داستان ایمان فروشوں کی قسط 61 - اردو ناول

Breaking

بدھ, دسمبر 11, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط 61

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔61-ناگوں والے قلعے کے قاتل
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تیر انداز نشانہ نہ لے سکیں- اتنے میں وہ تیروں کی زد سے نکل گئے۔ اب یہ خطرہ تھا کہ باڈی گارڈ گھوڑوں پر تعاقب کریں گے لیکن اسے پکڑے جانے کا ڈر نہیں تھا کیونکہ گھوڑوں پر زینیں کسنے کے لیے جو وقت صرف ہونا تھا، وہ اس کے لیے دور نکل جانے کے لیے کافی تھا اور ہوا بھی یہی۔ آبادی سے دور نکل جانے تک اسے تعاقب میں آتے گھوڑوں کی آوازیں سنائی نہ دیں۔ اس نے لڑکی سے کہا کہ اب گھوڑا اس کے پہلو میں کرلے۔
لڑکی کا گھوڑا جب اس کے پہلو میں آیا تو ماجد نے لڑکی سے پوچھا کہ وہ گھبرائی یا ڈری تو نہیں؟ لڑکی نے جواب دیا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ لڑکی نے اسے دوڑتے گھوڑوں کے ساتھ بلند آواز سے سنانا شروع کردیا کہ اس نے کون سا راز اپنے خاوند سے حاصل کیا ہے۔ ماجد نے اسے کہاکہ آگے چل کر رکیں گے تو ساری بات سنو گا لیکن لڑکی بولتی رہی۔ ماجد نے جب باربار اسے کہا کہ چب ہوجائے، اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے تو لڑکی نے کہا… ''پھر رک جائو، میں زیادہ دیر انتظار نہیں کرسکوں گی''… ماجد ابھی رکنا نہیں چاہتا تھا اور لڑکی بولتی جارہی تھی۔ آخری لڑکی نے ہاتھ لمبا کرکے ماجد کے گھوڑے کی باگیں پکڑ لیں۔ اس کے لیے اسے آگے جھکنا پڑا۔ تب ماجد نے دیکھا کہ لڑکی کے دوسرے پہلو میں تیر اترا ہوا ہے۔ ماجد نے فوراً گھوڑا روک لیا۔
''یہ تیر مجھے وہیں لگ گیا تھا''… لڑکی نے کہا… ''میں اسی لیے تمہیں دوڑتے گھوڑے سے اصل بات سنا رہی تھی کہ مرنے سے پہلے یہ راز تمہیں دے دوں''… ماجد حجازی نے اسے گھوڑے سے اتارا اور زمین پر بیٹھ کر اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اس نے تیر کو ہاتھ لگایا۔ وہ خاصا اندر چلا گیا تھا، نکالا نہیں جاسکتا تھا۔ یہ جراح کا کام تھا جو پٹھا چیر کر تیر نکال سکتا تھا… ''اسے رہنے دو، میری بات سن لو''… لڑکی نے کہا… اور اس نے ماجد کو سارا منصوبہ سنادیا جو اس نے خاوند سے سنا تھا… ''میرا خیال ہے کہ یہ شک کسی کو نہیں ہوگا کہ ہم کوئی راز لے کر حلب سے بھاگے ہیں۔ وہ منصوبے میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔ محافظوں تک کو معلوم ہے کہ میرے خاوند کو شک ہے کہ میرے اور تمہارے درپردہ تعلقات ہیں۔ وہ یہی کہیں گے کہ میں تمہارے ساتھ محبت کی خاطر بھاگی ہوں''۔
لڑکی ساری بات سنا چکی تو اس نے ماجد کا ماتھا چوم کر کہا… ''اب سکون سے مرسکوں گی''… اور اس پر غشی طاری ہونے لگی۔
ماجد نے دوسرے گھوڑے کو اپنے گھوڑے کے پیچھے باندھ دیا۔ لڑکی کو اپنے گھوڑے پر ڈال کر اس کے پیچھے بیٹھ گیا اور اسے ایسی پوزیشن میں ساتھ لگا لیا کہ تیر اسے تکلیف نہ دے، مگر تیر اپنا کام کرچکا تھا۔
٭ ٭ ٭
 وہ جب دمشق میں اپنے کمانڈر حسن بن عبداللہ کے پاس پہنچا، اس وقت لڑکی کو شہید ہوئے کم وبیش بارہ گھنٹے گزر گئے تھے۔ اس نے قصر حلب کا تمام تر منصوبہ سنا کر بتایا کہ یہ کارنامہ اس لڑکی کا ہے۔ حسن بن عبداللہ اسی وقت ماجد حجازی کو اور لڑکی کی لاش کو صلاح الدین ایوبی کے پاس لے گیا۔ ماجد حجازی نے بتایا کہ لڑکی کیا تھی اور اسے باپ نے کس طرح ایک جاگیردار کے ہاتھ فروخت کیا تھا۔ ماجد نے لڑکی کی ساری باتیں سلطان ایوبی کو سنائیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ لڑکی کا باپ بھی دمشق سے بھاگ گیا تھا۔ سلطان ایوبی نے لڑکی کی لاش نورالدین زنگی کی بیوہ کے حوالے کردی اور حکم دیا کہ لڑکی کو فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا جائے۔
لڑکی نے مرنے سے پہلے ماجد حجازی کو جو منصوبہ بتایا تھا، وہ مختصراً یوں تھا کہ سلطان الملک الصالح تمام مسلمان مملکتوں کے امراء کو سلطان ایوبی کے خلاف متحد کررہا تھا اور ان کی فوجوں کو ایک کمانڈر کے تحت لانا چاہتا تھا۔ تریپولی کے صلیبی حکمران ریمانڈ کو مدد کے لیے آمادہ کرلیا گیا تھا۔ یہ لڑکی جو نئی خبر لائی تھی، یہ تھی کہ ریمانڈ اپنی فوج کو اس طرح استعمال کرے گا کہ مصر اور شام کے درمیان سلطان ایوبی کے لیے رسد اور کمک کے راستے روک دے گا۔ اس نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ سلطان ایوبی جنگ کی صورت میں مصر سے کمک منگوائے گا۔ اس کے علاوہ ریمانڈ سلطان ایوبی کو گھیرے میں لینے کے لیے اپنے تیز رفتار سوار دستے حرکت میں رکھے گا۔ ضرورت محسوس ہوئی تو ریمانڈ دوسرے صلیبی حکمرانوں کو بھی مدد کے لیے بلالے گا۔ حسن بن صباح کے پیروکار فدائیوں کے ساتھ صلاح الدین ایوبی کے قتل کا سودا طے کرلیا گیا تھا۔ فدائی فوری طور پر دمشق پہنچ رہے تھے۔ اس تمام ترمنصوبے کا ہر حصہ اہم تھا لیکن سلطان ایوبی نے اس کے جس حصے پر زیادہ توجہ دی وہ یہ تھا کہ دشمن سردیوں کا موسم گزرجانے کے بعد جنگ شروع کرے گا۔ ان علاقوں میں سردی زیادہ پڑتی تھی، بارشیں ہوتی تھیں اور بعض جگہوں پر برف بھی پڑتی تھی۔ ایسے موسم میں جنگ نہیں لڑی جاسکتی تھی اور نہ ہی کبھی لڑی گئی تھی۔ یہاں جس نے بھی حملہ کیا، کھلے موسم میں کیا۔
لڑکی کی حاصل کی ہوئی معلومات کے مطابق منصوبے میں شامل کیا گیا تھا کہ فوجیں قلعہ بند ہوجائیں۔ فوجوں کی نفری میں اضافہ کیا جائے اور حملے کی تیاری کی جائے۔ موسم کھلتے ہی ان فوجوں کو شام پر حملہ کرنا تھا۔ صلیبی حکمران ریمانڈ کو جنگی مدد کا معاوضہ پیش کیا گیا تھا جو سونے کے سکوں کی صورت میں تھا۔ ریمانڈ نے شرط پیش کی تھی کہ اسے یہ معاوضہ پہلے ادا کردیا جائے۔ الصالح کے حواری امراء نے فیصلہ کیا کہ معاوضہ فوراً بھیج دیا جائے۔
''مسلمانوں کی بدنصیبی''… سلطان ایوبی نے آہ لے کر کہا… ''آج مسلمان کفار کے کندھے سے کندھا ملا کر اسلام کے خلاف اٹھے ہیں۔ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح کو اس سے زیادہ اور اذیت کیا ملے گی''۔
قاضی بہائوالدین شداد اپنی یادداشتوں کی دوسری جلد میں لکھتے ہیں… ''میرا عزیز دوست صلاح الدین ایوبی اتناجذباتی کبھی نہیں ہوا تھا، جتنا اس وقت ہوا جب اسے بتایا گیا کہ سلطان الصالح جسے اسلام کی عظمت کی نشانی سمجھا جاتا ہے اور مسلمان امراء مل کر اس کے اس عزم کو تباہ کرنا چاہتے ہیں کہ صلیبیوں کو سرزمین عرب سے نکال کر سلطنت اسلامیہ کو وسعت دی جائے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھی آگئے تھے۔ وہ کمرے میں ٹہل رہا تھا۔رک گیا اور ایسے جوش میں بولا جس میں جذباتیت زیادہ تھی، کہنے لگا۔ ''یہ ہمارے بھائی نہیں، ہمارے دشمن ہیں، اگر مرتد بھائی کا قتل گناہ ہے تو میں یہ گناہ کروں گا۔ اگلے جہان دوزخ کی آگ قبول کرلوں گا لیکن اس جہان میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مذہب کو رسوا نہیں ہونے دوں گا۔ میرا ضمیر پاک ہے۔ اس حکومت پر لعنت، اس حکمران پر لعنت جو کفار سے دوستی کے معاہدے کرے اور کفار سے مدد مانگے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ سب دولت اور حکومت کالالچ ہے۔ یہ لوگ ایمان نیلام کرکے حکومت کا نشہ پورا کرنا چاہتے ہیں''… اس نے تلوار کے دستے پر ہاتھ مار کر کہا… ''وہ سردی میں نہیں لڑنا چاہتے، وہ برفانی دیواروں میں لڑنے سے ڈرتے ہیں۔ میں سردی میں لڑوں گا، برف سے لدی چوٹیوں پر اور یخ دریائوں میں لڑوں گا''…
 ''صلاح الدین ایوبی حقیقت پسند تھا، جذبات سے مغلوب ہوکر اس نے کبھی کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔ جنگ کے متعلق اس نے کبھی نعرہ نہیں لگایا تھا۔ وہ دوٹوک ہدایات دیا کرتا تھا۔ ہر دستے کے کمان دار کو دفتر میں کاغذ پر لکیریں ڈال کر اور میدان جنگ میں زمین پر انگلی سے لکیریں کھینچ کر ہدایات دیا کرتا تھا مگر اس دن اسے اپنے اوپر قابو نہیں رہا۔ اس نے ایسی باتیں بھی کہہ دیں جو وہ عام محفل میں نہیں کہا کرتا تھا۔ وہ شاید یہ جانتا تھا کہ اس محفل میں فوج کے قابل اعتماد سالاروں اور میرے سوا اور کوئی نہیں''۔
''توفیق جواد!''… سلطان ایوبی نے دمشق کی فوج کے سالار جواد سے کہا… ''میں ابھی تک نہیں جان سکا کہ تمہاری فوج سردیوں میں لڑ سکے گی یا نہیں۔ جواب دینے سے پہلے یہ سوچ لو کہ میں رات کو چھاپہ ماروں کو ایسی جگہوں پر چھاپے مارنے کے لیے بھیجوں گا جہاں انہیں دریا میں سے گزر کر جانا پڑے گا۔ بارش بھی ہوگی اور برف بھی ہوسکتی ہے''۔
''میں آپ کو یہ یقین دلا سکتا ہوں کہ میری فوج میں جذبہ ہے''… سالار توفیق جواد نے کہا… ''اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ فوج میرے ساتھ ہے۔ الصالح کے ساتھ بھاگ نہیں گئی۔ میرے سپاہی جنگ کی غرض وغایت کو سمجھتے ہیں''۔
''اگر سپاہی میں جذبہ ہو اور وہ جنگ کی غرض وغایت کو سمجھتا ہوتو وہ جلتے ہوئے ریگستان میں بھی لڑسکتا ہے اور جمی ہوئی برف پر بھی''… سلطان ایوبی نے کہا… ''اللہ کے سپاہی کو نہ ریگزار کی تپش روک سکتی ہے نہ برف کی یخ سردی''… اس نے محفل کے حاضرین پر نگاہ دوڑائی اور کہا… ''تاریخ شاید مجھے پاگل کہے گی لیکن میں اس فیصلے سے ٹل نہیں سکتا کہ میں دسمبر کے مہینے میں جنگ شروع کروں گا۔ اس وقت موسم سرما کا عروج ہوگا۔ پہاڑیوں کا رنگ سفید ہوگا، یخ جھکڑ چلتے ہوں گے اور راتیں ٹھٹھر رہی ہوں گی۔ کیا تم سب میرے اس فیصلے کو قبول کرو گے؟''
سب نے بیک زبان کہا کہ وہ اپنے سلطان کا ہر حکم بجا لائیں گے۔ تب اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور وہ ایسے احکام دینے لگا جن میں جذبات کا عمل دخل نہیں تھا۔ اس نے کہا… ''آج ہی رات سے تمام فوج اس حالت میں جنگی مشقیں کرے گی کہ ہر ایک فرد، سالار سے سپاہی تک، کپڑوں کے بغیر ہوگا۔ صرف کمر جامہ پہنا جائے گا جس کی لمبائی گھٹنوں تک ہوگی۔ باقی جسم ننگا ہوگا۔ عشاء کی نماز کے فوراً بعد تمام فوج کپڑے اتار کر باہر نکل جایا کرے گی۔ یہاں قریب ہی جھیلیں ہیں۔ فوج کو ان میں سے گزارا جائے گا۔ میں تمہیں اس تربیتی منصوبے کی تفصیلات دوں گا۔ تمام طبیب فوج کے ساتھ ہوں گے۔ ابتداء میں سپاہی ٹھنڈ سے بیمار پڑ جائیں گے۔ طبیب فوراً، اسی جگہ انہیں گرم کپڑوں میں لپیٹ کر اور آگ کے قریب لٹا کر علاج کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ بیماروں کی تعداد زیادہ نہیں ہوگی۔ دن کے وقت طبیب سپاہیوں کا معائنہ کرتے رہیں گے۔ اگر طبیبوں کی تعداد کم ہو تو مصر سے بلا لو۔ یہاں سے یہ ضرورت پوری کرلو''۔
یہ نومبر ١١٧٤ء کا آغاز تھا۔ رات کو سردی خاصی زیادہ ہوجاتی تھی۔ سلطان ایوبی نے راتوں کو ٹریننگ کا پروگرام مرتب کرلیا اور اپنے سالاروں اور جونیئر کمانڈروں کو بلایا۔ اس نے مختصر سا لیکچر دیا… ''اب تم جس دشمن سے لڑو گے، اسے دیکھ کر تمہاری تلواریں نیاموں سے باہر آنے سے گریز کریں گی کیونکہ تمہار دشمن بھی ''اللہ اکبر'' کے نعروں سے تمہارے سامنے آئے گا۔ اس کے علم پر بھی وہی چاند تارا ہے جو تمہار ے علم پر ہے۔ وہ بھی وہی کلمہ پڑھتا ہے جو تم پڑھتے ہو۔ تم انہیں مسلمان سمجھو گے مگر وہ مرتد ہیں۔ وہ اپنی نیاموں میں صلیب کی تلواریں لا رہے ہیں۔ ان کی ترکش میں صلیب کے تیر ہیں، تم ایمان کے پاسبان ہو، وہ ایمان کے بیوپاری ہیں۔ خود ساختہ سلطان الصالح بیت المال کا سونا اور خزانہ ساتھ لے گیا ہے اور اس نے قوم کو یہ دولت تریپولی کے صلیبی حکمران کو اس مقصد کے لیے دے دی ہے کہ وہ اسے جنگی مدد دے کر تمہیں شکست دے۔ یہ شکست تمہاری نہیں، اسلام کی شکست ہوگی۔ یہ خزانہ قوم کا ہے، قوم کی دی ہوئی زکوٰة کا ہے۔ یہ خزانہ شراب اور عیاشی میں بہہ رہا ہے اور اسی خزانے سے کفار کے ساتھ دوستانے گانٹھے جارہے ہیں۔ کیا تم قومی خزانے کے چور کو اپنا سلطان تسلیم کرو گے؟''
''نہیں نہیں'' کے ساتھ کچھ آوازیں ''لعنت لعنت'' کی بھی سنائی دیں۔ سلطان ایوبی نے کہا…''میں نے جن اصولوں پر مصر کی فوج تیار کرلی ہے، وہی اصول تمہیں بتانا چاہتا ہوں۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ دشمن کے انتظار میں اپنے گھروں میں نہ بیٹھے رہو۔ یہ کوئی اصول نہیں کہ دشمن حملہ کرے تو تم حملہ روکو۔ تمہیں یہ اصول قرآن نے دیا ہے کہ جنگ ہو تو لڑو، جنگ نہ ہو تو جنگ کی تیاری میں مصروف رہو۔ جوں ہی تمہیں پتا چلے کہ دشمن تم پر حملہ کرنے کی تیاری کررہا ہے، اس پر حملہ کردو۔ یاد رکھو جو مسلمان نہیں، وہ تمہارا دوست نہیں۔ کافر تمہارے قدموں میں آکر سجدہ کرے تو بھی اسے اپنا دوست نہ سمجھو۔ دوسرا بنیادی اصول یہ
 کہ سلطنت اسلامیہ اور قوم کی آبرو کے پاسبان تم ہو۔ اگر تمہارے حکمران بے غیرت ہو جائیں، قوم بدکاری میں تباہ ہوجائے اور دشمن غالب آجائے تو آنے والی نسلیں کہیں گی کہ اس قوم کی فوج نااہل اور کمزور تھی۔ یہ ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا کہ حکمرانوں کی بداعمالیاں فوج کے حساب میں لکھی جاتی ہیں کیونکہ فتح وشکست کا فیصلہ میدان جنگ میں ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی عیش پسندی اور مفاد پرستی فوج کو کمزور کرچکی ہوتی ہے۔ پھر شکست کی ذمہ داری فوج کے کندھوں پر ڈال دی جاتی ہے''…
''پھر کیوں نہ تم ابھی سے اپنے خلیفہ اور حکمرانوں کو ٹھکانے لگا دو جو تمہاری اور قوم کی ذلت ورسوائی کا باعث بن رہے ہیں۔ میں نہیں بتا سکتا کہ میں جس جنگ کی تیاری کررہا ہوں وہ کیسی ہوگی۔ صرف یہ جانتا ہوں کہ وہ بڑی ہی سخت جنگی ہوگی۔ سخت ان معنوں میں کہ میں تمہیں انتہائی دشوار حالات میں لڑا رہا ہوں۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ تمہاری تعداد کم ہوگی۔ اس کمی کو تم جذبے اور ایمان کی قوت سے پورا کرو گے''۔
سلطان ایوبی نے انہیں یہ بھی بتایا کہ دشمن کے جاسوس ان کے درمیان موجود ہیں اور ان جاسوسوں کا طریق کار کیا ہے۔
٭ ٭ ٭
''اور تم یہ مت سوچو کہ صلاح الدین ایوبی مسلمان ہے۔ خلیفہ کا درجہ پیغمبر جتنا ہوتا ہے۔ نجم الدین ایوب کے اس مرتد بیٹے نے خلیفہ کو قصر خلافت سے نکال دیا ہے اور شام پر غاصبانہ قبضہ کرکے مصر اور شام کا بادشاہ بن گیا ہے۔ اگر تم خدا کے قہر سے بچنا چاہتے ہو، زلزلوں اور طوفانوں سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو صلاح الدین ایوبی کو شرمناک شکست دے کر سلطنت کی گدی بحال کرو''… یہ آواز ایک امیر کی تھی جو حلب میں اپنی فوج کو سلطان ایوبی کے خلاف بھڑکا رہا تھا۔ اس نے کہا… ''سردیوں کا موسم نکل جائے گا تو ہم دمشق پر حملہ کریں گے۔ اس دوران ہم فوج میں اضافہ کریں گے اور تم جنگ کی تیاری کرتے رہو گے''۔
''ذہنی تخریب کاری کے بغیر جنگ جیتنا بہت مشکل ہے''… یہ آواز صلیبی فوج کے ایک مشیر کی تھی جسے ریمانڈ نے الصالح کے پاس بھیجا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا… ''ہم تمہارے کسی شہر میں آکر نہیں لڑیں گے۔ ہم مصر سے آنے والی کمک کو روکیں گے اور موقع دیکھ کر سلطان ایوبی کو کہیں گھیرے میں لے لیں گے۔ آپ کی فوج دمشق پر حملہ کرے گی۔ سردیوں کے موسم میں نہ آپ حملہ کرسکتے ہیں، نہ صلاح الدین ایوبی۔ آپ اس وقت سے فائدہ اٹھائیں۔ مجھے جو خطرہ نظر آرہا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ کی قوم آپس میں لڑنے سے گریز کرے گی۔ آپ ان علاقوں میں جو آپ کے قبضے میں ہیں، اپنی قوم کو صلاح الدین ایوبی کے خلاف بھڑکائیں۔ اس کا بہترین حربہ آپ کا مذہب اور قرآن ہے۔اس مقصد کے لیے مذہب، قرآن اور مسجد کواستعمال کریں۔ ہم نے مسلمانوں میں یہ کمزوری دیکھی ہے کہ مذہب کے نام پر جلدی بھڑکتے ہیں۔ اگر آپ ہماری مدد کریں تو ہم آپ کو یہ تخریب کاری دمشق میں بھی کرکے دکھا دیں گے''۔
''یہ دیکھ کر میرا سرشرم سے جھک جاتا ہے کہ پانچ سال گزر گئے ہیں، ہم سے ابھی صلاح الدین ایوبی قتل نہیں ہوا''… یہ آواز فدائی قاتلوں (حشیشین) کے مرشد شیخ سنان کی تھی۔ وہ ان فدائیوں سے جنہیں سلطان ایوبی کے قتل کے لیے بھیجا جارہا تھا کہہ رہا تھا۔ ایوبی پر ہمارے چار حملے ناکام ہوچکے ہیں۔ ناکام بھی ایسے کہ ہمارے آدمی مارے گئے اور زندہ بھی پکڑے گئے۔ حسن بن صباح کی روح مجھ سے جواب مانگ رہی ہے۔ کیا تم اسے زہر نہیں دے سکتے؟ کہیں چھپ کر اسے تیر کا نشانہ نہیں بنا سکتے؟ کیا تم اپنی موت سے خوفزدہ ہوگئے ہو؟ اپنے حلف کے الفاظ بھول گئے ہو؟ میں اب یہ نہیں سننا چاہتا کہ صلاح الدین ایوبی ابھی زندہ ہے۔
: ''وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہے گا''… ایک فدائی نے کہا اور اس کے ساتھیوں نے اس کی تائید کی۔
سلطان ایوبی کی جو فوج مصر میں تھی، اس کی کمان سلطان ایوبی کے بھائی العادل کے پاس تھی۔ سلطان ایوبی اسے یہ حکم دے آیا تھا کہ بھرتی تیز کردے اور جنگی مشقیں جاری رکھے۔ اس نے العادل کو سوڈان کی طرف سے خبردار کیا تھا اور اسے بتا آیا تھا کہ سوڈان کی طرف سے معمولی سی بھی فوج حرکت کرے تو وسیع پیمانے پر جنگی کارروائی کرے اور سلطان ایوبی نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ کمک اور رسد تیار رکھے۔ دمشق کی مہم کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ کیسی صورتحال پیدا کردے۔ اب اس نے جو منصوبہ بنایا تھا، اس کے لیے اسے کمک کی ضرورت تھی۔ جاسوس اور لڑکی نے اسے بتادیا تھا کہ ریمانڈ مصر اور شام کے درمیان حائل ہوکر سلطان ایوبی کی کمک اور رسد روک لے گا۔ اس اطلاع کے پیش نظر اس نے کمک قبل از وقت منگوا کر اپنے ہاتھ میں رکھ لینا ضروری سمجھا۔ اس کمک کو سردیوں کی جنگ کی ٹریننگ کی بھی ضرورت تھی۔ اس نے ایک طویل پیغام کے ساتھ ایک قاصد قاہرہ بھیج دیا۔
اس نے العادل کو پیادہ اور سوار دستوں کی تعداد لکھی جو اسے درکار تھی اور یہ ہدایت بھیجی کہ تمام فوج اکٹھی کوچ نہ کرے بلکہ چھوٹے چھوٹے دستے رات کے وقت ایک دوسرے سے دور دور نقل وحرکت کریں۔ دن کے وقت سفر نہ کیا جائے۔ حتی الامکان کمک کے کوچ کو خفیہ رکھا جائے… العادل اپنے بھائی کا ہی تربیت یافتہ تھا۔ اس نے پیغام ملتے ہی کمک روانہ کردی اور اسے خفیہ رکھنے کا یہ انتظام کیا کہ فوج کے چند افراد کو عام مسافروں کے لباس میں اونٹوں پر سوار کرکے اس ہدایت کے ساتھ کمک کے راستے میں بھیج دیا کہ وہ دائیں بائیں، دور دور چلتے رہیں اور کوئی مشکوک آدمی نظر آئے تو اس کی چھان بین کریں اور ضرورت محسوس ہو تو اسے پکڑ لیں۔
کمک کے دستے چند دنوں بعد دمشق پہنچنے لگے اور سلطان ایوبی نے انہیں بھی رات کی ٹریننگ میں شامل کردیا۔ اس کے ساتھ نئی بھرتی کا حکم بھی دے دیا۔ 
دمشق کے مضافات میں اس دور میں جنگل اور کھڈنالوں کا علاقہ ہوا کرتا تھا۔ وہاں ایک صدیوں پرانے قلعے کے کھنڈر تھے۔ اس کے اندر کبھی کوئی نہیں گیا تھا۔ رات کو لوگ اس کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے۔ یہ چونکہ فوجی استعمال کے قابل نہیں رہا تھا ابھی بے موقعہ اس لیے فوج نے اس کی طرف کبھی توجہ نہیں دی تھی۔ سلطان ایوبی کے دور میں دمشق کے دفاع کے لیے ایک اور جگہ قلعہ تعمیر کرلیا گیا تھا۔ وہ پرانا قلعہ ناگوں والا قلعہ کہلاتا تھا۔ مشہور تھا کہ اس میں ناگوں کا ایک جوڑا رہتا ہے۔ ناگ اور ناگن کی عمر ایک ہزار سال ہوچکی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ یہ قلعہ سکندراعظم نے بنایا تھا اور یہ بھی کہ یہ دارا ایرانی کا بنایا ہوا ہے۔ بعض اسے بنی اسرائیل کی تعمیر کہتے تھے۔
اس میں تو اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ کس کی تعمیر تھی۔ ایک روایت کو سب سچ مانتے تھے۔ کہتے تھے کہ صدیاں گزریں یہاں فارس کا ایک بادشاہ آیا تھا۔ یہ جگہ اسے اتنی پسند آئی کہ یہاں اس نے یہ قلعہ تعمیر کیا۔ اس کے اندر اپنے لیے ایک خوش نما محل بنایا مگر اسے آباد کرنے کو اس کی بیوی نہیں تھی۔ اسے کسی گڈریئے کی بیٹی پسند آگئی۔ اس لڑکی کا منگیتر بھی تھا۔ بادشاہ نے لڑکی کے ماں باپ کو بے بہا دولت دی اور ان سے لڑکی لے لی۔ منگیتر نے بادشاہ سے کہا کہ وہ اس قلعے میں کبھی آباد نہیں ہوسکے گا۔ بادشاہ نے اسے قلعے میں لے جا کر قتل کردیا اور لاش اندر ہی کہیں دفن کردی۔ لڑکی نے بادشاہ سے کہا کہ اس نے اس کا جسم خرید لیا ہے، اس کی روح آزاد ہوگئی ہے۔ پہلے روز ہی بادشاہ جب گڈریئے کی بیٹی کو شاہانہ لباس پہنا کر محل میں داخل ہوا تو فرش بیٹھ گیا اور دیواروں کے ساتھ چھت نیچے آرہی۔ بادشاہ اور لڑکی ملبے میں دفن ہوگئے۔ بادشاہ کی فوج ملبہ ہٹانے لگی تو ملبے میں دو ناگ نکلے۔ فوج نے انہیں برچھیوں، تیروں اور تلواروں سے مارنے کی کوشش کی لیکن ناگوں کو برچھی لگتی تھی نہ تلوار۔ تیر بھی ان کے قریب جاکر رخ بدل لیتے تھے۔ فوج ڈر کر بھاگ گئی۔ یہ بھی مشہور تھا کہ اب بھی رات کو قلعے کے قریب سے گزرو تو ایک لڑکی گڈریوں کے لباس میں بھیڑ بکریاں چراتی نظر آتی ہے۔ کبھی کبھی ایک جوان آدمی بھی نظر آتا ہے۔ بہرحال سب مانتے تھے کہ اب قلعے میں جن اور پریاں رہتی ہیں۔
 جن دنوں سلطان ایوبی خلیفہ اور امراء کے خلاف جنگ کی تیاریاں کررہا تھا، دمشق میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ ناگوں والے قلعے میں ایک بزرگ نمودار ہوا ہے جو دعا کرتا ہے تو سب روگ دور ہوجاتے ہیں اور وہ آنے والے وقت کی خبریں بھی دیتا ہے۔ شہر میں کسی نے اس کی کرامات سنائی تھیں جو فوراً مشہور ہوگئیں۔ بعض نے اسے امام مہدی بھی کہا تھا۔ لوگ وہاں جانے کو بے چین ہونے لگے لیکن ڈرتے تھے کہ یہ گڈریئے کی بیٹی اور اس کی منگیتر یا فارس کے بادشاہ کی بدروح ہی نہ ہو اور یہ جنوں اور بھوتوں کا فریب بھی ہوسکتا ہے۔ بعض لوگوں نے ذرا دور کھڑے ہوکر قلعے کو دیکھا تھا۔ تین چار آدمیوں نے بتایا کہ انہوں نے سیاہ داڑھی اور سفید چغے والے ایک آدمی کو قلعے سے باہر آتے اور فوراً ہی اندر جاتے دیکھا تھا۔ لوگوں کو اس بزرگ کی کرامات تو سنائی دیتی تھیں مگر ایسا کوئی آدمی نہیں ملتا تھا جس نے یہ کہا ہو کہ وہ قلعے کے اندر گیا اور اس کے لیے بزرگ نے دعا کی تھی۔
ایک روز سلطان ایوبی کے محافظ دستے کا ایک سپاہی ڈیوٹی کا وقت پورا کرکے کہیں گھوم پھر رہا تھا، وہ وجیہہ اور خوبرو جوان تھا۔ محافظ دستے کے تمام جوان ایسے ہی تھے۔ سامنے سے نورانی چہرے والا ایک آدمی آرہا تھا جس کی سیاہ داڑھی تھی اور سلیقے سے تراشی ہوئی تھی۔ اس کا چغہ سفید تھا اور سر پر نہایت دلکش عمامہ، اس کے ہاتھ میں تسبیح تھی۔ محافظ سپاہی کے سامنے آکر وہ رک گیا۔ سپاہی کی تھوڑی کو تھام کر ذرا اوپر اٹھایا اور دھیمی آواز میں کہا… ''مجھے غلطی نہیں لگ سکتی، تم کہاں کے رہنے والے ہو دوست؟''
''بغداد کا''… سپاہی نے بڑے میٹھے لہجے میں کہا… ''آپ مجھے پہچانتے ہیں؟''
''ہاں دوست! میں تمہیں پہچانتا ہوں''… سیاہ داڑھی والے نے حیرت کے لہجے میں کہا… ''مگر تم شاید اپنے آپ کو نہیں پہچانتے''۔
سپاہی اس کی حیرت پر حیران ہوا اور اس کے بولنے کے انداز سے متاثر بھی ہوا، اگر اس آدمی کا چہرہ ایسا نورانی، اس کی داڑھی اتنی اچھی اور چغہ اتنا سفید نہ ہوتا تو سپاہی اسے کوئی دیوانہ یا مجذوب سمجھ کر ٹال دیتا لیکن اس شخص کی آنکھوں، حال، حلیے اور سراپا نے اسے رکے رہنے پر مجبور کردیا۔
''اپنے پردادا کو جانتے ہو، کون تھا اور کیا تھا؟''… اس شخص نے سپاہی سے پوچھا۔۔
''نہیں''… سپاہی نے جواب دیا۔
''اور دادا کو؟''
''نہیں''
''تمہارا باپ زندہ ہے؟''
''نہیں''… سپاہی نے جواب دیا… ''میں دودھ پینے کی عمر میں تھا، جب وہ مرگیا تھا''۔
''ان میں بادشاہ کون تھا؟''… سیاہ داڑھی والے نے پوچھا… ''پردادا؟ دادا؟ یا باپ؟''
''کوئی بھی نہیں''… سپاہی نے جواب دیا… ''میں کسی شاہی خاندان کا فرد نہیں ہوں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے محافظ دستے کا سپاہی ہوں۔ آپ کو شاید غلط فہمی ہوئی ہے۔میری شکل وصورت شاید آپ کے کسی پرانے دوست سے ملتی جلتی ہے''۔
: اس شخص نے اس کی بات جیسے سنی ہی نہ ہو۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی دائیں ہتھیلی کی لکیروں کو غور سے دیکھنے لگا۔ پھر اس کی آنکھوں میں چہرہ اس کے قریب کرکے جھانکا اور بڑی سنجیدہ اور کسی قدر حیرت زدہ آواز میں بولا… ''مجھے یہ تخت کس کا نظر آرہا ہے۔ یہ تاج کس کا نظر آرہا ہے! تمہار آنکھوں میں وہ جاہ وجلال محفوظ ہے جو تم نے نہیں دیکھا۔ تمہارے دادا کے محافظ دستے میں چالیس جوان تم جیسے تھے۔ آج تم اس انسان کے محافظ دستے کے سپاہی ہو جو تمہارے دادا کے تخت پر بیٹھا ہے۔ تمہیں کس نے بتایا ہے کہ تم شاہی خاندان کے فرد نہیں ہو؟ میرا علم مجھے دھوکہ نہیں دے سکتا۔ میری آنکھیں غلط نہیں دیکھ سکتیں… تم نے شادی کرلی ہے؟''
''نہیں!''… سپاہی نے مرعوب ہوکر جواب دیا… ''اپنے خاندان کی ایک لڑکی کے ساتھ منگنی ہوگئی ہے''۔
''نہیں ہوگی''… اس شخص نے کہا… ''یہ شادی نہیں ہوگی''۔
''کیوں؟''… سپاہی نے گھبرا کر پوچھا۔
''تمہاری روح کا ملاپ کہیں اور ہے''… سیاہ داڑھی والے نے کہا… ''مگروہ کہیں اور قید ہے… سنو دوست! تم مظلوم ہو، کسی کے فریب کا شکار ہو۔ تم گمراہ ہو، تمہارے خزانے پر سانپ بیٹھا ہے۔ وہ شہزادی ہے جو تمہاری راہ دیکھ رہی ہے، تمہیں کوئی بتا دے کہ وہ کہاں ہے تو تم جان کی بازی لگا کر اسے آزاد کرالو گے''۔ وہ چل پڑا۔
سپاہی نے اس کے پیچھے جاکر اسے روکا اور کہا… ''مجھے بتا کر جائو کہ آپ نے میرے ہاتھ اور میری آنکھوں میں کیا دیکھا ہے۔ آپ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ آپ مجھے گمراہ اور پریشان کرچکے ہیں''۔
''میں کچھ بھی نہیں'' اس شخص نے جواب دیا… ''جو کچھ ہے وہ میرے اللہ کی ذات ہے۔ تین چار بڑی پاک روحیں میرے ہاتھ میں ہیں۔ یہ خدا کے ان برگزیدہ لوگوں کی روحیں ہیں جو ماضی کو جانتے اور مستقبل کو پہچانتے تھے۔ میں کچھ ورد وظیفے کیا کرتا ہوں۔ا یک رات مجھے اشارہ ملا کہ ناگوں والے قلعے میں چلے جائو، تمہیں کوئی ملنے کو بیتاب ہے۔ وہی ورد وظیفے کرنا۔ میں وہاں جانے سے ڈرتا تھا لیکن اشارہ خدا کا ہو تو ڈر کیسا! میں چلا گیا اور پہلی رات ہی وظیفے کے دوران مجھے یہ روحیں مل گئیں۔ انہوں نے مجھے یہ طاقت دے دی کہ انسان کا چہرہ اور آنکھیں دیکھ کر اس کے دادا، پردادا تک کی تصویریں نظر آجاتی ہیں مگر یہ کیفیت مجھ پر کبھی کبھی طاری ہوتی ہے۔ تمہیں دیکھا تو میں اس عالم میں تھا۔ کان میں ایک روح کی سرگوشی سنائی دی۔ اس جوان کو دیکھو، شہزادہ ہے مگر اپنی لوح تقدیر سے بے خبر ہے اور سپاہیوں کے لباس میں دوسروں کی حفاظت کے لیے پہرہ دیتا رہتا ہے''… یہ کیفیت گزر گئی ہے۔ اب تم مجھے صرف سپاہی نظر آتے ہو۔
یہ انسانی فطرت کی کمزوری ہے کہ ہر کوئی خزانے اور جاہ وحشمت کے خواب دیکھتا ہے۔ یہ سپاہی تھا۔ اسے خزانے اور شہزادی کا اشارہ ملا تو سیاہ ریش کی منت کی کہ اسے اس کے متعلق کچھ بتائے۔ سیاہ ریش نے مسکرا کر کہا… ''میرے پاس نجوم کاعلم نہیں، غیب دان بھی نہیں ہوں۔ اللہ اللہ کرنے والا درویش ہوں۔ کوشش کروں گا کہ تمہیں کچھ بتا سکوں لیکن جہاں تمہیں بلائوں گا، وہاں تم آئو گے نہیں''۔
''جہاں آپ کہیں گے، آجائوں گا''۔
''ناگوں والے قلعے میں آجائو گے؟''
''ضرور آئوں گا''۔
''آج رات''… سیاہ داڑھی والے نے کہا… ''غسل کرکے ذہن کو دنیا کے خیالوں سے خالی کرکے آجانا اور یاد رکھو، کسی سے ذکر نہ کرنا۔ کسی کو نہ بتانا کہ میں تمہیں ملا تھا اور تم رات کہیں جارہے ہو یا نہیں… چوری چوری آنا''۔
٭ ٭ ٭
: اگر خزانے کا، شہزادی اور تخت وتاج کا خیال نہ ہوتا تو یہ سپاہی کتنا ہی دلیر کیوں نہ ہوتا، رات کے وقت ناگوں کے قلعے میں نہ جاتا۔ سلطان ایوبی کے مکان کے پچھلے دروازے پر اس کا پہرہ رات کے آخری پہر تھا۔ اس وقت سے پہلے وہ گھوم پھر سکتا تھا۔ وہ جب قلعے کے دروازے پر پہنچا تو خوف نے اس کے دل پر قبضہ کرلیا۔ اس نے بلند آواز سے کہا… ''میں آگیا ہوں۔ آپ کہاں ہیں؟''… اسے زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا۔ ایک مشعل کہیں سے آئی اور اس کی طرف بڑھے لگی۔ اس کے دل پر خوف کا شکنجہ اورزیادہ مضبوط ہوگیا۔ مشعل ایک آدمی نے اٹھا رکھی تھی۔ اس نے قریب آکر سپاہی سے پوچھا… ''تم ہی ہو جسے حضرت نے آج راستے میں کہیں دیکھا تھا؟''… سپاہی نے بتایا کہ وہی ہے تو مشعل بردار نے کہا… ''میرے پیچھے آئو''۔
''تمہیں جو کچھ نظر آرہاہوں، وہی ہوں''… اسے جواب ملا… ''دل سے خوف نکال دو۔ ذہن سے ہر خیال نکال دو۔ خاموشی سے چلتے آئو''… مشعل بردار چلتا اور بولتا جارہا تھا۔ ''حضرت سے کوئی سوال نہ پوچھنا، وہ جیسے حکم دیں ویسے کرنا''۔
تاریک غلام گردشوں اور چھتوں سے ڈھکے کئی ایک راستوں سے گزر کر مشعل بردار ایک دروازے کے آگے رک گیااور بلند آواز سے بولا… ''یاحضرت! اجازت ہو تو اسے پیش کروں، جسے آپ نے بلایا ہے''… اندر سے جانے کیا جواب آیا۔ مشعل بردار ایک طرف ہٹ گیا اور سپاہی کو اشارہ کیا کہ اندر چلا جائے۔ سپاہی اندر آگیا تو اس قدر ہیبت ناک کھنڈر میں ایسے خوش نما سامان سے آراستہ کمرے کو دیکھ کر وہ حیران بھی ہوا اور ڈرا بھی۔ یہ انسانوں کی نظر نہ آنے والی مخلوق کا مسکن ہوسکتا تھا۔ قالین بچھا ہوا تھا جس پر گائو تکیے سے پیٹھ لگائے سیاہ ریش بیٹھا تھا۔ وہ آنکھیں بند کیے تسبیح کررہا تھا۔اسی حالت میں اس نے سپاہی کو بیٹھے کا اشارہ کیا۔ وہ بیٹھ گیا۔ کمرے میں خوشبو تھی۔
سیاہ داڑھی والے حضرت نے آنکھیں کھولیں۔ سپاہی کو دیکھا اور تسبیح اس کی گود میں پھینک کر کہا۔ ''گلے میں ڈال لو''… سپاہی نے تسبیح کو چوما اور گلے میں ڈال لی۔ کمرے میں ایک قندیل جل رہی تھی۔ حضرت نے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا تو دوسرے کمرے سے جس کا دروازہ اس کے کمرے میں کھلتا تھا، ایک لڑکی نکلی۔ اس کے بال کھلے ہوئے اور شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس نے اتنی خوبصورت لڑکی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک خوش نما پیالہ تھا جو اس نے سپاہی کے ہاتھ میں دے دیا۔ سیاہ داڑھی والا اٹھا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ سپاہی پیالہ ہاتھ میں لیے کبھی لڑکی کو اور کبھی پیالے کو دیکھتا تھا۔ لڑکی نے اسے کہا۔ ''حضرت کچھ دیر بعد آئیں گے، یہ پی لو''… لڑکی کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ تھی جس میں اپنائیت اور بے تکلفی تھی۔ سپاہی نے پیالہ ہونٹوں سے لگایا اور ایک گھونٹ پی کر لڑکی کو دیکھا۔
''مجھے تم جیسا خوبصورت جوان کبھی کبھی نظر آتا ہے''… لڑکی نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا…''پیو۔ میں یہ شربت بڑے پیار سے لائی ہوں۔ حضرت نے کہا تھا کہ آج تمہاری پسند کا ایک نوجوان آرہا ہے، جسے معلوم نہیں کہ وہ کون ہے''۔
سپاہی نے دو تین گھونٹ شربت پی لیا۔ اس کے بعد شربت گھونٹ گھونٹ اس کے حلق سے اترتا رہا اور لڑکی اس کے قریب ہوتی گئی اور پھر سپاہی نے یوں محسوس کیا جیسے لڑکی اپنے طلسماتی حسن اور سحر آگیں جسم کے ساتھ شربت کی طرح اس کے حلق میں اتر گئی اور رگ رگ میں سما گئی ہو۔ سیاہ ریش حضرت آگیا۔ اس کے ہاتھ میں شیشے کا ایک گولہ تھا جس کا سائز ناشپاتی جتنا تھا۔ اس نے گولہ سپاہی کے ہاتھ میں دے کر کہا… ''اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو اور اس میں سے قندیل کی لو کو دیکھو اور دیکھتے رہو''۔
 سپاہی نے شیشے کے گولے میں سے قندیل کو دیکھا تو اسے اپنی آنکھوں کے سامنے کئی رنگ شعلوں کی طرح تھرکتے نظر آنے لگے۔ لڑکی کے ریشمی بال اس کے گالوں کو چھو رہے تھے اور لڑکی نے اس طرح اسے اپنی بازوئوں کے گھیرے میں لے رکھا تھا کہ وہ لڑکی کے جسم کی حرارت اور خوشبو کو محسوس کررہا تھا۔ اس کے کانوں میں ایک سریلی اور پراسرار آواز پڑنے لگی… ''مجھے تخت سلیمان نظر آرہا ہے، مجھے تخت سلیمان نظر آرہا ہے''… ذرا سی دیر اس کا یہ احساس زندہ رہا کہ یہ آواز سیاہ داڑھی والے کی ہے۔ پھر یہ اس کی اپنی آواز بن گئی اور پھر وہ اس دنیا کا حصہ بن گیا جو اسے شیشے میں نظر آنے لگی تھی۔ اسے تخت سلیمان نظر آرہا تھا جس پر نورانی چہرے والا ایک بادشاہ بیٹھا تھا۔ اس کے دائیں بائیں اورپیچھے چار پانچ لڑکیاں کھڑی تھیں۔ وہ اتنی خوبصورت تھیں کہ وہ پریاں ہوسکتی تھیں۔
''ہاں، ہاں'' سپاہی نے کہا… ''مجھے تخت سلیمان نظر آرہا ہے''۔
لڑکی کے بکھرے ہوئے بال اس کے اوپر پھیل گئے۔ سپاہی کو شیشے میں سے نظر آتے ہوئے تخت کے قریب کھڑے ایک آدمی کی آواز سنائی دی… ''یہ بادشاہ تمہارا دادا ہے جو ہفت اقلیم کا بادشاہ ہے۔ شاہ سلیمان کی پریاں اور جنات اس دربار میں سجدے کرتے ہیں۔ اپنے دادا کو پہچانو۔ یہ تمہارا ورثہ ہے۔ تخت جارہا ہے''۔
سپاہی نے ہڑبڑا کر کہا… ''وہ تخت لے جارہے ہیں، یہ دیو ہیں، بہت بڑ بڑے، بہت ڈرائونے۔ انہوں نے تخت اٹھا لیا ہے''۔
اور شیشے کے گولے میں کئی رنگوں کے شعلے رہ گئے جو تھرک رہے تھے، جیسے وجد میں آئے ہوئے رقص کررہے ہوں۔ سپاہی نے محسوس کیا جیسے کوئی چیز اس کی ناک کے ساتھ لگی ہوئی ہو۔ شیشے کا گولہ اس کی آنکھوں کے آگے سے خود ہی ہٹ گیا اور اس پر غنودگی طاری ہوگئی۔ وہ اس وقت اپنے آپ میں آیا جب لڑکی اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ اس نے آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو قالین پر پڑے پایا۔ لڑکی کا ایک بازو اس کے سر کے نیچے تھا اور لڑکی اس کے پاس نیم دراز تھی۔ سپاہی اٹھ بیٹھا۔ وہ حیران تھا اور پریشان بھی۔ اس کے منہ سے پہلی بات یہ نکلی… ''وہ کہتے تھے کہ تخت تمہارے دادا کا ہے اور یہ تمہارا ورثہ ہے''۔
''حضرت نے بھی یہی فرمایا ہے''۔ لڑکی نے بڑی پیاری آواز میں کہا۔
''حضرت کہاں ہیں؟'' سپاہی نے کہا۔
''وہ اب نہیں مل سکیں گے''۔ لڑکی نے جواب دیا… ''تم نے کہا تھا کہ رات کے آخری پہر تمہارا پہرہ ہے، اس لیے میں نے تمہیں جگا دیا ہے۔ رات آدھی گزر گئی ہے، تم اب چلے جائو''۔
وہ وہاں سے نکلنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ اس نے خواب دیکھا تھا یا یہ حقیقت تھی۔ لڑکی نے اسے بتایا کہ یہ خواب نہیں تھا۔ یہ حضرت کی خصوصی کرامات تھی۔ ان کے لیے حکم ہے کہ وہ اس کاکوئی راز اپنے پاس نہ رکھیں۔ یہ اس تک پہنچا دیں جس کا یہ راز ہے مگر یہ کیفیت حضرت پر کسی کسی وقت طاری ہوتی ہے۔ اب معلوم نہیں کب ہو۔ سپاہی نے لڑکی کی منت سماجت شروع کردی۔ لڑکی نے اسے کہا۔ ''تم میرے دل میں اتر گئے ہو۔ میں نے اپنی روح تمہارے حوالے کردی ہے۔ تمہارے لیے اپنی جان بھی قربان کردوں گی۔ میں تمہیں کبھی جانے نہ دوں لیکن تمہارے فرض کی ادائیگی ضروری ہے۔ اب چلے جائو۔ کل رات آجانا، میں حضرت سے درخواست کروں گی کہ وہ تمہارا راز تمہیں دے دیں''۔
وہ جب قلعے سے نکلا تو اس کے قدم اٹھ نہیں رہے تھے۔ اس کے ذہن پر اپنے دادا کا تختِ سلیمان غالب تھا اور دل پر لڑکی کا قبضہ تھا۔ تاریک رات میں قلعے کے کھنڈر اسے محل کی طرح خوش نما نظر آرہے تھے۔ وہ مسرور بھی تھا۔ دل میں کوئی خوف اور کوئی پریشانی نہیں تھی۔
٭ ٭ ٭
: صلاح الدین ایوبی کی تمام تر توجہ فوج کی ٹریننگ اور منصوبہ بندی پر مرکوز تھی۔ اس نے اپنے لیے اور مرکزی کمان کے اعلیٰ فوجی حکام کے لیے آرام حرام کررکھا تھا۔ انٹیلی جنس کا انچارج حسن بن عبداللہ جہاں اپنے کاموں میں مصروف تھا، وہاں اسے یہ بھی فکر تھا کہ سلطان ایوبی اپنی حفاظت کا خیال نہیں رکھتا تھا۔
جاری ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں