داستان ایمان فروشوں کی قسط 62 - اردو ناول

Breaking

بدھ, دسمبر 11, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط 62

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔62-ناگوں والے قلعے کے قاتل
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کا خیال نہیں رکھتا تھا۔ اس کے باڈی گارڈ کے کمانڈر نے حسن بن عبداللہ سے کئی بار شکایت کی تھی کہ سلطان اسے بتائے بغیر پچھلے دروازے سے نکل جاتے ہیں اور وہ ان کے خالی کمرے کا پہرہ اس خیال سے دیتا رہتا ہے کہ سلطان اندر ہے۔ کمانڈر سلطان ایوبی کے ساتھ اپنے دو چار گارڈ سائے کی طرح لگائے رکھنا چاہتا تھا۔ کمانڈر کو یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اب فدائی پوری تیاری سے سلطان ایوبی کو قتل کرنے آرہے ہیں۔ اس اطلاع نے کمانڈر کو اور زیادہ پریشان کردیا تھا مگر سلطان ایوبی کی بے پروائی کا یہ عالم تھا کہ حسن بن عبداللہ نے اسے کہا کہ وہ باڈی گارڈز کے بغیر باہر نہ نکل جایا کریں تو سلطان ایوبی نے مسکرا کر اس کے گال پر تھپکی دی اور کہا… ''ہم سب کی جان اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، محافظوں کی موجودگی میں مجھ پر چار قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں۔ اللہ کو منظور تھا کہ میں زندہ رہوں، میں اللہ کی راہ پر چل رہا ہوں اگر اس کی ذات باری مجھے اس سے سبکدوش کرنا چاہے گی تو اس کی رضا کو نہ میں روک سکوں گا، نہ میرے محافظ''۔
''پھر بھی سلطانِ محترم!'' حسن بن عبداللہ نے کہا… ''میرے اور محافظ دستے کے فرائض ایسے ہیں کہ آپ کے عقیدوں اور جذبے سے میں متاثر نہیں ہوسکتا۔ مجھے فدائیوں کے متعلق جو اطلاع مل رہی ہیں، ان کے پیش نظر مجھے رات کو بھی آپ کے سرہانے کھڑا رہنا چاہیے''۔
''میں تمہارے اور محافظوں کے فرائض کا احترام کرتا ہوں حسن!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''مگر میں محافظوں کے ساتھ باہر نکلتاہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ جیسے مجھے اپنی قوم پر بھروسہ نہیں۔ عموماً حکمران اپنی قوم سے ڈرا کرتے ہیں، وہ دیانت دار اور مخلص نہیں ہوتے''۔
''ڈر قوم کا نہیں''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا…''میں فدائیوں کی بات کررہا ہوں''۔
''میں احتیاط کروں گا''۔ سلطان ایوبی نے ہنس کر کہا۔
ناگوں والے قلعے سے آکر محافظ سپاہی اپنی ڈیوٹی پر چلا گیا۔ اس نے وہ دن اس ذہنی کیفیت میں گزارا کہ وہ تصوروں میں تخت سلیمان اور لڑکی کو د یکھتا رہا۔ شام گہری ہوتے ہی وہ قلعے کی طرف چل پڑا۔ اس کے دل پر کوئی خوف نہیں تھا۔ وہ دروازے میں داخل ہوکر اندھیرے میں کچھ دور اندر چلا گیا اور رک گیا۔ اس نے گزشتہ رات کی طرح پکارا… ''میں آگیا ہوں، کیا میں آگے آسکتا ہوں؟''… اسے زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا۔ مشعل کی روشنی نظر آنے لگی اور مشعل اس سے کچھ دور آکر رک گئی۔ مشعل بردار نے کہا… ''حضرت کے قدموں میں سجدہ ضرور کرنا۔ آج کسی سے ملنا نہیں چاہتے، تم آجائو''۔
گزشتہ رات کی طرح وہ غلام گردشوں وغیرہ سے گزرتا مشعل بردار کے ساتھ حضرت کے دروازے پر رکا۔ حضرت نے اندر آنے کی اجازت دے دی۔ سپاہی نے اس کے قدموں میں جاسررکھا اور التجا کی… ''یا حضرت! مجھے میرا راز دے دو۔ میں کون ہوں؟ مجھے آپ کیا دکھائیں گے؟''
سیاہ ریش حضرت نے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا تو وہی لڑکی دوسرے کمرے سے آئی۔ وہ سپاہی کو دیکھ کر مسکرائی۔ سپاہی اسے اپنے پاس بٹھانے کو بیتاب ہوگیا۔ سیاہ ریش نے لڑکی سے کہا… ''یہ آج پھر آگیا ہے۔ کیا میں یہاں تماشہ دکھانے کے لیے بیٹھا ہوں؟''
''اس گناہ گار کو بخش دیں یا حضرت!'' لڑکی نے کہا… ''بڑی دور سے امید لے کر آیا ہے''۔
تھوڑی دیر بعد کل والا شیشہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ لڑکی نے اسے سے پہلے اسے شربت پلایا تھا اور اس کے پیچھے بیٹھ کر اس کی پیٹھ اپنے سینے سے لگا لی اور بازو اس کے گرد پلیٹ دیئے جیسے ماں نے اپنے بچے کو گود میں لے رکھا ہو۔ سپاہی کو سیاہ ریش حضرت کی سریلی آواز سنائی دینے لگی… ''مجھے شاہ سلیمان کا محل نظر آرہا ہے۔ مجھے شاہ سلیمان کا محل نظر آرہا ہے''… یہ آواز دبتی چلی گئی جیسے بولنے والا دور ہی دور ہوتا جارہا ہو۔
''اوہ!''… سپاہی نے چونک کر کہا… ''ایسا محل اس دنیا کے کسی بادشاہ کا نہیں ہوسکتا''۔
''میں اس محل میں پیدا ہوا تھا''۔ اسے کسی کی آواز سنائی دینے لگی جو یہی الفاظ دہرا رہی تھی۔ ''میں اس محل میں پیدا ہوا تھا''… پھر یہ اس کی اپنی آواز بن گئی اور پھر اس نے یوں محسوس کیا جیسے اس کے وجود کے اندر یہی ایک آواز گونجنے لگی ہے۔ ''میں اس محل میں پیدا ہوا تھا''۔ پھر وہ آوازوں سے لاتعلق ہوگیا۔ اسے ایک محل نظر آرہا تھا اور وہ خود اس کے باہر ایک باغ میں گھوم پھر رہا تھا۔ اب یہ اسے شیشے کے گولے میں نظر نہیں آرہا تھا بلکہ یہ محل حقیقت بن گیا تھا جس کی ہر چیز کو، باغ کو، پودوں اور پھولوں کو ہاتھ لگا کر محسوس کرسکتا تھا اور سونگھ سکتا تھا۔ وہ وہاں سپاہی نہیں شہزادہ تھا۔
یہ محل فضا میں تحلیل ہوگیا اور سپاہی نے بہت دیر بعد اپنے آپ کو لڑکی کی آغوش میں پایا۔ اس نے لڑکی سے بہت کچھ پوچھا۔ لڑکی نے اسے بتایا کہ حضرت کہہ گئے ہیں  کہ یہ شخص شہزادہ تھا اور یہ اب بھی شہزادہ بن سکتا ہے۔ حضرت یہ معلوم کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ سپاہی کے تخت وتاج پر کس کا قبضہ ہے۔ لڑکی نے اسے کہا… ''حضرت کہہ گئے ہیں کہ تم اگر سات آٹھ روز یہیں رہو تو وہ سب کچھ معلوم کرسکیں گے اور تمہیں سب کچھ دکھا دیں گے''۔
اگلی رات وہ پھر قلعے کے اسی کمرے میں بیٹھا تھا۔ اس نے چار روز کی چھٹی لے لی تھی۔ اسے لڑکی نے اسی پیالے میں شربت پلایا اور اس کے ہاتھ میں شیشے کا گولہ دے دیا گیا۔ اس نے کسی کے بتائے بغیر گولہ اپنی آنکھوں کے آگے رکھ لیا اور قندیل کی لو دیکھتا رہا۔ اسے اس میں رنگا رنگ شعلے ناچتے نظر آئے۔ سیاہ ریش نے اپنے طلسماتی انداز سے کچھ بولنا شروع کردیا۔ اس سے پہلے وہ دوبار اس عمل سے گزر چکا تھا۔ دونوں بار ایسے ہوا تھا کجہ اسے شیشے کے گولے میں تخت سلیمان اور اگلی رات شاہ سلیمان کا محل نظر آیا تھا مگر اس کے بعد گولہ اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتا تھا۔ اس جب گولے میں کوئی منظر نظر آنے لگتا تھا تو سیاہ ریش یا لڑکی سپاہی کے ہاتھ سے گولہ لے کر الگ رکھ دیتی تھی۔ اب تیسری رات بھی یہی ہوا۔ سیاہ ریش اس کے سامنے بیٹھ گیا ور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پراثر لہجے میں جو دھیما دھیما سا تھا کہہ رہا تھا… ''یہ پھول ہیں، یہ باغ ہیں، میں باغ میں موجود ہوں''… وہ یہی الفاظ دہرا رہا تھا اور لڑمی سپاہی کے ساتھ لگی بیٹھی، اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔
سپاہی کو ایک باغ نظر آگیا۔ زمین اونچی نیچی تھی اور ہریالی سے ڈھکی ہوئی۔ ہر طرف رنگ برنگے پھول تھے اور ان کی مہک نشہ طاری کرتی تھی۔ سپاہی نے باغ میں ایک ایسی لڑکی کو ٹہلتے اور گنگناتے دیکھا جو اس لڑکی سے بہت ہی زیادہ خوبصورت تھی جو اس کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔ اس کا لباس ایک ہی رنگ کا تھا اور یہ رنگ ان رنگوں میں سے نہیں تھا جو وہ اس دنیا میں دیکھا کرتا تھا۔ سپاہی اب ناگوں والے قلعے کے کمرے میں نہیں تھا۔ سیاہ ریش حضرت اور اس کے ساتھ کی لڑکی سے وہ بے خبر اور لاتعلق ہوچکا تھا۔ وہ قلعے سے نکل ہی گیا تھا۔ اس نے باغ میں لڑکی کو دیکھا تو اس کی طرف دوڑ پڑا۔ لڑکی بھی دوڑی اور اس کے گلے کا ہار بن گئی۔ لڑکی کے جسم سے پھولوں کی مہک اٹھ رہی تھی۔ سپاہی شاہ سلیمان کے خاندان کا شہزادہ تھا۔ وہ دونوں باغ کے اس گوشے میں چلے گئے جو ایک غار کی مانند تھا لیکن یہ غار رنگا رنگ بیلوں اور ان کے پھولوں نے بنا رکھا تھا۔ اس کے فرش پر مخمل جیسی گھاس تھی۔
لڑکی نے پھولوں کے اس غار کے ایک کونے سے ایک خوش نما صراحی اٹھائی اور پیالہ بھر کر سپاہی کے ہاتھ میں دے دیا۔ یہ میٹھی شراب تھی۔ سپاہی پر لڑکی کے حسن اور محبت کا نشہ تو پہلے ہی طاری تھا۔ شراب کے نشے نے اسے اس سے بھی زیادہ حسین اور طلسماتی دنیا میں پہنچا دیا اور پھر لڑکی نے اسے کہا کہ وہ ابھی آتی ہے۔ وہ چلی گئی۔ سپاہی کو اس کی چیخیں سنائی دیں۔ وہ باہر کو دوڑا۔ اسے لڑکی کہیں نظر نہ آئی۔ وہ دوڑتا ہی رہا۔ اسے لڑکی کی دلدوز چیخیں سنائی دیتی رہیں مگر وہ سپاہی کو کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ اس نے غصے سے پاگل ہوکر تلوار نکال لی اور لڑکی کی تلاش میں بائولا ہوتا رہا۔ آخر اسے ایک بڑھیا ملی۔ اس نے اسے بتایا کہ لڑکی اب تمہیں نہیں مل سکے گی۔ وہ جو لڑکی کو لے گیا ہے وہ تم سے زیادہ طاقتور ہے۔ تم اب اسے کبھی نہیں دیکھ سکو گے۔ وہ جو لڑکی لے گیا ہے، اب اس تخت پر بیٹھے گا جس پر تمہیں بیٹھنا تھا۔ اس کے پیچھے مت بھاگو۔ زندہ رہو اور کبھی موقع پا کر اسے قتل کردینا۔ لڑکی تمہاری یاد میں ہلکان ہوتی رہے گی۔
''وہ کون تھا جو اس لڑکی کو لے گیا ہے؟'' سپاہی جب ناگوں والے قلعے کے اس کمرے میں لوٹ کر آیا تو اس نے پوچھا… ''اور میں نے یہ کیا دیکھا تھا؟''
''تم نے اپنی گزری ہوئی زندگی دیکھی ہے''۔ سیاہ ریش نے اسے بتایا… ''میں تمہیں واپس لے آیا ہوں''۔
''میں وہاں سے واپس نہیں آنا چاہتا''۔ سپاہی نے بیتابی اور بے چینی سے کہا… ''مجھے وہیں بھیج دو''۔
''کیا کرو گے وہاں جاکر؟'' سیاہ ریش نے اس سے پوچھا… ''جس کی خاطر جانا چاہتے ہو وہ تو کسی اور کے قبضے میں ہے۔ اسے جب تک قتل نہیں کرو گے وہ تمہیں نہیں مل سکے گی۔ میں نہیں چاہتا کہ تم کسی کو قتل کرو اور میں یہ بھی جانتا ہوں تم اس انسان کو قتل کر بھی نہیں سکو گے''۔
''یاحضرت!'' سپاہی نے کہا… ''اگر قتل کرنے سے مجھے میرا ورثہ اور میری بیوی مل سکتی ہے تو میں سلطان صلاح الدین ایوبی سے بھی اونچے رتبے کے آدمی کو قتل کردوں گا''۔
''پھر یہ خون میری گردن پر ہوگا میرے دوست!''… درویش نے کہا۔
 سپاہی اس کے قدموں میں گر پڑا اور اس کے پائوں پر سر رگڑنے لگا۔ وہ ''یاحضرت، یاحضرت'' کا ورد کیے جارہا تھا اور وہ رونے بھی لگا تھا۔
سیاہ ریش حضرت نے اسے پھر اسی دنیا میں پہنچا دیا جہاں تخت سلیمانی تھا۔ محل اور باغ تھا۔ اس کے کانوں میں آوازیں پڑتی رہیں… ''یہ ہے تمہارے دادا کا قاتل، تمہارے باپ کا قاتل، تمہارے تخت وتاج کا غاصب اور اس لڑکی کو جو تمہیں چاہتی ہے، اس کی قید میں ہے''۔
''نہیں نہیں''۔ سپاہی نے گھبرا کر کہا… ''یہ نہیں ہوسکتا، یہ سلطان صلاح الدین ایوبی ہے''۔
''یہی تمہاری قسمت کا قاتل ہے''۔ اس کے کانوں میں آوازیں پڑ رہی تھیں۔ ''یہ تمہارا سلطان نہیں ہوسکتا۔ یہ کرد ہے، تم عرب ہو''۔ کہو… ''صلاح الدین ایوبی میرے دادا کا قاتل ہے۔ میرے باپ کا قاتل ہے۔ میرے تخت وتاج کا غاصب ہے… اب راز کھل گیا ہے۔ انتقام لو، غیرت مند مرد انتقام لیا کرتے ہیں''۔
اور سپاہی طلسماتی ماحول میں گھومتے پھرتے یہی ورد کرتا رہا… ''صلاح الدین ایوبی میرے دادا کا قاتل ہے۔ میرے باپ کا قاتل ہے۔ میرے تخت وتاج کا غاصب ہے۔ میری محبت کا قاتل ہے۔ میری قسمت کا قاتل ہے''۔
پھر یوں ہوا کہ اس کی نظروں کے آگے صرف صلاح الدین ایوبی رہ گیا۔ وہ اسے چلتا پھرتا نظر آتا تھا۔ سپاہی ہاتھ میں خنجر لیے اس کے پیچھے پیچھے جارہا تھا مگر قتل کا موقع نہیں ملتا تھا۔ سپاہی کو لڑکی نظر آگئی۔ وہ پنجرے میں بند تھی۔ صلاح الدین ایوبی پنجر کے پاس کھڑا قہقہے لگا رہا تھا۔ لڑکی سپاہی کو ادا اور مظلوم نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ سلطان ایوبی کے چہرے پر سفاکی اور بربریت کے سائے گہرے ہوئے جارہے تھے۔ سپاہی کی زبان خاموش ہوتی تھی تو اسے فضا سے سرگوشیاں سنائی دیتی تھیں… ''صلاح الدین ایوبی میرے دادا کا قاتل ہے۔ میرے باپ کا قاتل…'' سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے کمرے میں اپنے مشیروں اور اعلیٰ فوجی حکام سے جنگ کی باتیں کرہا تھا۔ جاسوس جو نئی اطلاع لائے تھے، جن کے مطابق اپنے پلان پر نظرثانی کررہا تھا اور اس وقت یہی محافظ سپاہی باہر پہرے پر کھڑا تھا جسے سیاہ ریش بزرگ نے نئی دنیا دکھائی تھی۔ مشیروغیرہ بہت دیر بعد کمرے سے نکلے اور سلطان ایوبی اکیلا رہ گیا۔ سپاہی کمرے میں چلا گیا ور اس نے تلوار سونت کر کہا… ''تم میرے دادا کے قاتل ہو، میرے باپ کے قاتل ہو''… سلطان ایوبی نے چونک کر اسے دیکھا… ''اسے آزاد کردو، وہ میری ہے''… اور اس کے ساتھ ہی اس نے قہر اور غضب سے سلطان ایوبی پر تلوار کا وار کیا۔ سلطان خالی ہاتھ تھا۔ وہ پھرتی سے وار بچا گیا۔ اس نے باڈی گارڈز کے کمانڈر کو آواز دی اور لپک کر اپنی تلوار اٹھالی۔ سپاہی نے اور زیادہ غضب ناک ہوکر اس پر حملہ کیا۔ اگر اس کے مقابلے کا تیغ زن سلطان ایوبی نہ ہوتا تو اس تجربہ کار سپاہی کا وار خالی نہ جاتا۔ سلطان ایوبی نے اس کے وار صرف روکے اور وار ایک بھی نہ کیا اور جب کمانڈر دوڑتا اندر آیا تو سلطان ایوبی نے اسے کہا… ''اس پر وار نہ کرنا، زندہ پکڑو''۔
سپاہی نے گھوم کرکمانڈر پر وار کیا۔ اتنے میں تین چار باڈی گارڈز اندر آگئے۔ سپاہی کے قہر کا یہ عالم تھا کہ اس نے تلوار کے وار پہ وار کرکے کسی کو قریب نہ آنے دیا۔ وہ چونکہ سلطان ایوبی کو قتل کرنا چاہتا تھا، اس لیے وہ اسی کی طرف لپکتا اور للکارتا تھا… ''تم میرے دادا کے قاتل ہو، میرے باپ کے قاتل ہو، میرے تخت وتاج کے غاصب ہو''… آخر اس کو پکڑ لیا گیا۔ اس سے تلوار چھین لی گئی۔
''زندہ باد میرے محافظ''… سلطان ایوبی نے غصے کا اظہار کرنے کے بجائے اسے خراج تحسین پیش کیا اور کہا… ''سلطنت اسلامیہ کو تم جیسے تیغ زنوں کی ضرورت ہے''… باڈی گارڈ کمانڈر اور دوسرے سپاہی حیران تھے کہ یہ قصہ کیا ہے۔ سلطان ایوبی نے کمانڈر سے کہا… ''طبیب کو اور حسن بن عبداللہ کو فوراً بلائو''۔
سپاہی کو چار باڈی گارڈز نے جکڑ رکھا تھا اور وہ چلا رہا تھا… ''یہ میری محبت کا قاتل ہے، یہ میری قسمت کا قاتل ہے''۔
ایک باڈی گارڈ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا لیکن سلطان ایوبی نے کہا… ''اسے بولنے دو، ہاتھ ہٹا لو''۔ اس نے سپاہی سے کہا… ''بولو میرے دوست! بتائو تم مجھے کیوں قتل کرنے لگے تھے؟''
'اسے آزاد کردو''۔ سپاہی نے چلا کر کہا… ''تم نے اسے پنجرے میں بند کررکھا ہے۔ حضرت نے مجھے کہا تھا کہ میں تمہیں قتل نہیں کرسکوں گا۔ آئو، میرا مقابلہ کرو۔ بزدلوں کی طرح اپنے آدمیوں کو اپنی جان بچانے کے لیے تم نے بلا لیا ہے، تلوار نکالو، میری تلوار مجھے دو، میدان میں آئو''۔
سلطان ایوبی اسے بڑی غور سے دیکھتا رہا۔ باڈی گارڈ سلطان ایوبی کے اس حکم کا انتظار کررہے تھے کہ اس سپاہی کو قید خانے میں ڈال دیا جائے۔ اس کا جرم معمولی نہیں تھا۔ اس نے قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ اگر سلطان ایوبی بے خبری میں بیٹھا ہوتا یا وہ اس محافظ کو اندر آتے دیکھ نہ لیتا تو اس کا قتل ہوجانا یقینی تھا مگر سلطان ایوبی نے اسے قید میں ڈالنے کا حکم نہ دیا۔ محافظ ہذیانی کیفیت میں بول رہا تھا… اتنے میں طبیب آگیا اور اس سے ذرا بعد حسن بن عبداللہ آگیا۔ اندر کا منظر دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔
''اسے لے جائیں''۔ سلطان ایوبی نے طبیب سے کہا… ''یہ غالباً اچانک پاگل ہوگیا ہے''۔
''یہ آج ہی چار روز چھٹی کاٹ کر آیا ہے''۔ باڈی گارڈ کمانڈر نے کہا۔ ''جب سے آیا ہے، خاموش ہے''۔
اسے گھسیٹ کر باہر لے گئے۔ طبیب بھی ساتھ چلا گیا۔ سلطان ایوبی نے حسن بن عبداللہ کو بتایا کہ اس سپاہی نے اس پر قاتلانہ حملہ کیا ہے۔ حسن بن عبداللہ نے اس شک کا اظہار کیا کہ یہ فدائی ہوگا۔ سلطان ایوبی نے کہا کہ یہ سپاہی کسی وجہ سے دماغی توازن کھو بیٹھا ہے۔ حسن بن عبداللہ کو سلطان ایوبی نے کہا کہ اس کے متعلق اچھی طرح چھان بین کی جائے۔
٭ ٭ ٭
بہت دیر بعد طبیب سلطان ایوبی کے پاس آیا اور انکشاف کیا کہ اس سپاہی کو کئی روز مسلسل نشے کی حالت میں رکھا گیا ہے اور اس پر عمل تنویم (ہپناٹزم) کیا گیا ہے۔ طبیب نے اس کی سانس سونگھ کر معلوم کرلیا تھا کہ اسے نشہ آور چیزیں کھلائی یا پلائی گئی ہیں۔ اس نے سلطان ایوبی کو بتایا… ''یہ عمل طب کے لیے کوئی عجوبہ نہیں۔ اس کا موجد حسن بن صباح ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اس نے ایک نشہ آور شربت تیار کیا تھا جس میں یہ اثر تھا کہ جو پی لے اسے نہایت حسین اور دل نشیں مناظر نظر آتے تھے۔ اس کیفیت میں اس کے کان میں جو بات ڈالی جائے وہ اسی کو حقیقی روپ میں دیکھنے لگتا تھا جو دراصل تصور ہوتا تھا۔ حسن بن صباح نے اسی نشے اور عمل تنویم کی بنیادوں پر ایک جنت بنائی تھی جس میں داخل ہونے والے وہاں سے نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ وہ منہ میں مٹی اور کنکریاں ڈال کر سمجھتے تھے کہ مرغن کھانے کھا رہے ہیں۔ کانٹوں پر چلتے تو سمجھتے تھے کہ مخمل پر چل رہے ہیں۔ حسن بن صباح تو مرگیا، اس کا یہ شربت اور عمل پیچھے رہ گیا۔ اس کا گروہ قاتلوں کا گروہ بن گیا۔ اپنے مقاصد کے لیے یہ گروہ حسین لڑکیوں اور اس شربت کا استعمال کرتا ہے۔ اس سپاہی کو آپ کے قتل کے لیے اس عمل کا شکار بنایا گیا ہے''۔
طبیب نے یہ تشخیص کرکے سپاہی کو دوائیاں پلا دی تھیں، جنہوں نے اس کی ہذیانی کیفیت پر قابو پالیا تھا اور وہ گہری نیند سو گیا تھا۔ حسن بن عبداللہ نے پہلے ہی طبیب سے معلوم کرلیا تھا کہ یہ سپاہی اپنی حقیقی حالت میں نہیں، وہ سراغ رساں تھا۔ اس نے باڈی گارڈوں سے معلوم کرلیا کہ یہ سپاہی چار روز کی چھٹی پر گیا تھا لیکن کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اس نے چھٹی کہاں گزاری ہے۔ شہر میں ناگوں والے قلعے کے متعلق جو باتیں مشہور ہوگئی تھیں وہ حسن بن عبداللہ تک اس کے جاسوسوں کے ذریعے پہنچی تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ قلعے میں ایک بزرگ نمودار ہوا ہے جو غیب کا حال بتاتا اور مرادیں پوری کرتا ہے۔ حسن بن عبداللہ نے ان باتوں کی طرف توجہ نہیں دی تھی۔ اس قسم کے بزرگوں اور پیروں پیغمبروں کی آمدورفت لگی رہتی تھی۔ مذوب اور دیوانے آدمی کو بھی لوگ برگزیدہ انسان کہہ کر ان سے مرادیں پوری کرانے لگتے تھے۔ حسن بن عبداللہ کو ایک جاسوس نے بتایا کہ اس نے ایک سیاہ ریش آدمی کو دوبار قلعے کے اندر جاتے دیکھا ہے۔
قلعے کے اردگرد گھومنے پھرنے والوں سے پوچھ گچھ کی گئی تو ایک آدمی نے بتایا کہ سیاہ داڑھی اور سفید چغے والا ایک آدمی قلعے کے اندر آتا جاتا دیکھا گیا ہے۔ ایسی چند شہادتیں حاصل کرکے حسن بن عبداللہ نے سورج غروب ہونے سے پہلے فوج کے ایک دستے سے چھاپہ مارا۔ مشعلیں ساتھ تھیں۔ قلعہ اندر سے کچھ پیچیدہ سا تھا۔ گری ہوئی دیواروں اور چھتوں کا ملبہ بھی تھا۔ کئی کمرے سلامت تھے۔ فوجیوں کو ہر طرف پھیلا دیا گیا۔ کسی گوشے سے شور اٹھا۔ کچھ سپاہی ادھر دوڑے گئے، وہاں دو سپاہی پڑے تڑپ رہے تھے۔ ان کے سینوں میں تیر اترے ہوئے تھے، کہیں سے تین چار تیر آئے۔ تین چار سپاہی اور گر پڑے۔ بعض سپاہی اس ڈر سے پیچھے ہٹ آئے کہ یہاں کوئی انسان نہیں ہوسکتا، یہ جن بھوت ہوں گے۔ حسن بن عبداللہ حقیقت پسند انسان تھا۔ اس نے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھایا اور انہیں بتایا کہ یہ تیر انسانوں کے چلائے ہوئے ہیں۔ اس نے گھیرے کی ترتیب بدل دی اور گھیرا تنگ کرنے  لگا وہاں کوئی انسان نظر نہیں آرہا تھا، کہیں سے دو چار تیر آتے اور دو چار سپاہی زخمی ہوجاتے تھے۔
حسن بن عبداللہ نے فوج کا ایک اور دستہ منگوا لیا۔ رات گہری ہوگئی تھی۔ بے شمار مشعلیں منگوالی گئیں۔ ایک دستے کا کمانڈر اس کمرے تک پہنچ گیا جہاں سپاہی آتا رہا تھا۔ اس ڈرائونے کھنڈر میں ایسے سجے سجائے کمرے کو دیکھ کر سپاہی ڈر گئے۔ یہ جنوں کا ہی مسکن ہوسکتا تھا۔ حسن بن عبداللہ کو بلایا گیا۔ اس نے اندر جاکر سامان دیکھا تو اس پر راز کھلنے لگے۔ اتنے میں چند ایک سپاہیوں نے سیاہ ریش والے آدمی کو کہیں سے پکڑ لیا۔ اس کے ساتھ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ ان کے بعد چھ اور آدمی کونوں کھدروں میں چھپے ہوئے پکڑے گئے۔ ان کے پاس کمانیں اور تیر تھے۔ سیاہ ریش نے خدا کا برگزیدہ انسان اور تنہائی میں چلہ کاٹنے والا تارک الدنیا بننے کی بہت کوشش کی لیکن اتنی حسین اور جوان لڑکی اور تیروکمان سے مسلح افراد اور ان کا فوج کے ساتھ مقابلہ اسے جھٹلا رہا تھا۔ اس کے سامان پر قبضہ کرلیا گیا اور ان سب کو لے گئے۔
تین چار مرتبان، صراحیاں اور پیالے بھی برآمد ہوئے تھے۔ یہ چیزیں رات کو طبیب کو دے دی گئیں۔ہ اس نے مرتبانوں اور صراحیوں کو سونگھ کر ہی بتا دیا کہ ان میں وہ شربت ہے جو حسن بن صباح کی ایجاد تھا… ان تمام آدمیوں اور لڑکی کو قید خانے میں لے گئے۔
٭ ٭ ٭
صبح طلوع ہورہی تھی۔ جب لڑکی نے اذیتوں کے پہلے مرحلے میں ہی بتا دیا کہ یہ گروہ فدائیوں کا ہے اور یہ لوگ نیا حلف لے کر آئے تھے کہ سلطان ایوبی کو قتل کرکے لوٹیں گے، ورنہ مرجائیں گے۔ لڑکی نے بتایا کہ اس محافظ سپاہی کو سیاہ ریش نے پھانسا تھا اور اسے نشہ پلا کر اس پر عمل تنویم کیا جاتا تھا۔ سپاہی کے ذہن میں اس نشے اور عمل کے ذریعے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف ایسی نفرت پیدا کی گئی کہ وہ سلطان کو قتل کرنے کے لیے چل پڑا۔ ان لوگوں کو توقع تھی کہ سلطان ایوبی اس سپاہی کے ہاتھوں قتل ہوجائے گا، اس لیے وہ اطمینان سے قلعے میں بیٹھے رہے۔ سیاہ ریش جاسوسی کے لیے گیا تھا لیکن اسے کچھ پتا نہیں چل سکا، نہ اسے وہ سپاہی کہیں نظر آیا۔ شام کے وقت اچانک فوج آگئی۔
سیاہ ریش بڑا سخت جان نکلا۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ اس لڑکی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ اس کھنڈر میں ایک وظیفے کا چلہ کرنے آیا تھا۔ اس کے دوسرے ساتھیوں نے بھی پہلے انکار کیا لیکن حسن بن عبداللہ نے جب انہیں تہہ خانے میں لے جا کر اذیت رسانی کے عمل میں ڈالا تو انہوں نے باری باری اپنے جرم کا ا عتراف کرلیا۔ سیاہ ریش کو جب ان کے سامنے کھڑا کیا گیا تو اس کے لیے انکار کی کوئی صورت نہ رہی۔ اس نے جب اپنے ساتھیوں کی حالت دیکھی تو اس پر لرزہ طاری ہوگیا۔ اسے کہا گیا کہ وہ تمام تر واقعات پوری تفصیل سے سنا دے تو اسے باعزت طریقے سے رکھا جائے گا، ورنہ اسے مسلسل اذیتوں میں ڈال کر مرنے بھی نہیں دیا جائے گا اور زندہ رہنے کے قابل بھی نہیں رہنے دیا جائے گا۔ اس نے تہہ خانے میں اذیت رسانی کا سامان اور طریقے دیکھے تو وہ سب کچھ بتانے پر رضا مند ہوگیا۔
اس کے بیان کے مطابق وہ فدائی قاتلوں کے گروہ کا آدمی تھا۔ فدائیوں نے سرغنہ شیخ سنان کا وہ خصوصی تجربہ کار قاتل تھا لیکن وہ اپنے ہاتھوں قتل نہیں کرتا تھا۔ اس کا طریقۂ کار اسی قسم کا تھا جو اس نے اس واردات میں استعمال کیا تھا۔ یہ حسن بن صباح کی ایجاد تھی۔ اگر اس فرقے کے متعلق کتابیں پڑھی جائیں تو ان میں اس طریقے کی تفصیلات واضح ہوجاتی ہیں۔ تمام مصنفین نے رائے دی ہے کہ حسن بن صباح کو خدا نے غیر معمولی عقل عطا کی تھی جو اس نے شیطانی کاموں میں استعمال کی۔ اس سپاہی کو جس طرح سلطان ایوبی کے قتل کے لیے استعمال کیا گیا، وہ اسے فرقے کا ایک عام طریقہ قتل تھا۔ اس سپاہی کی مثال سے اس انوکھے طریقۂ قتل کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ اگر انسانی نفسیات کا مطالعہ کیا جائے تو کسی کو یوں اپنا آلۂ کار بنانا حیران کن نہیں لگتا۔ اس سپاہی کے لاشعور پر قبضہ کرکے اس پر سلطان ایوبی کے خلاف نفرت ڈالی گئی، پھر اسے جذبہ انتقام میں بدلا گیا۔
سیاہ داڑھی والے نے بتایا کہ چونکہ سلطان ایوبی پر پہلے چار قاتلانہ حملے ناکام ہوچکے تھے۔ اس لیے اس شخص کو بھیجا گیا تھا کہ وہ اپنا خصوصی طریقہ استعمال کرے۔ سلطان ایوبی پر پہلے چار حملے براہ راست کیے گئے تھے۔ یہ دیکھ لیا گیا تھا کہ سلطان ایوبی کو سیدھے طریقے سے قتل نہیں کیا جاسکتا۔ سیاہ ریش (جس کا نام وقائع نگاروں کے ہاں محفوظ نہیں) اپنے گروہ کے چھ تجربہ کار آدمیوں اور ایک لڑکی کو دمشق لے گیا۔ اس نے ناگوں والے ویران قلعے کو اپنا مسکن بنایا۔ اس میں یہ گروہ رات کے اندھیرے میں داخل ہوا۔ انہوں نے اپنا سامان بھی رات کو وہاں پہنچایا۔ ) اس گروہ کے آدمیوں نے شہر میں یہ افواہ پھیلائی کہ قلعے میں ایک درویش نمودار ہوا ہے جس کے ہاتھ میں غیبی طاقت ہے اور وہ مستقبل کی باتیں بتاتا ہے۔ ان افواہوں کا مقصد یہ تھا کہ لوگ قلعے میں آئیں اور سیاہ ریش کو غیب سے نمودار ہونے والا درویش یا پیغمبر تسلیم کرلیں۔ اپنی یہ حیثیت منوا کر وہ کسی ایک یا ایک سے زیادہ آدمیوں کو قبضے میں لے کر سلطان ایوبی کے قتل کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا مگر خلاف توقع لوگ قلعہ میں نہ آئے جس کی وجہ یہ تھی کہ قلعے کے متعلق بڑی ہی ڈرائونی روایات مشہور تھیں۔ ان میں یہ روایت سب سے زیادہ خطرناک تھی کہ دونوں ناگوں کی عمر ایک ہزار سال ہوچکی ہے اور اب انسانوں کے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں اور کوئی ان کے قریب جائے تو اسے نگل جاتے ہیں۔
گروہ کا سرغنہ منجھا ہوا قاتل تھا۔ اس کے دماغ میں یہ سکیم آئی کہ سلطان ایوبی کے دستے کے کسی سپاہی کو استعمال کیا جائے۔ چنانچہ وہ کئی روز یہ دیکھتا رہا کہ محافظ دستے کے سپاہی کہاں رہتے ہیں اور ان کی ڈیوٹی کس طرح لگتی ہے۔ وہ سلطان ایوبی کے دفتر تک اور گھر تک نہ پہنچ سکا کیونکہ ان دونوں جگہوں کے قریب کوئی شہری یا فوجی نہیں جاسکتا تھا۔ یہ ممنوعہ علاقہ تھا۔ تاہم اس استاد نے اس محافظ سپاہی کو دیکھ لیا اور کسی طرح یہ بھی معلوم کرلیا کہ وہ سلطان ایوبی کے دفتر کے محافظوں میں سے ہے، یعنی یہ آسانی سے سلطان ایوبی تک پہنچ سکتا تھا۔ اس نے اس سپاہی پر نظر رکھی۔ اس وقت سیاہ ریش کو حالیہ کچھ اور تھا۔ ایک روز یہ سپاہی اسے باہر جاتا نظر آگیا۔ سیاہ ریش نے اسے راستے میں روک لیا اور اس کے ساتھ ایسی باتیں کیں جنہیں کوئی انسان خواہ وہ کتنی ہی مضبوط شخصیت کا ہو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ان باتوں کے لیے جو لب ولہجہ اختیار کیا گیا اور جواداکاری کی گئی، وہ انسانی فطرت پر طلسماتی اثر کرتی ہے۔ یہ سپاہی معمولی سے ذہن کا پسماندہ آدمی تھا، جال میں آگیا اور رات کو قلعے میں پہنچ گیا۔
قلعے کے ایک کمرے میں جو اہتمام کیا گیا تھا وہ پتھروں کو موم کرنے کے لیے کافی تھا۔ ایک تو کمرے کی سجاوٹ تھی اور بیش قیمت قالین، دوسرے یہ لڑکی تھی جس کے حسن میں اور جسمانی ساخت میں دذ جادو تھا۔ اس کا لباس ایسا تھا جس میں و ہ نیم عریاں تھی اور اس کے کھلے ہوئے ریشمی بالوں کا تاثر نشہ طاری کرتا تھا۔ سیاہ ریش کے کہنے کے مطابق یہ لڑکی، اس کا لباس اور انداز زاہدوں اور پرہیزگاروں میں بھی حیوانی جذبہ بیدار کردیتا ہے۔ تیسری اور اصل چیز وہ شربت تھا جو وہ لوگ اپنے شکار کو پلاتے تھے۔ شیشے کا گولا فریب نظر پیدا کرنے کے لیے تھا۔ اس سپاہی کے ذہن میں یہ ڈالا گیا کہ وہ شاہی خاندان کا فرد ہے اور اس کا خاندان تخت سلیمان کا وارث ہے۔ تخت سلیمان کا وجود تھا یا نہیں، دلچسپ کہانیوں میں اس کا بہت ذکر آتا ہے اور ایسے انداز سے آتا ہے کہ یہ ایک حسین اور پراسرار تصور کی طرح لوگوں کے ذہنوں پر سوار ہوجاتا ہے۔
یہ سپاہی جب اس کمرے میں داخل ہوا تو کمرے کی زیبائش اور قیمتی سامان نے اسے متاثر کیا۔ سیاہ ریش مراقبے کی حالت میں تھا۔ اس کا بھی اثر تھا۔ اس نے جب اتنی حسین لڑکی دیکھی تو مرعوب ہوگیا۔ لڑکی نے اسے جو شربت پلایا، اس میں نشہ تھا۔ اس نشے کا اثر یہ تھا کہ انسان حقیقی دنیا سے لاتعلق ہوکر حسین تصورات کی دنیا میں چلا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں اس پر عمل تنویم کیا جاتا یعنی اسے ہپناٹائز کرلیا جاتا اور اس کے ذہن میں اپنے مطلب کے تصورات ڈالے جاتے تھے۔ اس کے ہاتھ میں شیشے کا جو گولہ دیا جاتا تھا، اس میں سے قندیل کی لو کے کئی رنگ نظر آتے تھے۔ جو کوئی عجوبہ نہیں تھا۔ شیشے کی ساخت ایسی تھی کہ اس میں سے گزرتی روشنی اپنے ساتوں رنگوں میں نظر آتی تھی۔ ان رنگوں کا ذہن پر اثر ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ایک انتہائی حسین لڑکی سپاہی کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتی اور باتوں میں یہ ظاہر کرتی تھی کہ وہ اسے دل وجان سے چاہتی ہے۔ سیاہ ریش سریلی اور پراسرار آوازمیں بولنے لگتا تھا۔ اس کے الفاظ سپاہی کے کان میں پڑتے اور اس کے ذہن میں مطلوبہ تصور آراستہ کرتے تھے۔ سیاہ ریش بھانپ لیتا تھا کہ سپاہی اپنے آپ میں نہیں رہا۔ اس وقت وہ اس کے ہاتھ سے شیشے کا گولہ لے کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیتا اور اس سے ہپناٹائز کرلیتا تھا۔
: سپاہی جسے اپنی آواز سمجھتا تھا وہ سیاہ ریش کی آواز ہوتی تھی، پھر وہ اسے مرحلے میں داخل ہوجاتا تھا، جہاں وہ اپنے تصور کو حقیقی سمجھ کر اس کا حصہ بنجاتا تھا۔ کمزور شخصیت کے سپاہی نے یہ اثرات قبول کرلیے۔ سیاہ ریش اسے حقیقی دنیا میں واپس لے آیا۔ اس مقصد کے لیے اسے کچھ سونگھایا جاتا تھا۔ سیاہ ریش دوسرے کمرے میں چلا جاتا اور لڑکی سپاہی کے ساتھ اکیلی رہ جاتی۔ وہ سپاہی کے اعصاب اور دماغ پر غالب آجاتی۔ اس مقصد کے لیے وہ ایسی حرکات اور ایسی باتیں کرتی تھیں جس کے اثر سے کم از کم یہ سپاہی بچ نہیں سکتا تھا۔ سپاہی کو صرف تخت سلیمان دکھا کر رخصت کردیا گیا اور اس کے ذہن میں ڈال دیا گیا کہ راز ابھی باقی ہے۔ سپاہی کے دل میں تجسس پیدا ہوگیا۔ دوسری بار اس پر یہی عمل کیا گیا اور اسے کچھ اور دکھا دیا گیا۔ انہوں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ سپاہی پوری طرح ان کے جال میں آگیا ور اوہ اس کے ذہن پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ وہ اب ان کی منت سماجت کرتا تھا کہ اسے سارا راز بتایا جائے۔ اسے کہا گیا کہ وہ کئی روز ان کے پاس رہے۔ اس نے چھٹی لے لی۔ وہ یہی چاہتے تھے۔
ان چار دنوں اور چار راتوں کے عرصے میں اسے مسلسل نشے اور ہپناٹزم کے زیراثر رکھا گیا اور اس کے ذہن لاشعور میں صلاح الدین ایوبی کا تصور پیدا کرکے یہ بات ڈال دی گئی کہ سلطان ایوبی سپاہی کے دادا اور باپ کا قاتل ہے اور اس کے تخت پر بھی اس نے قبضہ کررکھا ہے۔ سپای کو ایک حسین لڑکی کا تصور دکھایا گیا پھر یہ دکھایا گیا کہ سلطان ایوبی نے اس لڑکی کو پنجرے میں بند کردیا ہے۔ چار روز بعد اسے اسی حالت میں قلعے سے نکال دیا گیا، وہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوگیا۔ اسے جوں ہی موقع ملا، اس نے سلطان ایوبی پر حملہ کردیا۔
٭ ٭ ٭
سپاہی بے ہوش پڑا تھا۔ طبیب نے اس کے ذہن سے نشہ آور شربت کا اثر زائل کرنے کے لیے دوائی دی تھی۔ وہ حقیقت اور تصورات کے درمیان بھٹک رہا تھا۔ معلوم نہیں اس کے اعصاب پر کیسے کیسے اثرات تھے کہ اثرات اترتے ہی اعصاب جواب دے گئے۔ طبیب نے اسے ہوش میں لانے کے کچھ اور طریقے اختیار کیے اور دو روز بعد سپاہی نے آنکھ کھولی۔ وہ اس طرح اٹھا جیسے گہری نیند سوگیا تھا اور خواب دیکھتا رہا تھا۔ اپنے ارد گرد کھڑے آدمیوں کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ طبیب نے اسے پوچھا کہ وہ کہاں تھا؟… اس نے کہا کہ وہ سویا ہوا تھا۔ بہت دیر بعد وہ اپنے آپ میں آیا تو وہ زیادہ کچھ نہ بتا سکا۔ اس نے بتایا کہ سیاہ داڑھی اور چغے والا ایک آدمی اسے قلے میں لے گیا تھا، وہاں اس نے کچھ اور باتیں بھی بتائیں لیکن اسے بالکل یاد نہیں تھا کہ اس نے تخت سلیمانی وغیرہ دیکھا ہے۔ اسے یہ بھی یاد نہیں تھا کہ اس نے سلطان ایوبی پر تلوار سے حملہ کیا تھا۔
یہ یقین کرنے کے لیے سپاہی دھوکہ نہیں دے رہا، اسے سلطان ایوبی کے سامنے لے جایا گیا۔ اس نے فوجیوں کی طرح سلطان کو سلام کیا۔ سلطان ایوبی نے اس کے ساتھ شفقت اور پیار سے بات کی مگر وہ حیران تھا کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے اور یہ کیا کررہے ہیں۔ آخر اسے بتایا گیا کہ اس نے کیا کیا ہے وہ چلا اٹھا… ''یہ جھوٹ ہے۔ میں اپنے سلطان پر حملہ نہیں کرسکتا''… سلطان ایوبی نے کہا کہ یہ بے گناہ ہے۔ اسے یاد ہی نہیں کرایا جائے کہ اس نے کیا کیا ہے۔

جاری ھے ،


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں