داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 87 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 87


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔87طور کا جلوہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آدمی کے کندھوں پر گرا۔ نیچے والا آدمی اوپر والے کے نیچے آگیا۔ دوسرے دو بری طرح گھبراگئے او رادھر ادھر ہوئے۔ ذرا سی دیر میں تین آدمی مختلف اوٹوں سے اُٹھے اور ان دونوں پر جھپٹ پڑے۔ انہیںخنجر نکالنے کی مہلت نہ ملی۔ ان میں سے جو آدمی اوپر والے کے نیچے پڑا تھا وہ قوی ہیکل تھا ۔ اس نے اوپر والے کو لڑھکا دیا ۔ علی بن سفیان نے کہا تھا کہ انہیں زندہ پکڑنا ہے مگر اس آدمی کوہلاک کرنا ضروری ہوگیا ۔ جو آدمی اس کے اوپر گرا تھا اس نے خنجر نکالا اور اس قوی ہیکل آدمی کے دل میں اتار دیا۔ دوسرے دو آدمیوں کوان رسیوں سے باندھ دیا گیا جو اسی مقصد کے لیے ساتھ لے جائی گئی تھی۔ 
٭ ٭ ٭
عمر درویش کے خیمے کے باہر لوگ جمع ہوگئے تھے۔ ان میں علی بن سفیان بھی تھا اور اس کے ساتھ مصری فوج کے چھاپہ مار بھی خاصی تعداد میں موجود تھے جو اس علاقے میں مختلف بہروپوں میں رہتے تھے۔ انہیں دن کے دوران اکٹھا کر لیا گیا اور بتا دیا گیا تھا کہ ان کا مشن کیا ہے۔ ان میںچند ایک گھوڑوں پر سوار تھے۔ ان کے پاس ہتھیار بھی تھے …… لوگوں میں عمر درویش پر نظر رکھنے والے اور اس کی مدد کرنے والے سوڈانی جاسوس بھی تھے۔ ان کی تعداد پانچ چھ سے زیادہ نہیں تھی ۔ علی بن سفیان نے انہیں پہچان رکھا تھا۔ وہ بھی مرنے مارنے کے لیے تیار ہو کر آئے تھے لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کے مد مقابل کتنے آدمی ہیں۔
آشی اپنے مخصوص طلسماتی لباس اورحلیے میں باہر نکلی۔ اس نے اداکاری کی ۔ دونوں مشعلوں کے درمیان چھوٹا سا قالین بچھایا ۔ عمر درویش خیمے سے نکلا اور مستانہ چال چلتا قالین پر آن کھڑا ہوا۔ دونوں بازو پھیلا کر آسمان کی طرف کیے اور منہ اوپر کرکے کچھ بڑبڑانے لگا۔ آشی نے اس کے آگے سجدہ کیا پھر اس کے سامنے دوزانو بیٹھ گئی۔
'' اے خدا کے مقدس ایلچی ! جس کا احترام ہم سب پر فرض ہے'' …… آشی نے کہا …… '' انسانوں کا یہ گروہ طور کا وہ جلوہ دیکھنے آیا ہے جو خدائے ذوالجلال نے موسیٰ علیہ السلام کو دکھایا تھا اور جنات بھی جن سے میں ہوں طور کا جلوہ دیکھنے آئے ہوئے ہیں ''۔
'' کیا ان سب کو شک ہے کہ میں خدا کا جو پیغام لایا ہوں وہ برحق نہیں ؟'' …… عمر درویش نے پوچھا۔
'' اگر گستاخی معاف ہو تو مجھے بخش دینا اے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر !'' ایک آدمی نے کہا …… '' طور کا جلوہ دکھا کر ہم گناہ گاروں کے دلوں سے سارے شکوک نکال دیں گے''۔
علی بن سفیان نے اس آدمی کو دیکھا ۔ اسے وہ پہچانتا تھا۔ وہ عمر درویش کے ساتھ کا آدمی تھا۔
'' ہاں مقدس ہستی ! ''…… علی بن سفیان نے آگے آکر کہا …… '' ہم شک میں ہیں ۔ ہمیں طور کا جلوہ دکھا اور اگر یہ لڑکی جنات میں سے ہے تو اسے کہہ کہ تھوڑی سی دیرکے لیے غائب ہو جائے ، پھر سارے شک ختم ہوجائیں گے''۔
عمر درویش نے درخت والی پہاڑی کی طرف اشارہ کرکے کہا …… '' ادھر دیکھو۔ اندھیرے میں تمہیں کچھ بھی نظر نہیں آرہا '' …… اس نے زمین سے ایک مشعل اکھاڑی اور بلند کی ۔ اس نے اونچی آواز میں کہا …… '' خدائے ذوالجلال ! تیرے سادہ اور جاہل بندے شکوک کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں ۔ انہیں وہی جلوہ دکھا جو تو نے موسیٰ علیہ السلام کو دکھایا تھا اور جس سے فرعونوں کے نشمین کو جلایا تھا ''۔
اس نے مشعل دائیں بائیں لہرائی پھر اوپر کرکے نیچے کی مگر پہاڑی پرکوئی شعلہ نمودار نہ ہوا۔ عمر درویش نے ایک بار پھر مشعل کو اوپر سے نیچے کو لہرایا مگر پہاڑی پر چھوٹا سا شرارہ بھی نہ چمکا۔ پہاڑی پر عمر درویش کا ایک آدمی مرا پڑا تھا اور دو رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ وہ علی بن سفیان کے چار آدمیوں کے قبضے میں تھے۔ انہیں وہاں سے عمر درویش کی مشعل کی حرکت نظر آرہی تھی ۔ کسی نے کہا …… '' آج کسی کو طور کا جلوہ نظر نہیں آئے گا '' …… سب نے قہقہہ لگایا۔
'' آج طور کا جلوہ نظرنہیں آئے گا '' …… علی بن سفیان نے بلند آواز سے کہا ۔ وہ عمر درویش سے مخاطب ہوا۔ 
'' عمر درویش !اگر تو آج پہاڑی سے شعلہ اُٹھا دے تو میں خدا کی بجائے تیری عبادت کروں گا ''۔
ایک آدمی نے خنجر نکالا اور علی بن سفیان کی پیٹھ کر طرف سے آگے گیا۔ وہ دوچار قدم آگے گیا ہوگا کہ پیچھے سے ایک بازو اس کی گردن کے گرد لپٹ گیا ۔ کوئی بھی نہ دیکھ سکا کہ ایک آدمی خیمے کے عقب سے خیمے کے اندر چلا گیا ہے۔ اس نے خیمے میں سے آشی کو پکارا۔ آشی اندر آگئی۔
''فوراً نکلو ''…… اس آدمی نے آشی سے کہا …… '' ہمارا راز فاش ہو چکا ہے۔ یہ آدمی جس نے کہا ہے کہ آج طور کا جلوہ نظر نہیں آئے گا یہاں کا آدمی معلوم نہیں ہوتا ۔ یہ مصر سے آیا ہے۔ ہمارا ایک ساتھی پکڑا گیا ہے۔ یہاں کے مسلمان جنگلی اور وحشی ہیں ۔ ہوسکتا ہے یہ عمر درویش کو قتل کردیں۔ ہم تو نکل جائیں گے ، تم ان کے ہاتھ آگئی
: تو تمہارے ساتھ وحشیوں جیسا سلوک کریں گے ''۔
'' میں نہیں جائوں گی ''…… آشی نے مسکرا کر کہا …… ''مجھے ان وحشیوں اور جنگلیوں سے کوئی خطرہ نہیں''۔
'' کیا تم پاگل ہو گئی ہو ؟'' 
''میں پاگل تھی ''…… آشی نے کہا …… ''اب دماغ درست ہوگیاہے۔ اب وہاں جائوں گی جہاں عمردرویش کہے گا ''۔
باہر علی بن سفیان اور امام لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ انہیں وہاں لے جائیں گے جہاں سے طور کا جلوہ نظر آنا تھا ۔ وہاں انہیں دکھایا جائے گا کہ انہوں نیایک رات پہلے جو جلوہ دیکھا تھا اس کی حقیقت کیاتھی ۔ علی بن سفیان کے چھاپہ ماروں نے لوگوں میں سے تین آدمیوں کو اس طرح پکڑ لیا تھا کہ کسی کو پتا نہ چل سکا۔ ان کے پہلوئوں کے ساتھ خنجروں کی نوکیں لگا کر انہیں الگ اندھیرے میں لے گئے اور ان پر قابو پا لیا گیاتھا ۔ عمر درویش ابھی وہیں کھڑا تھا۔
٭ ٭ ٭
خیمے کے اندر ایک سوڈانی جاسوس آشی کو بچانے کے لیے اسے ساتھ لے جانا چاہتا تھا ،مگر آشی سے انکار کر رہی تھی ۔ وہ آدمی حیران تھا کہ لڑکی انکار کیوں کر رہی ہے۔ وہ بار بار یہی کہتا تھا کہ مسلمان جنگلی اور وحشی ہیں ۔ آشی نے کہا …… '' تم بھی مسلمان ہو ، میں بھی مسلمان ہوں۔ میں اب اپنی قوم کو چھوڑ کر نہیں جائوں گی ''۔
باہر غل غپاڑہ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس آدمی نے لمبا خنجر نکال لیااور آشی کو قتل کی دھمکی دے کر ساتھ چلنے کو کہا …… آشی نے تلوارایسی جگہ رکھی ہوئی تھی ۔ جہاں سے فوراً نکالی جا سکتی تھی۔ عمر درویش نے اسے کہہ رکھا تھا کہ ہتھیار ہر لمحہ تیار رہنے چاہئیں۔ آشی نے لپک کر تلوار کھینچ لی اور کہا …… ''ہم دونوں میں سے کوئی بھی باہر نہیں جائے گا''۔
ایک مرد کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج تھا کہ اسے ایک عورت للکارے ۔ وہ جان گیا کہ یہ معاملہ گڑبڑ ہے اور اتنی قیمتی لڑکی ہاتھ سے جارہی ہے۔ اس کو قتل کردیا یا اڑا لے جانا ضروری ہوگی تھا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ آشی تیغ زنی کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے یا نہیں۔ وہ خنجر سے اس پر حملہ آور ہوا۔ آشی نے اس کے خنجر پر تلوار ماری۔ خنجر اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا لیکن خیمے سے ٹکرا کر اس کے قریب گرا۔ اس نے خنجر اُٹھا لیا۔ آشی نے اس پر تلوار کا وار کیا۔ وہ تجربہ کار تیغ زن تھا ۔ وار بچا گیا۔ آشی نے کہا …… '' میرا استاد بھی وہی ہے جس نے تمہیں تیغ زنی سکھائی ہے''۔
اس نے آشی کا ایک اور وار اس طرح روکا کہ ایک طرف ہو ا اور آشی کے سنبھلنے تک اس کے اوپر آگیا۔ اس نے آشی کی کلائی پکڑ لی اور بولا …… '' میں تمہیں قتل نہیں کروںگا آشی ! ہوش میں آئو '' …… آشی نے اس کی ناک پر ٹکر ماری ۔ وہ پیچھے ہٹا تو وار اس کے خنجر پر کرکے خنجر پھر گرا دیا ۔ وہ وار بچانے کے لیے پیچھے ہٹا تو خیمے نے اسے روک لیا۔ اب تلوار کی نوک اس کی شہہ رگ پر تھی۔ آشی نے کہا …… ''میں مسلمان باپ کی بیٹی ہوں''…… اس نے نوک اس آدمی کی شہہ رگ میں دبائی اور بولی …… ''بیٹھ جائو۔ ہاتھ پیچھے کرلو۔ میری طاقت میرا ایمان ہے ۔ میں اب کھلونہ نہیں ''۔
باہر اب یہ عالم تھا کہ ایک مشعل علی بن سفیان نے اُٹھالی تھی اور دوسری امام نے ۔ چار پانچ چھاپہ ماروں نے عمر درویش کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ اسے انہوں نے مجرموں کی حیثیت سے حراست میں نہیں لیا تھا بلکہ حفاظت کے لیے اسے اپنی پناہ میں لے لیا تھا۔ خطرہ یہ تھا کہ جو سوڈانی جاسوس اس کے ساتھ لگے ہوئے تھے ۔ وہ اسے قتل کرسکتے تھے لیکن معلوم ہوتا تھا کہ ان میں سے اب کوئی بھی آزاد نہیں تھا۔ یہ ہدایت علی بن سفیان نے دی تھی کہ جوں ہی ہنگامہ شروع ہو ، عمر درویش کو پناہ میں لے لیا جائے۔
: عمر درویش نے ایک چھاپہ مار سے کہا …… '' خیمے میں لڑکی ہے ، اسے بھی ساتھ لے چلنا ہے۔ وہ مسلمان ہے''۔
خیمے میں گئے تووہاں کچھ اور ہی منظر تھا۔ آشی نے تلوار کی نوک پر ایک آدمی کو بٹھا رکھا تھا ۔ اس آدمی کو پکڑ لیا گیا۔ عمردرویش سے علی بن سفیان نے کہا …… '' مجھے یقین ہے کہ میرے آدمی اس پہاڑی پر پہنچ گئے ہیں ، اسی لیے وہاں سے شعلہ نہیں اُٹھا ۔ بہتر یہ ہے کہ لوگوں کو ابھی وہاںلے جاکر دکھایا جائے کہ شعلہ کیسے پیدا کیا جاتا ہے تا کہ جو اس شعبدہ بازی کے جھانسے میں آگئے ہیں ، ان کے ذہن صاف ہوجائیں ''۔
''ایک مسئلہ اور ہے جس کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے '' …… عمر درویش نے کہا …… '' اسحاق کو قید خانے سے رہا کرانا ہے ۔ اس علاقے میں سوڈانیوں کے بہت سے جاسوس ہیں ۔ ان میں سے کوئی نہ کوئی یہاں کے حالات کی اچانک اور غیر متوقعہ تبدیلی دیکھ کر حکومت اور فوج کو اطلاع دے دے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اسحاق کو قید خانے کے تہہ خانے میں ڈال کر اسے اذیت رسانی سے مار دیا جائے گا۔ میں سوڈانی سالار کو یہ دھوکہ دے کر آیا تھا کہ میں یہاں کے مسلمانوں کے ذہن بدل دوں گا ۔ میں نے قید خانے میں اسحاق کے ساتھ بات کر لی تھی اور اسے بتا دیا تھا کہ میں سوڈانیوں کی بات مان لیتا ہوں اور اپنے علاقے میں جا کر چند دن ان کی مرضی کے مطابق کام کروں گا۔ میرا ارادہ تھا کہ یہاں آکر لوگوں کو درپردہ بتادوں گا کہ میرا اصل مقصد کیاہے۔ میرا ارادہ یہ بھی تھا کہ قاہرہ بھی اطلاع بھجوادوں گا اور اسحاق کو فرار کرانے کی بھی کوئی صورت پیدا کروںگا ……
'' یہاں آیا تو مجھے پتا چلا کہ بہت سے سوڈانی جاسوس جو اسی علاقے کے مسلمان ہیں ، میرے ارد گرد پھر رہے ہیں اور میں آزاد نہیں ہوں۔ اتفاق سے یہ لڑکی مسلمان نکلی ……اس نے آشی کے ماضی کے متعلق سب کو تفصیل سنائی اور کہا …… مجھے اُمید نہیں تھی کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائوں گا۔ میں بہت پریشان ہوں۔ ہمارے مسلمان بھائی اس قدر سادہ اور جذباتی ہیں کہ میری باتوں اور شعبدہ بازیوں کے قائل ہوتے گئے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کروں۔ میں ہر لمحہ سوڈانی جاسوسوںکی نظر میں رہتا تھا۔ خدا نے میری نیت کی قدر کی اور آپ کو بھیج دیا ''۔
اس نے علی بن سفیان کو بتایا کہ اس نے کیا سوچا ہے۔ علی بن سفیان نے اس کی سکیم پر غور کیا ۔ کچھ ردوبدل کی اور اسے کہا وہ دو چھاپہ ماروں اور آشی کے ساتھ اسی وقت روانہ ہوجائے اور اسحاق کو رہاکرائے ۔ علی بن سفیان نے اسے بتایا کہ وہ لوگوں کو اس پہاڑی پر لے جائے گا اور انہیں بتائے گا کہ طور کے جلوے کی حقیقت کیا تھی ۔
عمر درویش ، دو چھاپہ مار اور آشی اسی وقت گھوڑوں پر روانہ ہوگئے۔
٭ ٭ ٭
وہ خیمے کی پچھلی جانب سے چپکے سے نکل گئے تھے۔ علی بن سفیان خیمے سے باہر نکلا۔ لوگ پریشانی اور حیرت کے عالم میں باہر ٹولیوں میں کھڑے چہ مگوئیاں کر رہے تھے۔ علی بن سفیان نے بلند آواز سے کہا …… '' اگر تم طور کے جلوے کی حقیقت دیکھنا چاہتے ہو تو ہمارے ساتھ آئو۔ تم سب جانتے ہو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیغمبری اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ اس کے بعد خدا نے کسی کو کبھی جلوہ یا معجزہ دکھایا ہے نہ دکھائے گا۔ اس آدمی کو تمہارے عقیدے خراب کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ تم نے غور نہیں کیا کہ یہ شخص تمہیں صرف یہ بات کہتا رہاہے کہ سوڈان کی فوج کو تم نے اس علاقے سے ہمیشہ دور رکھا ہے ۔ اب سوڈانیوں نے تمہارے دلوں پر قبضہ کرنے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا ہے
'' غیور مسلمانو ! دشمن جب اس قسم کے اوچھے حربوں پر اتر آتا ہے تو یہ اس حقیقت کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ میدان میں تمہارے مقابلے میں آنے سے ڈرتاہے۔ تم حق پر ہو۔ یہ خطہ تمہارا ہے۔ یہاں اسلام کی حکومت ہوگی۔ کفار تمہارے دلوں سے قوم اور مذہب کا احساس ختم کرنے کے جتن کر رہے ہیں۔ آج تمہیں طور کے جلوے دکھائے جا رہے ہیں ۔ کل تمہیں صلیبی لڑکیوں کے جلوے دکھا کر تم میں بے حیائی پیدا کی جائے گی۔ تمہیں انسان سے حیوان بنا یا جائے گا ، پھر تم محسوس بھی نہیں کرو گے کہ تم عزت، غیرت اور وقار سے محروم ہوگئے ہو۔ تم کفار کے غلام ہوگے۔ سوڈان کا بادشاہ مسلمان نہیں ہے۔ وہ کافر ہے۔ اسلام کا دشمن اور صلیبیوں کادوست ہے۔ کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری بیٹیاں کفار کے بیٹیوں کی طرح مردوں کے ساتھ شراب پیئیں اور بدکاری کریں؟ کیا تم پسند کرو گے کہ مسجدیں ویران ہوجائیں اور قرآن کے ورق زمین پر روندے جائیں ؟''
''رب کعبہ کی قسم !ہم ایسا نہیں چاہتے ''…… ایک آواز آئی …… '' اسے ہمارے سامنے لائو۔ جو اپنے آپ کو خدا کا ایلچی کہتاہے''۔
'' وہ بے قصور ہے '' …… علی بن سفیا ن نے کہا …… '' وہ تم میں سے ہی ہے۔ وہ اب اصلی روپ میں تمہارے سامنے آئے گا اور تمہیں بتائے گا کہ کفار کس طرح تمہاری جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ ابھی تم میری باتیں سنو ۔ تم مسلمان ہو۔ خدا نے تمہیں برتری اور فوقیت عطا فرمائی ہے۔ کفار تمہیں خدا کی عطا کی ہوئی عظمت سے بیگانہ کر چاہتے ہیں ''۔
''تم کون ہو؟'' …… کسی نے بلند آواز سے کہا …… '' تمہاری باتوں میں دانائی ہے۔ کیا تم ہمیں دکھا سکتے ہو کہ یہ سب کیا تھا جو ہمیں دکھایا گیا ہے؟''
'' میں تمہیں دکھاتا ہوں'' …… علی بن سفیان نے کہا …… '' خیمے میں سے ایک برتن اُٹھایا جس میں تیل کی قسم کا آتش گیر سیال تھا۔ اس نے یہ تیل ایک کپڑے پر ڈال کر زمین پر رکھ دیا۔ اس پر پانی ڈالا۔ مشعل اُٹھا کر اس کا شعلہ کپڑے کے قریب کیا تو کپڑا بھڑک کر شعلہ بن گیا۔ اس نے سب کو بتایا کہ جس کپڑے پر پانی ڈال کر عمر درویش آگ لگاتا تھا وہ بھی اسی تیل سے بھیگاہو تا تھا ۔
''اب میں تمہیں وہ آدمی دکھاتا ہوں جو اس کے ساتھی تھے''…… علی بن سفیان نے کہا ۔ اس نے کسی کو آواز دے کر کہا …… ''انہیں سامنے لے آئو''۔
لوگوں کے ہجوم سے کچھ دور اندھیرے میں وہ آدمی پکڑے کھڑے تھے جو عمر درویش کے سوانگ میں شامل تھے۔ انہیں چھاپہ ماروں نے نرغے میں لے رکھا تھا۔ اچانک شور اُٹھا۔ گھوڑا دوڑنے کی آوازیں سنائی دیں۔ کسی نے بلند آواز سے کہا …… ''ایک بھاگ گیا'' …… ایک جاسوس نکل گیا۔ دوسروں کو سامنے لایا گیا۔ مشعل اوپر کرکے ان کے چہرے سب کو دکھائے گئے۔
'' یہ مسلمان ہیں '' …… کئی آوازیں اُٹھیں …… ''انہیں سنگسار کردو''…… لوگ ان کی طرف بڑھے۔ مشعلوں کی روشنی میں تلواریں چمکیں …… ''رُک جائو'' …… علی بن سفیان نے درمیان میں آکر کہا …… '' خدا کا قانون اپنے ہاتھ میں نہ لو ۔ ان کی سزا تمہارے بزرگ مقرر کریں گے۔ انہیں حراست میں لے لواور میرے ساتھ آئو ''۔
سارے لوگ علی بن سفیان کے پیچھے چل پڑے۔ وہ انہیں اس پہاڑی کی طرف لے جا رہا تھا جہاں اس کے چھاپہ ماروں نے ایک آدمی کو ہلاک کر دیا تھا اور دو کرسیوں سے باندھ رکھا تھا۔
٭ ٭ ٭
اس وقت عمر درویش ، آشی اور دو چھاپہ مار دور نکل گئے تھے۔ وہ سوڈان کے دارالحکومت کی طرف جارہے تھے۔ 
''دوستو !'' …… عمر درویش نے دوڑتے گھوڑے سے کہا …… '' ہمیں بہت جلدی پہنچنا ہے …… آشی ! اگر تم سواری سے تھک جائو تو میرے پیچھے بیٹھ جانا۔ سفر بڑا ہی لمبا اور وقت بہت ہی تھوڑا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کوئی جاسوس ہم سے پہلے نہ پہنچ جائے ''۔
جاسوس بھی دارالحکومت کو روانہ ہوگیا تھا ۔ یہ وہی تھا جو علی بن سفیان کے آدمیوں کی حراست سے بھاگا تھا۔ وہ ایک وادی میں چلا گیا تھا کیونکہ اسے تعاقب کا ڈر تھا۔ وہ وادی سے نکلا اور اس نے دارالحکومت کا رخ کرتے بہت دور کا چکر کاٹا۔ اتنے وقت میں عمر درویش بہت دور نکل گیا تھا۔ جاسوس کو یہ خبر دینی تھی کہ عمر درویش کا راز بے نقاب ہوگیا ہے۔ اسے عمر درویش پر شک کا اظہار بھی کرنا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عمر درویش کو ایک بار پھر قید خانے میں بند ہونا تھا۔ عمردرویش اس سے پہلے پہنچ کر سوڈانی سالار کو دھوکہ دینا اور اسحاق کو رہا کرانا چاہتا تھا۔ آشی کو اس سکیم کا علم تھا اور وہ گواہ کی حیثیت سے ساتھ جارہی تھی ۔
: لوگ مشعلوں کی روشنی میں پہاڑی پڑ چڑھتے جارہے تھے۔ علی بن سفیان آگے آگے تھا۔ پہاڑی کی چوٹی پر اس کے آدمیوں نے دو جاسوسوں کو باندھ رکھا تھا۔ انہیں مشعلیں اوپر آتی نظر آرہی تھیں۔ ایک آدمی نے دیا اوپر کردیا تھا کہ آنے والوں کو معلوم ہوجائے کہ انہیں کہاں آنا ہے۔
''ہمارے ساتھ چلو'' …… رسیوں سے بندھے ہوئے ایک آدمی نے کہا …… '' جو مانگو گے ملے گا ہمیں چھوڑ دو ''۔
''کیا تم ہر مسلمان کو ایمان فروش سمجھتے ہو؟'' …… اسے جواب ملا …… ''دنیا کی دولت اور دوزخ کی آگ میں کوئی فرق نہیں۔ تم اپنی قوم کو دھوکہ دے رہے ہو''۔
''وہ آرہے ہیں'' …… دوسرے قیدی نے کہا …… '' وہ ہمیں سنگسار کردیں گے۔ یہ بڑی اذیت ناک موت ہوگی …… کہو کیا لیتے ہو۔ ہم دوسری طرف سے بھاگ چلتے ہیں۔ سونا دیں گے ''۔
جوں جوں مشعلیں اوپر آرہی تھیں، دونوں قیدیوں کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی ۔ ایک نے کہا …… '' تمہارے پاس تلواریں ہیں ۔ ان سے ہماری گردنیں کاٹ دو۔ ہمیں ان لوگوں سے بچائو ''۔
''اللہ سے گناہوں کی بخشش مانگو''۔
مشعلیں ان کے سر پر آن رکیں۔ علی بن سفیان نے لوگوں کو دور دور کھڑا کر دیا۔ لوگ دو آدمیوں کو رسیوں میں بندھا دیکھ کر حیران ہونے لگے۔ 
''یہ ہیں طور کا جلوہ دکھانے والے''…… علی بن سفیان نے لوگوں سے کہا اور زمین پر دیکھا۔ وہاں آتش گیر سیال گرا ہوا تھا۔ ذرا پرے برتن پڑا تھا۔ اس نے کہا …… '' اس برتن میں وہی تیل تھا جو میں نے کپڑے پر ڈال کر دکھایا تھا۔ یہ تیل یہاں گرایا گیا ہے۔ میں نے چار آدمی شام کے وقت یہاں چھپا دئیے تھے۔ عمردرویش کی مشعل کے اشارے پر ان دونوں نے اس دئیے سے اس تیل کو آگ لگانی تھی اور یہ طور کاجلوہ تھاجو تم لوگ نہ دیکھ سکے کیوں کہ میرے آدمیوں نے انہیں لگانے سے پہلے ہی پکڑ لیا تھا''۔
'' یہ تین تھے '' …… ایک آدمی نے کہا ۔ '' تیسرے نے ہمارا مقابلہ کیا ۔ اس کی لاش درخت کے ساتھ پڑی ہے ''۔ 
علی بن سفیان نے مشعل کا تیل پررکھا تو تیل جل اُٹھا۔ شعلہ اوپر تک آیا اور آہستہ آہستہ بجھنے لگا۔ علی بن سفیان نے کہا …… '' کیا اس کے بعد کسی شک کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ خدا سے تمہارا رشتہ توڑ کر تمہیں آتش پرست بنایا جارہا تھا '' …… اس نے ان دو آدمیوں سے جو رسیوں سے بندھے ہوئے تھے پوچھا …… '' کیا میں جھوٹ کہہ رہا ہوں؟''
'' مجھے بخش دو '' …… ایک نے خوفزدہ آواز میں کہا …… ''تم نے جو کہا سچ کہا ہے''۔
''کیا تم اسی علاقے کے مسلمان نہیں ہو؟''
''ہاں!'' …… دونوں نے سر ہلائے۔
'' کیا تمہیں صلیبیوں اور سوڈانی کفار نے اس کام کی تربیت نہیں دی !''
''انہوں نے ہی دی ہے ''۔
'' اور تم اپنی قوم کو دھوکہ دینے اور اپنے مذہب کو تباہ کرنے کا انعام نہیں لیتے؟''
''ہاں!'' …… ایک نے جوا ب دیا …… ''ہم اس کا انعام لیتے ہیں''۔
''ہمیں بخش دو '' …… دوسرے نے کہا …… ''ہم اپنی قوم کے لیے جانیں قربان کردیں گے''۔
پیچھے سے ایک جوشیلے مسلمان نے اتنی تیزی سے تلوار کے دو وار کیے کہ دونوں کے سر جسموں سے جدا ہو کر گر پڑے۔
'' اگر میں قاتل ہوں تو مجھے قتل کر دیا جائے'' …… تلوار چلانے والے نے تلوار لوگوں کے آگے پھینک کر کہا ۔
'' خدا کی قسم، یہ شخص قاتل نہیں ہے '' …… امام نے کہا ۔
''یہ قتل جائز تھا ''……ایک شور اُٹھا۔عمردرویش نے سحر کے آغاز میں گھوڑے روکے۔ چھاپہ ماروں اور آشی سے کہا کہ ذرا آرام کرلیں۔ گھوڑوں کو بھی آرام دینا ضروری تھا۔ دارالحکومت کی طرف جانے والا جاسوس آدمی رات تک چلا اور ایک جگہ آرام کرنے کے لیے رُک گیا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ عمر درویش آگے آگے جا رہا ہے۔ وہ لیٹا اور سو گیا۔ صبح طلوع ہوتے ہی عمر درویش نے اپنے قافلے کو گھوڑوں پر سوار یا اور روانہ ہوگیا ۔ وہ فوجی تھا۔ چھاپہ مار بھی سختیاں برداشت کرنے کے عادی تھے۔ آشی لڑکی تھی جو محلات میں رہنے کی عادی تھی۔ اسے ٹریننگ تو ملی تھی لیکن اس کی زندگی عیش وعشرت میں گزر رہی تھی۔
'' آشی !'' …… عمر درویش نے اسے دوڑتے گھوڑے سے کہا …… '' تمہارا چہرہ اُتر گیا ہے۔ تم شب بیداری کی بھی عادی نہیں ۔ میرے گھوڑے پر آجائو ''۔
آشی مسکرائی اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں ۔ عمر درویش نے اسے ایک بار پھر کہاکہ وہ اپنا گھوڑا چھوڑ دے ۔ آشی نے انکار میں سر ہلا دیا۔ گھوڑے دوڑے جا رہے تھے ۔ کچھ دور آگے جا کر ایک چھاپہ مار نے عمر درویش سے کہا …… '' لڑکی اونگھ رہی ہے گر پڑے گی''۔
عمر درویش نے اپنا گھوڑا آشی کے قریب کیا اور باگیں کھینچ لیں۔ آشی بیدار ہوگئی ۔ عمر درویش نے اسے کہ وہ اس کے آگے سوار ہوجائے۔
''میں سہارا نہیں لینا چاہتی''…… آشی نے کہا …… سہارا دوں گی۔ مجھے اپنا عہد پورا کرنا ہے۔ مجھے اپنے ماں باپ کے قتل کا اور اپنی عصمت کا انتقام لینا ہے۔ میں جاگنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
: گھوڑے چلے۔بہت آگے جا کر آشی نیند پر قابو نہ پا سکی ۔عمر درویش اس کے قریب تھا ۔ اگر وہ دیکھ نہ لیتا تو آشی گر پڑتی۔ اس نے گھوڑے روک کر آشی سے کوئی بات کئے بغیر اسے کمر سے پکڑا اور اپنے گھوڑے پر اپنے آگے بٹھا لیا۔ ایک چھاپہ مار نے آشی کے گھوڑے کی باگیں اپنی زین کے ساتھ باندھ لیں اور گھوڑے دوڑ پڑے۔ آشی نے سر عمردرویش کے سینے پر پھینک دیا اور گہری نیند سو گئی۔ اس کے کھلے بال عمر درویش کے چہرے پر پڑنے لگے۔ ایسے ملائم اور ریشمی بالوں سے لمس سے وہ آشنانہیں تھا مگر ان بالوں نے اس پر وہ اثر نہ کیا جو ایک جوان مرد پر ہونا چاہئے تھا۔ اسے آشی کی باتیں یاد آنے لگیں :
''تمہاری آغوش میں مجھے اپنے ماں باپ کی آغوش کا سرور آیا تھا '' …… آشی نے اسے صحرا میںچند راتیں پہلے کہاتھا …… ''مجھے تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ میرے ماں بھی باپ تھے۔ تم نے میرا ماضی میرے آگے رکھ دیا ہے ''…… پھر عمردرویش کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے ہوا کے زناٹوں سے اسے آشی کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہوں …… '' مجھے اپنے سینے اور اپنے بازوئوں کی پناہ میں لیے رکھو۔ میں مسلمان کی بچی ہوں۔ مجھے صلیبیوں کے حوالے نہ کردینا …… خون …… خون …… مجھے خون نظر آرہا ہے۔ یہ میرے باپ کا خون ہے۔ یہ میری ماں کا خون ہے۔ دونوں خون مل کر بیت المقدس کی ریت میں جذب ہوگئے ہیں …… عمر درویش …… تمہاری رگوں میں ہاشم درویش کا خون دوڑ رہا ہے۔ تمہیں اس کا لہو کا خراج وصول کرناہے جو بیت المقدس کی ریت میں جذب ہو گیا تھا۔ تمہیں فلسطین کی آبرو پکار رہی ہے۔ قبلہ اول کو دل سے اتار نہ دینا ہاشم کے بیٹے !''
چھاپہ ماروں نے دیکھا کہ عمر درویش نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی تھی ۔ چھاپہ ماروں کو بھی اپنے گھوڑوں کی فتارتیز کرنی پڑی۔ آشی کے بال اور زیادہ بکھر کر ہواکے زناٹوں سے اس کے چہرے پر اڑنے لگے۔ 
''عمردرویش!'' …… ایک چھاپہ مار نے گھوڑا اس کے قریب کرکے کہا …… '' گھوڑے کسی چوکی سے بدلنے کی تو اُمید نہیں ، گھوڑے کو اس طرح نہ مارو۔ ذرا آہستہ …… ذرا آہستہ ''۔
عمردرویش نے چھاپہ مار کی طرف دیکھااور مسکرادیا ۔ اس نے گھوڑے کی رفتارذرا کم کردی اور بولا …… '' خدائے ذوالجلال ہمارے ساتھ ہے۔ گھوڑے تھکیں گے نہیں ''۔
اس کی آواز سے آشی کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے گھبرا کر پوچھا …… '' میں کتنی دیر سوئی رہی ؟ میرا گھوڑا کہا ں ہے؟'' 
'' تم تو سو گئی تھی ''۔ عمردرویش نے کہا …… '' لیکن میرے ایمان کی جو رگ سوئی ہوئی تھی وہ جاگ اُٹھی ہے…… اُٹھو۔ اپنے گھوڑے پر سوار ہو جائو۔ ہم شام تک منزل پر پہنچ جائیں گے''۔
٭ ٭ ٭
علی بن سفیان اسی گائوں میں چلا گیا تھا جسے مسلمانوں نے اپنی زمین دوز سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا تھا۔ اس نے اپنے چھاپہ ماروں اور جاسوسوں کے سپرد یہ کام کیا کہ تمام علاقے میں پھیل کر عمردرویش کی شعبدہ بازیوں کی حقیقت بتادیں۔ اس نے وہاں کے لیڈروں کو بتایا کہ وہ لوگوں کو تیار کرلیں۔ یہ علاقہ بہرحال سوڈان کا تھا۔ جہاں مسلمانوں کو من مانی کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ سوڈانی فوج حملہ کرنے کا حق رکھتی تھی۔ مسلمانوں نے اپنے علاقے میں اپنا قانون رائج کر رکھا تھا۔ انہوں نے جن جاسوسوں کو گرفتار کیا تھا انہیں اپنے بنائے ہوئے قید خانے میں ڈال دیا تھا۔ انہیں سزا دینی تھی جو سوڈانی قانون کے مطابق جرم تھا۔ ان مجرموں نے جو کچھ بھی کیا سوڈانی حکومت کی بہتری کے لیے کیا تھا۔ علی بن سفیان نے خطرہ مول لیا تھا ۔ اس نے چھاپہ ماروں کی دو پارٹیاں تیار کرلیں۔
قید خانے میں اسحاق کو ایک اچھے کمرے میں رکھا گیا تھا۔ اسے نہایت اچھا کھانہ باعزت طریقے سے دیا جاتا تھا۔ وہ اچھی طرح سمجھتا تھا کہ اس کے ساتھ اچھاسلوک کیوں ہو رہاہے۔ عمردرویش اسے اپنی پوری سکیم بتا کر گیا تھا ۔ اسحاق تنہائی میں بیٹھا اسی کے متعلق سوچ رہتا تھا۔ اسے دو خطرے نظر آرہے تھے۔ ایک یہ کہ عمردرویش نے قید خانے کی اذیتوں سے تنگ آکر سوڈانیوں کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع کردیا ہوگا۔ دوسرا خطرہ یہ کہ عمردرویش کہیں اپنے ہی منصوبے کی نظر ہوگیا ہو۔ اسحاق اپنے فرارکے متعلق بھی سوچتا رہتا تھا لیکن اسے کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ سوڈانیوں کے لیے وہ قیمتی قیدی تھا جس پر انہوں نے اضافی پہرے لگا رکھے تھے ۔ جب سے عمر درویش اس سے الگ ہوا تھا اسے کسی نے نہیں کہاتھا کہ وہ اپنی قوم کو سوڈان کا وفادار بنائے …… سوڈانی سالار جو اس کے پیچھے پڑا رہتا تھا اس کے سامنے بھی نہیں آیا تھا۔
سورج غروب ہو چکا تھا۔ چار گھوڑے سوڈان کے دارالحکومت میں داخل ہوئے اور سیدھے فوج کے مرکز کے سامنے جا رکے۔ عمردرویش کو معلوم تھا کہ اسے کہاں جانا اور کسے ملناہے۔ اسے ذہنی تخریب کاری کی تربیت یہیں سے ملی تھی ۔ اس نے محافظ دستے کے کمانڈر کو اس سوڈانی سالار کا نام بتایا جس نے اسے اس کام کے لیے تیا ر کیا تھا۔ اسے فوراً سالار کے گھر پہنچا دیا گیا۔
'' ناکام لوٹے ہو یا کوئی ا
 اچھی خبر لائے ہو؟'' سوڈانی سالار نے دیکھتے ہی کہا ۔
'' اچھی خبر سنیں '' …… عمردرویش نے آشی کی طرف اشارہ کرکے کہا …… '' آپ مجھ پر اعتبار نہ کریں ''۔
آشی تھکن سے چور پلنگ پرگر پڑی۔ وہ مسکرارہی تھی ۔ اس نے عمر درویش سے کہا …… '' انہیں ساری بات خود ہی بتائو اور ذرا جلدی کرو۔ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ''۔
'' ہماری مہم اتنی جلدی کامیاب ہوئی جس کی مجھے بالکل امید نہیں تھی ''۔عمر درویش نے کہا اور پوری تفصیل سے سنایا کہ اس نے کس طرح پانی کو آگ لگائی اور طور کے جلوے دکھائے ہیں۔
'' اور اس کے بولنے کا جو انداز تھا اس نے تو مجھے حیران ہی کر دیا تھا ''۔ آشی نے عمر درویش کے متعلق کہا۔ '' لوگ اس کے شعبدوں سے اتنے متاثر نہیں ہوئے جتنے اس کی زبان سے ۔
'' کیا آپ کو ابھی تک کوئی بتانے نہیں آیا کہ وہاں ہم نے کس حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے ؟'' …… عمردرویش نے پوچھا۔
''کوئی بھی نہیں آیا '' …… سوڈانی سالار نے کہا …… '' میں تم دونوں کے متعلق پریشان تھا''۔
عمردرویش کو یہ سن کر اطمینان ہوا کہ ابھی تک کوئی جاسوس نہیں پہنچا۔ جاسوس جو مسلمانوں کی حراست سے فرار ہو کر آرہا تھا وہ بھی دور تھا۔ اس کی رفتار وہ نہیں تھی جو عمر درویش کی تھی ۔ اس رفتار سے اے صبح کے وقت پہنچناتھا۔ عمردرویش کا دھوکہ اسی جاسوس کی غیر حاضری میں ہی چل سکتا تھا۔ اس کے پہنتے ہی اصل صورت حال کو بے نقاب ہوتے ہی عمر درویش کو قید خانے میں بند ہونا تھا۔
'' اب مجھے اسحاق کی ضرورت ہے ''۔ عمردرویش نے کہا …… '' میں آدھے سے زیادہ مسلمانوں کے ذہن صاف کر چکاہوں ۔ میں نے انہیں اس پر آمادہ کر لیا ہے کہ وہ سوڈان کے وفادار ہوجائیں۔ میں نے صلاح الدین ایوبی کے خلاف نفرت اور دشمنی پیداکر دی ہے۔ میںنے ثابت کر دیا ہے کہ صلا ح الدین ایوبی فرعونوں کا جانشیں ہے۔ اب مسلمانوں کو اپنی کوئی قائد کہہ دے کہ ہمیں سوڈان کا وفادار ہونا چاہیے۔ اس علاقے کی تمام تر آبادی آپ کی ہوگی۔ میں نے وہاں معلوم کر لیا ہے اور میںخود بھی جانتا ہوں کہ یہ قائد اسحاق کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ اسے وہاں کے مسلمان پیر اور پیغمبر مانتے ہیں ''۔ 
''مگر اسحاق سے منوائے کون؟'' …… سوڈانی سالار نے کہا …… ''میں اسے اس خطے کی امارت کی لالچ دے چکاہوں۔ اسے ایسی ایسی اذیتیں دی ہیں جو گھوڑا بھی برداشت نہیں کر سکتا ۔آشی بھی ناکام ہوچکی ہے ''۔
'' اب مجھے کوشش کرنے دیں '' ۔ عمردرویش نے کہا …… '' اسے قید خانے سے نکال کر اسی کمرے میں بھیج دیں جہاں آپ نے اسے ایک بار رکھاتھا اور مجھے بھی رکھا تھا۔ آپ اس کے دشمن ہیں ۔ میں اس کا ساتھی ہوں ''۔
'' کیا وہاں آشی کو ایک بار پھر آزمائو گے ؟'' سوڈانی سالار نے پوچھا۔
''نہیں ''۔ عمردرویش نے جواب دیا …… '' میںاپنی زبان کا جادو آزمائوں گا۔ اسے اگر ابھی اس کمرے میں لے جائیں تو مجھے امید ہے کہ صبح تک میںاسے اپنے جال میں پھانس لوںگا۔ میرے پاس وقت زیادہ نہیں۔اس علاقے سے میری غیر حاضری لمبی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہاں مصری جاسوس بھی ہیں۔ میں نے وہاں جو جادو چلایا ہے اسے مصری جاسوس میری غیر حاضری میں بیکار کر سکتے ہیں ''۔
سوڈانی سالار نے ان دو چھاپہ ماروں کے متعلق پوچھا جو عمردرویش کے ساتھ تھے۔ اس نے بتایا کہ یہ اس کے محافظ اور مرید ہیں اور یہ اس کے ساتھ رضاکارانہ طور پر آئے ہیں ۔
٭ ٭ ٭
وہ ایک عمارت کا خوشنما کمرہ تھا جس میں اسحاق کو لایا گیا۔ سالار خود اسحاق کو قید خانے میں سے لانے کے لیے گیا تھا۔ اس نے اسحاق سے کہا …… '' میں تمہارے قومی جذبے اور ایمان کا قائل ہوگیا ہوں۔ تمہارا ایک دوست عمردرویش تم سے ملنے کا خواہشمند ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہاری ملاقات اچھے ماحول میں ہو''۔
'' مجھے قید خانے سے زیادہ غلیظ اور جہنمی ماحول اور تمہارے محلات سے زیادہ دلفریب ماحول اپنی راہ سے ہٹا نہیں سکتے '' …… اسحاق نے کہا …… '' مجھے تہہ خانے میں لے چلو یا بالا خانے میں ، میں اپنا ایمان نہیں بیچوں گا''۔
سوڈانی سالار ہنس پڑا اور اسے اس کمرے میں لے گیا جہاں عمردرویش اس کے انتظار میں موجود تھا۔ سوڈانی سالار بھی کمرے میں رہا۔
: '' تمہارا چہرہ بتارہا ہے کہ تم نے ان کافروں کے ہاتھ اپنا ایمان بیچ ڈالا ہے''۔ اسحاق نے عمردرویش سے کہا …… '' تمہارے چہرے کی رونق اور آنکھوں کی چمک بتا رہی ہے کہ تم بہت دنوں سے قید خانے سے باہر گھوم رہے ہو۔ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہو؟''
'' میں تمہارے چہرے پر بھی یہی رونق اور آنکھوں میں یہی چمک دیکھنا چاہتا ہوں جو تم میرے چہرے پر اور آنکھوں میں دیکھ رہے ہو ''۔ عمر درویش نے کہا …… '' ذرا مجھے مہلت دو۔ ذرا سی دیر کے لیے اپنا دل اور اپنا ذہن مجھے دے دو ۔ تحمل اور اطمینان سے میری بات سنو''۔
سوڈانی سالار پاس کھڑا تھا۔ وہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا ۔ اسحاق اس کا نہایت اہم قیدی تھا اور عمردرویش بھی قیدی ہی تھا ۔ یہ عمردرویش کا دھوکہ بھی ہو سکتا تھا ۔ وہ ان دونوں کو ایک ایسے کمرے میں آزاد نہیں چھوڑ سکتا تھا جو قید خانے کا کمرہ نہیں تھا ۔ اس نے چار سنتریوں کا انتظام کردیا تھا ۔ دو کمرے کے سامنے کھڑے تھے اور دو پچھلے دروازے کے سامنے ۔ برچھیوں اور تلواروں کے علاوہ انہیں تیر و کمان بھی دئیے گئے تھے۔ تا کہ فرار کی کوشش کامیابی نہ سکے۔ عمردرویش چاہتا تھا کہ سالار وہاں سے چلا جائے مگر سالار وہاں سے ہٹتا نظر نہیں آرہا تھا ۔ اس کی موجودگی میںعمردرویش اسحاق کو بتا نہیں سکتا تھا کہ اس کا منصوبہ کیا ہے۔
آشی کو سوڈانی سالار نے نہانے دھونے اور آرام کے لیے اسی عمارات کے ایک کمرے میں بھیج دیا تھا ۔ وہ سوڈانی سالار کو اس کمرے سے لے جا سکتی تھی مگر اس کے ادھر آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ سوڈانی سالار الگ ہوکر بیٹھ گیا۔ وہ جاسوس جو صحیح صورت حال بتانے آرہا تھا شہر سے تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ عمردرویش کے دونوں چھاپہ مار اسی عمارت کے ایک برآمدے میں عمردرویش کے اشارے کاانتظار کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد آشی باہر آئی۔ وہ نہا دھو کر کپڑے بدل کر آئی تھی۔ اس کا حسن نکھر آیا تھا۔ چہرے سے سفر کی تھکن بھی دھل گئی تھی ۔ وہ چھاپہ ماروںکے پاس جا رکی ۔
'' سالار چلا گیا ؟'' آشی نے ان سے پوچھا۔
'' نہیں ''۔ ایک چھاپہ مار نے جواب دیا ۔ ''وہ اندرہے''۔
''اسے چلے جانا چاہیے''۔ آشی نے کہا اور وہ اس کمرے کی طرف چل پڑی۔
عمردرویش نے اسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو اسے امید کی کرن نظر آئی۔ سوڈانی سالار نے اسے دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر وہی مسکراہٹ آ گئی جو اس جیسے مردوں کے ہونٹوں پر آشی جیسی دلکش لڑکی کو دیکھ کر آیا کرتی ہے۔ آشی ٹہلتے ٹہلتے سالار کے پیچھے چلی گئی۔ اس نے عمردرویش کو گہری نظروں سے دیکھا۔ عمردرویش کو موقع مل گیا۔ اس نے آشی کو اشارہ کیا کہ سالار کو یہاں سے غائب کرو۔
''اسحاق بھائی !'' عمردرویش نے پوچھا …… ''کیا ہم سوڈان کے بیٹے نہیں ہیں !'' 
'' میں سب سے پہلے اسلام کا بیٹا ہوں ''۔ اسحاق نے جواب دیا ۔ '' اور میںاب بھی مصری فوج کا کماندار اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا وفادارہوں۔ اگر سوڈان کی زمین میری ماں ہے تو میں اپنی ماں کو اسلام کے دشمنوں کے حوالے نہیں کر سکتا۔ عمردرویش ! میں تمہاری طرح اسلام کی عظمت اور اپنی غیرت کو فروخت نہیں کر سکتا ''۔
آشی نے پیچھے سے سوڈانی سالارکے کندھوں پر دونوںبازو رکھے اور منہ اس کے کان سے لگا کر کہا …… '' چند دنوں میں آپ کا دل مرگیاہے ؟''
سوڈانی سالار نے گھوم کر دیکھا تو آشی کے گال اور بکھرے ہوئے بال سالار کے گالوں سے ٹکڑا گئے۔ آشی مسکرا رہی تھی ۔ اس نے مخمور اور تشنہ لہجے میں کہا …… '' میں اتنی خطرناک اور تھکا دینے والی مہم سے واپس آئی ہوں۔ کل پھرانہی جنگلیوں کے پاس چلی جائوں گی جس نے پا س پینے کو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ میں تو شراب کی بو کو بھی ترس گئی ہوں ''۔ 
''اوہ!'' سوڈانی سالار نے چونک کر کہا …… '' میں تو اس قصے میں تمہیں بھول ہی گیاتھا۔ میں کسی سے کہہ دیتا ہوں ۔ تم اسی کمرے میں چلو ''۔
''اونہہ!'' آشی نے کہا …… '' اکیلے کیا خاک مزہ آئے گا ؟ آپ بھی چلیے ۔ یہاں کوئی خطرہ نہیں ۔ دونوں طرف سنتری کھڑے ہیں ۔ کچھ دیر بعد یہیں آجانا''۔

جاری ھے ، ( 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں