داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 63 - اردو ناول

Breaking

بدھ, دسمبر 11, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 63


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔63- صلیب کے سائے میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قتل کا یہ طریقہ صلاح الدین ایوبی کے فوجی حاکموں وغیرہ کے لیے بڑا ہی عجیب تھا کہ سلطان ایوبی پر جان قربان کرنے والے ایک محافظ کے ذہن کو اپنے قبضے میں لے کر سلطان ایوبی پر ہی قاتلانہ حملہ کرایا۔ اللہ نے کرم کیا کہ سلطان ایوبی بال بال بچ گیا۔ اس واقعہ کے فوراً بعد سلطان ایوبی نے جو کانفرنس بلائی اس میں دمشق کی انتظامیہ اور فوج کے حکام بلائے گئے تھے۔ ان سب کے مزاج اکھڑے ہوئے تھے۔ سب غصے سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ سب الصالح اور اس کے امراء اور وزراء سے بہت جلد انتقام لینے کو بیتاب ہوئے جارہے تھے جنہوں نے سلطان ایوبی کو قتل کرنے کی سازش کی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ سلطان نے انہیں قاتلانہ حملے پر غوروخوض کرنے کے لیے بلایا ہے لیکن سلطان آیا تو اس نے اس واقعہ کا ذکر ہی نہ کیا جیسے اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ اسے اس وقت تک جاسوسوں نے دشمن کی سرگرمیوں کی جو اطلاعات دی تھی، وہ ان کے مطابق اپنے پلان کی تبدیلی کے متعلق سب کو آگاہ کررہا تھا۔ اس کا رویہ اور انداز سروسا تھا۔
جونہی اس نے اپنا لیکچر ختم کیا، سب بھڑک اٹھے۔ وہ انتقام کی باتیں کررہے تھے۔ سلطان ایوبی نے بے نیازی سے مسکرا کر وہی بات کہی جو وہ پہلے بھی کئی با کرچکا تھا۔ ''اشتعال، غصے اور جذبانیت سے بچو۔ دشمن آپ کو مشتعل کرکے ایسی کارروائی پر مجبور کرنا چاہتا ہے جس میں عقل کے بجائے جذبات اور غصہ ہو۔ میرا تمام تر منصوبہ ایک قسم کی انتقامی کارروائی سے بڑھ کر کوئی اہمیت نہیں کہ تم اسلام او ر سلطنت اسلامیہ کے پاسبان ہو۔ تم سب کو جانیں قربانی کرنی ہیں۔خواہ میدان جنگ میں مارے جائو خواہ دھوکے میں دشمن کے ہاتھوں قتل ہوجائو۔ حکمران اور مجاہد میں یہی فرق ہے۔ حکمران اپنی حکومت کی اور اپنی ذات کی حفاظت کرتا ہے اور مجاہد اپنے ملک وملت پر قربان ہوتا ہے۔ الصالح اور اس کے امیر وزیر اپنی بادشاہی کی حفاظت کررہے ہیں۔ احکام خداوندی کی خلاف ورزی ہے اس لیے وہ ناکام ہوں گے''۔
اس نے اپنی انٹیلی جنس کے نائب سربراہ حسن بن عبداللہ سے کہا کہ وہ ایسے تمام کھنڈروں اور پرانی عمارتوں کو جن کا کوئی مصرف نہیں مسمار کرادے۔ اس نے یہ ہدایات بھی جاری کیں کہ مسجدوں میں اس موضوع پر خطبے دئیے جائیں کہ دونوں جہاں کا حاکم خدا ہے اور غیب کا حال اس کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ خدا کا کوئی بندہ خدا اور بندوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ خدا ہر کسی کی سنتا ہے اور کسی انسان کے آگے سجدہ ناجائز ہی نہیں گناہ ہے۔ توہم پرستی سے لوگوں کو بچائو۔ اس نے کہا ''اپنے سپاہیوں کو سمجھائو کہ جس طرح میدان جنگ میں اپنے جسم کو دشمن کی تلوار سے بچاتے ہو اور روکتے ہو، اس طرح ذہن اور دل کو بھی دشمن کے وار سے بچائو۔ یہ وار تلوار کا نہیں زبان کا ہوتا ہے۔ جس کے زخم مل جاتے ہیں، جسم زخمی ہوکر بھی لڑتا رہتا ہے مگر ذہن اور دل پر زخم آجائے تو جسم بیکار ہوجاتا ہے۔ تم نے نشے کا اثر دیکھ لیا ہے۔ میرے اپنے محافظ نے مجھ پر ہی حملہ کردیا۔ جب نشہ اترا تو وہ مان نہیں رہا تھا کہ اس نے مجھ پر حملہ کیا ہے۔ اس نشے میں ایک خوبصورت لڑکی کا نشہ بھی شامل تھا۔ یہ بھی یاد رکھو کہ یہ حالت صرف ان لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں تم اپنا غلام اور مویشی بنا لیتے ہو۔ ان میں ذمہ داری کا اور مسلمان کی عظمت کا احساس بیدار کرو۔ ان پر ذمہ داریوں اور قومی وقار کا نشہ طاری کردو۔ ملک وملت کا وقار اور اس وقار کا دفاع ان کے ایمان میں شامل کردو، پھر ان پر کوئی اور نشہ طاری نہیں ہوسکے گا''۔
سلطان ایوبی نے حملے کا جو پلان بنایا تھا اس کے مطابق قلعہ بہ قلعہ آگے بڑھنا تھا۔ مضبوط اور مشہور قلعے حمص اور حماة کے تھے۔ حلب شہر الگ تھا، اس کے دفاعی انتظامات مضبوط تھے اور شہر سے کچھ دور قلعہ تھا جسے قلعہ حلب کہا جاتا تھا۔ ان کے علاوہ کئی اور قلعہ بندیاں تھیں جن میں زیادہ تر پہاڑی اور دشوار گزار علاقے میں تھیں۔ سب سے بڑی دشواری اس علاقے کی سردی تھی۔ پہاڑیوں پر برف باری بھی ہوتی تھی جو سردی میں اضافہ کردیتی تھی۔ چونکہ وہاں سردیوں میں کبھی لڑائی نہیں ہوئی تھی اس لیے مخالفین نے اپنی فوج جو مختلف امراء کے زیرکمان تھی قلعہ بند کردی تھی۔ اس کے صلیبی مشیروں نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا تھا۔ ادھر سلطان ایوبی نے سردیوں میں ہی لڑنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ اسے جاسوس مسلسل خبریں دے رہے تھے۔
ان خبروں میں ایک اطلاع یہ بھی تھی کہ حلب کی مسجدوں میں امام اور خطیب لوگوں کو اس موضوع پر وعظ اور خطبے دے رہے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی وہ گناہ گار انسان ہے جس نے بادشاہی کے لالچ اور نشے میں اور جنگی طاقت کے گھمنڈ میں خلیفہ کا نام خطبے سے نکال دیا ہے۔ سلطان ایوبی کو عیاش اور بدکار کہا جارہا تھ
: تھا اور یہ بھی کہ خطبے میں خلیفہ کا نام نہ لیا جائے تو خطبہ مکمل نہیں ہوتا اور نامکمل خطبہ گناہ ہے۔ سرائوں، مسافر خانوں اور بازاروں میں بھی یہی الفاظ سنے اور سنائے جارہے تھے کہ صلاح الدین ایوبی عیاش اور بدکار ہے اور نام کا مسلمان۔ اس کے ساتھ ہی جاسوسوں کی اطلاعوں کے مطابق لوگوں میں صلاح الدین ایوبی کے خلاف جنگی جنون پیدا کیا جارہا تھا۔ الصالح کی فوج تھوڑی تھی۔ آدھی فوج سپہ سالار توفیق جواد کے زیرکمان سلطان ایوبی کے ساتھ مل گئی تھی۔ لہٰذا الصالح کے مفاد پرست مسلمان امراء اور حکمران شہریوں کو لڑنے کے لیے تیار کررہے تھے۔ ان منصوبوں میں صلیبیوں نے اس طرح جان ڈال دی تھی کہ جن علاقوں پر ان کا قبضہ تھا وہاں کے صلیبی باشندوں کی خاصی تعداد کو حلب موصل اور دیگر قصبوں اور دیہات میں ان ہدایات کے ساتھ آباد کر دیا تھا کہ وہ وہاں کے مسلمان کو صلاح الدین ایوبی کے خلاف بھڑکاتے اور اکساتے رہیں۔
جاسوسوں نے بتایا تھا کہ حلب میں شہریوں نے جنگی تربیت کا انتظام کرلیا ہے۔ ہر کوئی ہتھیاروں کی زبان میں بات کررہا تھا۔ جنگی جنوں کے ساتھ لوگوں پر اضطراری اور ہیجانی کیفیت بھی طاری ہوئی جارہی تھی۔ البتہ پرانی عمر کے مسلمان بہت ہی پریشان تھے اور کہتے تھے کہ یہ قیامت کی نشانی ہے کہ مسلمان مسلمان سے ٹکرائے گا مگر ان کی آواز صلاح الدین ایوبی کے خلاف نعروں اور بہتان تراشی کے شوروغوغا میں دبتی جارہی تھی۔ یہ آواز صلیبیوں کے عزائم کے خلاف تھی اس لیے انہوں نے اسے دبانے کا خاص اہتمام کیا تھا۔ یہ سارا منصوبہ دراصل تھا ہی صلیبیوں کا۔ کئی ایک مسجدوں سے پرانے اماموں اور خطیبوں کو نکال دیا گیا تھا کیونکہ وہ منبر پر کھڑے ہوکر مسلمان کو مسلمان کے خلاف بھڑکانے کا گناہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔
جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ الصالح نے تریپولی کے صلیبی حکمران ریمانڈ کو زروجواہرات اور بے انداز خزانہ اس کام کی اجرت کے لیے بھیج دیا تھا کہ صلاح الدین ایوبی کے ساتھ جنگ کی صورت میں وہ اسے جنگی مدد دے گا۔ ریمانڈ نے یہ اجرت وصول کرکے اپنے چند ایک فوجی کمانڈر مشیروں کی حیثیت سے حلب بھیج دیئے تھے۔ ان میں انٹیلی جنس کا ایک ماہر بھی تھا جو تخریب کاری میں بھی مہارت رکھتا تھا، ان مشیروں نے آتے ہی حلب میں مسلمان فوجوں کی مشترکہ ہائی کمانڈ بنا دی تھی۔ فوجیں مختلف قلعوں میں تھیں۔ ان فوجوں کے کمانڈروں میں سیف الدین والی موصل، ایک قلعہ دار گمشگین جسے گورنر کا درجہ حاصل تھا۔ سلطان الملک الصالح اور عزالدین قابل ذکر ہیں۔ ریمانڈ نے انہیں یقین دلایا تھا کہ جنگ کی صورت میں وہ مصر سے صلاح الدین ایوبی کی کمک اور رسد کو روکے رکھے گا اور وہ جہاں کہیں محاصرہ کرے گا صلیبی فوج باہر سے حملے کرکے محاصرہ توڑ دے گی۔
٭ ٭ ٭
دمشق میں سلطان ایوبی دوسرے تیسرے دن تمام کمانڈروں کی کانفرنس بلاتا تھا۔ فوجوں کی ٹریننگ خود بھی دیکھتا اور کمانڈروں سے رپورٹیں بھی لیتا تھا۔ راتوں کو کپڑوں کے بغیر ٹریننگ دے کر اس نے اپنی فوج کو سردیوں میں لڑنے کے لیے تیار کرلیا تھا۔ قریب چٹانیں تھیں اس نے صحرا میں بھاگنے دوڑنے والے گھوڑوں کو چٹانوں پر چڑھنے اور اترنے کا عادی بنا دیا تھا۔ ادھر حلب میں بھی دو تین کانفرنسیں ہوچکی تھیں۔ وہاں کے کمانڈروں کو یہ اطلاع مل چکی تھی کہ سلطان ایوبی کی فوج رات کو جنگی مشقیں کرتی ہے لیکن انہوں نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ایوبی کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ ہمارے سامنے آئے گا تو اس کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ ان کمانڈروں میں کوئی ایک بھی انٹیلی جنس کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتا تھا۔ یہ اہتمام بھی صلیبیوں نے کیا تھا کہ دمشق میں جاسوس بھیجے تھے اور شیخ سنان نے فدائی قاتل اور تخریب کار بھیجے تھے مگر ریمانڈ نے اپنا ایک ماہر بھیج دیا تو اس نے اس اطلاع پر توجہ دی کہ سلطان ایوبی راتوں کو کیوں جنگی مشقیں کرا رہا ہے اس نے حلب کے کمانڈروں کی کانفرنس میں بھی یہ مسئلہ پیش نہیں کیا تھا۔ وہ ابھی اس کی وجہ معلوم نہیں کرسکا تھا۔
: سلطان ایوبی نے تو حلب اور موصل وغیرہ میں جاسوسوں کا جال بچھا دیا تھا۔ ان کی زمین دوز مرکزی کمانڈ حلب میں تھی اور کمانڈر ایک عالم فاضل کے بہروپ میں تھا جو تمام جاسوسوں سے خبریں لیتا اور دمشق بھیجنے کا انتظام کرتا تھا۔ وہ اپنے جاسوسوں کی حفاظت کا اور انہیں خطرے کے وقت روپوش کرنے کا بندوبست بھی کرتا تھا۔ صلاح الدین ایوبی کو برا بھلا کہنے میں وہ پیش پیش تھا۔ جہاں لوگ اس کا احترام کرتے تھے، وہاں امیر، وزیر اور اونچی حیثیت کے شہری بھی اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس کے جاسوسوں کا گروہ ہر ضروری جگہ موجود تھا۔ الملک الصالح کے محل کے باڈی گارڈز میں بھی جاسوس موجود تھے۔ دو جاسوس خصوصی پہرہ داروں کی حیثیت سے خلیفہ کی مرکزی کمانڈ کی اس عمارت تک بھی پہنچ گئے تھے جہاں ان کی جنگی کانفرنسیں منعقد ہوتی تھیں۔ صلیبی جاسوسوں کے کمانڈر نے آتے ہی ایک تو اس پر توجہ دی کہ دمشق میں جاسوسی کے نظام کو مضبوط اور کارگر بنایا جائے اور حلب میں سلطان ایوبی کے جو جاسوس ہیں ان کا سراغ لگایا جائے۔
سلطان ایوبی کے ان دو جاسوسوں میں جو حلب کی ہائی کمانڈ کے پہرہ داروں میں شامل ہوگئے تھے ایک خلت نام کا جاسوس تھا۔ ایک عمارت کے کئی چھوٹے کمرے تھے اور اس میں ایک ہال تھا جو ضیافتوں، ناچ گانے اور دربار منعقد کرنے کے کام آتا تھا۔ خوب سجا ہوا تھا۔ جب سے حلب کے امیروں وزیروں نے صلیبیوں کے ساتھ دوستانہ گانٹھا تھا اس ہال کو اور زیادہ سجا دیا گیا تھا۔ ناچ گانے کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ ناچنے والیان جو رکھی گئی تھیں وہ چنی ہوئی خوبصورت، جوان اور فن کی ماہر تھیں۔ ان رقاصائوں میں صلیبیوں نے اپنی لڑکیوں کا اضافہ کردیا تھا۔ یہ پیشہ ور لڑکیاں تھیں جو الصالح کے امیروں وزیروں کو انگلیوں پر نچاتی رہتی تھیں۔ ان کا کام یہ تھا کہ اس کے خصوصی درباریوں، امراء اور فوج کے اعلیٰ کمانڈروں پر نظر رکھیں اور بھانپتی رہیں کہ ان میں کوئی سلطان ایوبی کا وفادار تو نہیں۔ اس کے علاوہ یہ لڑکیاں ان اعلیٰ حکام وغیرہ کے دلوں میں صلیبیوں کی محبت اور صلیب کی وفاداری پیدا کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔
کبھی کبھی اس ہال میں ضیافت ہوتی تھی جس میں شراب کے مٹکے خالی ہوتے، رقص ہوتا اور جب شراب اپنا
رنگ دکھاتی تو بدکاری انتہا کو پہنچ جاتی تھی۔ اس بڑے کمرے میں جنگی کانفرنسیں بھی ہوتی تھیں۔ اس کے بڑے دروازے پر باڈی گارڈز کے دو پہرے دار کمر سے تلواریں اور ہاتھوں میں برچھیاں لیے مستعد کھڑے رہتے تھے۔ تین چار گھنٹوں بعد پہرے دار بدلتے تھے۔ خلت سلطان ایوبی کا جاسوس تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور پہرے دار بھی جاسوس تھا۔ ان دونوں کا پہرہ اکٹھا لگا کرتا تھا۔ انہوں نے یہاں سے بہت سی معلومات حاصل کیں اور دمشق بھیجی تھیں۔ ایک شام ایک نئی رقاصہ آئی۔ اس شام ہال میں ضیافت تھی۔ مہمان بھی آرہے تھے۔ ناچنے گانے والیاں اور دوسری لڑکیاں بھی آرہی تھیں۔ یہ ریمانڈ کا بھیجا ہوا جاسوس کا کمانڈر تھا۔ خلت نے معلوم کرلیا تھا کہ یہ کون ہے۔ اسے اب اس کی سرگرمیاں دیکھنی تھیں۔
اس کے علاوہ اس نے ایک اور نیا چہرہ دیکھا۔ یہ ایک لڑکی تھی جسے وہ تین چار دنوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ نئی آئی تھی۔ خلت اپنے ساتھی کے ساتھ ڈیوٹی ختم کرکے جارہا تھا کہ یہ لڑکی سامنے آگئی۔ وہ ٹھٹھک گیا۔ یہ چہرہ اسے جانا پہچانا لگا مگر وہ سمجھا کہ چہروں میں مشابہت بھی ہوتی ہے۔ اس نے توجہ ہٹالی لیکن اس لڑکی نے اسے کچھ زیادہ ہی غور سے دیکھا ور اسے دیکھتی آگے نکل گئی۔ خلت نے گھوم کر دیکھا تو لڑکی رک کر اسے دیکھ رہی تھی۔ دوسرے دن بھی ایسے ہی ہوا۔ خلت نے یہ معلوم کرلیا تھا کہ یہ رقاصہ ہے۔ وہ کوئی شہزادی معلوم ہوتی تھی، خلت سپاہی تھا۔ اس کا ایسی لڑکی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوسکتا تھا۔ شہزادی قسم کی رقاصہ تو امیروں کی ملکیت تھی۔ البتہ خلت کو ایک اور لڑکی یاد آگئی تھی جس کی شکل وصورت اس رقاصہ سے ملتی جلتی تھی۔
٭ ٭ ٭
وہ گیارہ بارہ سال پہلے کی بات تھی جس کی یاد بھی خلت کے ذہن سے محو ہوتی جارہی تھی۔ اس وقت خلت سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان تھا۔ وہ دمشق سے تھوڑی ہی دور ایک گائوں میں رہتا تھا اور اپنے باپ کے ساتھ کھیتی باڑی کیا کرتا تھا۔ وہ خوبرو بھی تھا اور اس کی طبیعت بہت شگفتہ تھی۔ ہنسی مذاق زیادہ کرتا تھا اور حاضر جواب بھی تھا۔ اس لیے گائوں میں بچے سے بوڑھے تک اسے سب بہت چاہتے تھے۔ ہجرت کا سلسلہ تو چلتا ہی رہتا تھا جن علاقوں پر صلیبی قابض تھے وہاں سے مسلمان کنبے صلیبیوں کے جورو ستم سے تنگ ا کر مسلمانوں کی حکمرانی کے علاقوں میں آتے رہتے تھے۔ مقامی لوگ ان کی مدد امداد کرتے اور انہیں آباد کرلیتے تھے۔ ایسا ہی ایک کنبہ کہیں سے ہجرت کرکے خلت کے گائوں میں آگیا۔ اس میں حمیرہ نام کی ایک بچی تھی جس کی عمر اس وقت گیارہ بارہ سال تھی۔ خوبصورت بچی تھی۔
: گائوں والوں نے اس کنبے کو آباد کرلیا اور کھیتی باڑی کے لیے زمین اور سامان بھی مہیا کردیا۔ حمیرہ کے بہن بھائی چھوٹے تھے۔ کام کرنے کے قابل صرف باپ تھا۔ خلت نے اس کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا۔ حمیرہ کو خلت کی باتیں اچھی لگتی تھیں اور خلت کو یہ بچی اچھی لگتی تھی۔ وہ خلت کے گھر آجایا کرتی، گھر ہو یا کھیت حمیرہ اس سے کہانیاں ضرور سنتی تھی۔ خلت دلچسپ قصے گھڑ لیا کرتا تھا۔ دو چار ماہ بعد حمیرہ کے باپ نے کھیتی باڑی ختم کردی۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس نے کون سا ذریعہ معاش اختیار کرلیا ہے۔ البتہ اس کنبے کی حالت بہتر ہوتی جارہی تھی۔
حمیرہ خلت میں کھل مل گئی تھی۔ وہ کھیتوں میں کام کرنے جاتا تو حمیرہ وہاں چلی جاتی۔ گھر میں ہوتا تو وہاں آتی۔ اب وہ تیرہ سال کی ہوگئی تھی اور اچھا برا سمجھنے لگی تھی۔ ایک روز خلت نے اس سے پوچھا کہ اس کا باپ کیا کام کرتا ہے۔ حمیرہ نے بتایا کہ اسے یہ تو معلوم نہیں کہ وہ کیا کرتا ہے اور پیسے کہاں سے لاتا ہے۔ اسے صرف یہ پتا ہے کہ اس کا باپ اچھا آدمی نہیں۔ وہ شہر سے کوئی نشہ کرکے آتا ہے۔ حمیرہ نے ایک نئی بات بتائی۔ اس نے کہا… ''یہ شخص میرا باپ نہیں ہے، میرے ماں باپ مرگئے تھے۔ میں پانچ چھ سال کی تھی۔ اس نے مجھے سنبھال لیا اور اپنے گھر لے آیا۔ پھر میں اسی کو اپنا باپ کہنے لگی۔ میرے ساتھ یہ اپنی بیٹیوں جیسا سلوک کرتا ہے مگر اچھا آدمی نہیں''۔
ڈیڑھ دو سال گزر گئے۔ خلت میں حمیرہ کی بچپنے کی دلچسپی محبت میں بدل گئی۔ شباب نے حمیرہ کے چہرے پر بڑا ہی دلکش نکھار پیدا کردیا تھا اور قد بھی بڑھ کر جاذب نظر ہوگیا تھا۔ ایک روز وہ خلت سے ملی، بہت پریشان تھی۔ اس نے خلت کو بتایا کہ اسے شک ہے کہ اس کا باپ اسے شادی کے بہانے کسی اجنبی کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ یہ شک اسے اس طرح ہوا تھا کہ اس کے باپ کے ساتھ ایک آدمی آیا تھا۔ باپ نے اس آدمی کو بہت خاطر تواضع کی تھی اور کچھ دیر بعد حمیرہ کو اپنے پاس بلایا تھا۔ اس اجنبی نے حمیرہ کو بڑی غور سے دیکھا تھا۔ حمیرہ نے باپ سے پوچھا کہ اس نے کیوں بلایا ہے تو باپ نے کوئی ایسا بہانہ پیش کیا تھا جس نے حمیرہ کے دل میں شک پیدا کردیا تھا۔ حمیرہ نے خلت سے کہا کہ وہ اس کے سوا کسی اور کے پاس نہیں جانا چاہتی۔ خلت نے اسے کہا کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ بات کرکے اس کے ساتھ شادی کی کوشش کرے گا۔
یہ تو الگ بات ہے کہ حمیرہ جسے باپ کہتی تھی وہ اس کا باپ نہیں تھا لہٰذا اس شخص کو حمیرہ کے مستقبل کے متعلق کوئی فکر نہیں تھا لیکن اس دور میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ بہت سی رقم لے کر لڑکیوں کو کسی کے ساتھ بیاہ دینے کا رواج عام تھا۔ امیر کبیر لوگوں نے حرم بنا رکھے تھے جن کے لیے وہ نئی سے نئی لڑکیاں خریدتے رہتے تھے۔ اگر حمیرہ کو اس کا باپ فروخت کررہا تھا تو یہ کوئی جرم یا کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا۔ خلت امیر ماں باپ کا بیٹا نہیں تھا۔ وہ یہی کرسکتا تھا کہ حمیرہ کو بھگا لے جائے اور کہیں غائب ہوجائے۔ وہ سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کرے۔ حمیرہ کے ساتھ اسے محبت اتنی زیادہ تھی کہ وہ آسانی سے اس سے نظریں نہیں پھیر سکتا تھا۔
اس نے سوچنے میں زیادہ ہی وقت صرف کردیا۔ تیسرے دن وہ کھیتوں میں تھا کہ حمیرہ اسے پکارتی اور دوڑتی آرہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ تین آدمی اس کے پیچھے دوڑے آرہے تھے جن میں ایک حمرہ کا باپ تھا۔ دوسرے دونوں کو وہ نہیں پہچانتا تھا۔ گائوں کے بہت سے آدمی باہر آگئے تھے مگر وہ سب تماشائی تھے، وہ اس لیے حمیرہ کی مدد کو آگے نہیں آتے تھے کہ اس کے پیچھے بھاگنے والوں میں اس کا باپ بھی تھا۔ حمیرہ خلت کے پیچھے ہوگئی۔ اس نے روتے ہوئے اسے بتایا کہ یہ دو آدمی اسے اپنے ساتھ لے جانے آئے ہیں اور اس کے باپ نے ان کے ساتھ سودا کرلیا ہے۔
حمیرہ کے باپ نے خلت کے پیچھے سے حمیرہ کو پکڑنے کی کوشش کی تو خلت نے اسے دھکا دے کر کہا۔
''خبردار، اسے ہاتھ نہ لگانا۔ پہلے میرے ساتھ بات کرو''۔
''یہ میری بیٹی ہے''… باپ نے کہا… ''تم کون ہو مجھے روکنے والے؟''
 ''یہ تمہاری بیٹی نہیں ہے''۔ خلت نے کہا۔
دوسرے دو آدمی حمیرہ کی طرف بڑھے۔ ایک نے تلوار نکال لی تھی۔ خلت کے ہاتھ میں کدال کی قسم کی کوئی چیز تھی۔ اس نے گھما کر ماری تو یہ ہتھیار تلوار والے کے سر پر پڑا۔ اس کی تلوار گر پڑی پھر وہ خود بھی چکرا کر گرا۔ خلت نے تلوار اٹھا لی۔ دوسرے آدمی نے بھی تلوار نکال لی۔ خلت کو تیغ زنی کی کوئی مشق نہیں تھی پھر بھی اس نے وار روکے۔ دوسرا آدمی تیغ زن معلوم ہوتا تھا۔ خلت کو لڑنے کا زیادہ موقعہ نہ ملا۔ اس کے سر پر کوئی وزنی چیز پڑی۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آگیا اور وہ گر پڑا… اس کے ہوش ٹھکانے آئے تو وہ اپنے گھر میں تھا۔ وہ جوش میں آکر اٹھا لیکن اس کے باپ اور دو تین آدمیوں نے اسے جکڑ لیا۔ اسے بتایا گیا کہ وہ بہت دیر سے بے ہوش پڑا ہے اور حمیرہ اس گائوں سے رخصت ہوچکی ہے۔ خلت چلانے لگا کہ لڑکی کو فروخت کیا جارہا ہے اوراسے بتایا گیا کہ اس کا نکاح پڑھا کر رخصت کردیا گیا ہے۔
خلت کے سر کی حالت یہ تھی کہ وہ اٹھتا تھا اس تو اس کا سر چکرا جاتا تھا۔ اسے شدید چوٹ آئی تھی۔ بڑوں نے اسے نصیحت کی کہ حمیرہ کے معاملے میں اس کا بولنا جائز نہیں کیونکہ اگر بچا بھی گیا ہے تو اس کا باقاعدہ نکاح کیا گیا ہے۔ بہرحال خلت کے لیے یہ حادثہ تھا۔ وہ جب ٹھیک ہوکر باہر نکلا تو حمیرہ کا باپ اپنے سارے کنبے کے ساتھ گائوں سے ہمیشہ کے لیے جاچکا تھا۔
٭ ٭ ٭
خلت پر دیوانگی سی طاری ہوگئی۔ اسے حمیرہ کی محبت اور انتقام کا جذبہ پریشان رکھتا تھا۔ کام کاج سے اس کا دل اچاٹ ہوگیا۔ وہ کبھی کبھی دمشق چلا جاتا اور حمیرہ کے باپ کو ڈھونڈتا رہتا۔ ماں باپ نے اسے اچھی اچھی لڑکیاں دکھائیں لیکن اس نے کسی کو بھی قبول نہ کیا اس کے دل ودماغ پر حمیرہ غالب رہی… ڈیڑھ ایک سال تک اس کی یہی حالت رہی۔ ایک روز دمشق میں گھومتے پھرتے اسے پتا چلا کہ فوج کی بھرتی ہورہی ہے۔ اس نے اس خیال سے کہ اس بہانے وہ گائوں سے دور رہے گا فوج میں بھرتی ہوجانا بہتر سمجھا اور بھرتی ہوگیا۔ اسے ٹریننگ دی گئی۔ گھوڑ سواری سکھائی گئی، تیراندازی اور مختلف ہتھیاروں کا استعمال سکھایا گیا۔ اس کے ذہن کو مصروفیت مل گئی تو اس کے دل سے حمیرہ کا دکھ کم ہونے لگا۔ اپنے جیسے ہزاروں سپاہیوں کے ساتھ رہتے، گپ شپ لگاتے اور ہنستے کھیلتے اس کے دل کی زندگی عود کرآئی اور وہ ایک بار پھر شگفتہ مزاج جوان بن گیا۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب صلاح الدین ایوبی کا نام ابھی مشہور نہیں ہوا تھا۔ لوگ ابھی نورالدین زنگی کو جانتے تھے۔ اسے ایک بار جنگ میں جانے کا موقعہ ملا۔ یہ ایک خونریز لڑائی تھی۔ اس نے پہلی بار اپنے دشمن کو دیکھا۔ اس نے وہ لٹے پٹے مسلمان کنبے دیکھے جو صلیبیوں کے ظلم وستم کا نشانہ بنے تھے۔ اسے یہ بھی بتایا گیا کہ صلیبی بہت سی مسلمان لڑکیوں کو اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ سن کر اس کے اندر قومی جذبہ اور اسلام کی لگن بیدار ہوگئی۔ اس جذبے اور لگن نے جنون کی صورت اختیار کرلی اور اس جنون نے اسے ان سپاہیوں کی صف میں کھڑا کردیا جو تنخواہ اور مال غنیمت کی خاطر نہیں اللہ کے نام پر لڑا اور جانیں قربان کیا کرتے ہیں۔
تین چار سال بعد جب صلاح الدین ایوبی کو مصر کا امیر بنا کر قاہرہ بھیجا گیا تو صلیبیوں نے سوڈانیوں کے ساتھ خفیہ معاہدہ کرکے سمندر کی طرف سے مصر پر حملہ کیا تو سلطان ایوبی نے نورالدین زنگی سے کمک مانگی۔ زنگی نے اپنے منتخب دستے قاہرہ روانہ کردئیے۔ ان میں خلت بھی تھا، اس کا شمار ان ذہین عسکریوں میں ہوتا تھا جو تلوار کے ساتھ دماغ بھی استعمال کرتے تھے۔ اسے پچاس سپاہیوں کے ایک جیش کا کمان دار بنا دیا گیا۔ مصر میں اس کا ذہن پوری طرح بیدار ہوگیا۔ سلطانایوبی نے اپنی اٹیلی جنس کے سربراہ علی بن سفیان سے کہا کہ وہ لڑاکا (کمانڈو) جاسوسوں کا انتخاب کرے تو خلت کو حاضر دماغی، ذہانت، جسم اور زبان کی مستعدی اور پھرتی، جسم اور شکل وصورت کی دلکشی کی بدولت لڑاکا جاسوسوں میں لے لیا گیا۔ اسے کمانڈو اور گوریلا قسم کے شنجون مارنے کے لیے چند بار بھیجا گیا تھا لیکن جاسوسی کے لیے ملک سے باہر نہ بھیجا گیا۔ ملک کے اندر جاسوسوں کی سراغ رسانی، تعاقب اور گرفتاری کے لیے اسے استعمال کیا جاتا رہا۔ جاسوسوں کو وہ خوب پہچانتا تھا۔
: اب ١١٧٤ء میں جب سلطان ایوبی نورالدین زنگی کی وفات کے بعد سات سو سوار لے کر دمشق پر قبضہ کرنے اور الملک الصالح کی معزولی کی مہم پر روانہ ہوا تو اس نے اپنے جاسوسوں کو پہلے ہی دمشق بھیج دیا تھا جو مختلف بہروپ دھار کر دمشق میں داخل ہوئے اور پھیل گئے تھے اور جب دمشق پر سلطان ایوبی کا قبضہ ہوگیا اور الصالح، اس کے امیر وزیر اور اس 
کے باڈی گارڈز دمشق سے بھاگے تو علی بن سفیان کے معاون حسن بن عبداللہ نے جو جاسوسوں کے ساتھ دمشق گیا تھا، کئی ایک جاسوس دمشق سے اس طرف روانہ کیے جس طرف الصالح اور اس کے باڈی گارڈز دستے گئے تھے۔ ان جاسوسوں کو خصوصی ہدایات اور مختلف مشن دئیے گئے تھے۔ خلت کو بھی ان کے ساتھ گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور ساتھی بھی تھا۔
حلب میں پہنچے تو وہاں افراتفری کا عالم تھا۔ الصالح کے حواریوں کو فوری طور پر فوج کی ضرورت تھی۔ انہیں خطرہ تھا کہ سلطان ایوبی ان کا تعاقب کرے گا اور حملہ کرے گا۔ اس صورتحال میں انہیں جیسا کیسا سپاہی ملا انہوں نے رکھ لیا۔ خلت اور اس کے ساتھی نے اپنے آپ کو اس کی فوج کے سپاہی ظاہر کیا جو دمشق سے بھاگ آئے تھے۔ کمانڈروں میں سے کسی کو ہوش نہیں تھی کہ چھان بین کرتے کہ کوئی مشکوک افراد فوج میں نہ آگئے ہوں۔ سلطان ایوبی کے جاسوسوں نے بھی اہم جگہیں سنبھال لیں اور حلب میں زمین دوز اڈہ بھی قائم کرلیا۔ خلت چونکہ خوبرو اور تنومند جوان تھا اور زبان کی چاشنی سے بھی مالا مال تھا اس لیے اسے قصر سلطنت کے محافظوں کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ اس نے اپنے ایک ساتھی کو بھی اپنے ساتھ رکھا۔ اسلام کا عسکری جذبہ اس کی روح میں اتر گیا تھا۔ اس نے حمیرہ کو کبھی یاد نہیں کیا تھا۔اسے اتنی مہلت ہی نہیں ملتی تھی مگر اس نئی رقاصہ نے اسے حمیرہ یاد دلا دی۔ حمیرہ سے جدا ہوئے سات آٹھ سال گزر گئے تھے۔ اس وقت حمیرہ پندرہ سولہ سال کی تھی۔ یہ رقاصہ بہت خوبصورت تھی۔ اس کے چہرے پر حمیرہ والی معصومیت اور سادگی نہیں تھی۔ اس نے جو لباس پہن رکھا تھا وہ اتنا سا ہی تھا کہ سینے کا تھوڑا سا حصہ اور ستر ڈھانپا ہوا تھا۔ آدھے سے زیادہ جسم عریاں تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ یہ رقاصہ حمیرہ ہو۔ تیسری بار رقاصہ اس کے قریب سے گزری تو بھی خلت نے اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھا۔ رقاصہ بھی اسے دیکھ رہی تھی۔ اب کے وہ رک گئی۔
''تمہارا نام کیا ہے؟'' رقاصہ نے پوچھا۔
خلت نے اپنا وہ فرضی نام بتایا جو اس نے وہاں لکھوا رکھا تھا اور پوچھا… ''آپ نے نام کیوں پوچھا ہے؟''
''تم مجھے گھور گھور کر دیکھا کرتے ہو اس لیے نام پوچھ رہی ہوں''۔ حمیرہ نے ایسے لہجے میں کہا جس میں شریف عورتوں والی ذرا سی بھی جھلک نہیں تھی۔ کہنے لگی… ''تم سپاہی ہو۔ اپنے کام پر توجہ رکھا کرو''۔
خلت کو کوفت ہوئی لیکن اسے خوشی بھی ہوئی کہ یہ خمیرہ نہیں، حمیرہ تو بھولی بھالی لڑکی تھی۔
اسی شام ہال میں ضیافت تھی۔ ریمانڈ کے جاسوسوں کا کمانڈر تین چار روز پہلے آیا تھا۔ اس کا نام ونڈ سر تھا۔ یہ ضیافت اسی کے اعزاز میں دی جارہی تھی۔ خلت نے معلوم کرلیا تھا کہ یہ جاسوسی کا ماہر ہے اور جاسوسی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے آیا ہے۔ شام کا اندھیرا گہرا ہوگیا تھا۔ ہال میں مہمان آرہے تھے۔ کھانے چنے جارہے تھے اور شراب کے دور چل رہے تھے۔ ابھی ونڈ سر نہیں آیا تھا۔ خلت اور کے ساتھی کی ڈیوٹی ہال کے دروازے پر تھی۔ کچھ دیر بعد ونڈ سر آگیا۔ اس نے دونوں پہرے داروں کو غور سے دیکھا پھر اس نے خلت کے چہرے پر نظریں گاڑدیں۔
''تم خلیفہ کے محافظ دستے میں کب آئے ہو؟'' ونڈسر نے خلت کی زبان میں پوچھا۔
''یہاں آکر مجھے محافظ دستے میں لیا گیا ہے''۔ خلت نے جواب دیا… ''اس سے پہلے میں دمشق کی فوج میں تھا''۔
''تم مصر بھی گئے تھے؟'' ونڈسر نے پوچھا۔
''نہیں!''
ونڈسر نے دوسرے پہرہ دار سے خلت کے متعلق پوچھا۔ ''تم اسے کب سے جانتے ہو؟''
''ہم دونوں دمشق کی فوج میں اکٹھے رہے ہیں''… اس نے جواب دیا… ''ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں''۔
''اور میں شاید تم دونوں کو اچھی طرح جانتا ہوں''۔ ونڈسر نے مسکرا کر کہا…''ذرا میرے ساتھ آئو''۔
وہ انہیں پہرے سے ہٹا کر اپنے ساتھ لے گیا۔ وہ گھاگھ سراغ رساں اور جاسوس تھا۔ یہاں پہنچتے ہی اس نے باڈی گارڈز کی خفیہ چھان بین شروع کردی تھی۔ خلت کو دیکھتے ہی اسے کچھ یاد آگیا تھا اور اس نے جب اس کے ساتھی کو دیکھا تو اس کا شک پکا ہوگیا۔ شک غلط بھی نہیں تھا۔ خلت اور اس کا ساتھی تین چار سال سے انٹیلی جنس میں تھے اور وہ اکٹھے رہتے تھے۔ ان کی جوڑی پکی ہوگئی تھی۔ ونڈسر انہیں اپنے کمرے میں لے گیا جو اسی عمارت میں بڑے ہال سے تھوڑی ہی دور تھا۔ کمرے میں لے جا کر اس نے مشعل کی روشنی میں دونوں کو ایک بار پھر غور سے دیکھا۔
''اگر تم مجھے یقین دلا دو کہ تم یہاں کے وفادار ہو اور صلاح الدین ایوبی کو اپنا دشمن سمجھتے ہو تو میں تمہیں چھوڑوں گا ہی نہیں بلکہ ایسے کام پر لگائوں گا : جہاں عیش کرو گے''۔ ونڈسر نے کہا۔ ''جھوٹ نہ بولنا۔ پچھتائو گے''۔
''ہم یہیں کے وفادار ہیں''۔ خلت نے کہا۔
''تم نے وفاداری کب سے بدلی ہے؟'' ونڈسر نے پوچھا ''اور کیوں بدلی ہے؟''
''خدا اور رسولۖ کے بعد خلیفہ کا رتبہ ہے''۔ خلت نے کہا۔ ''صلاح الدین ایوبی کا کوئی رتبہ نہیں۔''
''مصر سے کب آئے ہو؟'' ونڈسر نے پوچھا اور جواب کا انتظار کیے بغیر کہا۔ ''تم شاید مجھے نہیں جانتے میں بھی تمہاری طرح جاسوس ہوں۔ نام شاید بھول جائوں چہرے نہیں بھولا کرتا۔ علی بن سفیان کہاں ہے؟ مصر میں یا دمشق میں؟''
''ہم اسے نہیں جانتے''۔ خلت کے ساتھی نے جواب دیا۔ ''ہم سیدھے سادے سپاہی ہیں''۔
ونڈسر نے دروازے میں جاکر دیکھا اور کسی ملازم کو آواز دی۔ ملازم آیا تو اس نے کسی لڑکی کا نام لے کر ملازم سے کہا کہ اسے بلا لائو۔ وہ لڑکی قریب ہی کسی کمرے میں تھی۔ ذرا سی دیر میں ایک بڑی ہی حسین لڑکی آگئی۔ خلت کو معلوم تھا کہ یہ صلیبی لڑکی ہے۔ اس کے ساتھ نئی رقاصہ تھی جسے دیکھ خلت کو حمیرہ یاد آجایا کرتی تھی۔ ونڈسر نے صلیبی لڑکی سے عربی زبان میں بات کی اس سے ہنس کر پوچھا کہ ''اس رقاصہ کو کیوں ساتھ لے آئی ہو۔لڑکی نے جواب دیا کہ یہ میرے کمرے میں تیار ہوکر آگئی تھی اور میں تیار ہورہی تھی۔ آپ کا بلاوا آیا تو سمجھی کہ آپ نے مجھے ضیافت میں ساتھ چلنے کے لیے بلایا ہے۔ میں اسے بھی ساتھ لے آئی''۔
''کوئی بات نہیں''… ونڈسر نے کہا… ''اچھا ہوا یہ بھی آگئی ہے۔ تماشہ دیکھ لے گی''۔ اس نے صلیبی لڑکی سے کہا۔ ''میں نے تمہیں کسی اور کام کے لیے بلایا ہے''۔ دونوں پہرہ داروں کی طرف اشارہ کرکے اس نے لڑکی سے کہا… ''ان دونوں کے چہروں کو دیکھو۔ شاید تمہیں کچھ یاد آجائے''۔
لڑکی نے دونوں کو بڑی غور سے دیکھا۔ ماتھے پر شکن ڈال کر سوچا۔ پھر دیکھا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ اس نے خلت اور اس کے ساتھی سے پوچھا… ''تم کس وقت ہوش میں آئے تھے؟''
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر لڑکی کو دیکھا۔ خلت حاضر دماغ تھا۔ وہ جان گیا کہ انہیں پہچان لیا گیا ہے۔ وہ بچنے کے طریقے سوچنے لگا۔ یہ اب عقل اور ہوش کا کھیل تھا۔ اس نے بھولا بن کر کہا… ''میں سمجھ نہیں سکتا کہ پہرے سے ہٹا کر آپ نے ہمارے ساتھ کیوں مذاق شروع کردیا ہے۔ ہمارے کمان دار نے دیکھ لیا تو ہمیں سزا دے گا''۔
''تم پہرہ دار نہیں ہو''۔ ونڈسر نے کہا… ''تم دونوں کو وہاں کھڑا کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ وہاں کوئی بھی کھڑا نہ ہو۔ وہاں تمہاری کوئی ضرورت نہیں''۔ اس نے خلت کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا… ''یہاں آکر اپنا حلیہ ذراسا تو بدل لیا ہوتا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اورعلی بن سفیان جاسوسی کے ماہر ہیں لیکن ہم بھی اناڑی نہیں۔ اپنے آپ کومصیبت میں نہ ڈالو۔ فوراً بتا دو کہ تم دونوں مصر سے آئے ہوئے جاسوس ہو۔ تمہارے ساتھ میری اور اس (صلیبی) لڑکی کی ملاقات پہلے بھی ہوچکی ہے۔ تم مجھے نہیں پہچان سکے کیونکہ میں بگاڑے ہوئے حلیے میں تھا۔ میں نے تمہیں پہچان لیا ہے کیونکہ تم آج بھی اسی حلیے میں ہو جس میں اڑھائی سال پہلے تھے۔ ذرا ذہن پر زور دو۔ تمہیں یاد آجائے گا۔ مصر کے شمال میں تم دونوں ایک قافلے کے ساتھ چل پڑے تھے کیونکہ تمہیں شک تھا کہ یہ قافلہ مشکوک ہے۔ تم نے ایک قافلے کے ساتھ سفر کیا تھا۔ ایک رات بھی قافلے کے ساتھ گزاری تھی مگر تمہاری بدقسمتی کہ تمہاری جب آنکھ کھلی تو تم صحرامیں اکیلے پڑے تھے۔ قافلہ بہت دور نکل گیا تھا''۔
٭ ٭ ٭
: ونڈسر نے انہیں یاد دلایا
خلت اور اس کا یہی ساتھی جاسوسوں کی سراغرسانی کی ڈیوٹی پر تھے۔ یہ اڑھائی تین سال پہلے کا واقعہ ہے… سوڈانیوں کو شکست تو دی جاچکی تھی لیکن وہ صلیبیوں کی مدد سے مصر پر حملے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ مصر کے اندر صلیبی جاسوس اور تخریب کار سرگرم تھے۔ ان کے سراغ رسانی کے لیے علی بن سفیان کا جاسوسی نظام کام کررہا تھا۔ سرحدوں پر گشتی دستے بھی تھے۔ مصر کے اپنے جاسوس مسافروں وغیرہ کے بھیس میں سرحدی علاقوں میں گھومتے پھرتے رہتے تھے۔ ایک بار خلت اپنے اس ساتھی کے ساتھ مصر کے شمال میں گشت پر تھا۔ دونوں اونٹوں پر سوار تھے اور دونوں غریب سے صحرائی مسافروں کے بھیس میں تھے۔ انہیں ایک قافلہ جاتا نظر آیا جس میں بہت سے اونٹ اور چند ایک گھوڑے تھے۔ قافلے والوں میں بوڑھے بھی تھے، جوان بھی تھے، بچے اور عورتیں بھی تھیں۔
خلت اور اس کا ساتھی جاسوس تھے۔ وہ قافلے کو روک کر نہیں دیکھ سکتے تھے۔ انہیں ہدایت یہ تھی کہ آتے جاتے قافلوں کو دیکھیں اور ذرا سا بھی شک ہو تو قریبی سرحدی چوکی کو اطلاع دیں۔ یہ چوکی والوں کا فرض تھا کہ قافلے کو روک کر چھان بین کریں اور سامان کی تلاشی بھی لیں۔ سرحدی دستے فوجی طاقت کے زور پر یہ کام کرسکتے تھے۔ دو جاسوسوں سے اتنی زیادہ تعداد کا قافلہ نہیں رک سکتا تھا۔ خلت اور اس کے ساتھی نے ہدایات اور ٹریننگ کے مطابق قافلے والوں پر یہ ظاہر کیا کہ وہ مسافر ہیں اور آگے جارہے ہیں۔ا س زمانے میں یہی طریقہ تھا کہ مسافر اکٹھے چلا کرتے تھے کیونکہ سفر بہت طویل اور لوٹ مار کا خطرہ زیادہ تھا۔ قافلے والوں نے ان کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
ان دونوں نے گپ شپ کے انداز سے معلوم کرنا شروع کردیا کہ یہ قافلہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جارہا ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ اگلی سرحدی چوکی کہاں ہے مگر انہوں نے دیکھا کہ قافلہ ایسی سمت کو جارہا تھا جس طرف کوئی چوکی نہیں تھی۔ وہ علاقہ ہی ایسا تھا کہ گشتی پہرے اور چوکی سے بچ کر نکلا جاسکتا تھا۔ اونٹوں پر جو سامان لدا ہوا تھا وہ بھی مشکوک سا معلوم ہوتا تھا۔ پتا نہیں چلتا تھا کہ ان بڑے بڑے مشکوں اور لپٹے ہوئے خیموں وغیرہ میں کیا ہے۔ بہرحال سامان معمولی نہیں تھا۔ خلت اور اس کے ساتھی صحرائی خانہ بدوشوں کے انداز سے معلوم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ قافلے میں چار جوان لڑکیاں بھی تھیں۔ ان کے لباس تو خانہ بدوشوں بلکہ بدوئوں کی طرح تھے۔ ان کے بالوں کا انداز بھی بتاتا تھا کہ تہذیب وتمدن سے دور رہنے والی لڑکیاں ہیں لیکن ان کے چہروں اور آنکھوں کے رنگ اور خدوخال کی دلکشی بتا رہی تھی کہ معاملہ کچھ اور ہے اور یہ بہروپ ہے۔
قافلے میں ایک بوڑھا آدمی تھا۔ اس کا رنگ گورا تھا اور چہرے پر جھریاں مگر اس کے دانت بتاتے تھے کہ اس کی عمر اتنی زیادہ نہیں جتنی چہرہ بتا رہا تھا۔ اس بوڑھے نے خلت اور اس کے ساتھی کو اپنے ساتھ کرلیا اور بڑے پیارے انداز سے ان سے پوچھنے لگا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جارہے ہیں۔ خلت اپنے متعلق غلط باتیں بتاتا رہا اور اس سے معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ قافلہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جارہا ہے اور سامان کیا ہے۔ وہ بوڑھا اتنی اچھی باتیں کرتا تھا کہ خلت اور اس کا ساتھی اس کی باتوں میں الجھ گئے۔ چلتے چلتے شام ہوگئی پھر رات گہری ہوگئی اور قافلہ چلتا رہا۔ خلت نے قافلے کا رخ بدلنے کے لیے بوڑھے سے کہا کہ فلاں طرف سے چلیں تو منزل قریب آجائے گی۔ اس کا مقصد تھا کہ قافلے کو چوکی کے قریب سے گزارا جائے۔ صاف پتا چل راہ تھا کہ قافلہ چوکی سے بچنے کی کوشش میں ہے۔

جاری ھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں