داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 64 - اردو ناول

Breaking

بدھ, دسمبر 11, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 64


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔64- صلیب کے سائے میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بچنے کی کوشش میں ہے۔ شکوک پختہ ہوتے گئے۔، کچھ اور آگے گئے تو پڑائو کرنے لیے نہایت موزوں جگہ آگئی۔ قافلہ رک گیا اور پڑائو کرلیا گیا۔ خلت اور اس کا ساتھی ذرا الگ ہٹ کر بیٹھے اور سوچنے لگے کہ سب سوجائیں تو سامان کی تلاشی لیں یا ان دونوں میں سے ایک خاموشی سے نکل جائے اور کسی قریبی سرحدی چوکی کو اطلاع کردے تاکہ قافلے پر چھاپہ مارا جائے مگر خطرہ یہ تھا کہ قافلے والوں کو شک ہوجائے گا اور وہ پیچھے رہنے والے اکیلے جاسوس کو قتل کرکے یا اغوا کرکے تیز رفتاری سے غائب ہوجائیں گے۔ انہوں نے سونے کی نہیں بلکہ جاگتے رہنے کی کوشش کی۔ قافلے والے کھاپی کر سوگئے۔
اتنے میں دو لڑکیاں جو قافلے کے ساتھ تھیں اس طرح ان کے پاس آئیں جیسے چوری چھپے آئی ہوں۔ وہ اس علاقے کی صحرائی زبان بول رہی تھیں۔ انہوں نے خلت اور اس کے ساتھی سے کہا کہ اگر وہ انہیں راز کی ایک بات بتائیں تو کیا وہ ان کی مدد کریں گے؟… ''راز'' ایک ایسا لفظ تھا جس نے صلاح الدین ایوبی کے ان دونوں جاسوسوں کو چونکا دیا۔ وہ راز حاصل کرنے کے لیے ہی ریگزاروں میں مارے مارے پھر رہے تھے اور اس قافلے کے ساتھ وہ راز کی خاطر ہی چلے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ قافلہ بردہ فروشوں کا ہے اور یہ چاروں لڑکیاں اغوا کرکے لائی جارہی ہیں۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ انہیں کہاں لے جایا جارہا ہے۔ لڑکیوں نے بتایا کہ وہ مسلمان ہیں اور ان لوگوں سے آزاد ہونا چاہتی ہیں۔
باتوں باتوں میں ایک لڑکی خلت کو الگ لے گئی۔ لڑکی کی باتوں میں سادگی بھی تھی اور جاذبیت بھی۔ اس نے خلت سے کہا کہ وہ اگر اسے اپنے ساتھ لے جائے تو اس کے ساتھ شادی کرے گی اور ساری عمر اس کی وفادار رہے گی۔ اس نے کچھ ایسی باتیں بھی کیں جسے وہ خلت کو دل دے بیٹھی ہو۔ اس نے محبت اور مظلومیت کا اظہار ایسے الفاظ میں اور ایسے انداز سے کیا کہ خلت اس کی اور باقی لڑکیوں کی رہائی کے متعلق سوچنے لگا۔ دوسری لڑکی خلت کے ساتھی کے ساتھ الگ بیٹھی تھی اور وہ بھی اس قسم کی باتیں کررہی تھی۔ کسی عورت کا محض عورت ہونا اس کی قوت ہوتی ہے اور جب عورت خوبصورت اور جوان ہو اور وہ مظلوم بھی ہو تو مرد پگھل جاتے ہیں۔ یہ کیفیت ان دونوں مردوں کی ہوگئی۔ دونوں میں جوانی کا جوش تھا۔ ان میں غیرت بھی تھی اور اپنی فوج کا یہ اصول بھی کہ عورت کی پاسبانی کرنی ہے خواہ وہ اپنی ہو خواہ کسی اور کی۔
دونوں لڑکیوں نے الگ الگ ان دونوں مصری جاسوسوں کو خوش کرنے کے لیے انہیں کوئی بڑی ہی لذیذ چیز کھانے کو دی۔ ایک لڑکی دبے پائوں گئی اور چھوٹا سا ایک مشکیزہ اٹھا لائی۔ اس میں سے اس نے دونوں کو کچھ پلایا جو کوئی شربت تھا۔ اس کا ذائقہ اتنا اچھا تھا کہ دونوں خاصا زیادہ پی گئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد دونوں کی آنکھ لگ گئی اور جب ان کی آنکھ کھلی تو اگلے دن کا سورج افق سے تھوڑا ہی اوپر رہ گیا تھا۔ وہ ساری رات اور سارا دن سوئے رہے۔ ریگزار کی جھلس دینے والی تپش بھی انہیں نہیں جگا سکی تھی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھے۔ وہاں قافلہ بھی نہیں تھا اور ان دونوں کے اونٹ بھی نہیں تھے اور وہ اس جگہ بھی نہیں تھے جہاں انہوں نے رات پڑائو کیا تھا۔ یہ کوئی اور جگہ تھی۔ اردگرد مٹی اور ریت کے ٹیلے تھے۔ دونوں دوڑتے ہوئے ایک بلند ٹیلے پر چڑھے۔ ادھرادھر دیکھا، انہیں ٹیلوں کی چوٹیوں اور ان سے دور صحرا کی ریت کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔
٭ ٭ ٭
''وہ بوڑھا آدمی میں تھا جس کے ساتھ تم سفر کے دوران باتیں کرتے رہے تھے''… ریمانڈ کے جاسوسوں کے کمانڈر ونڈسر نے انہیں کہا… ''میں تمہاری باتوں سے جان گیا تھا کہ تم جاسوس ہو اور معلوم کرنا چاہتے ہو کہ ہم کون ہیں اور کہاں جارہے ہیں''۔
''وہ تم نہیں تھے''… خلت نے کہا… ''وہ تو کوئی بوڑھا آدمی تھا''۔
''وہ میرا بہروپ تھا''… ونڈسر نے کہا… ''مجھے خوشی ہے کہ تم مان گئے ہو کہ تم دونوں جاسوس تھے اور اب بھی جاسوس ہو اور میں تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ تمہیں بے ہوش کرنے والی لڑکیوں میں سے ایک یہ تھی''۔
''ہم اب جاسوس نہیں ہیں''… خلت نے کہا… ''اب ہم خلیفہ کے وفادار ہیں''۔
''تم بکواس کرتے ہو''… ونڈسر نے کہا… ''علی بن سفیان کی میں نے ہمیشہ تعریف کی ہے مگر تمہاری تربیت مکمل نہیں۔ تم نے ابھی تک اپنے آپ کو چھپانا اور اپنا حلیہ بدلنا نہیں سیکھا''۔
ونڈسر نے انہیں بتایا کہ وہ جنگی سامان اور بہت سی رقم سوڈان لے جارہے تھے۔ قافلے میں جو افراد صحرائی لباس میں تھے، وہ فوجی مشیر تھے۔ وہ سب صلیبی تھے اور سوڈان جارہے تھے۔ انہوں نے ہی سوڈانی فوج تیار کی اور صلاح الدین ایوبی کے بھائی تقی الدین کو ایسی بری شکست دی تھی کہ وہ اپنی آدھی فوج وہیں چھوڑ آیا تھا۔ اگر صلاح الدین ایوبی عقل استعمال نہ کرتا تو تقی الدین باقی فوج وہاں سے نہیں نکال سکتا تھا۔ ان لڑکیوں نے بھی تمہاری شکست میں بہت کام کیا تھا۔ ونڈسر نے انہیں بتایا کہ ان کی ملاقات جب مصر کے شمال میں ہوئی تھی تو رات پڑائو کے دوران ان میں سے کوئی بھی نہیں سویا تھا اور ان دونوں لڑکیوں کو اسی مقصد کے لیے خلت اور اس کے ساتھی کے پاس بھیجا گیا تھا کہ انہیں باتوں میں الجھا کے بے ہوش کردیں۔ ان کی ترکیب کامیاب رہی۔ ان کے بے ہوش ہوتے ہی قافلہ روانہ ہوگیا۔
خلت کو وہ واقعہ اچھی طرح یاد تھا اور یہ واقعہ اس کے دل میں کانٹے کی طرح اترا ہوا تھا۔ اتنے خطرناک جاسوسوں کا قافلہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایسے کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔ اس خلش کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اس نے اس واقعہ کی رپورٹ اپنے ہیڈکوارٹر کو دی ہی نہیں تھی کیونکہ اسے دشمن کے جاسوس دھوکہ دے گئے تھے۔ اس میں اس کی اور اس کے ساتھی کی بے عزتی تھی۔ انہیں دو لڑکیاں بے وقوف بنا گئی تھیں۔ اب ان میں سے ایک لڑکی اور ایک آدمی اس کے سامنے کھڑا تھا۔ خلت اپنے ساتھی سمیت اس کا قیدی تھا۔ اب وہ ہتھیار ڈالنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے یہاں سے نکلنے یا مرجانے کو فیصلہ کرلیا۔
''میری ایک پیشکش قبول کرلو''… ونڈسر نے انہیں کہا… ''میں تم پر ایسا رحم کررہا ہوں جو میں نے کبھی کسی پر نہیں کیا۔ تم دونوں میرے گروہ میں شامل ہوجائو۔ جتنی اجرت مانگو گے دوں گا، کہو گے تو دمشق بھیج دوں گا اور اگر قاہرہ جانا چاہو تو وہاں بھیج دوں گا۔ وہاں تم دونوں صلاح الدین ایوبی کے جاسوس بنے رہنا لیکن کام ہمارے لیے کرنا۔ تمہارا کام یہ ہوگا کہ ہمارے جو جاسوس وہاں کام کررہے ہیں ان کی مدد کرو۔ اگر کوئی ان کی نشاندہی کردے تو انہیں قبل از وقت خبردار
کرکے ادھرادھر کردینا''… وہ بولتا جارہا تھا اور یہ دونوں خاموشی سے سن رہے تھے۔ اسے توقع تھی کہ یہ دونوں مان جائیں گے۔ اس نے کہا… ''یہ پیشکش قبول کرنے سے پہلے میری یہ شرط ہے کہ یہاں تمہارے جتنے جاسوس ہیں وہ پکڑو ادو۔ یہ بتا دو کہ وہ کہاں کہاں ہیں؟''
''ہمیں تمہاری پیشکش کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں''… خلت نے کہا… ''ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ یہاں کوئی جاسوس ہے یا نہیں''۔
''تمہیں شاید معلوم نہیں کہ میں تمہارے جسموں کی کیا حالت بنا دوں گا''… ونڈسر نے کہا… ''اگر تمہیں یہ توقع ہے کہ تمہیں فوراً قتل کردیا جائے گا تو تمہاری یہ توقع پوری نہیں ہوگی۔ میں تمہیں جس تنور میں پھینکوں گا اس میں سے اتنی جلد نجات حاصل نہیں کرسکوں گے''… اس نے مسکرا کر کہا… ''کیا تم مجھ سے منوالو گے کہ تم جاسوس نہیں ہو؟ کیا میں ابھی شک میں ہوں؟ تم میں اتنی عقل نہیں کہ مجھے دھوکہ دے سکو۔ تم میں اتنی عقل ہوتی تو اس لڑکی کے ہاتھوں بے وقوف نہ بنتے۔ اس نے تمہیں اپنی جوانی اور خوبصورتی کے جال میں پھانس لیا تھا''۔
''سنو میرے صلیبی دوست''… خلت کھری باتوں پر آگیا۔ بولا… ''ہم دونوں جاسوس ہیں مگر یہ جھوٹ ہے کہ میں یا میرا یہ رفیق لڑکیوں کے حسن کے فریب میں آگیا تھا۔ میں پتھر ہوں لیکن مجھ میں ایک کمزوری ہے۔ بہت عرصہ گزرا پندرہ سولہ سال کی عمر کی ایک لڑکی میرے سامنے فروخت ہوگئی تھی۔ میں نے اسے بچانے کی کوشش میں ایک آدمی کی تلوار چھین لی تھی… اور ایک کو زخمی بھی کردیا تھا۔ وہ تین تھے اور میں اکیلا۔ انہوں نے مجھے گرا لیا اگر میں بے ہوش نہ ہوجاتا تو اس لڑکی کو بچا لیتا۔ وہ اسے لے گئے اور مجھے لوگ بے ہوشی کی حالت میں اٹھا کر گھر لے گئے''۔
''تم کہاں کے رہنے والے ہو؟''… ونڈسر نے پوچھا۔
''دمشق سمجھ لو''… خلت نے جواب دیا… 
 … ''میں اب کچھ نہیں چھپائوں گا۔ دمشق کے قریب ایک گائوں ہے۔ میں وہاں کا رہنے والا ہوں اور میرا ساتھی بغدادی ہے۔ میں یہ باتیں تمہارے ڈر سے نہیں بتا رہا۔ تم مجھے اتنی آسانی سے پکڑ نہیں سکو گے۔ ہمت ہے تو ہمارے ہاتھوں سے برچھیاں لے لو۔ ہم سے تلوا لو جس تنور کا تم ذکر کرتے ہو، اس میں ہماری لاشیں جائیں گی''۔
ونڈسر کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ صلیبی لڑکی نے ہنس کر کہا… ''انہیں خوش فہمی مروائے گی''۔ اور نئی رقاصہ خلت کو گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
''میں تمہیں بتا رہا تھا کہ میں اس لڑکی کو نہیں بچا سکا تھا''… خلت نے کہا… ''اس لڑکی کی یاد کانٹا بن کر میرے دل میں اتر گئی۔ اس رات جب ہم دونوں تمہارے قافلے کے ساتھ تھے تو تمہاری دولڑکیوں نے مجھے کہا کہ انہیں بیچنے کے لیے اغوا کرکے لے جایا جارہا ہے تو میری آنکھوں کے سامنے وہ لڑکی آگئی جسے میں بچا نہیں سکا تھا۔ میں نے ان دونوں لڑکیوں کے چہروں پر اسی لڑکی کا چہرہ دیکھا۔ میرے دل میں جو کانٹا تھا اس نے میری عقل پر پردہ ڈال دیا۔ اگر مجھے وہ لڑکی یاد نہ آتی تو میں کبھی بے وقوف نہ بنتا''۔
نئی رقاصہ کا جسم بڑی زور سے کانپا۔ وہ پیچھے ہٹ گئی اور پلنگ پر بیٹھ گئی۔ اس کا رنگ زرد ہوگیا تھا۔
''اور اب تو موت بھی مجھے بے وقوف نہیں بنا سکتی''… خلت نے کہا… ''اور تمہارا کوئی لالچ مجھے اپنے فرض سے گمراہ نہیں کرسکتا''۔
ادھر ضیافت کے ہال میں ونڈسر کا انتظار ہورہا تھا جنہیں پتا چل چکا تھا کہ کوئی نئی رقاصہ آئی ہے وہ رقاصہ کے انتظار میں تھے۔ یہ تو کسی نے بھی نہ دیکھا کہ دروازے کے باہر جو وہ سنتری مستعد کھڑے رہتے تھے، وہ کہاں چلے گئے ہیں۔
برچھیاں اور تلواریں ابھی تک خلت اور اس کے ساتھی کے پاس تھیں۔ ونڈسر نے جب دیکھا کہ وہ اس کی پیشکش ٹھکرا چکے ہیں اور دونوں اپنے عقیدے اور فرض کے پکے معلوم ہوتے ہیں تو اس نے انہیں کہا کہ ہتھیار اس کے حوالے کردیں۔ دونوں نے صاف انکار کردیا۔ ونڈسر ان سے زبردستی ہتھیار لینے کے لیے دروازے کی طرف بڑھا۔ وہ باڈی گارڈ ز کو بلانا چاہتا ہوگا۔ خلت نے تیزی سے دروازہ بند کردیا اور زنجیر چڑھا کر برچھی کی نوک ونڈسر کی طرف کرکے کہا… ''جہاں ہو وہیں کھڑے رہو''… اس نے آگے بڑھ کر برچھی کی نوک ونڈسر کی شہ رگ پر رکھ دی۔
خلت کے ساتھی نے اپنی برچھی کی نوک صلیبی لڑکی کی شہ رگ پر رکھی۔ ونڈسر اور لڑکی پیچھے ہٹتے ہٹتے دیوار کے ساتھ جالگے۔ خلت اور اس کے ساتھی نے دونوں کو وہیں دبا لیا۔ خلت نے نئی رقاصہ سے کہا… ''تم ان کے ساتھ کھڑی ہوجائو۔ اگر تم نے شور مچایا تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گی''۔
''اگر تم خلت ہو تو میرا نام حمیرہ ہے''… نئی رقاصہ نے کہا… ''میں نے تمہیں پہلے دن ہی پہچان لیا تھا اور تم مجھے پہچاننے کی کوشش کررہے تھے''۔
تھوڑی دیر پہلے خلت نے اپنے نام کے سوا باقی نشانیاں بتا دی تھیں۔ حمیرہ جب سے یہاں آئی تھی وہ خلت کو دیکھ رہی تھی مگر خلت کی طرح وہ بھی شک میں تھی۔ وہ بھی یہی سوچتی تھی کہ انسانوں کی صورتیں ایک جیسی بھی ہوسکتی ہیں۔
''کیا تم بھی جاسوس ہو؟'' خلت نے پوچھا۔
''نہیں''… حمیرہ نے جواب دیا… ''میں صرف رقاصہ ہوں مجھ پر کوئی شک نہ کرنا خلت۔ میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہارے ساتھ جائوں گی مرنا ہے تو تمہارے ساتھ مروں گی''۔
الصالح ضیافت میں آگیا۔ اس کے تمام امراء وزراء اور دوسرے مہمان بھی آگئے۔ ان میں صلیبی فوج کے افسر بھی تھے جو مشیروں کی حیثیت سے یہاں آئے تھے۔ ان کا انداز بادشاہوں جیسا تھا۔ ان میں ریمانڈ کا فوجی نمائندہ بھی تھا۔ وہ سب ونڈسر کو ڈھونڈرہے تھے۔ وہ ابھی تک غیر حاضر تھا۔ تمام صلیبی لڑکیاں ہال میں پہنچ گئی تھیں۔ صرف ایک نہیں تھی۔ ناچنے والیاں بھی آگئی تھیں، نئی رقاصہ غیرحاضر تھی۔ الصالح کے آجانے سے سب کی بیتابی بڑھ گئی۔ ایک ملازم سے کہا گیا کہ وہ ونڈسر اور دونوں لڑکیوں سے کہے کہ سب آگئے ہیں۔
''انہیں باندھ کر یہیں پھینک چلتے ہیں''… خلت کے ساتھی نے کہا۔
'کیا تم سانپوں کو زندہ رکھنا چاہتے ہو؟''… خلت نے کہا اور برچھی جس کی نوک ونڈسر کی شہ رگ کو چھو رہی تھی پوری طاقت سے دبائی۔ ونڈسر کا سر دیوار کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ برچھی کی انی اس کی شہ رگ میں داخل ہوکر پیچھے نکل گئی۔ ونڈسر کا ہلکا سا خراٹہ سنائی دیا۔
اس کے فوراً بعد ایسا ہی ایک خراٹہ صلیبی لڑکی کے منہ سے نکلا۔ اس کی شہرگ کو چیرتی ہوئی برچھی کی انی خلت کے ساتھی نے پار کردی تھی۔ دونوں نے برچھیاں نکالیں۔ ونڈسر اور لڑکی گر کر تڑپنے لگے۔ خلت اور اس کے ساتھی نے دونوںکے دلوں پر برچھیاں رکھ کر اوپر سے پورا وزن ڈالا۔ دونوں کے دل چڑ گئے۔ ) اور وہ ٹھنڈے ہوگئے۔ دونوں کی لاشوں کو پلنگ کے نیچے پھینک دیا گیا۔ یہ کمرہ ونڈسر کا تھا۔ دیوار کے ساتھ اس کا چغہ لٹک رہا تھا جس کے ساتھ سر کو ڈھانپنے والا حصہ بھی تھا۔ حمیرہ نے خود ہی یہ چغہ پہن لیا اور سر بھی ڈھانپ لیا۔ وہیں سے کپڑے اٹھا کر اس نے رقص والا گھگھرا اتار دیا اور مردانہ لباس کمر سے نیچے تک چڑھا لیا۔ پاپوش بھی بدل لیے اور چہرہ بھی چھپا لیا۔ اسے اب ایک نظر میں کوئی نہیں پہچان سکتا تھا کہ یہ لڑکی ہے۔
خلت نے دروازہ کھولا۔ باہر دیکھا برآمدے میں ملازموں کی آمدورفت اور بھاگ دوڑ تھی۔ وہ تینوں باہر نکلے۔ دروازہ بند کیا اور ایک طرف چل پڑے۔ فوراً بعد وہ اندھیرے میں ہوگئے۔ ادھر ایک کھائی تھی، اس سے اترے اور خطرے کے علاقے سے نکل گئے۔ خلت اور اس کے ساتھی کو معلوم تھا کہ انہیں کہاں جانا ہے۔ ان کا کمانڈر ایک عالم فاضل کے روپ میں جہاں رہتا تھا وہاں چھپنے کی جگہ بھی تھی اور وہاں نکلنے کا بندوبست بھی ہوسکتا تھا۔ اس وقت شہر سے نکلنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ گھوڑے بھی نہیں تھے۔ انہیں حلب سے فرار ہوکر دمشق پہنچنا تھا۔ انہیں یہ اندازہ بھی تھا کہ قتل کا پتا چلتے ہی شہر میں کیا اودھ برپا ہوگا۔
قتل کا انکشاف ہوتے زیادہ دیر نہیں لگی۔ کسی نے ونڈسر کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ پلنگ کے نیچے سے جو خون بہہ رہا تھا وہ فرش پر پھیلتا ہوا دروازے تک پہنچ گیا تھا۔ ہنگامہ بپا ہوگیا۔ وہاں ایک نہیں دو لاشیں تھیں، دونوں کے زخم ایک جیسے تھے۔ فوری طور پر پہرہ داروں کا خیال آیا۔ ان کی موجودگی میں بیک وقت دو قتل کون کرسکتا تھا؟ جن سنتریوں کی ڈیوٹی تھی انہیں بلایا گیا۔ دونوں غائب تھے۔ اس عمارت میں کسی کا بغیر اجازت داخلہ ممنوع تھا۔ یہاں چیدہ چیدہ لوگ جو حاکم یا معزز شہری تھے، آسکتے تھے۔ ان کی بھی چیکنگ ہوتی تھی۔ باڈی گارڈز کے کمانڈر کے لیے مصیبت کھڑی ہوگئی۔ یہ قتل پیشہ وروں کا کام تھا یا سلطان ایوبی کے جاسوسوں کا اور یہ کام فدائی قاتلوں کا بھی ہوسکتاتھا۔ کسی نے کہا کہ کرائے کے یہ قاتل کسی سے بھی اجرت لے کر قتل کرسکتے ہیں۔
دروازے کے دونوں سنتری نہ ملے تو یہ شک پختہ ہوگیا کہ وہ سلطان ایوبی کے آدمی ہوںگے اور انہوں نے ونڈسر کو اس وجہ سے قتل کیا ہے کہ وہ جاسوسوں کا سربراہ بن کے آیا تھا۔ رات دیر تک خلت اور اس کا ساتھی نہ ملے تو شہر میں ان کی تلاش شروع ہوگئی۔ یہ انکشاف بہت دیر بعد ہوا کہ نئی رقاصہ بھی غائب ہے۔ شہر کی ناکہ بندی کردی گئی۔
خلت، اس کا ساتھی اور حمیرہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے اپنے کمانڈر کو اپنا کارنامہ سنایا تو اس نے انہیں چھپا لیا اور کہا کہ وہ باہر کے حالات کے مطابق انہیں بتائے گا کہ وہ کب یہاں سے نکلیں۔ اس پر کسی کو شک نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اسے لوگ عالم اور برگزیدہ انسان سمجھتے تھے۔اداکاری میں اسے مہارت حاصل تھی۔ اس نے اپنے جو دو شاگرد اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے وہ بھی جاسوس تھے۔ حلب سے دمشق تک وہی اطلاعات پہنچاتے تھے۔ اس نے دونوں شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ باہر کی خبر رکھیں کہ کیا ہورہا ہے۔
 حمیرہ نے اس ''عالم'' کے سامنے خلت کو سنایا کہ اس پر کیا گزری تھی۔ وہ واقعہ تو سات آٹھ سال پرانا ہوچکاتھا۔ اس نے سنایا کہ خلت جب حمیرہ کو اس کے باپ (جو دراصل اس کا باپ نہیں تھا) اور ان دو آدمیوں سے بچانے کے لیے لڑا تھا تو حمیرہ کے باپ نے پیچھے سے کدال خلت کے سر پر ماری تھی۔ اس سے وہ بے ہوش ہوگیا تھا۔ وہ تینوں حمیرہ کو گھر لے گئے۔ ایک نکاح خواں کو بلایا جس نے اس سے پوچھے بغیر نکاح پڑھ دیا اور وہ دونوں آدمی حمیرہ کو اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ ایک رات وہ دمشق میں ٹھہرے پھر اسے ان علاقوں میں لے گئے جو صلیبیوں کے قبضے میں تھے۔ اسے ناچ کی تربیت دی جانے لگی۔ ابتداء میں اس نے مزاحمت کی مگر اس پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ بے ہوش ہوجاتی تھی۔ اس دوران اسے خوراک نہایت اچھی دی جاتی تھی۔ اسے کوئی بڑا ہی لذیذ شربت پلایا جاتا تھا جس کے اثر سے وہ ہنسنے اور ناچنے لگتی تھی۔
تشدد اور نشے سے اسے رقاصہ بنالیا گیا۔ بہت اونچے درجے کے لوگ اسے داد دینے لگے۔ وہ ایسے قیمتی تحفے لاتے تھے کہ وہ دنگ رہ جاتی تھی۔ اسے یروشلم بھی لے جایا گیا تھا جہاں دو آدمیوں نے اس کے مالکوں سے کہا تھا کہ وہ منہ مانگی قیمت لے لیں اور یہ لڑکی انہیں دے دیں۔ انہوں نے صاف بتا دیا تھا کہ وہ اسے جاسوسی وغیرہ کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے مالکوں نے سودا قبول نہیں کیا تھا۔ اسے اغوا کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی جو ناکام بنا دی گئی تھی۔ اب اسے حلب میں کسی اور امیر کی فرمائش پر بلایا گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ پہلے دن اس نے خلت کو دیکھا تو اس نے بلاشک وشبہ دل سے کہا تھا کہ یہ خلت ہے لیکن یہ شک بھی ہوتا تھا کہ ہوسکتا ہے یہ خلت کی شکل وصورت کا کوئی اور آدمی ہو۔ وہ اسے غور سے دیکھتی تھی۔ آخر یہ اتفاق ہوا کہ ونڈسر نے خلت اور اس کے ساتھی کو پہچان لیا۔ ونڈسر نے اپنی لڑکی کو بلایا تو حمیرہ بھی اس کے ساتھ چلی گئی۔ خلت نے جب اپنے متعلق چند ایک باتیں بتائیں تو حمیرہ کے شکوک رفع ہوگئے۔
اس نے کہا ''میں اس ذلیل زندگی کی عادی ہوگئی تھی۔ میرے دل میں جذبات مرگئے تھے۔ میں ایک پتھر کی طرح ادھر دھر لڑھکتی پھر رہی تھی لیکن خلت کو دیکھا تو میرے سارے جذبات زندہ ہوگئے۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ خلت ہی ہے مگر اس کی صورت نے مجھے وہ وقت یاد دلا دیا جب میرے دل میں اس کی محبت تھی اور اس کے بچوں کی ماں بننے کی خواہش۔ میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ کسی وقت اس سے پوچھوں گی کہ تم خلت ہو؟ اگر یہ خلت نکلا تو اسے کہوں گی کہ آئو بھاگ چلیں اور صحرا کے خانہ بدوشوں کی طرح زندگی بسر کریں گے''۔
اسے خلت تو مل گیا اور وہ اس کے ساتھ بھاگ بھی آئی لیکن حلب سے بچ کر نکلنا ایک مسئلہ تھا۔
٭ ٭ ٭
: خلیفہ کی ضیافت اور رقص کی محل ویران ہوچکی تھی۔ وہاں ونڈسر کا انتظار ہورہا تھا مگر ونڈسر کی لاش پہنچی۔ وہاں صلیبی فوج کے جو اعلیٰ افسر تھے وہ سخت غصے میں تھے۔ ریمانڈ کا فوجی نمائندہ تو سب سے زیادہ بھڑکا ہوا تھا۔ ونڈسر بہت قیمتی افسر تھا۔ فوجی نمائندہ الملک الصالح اور اس کے امراء اور اس کے فوجی کمانڈروں پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتا تھا اور سب اس سے دبک رہے تھے۔ ان کے دلوں میں صلاح الدین ایوبی کی دشمنی اتنی زیادہ تھی کہ وہ صلیبی افسروں کو فرشتے سمجھے بیٹھے تھے۔ انہیں کی مدد سے وہ جنگ کی تیاری کررہے تھے، لہٰذا ان کی خوشامد کو وہ ضروری سمجھتے تھے۔ فوجی نمائندہ جو کچھ کہتا تھا سب اس کے آگے سر جھکا لیتے اور ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔ اس نے کہا… ''قاتل رات ہی رات شہر سے نہیں نکل سکتے۔ صبح سویرے حلب کے ایک ایک گھر کی تلاشی لی جائے۔ یہاں کی ساری فوج کو اس پر لادو۔ فوج لوگوں کے جاگنے سے پہلے گھروں میں داخل ہوجائے۔ یہاں کے باشندوں کو اتنا پریشان کیا جائے کہ وہ قاتلوں کو خود ہی ہمارے حوالے کردیں''۔
''ایسا ہی ہوگا''… ایک مسلمان امیر نے کہا… ''ہم فوج کو ابھی حکم دے دیتے ہیں کہ سحر کے اندھیرے میں شہر میں پھیل جائے''۔
''ایسا نہیں ہوگا''… یہ آواز ایک مسلمان قلعہ دار کی تھی، اس نے ایک بار پھر گرج کر کہا… ''ایسا نہیں ہوگا، تلاشی صرف اس گھر کی لی جائے گی جس پر پختہ شک اور کوئی واضح شہادت ہوگی''۔
اتنے سارے اعلیٰ حکام کے ہجوم پر اس گرج دار آواز نے سناٹا طاری کردیا۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ ریمانڈ کے فوجی 
نمائندے کے حکم کو کوئی مسلمان ایسے جوش سے ٹوکے گا۔ سب نے دیکھا کہ یہ کون ہے، وہ حماة کا قلعہ دار تھا جس کا نام جوردیک تھا (تاریخ میں اس کا نام جوردیک ہی لکھا گیا ہے۔ پورے نام کا علم نہیں ہوسکا، اس کے متعلق تاریخ اتنا ہی بتاتی ہے کہ وہ صلاح الدین ایوبی کا دوست تھا) لیکن وقائع نگاروں کے مطابق اس واقعہ تک وہ صلاح الدین ایوبی کے مخالف کیمپ میں تھا اور الصالح کے وفاداروں میں سے تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ صرف اس ضیافت میں ہی شریک نہیں تھا بلکہ جنگی کانفرنسوں میں شریک ہوتا تھا۔ سلطان ایوبی کے خلاف جنگ کا جو منصوبہ بنا تھا، وہ اس میں بھی شریک تھا۔
اس نے جب ایک صلیبی کے منہ سے یہ الفاظ سنے کہ حلب کے ہر گھر کی تلاشی لی جائے گی تو اس میں اسلامی وقار بیدار ہوگیا۔ اس نے کہا… ''یہاں مسلمان گھرانے ہیں جن میں پردہ نشین خواتین بھی ہیں۔ ہم ان کی بے عزتی برداشت نہیں کریں گے۔ شریف گھرانوں میں فوجی داخل نہیں ہوگے''۔
''قاتل اسی شہر کے تھے''… ایک صلیبی افسر نے کہا… ''ہم تمام شہریوں سے انتقام لیںگے۔ ونڈسر جیسا قابل افسر قتل ہوگیا ہے۔ ہمیں کسی کی عزت اورکسی کے پردے کی پروا نہیں''۔
''اور مجھے تمہارے ایک افسر کے قتل کی پروا نہیں''… جوردیک نے قہر سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔
''جوردیک! خاموش رہو!'' نوعمر اورناتجربہ کار سلطا ن نے حکم کے لہجے میں کہا… ''یہ لوگ اتنی دور سے ہماری مدد کے لیے آئے ہیں، کیا تم مہمان نوازی کے آداب سے ناواقف ہو؟ احسان فراموش نہ بنو۔ ہمیں قاتل کو پکڑنا ہے''۔خلیفہ کی تائید میں کئی آوازیں سنائی دیں۔
''میں صلاح الدین ایوبی کے خلاف ہوسکتا ہوں اور ہوںبھی''… جوردیک نے کہا… ''لیکن اپنی قوم کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ محترم سلطان! اگر آپ نے شہریوں کو پریشان کیا تو سب آپ کے خلاف ہوجائیں گے۔ آپ صلاح الدین ایوبی کے خلاف جو محاذ بنا رہے ہیں وہ کمزور ہوجائے گا''۔
''ہم نے قوم کی کبھی پروا نہیں کی''… ریمانڈ کے فوجی نمائندے نے کہا… ''ہم قاتلوں کو ڈھونڈیں گے۔ وہ کسی گھر میں ہی ہوں گے۔ ہم انہیں باہر نکال لیں گے۔ یہ قتل صلاح الدین ایوبی نے کرایا ہے''۔
''میرے دوست!''… جوردیک نے کہا… ''تمہارے ایک افسر کا قتل کوئی بڑی بات نہیں۔ تم صلاح الدین ایوبی کو قتل کرانے کی کتنی بار کوشش کرچکے ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ تم اسے قتل نہیں کرسکے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ تم نے کوئی جرم کیا تھا۔ دشمن ایک دوسرے کو ہر جائز ناجائز طریقے سے مارنے اور مروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ا گر تمہارے ونڈسر کو ایوبی نے قتل کرایا ہے تو فرق صرف یہ پڑا ہے کہ تم اسے قتل کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے اور وہ تمہارے ایک اہم افسر کو قتل کرانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ تم اس کے کئی ایک اہم افسروں کو قتل کراچکے ہو۔ اس نے شہریوں کو کبھی پریشان نہیں کیا''۔
: تمام مسلمان امراء اور حکام جوردیک کے خلاف بولنے لگے۔ وہ صلیبیوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن جوردیک نے سب کا مقابلہ کیا ور اسی بات پر ڈٹا رہا کہ شہر کے کسی گھر کی تلاشی نہیں لے جائے گی۔
''تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ تم بھی اس قتل میں شریک ہو؟'' ایک صلیبی مشیر نے کہا… ''مجھے شک ہے کہ تم صلاح الدین ایوبی کے دوست ہو''۔
''اگر حلب کے مسلمان گھرانوں کو پریشان کیا گیاتو میں کسی کے بھی قتل میں شریک ہوسکتا ہوں''۔ جوردیک نے کہا… ''اورمیں ایوبی کا دوست بھی ہوسکتا ہوں''۔
''ہم جب تک یہاں ہیں ہمارا حکم چلے گا''۔ صلیبی نمائندے نے کہا۔
''تم یہاں اجرت پر آئے ہو''۔ جوردیک نے کہا… ''یہاں ہمارا حکم چلے گا۔ ہم مسلمان ہیں۔ حالات ہمیں آپس میں لڑا رہے ہیں۔ مسلم اور غیرمسلم کی کبھی دوستی نہیں ہوسکتی اگر تم بلا اجرت آئے ہو تو میں تمہاری مدد سے دستبردار ہوتاہوں۔ میں قلعہ داری کے عہدے سے بھی دستبردار ہوتا ہوں اور میں تم سب کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ میری قوم کے کسی ایک بھی بے گناہ فرد کو تکلیف دی گئی تو میں انتقام لوں گا''۔
کسی کے اشارے پر دو آدمی جوردیک کو باہر لے گئے۔ اس کی غیرحاضری میں صلیبی نمائندے نے سب سے کہا کہ حالات ایسے ہیں کہ قلعہ دار کو ناراض نہیں کیا جاسکتا۔ یہ شخض اتنی دلیری سے باتیں کررہا ہے تو اس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ اس کے قلعے میں جو فوج ہے وہ اس کی مرید ہے اگر ایسا ہے تو یہ صورتحال اچھی نہیں۔ آپس میں صلاح مشورہ کرکے جوردیک کو اندر بلایا گیا اور اسے بتایا گیا کہ شہریوں کو پریشان نہیں کیا جائے گا مگر قاتلوں کو تلاش ضرور کیا جائے گا۔ جوردیک نے کہاکہ وہ تین چار دن وہیں رہے گا۔
٭ ٭ ٭
تین چار دنوں بعد جوردیک حلب سے روانہ ہوا۔ وہ اپنے قلعے حماة کو جارہا تھا۔ اس کی موجودگی میں قاتلوں کی تلاش اور سراغ رسانی ہوتی رہی۔ اس کی خواہش کے مطابق کسی گھر کی تلاشی نہیں لی گئی تھی۔ وہ مطمئن ہور جارہا تھا مگر صلیبیوں کو اس کے متعلق اطمینان نہیں تھا۔ اس کے ساتھ دس بارہ محافظ تھے۔ جوردیک سمیت سب گھوڑوں پر سوار تھے۔راستے میں ٹیلوں اور چٹانوں کا علاقہ آتا تھا۔ جوردیک اس علاقے میں داخل ہوا تو بیک وقت کہیں سے دو تیر آئے۔ دونوں اس کے گھوڑے کے سر میں پیوست ہوگئے۔ تیر اندازوں نے تیر جوردیک پر چلائے ہوں گے۔ گھوڑا بے لگام ہوکر دوڑ پڑا۔ دو تیر اور آئے۔ وہ بھی گھوڑے کو لگے۔ اب کے نشانہ خطا ہونے کی وجہ یہ ہوسکتی تھی کہ گھوڑا بدک کر ادھر ادھر دوڑ رہا تھا۔
جوردیک شاہسوار تھا، و دوڑتے گھوڑے سے کود کر ایک چٹان کی اوٹ میں ہوگیا۔ اس کے محافظ ادھر ادھر بکھر گئے۔ وہ تیر اندازوں کے تعاقب میں گئے تھے۔ علاقہ ایسا تھا کہ کسی کو پکڑنا آسان نہیں تھا۔ جوردیک سمجھ گیا کہ یہ کرائے کے قاتل ہیں جنہیں صلیبیوں نے اسے قتل کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ انہیں یہ شک تھا کہ جوردیک سلطان ا یوبی کا دوست ہے۔ وہ جنگجو تھا۔ چٹان کی اوٹ سے نکل کر اوپر چلاگیا۔ اسے صرف چٹانیں نظرا ئیں یا اپنے محافظ جو ادھر ادھر تیر اندازوں کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔
''ادھر آجائو''۔ کسی نے چلا کر کہا… ''ادھر آجائو۔ پکڑ لیے ہیں''۔
محافظ ادھر کو بھاگے محافظوں نے تین آدمیوں کو گھیرے میں لے رکھاتھا۔ تینوں نقاب پوش تھے مگر ان کے پاس کمانیں نہیں تھیں۔ترکش بھی کسی کے پاس نہیں تھی۔ ان کے ساتھ گھوڑے تھے۔ انہیں اس حالت میں پکڑا گیا تھا کہ وہ گھوڑوں پر سوار ہورہے تھے۔ تینوں نے چہرے چھپا رکھے تھے۔ ان کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں انہیں پکڑ کر جوردیک کے پاس لے گئے۔
''تمہاری کمانیں اور ترکش کہاں ہیں؟'' جوردیک نے ا ن سے پوچھا۔
''ہمارے پاس صرف تلواریں ہیں''۔ ایک نے جواب دیا۔
''سنو بھائیو!'' جوردیک نے بڑے تحمل سے کہا… ''تمہارے چاروں تیر خطا گئے۔ تم مجھے قتل نہیں کرسکے۔ تم پکڑے بھی گئے ہو۔ تم ہار گئے ہو، اب جھوٹ سے بچو''۔
''کیسے تیر؟'' ایک نے حیرت زدہ ہوکر کہا… ''ہم نے کسی پر تیر نہیں چلائے۔ ہم مسافر ہیں۔ ذرا آرام کرنے کے لیے رکے تھے۔ اب جارہے تھے کہ ان لوگوں نے پکڑ لیا''۔
جوردیک ہنس پڑا اور جواب دینے والے نقاب پوش سے کہنے لگا… ''میں تمہیں اپنا دشمن نہیں سمجھتا۔ اگر ایسا ہوتا تو اب تک میں تم تینوں کی گردنیں اڑا چکا ہوتا۔ تم کرائے کے قاتل ہو۔ صرف یہ بتا دو کہ میرے قتل کے لیے تمہیں کس نے بھیجا ہے؟ صاف صاف بتا دو اور جائو''۔
دو نقاب پوشوں نے قسمیں کھائیں، تیسرا خاموش رہا۔
''اپنے آپ کو عذاب میں نہ ڈالو''۔ جوردیک نے کہا… ''کسی کے لیے اپنی جانیں ضائع نہ کرو، میں تمہیں کوئی سزا نہیں دوں گا۔ فوراً آزاد کردوں گا''۔
: نقاب پوشوں نے پھر پس وپیش کی۔
''ان کے نقاب اتار دو'' جوردیک نے اپنے محافظوں سے کہا… ''ان سے تلواریں لے لو''۔
دو نقاب پوشوں نے نیاموں سے تلواریں نکال لیں اور پھرتی سے پیچھے ہٹ گئے۔ تیسرا نقاب پوش ان دونوں کے پیچھے ہوگیا۔ اس کے پاس تلوار نہیں تھی۔ جوردیک نے قہقہہ لگا کر کہا… ''کیا تم اتنے سارے محافظوں کا مقابلہ کرسکو گے جبکہ تمہارے تیسرے ساتھی کے پاس تلوار ہی نہیں ہے؟ میں تمہیں ایک اور موقع دیتا ہوں۔ میں نے ابھی اپنے محافظوں کو حکم نہیں دیا کہ وہ تمہاری بوٹیاں اڑا دیں''… محافظوں نے ان کے گرد گھیرا ڈال لیا تھا۔
''اور میں تمہیں آخری بار کہتا ہوں کہ ہم میں سے کسی نے تیر نہیں چلائے''۔ ایک نقاب پوش نے کہا۔
محافظوں کا کمانڈر ان تینوں کے پیچھے کھڑا تھا۔ اسے جانے کس طرح کچھ شک ہوا۔ اس نے اس تیسرے نقاب پوش جس کے پاس تلوار نہیں تھی کا چغہ اوپر سے کھینچا تو اس کے سر کا حصہ پیچھے کو ہوگیا۔ اس نے اس کا نقاب بھی نوچ لیا اور جب چہرہ بے نقاب ہوا تو سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ جوردیک نے کہا کہ اسے اس کے پاس لایا جائے۔ دونوں نقاب پوشوں نے حیران کن پھرتی سے پیچھے کو مڑ کر لڑکی کو پکڑنے والے محافظ کے سینے میں تلواریں رکھ دیں۔ ایک نے للکار کر کہا… ''جب تک ہمیں پوری بات نہیں بتائو گے اور ہماری نہیں سنو گے اس لڑکی کو ہاتھ نہیں لگا سکو گے۔ ہم جانتے ہیں ہمیں تمہارے ہاتھوں مرنا ہے لیکن ہم ان میں سے آدھے محافظوں کو مار کر مریں گے۔ تمہیں یہ لڑکی زندہ نہیں مل سکتی''۔
جوردیک ایک ٹھنڈے مزاج کا آدمی معلوم ہوتا تھا۔ اس نے محافظوں کو پیچھے ہٹا دیا اور نقاب پوشوں سے کہا… ''تم مجھ سے اور کیا بات سننا چاہتے ہو؟ بات اتنی سی ہے کہ تم کرائے کے قاتل ہو اور یہ لڑکی تمہیں انعام کے طور پر ملی ہے''۔
''دونوں باتیں غلط ہیں''۔ ایک نقاب پوش نے کہا… ''ایک صلیبی حاکم اور ایک جاسوس صلیبی لڑکی کو قتل کرنا گناہ نہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم فرار میں پکڑے گئے ہیں لیکن ہم خوش ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ یہ لڑکی مسلمان ہے، مظلوم ہے اسے ہم صلییبوں کے پنجے سے چھڑا کر لا رہے ہیں اور دمشق جارہے ہیں''۔
''کیا ونڈسر اور صلیبی لڑکی کو تم نے قتل کیا ہے؟'' جوردیک نے پوچھا۔
''ہاں!'' ایک نقاب پوش نے جواب دیا۔ ''ہم نے ان دونوں کو قتل کیا ہے''۔
''اور کیا تم نے مجھ پر اس لیے تیر چلائے ہیں کہ ہم سلطان صلاح الدین ایوبی کے دشمن ہیں''۔ جوردیک نے پوچھا۔
''ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ تم سلطان ایوبی کے دشمن ہو لیکن تمہیں قتل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے اس کی مدد سے ہم بہت جلد تم سے ہتھیار ڈلوا کر تمہیں تمہاری فوج سمیت اپنا قیدی بنا لیں گے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی، حسن بن صباح اور شیخ سنان نہیں، وہ للکار کر لڑا کرتا ہے، چوروں کی طرح قتل نہیں کرایا کرتا۔ ونڈسر اور لڑکی کا قتل ہمارا ذاتی فعل تھا۔ حالات کا تقاضا تھا کہ وہ قتل کردئیے جائیں۔ ہم نے قتل کا رتکاب کیا۔ یہ سلطان ایوبی کا حکم اور منشا نہیں تھی''… اس نے جوردیک کے گھوڑے کی طرف دیکھا جو کچھ دور مرا پڑاتھا۔ دو تیر اس کی پیشانی میں اور دو پہلو میں اترے ہوئے تھے۔ نقاب پوش نے کہا… ''گھوڑے پر سوار ہوجائو۔ ہم دونوں میں سے کسی کو تیروکمان دو۔ تم گھوڑا دوڑائو جس طرح بھی دوڑا سکتے ہو دوڑائو۔ دائیں بائیں ہوتے جائو، ہم دونوں میں سے کوئی ایک گھوڑے پر سوار ہوکر تم پر تیر چلائے گا۔ اگر پہلا تیر خطا جائے تو تیر انداز کی گردن اڑا دینا۔ یہ تیر ہمارے چلائے ہوئے نہیں تھے۔ جو تمہاری بجائے تمہارے گھوڑے کو لگے''۔
 ''تم معمولی سپاہی نہیں لگتے؟'' جوردیک نے کہا ''کیا تم سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کے آدمی ہو؟''
''اور تم کون ہو؟ '' نقاب پوش نے کہا… ''کیا تم صلاح الدین ایوبی کی فوج کے آدمی نہیں ہو؟ کیا تم اسلام کے سپاہی نہیں ہو؟… تما پنی اصلیت کو بھول گئے ہو۔ قلعہ داری کے عہدے نے تمہارا دماغ خراب کردیا ہے۔ تم نے اس سے زیادہ رتبہ حاصل کرنے کے لیے کافروں سے دوستانہ گانٹھ لیا ہے''۔
''تم درخت سے ٹوٹی ہوئی وہ ٹہنی ہو جس کی قسمت میں سوکھ کرتنکا تنکا ہوجانا لکھ دیا گیا ہے'' دوسرے نقاب پوش نے کہا… ''تم اتنے اہم انسان نہیں ہو کہ سلطان ایوبی تمہارے قتل کی ضرورت محسوس کرے۔ تم اپنے کیے کی سزا بھگتنے کے لیے زندہ رہو گے۔ تم مرو گے تو صلیبیوں کے ہاتھوں مرو گے''۔
''تم حلب شراب پینے اور عیش کرنے گئے تھے''۔ پہلے نقاب پوش نے کہا… ''تم اس لڑکی کے ناچ سے لطف اندوز ہونے گئے تھے''۔
''میں مسلمان لڑکی ہوں''۔ لڑکی بولی… ''مجھے صلیبیوں کی محفلوں میں نچایا گیا اور وہ میرے جسم کے ساتھ کھیلتے رہے۔ ذرا سی دیر کے لیے تصور کرو کہ میں تمہاری بیٹی ہوں۔ میں نے وہاں مسلمانوں کی بیٹیوں کو ننگا ناچتے دیکھا ہے۔ تم اتنے بے غیرت ہوگئے ہو کہ اپنی بیٹیوں کی آبروریزی بھی تم میں غیرت بیدار نہیں کرسکتی۔ میں صلیبیوں میں سات آٹھ سال گزار کر آئی ہوں۔ میں نے ان صلیبی حاکموں کے ساتھ بھی وقت گزارا ہے جنہیں تم نے اپنا دوست بنا کر یہاں بلایا ہے۔ میں نے ان کی باتیں سنی ہیں وہ دوستی کا فریب دے کر مسلمانوں کو آپس میں لڑا رہے ہیں''۔
جوردیک پر خاموشی طاری ہوگئی تھی۔ اس کے محافظ حیران تھے کہ اتنا خود سر اور دلیر قلعہ داران تینوں کی اتنی سخت باتیں برداشت کررہا ہے۔ وہ گہری سوچ میں کھو گیا تھا۔ اسے وہ جھڑپ یاد آرہی تھی جو اس نے ریمانڈ کے فوجی نمائندے سے اس مسئلے پر کی تھی کہ حلب کے باشندوں کے گھروں کی تلاشی لی جائے گی۔ اسے یہ خیال آیا کہ اس پر تیر چلانے والے صلیبیوں کے آدمی ہوں گے۔ اس نے نرم سے لہجے میں نقاب پوشوں سے کہا… ''میں تمہیں اپنے قلعے میں لے جانا چاہتا ہوں''۔
''قیدی بنا کر؟''۔
''نہیں!'' جوردیک نے یہ کہہ کر سب کو حیران کردیا… ''مہمان بنا کر۔ مجھے پر بھروسہ رکھو۔ اپنی تلواریں اپنے پاس رکھو''۔
سب گھوڑوں پر سوار ہوگئے۔ جوردیک کا گھوڑا مرچکا تھا۔ اس نے ایک محافظ کا گھوڑا لے لیا اور یہ قافلہ چل پڑا۔ 
وہ چٹانی علاقے سے نکلنے والے تھے کہ سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دئیے۔
جاری ھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں