داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 86 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 86


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔86 طور کا جلوہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جو کندھوں سے پائوں تک تھا ۔ اس پر ابرق کے ذرے چپکے ہوئے تھے جو مشعلوں کی روشنی میں ستاروں کی طرح ٹمٹماتے اور چمکتے تھے۔ آشی کے سر پر ریشم کا باریک رومال تھا۔ اس کے بال اسی ریشم جیسے تھے جو شانوں پر اس انداز سے پڑے ہوئے تھے کو عریاں شانوں کی سپیدی ان میں ستاروں کی طرح نظر آتی تھی ۔ وہ خوبصورت تو تھی ہی اس کا بنائو سنگھار اور سج دھج ایسی تھی جس میں طلسماتی سا تاثر تھا اور جو حیوانی جذبے کو اکساتی تھی ۔
پہاڑیوں اور جنگلوں میں رہنے والے ان لوگوں کے لیے یہ لڑکی ، اس کی چال اور اس کا لباس عجوبے سے کم نہ تھا ۔ ان کی نظریں گرفتار ہوگئیں اور ان پر سحر طاری ہوگیا۔ آشی کے ایک ہاتھ میں گز ڈیڑھ لمبے اور اس سے آدھے چوڑے قالین کا ایک ٹکڑا تھا جو اس نے دونوں مشعلوں کے درمیان بچھادیا۔ اس نے دونوں بازو پھیلائے اور آسمان کی طرف دیکھا۔ خیمے کا پردہ ہٹا اور عمر درویش مستانہ چال چلتا قالین پر کھڑا ہوگیا۔ اس نے بھی آشی کی طرح بازو دائیں بائیں پھیلائے ، آسمان کی طرف دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا۔ 
'' اے خدا کی برگزیدہ ہستی جس کا احترام ہم سب پر فرض ہے ، ہم تیرے حضور حاضر ہوئے ہیں''۔ یہ ان تین آدمیوں سے ایک تھا جن کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ اس نے کہا …… ''تیری دن کی باتیں ہمارے دلوں میںاتر گئی ہیں مگر ایک شک ہے۔ ہمیں طور کا جلوہ دکھا جس کا تونے وعدہ کیا تھا ''۔
'' مصر فرعونوں کاملک ہے''۔ عمر دوریش نے بلند آواز سے کہا …… '' فرعون مر گئے مگر خدا نے مصر کی بادشاہی جس کو بھی دی وہ فرعون بنا۔ یہ مصر کی زمین کی ، مصر کے پانی کی اور مصر کی ہوا کی تاثیر ہے ۔ جو کلمئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے وہ بھی فرعون بنے۔ حضرت موسیٰ علیہ واسلام نے فرعونوں کی 'خدائی' کا للکارا اور نیل کے پانی کو کاٹ کر دکھادیا۔ اب مصر ایک بار پھر فرعونوں کے قبضے میں آگیا ہے۔وہاں شراب کی نہریں بہتی ہیں اور پردہ نشین کنواریوں کی عصمتوں سے کھیلا جاتا ہے۔ خدائے ذوالجلال نے ہمارے اس خطے کو یہ سعادت بخشی ہے کہ مصر کو فرعونوں سے آزاد کرائو۔ خداوند عالم نے تمہیں کوہِ طور کا جلوہ بخشا ہے۔
عمر درویش نے بازو پھیلائے اور آسمان کی طرف دیکھکر جوشیلی آوازمیں کہا …… ''اپنے بھٹکے ہوئے بندوں کو اپنا وہی نور دکھا جو تو نے موسیٰ علیہ السلام کو دکھایا تھا''۔
اس نے لپک کر ایک مشعل زمین سے اکھاڑی ۔ رات تاریک ہو چکی تھی ۔ پہاڑ چٹانیں اور درخت اندھیرے کی سیاہی میں روپوش ہوگئے۔ روشنی صرف ان دو مشعلوں کے شعلوں کی تھی جس میں عمر درویش اور آشی نظر آرہے تھے۔ عمر درویش نے مشعل اوپر کی اور ایک سمت اشارہ کرکے کہا …… '' ادھردیکھو۔ ادھر ایک پہاڑی ہے۔ تم اس پہاڑی کو نہیں دیکھ سکتے۔ اس کا جلوہ دیکھو ''۔
اس نے مشعل اور زیادہ اوپر کرکے دائیں بائیں لہرائی۔ اس کے ساتھ ہی سامنے پہاڑی سے ایک شعلہ اُٹھا اور ذرا سی دیر میں کم ہوتے ہوئے ختم ہوگیا۔ لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ حیرت زدگی نے ان کی زبانیں گنگ کردیں۔ 
''اگر تم خدا کے اس جلوے کو بھی اپنے دلوں میں نہ اتارا تو یہ شعلہ جو تم نے دیکھا ہے تمہارے اس سرسبز علاقے کو ریگزار بنادے گا''۔ عمردوریش نے کہا …… ''میں اسے روک نہیں سکوں گا۔ اسے تم نے دعوت دی ہے''۔
عمر درویش اپنے خیمے میں چلا گیا۔ آشی نے لوگوں کو اشارہ کیا کہ وہ چلے جائیں۔ لوگ وہاں سے جانے لگے تو ایک دوسرے کے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی گھبراتے تھے۔ ان کے دلوں میں کوئی شک نہیں رہا تھا۔ وہ جب خیمے سے دور نکل گئے تو ایک آدمی جو ان کے ساتھ تھا ، دوڑ کر آگے ہوا اور سب کی طرف منہ کرکے رُک گیا۔ سب نے دیکھا ۔ وہ ایک گائوں کی مسجد کا پیش امام تھا۔
: ''ذرا رک جائو''۔ امام نے بازو پھیلا کرکہا۔ سب رک گئے تو اس نے کہا …… ''اپنے ایمان کو قابو میں رکھو، مسلمانو! یہ جادو گری ہے۔ جو تم دیکھ آئے ہو یہ شعبدہ بازی ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی پیغمبر آیا ہے، نہ آئے گا۔ خدا ایسے گناہگاروں کو جلوے اور نور نہیں دکھایا کرتا جو اپنے ساتھ بے حیا لڑکیاں لیے پھرتے ہیں ''۔
'' یہ لڑکی نہیں جن ہے''۔ ایک آدمی نے کہا ۔
'' جنات انسانوں کے روپ میں نہیں آسکتے ''۔ امام نے کہا …… ''جنات کسی انسان کے غلام نہیں ہوسکتے۔ مسلمانو! اپنے عقیدے کی حفاظت کرو۔ سلطان صلاح الدین ایوبی فرعون نہیں، وہ خدا کا سچا بندہ ہے۔ اس نے پیغمبر کا دعویٰ نہیں کیا۔ وہ تمہارے مذہب کا پاسبان اور صلیب کا دشمن ہے''۔
''محترم امام !'' ایک آدمی نے کہا …… '' کیا آپ پانی کو آگ لگا سکتے ہیں؟''
''اس کی نہ سنو''۔ ایک اور نے کہا …… ''یہ اپنی امامت قائم رکھنا چاہتاہے''۔
'' ہم نے جو دیکھاہے وہ آپ دکھا دیں''۔ ایک اور نے کہا …… ''پھر ہم آپ کی اطاعت قبول کر لیں گے''۔
'' میرے ساتھ اس پہاڑی پرچلو جہاں سے شعلہ اُٹھا تھا' '۔ امام نے کہا …… '' میں تمہیں دکھا دوں گا کہ یہ کیا شعبدہ ہے۔ اگر میں غلط ہو تو مجھے اسی جگہ قتل کر دینا جہاں شعلہ بھڑکا تھا''۔
'' ہم خدا کے کاموں میں دخل دینے کی جرأت نہیں کریںگے '' ۔ ایک آدمی نے کہا ۔
دو تین آدمی بیک وقت بول پڑے۔ وہ بھی امام کے خلاف بول رہے تھے۔ انہوں نے لوگوں کو ایسا اشتعال دلایا کہ سب چل پڑے اور امام کو دھکے دیتے آگے چلے گئے۔ امام اکیلا کھڑا رہا ۔
٭ ٭ ٭
کچھ دیر وہاں کھڑے رہ کر امام اس پہاڑی کی طرف چل پڑا ، جس پر شعلہ اُٹھا تھا۔ وہ بہت ہی تیز چلا جارہا تھا۔ ایک پتھریلے ویرانے سے گزر کر چٹنا کے دامن میں پہنچاتو دو آدمی اس سے کچھ پیچھے چلے جارہے تھے۔ امام چٹان کے ساتھ ساتھ چلا جا رہا تھا۔ پیچھے جانے والے دونوں اور تیز ہوگئے۔ ان کے قدموں کی آہٹیں سن کر امام رک گیا۔ وہ دونوں اس کے قریب جا رکے۔ ان کے چہرے کپڑوں میں چھپے ہوئے تھے۔ امام نے ان سے پوچھا کہ وہ کون ہیں۔ انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ ان میں سے ایک امام کے پیچھے چلا گیا۔ امام اس کی طرف مڑا تو دوسرے نے امام کی گردن کے گرد اپنا بازو لپیٹ لیا ۔ امام نے کمر بند سے خنجر نکالا مگر اس کا خنجر والا ہاتھ ایک آدمی کے ہاتھ کے شکنجے میں آگیا۔ اس کی گردن دوسرے آدمی کے بازو کے شکنجے میں تھی جو انتا تنگ اور سخت ہوگیا تھا کہ اس کا سانس رک رہا تھا۔
اس نے آزاد ہونے کی آخری کوشش کی ۔ وہ پوری طاقت سے اچھلا۔دونوں پائوں جوڑ کر سامنے والے کے پیٹ میں مارے۔ اسے پیچھے اسے ایک آدمی نے جکڑ رکھا تھا۔ سامنے والا امام کی لاتوں سے پیچھے کو گرا اور اس کے پیچھے والا دھکہ برداشت نہیں کرسکا۔ وہ بھی پیچھے کو گرا اور امام کی گردن پر اس کے بازو کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ امام نے ایک اور جھٹکا دیا اور آزاد ہوگیا۔ وہ اب ایک خونریز لڑائی کے لیے تیار ہوکر اُٹھا لیکن وہ دونوں آدمی بھاگ گئے ۔ ان کے بھاگنے کی وجہ صرف یہ ہو سکتی تھی کہ وہ دونوں اسی علاقے کے مسلمان تھے۔ انہیں پہنچانے جانے کا خطرہ تھا۔ امام نے انہیں پکارا ، للکارا لیکن وہ غائب ہوگئے تھے۔ امام نے آگے جانا مناسب نہ سمجھا اور وہیں سے واپس چلاگیا۔
عمر دوریش کے خیمے میں وہی تین آدمی بیٹھے تھے جو دن کے وقت بھی اس کے پاس آئے تھے۔ انہوں نے عمردرویش کو بتایا کہ لوگ وہی تاثر لے کر گئے ہیں جو ان پر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ انہوں ے اسے یہ بھی بتایا کہ کل رات اسے آگے ایک اور گائوں کے قریب جانا ہے اور '' طور کا جلوہ'' ایک اور پہاڑی پر دکھانا ہے ، تینوں چلے گئے۔ آشی عمردرویش کے ساتھ اکیلی رہ گئی۔
''کیا تم اپنی کامیابی پر خوش ہو؟''۔ آشی نے پوچھا۔
''آشی !'' عمردرویش نے آہ لے کر کہا ……''میں تمہیں اس قسم کے سوالوں کا جواب دینے سے ڈرتا ہوں''۔
'' کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں صلیبیوں اور سوڈانیوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی رہوں؟'' آشی نے کہا …… '' تم نے میر ے اندر ایمان بیدار کیا ہے اور اب تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتے''۔
''میں اعتبار تمہارے عمل پر کروںگا''۔ عمر درویش نے کہا …… ''تمہارے الفاظ پر نہیں ''۔
''مجھے بتائو میں کیاکروں''۔ آشی نے کہا …… ''جو کہو گے کروں گی''۔
: ''ابھی یہی کرتی رہو جو کر رہی ہو''۔ عمر دوریش نے کہا ۔ '' وقت آنے پر تمہیں بتائوں گا کہ کیا کرنا ہے''۔
'' ہو سکتا ہے تمہیںیہ بتانے کا وقت ہی نہ ملے کہ مجھے کیا کرنا ہے''۔ آشی نے کہا …… '' تم نے دیکھ لیا ہے کہ تمہارے اردگرد جاسوسوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ جہاں تم نے ذرا سی مشکوک حرکت کی یہ جاسوس تمہیں غائب یا قتل کردیں گے اور مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ اگر تم مجھے پہلے ہی بتا دو کہ تمہارا ارادہ کیاہے تو میں تمہیں بروقت خبردار کرسکوں گی ۔ مجھے تو وہ بہرحال اپنے گروہ کا فرد سمجھتے ہیں۔
آشی کے انداز میں کچھ ایسی سادگی اور خلوص تھا۔ جس سے عمر ردویش قائل ہوگیا کہ یہ لڑکی اسے دھوکہ نہیں دے گی۔ اس نے کہا …… ''تمہارے کمالات دیکھتا ہوں تو ڈرتا ہوں کہ تم مجھے دھوکہ دوگی''۔
''کمالات میں تو تم بھی کم نہیں ہو''۔ آشی نے کہا …… ''اسی لیے تو میں محسوس کر رہی ہوں کہ تم نے اپنی قوم کو دھوکہ دینے کا پخنہ ارادہ کرلیا ہے''۔
''میں تمہیں اپنا ارادہ بتا دیتا ہوں''۔ عمردرویش نے کہا …… ''اور یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ تم نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا اور مجھے فریب دیا تو تم زندہ نہیں رہو گی ۔ میں قتل ہوجانے سے نہیں ڈرتا اور قتل کرنے سے بھی نہیں ڈروں گا۔ میں نے راستے میں تمہیں بتا دیا تھا کہ میں کسی اور مقصد کے لیے جا رہا ہوں۔ مجھے اُمید تھی کہ یہاں اپنے علاقے میں آکر اپنے خفیہ مقصد میں آسانی سے کامیاب ہوجائوں گامگر یہاںآکر دیکھا ہے کہ سوڈانیوں نے مجھے جاسوسوں کے گھیرے میں لے رکھا ہے، مجھے دوسرا غم یہ ہو رہا ہے کہ میں نے اپنی قوم کی پیٹھ میں خنجر اتار دیا ہے۔ ) میں اپنے اصل مقصد کی خاطر اپنے آپ کو پوشیدہ رکھ رہا ہوں مگر میری کارستانی جسے تم میرا کمال کہتی ہو میری قوم کے مذہبی عقیدے کو زہر کی طرح مار رہی ہے۔ میں نے اگر یہ سوانگ جاری رکھا تو یہ مسلمان سوڈانیوں کی غلامی کی زنجیروں میں بندھ جائیں گے اور ان کا قومی وقار ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا''۔
''تم کیا کرنا چاہتے ہو؟'' آشی نے پوچھا۔
'' میں اسحاق کے گائوں تک پہنچنا چاہتا ہوں''۔ عمر درویش نے کہا…… '' تم اسحاق کو جانتی ہونا۔ وہی کماندار جو جنگی قیدی کے حیثیت سے قید خانے میں پڑا ہے۔ اسے اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے تمہیں بھی ایک رات اس کے پاس بھیجا گیا تھا''۔ 
''اس شخص کو تو میں ساری عمر نہیں بھول سکوں گی''۔ آشی نے کہا ۔ '' اس کی بھی اتنی ہی مرید ہوں جتنی تمہاری ہوں''۔
''میں اس کے گھر تک پہنچنا چاہتا ہوں''۔عمر درویش نے کہا …… ''پھر میں اپنے گائوں جانے کا رادہ رکھتا ہوں۔ میں یہ سوچ کر آیا تھا کہ یہاں آکر غائب ہوجائوںگا اور یہاں کے لوگوں کو بتائوں گا کہ وہ سوڈانیوں کے ہتھکنڈوں سے بچیں''۔
''معلوم ہوتاہے تم نے کوئی باقاعدہ منصوبہ نہیں بنایا تھا''۔ آشی نے کہا …… ''ہمیں جس کا م کے لیے بھیجا جاتا ہے ۔ اس کا ہمیں بڑا واضح منصوبہ دیا جاتا ہے''۔
''میں قید خانے میں ظالمانہ اذیتیں سہہ سہہ کر نکلا ہوں''۔ عمر درویش نے کہا …… ''اتنی ہی عقل رہ گئی تھی کہ قید خانے سے نکلنے کا یہ طریقہ سوچ لیا تھا۔ یہاں آکر حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ اپنے مقصد کی کامیابی نا ممکن نظر آتی ہے''۔
''اب مجھے سوچنے دو''۔ آشی نے کہا …… ''اگر ہم خدا کی راہ میں ثابت قدم رہے تو تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائو گے۔ کل ہم آگے جا رہے ہیں ۔ کوئی صورت نکل آئے گی''۔
'' ضرورت یہ ہے کہ ہمیں یہاں کے کسی عقل مند آدمی کے ساتھ ملاقات کا موقع مل جائے ''۔
اسی علاقے میں عمر درویش کے خیمے سے دواڑھائی میل دور مصری تاجروں کا ایک قافلہ آیا۔ چا ر آدمی اور چھ اونٹ تھے۔ قافلے کا سردار لمبی داڑھی والا ایک بزرگ سیرت انسان تھا جس نے ایک آنکھ پر سبز رنگ کے کپڑے کا ٹکڑا لٹکا رکھا تھا جیسے اس کی یہ آنکھ خراب ہو۔ یہ قافلہ دو راتیں پہلے سوڈانی کی سرحد میںداخل ہوا تھا۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سلطان ایوبی نے مصر سے سوڈان میں اناج سمگل کرنے کی درپردہ اجازت دے رکھی تھی ۔ دوسری اجناس بھی سمگل کی جاتی تھیں۔ سوڈان میں ان اشیاء کی قلت تھی۔ مصر کے یہ سمگلر دراصل سلطان ایوبی کی انٹیلی جنس کے آدمی تھے ۔ انہیں مصر کے سرحدی دستے نہیں روکتے تھے اور سوڈان کی سرحد کے پہرہ دار بھی انہیں نظر انداز کر دیتے تھے۔
: یہ قافلہ بھی بلا روک ٹوک سرحد پار کرکے سوڈان میں داخل ہوگیا تھا۔ لیکن رات کی تاریکی کی وجہ سے سوڈان کے سرحدی پہرہ دار یہ نہ دیکھ سکے کہ چار تاجروں اور چھ اونٹوں کا یہ قافلہ سوڈان کے کسی شہر کی طرف جانے کی بجائے اس پہاڑی علاقے کی سمت چلا گیا ہے جہاں مسلمان آباد تھے۔ ادھر تاجروں کے کسی قافلے کو جانے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ سوڈان کی حکومت مسلمانوں کو اناج اور دیگر اجناس سے اور تجارت سے محروم رکھنا چاہتی تھی۔ یہ قافلہ رات بھر چلتا رہا۔ صبح ہو ئی تو اونٹوں کو ٹیلوں کے علاقے میں چھپا دیا گیا ۔ سرحد دور پیچھے رہ گئی تھی۔ ان لوگوں نے سارا دن وہیں چھپ کر گزارا۔
رات تاریک ہوئی تو یہ قافلہ پھر چل پڑا اور آدھی رات کے وقت پہاڑی علاقے میں داخل ہوگیا۔ یہی قافلے کی منزل تھی۔ سحر کے وقت قافلہ ایک گائوں میں داخل ہوا۔ میر کارواں ایک مکان کے سامنے رکا اور دروازے پر دستک دی۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا۔ ایک آدمی ہاتھ میں دیا لیے باہر آیا۔ میر کارواں نے اس کے کان میں کچھ کہا ۔ دروازہ کھولنے والے نے کہا …… ''خوش آمدید …… تم سب فوراً اندر چلو۔ اونٹوں کو ہم سنبھال لیں گے''۔
چاروں تاجر اندر چلے گئے۔ میزبان نے اپنے گھر والوں کو اور پڑوس کے دوتین آدمیوں کو جگایا۔ سب نے اونٹوں کو مختلف گھروں کے اونٹوں میں بانٹ کر باندھ دیا۔ سامان اتار کر میزبان کے گھر میں رکھ دیا گیا۔ میرکارواں نے کہا کہ سامان فوراً کھولو اور غائب کردو۔ سب نے سامان کھولا تو اس میں اناج کی بجائے تیروں کا ذخیرہ تھا۔ کمانیں ، تلواریں اور خنجر تھے اور تین چار بوریوںمیں آتش گیر مادے سے بھری ہوئی ہانڈیاں تھیں۔ یہ سامان غائب کر دیا گیا۔
''کیا میں اپنے آپ میں آجائوں ؟'' میرکارواں نے پوچھا …… ''تنگ آگیا ہوں'۔ 
''کوئی خطرہ نہیں''۔ میزبان نے کہا …… ''سب لوگ اپنے ہیں''۔
میر کارواں نے لمبی داڑی اتار دی اور آنکھ سے سبز کپڑا بھی اتار دیا۔ یہ داڑھی نقلی تھی ۔ اس کی اصلی داڑھی چھوٹی تھی اور سلیقے سے تراشی ہوئی۔ سامان ادھر ادھر چھپا کر جب آدمی مہمانوں کے پا س آئے تو ایک آدمی میرکارواں کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا ۔ میرکارواں مسکرایا اور پوچھا …… ''پہچانا نہیںتھا مجھے؟''
''اوہ میرے دوست علی بن سفیان!'' اس آدمی نے کہا …… '' خدا کی قسم میں نے نہیں پہچانا تھا''۔ اس نے آہ بھر کر کہا …… '' ہماری خوش نصیبی ہے کہ آپ خود آگئے ہیں ۔ یہاں کے حالات ٹھیک نہیں ''۔
'' مجھے اطلاع مل گئی تھی کہ سوڈان کے قید خانے کے ایک سپاہی نے دو سوڈانی فوج کے دو کمانداروں کو قتل کردیا ہے ''۔ علی بن سفیان نے کہا …… '' اور مجھے یہ بھی پتا چلا ہے کہ سوڈانی ہمارے جنگی قیدیوں کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ''۔
لمبی داڑی اور آنکھ پر سبز پٹی اور تاجروں کے چغے کے روپ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا ماہر جاسوس اور سراغرساںعلی بن سفیان تھا جو یہاں کے حالات کا جائزہ لینے آیا تھا۔ اسے جاسوسوں نے قاہرہ جا کر جو خبریں دی تھیں۔ وہ ان کی روشنی میں باتیں کررہا تھا اور وہ جس گھر میں بیٹھا تھا ، وہ اس کے بھیجے ہوئے جاسوسوں کا مرکز تھا۔ اس کا میزبان سوڈانی باشندہ تھا۔ یہ سب لوگ سلطان ایوبی کے پرستار تھے۔ ان لوگوں نے علی بن سفیان کو ایک نئی بات بتائی۔ 
'' افواہ پھیل رہی ہے کہ خدا کا کوئی ایلچی آیا ہے جو پانی کو آگ لگاتا ہے''…… میربان نے علی بن سفیان کو بتایا۔ '' اور وہ لوگوں کو اس قسم کی باتیں کہتا ہے کہ خدا نے مجھے یہ پیغام دے کر مردوں سے اُٹھایا ہے کہ مسلمانوں سے کہو کہ سوڈان کے وفادار ہوجائیں کیونکہ یہ زمین تمہاری ماں ہے ''…… اس نے عمر درویش کے متعلق ساری باتیں سنادیں لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ عمر درویش رات کو طور کا جلوہ دکھا کر لوگوں کے دلوںمیں بے حد خطرناک شکوک پیدا کرچکا ہے۔
'' مجھے یہی ڈر تھا کہ دشمن عقیدوں پر حملہ کرے گا
''…… علی بن سفیان نے کہا …… '' اسی لیے میں خود آیا ہوں۔ صلیبی تخریب کاری کے ماہر ہیں اور ہماری قوم جذباتی ہے۔ صلیبی الفاظ کا بڑا ہی دلفریب جالا تن دیتے ہیں۔ ہمارے بھائی کھچے ہوئے اس کے حسین تاروں میں اُلجھ جاتے ہیں۔ مجھے فوری طور پر اس فتنے کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات ملنی چاہئیں۔ میرا خیال ہے کہ عمر درویش کو میں جانتا ہوں۔ ہماری فوج کے ایک دستے کا کماندار تھا''۔
اس علاقے میں مصری جاسوس چھاپہ مار بھی تھے۔ علی بن سفیان نے میزبان سے کہا کہ وہ چند ایک آدمیوں کو بلانے کا انتظام کرے تا کہ اس تخریب کاری پر جوابی حملہ کیا جاسکے۔
٭ ٭ ٭ 
سورج طلوع ہورہا تھا۔ جاسوسوں کو بلانے کے لیے آدمی دوڑادئیے گئے۔ وہ گئے ہی تھے کہ ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا آرہا تھا اس مکان کے سامنے آرکا۔ سوار اُتر کر اندر آیا تو سب احترام کے لیے اُٹھے۔ یہ امام تھا اور یہ وہی امام تھا جس نے عمر درویش کے خلاف آواز اُٹھائی تھی ۔ لوگ اسے دھکے دیتے چلے گئے تھے ، پھر رات کو اس پر دو نا معلوم آدمیوں نے قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ امام وہیں سے واپس آگیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ مسلمانوں نے اس گائوں اور اس گھر کو جاسوسی اور دیگر سرگرمیوں کا خفیہ مرکز بنارکھا ہے۔ امام اپنے گھر گیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر اس گائوں کو روانہ ہوگیا۔ یہ امام اس پر یقین رکھتا تھا کہ عمر درویش شعبدہ باز ہے۔ وہ اس گائوں میں رپورٹ دینے اور شعبدہ بازی کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے مدد لینے آیا تھا ، آگے علی بن سفیان بیٹھا تھا۔
امام علی بن سفیان سے واقف نہیں تھا۔ تعارف کرایا گیا تو امام نے تفصیل سے سنایا کہ عمر درویش نے کیا شعبدہ دکھایا ہے اور مسلمان تماشائیوں نے اس کا کس طرح اثر قبول کیا ہے۔
'' اگر ہم نے یہ سلسلہ نہ روکا تو مسلمان اپنے عقیدوں سے منحرف ہوجائیں گے '' …… امام نے کہا …… '' یہ شخص جو اپنا نام عمر درویش بتاتا ہے آج رات اگلے گائوں کو جا رہا ہے اوریہی شعبدہ دکھائے گا''۔
انہوں نے تھوڑی دیر اسے مسئلے پر غور کیا۔ ایک طریقہ یہ سوچا گیا کہ عمر درویش کو قتل کردیا جائے۔ علی بن سفیان نے اتفاق نہ کیا۔ اس نے اس قسم کا اظہار کیا کہ اسے یقین ہے کہ عمر درویش کو قتل کیے بغیر راہ راست پر لایا جاسکے گا اور اسی کی زبان سے کہلوالیا جائے گا کہ اس نے جو معجزے دکھائے ہیں وہ شعبدہ بازی تھی۔ قتل کے خلاف دلائل دیتے ہوئے اس نے کہا کہ اس طرح لوگ اسے اور زیادہ برحق ماننے لگیں گے۔
علی بن سفیان کے ساتھ تاجروں کے بھیس میں جو تین آدمی آئے تھے وہ مصری فوجی کے غیر معمولی طور پر ذہین ، اپنے فن کے ماہر اور تجربہ کار لڑاکا جاسوس تھے۔ علی بن سفیان انہیں تاجروں کے بھیس میں ساتھ لایا تھا۔ خود لمبی داڑھی اور ایک آنکھ پر سبز پٹی کا بہروپ چڑھایا۔ گھوڑے منگوائے ۔ چند اور آدمیوں سے کہا کہ وہ گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہو کر اس کے پیچھے پیچھے آئیں۔ اس نے سب کو ہدایات دیں اور امام کے ساتھ اس سمت روانہ ہوگیا جہاں عمر درویش کو خیمہ زن ہونا تھا۔
'' عمر درویش صبح طلوع ہوتے ہی اگلے مقام کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھی اس علاقے کے لوگوں کے لباس میں اس کی حفاظت کے لیے جا رہے تھے۔ اس کی تشہیر دور دور تک ہوگئی تھی …… وہ ایک اور گائوں سے کچھ دور رُک گیا اور خیمہ گاڑ دیا۔ تھوڑی سی دیر میں وہ اور آشی تیار ہوگئے تھے۔ خیمے کے سامنے دو مشعلیں جلا کر گاڑ دی گئیں۔ اس کے ساتھیوں نے گائوں والوں کو جا بتایا کہ انہوں نے خدا کے جس ایلچی کے معجزے سنے ہیں وہ ان کے گائوں کے باہر خیمہ زن ہے۔ لوگ دوڑے گئے۔ جن لوگوں نے ایک روز پہلے عمر درویش کو دیکھا تھا ۔ وہ بھی دور کافاصلہ طے کرکے آگئے تھے۔
عمر درویش دونوں مشعلوں کے درمیان چھوڑے قالین پر بیٹھ گیا۔ آشی اپنے اسی بھڑکیلے لباس اور طلسماتی بنائو سنگھار سے آراستہ تھی۔ عمر درویش کے سامنے کپڑا الٹا پڑا تھا۔ اس نے وہی ادا کاری شروع کر دی جو وہ پہلے کر چکا تھا۔ ایک آدمی نے وہی سوال پوچھا جو پہلے پوچھا گیا تھا۔ عمر درویش نے وہی باتیں اسی اندازسے دہراکر کہا کہکسی کے پاس پانی ہو تو اس کپڑے پر ڈالا جائے۔ علی بن سفیان اپنی پارٹی کے ساتھ پہنچ چکا تھااور اس نے عمر درویش کو پہچان لیا تھا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ شخص مصری فوج کے ایک دستے کا کماندار ہے۔
علی بن سفیان کو بتا دیا گیا تھا کہ عمر درویش پانی کو آگ لگاتا ہے۔ علی بن سفیان کو ایک شک تھا۔ یہ تسلیم نہیں کیا کیا سکتا تھاکہ پانی کو آگ لگ سکتی ہے۔ اس کے دماغ میں جو شک پیدا ہوا تھا ، اس کے مطابق وہ چھوٹے سے مشکیزے میں پانی اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ جو ں ہی عمر درویش نے کہا کہ کسی کے پاس پانی ہو تواسے کپڑے پر ڈالے تو ایک آدمی تیزی سے آگے بڑھا۔ اس کے پاس مشکیزہ تھا۔ اس نے کچھ پانی کپڑے پر انڈیل دیا۔
علی بن سفیان آگے بڑھا اور مشعل زمین سے اکھاڑ کر لوگوں سے کہا …… '' تم میں سے کوئی آدمی آگے آئ
: …… '' تم میں سے کوئی آدمی آگے آئے''۔ ایک آدمی جو علی بن سفیان کے ساتھ آیا تھا آگے گیا۔ علی بن سفیان نے مشعل اس کے ہاتھ میں دے کر کہا …… '' اس کپڑے پر شعلہ رکھو'' …… وہ آدمی ہچکچایا ۔ علی بن سفیان نے لوگوں سے کہا …… '' تم میں سے کوئی بھی آدمی اس پانی کو آ گ لگا سکتا ہے''۔ 
اس آدمی نے مشعل کا شعلہ کپڑے کے قریب کیا تو کپڑے سے شعلہ بھڑک کراُٹھا ۔ایک آدمی جو عمر درویش کا ساتھی تھا ۔ بولا …… '' تم کوئی شعبدہ بازہو۔ پیچھے ہٹو ، ورنہ تم پر خدا کی اس برگزیدہ شخصیت کا قہر نازل ہوگا ''۔
عمر درویش خاموشی سے اور حیرت سے علی بن سفیان کو دیکھ رہا تھا۔ علی بن سفیان نے اپنا کمر بند کھول کر عمردرویش کے آگے رکھ دیا اور اس پر پانی انڈیل کر کہا …… ''اگر تم خدا کے ایلچی ہو تواس کپڑے کو آگ لگائو '' …… اس نے مشعل عمر درویش کے آگے کر دی مگر عمر درویش اس کے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔
لوگوں نے آپس میں کھسر پھسر شروع کردی۔ علی بن سفیان کے ساتھ آئے ہوئے آدمیوں نے عمر درویش کے خلاف بولنا شروع کر دیا۔ امام کی آواز سب سے زیادہ بلند تھی ۔ عمر درویش کے آدمیوں نے اس کی حمایت میں بولنا شروع کر دیا ۔ دونوں طرف سے بولنے والے جاسوس تھے۔ یہ بھی جنگ تھی ۔ حق اور باطل معرکہ آراء تھے۔ علی بن سفیان نے لوگوں کو ادھر اُلجھا ہوا دیکھا تو عمر درویش کے سامنے بیٹھ گیا۔
''عمر درویش!'' …… اس نے دھیمی آواز میں کہا …… ''ایمان کی کتنی قیمت ملی ہے!''
''تم کو ن ہو؟''…… عمر درویش نے پوچھا۔
''بہت دور سے آیا ہوں'' …… علی بن سفیان نے کہا …… '' تمہاری شہرت سرحد پار سنی تھی اور تمہیں دیکھنے آیا ہوں''۔ عمر درویش نے بے چینی سے ادھر ادھر دیکھا اور پوچھا …… '' میں تم پر کس طرح اعتبار کرلوں؟''
''میری داڑھی پر ہاتھ پھیرو''…… علی بن سفیان نے کہا …… '' مصنوعی ہے۔ ایمان کی جو قیمت وصول کی ہے اس سے دوگنی دوں گا۔ یہ شعبدہ بازی ختم کرو۔ میں تمہیں ساتھ لے جائوں گا''۔
'' میں قاتلوں کے گھیرے میںہوں'' …… عمر درویش نے کہا ۔
'' میری نہیں مانو گے تو بھی قتل ہوجائو گے'' …… علی بن سفیان نے کہا …… '' تم جانتے ہو کہ یہاں ہمارے بہت سے آدمی موجود ہیں …… تمہارے ساتھ کتنے آدمی ہیں؟''
''مجھے معلوم نہیں '' …… عمر درویش نے کہا اور پوچھا …… '' تمہارا نام کیا ہے؟''
'' بتا نہیں سکتا'' …… علی بن سفیان نے کہا …… '' میں جو پوچھتا ہوں وہ بتائو…… طور کا جلوہ کیا ہے؟ صا ف صاف بتادو۔ تمہاری حفاظت کے ذمہ داری لیتا ہوں''۔
'' جب اُٹھو گے تو اپنے دائیں طرف دیکھنا '' …… عمر درویش نے کہا …… '' اونچی پہاڑی کے آگے ایک اونچی چٹان ہے۔ ایک بہت بڑا درخت ہے۔ شام سے ذرا بعد وہاں اپنے آدمی چھپا دینا۔ جس طرح پانی کو آگ لگنے کا بھید جان گئے ہو ، طور کا جلوہ بھی جان جائو گے۔ مجھے موقعہ دو کہ یہ تماشا دکھائوں۔ تم وہاں سے شعلہ نہ اُٹھنے دینا۔ میرے فرار کا اورمیری حفاظت کافرض تم پورا کرو گے۔ بس میری شعبدہ بازی یہی ہوگی کہ یہاں سے نکل بھاگوں۔ مجھے اسحاق کو قید خانے سے آزاد کرانا ہے…… اُٹھو اور اعلان کرو کہ رات کو طور کا جلوہ دکھائوںگا ''۔
علی بن سفیان کی جگہ کوئی اور آدمی ہوتا تووہ عمر درویش کی یہ ادھوری سی بات نہ سمجھ سکتا۔ علی بن سفیان اسی میدان کا کھلاڑی تھا۔ وہ اشارے سمجھ لیتا تھا۔ اس نے اُٹھ کر اعلان کیا …… '' خدا کا یہ برگزیدہ انسان رات کو طور کاجلوہ دکھائے گا۔ میں نے اس کی بات سمجھ لی ہے۔ تم سب چلے جائو۔ شام کے بعد آنا ''۔
عمر درویش کے آدمی اس کے پاس جا بیٹھے اور ٹوچھا کہ اس آدمی کے ساتھ کیا باتیں ہوئی ہیں۔ عمر درویش نے جوا ب دیا …… '' میں نے اسے قائل کر لیا ہے ''۔
'' لیکن یہ ہے کون ؟'' …… ایک آدمی نے کہا …… '' اسے ضرور پتا چل گیا ہے کہ کپڑے میں آتش گیر سیال ہے جو جل اُٹھتا ہے''۔
'' تم کیوں فکر کرتے ہو؟''…… عمر درویش نے مسکرا کر کہا …… '' میں آج رات اس کے شکوک رفع کردوں گا ''۔
'' اگر یہ رات کو آیا تو اسے ہم قتل کردیں گے'' …… دوسرے آدمی نے کہا ۔
'' ابھی نہیں ''…… عمر درویش نے کہا …… '' کہیں ایسا نہ ہو کہ بنا بنایا کھیل بگڑ جائے۔ اگر یہ رات کو میرے پاس آیا تو میں اسے خیمے میںبٹھالوں گا۔ تم اسے باندھ کر اُٹھا لے جانا''۔
''ہم اس کا پیچھا کرتے ہیں'' …… تیسرے آدمی نے کہا …… '' اسے نظر میں رکھنا ضروری ہے''۔
دو آدمی اُٹھے اور ان لوگوں سے جا ملے جو واپس جارہے تھے۔ ان دونوں نے علی بن سفیان کو ڈھونڈا مگر وہ ان میں نہیں تھا۔ لوگوں سے پوچھا تو کوئی بھی نہ بتا سکا کہ وہ آدمی کہاں ہے جس کی داڑھی لمبی اور ایک آنکھ پر سبز پٹی بندھی تھی ۔ 
علی بن سفیان گھوڑے پر سوار ہو کر دور نکل گیا تھا۔
٭ ٭ ٭
عمر درویش خیمے میں آشی کے ساتھ اکیلا رہ گیا تو آشی نے اس سے پوچھا…… '' یہ آدمی کون تھا؟ اس نے تمہارے ساتھ اس طرح باتیں کی تھیں جیسے وہ تم سے اور تمہارے بہروپ سے واقف ہے''۔
''سنو آشی !'' …… عمر درویش نے کہا …… '' آج رات کچھ ہونے والا ہے۔ میں بتا نہیں سکتا کہ کیا ہوگا۔ اس آدمی کو میں پہچان نہیں سکا۔ اس نے بتایا بھی نہیں کہ وہ کون ہے لیکن یہ کوئی معمولی آدمی نہیں ۔ مجھے اُمیدنہیں کہ آج رات ہم فرار ہو سکیں اور یہ توقع بھی ہے کہ میں قتل ہوجائوں گا آج رات تمہیں ثابت کرنا ہوگا کہ تمہاری رگوں میں مسلمان باپ کا خون ہے ۔ اگر تم نے دھوکہ دینے کی کوشش تو تم میرے ہاتھوں قتل ہوگی ''۔
'' اگر تم مجھے کچھ اور بھی بتا دو کہ کیا ہوگا اورمجھے کیا کرنا ہے تو شاید میں زیادہ اچھے طریقے سے تمہاری مدد کرسکوں گی ''۔ آشی نے کہا …… '' میںتمہاری خاطر قتل ہونے کے لیے تیار ہوں لیکن اس سے تمہارا مقصد پورا نہ ہوا تو میری جان رائیگاں جائے گی''۔
'' تمہیں یہ کرناہے '' …… عمر درویش نے کہا …… '' کہ اپنے آدمیوں کی باتوں میں نہ آنا۔ کوشش کرنا کہ ان کا ارادہ قبل از وقت معلوم کرلو اور مجھے خبردار کردو۔ میں بتا نہیں سکتا کہ آج رات کیا ہوگا تم تیار رہنا''۔
''تم کئی بار کہہ چکے ہوکہ تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں ''…… آشی نے کہا …… '' لیکن میں نے تمہیں ایک بار بھی نہیں کہا کہ مجھے تم پر اعتبار نہیں ۔ اگر تم یہاں سے آزاد ہو گئے تو کیا تم مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائو گے؟''
''تم واپس جانا پسند نہیں کروگی؟''
''نہیں''…… آشی نے زنجیدہ مگر پرعزم لہجے میں کہا …… '' مرجانا پسند کروں گی ''۔
'' تم شہزادی ہو آشی!'' …… عمر درویش نے کہا ۔ '' میں نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ تم میرے ساتھ چلو گی تو تمہارا مستقبل کیا ہوگا۔ تم ان جنگلوں میں رہنا یقینا پسند نہیں کرو گی ۔ میں تمہیں قاہرہ لے جائوں گا ۔ وہاں تمہارے متعلق سوچنے کے لیے بڑے اچھے دماغ موجود ہیں ''۔
'' مجھے تم اپنے ساتھ نہیں رکھو گے ؟'' …… آشی نے پوچھا … … '' مجھے اپنی بیوی نہیں بنائو گے؟''
'' اگر یہ شرط ہے تو میں اسے قبول نہیں کرو گا ''…… عمر درویش نے کہا …… '' لوگ کہیں گے کہ میں نے اپنا فرض تمہیں حاصل کرنے کے لیے ادا کیا ہے۔ میرا گھر جہاں میری ایک بیوی موجود ہے ، تمہارے قابل نہیں ۔ آشی ! میں سپاہی ہوں ۔ میرا گھر میدان جنگ ہے۔ مجھے اپنی بیوی کی صورت دیکھے تین سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ تم اگر اس لیے میری بیوی بننا چاہتی ہو کہ میں تمہاری پسند کامرد ہوں تو تم مایوس ہوگی۔ تمہاری محبت اور تمہاری دعائیں اس تیر کو نہیں روک سکیں گی جسے میرے سینے سے پار ہونا ہے …… تم مجھے اپنی خواہش بتادو ''۔
'' میں ذلت اورخواری کی اس زندگی سے آزاد ہونا چاہتی ہوں '' …… آشی نے کہا …… '' مجھے تمہاری مدد اور سہارے کی ضرورت ہے۔ بعد میں جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ میں تمہارے راستے میں نہیں آئوں گی''۔
: ''اگر زندہ رہا تو تمہیں پوری مدد اور سہارا دوں گا''۔
''آخر وہ گیا کہاں؟'' …… یہ آواز ان جاسوسوں میں سے ایک کی تھی جو عمر درویش کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ وہ اس وقت عمر درویش کے خیمے سے کہیں دور کھڑے علی بن سفیان کے متعلق سوچ رہے تھے۔ اس نے کہا …… '' یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمر درویش اس کے دل کو اپنے قبضے میں لینے کی بجائے اپنا دل اس کے قبضے میں دے چکا ہو۔ ہمیں اب بہت ہی محتاط ہونا پڑے گا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ عمر درویش پر بھروسہ نہ کرنا''۔
'' وہ لمبی داڑھی والا آدمی آگ کا بھید جان گیا ہے'' …… دوسرے نے کہا …… '' اب یہ دیکھنا ہے کہ عمر درویش نے اس بھید پر پردہ ڈالا ہے یا اس آدمی پر ''۔
'' آشی کس مرض کی دواہے؟'' …… تیسرے نے کہا …… '' کیا وہ عمر درویش کے دل کا حال معلوم نہیں کر سکتی ؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ لڑکی بھی عمر درویش کی سازش میں شریک ہو گئی ہو''۔
'' اگر کوئی سازش ہے اور آشی اس میں شریک ہے تو اس کے متعلق حکم صاف ہے کہ قتل کردو ''۔ ایک نے کہا ۔
''کیا تم اتنی قیمتی چیز کو یوں ضائع کردو گے؟''…… دوسرے نے کہا …… '' اسے اڑا لے جائیں گے اور کسی دولت والے کو منہ مانگے داموں یہ ہیرا دے دیں گے۔ وہاں یہ بتائیں گے کہ آشی کو قتل کرکے دفن کر دیا ہے ''۔
تینوں نے ایک دوسرے کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ان میں اتفاق رائے ہوگیا ۔ ایک نے کہا …… '' آج رات ہمیں 'طور کا جلوہ ' دکھانا ہے۔ دیکھ لیں گے کہ عمر درویش یا اس کی نیت کیا ہے۔ رات کو ہم میں سے ایک کو آشی کے ساتھ رہنا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑکی ہاتھ سے نکل جائے''۔
انہوں نے طے کر لیا کہ رات عمر درویش اور آشی کے ساتھ کون ہوگا۔''چار آدی کافی ہوں گے ''…… علی بن سفیان نے کہا …… ''میں عمر درویش کے ساتھ ہوں گا۔ تم سب نے ان تین چار آدمیوں کو پہچان لیان ہے جو عمردرویش کی حمایت میں بول رہے تھے۔ یہ تمہارے علاقے کے وہ مسلمان ہیں جو سوڈانیوں کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ عمر درویش نے مجھے انہی کے متعلق بتایا ہے کہ وہ قاتلوں کے گھیرے میں ہے۔ انہیں نظر میں رکھنا۔ ضرورت پڑے تو ختم کردینا لیکن زندہ پکڑنا بہترہوگا''۔
اس وقت علی بن سفیان ایک مسجد میں بیٹھا تھا۔ امام اسی مسجد کا تھا۔ علی بن سفیان نے اپنا بہروپ اتار دیا تھا۔ اس نے مسجد میں ہی رات کے لیے اپنے آدمیوں کو مختلف کام بانٹ دئیے اور کہا …… '' مجھے جوشک تھا وہ صحیح ثابت ہوا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ رات کو بھی مجھے کامیابی ہوگی ''۔
سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے اس پہاڑی پر جو عمر درویش نے علی بن سفیان کو دکھائی تھی۔ ایک آدمی چڑھ رہاتھا۔ وہ اس احتیاط کے ساتھ چڑھ رہا تھا کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ دوسری طرف سے دو آدمی اسی کی طرح جھکے جھکے اوپر جا رہے تھے اور ایک آدمی کسی اور طرف سے اوپر جا رہا تھا ۔ یہ آدمی جب اوپر چلا گیا تو رینگ کر ایک بہت بڑے درخت تک پہنچا۔ ادھر ادھر دیکھا اور درخت پر چڑھنے لگا۔ دو آدمی ایک بہت بڑے پتھرکے عقب میں بیٹھ گئے۔ یہ جگہ درخت سے دور نہیں تھی ۔ چوتھا آدمی بھی اوپر چلا گیا اور ایک موزوں جگہ چھپ گیا۔ جو آدمی درخت پر چڑھا تھا ۔وہ اوپر ایک موٹے ٹہن پر اس طرح بیٹھ گیا کہ ٹانگیں اوپر کرکے سکیڑ لیں ۔ شاخیں اور پتے اتنے گھنے تھے کہ یہ آدمی نیچے سے نظر نہیں آسکتا تھا۔ وہ آہستہ سے ایک پرندے کی طرح بولا ۔ اسے پرندے کی آواز میں تین ساتھیوں کا جواب ملا۔
سورج پہاڑ کے عقب میں اتر گیاتھا اور تین آدمی اکھٹے پہاڑی چڑھتے جا رہے تھے۔ ان کے پاس آگ جلانے کا سامان اور مٹی کے برتن میں آتش گیر مادہ تھا۔ اس کے پاس لمبے خنجر بھی تھے۔ شام کا دھندلکا گہرا ہوتا جا رہا تھا ۔ ان تین آدمیوں کاانداز ایسا تھا جیسے انہیں کسی بھی طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ وہ باتیں کرتے جارہے تھے ۔ ان کی باتیں ان چار آدمیوں کو سنائی دینے لگیں جو پہلے سے وہاں چھپے بیٹھے تھے۔ وہ پوری طرح چھپ گئے ۔ وہاں سے دور نیچے عمر درویش کا خیمہ تھا جو شام کے اندھیرے میں نظر نہیں آتا تھا۔ خیمے کے باہر گاڑھی ہوئی دو مشعلوں کے شعلے دکھائی دے رہے تھے ۔
 '' خدا کا ایلچی تیار ہوگیا ہے''۔ ان تین آدمیوں میں سے ایک نے ہنس کر کہا جو بعد میں آئے اوپر آئے تھے …… '' سامان کھول کر تیار کرلو'' …… ''آج میرا دل کسی اور طریقے سے دھڑک رہا ہے '' … … دوسرے نے کہا …… '' اس کے اندر کوئی وہم بیٹھ گیا ہے ۔ کیا تم محسوس نہیں کر رہے کہ آج کچھ گڑبڑ ہے؟''
'' میں بھی کچھ گڑبڑ اس آدمی کی وجہ سے محسوس کررہاہوں جس نے ایک آنکھ پر سبز پٹی باندھ رکھی تھی '' …… ان میں سے ایک نے کہا …… '' گھبرائو نہیں ۔ ہم طور کا جلوہ دکھا کر سب کے وہم دور کر دیں گے ۔ اگر لوگ مان گئے تو اس ایک آدمی کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا۔ تم اپنا کام کرو۔ وقت تھوڑا رہ گیا ہے۔ اندھیرا گہرا ہو رہاہے''۔
ایک آدمی نے مٹی کا برتن کا منہ کھولکر تیل کی طرح سیال زمین پر انڈیل دیا ۔ جگہ چونکہ پتھریلی تھی اس لیے یہ مادہ جذب نہ ہوسکا۔ اس سے ذرا دور ہٹ کر ایک آدمی نے چھوٹا سا دیا جلا کر بڑے پتھروں کے درمیان رکھ دیا تا کہ دور سے اس کی لو نظر نہ آسکے۔ اس کی روشنی میں تینوں آدمی نظر آرہے تھے۔ 
''اب ادھر مشعل پر نظر رکھو''۔ ایک نے کہا …… '' جوں ہی مشعل اوپر نیچے حرکت کرے دیا تیل پر پھینک دو۔ لوگوں کو طور کا جلوہ نظر آجائے گا''۔
یہ اہتمام اس بڑے درخت کے نیچے کیا گیا تھا جس پر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ نیچے تینوں آدمی اکٹھے کھڑے ہوگئے۔ اس نے جھینگر کی آواز پیدا کی۔ ایک بہت بڑے پتھر کے پیچھے سے بھی جھینگر کی آواز سنائی دی ۔ تینوں آدمی بے پرواہ ہوکے کھڑے رہے۔ اچانک اوپر سے ایک آدمی ان تینوں میں سے ایک آدمی کے کندھوں پر گرا۔

جاری ھے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں