داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 60 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اکتوبر 13, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 60

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔60-ناگوں والے قلعے کے قاتل
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دمشق میں جب سلطان صلاح الدین ایوبی داخل ہوا تھا تو اس کے ساتھ سات سو سوار تھے۔ تمام مورخین نے یہی تعداد لکھی ہے لیکن تاریخ سلطان ایوبی کے ان جانباوزں سے بے خبر ہے جن میں سے کوئی تاجروں کے بہروپ میں، کوئی بے ضرر مسلمانوں کے بھیس میں اور کوئی شامی فوج کے معمولی معمولی سپاہیوں کے لباس میں ایک ایک بھی، دو دو اور چار چار کی ٹولیوں میں بھی دمشق میں داخل ہوئے تھے۔ ان میں زیادہ تر سلطان ایوبی کے خاموش حملے سے پہلے ہی یہاں آگئے تھے اور کچھ اس وقت داخل ہوئے تھے جب دمشق کے دروازے سلطان ایوبی کے لیے کھل گئے تھے۔ یہ جاسوسوں کا دستہ تھا جنہیں جانباز جاسوس کہا جاتا تھا، کیونکہ ہر قسم کی لڑائی، ہر ہتھیار کے استعمال، ہر طرح کی تباہ کاری کے ماہر تھے اور دماغی لحاظ سے مستعد اور ذہین۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ جان کی پروا نہیں کرتے تھے۔ ایسے ایسے خطرے مول لیتے تھے جن کے تصور سے ہی عام سپاہی بدک جاتے تھے۔ ایسا جذبہ صرف ٹریننگ سے پیدا نہیں ہوتا۔ اس کام کے لیے ایسے جوان منتخب کیے جاتے تھے جن کے دلوں میں اپنے مذہب کا عشق اور دشمن کی نفرت بھری ہوتی تھی۔ یہ جانباز جنونی قسم کے مسلمان ہوتے تھے۔ سلطان ایوبی نے ایسے جانبازوں کے کئی دستے تیار کررکھے تھے۔
سلطان ایوبی جب سات سو سواروں کے ساتھ دمشق کو روانہ ہوا تھا تو اس نے منتخب لڑاکا جاسوسوں کا ایک دستہ خصوصی ہدایات کے ساتھ دمشق کو روانہ کردیا تھا۔ ان میں ایک ہدایت یہ تھی کہ اگر دمشق کی فوج مقابلے پر اتر آئے تو یہ جاسوس شہرکے اندر اپنی سمجھ اور ضرورت کے مطابق تخریب کاری کریں اور وہ دروازے کھولنے کی بھی کوشش کریں۔ ان میں ایسے بھی تھے جنہیں شہریوں میں دہشت، بھگدڑ، افراتفری اور افواہیں پھیلانے کی ٹریننگ دی گئی تھی۔ ان تمام جانبازوں کی تعداد دو اور تین سو کے درمیان تھی۔ اس وقت کے وقائع نگاروں نے صحیح تعداد نہیں لکھی۔ صرف یہ لکھا ہے کہ سلطان ایوبی کی آمد کے وقت دمشق میں دو تین سو جاسوس اور تباہ کار موجود تھے۔ ایک فرانسیسی وقائع نگار نے صلیبی جنگوں کے حالات اور واقعات قلم بند کرتے ہوئے سلطان ایوبی کے لڑاکا جاسوسوں کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے۔ اس نے ان جانبازوں کے اسلامی جذبے کو مذہبی جنون بھی کہا ہے کہ یہ بھی کہا کہ یہ جاسوس نفسیاتی مریض تھے۔ اس فرانسیسی نے تو مذہبی جنون کی توہین کی ہے کہ اسے نفسیاتی مرض کہا ہے لیکن یہ نفسیاتی کیفیت ہی تھی۔ مسلمان صاحب ایمان صرف اس صورت میں بنتا ہے۔ جب مذہب اس کی نفسیات کا جز بن جاتا ہے۔
ان جانبازوں کو جاسوسی اور تباہ کاری کی ٹریننگ علی بن سفیان اور اس کے دو نائبین حسن بن عبداللہ اور زاہدان نے دی تھی اور معرکہ آرائی کی ٹریننگ تجربہ کار فوجیوں کے ہاتھوں ملی تھی۔ اب جبکہ سلطان ایوبی دمشق میں تھا اور علی بن سفیان قاہرہ میں تھا، وہاں کے اندرونی حالات پوری طرح نہیں سنبھلے تھے۔ سلطان ایوبی کی غیرحاضری، دمشق پر اس کے قبضے اور خلافت کی معزولی میں مصر میں صلیبی تخریب کاری کا خطرہ بڑھ گیا تھا، اس لیے علی بن سفیان کو وہیں رہنے دیا گیا تھا۔ دمشق میں اس کا ایک نائب حسن بن عبداللہ آیا تھا۔ وہی جاسوس جانبازوں کے دستے کا کمانڈر تھا۔ دمشق پر سلطان ایوبی نے قبضہ کرلیا تو وہاں کی بیشتر فوج سالار توفیق جواد کی زیرکمان سلطان ایوبی سے مل گئی تھی۔ باقی فوج اور خلیفہ کے باڈی گارڈ دستے، خلیفہ اور اس کے حواری امراء کے ساتھ دمشق سے بھاگ گئے تھے۔ توقع تھی کہ سلطان ایوبی انہیں گرفتار کرنے کے لیے فوج ان کے تعاقب میں بھیجے گا لیکن اس نے ایسی کوئی حرکت نہ کی۔ دو تین سالاروں نے اسے کہا بھی کہ ان امراء وغیرہ کو پکڑنا ضروری ہے جو بھاگ گئے ہیں۔ وہ کہیں اکٹھے ہوجائیں گے اور اطمینان سے سلطان ایوبی کے خلاف جنگی تیاری کریں گے۔
''اور میں یہ بھی جانتا ہوں کجہ وہ صلیبیوں سے بھی مدد مانگیں گے جو انہیں مل جائے گی''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''لیکن میں اندھیرے میں کبھی نہیں چلا۔ پہلے یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ گئے کہاں ہیں اور ان کا مرکز کون سا بنے گا۔ آپ لوگ پریشان نہ ہوں، میری آنکھیں اور میرے کان بھاگنے والوں کے ساتھ ہی چلے گئے ہیں۔ وہ بدبخت اتنی جلدی حملہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے۔ میں صرف یہ دیکھ رہا ہوں کہ صلیبی کیا کریں گے۔ وہ مصر پر بھی یلغار کرسکتے ہیں۔ وہ شام پر بھی حملہ کرسکتے ہیں۔ وہ شاید اس انتظار میں ہیں کہ میں کیا کروں گا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ میری چال کے بعد اپنی چال چلنا چاہتے ہوں۔ آپ فوج کو میری بتائی ہوئی تنظیم میں لاکر ان کی تربیت اور جنگی مشقیں جاریں رکھیں''۔
٭ ٭ ٭
: سلطان ایوبی نے جنہیں اپنی آنکھیں اور کان کہا تھا وہ یہی جاسوس تھے جو مصر سے یہاں آئے تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو انہی علاقوں کے رہنے والے تھے، جب الملک الصالح اور اس کے امراء اور وزراء دمشق سے بھاگے تو ان کے ساتھ سلطان ایوبی کے بہت سے جاسوس بھی چلے گئے تھے۔ بھاگنے والوں کی تعداد کم نہیں تھی۔ تمام امراء اور وزراء اور کئی ایک جاگیرداروں اور حاکموں کا عملہ بھی تھا، فوج کی بھی کچھ نفری تھی اور بڑوں کے خوشامدی لوگ بھی تھے۔ یہ تتر بتر ہوکر بھاگے تھے۔ ان کے ساتھ جاسوسوں کا چلے جانا آسان تھا۔ یہ جاسوس اس مشن پر ساتھ گئے تھے کہ دیکھیں الصالح اور اس کے پالنے والے امراء کیا جوابی کارروائی کریں گے اور انہیں صلیبیوں کی کتنی، کچھ اور کیسی مدد حاصل ہوگی۔ یہ جاسوس جو دمشق سے باہر گئے تھے حسن بن عبداللہ کے خصوصی منتخب افراد تھے۔ وہ اس صورتحال کے سیاسی پس منظر کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔
ان میں ایک ماجد بن محمد حجازی تھا۔ خوبرو جوان، جسم نہایت موزوں اور گٹھا ہوا اور اسے خدا نے زبان کی ایسی چاشنی دی تھی جس میں طلسماتی اثر تھا۔ تقریباً ہر جاسوس کی شکل وصورت اور اوصاف ایسے ہی تھے لیکن ماجد بن محمد ان سب سے برتر لگتا تھا۔ ان جاسوسوں کی اتنی اچھی صحت کا راز غالباً یہ تھا کہ انہیں کسی قسم کے نشے کی عادت نہیں تھی اور وہ عیاشی کو بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کے اخلاق میں جو پختگی تھی، اس نے ان میں فولاد جیسی قوت ارادی پیدا کررکھی تھی۔ ان کا قول وفعل مذہب کا پابند تھا۔ ماجد حجازی اپنے ساتھیوں کی طرح اس فولادی کردار کا نمونہ تھا اور روح کی جو پاکیزگی تھی اس نے اس کے چہرے کو حسین بنا رکھا تھا۔ وہ دمشق سے بھاگا جارہا تھا۔ اس کے نیچے عرب کی اعلیٰ نسل کا گھوڑا تھا۔ اس کے پاس تلوار تھی اور گھوڑے کی زین کے ساتھ چمکتی ہوئی انی والی برچھی تھی۔
وہ ویرانے میں اکیلا جارہا تھا۔ اس نے حلب کی سمت جاتے ہوئے بہت سے لوگوں کو دیکھا تھا۔ اسے کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آیا تھا جس کے ساتھ وہ جائے۔ وہ اپنے لیے کوئی ہمسفر ڈھونڈ رہا تھا جو اس کے مشن کے لیے سود مند ہوسکے۔ ایسا ہمسفر فوج کا کوئی اعلیٰ افسر ہوسکتا تھا یا کوئی ایسا امیر جسے الملک الصالح کا قرب حاصل ہوتا۔ اس کی سراغ رساں آنکھیں الصالح کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ اس نے چند ایک لوگوں سے پوچھا بھی تھا کہ وہ کس طرف گیا ہے مگر اسے الصالح کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ الملک الصالح نورالدین زنگی مرحوم کی عمر یا اس کی خوبیوں جیسا کوئی آدمی نہیں بلکہ وہ گیارہ سال کی عمر کا بچہ ہے جسے مفادپرست امراء نے اپنے مقاصد کے لیے سلطنت کی گدی پر بٹھایا ہے اور عملاً حکمران یہ امراء خود بنے ہوئے ہیں۔ وہ تصور میں لاسکتا تھا کہ وہ بچہ اکیلا نہیں جارہا ہوگا۔ اس کے ساتھ امیروں، وزیروں اور درباریوں کا قافلہ ہوگا اور اس قافلے کے ساتھ زروجواہرات اور مال ودولت سے لدے ہوئے اونٹ ہوں گے۔
ماجد حجازی نے سوچا تھا کہ یہ قافلہ اسے نظر آگیا تو وہ الملک الصالح کا مرید بن کر قافلے میں شامل ہوجائے گا۔ یہ کامیابی حاصل ہونے کی صورت میں اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اسے کیا کرنا ہے اور سینوں سے راز کس طرح نکالنے ہیں مگر اسے اپنے شکار کا کوئی سراغ نہ ملا۔ آگے چٹانی علاقہ آگیا۔ جہاں ہریالی بھی تھی۔ ذرا سستانے کے لیے وہ چٹانوں کے اندر چلا گیا… ایک جگہ اسے دو گھوڑے نظر آئے۔ ان سے ذرا پرے ہری بھری گھاس پر ایک آدمی لیٹا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ایک عورت تھی۔ وہ سوئے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ وہ ذرا فاصلے پر رک گیا اور گھوڑے سے اتر کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ ایک گھوڑا ہنہنایا تو وہ آدمی اٹھ بیٹھا۔ لباس سے وہ اونچے درجے کا فرد معلوم ہوتا تھا۔ اس نے ماجد حجازی کو دیکھا تو اسے اپنے پاس بلایا۔ ماجد اس کے پاس چلا گیا اور اس سے ہاتھ ملایا۔ عورت بھی اٹھ بیٹھی۔ وہ عورت نہیں، جوان لڑکی تھی اور بہت خوبصورت تھی۔ اس کے گلے کا ہار بتا رہا تھا کہ یہ لوگ معمولی حیثیت کے نہیں۔ اس آدمی کی عمر چالیس کے لگ بھگ تھی اور لڑکی پچیس سال سے کم لگتی تھی۔ ماجد نے ان دونوں کو ایک نظر میں بھانپ لیا۔
''تم کون ہو؟'' اس آدمی نے ماجد سے پوچھا… ''دمشق سے آئے ہو؟''
''میں دمشق سے ہی آیا ہوں'' ماجد نے جواب دیا… ''لیکن میں یہ نہیں بتا سکتا کہ میں کون ہوں۔ آپ کیسے سفر میں ہیں؟''
''غالباً ہم ایک ہی سفر کے مسافر ہیں''۔ اس آدمی نے مسکرا کر کہا… ''تم شریف آدمی معلوم ہوتے ہو''۔
''کیا آپ یقین کرنا چاہتے ہیں کہ میں شریف ہوں یا بدمعاش؟'' ماجد حجازی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس نے کہا… ''جس کے ساتھ اتنی حسین لڑکی ہو اور لڑکی کے گلے میں اتنا قیمتی ہار ہو اور ساتھ مال اور دولت بھی ہو، وہ ہر راہی کو بدمعاش اور ڈاکو سمجھتا ہے۔ میں ڈاکو نہیں ہوں۔ آپ کو ڈاکوئوں سے بچا ضرور سکتا ہوں، خواہ میری جان چلی جائے''… اس کے دماغ میں اچانک ایک بات آگئی ہو جو اس نے تیر کی طرح منہ سے نکال دی۔ اس نے کہا… ''دمشق سے بھاگے ہوئے کچھ لوگ ڈاکوئوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ میں نے راستے میں دو لاشیں بھی دیکھی ہیں۔ یہ موقعہ ڈاکوئو ںکے لیے نہایت اچھا ہے کہ لوگ مال ودولت کے ساتھ دمشق سے بھاگ رہے ہیں''۔
لڑکی کا اتنا دلکش رنگ اڑ گیا۔ وہ اپنے آدمی کے ساتھ لگ گئی۔ کچھ ایسی ہی حالت آدمی کی ہوگئی۔ ماجد حجازی جان گیا کہ یہ کون ہیں اور کیا ہیں۔ ان پر خوف وہراس غالب کرکے اس نے اپنی زبان کے کرشمے دکھانے شروع کردئیے۔ اس نے صلاح الدین ایوبی کو برا بھلا کہا اور سلطان الملک الصالح کی مدح سرائی یوں کی جیسے وہ زمین وآسمان کا واحد برگزیدہ انسان ہو۔ ماجد نے اس پر دہشت کا غلبہ اور زیادہ پختہ کرنے کے لیے کہا… ''صلاح الدین ایوبی نے دمشق سے بھاگے ہوئے آپ جیسے لوگوں کو لوٹنے اور ان سے جوان بیٹیاں اور بیویاں چھیننے کے لیے اپنی فوج کے دستے ادھر بھیج دئیے ہیں… یہ لڑکی آپ کی کیا لگتی ہے؟''
''یہ میری بیوی ہے''۔
''اور دمشق میں آپ کتنی بیویاں چھوڑ آئے ہیں؟'' ماجد حجازی نے پوچھا۔
''چار''۔
''خدا کرے یہ پانچوں خیریت سے آپ کے ساتھ منزل پر پہنچ جائیں''۔ ماجد نے کہا۔
''ایوبی کی فوج کتنی دور ہے؟'' اس آدمی نے پوچھا… ''تم نے سپاہیوں کو لوٹ مار کرتے دیکھا ہے؟''
''ہاں دیکھا ہے''۔ ماجد حجازی نے کہا… ''اگر میں آپ سے کہوں کے میں بھی صلاح الدین ایوبی کی فوج کا سپاہی ہوں تو آپ کیا کریں گے؟''
وہ کانپنے لگا۔ مسکرایا بھی مگر مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ اس نے کہا… ''میں تمہیں کچھ دے دوں گا اور تم سے التجا کروں گا کہ مجھے کنگال نہ کرو اور میں تم سے یہ التجا بھی کروں گا کہ اس بے چاری کو میرے ساتھ رہنے دو''۔
ماجد حجازی نے قہقہہ لگایاا ورکہا… ''دولت اور عورت سے زیادہ محبت انسان کو بزدل اور کمزور بنا دیتی ہے اگر مجھے کوئی کہے کہ جو کچھ پاس ہے، وہ میرے حوالے کردو تو میں تلوار کھینچ کر اسے کہوں گا کہ پہلے مجھے قتل کرو، پھر میری لاش سے تمہیں جو کچھ ملے وہ لے جانا… محترم! مجھے یہ بتائیں کہ آپ کو ن ہیں؟ دمشق میں آپ کیا تھے؟ اور اب آپ کہاں جارہے ہیں؟ اگر آپ نے سچ بتا دیا تو ہوسکتا ہے کہ آپ کو مجھ سے زیادہ مخلص اور جانباز محافظ نہ ملے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہماری منزل ایک ہے۔ میں ایوبی کی فوج کا سپاہی ضرور ہوں لیکن بھگوڑا ہوں''۔
اس آدمی نے اپنے متعلق سب کچھ بتا دیا۔ دمشق کے مضافاتی علاقے کا جاگیردار تھا۔ اسے سرکار کے دربار میں ایسی سرکاری حیثیت بھی حاصل تھی کہ سلطنت کی شہری اور جنگی پالیسیوں میں بھی اس کا عمل دخل تھا۔ (اسلام اور انسان تاریخ اسلام اور انسانیت پر مبنی فیسبک پیج سے آپ پڑھ رہیں ، صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ، داستان ایمان فروشوں کی) سلطان کے باڈی گارڈ دستے کے زیادہ تر سپاہی اسی کے دئیے ہوئے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ وہ سلطنت کے بالائی حلقے کا اہم قسم کا درباری تھا۔ اسے گھر سے نکلتے ذرا دیر ہوگئی تھی۔ الصالح نے اپنے تمام حاشیہ برداروں سے کہا تھا کہ وہ حلب پہنچ جائیں۔ چنانچہ یہ جاگیردار حلب جارہا تھا۔ اس نے یہ بھی بتا دیا کہ وہ بہت سے زروجواہرات ساتھ لے جارہا ہے۔ چار بیویاں پیچھے چھوڑ آیا ہے۔ یہ چونکہ سب سے چھوٹی اور خوبصورت تھی اس نے بڑے افسوس کے ساتھ ذکر کیا کہ اس کے محافظ اور تمام ملازم دمشق میں ہی اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ انہوں نے اس کا گھر لوٹ لیا ہوگا۔ یہ اس کی اپنی ہمت تھی… کہ وہ بروقت اپنا بیش قیمت خزانہ لے کر نکل آیا۔ وہ اب الصالح کے پاس جارہا تھا۔
ماجد حجازی کو اس کی داستان سن کر خوشی ہوئی۔ یہ جاگیردار اس کے کام کا آدمی تھا۔ اس کے ساتھ وہ حلب کے دربار تک پہنچ سکتا تھا۔ اس نے اپنے متعلق بتایا کہ وہ اس سوار دستے کا کمان دار تھا جو سلطان الدین ایوبی اپنے ساتھ دمشق لایا تھا لیکن وہ الصالح کا مرید ہے۔ اس لیے وہ اس کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔ اس عقیدت مندی کا نتیجہ ہے کہ وہ ایوبی کی فوج سے بھاگ آیا ہے اور سلطان کے دربار میں جارہا ہے۔ اگر اس نے پسند کیا تو وہ اس کے محافظ دستے میں شامل ہوجائے گا۔
 ''اگر میں ابھی سے تمہیں اپنا محافظ بنا لوں تو تمہاری اجرت کی شرائط کیا ہوں گی؟'' اس نے ماجد حجازی سے پوچھا۔ ''میں جیسے دمشق میں بادشاہ تھا، اسی طرح وہاں بھی بادشاہ ہوں گا، جہاں جارہا ہوں۔ میرے محافظ بن کر تمہیں افسوس نہیں ہوگا''۔
''اگر آپ مجھے اپنا محافظ بنائیں گے تو آپ کو فوجی مشیر کی ضرورت نہیں پڑے گی''۔ ماجد حجازی نے اسے کہا…''میری اجرت آپ میری قابلیت دیکھ کر خود ہی مقرر کردیں گے۔ میں ابھی کچھ نہیں بتائوں گا''۔
ماجد حجازی اس کا باڈی گارڈ بن گیا۔ یوں کہیے کہ ایک درباری جاگیردار کے ساتھ سلطان ایوبی کا ایک جاسوس لگ گیا۔ اس جاگیردار کے پاس بے اندازہ زروجواہرات تھے جو اس نے ایسے سامان میں چھپا رکھے تھے جو بظاہر معمولی سا تھا۔ اسے فوری طور پر ایک محافظ کی ضرورت تھی۔ ماجد کے ڈرانے سے یہ ضرورت اور شدید ہوگئی تھی۔ اس وقت سورج غروب ہورہا تھا اور فضا خنک ہونے لگی تھی۔ ماجد کے مشورے پر انہوں نے وہیں قیام کیا… رات گزر گئی تو جاگیردار کو یقین آگیا کہ ماجد قابل اعتماد آدمی ہے۔
٭ ٭ ٭
لمبی مسافت کے بعد وہ حلب پہنچے۔ اس وقت حلب کا امیر شمس الدین تھا جس نے تھوڑا ہی عرصہ پہلے صلیبیوں کو تاوان دے کر ان سے صلح کرلی تھی۔ الملک الصالح دمشق سے بھاگ کر وہاں پہنچ چکا تھا۔ اس کے تمام امراء وزراء اس کے ساتھ تھے اور اس کے باڈی گارڈ کے دستے بھی وہاں پہنچ رہے تھے۔ الصالح نے حلب کی امارت پر قبضہ کرلیا تھا اور اس کے امراء وغیرہ فوج کو نئے سرے سے منظم کرنے لگے تھے۔ صورتحال ایسی تھی کہ فوج کو ہر اس آدمی کی ضرورت تھی جس میں تھوڑی سی جنگی سوجھ بوجھ ہو۔ الملک الصالح کے پاس سونے اور خزانے کی کمی نہیں تھی، کمی فوج، کمانڈروں اور مشیروں کی تھی۔ وہ اور اس کا ٹولہ سلطان ایوبی کے خلاف لڑنے اور خلافت بحال کرنے کو بیتاب تھا۔ ان کی بیتابیوں سے یوں پتا چلتا تھا جیسے ان کے دشمن صلیبی نہیں سلطان ایوبی ہے۔ انہوں نے خلیفہ کی مہر کے ساتھ ادھر ادھر کے امراء میں حمص، حماة اور موصل کے حکمران خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ کسی کی طرف سے امید افزا جواب ملا اور کسی نے تعاون کا صرف وعدہ کیا۔
یہ جاگیردار حلب پہنچا تو الصالح نے اسے خوش آمدید کہا۔ وہ بھی الصالح کی جنگی مجلس مشاورت کا اہم رکن تھا۔ اسے حلب میں ایک مکان دے دیا گیا۔ وہ آتے ہی اس قدر مصروف ہوگیا کہ صبح کا گیا، آدھی رات کو گھر آتا تھا۔ اس کی غیرحاضری میں اس کی بیوی ماجد حجازی میں دلچسپی لینے لگی۔ ماجد نے اس کے ساتھ ایسی بے تکلفی پیدا کرلی جس میں بدنیتی کا شائبہ تک نہ تھا۔ ماجد نے پروقار انداز اختیار کیے رکھا جس سے لڑکی متاثر ہوئی اور وہ جیسے بھول ہی گئی ہو کہ ماجد اس کے خاوند کا محافظ ہے۔ ماجد اپنے مشن پر کام کررہا تھا۔ اس نے دوتین دنوں میں لڑکی کے دل پر قبضہ کرلیا۔ اس نے لڑکی سے پوچھا کہ اس کے خاوند کی باقی چار بیویاں کیسی تھیں۔ اس نے بتایا کہ کوئی ایسی بری تو نہیں تھی۔ اس شخص نے انہیں پرانی سمجھ کر دھوکہ دیا اور اس لڑکی کو ساتھ لے کر بھاگ آیا۔
''اور ایک روز یہ تمہیں بھی چھوڑ کر کسی اور کو لے آئے گا''… ماجد حجازی نے کہا… ''ان امیروں کا یہ شغل ہے''۔
''اگر تمہیں دل کی بات بتا دوں تو میرے خاوند کو تو نہیں بتا دو گے؟''… لڑکی نے پوچھا… ''مجھے دھوکہ تو نہیں دو گے؟''
''اگر میری فطرت میں دھوکہ اور فریب ہوتا تو میں تمہارے خاوند کو وہیں جہاں میں تمہیں ملا تھا، آسانی سے قتل کرکے تم پر اور تمہارے مال ودولت پر ہاتھ صاف کرسکتا تھا''۔ ماجد نے کہا… ''میں مرد ہوں، عورت کو فریب دینا مرد کی شان کے خلاف ہے''۔
''میں اب اس راز کو اپنے دل میں زیادہ دیر نہیں رکھ سکتی کہ مجھے تم سے ایسی محبت ہے جس پر میرا قابو نہیں رہا''۔ لڑکی نے کہا… ''اور یہ بھی ایک راز ہے کہ مجھے اس خاوند سے نفرت ہے۔ میں بکی ہوئی لڑکی ہوں۔ کئی بار دل میں آیا ہے کہ اپنے آپ کو ختم کردوں۔ میں شاید بزدل ہوں۔ اپنی جان لینے سے ڈرتی ہوں۔ میرے ارادے کچھ اور تھے، میرے خیالات کچھ اور تھے۔ تم نے میرے ارادوں اور خیالوں پر مٹی ڈال دی ہے اور میرا یہ ارادہ پکا کردیا ہے کہ اپنے آپ کو ختم کردوں''۔
''کیا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے، اس لیے خودکشی کرنا چاہتی ہو؟''
''نہیں!'' لڑکی نے کہا… ''میرے ذہن میں صلاح الدین ایوبی کا تصور نورالدین زنگی سے زیادہ مقدس اور پیارا تھا۔ تم نے اس تصور کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ کیا صلاح الدین ایوبی اتنا ہی برا ہے، جتنا تم نے بتایا ہے؟''
'میں تمہارے راز کو اپنا راز سمجھوں گا''۔ ماجد حجازی نے کہا… ''اس کے عوض تمہیں اپنا ایک راز دیتا ہوں۔ میں تم سے کوئی وعدہ نہیں لوں گا کہ میرے راز کی حفاظت کرنا۔ اگر میرا راز فاش ہوگیا تو نہ تم زندہ ہوگی، نہ تمہارا خاوند… میں صلاح الدین ایوبی کا جاسوس ہوں۔ میں نے دوچار دنوں میں پھانپ لیا ہے کہ تم اصل میں کیا ہو۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی کا تصور اس سے کہیں زیادہ مقدس ہے جو تم نے اپنے ذہن میں بنا رکھا ہے۔ وہ ان امیروں اور بادشاہوں کا دشمن ہے جنہوں نے لڑکیوں کو اپنے حرموں میں قید کررکھا ہے۔ وہ اس کے سخت خلاف ہے کہ مرد عورت کو صرف تفریح اور عیاشی کا ذریعہ بنائے۔ وہ مرد اور عورت کی برابری کا اور ایک خاوند اور ایک بیوی کا قائل ہے۔ وہ عورتوں کو فوجی تربیت دینا چاہتا ہے۔ میں نے تمہارے خاوند کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بولا تھا کہ ایوبی نے اپنی فوج کے چند دستوں کو دمشق سے بھاگنے والوں کو لوٹنے اور ان کی لڑکیوں کو اٹھا لانے کے لیے بھیجا ہے۔ وہ سچے اسلام کا علمبردار ہے۔ میں اسی اسلام کی خاطر اور اسی صلاح الدین ایوبی کی خاطر یہاں ایک کام کے لیے آیا ہوں''۔
لڑکی کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی۔ اس نے ماجد حجازی کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر چوم لیا اور کہا… ''تمہارا یہ راز کبھی فاش نہ ہوگا۔ مجھے مت بتائو کہ تم یہاں کیوں آئے ہو اور میں تمہاری کیا مدد کرسکتی ہوں؟ مجھے مت بتائو کے صلاح الدین ایوبی اصل میں کیا ہے اور تم نے میرے خاوند کو کیا بتایا تھا۔ میں عورتوں کی اس جماعت کی لڑکی تھی جو نورالدین زنگی کی زندگی میں ہم نے بنائی تھی۔ ہم صلبیوں کے خلاف اپنا محاذ قائم کررہی تھیں۔ زنگی کی بیوہ ہماری سرپرست اور نگران تھی۔ میرا باپ پسند نہیں کرتا تھا کہ میں اس جماعت میں رہوں۔ وہ لالچی اور خوشامدی انسان ہے۔ اس کے لیے صلیب اور ہلال میں کوئی فرق نہیں۔ وہ اسی کا غلام ہے جس سے اسے کچھ رقم ہاتھ آجائے۔ اس نے مجھے اس آدمی کے ہاتھ بیچ دیا۔ اس سودے کو لوگ شادی کہتے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ مسلمان کی بچی میدان جنگ میں ہو یا اسے کوئی بھی جنگی اور قومی کام دے دو تو وہ مردوں کو حیران کردیتی ہے اور دشمن کا منہ پھیر سکتی ہے مگر یہی بچی جب حرم میں قید کرلی جاتی ہے تو چینٹی بن جاتی ہے۔ یہی حالت میری ہوئی۔ اگر میرا یہ خاوند معمولی حیثیت کا ہوتا تو میں بغاوت کرتی۔ اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتی مگر اس آدمی کے پاس طاقت ہے، دولت ہے اور الصالح کا جو محافظ دستہ ہے، اس کے آدھے سپاہی اس کے علاقے کے ہیں جو اس کے بھرتی کرائے ہوئے ہیں…
میں چونکہ اس کی پہلی بیویوں سے زیادہ جوان اور خوبصورت ہوں، اس لیے میں ہی اس کا کھلونا بن گئی۔ میری روح مرگئی، میرا صرف جسم زندہ رہا۔ باہر کی دنیا سے میرا رشتہ ٹوٹ چکا تھا اور میں جس دنیا میں قید تھی، وہاں شراب اور ناچ گانے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اگر کچھ اور تھا تو وہ نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کے قتل کے منصوبے تھے''… وہ بولتے بولتے چپ ہوگئی۔ اس نے ماجد حجازی کو جھنجھوڑ کر کہا… ''کیا تم میری باتیں سن رہے ہو؟ میں نے یہ یقین کیے بغیر کہ تم صلاح الدین ایوبی کے جاسوس ہو یا میرے خاوند کے، تمہیں اپنے دل کی باتیں سنا رہی ہوں۔ اگر میرے خاوند کے جاسوس ہو تو اسے یہ ساری باتیں سنا دینا جو میں تمہیں سنا رہی ہوں۔ وہ مجھے سزا دے گا۔ میں اب ہر قسم کی سزا برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ میرے پاس اب جسم رہ گیا ہے۔ یہ جسم پتھر بن گیا ہے۔ روح مرگئی ہے''۔
: ''تمہاری روح زندہ ہے''۔ ماجد حجازی نے کہا… ''میری نگاہیں گہرائیوں سے زیادہ گہرائی تک دیکھ لیا کرتی ہیں۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ تمہاری روح زندہ ہے، ورنہ میں اپنا راز کبھی تمہارے آگے نہ کھولتا۔ میں حسن اور جوانی سے مغلوب ہونے والا انسان نہیں ہوں، مرد ہوں۔ اپنی جان اسلام کے نام پر وقف کردی ہے۔ تم بولو۔ اپنا دل ہلکا کرتی جائو، میں سن رہا ہوں، تمہاری داستان میرے لیے نئی نہیں۔ یہ ہر مسلمان عورت کی داستان ہے۔ اسلام کا زوال اسی روز شروع ہوگیا تھا جس روز ایک مسلمان نے حرم کھولا اور اس میں خوبصورت لڑکیاں خرید کر قید کی تھیں۔ صلیبیوں نے کہا کہ اب اس قوم کو عورت کے ہاتھوں مروائو۔ انہوں نے ہمارے بادشاہوں کے حرم اپنی بیٹیوں سے بھر دئیے ہیں''۔
''یہ میرے خاوند کے گھر میں بھی ہوا''۔ لڑکی نے کہا… ''میں نے اپنی آنکھوں سے صلیبی لڑکیوں کو اپنے خاوند کے پاس آتے اور شراب پیتے دیکھا ہے۔ میں سوائے رونے کے اور کرہی کیا سکتی تھی۔ میں اس لیے نہیں روتی تھی کہ ان لڑکیوں نے مجھ سے میرا خاوند چھین لیا ہے، بلکہ اس لیے کہ مجھ سے میرا اسلام چھن گیا تھا، وہ اسلام جس کی خاطر میں نے تمہاری طرح اپنی جان وقف کی تھی''۔
''آئو جذباتی باتوں سے ہٹ کر اس کام کی باتیں کریں جس کے لیے میں یہاں آیاہوں''۔ ماجد نے کہا اور اس سے پوچھا… ''اپنے خاوند پر تمہاراکتنا کچھ اثر ہے؟ کیا تم اس کے دل سے راز کی باتیں نکال سکتی ہو؟''
''شراب کے دو پیالے پلا کر اور اس کا سر اپنے سینے سے لگا کر میں اس سے ہر راز لے سکتی ہوں''۔ لڑکی نے جواب دیا… ''تم کیا معلوم کرنا چاہتے ہو؟''… اس نے کچھ سوچ کر اور مسکرا کر کہا… ''میری ایک ذاتی شرط مان لو گے؟… اگر میں تمہارا کام کردوں تو مجھے یہاں سے لے جائو گے؟ میری محبت کو ٹھکرا تو نہیں جائو گے؟''
ماجد حجازی نے اس کا دل رکھ لیا اور اس کی شرط مان لی۔ اس نے اسے بتایا کہ ''الصالح گیارہ سال کا بچہ ہے۔ وہ امیروں کے ہاتھ میں کھلونا ہے۔ یہ امیر اور وزیر صلاح الدین ایوبی کو ختم کرکے سلطنت اسلامیہ کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوگیاتو ان ٹکڑوں کو صلیبی ہضم کرجائیں گے اور اسلام کا نام ونشان مٹ جائے گا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کہتا ہے کہ جس قوم نے اپنے ملک کے ٹکڑے کیے، وہ کبھی زندہ نہیں رہیں۔ ہمارے یہ امیر صلیبیوں تک سے مدد لینے کو تیار ہیں۔ صلیبی انہیں ضرور مدد دیں گے اور اس کے عوض وہ انہیں اپنا محکوم بنائیں گے۔ میں یہ معلوم کرنے آیا ہوں کہ خلیفہ کے ہاں کیا منصوبے بن رہے ہیں اور صلیبی انہیں کیا مدد دے رہے ہیں۔ مجھے یہ خبر جلدی صلاح الدین ایوبی تک پہنچانی ہے تاکہ اس کے مطابق کارروائی کی جائے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ سلطان ایوبی بے خبری میں صلیبیوں کے حملے کی زد میں آجائے''۔
''کیا صلاح الدینایوبی مسلمان امیروں پر حملہ کرے گا؟'' لڑکی نے پوچھا۔
''اگر ضرورت پڑی تو وہ دریغ نہیں کرے گا''۔
لڑکی بہت ہی جذباتی تھی اور وہ ذہین بھی تھی۔ اس کے آنسو نکل آئے۔ اس نے کہا… ''اسلام کو یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آپس میں لڑے گی''۔
 ''اس کے سوا کوئی اور علاج نہیں''۔ ماجد حجازی نے کہا… ''صلاح الدین ایوبی بادشاہ نہیں، اللہ تعالیٰ کا سپاہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ملک اور قوم کو خطروں اور تباہی سے بچانے کا فرض فوج کے سپرد ہے۔ یہ خطرہ باہر کے دشمن کا ہو یا اندر کے غداروں اور مفادپرست حکمرانوں کا، ان سے ملک اور قوم کو بچانا سپاہی کا فرض ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ فوج کو حکمرانوں کے ہاتھوں میں کھلونا نہیں بننے دے گا۔ فوج حکمرانوں کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے۔ وہ مسلمان کافروں سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے جو کافروں کو دوست سمجھ کر انہیں اپنی جڑوں میں بٹھاتا ہے… اب تمہارا کام یہ ہے کہ اپنے خاوند سے یہ راز لو کہ یہاں کیا منصوبہ بن رہا ہے''۔
''میں راز بھی دوں گی اور دعا بھی کروں گی کہ جب تم یہاں سے دمشق جائو تو تمہارے ساتھ یہ راز بھی ہو اور میں بھی ہوں''۔ لڑکی نے کہا۔ ''تریپولی کے صلیبی بادشاہ ریمانڈ کی طرف ایک ایلچی اس درخواست کے ساتھ بھیج دیا گیا ہے کہ وہ الصالح کی مدد کو آئے''۔ دوسرے ہی دن لڑکی نے ماجد حجازی کو بتایا…''میں نے رات کو شراب پلا کر صلاح الدین ایوبی کے خلاف بہت باتیں کیں اور اس سے کہا کہ تم لوگ بزدل ہو جو دمشق سے بھاگ کر حلب میں آن پناہ لی ہے۔ کوئی مسلمان حکمران کی یہ توہین برداشت نہیں کرسکتا جو صلاح الدین ایوبی نے کی ہے''… ایسی بہت باتیں کیں تو بھڑک اٹھا اور میرے ساتھ بے ہودہ حرکتیں کرتے ہوئے بولا… ''ایوبی چند دنوں کا مہمان ہے، فدائی قاتلوں کے مرشد شیخ سنان سے بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ صلاح الدین ایوبی کے قتل کا بندوبست کرے اور منہ مانگا انعام لے۔ وہ اپنے تجربہ کار آدمی دمشق بھیج رہا ہے''… اس نے یہ بھی بتایا کہ اپنی فوج کی تیاری کے لیے بہت وقت مل جائے گا کیونکہ سردیوں کا موسم شروع ہوگیا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں برف پڑنے لگے گی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی صحرائی فوج کو اتنی سردی اور برف میں نہیں لڑا سکے گا۔
یہ ابتداء تھی۔ شراب اور عورت ایک مرد کے سینے سے راز نکلوا رہی تھی۔ لڑکی نے ہر رات خاوند سے دن بھر کی کارگزاری معلوم کرنی شروع کردی اور یہ راز ماجد حجازی کے سینے میں محفوظ ہوتے گئے۔ ایک روز خاوند نے ماجد سے کہا… ''مجھے ملازموں نے تمہارے متعلق ایک قابل اعتراض بات بتائی ہے''… ماجد کانپ اٹھا۔ وہ سمجھا کہ اس کا بھانڈہ پھوٹ گیا ہے مگر خاوند نے کہا… ''تم میری بیوی کو ورغلا رہے ہو، میری غیرحاضری میں تم اس کے پاس بیٹھے رہتے ہو۔ میں جانتا ہوں کہ میرے مقابلے میں تم خوبرو ہو اور جوان بھی ہو۔ میری بیوی تمہیں پسند کرسکتی ہے مگر میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا''۔
ماجد حجازی نے اسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ اس کی غلط فہمی ہے لیکن اس کے دل میں وہم پیدا ہوچکا تھا۔ اس نے اپنی بیوی سے بھی یہی بات کہی اور اس پر پابندی عائد کردی کہ وہ ماجد حجازی سے نہیں مل سکتی۔
ماجد حجازی ابھی وہاں سے نکلنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ اسے ابھی وہاں کا پورا منصوبہ نہیں ملا تھا۔ اس نے لڑکی کے خاوند کی ڈانٹ ڈپٹ سہہ لی اور اس کی دھمکیوں سے اپنے اوپر مصنوعی خوف کی کیفیت بھی طاری کرلی۔ اس کی منت سماجت بھی کی۔ اس شخص نے اسے معاف تو کردیا لیکن اسی روز چھ باڈی گارڈ لے آیا۔ اس دور میں امیر کبیر لوگ اپنے گھر میں باڈی گارڈ رکھنے کو عزت کی نشانی سمجھتے تھے۔ اس آدمی نے ماجد حجازی سمیت سات باڈی گارڈ رکھ لیے اور ان میں سے ایک کو کمانڈر بنا دیا۔ اس کمانڈر نے ماجد کو یہ خصوصی حکم سنایا کہ وہ چونکہ آقا کی نظروں میں مشتبہ ہے، اس لیے وہ مکان کے دروازے تک بھی نہیں جاسکتا اور رات کو تھوڑی سی دیر کے لیے بھی غیرحاضر نہیں ہوسکتا۔ ماجد نے اس حکم کے آگے بھی سر تسلیم خم کردیا اور اس نے ایسا رویہ اختیار کرلیا جیسے مرگیا ہو۔
دو تین راتیں ہی گزری ہوں گی، آدھی رات کے وقت یہ لڑکی باہر نکلی۔ بڑے دروازے پر ایک باڈی گارڈ پہرے پر کھڑا تھا۔ لڑکی نے اس سے آقائوں کے جلال اور رعب سے پوچھا… ''تم یہیں کھڑے رہتے ہو یا مکان کے اردگرد چکر بھی لگاتے ہو؟''… اس نے کچھ جواب دیا تو لڑکی نے کہا… ''تم نئے آدمی ہو۔ ہمارے دمشق والے محافظ بہت ہوشیار اور چوکس تھے۔ تم اگر یہاں نوکری کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اسی طرح ہوشیار اور چوکس بننا پڑے گا۔ آقا بڑی سخت طبیعت کے مالک ہیں''۔ پہرہ دار نے احترام سے سر جھکا لیا۔
: لڑکی باڈی گارڈوں کو دیکھنے نکلی تھی۔ وہ ان دو خیموں کی طرف چل پڑی جن میں دوسرے باڈی گارڈ سوئے ہوئے تھے۔ دروازے والے پہرہ دار نے دوڑ کر کمانڈر کو جگا دیا اور بتایا کہ مالکہ معائنے کے لیے آئی ہے۔ کمانڈر گھبرا کر اٹھا اور لڑکی کے آگے جھک گیا۔ لڑکی نے اسے بھی ہدایات دیں اور ایک خیمے کے آگے رک کر بلند آواز سے باتیں کرنے لگی۔ ماجد حجازی اسی خیمے میں سویا ہوا تھا۔ اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ باہر آگیا۔ لڑکی نے اس سے یوں بات کی جیسے اسے اچھی طرح جانتی ہی نہ ہو۔ اس سے پوچھا… ''تم شاید پہلے والے محافظ ہو؟''… ماجد نے تعظیم سے جواب دیا تو لڑکی نے کمانڈر سے کہا… ''اس آدمی کو جلدی تیار کرو، یہ میرے ساتھ قصر سلطنت تک جائے گا۔ دو گھوڑے فوراً تیار کرو''۔
''اگر آقا آپ کے متعلق پوچھیں تو میں کیا جواب دوں؟'' کمانڈر نے پوچھا۔
''میں سیر سپاٹے کے لیے نہیں جارہی''۔ لڑکی نے تحکمانہ لہجے میں کہا… ''آقا کے ہی کام سے جارہی ہوں۔ حکومت کے کاموں میں مت دخل دو، جائو گھوڑے تیار کرو''۔
کمانڈر نے ایک آدمی کو اصطبل کی طرف دوڑا دیا۔ ماجد حجازی تلوار سے مسلح ہوکر تیار ہوگیا تھا۔ لڑکی اسے اصطبل کی طرف لے گئی۔ کمانڈر کو اس لڑکی کے خاوند نے بتا رکھا تھا کہ ماجد پر نظر رکھے اور اسے گھر کے اندر نہ جانے دے۔ اب لڑکی نے ماجد کو ہی اپنے ساتھ لے جانے کے لیے منتخب کیا تھا۔ کمانڈر نے دیکھا کہ وہ دونوں اصطبل کی طرف چلے گئے ہیں تو وہ دوڑ کر اندر لڑکی کے خاوند کو اطلاع دینے چلا گیا۔ وہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ خاوند کو معلوم ہے کہ اس کی بیوی مشتبہ باڈی گارڈ کے ساتھ جارہی ہے۔ وہ لڑکی کو روک بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ اس کی مالکن تھی… وہ اندر گیا اور ڈرتے ڈرتے اپنے آقا کے کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا۔ دروازہ کھل گیا۔ اندر قندیل جل رہی تھی اور کمرہ شراب کی بدبو سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے اپنے آقا کو دیکھا، وہ بستر پر اس طرح پڑا تھا کہ اس کا سر اور بازو پلنگ سے لٹک رہا تھا۔ ایک خنجر اس کے سینے میں اترا ہوا تھا۔ اس کے سینے پر خنجر کے کئی زخم تھے۔ کمانڈر نے اس کی نبض دیکھی، وہ مرا ہوا تھا۔ اس کے کپڑے خون سے لال ہوگئے تھے۔
ماجد حجازی کو لڑکی بتا چکی تھی کہ اس نے اپنے خاوند سے سارا منصوبہ معلوم کرلیا ہے اور اب اس منصوبے پر عمل شروع ہورہا ہے۔ اس نے خاوند کو روزمرہ کی طرح شراب پلائی اور اتنی پلائی کہ وہ بے ہوش ہوگیا۔ لڑکی اسے بے ہوشی کی حالت میں چھوڑ کر آسکتی تھی لیکن انتقام کے جذبے نے اسے پاگل کردیا۔ اس نے اسی کے خنجر سے اس کا سینہ چھلنی کردیا اور خنجر اس کے سینے میں ہی رہنے دیا… ماجد حجازی گھبرایا نہیں۔ وہ تو ہر لمحہ کسی نہ کسی اچانک پیدا ہونے والی صورتحال کے لیے تیار رہتا تھا۔ اس نے لڑکی کے اس اقدام کو سراہا اور اسے کہا کہ وہ اطمینان سے گھوڑے پر سوار ہوجائے۔
وہ جونہی گھوڑوں پر سوار ہونے لگے، رات کی خاموشی میں ایک آواز بڑی ہی بلند سنائی دینے لگی… ''گھوڑے مت دینا، انہیں روک لو، وہ آقا کو قتل کرکے جارہی ہے''۔
چھ کے چھ باڈی گارڈ تلواریں اور برچھیاں اٹھائے باہر آگئے۔ ماجد اور لڑکی گھوڑوں پر سوار ہوچکے تھے۔ انہیں اسی راستے سے گزرنا تھا جہاں باڈی گارڈ تھے۔ ماجد نے لڑکی سے کہا کہ وہ گھوڑ سواری نہیں کرسکتی تو اس کے گھوڑے پر پیچھے بیٹھ جائے۔ گھوڑا سرپٹ دوڑانا پڑے گا۔ لڑکی نے خوداعتمادی سے کہا کہ وہ گھوڑا دوڑا سکتی ہے۔ ماجد نے اسے کہا کہ وہ گھوڑا اس کے پیچھے رکھے، ماجد نے تلوار نکال لی۔ ادھر باڈی گارڈوں کا شور بڑھتا جارہا تھا اور وہ اصطبل کی طرف دوڑتے آرہے تھے۔ ماجد نے گھوڑے کو ایڑی لگادی۔ اس کے پیچھے لڑکی نے بھی گھوڑا دوڑان دیا۔ کمانڈر کی آواز گرجی… ''رک جائو، مارے جائو گے''… چاندنی رات تھی، ماجد نے دیکھ لیا کہ باڈی گارڈ برچھیاں اوپر کیے اس کی طرف آرہے ہیں۔ اس نے گھوڑے کا رخ ان کی طرف کردیا اور آگے ہوکر تلوار گھمانے لگا۔ گھوڑے کی رفتار اس کی توقع سے زیادہ تیز تھی۔ دو باڈی گارڈ اس کے سامنے آگئے اور گھوڑے تلے کچلے گئے۔ ایک برچھی اس کی طرف آئی جو اس نے تلوار کے وار سے بے کار کردی۔
''کمانیں نکالو''۔ کمانڈر نے چلا کر کہا۔ باڈی گارڈ تجربہ کار معلوم ہوتے تھے۔ ذرا سی دیر میں دو تیر ماجد حجازی کے قریب سے گزر گئے۔ اس نے گھوڑا دائیں بائیں گھمانا شروع کردیا تاکہ تیر انداز نشانہ نہ لے سکیں-
جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں