا تھا۔ سلطان ایوبی کی منجنیقوں نے قلعے کو جہنم بنا دیا تھا۔ قلعے کے کمان دار چلا چلا کر اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ سپاہی اندھا دھند تیر چلا رہے تھے۔
''ہتھیار ڈال دو''… سلطان ایوبی کی طرف سے کوئی للکار رہا تھا… ''ہتھیار ڈال دو، تمہیں کہیں سے بھی مدد نہیں مل سکتی۔ جانیں بچائو''… یہ اعلان بھی کیا گیا… ''سلطان صلاح الدین ایوبی کے آگے ہتھیار ڈال دو، کسی کو جنگی قیدی نہیں بنایا جائے گا۔ اطاعت قبول کرلو۔ ہماری فوج میں شامل ہوجائو''۔
رات بھر اعلان ہوتے رہے اور تیروں کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔ صبح کی روشنی پھیلی تو قلعہ دار نے باہرکا منظر اور قلعے کی دیوار پر اپنے سپاہیوں کی لاشیں دیکھ کر سفید جھنڈا چڑھانے کا حکم دے دیا۔ یہ قلعہ بھی سر کرلیا گیا۔ قلعہ دار اور کمانڈروں نے ہتھیار ڈال دئیے۔ سلطان ایوبی قلعے میں گیا تو قلعہ دار اور کمانڈروں سے اتنا ہی کہا… ''خدا تمہیں معاف کرے'' اور حکم دیا کہ ان سب کو ان کے سپاہیوں کے ساتھ دمشق بھیج دیا جائے۔ سلطان ایوبی انہیں اپنی فوج میں شامل نہیں کرسکتا تھا کیونکہ ان کی وفاداری ابھی مشکوک تھی۔ اس قلعے میں اسلحہ اور سد کا خاصا ذخیرہ تھا۔ وہاں شراب بھی تھی اور دو ناچنے والیاں بھی۔ شراب باہر انڈیل دی گئی اور ناچنے والیوں کو بھی ان کے آدمیوں کے ساتھ دمشق بھیج دیا گیا۔ سلطان ایوبی نے حمص کے قلعے کو دوسرا اڈہ بنا لیا اور حماة کے قلعہ کا ایک دستہ وہاں لگا دیا۔
اگلا قلعہ حلب کا تھا جو حلب شہر سے ذرا ہی دور تھا وہاں بھی وہی ہوا جو حمص میں ہوا تھا۔ سلطان ایوبی کا حملہ ناگہانی تھا۔ اس نے قلعے والوں کو بے خبری میں جالیا تھا۔ اس کے سپاہیوں کا مورال دو قلعے سرکر لینے سے اور زیادہ مضبوط ہوگیا تھا۔ انہوں نے حلب کا قلعہ بھی سرکر لیا اور اس کے دستوں کو کمانڈروں سمیت دمشق بھیج دیا گیا مگر اس مرحلے پر آکر راز داری ختم ہوگئی۔ ہتھیار ڈالنے والے سپاہیوں میں سے کوئی فرار ہوگیا یا کسی اور نے حلب اطلاع دے دی کہ سلطان ایوبی نے حماة، حمص اور حلب کے قلعے لے لیے ہیں اور وہ حلب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سلطان ایوبی کو معلوم نہ ہوسکا کہ اس کا رازداری والا حربہ بیکار ہوچکا ہے۔ اس نے پیش قدمی کی رفتار بھی ختم کردی جس کی وجہ یہ تھی کہ جو دستے حمص اور حلب کے قلعوں کو محاصرے میں لے کر راتوں کو لڑے تھے، انہیں آرام کے لیے پیچھے بھیجنا اور ان کی جگہ تازہ دم دستے آگے لانا ضروری تھا۔ اسے اب فوج کو بدلی ہوئی ترتیب میں آگے بڑھانا تھا کیونکہ حلب شہر کی لڑائی قلعے کے محاصرے سے مختلف تھی۔ نئی ترتیب میں بھی کچھ وقت لگ گیا۔ سلطان ایوبی بہت محتاط تھا کیونکہ اصل لڑائی تو اب آرہی تھی اور صلیبی فوج کے آنے کا امکان بھی تھا۔
٭ ٭ ٭
 حلب اطلاع جلدی پہنچ گئی تھی، صلیبی مشیر وہاں موجود تھے۔ پہلے تو وہ اس پر حیران ہوئے کہ سلطان ایوبی نے سردیوں میں حملہ کیا ہے۔ پھر وہ خوش ہوئے کہ اس کی فوج صحرائی جنگوں کی عادی ہے۔وہ ان چٹانوں میں لڑ نہیں سکے گی۔ انہیں یہ احساس تھا کہ حلب کی فوج بھی اس علاقے میں نہیں لڑ سکے گی۔ انہوں نے دوترکیبیں سوچیں۔ ایک یہ کہ سلطان ایوبی کو اپنی پسند کے میدان میں لڑائیں اور دوسری یہ کہ یہاں صلیبیوں کی وہ فوج لائی جائے جو یورپ سے آئی ہے۔ ریمانڈ کی فوج میں ایسے سپاہیوں کی اکثریت تھی۔ چنانچہ فوری طور پرریمانڈ کو تیز رفتار قاصدوں کے ذریعے اطلاع بھیج دی گئی کہ سلطان ایوبی حلب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسے عقب سے گھیرے میں لیا جائے۔
وقت حاصل کرنے کے انہوں نے یہ انتظام کیا کہ سلطان ایوبی کو حلب کے محاصرے میں زیادہ سے زیادہ دیر تک الجھائے رکھا جائے تاکہ ریمانڈ کو اپنی فوج لانے کے لیے وقت مل جائے۔ صلیبی مشیروں نے رازداری پر پوری توجہ دی۔ انہیں معلوم تھا کہ شہر میں سلطان ایوبی کے جاسوس موجود ہیں۔ چنانچہ انہوں نے شہر کی ناکہ بندی کردی۔ فوراً اعلان کردیا گیا کہ شہر سے باہر کوئی نکلے گا تو اسے خبردار کیے بغیر تیر مار دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی مسجدوں میں اعلان کیا گیا کہ سلطان ایوبی جنگی طاقت اور بادشاہی کے نشے میں حملہ آور ہوا ہے۔ صلیبی ذہنی تخریب کاری کے ماہر تھے۔ انہوں نے پروپیگنڈے کی نئی مہم چلا دی۔ گھرگھر، گلی گلی، مسجد مسجد اس قسم کی افواہیں پھیلا دیں کہ سلطان ایوبی کی فوج جس شہر کو فتح کرتی ہے، وہاں کی تمام لڑکیوں کو جمع کرکے آبروریزی کرتی ہے۔ شہر کو لوٹ کر آگ لگا دیتی ہے اور یہ بھی کہ سلطان ایوبی کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا عمل تو چھ مہینوں سے جاری تھا۔ لوگوں میں سلطان ایوبی کے خلاف جنگی جنون پیدا کردیا گیا تھا۔ آخر کار ان تازہ افواہوں نے لوگوں کو آگ بگولا کردیا اور وہ مرنے مارنے کے لیے تیار ہوگئے۔
شہر کی ناکہ بندی نے سلطان ایوبی کے جاسوسوں کو بیکار کردیا۔ انہوں نے شہر کے باشندوں میں جو قہر اورغضب دیکھا، اس کے سامنے وہ بھی بے بس ہوگئے۔ ایک جاسوس شہر سے نکلنے کی کوشش میں مارا گیا۔ وہ سلطان ایوبی کو اطلاع دینا چاہتاتھا کہ شہر کی کیفیت کیا ہے اور وہ کسی خوش فہمی میں مبتلا ہو کر نہ آئے۔ جاسوس نے سرپٹ گھوڑا بھگایا مگر دو تیروں نے اسے گرا دیا۔ جاسوسوں کے کمانڈر نے (جو عالم کے بہروپ میں تھا) شہریوں میں صلیبی پروپیگنڈے کے خلاف مہم چلائی مگر اس کے آدمیوں نے جہاں بھی بات کی، منہ کی کھائی۔
الصالح نے صلیبی مشیروں کے مشورے پر والئی موصل سیف الدین کو بھی اطلاع بھیج دی کہ مدد کے لیے آئے۔ حسن بن صباح کے فدائیوں کے پیرومرشد شیخ سنان کو اطلاع بھیج دی گئی کہ وہ اجرت مانگے گا، اسے دی جائے گی۔ صلاح الدین ایوبی کو قتل کرادے، خواہ اس کے کتنے ہی آدمی کیوں نہ مارے جائیں۔ شیخ سنان کا ایک حملہ ناکام ہوچکا تھا جو اس نے سلطان ایوبی کے ایک محافظ پر نشہ طاری کرکے اس سے کرایا تھا۔ اب اس نے ان فدائیوں کو بلایا جو زندگی اور موت کو کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے۔ وہ برائے نام انسان تھے، مرجانا اور کسی کو مار دینا ان کے لیے کوئی مطلب نہیں رکھتا تھا۔ ان میں مفرور قاتل بھی تھے۔ شیخ سنان نے انہیں کہا کہ انہیں منہ مانگی اجرت ملے گی، وہ سلطان ایوبی کو قتل کردیں۔ ان میں سے نو آدمی تیار ہوگئے۔ الصالح کے حامیوں میں سب سے زیادہ کینہ پرور اور شیطان فطرت آدمی گمشتگین تھا جسے گورنر کا درجہ حاصل تھا۔ وہ بظاہر سلطان ایوبی کے خلاف تھا مگر وہ دوست کسی کا بھی نہیں تھا۔ الصالح کو خوش کرنے کے لیے اس نے اس کی حمایت کی اور صلیبیوں کے ساتھ دوستی کا اظہار اس طرح کیا کہ اس کے قلعے میں بہت سے صلیبی جنگی قیدی تھے، ان سب کو رہا کردیا۔ اب حلب کی اس اطلاع پر کہ سلطان ایوبی کی فوج آگئی ہے، اس نے اپنی فوج بھیج دی اور خود بھی لڑنے کا وعدہ کیا۔
یہ ایک طوفان تھا جو سلطان ایوبی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ اتنے زیادہ دشمنوں کے مقابلے میں اس کی نفری تھوڑی تھی اور اب اس کے جاسوس بے کار ہوجانے کی وجہ سے اسے پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ دشمن کے کیمپ میں کیا ہورہا ہے۔ وہ ابھی تک اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ وہ حلب والوں کو بے خبری میں جا لے گا۔ تاہم وہ معمولی قسم کا جنگجو نہیں تھا۔ اس نے عقب اور پہلوئوں کی حفاظت کا انتظام کررکھاتھا۔ اس نے کم سے کم تعداد سے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے دیکھ بھال کے دستے آگے چلے گئے۔ آگے علاقہ چٹانی، پتھریلا اور نشیب وفراز کا تھا اور راستے میں ایک درمیانہ سا دریا بھی تھا۔
٭ ٭ ٭
: جنوری ١١٧٥ء کا مہینہ شروع ہوچکا تھا۔ سردی اور زیادہ بڑھ گئی تھی۔ سلطان ایوبی نے فوج کی ایک چوتھائی نفری حملے کے لیے منتخب کی۔ محفوظہ میں اس نے زیادہ دستے رکھے۔ اس نے جب پیش قدمی کی تو دیکھ بھال کرنے والے دستوں نے اطلاع دی کہ دریا کے اس طرف ایک وسیع وعریض نشیب ہے، وہاں دشمن کی فوج تیاری کی حالت میں موجود ہے۔ یہی وہ مقام تھا۔ جہاں سے دریا عبور کیا جاسکتا تھا۔ سردیوں کے موسم میں دریا میں پانی گہرا نہیں تھا۔ اس مقام پر پاٹ پھیل جانے سے پانی اور بھی کم تھا۔ گھوڑے اور انسان آسانی سے گزر سکتے تھے۔ یہیں دشمن نے اپنی فوج پھیلا رکھی تھی۔ سلطان ایوبی کو بتایا گیا کہ رات کو اس فوج کے چند ایک سنتری بیدار ہوتے ہیں اور دن کے دوران گشتی پارٹیاں ہر طرف گھومتی پھرتی رہتی ہیں۔

جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں